حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی

یادیں

(چھیالیسویں قسط)

وفاقی شرعی عدالت کی رکنیت
میں نے ایل ایل بی ضرور کیا تھا، اور ممتاز پوزیشن کے ساتھ کیا تھا، لیکن کبھی وکالت کرنے کا خیال بھی نہیں آیا تھا جس کی تفصیل میں پہلے لکھ چکا ہوں۔ چنانچہ اس سے پہلے کسی عدالت میں جانے کا موقع صرف ایک مرتبہ آیا تھا،جب مجھے ایک مسئلے میں مشیر عدالت کے طورپر کراچی کے ہائی کورٹ میں طلب کیا گیا، لیکن عدالت سے خطاب کرنے کی نوبت اس موقع پر بھی نہیں آئی، کیونکہ مقدمہ ملتوی ہو گیا تھا۔ وفاقی شرعی عدالت (فیڈرل شریعت کورٹ)میں اپنے تقرر کو میں نے اس لئے قبول کیا تھا کہ اُس کا اصل کام قوانین کا قرآن وسنت کی روشنی میں جائزہ لیکر غیر شرعی قوانین کو ختم کرنا تھا، کیونکہ دستور کی نئی ترمیم کے بعد پاکستان کے ہر شہری کو یہ حق حاصل ہوگیا تھا کہ وہ مروجہ قوانین میں سے جس قانون کو قرآن وسنت کے خلاف سمجھے، وہ اس عدالت سے رجوع کرکے اپنے دلائل پیش کرے، عدالت اس پر حکومت کو نوٹس جاری کرتی تھی کہ وہ عدالت کے سامنے اپنا موقف پیش کرے، اس کے بعد اگر عدالت یہ قرار دیدے کہ متعلقہ قانون واقعی قرآن وسنت کے خلاف ہے تو وہ ایک تاریخ مقرر کرکے اس قانون کو بے اثر (ختم) کرسکتی ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کا سب سے اہم کام یہی ہے۔ البتہ حدود آرڈی ننس کے تحت فوجداری مقدمات میں نیچے کی عدالتوں نے جو فیصلے دئیے ہوں، ان کے خلاف اپیل سننا بھی اس کے فرائض میں شامل تھا۔
اُس وقت فیڈرل شریعت کورٹ سات ارکان پر مشتمل تھا۔ اس کے چیئر مین جسٹس آفتاب حسین صاحب تھے، اور جسٹس ظہورالحق صاحب، جسٹس چودھری محمد صدیق صاحب اور جسٹس کریم اللہ درانی صاحب ہائی کورٹوں سے لئے گئے تھے۔ اور تین ارکان علماء میں سے تھے جن کے نام اوپر ذکر کئے گئے۔اُس وقت فیڈرل شریعت کورٹ کے ججوں کو ارکان اور سربراہ کو چیئر مین کہا جاتا تھا۔بعد میں ارکان کو جج اور سربراہ کو چیف جسٹس قرار دیا گیا۔
مجھے اپنے اس منصب کو قبول کرنے میں جو تردد تھا، وہ اپنے ذاتی اعذار کی بنا پر تھا، لیکن میں اصولی طورپر فیڈرل شریعت کورٹ کے قیام کو اپنی بعض کمزوریوں کے باوجود اسلامی قوانین کی طرف ایک اچھی پیش رفت سمجھتا تھا، جو حضرات مروجہ قوانین کی پوری صورت حال سے واقف نہیں تھے، اُنہیں میرے اس منصب کو قبول کرنے پر اعتراض بھی ہوا، اور ان میں سے بعض حضرات نے اُس کا علانیہ اظہار بھی کیا، بلکہ بعض حضرات نے جو اس دنیا سے جا چکے ہیں، یہ طعنہ بھی دیا کہ منصب کے حصول اور اچھی تنخواہ کی بناپر میں نے یہ اصولی غلطی کی ہے۔
ان کے اعتراض کی بنیادی طورپر تین وجوہ تھیں۔ ایک یہ کہ کورٹ کی ہیئت ترکیبی میں علماء کی تعداد دوسرے عام ججوں سے کم تھی، اور کسی وقت علماء اور دوسرے ججوں کے درمیان اختلاف پیدا ہو، تو دوسرے ججوں کا فیصلہ غالب رہے گا۔اور یہ واقعۃً ایک حقیقت تھی، لیکن اگرچہ اُس وقت علماء جج تین تھے، اور ہائی کورٹوں سے لئے ہوئے جج صاحبان کی تعداد چار تھی، اس کے باوجود میں یہ سمجھتا تھا کہ اس انتظام کے باوجود چار ججوں میں سے کسی ایک جج کی موافقت حاصل کرنا اتنا مشکل نہیں ہوگا، اور اس طرح اس کورٹ کے ذریعے غیر اسلامی قوانین کو تبدیل کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ پیدا ہوگیا ہے۔ چنانچہ بعد میں عملاً میرا یہ اندازہ درست ثابت ہوا۔
دوسرا اعتراض یہ تھا کہ فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلوں کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی جاسکتی تھی، اور حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کا ہونا تھا۔ لوگوں کا تأثر یہ تھا کہ سپریم کورٹ عام سیکولر قوانین کو مد نظر رکھتے ہوئے فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلوں کو تبدیل کرسکتی ہے، لیکن یہ غلط فہمی تھی۔ اس لئے کہ فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلوں کے خلاف اپیل کے لئے سپریم کورٹ میں ایک مخصوص بنچ ”شریعت اپیلیٹ بنچ ” کے نام سے بنائی گئی تھی، وہ فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلوں کو عام سیکولر قوانین کے تحت تبدیل نہیں کرسکتی تھی، بلکہ وہ بھی اس بات کی پابند تھی کہ وہ قرآن وسنت کی روشنی میں اپیل سُنے، اور اگر اس نتیجے پر پہنچے کہ فیڈرل شریعت کورٹ نے قرآن وسنت کی غلط تشریح کی ہے، تو صرف اُسی وقت اُس کا فیصلہ تبدیل کرسکتی تھی،اگرچہ اُس وقت اُس بنچ میں علماء نہیں تھے، لیکن صدرمرحوم نے یہ وعدہ کرلیا تھا کہ اُس میں بھی علماء جج مقرر کئے جائینگے۔
فیڈرل شریعت کورٹ پر دینی حلقوں کی طرف سے تیسرا اعتراض یہ تھا کہ اس کے دائرئہ اختیار سے چار قسم کے قوانین کو مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔ ایک دستور، دوسرے ضابطۂ عدالت سے متعلق قوانین، تیسرے مسلم پرسنل لائ، اور چو تھے ایک عرصے تک مالیاتی قوانین۔ جن حضرات کو مروجہ قوانین اور عدالتی طریق کار کے بارے میں کافی معلومات نہیں تھیں، وہ یہ سمجھتے تھے کہ ان چار مستثنیات کے بعد کوئی قابل ذکر قانون ایسا باقی نہیں رہا جسے یہ عدالت تبدیل کرسکے۔ خاص طورپر مسلم پرسنل لاء کے استثناء سے عام تأثر یہ تھا کہ مروجہ عائلی قوانین کو بھی تبدیل نہیں کیا جاسکے گا۔ اس میں شک نہیں کہ یہ مستثنیات اس وقت فیڈرل شریعت کورٹ کی ایک کمزوری تھی، لیکن اول تو میں یہ سمجھتا تھا کہ ان مستثنیات کے باوجود بہت سے غیر اسلامی قوانین ایسے ہیں جن کو فیڈرل شریعت کورٹ تبدیل کرسکتا ہے، اور اس لحاظ سے پہلی بار یہ اچھا موقع حاصل ہوا ہے، جو ایک اچھا قدم ہے، اور اس سے بہت فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ دو سرے یہ مستثنیات میری نظر میں عارضی نوعیت کے تھے، اور اگر کورٹ سے صحیح کام لیا جاسکے، تو رفتہ رفتہ یہ مستثنیات ختم کئے جا سکتے ہیں۔اس کے علاوہ مجھے یہ بات معلوم تھی کہ دستور کی روشنی میں اعلیٰ عدالتیں اپنے دائرئہ اختیار کا تعین بھی خود کرسکتی ہیں، اور ان میں سے بعض ایسے مستثنیات تھے کہ خود عدالت ان کی تشریح کرکے اپنے دائرئہ اختیار کا معقولیت کے ساتھ تعین کرسکتی ہے، مثلاً میں یہ سمجھتا تھا کہ ”مسلم پرسنل لاء ” کے استثناء کا مطلب لازمی طور پر عائلی قوانین کا استثناء نہیں ہے، اور کسی وقت اس موضوع کو زیر بحث لایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح مالیاتی قوانین اول تو ایک متعین مدت تک مستثنیٰ ہیں، اس کے بعد وہ خود عدالت کے دائرئہ اختیار میں آجائیں گے، نیز اس بات کا تعین بھی عدالت کرسکے گی کہ مالیاتی قوانین میں کون سے قوانین داخل ہیں۔ اور جیسا کہ میں ان شاء اللہ آگے ذکر کروںگا، میرا یہ خیال عملاً بڑی حد تک درست ثابت ہوا۔ لہٰذا میرے نزدیک اس عدالت کو بیکار سمجھنا بڑی زبر دست غلط فہمی تھی جس نے یہ زبر دست نقصان پہنچایا کہ دینی حلقوں نے اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی،اور ان کی عدم دلچسپی کی وجہ سے اس کے فوائد بہت محدود ہوگئے، یہاں تک کہ اب وہ ایک معطل سا ادارہ بن کر رہ گیا ہے جس کی تفصیل میں ان شاء اللہ آگے عرض کروںگا۔
بہر صورت! مجھے ہرگز یہ غلط فہمی نہیں تھی کہ یہ عدالت بیکار ہے، اس لئے میں نے اپنے شخصی اعذار کے باوجود اپنے بزرگوں کے ارشاد پر قبول کرلیا تھا۔
چونکہ دارالعلوم سے چھٹیوں کا زمانہ تھا، اس لئے میں دو ڈھائی مہینے کا ارادہ لیکر اہل وعیال سمیت اسلام آباد منتقل ہوگیا، اور اُس وقت قیام گورنمنٹ ہاسٹل کے ایک دو کمروں والے سویٹ میں ہوا۔ اُس وقت فیڈرل شریعت کورٹ عارضی طورپر ایک بنگلے میں قائم کی گئی تھی۔ جب عدالتی کام شروع ہوا، تو کچھ ا پیلیں حدود آرڈی ننس کے تحت زیر سماعت آئیں۔ان مقدمات کی فائلیں پہلے ہی ججوں کو بھیج دی گئی تھیں۔ میں نے رات گئے تک ان کا دقت نظر سے جائزہ لیا۔ طریقہ یہ ہوتا ہے کہ جب کسی مقدمے کی سماعت مکمل ہوجاتی ہے، تو بنچ کا سربراہ مختلف مقدمات کے فیصلے لکھنے کے لئے اُن کی فائلیں مختلف ججوں کے پاس بھیج دیتا ہے۔ پہلے ہی دن کی اپیلوں کی سماعت کے بعدجسٹس آفتاب حسین صاحب نے ایک مقدمے کا فیصلہ لکھنے کے لئے میرے پاس بھیج دیا، اور پہلے ہی دن میں نے ایک مقدمے کا فیصلہ اردو میں لکھا، اور شاید یہ اعلیٰ عدلیہ کی تاریخ میں پہلا فیصلہ تھا جو اردو میں لکھا گیا۔ بعد میں دوسرے جج صاحبان مثلاً جسٹس کریم اللہ درانی، جسٹس ظہورالحق اور جسٹس آفتاب حسین صاحبان نے بھی بہت سے فیصلے اردو میں لکھے۔
مجھے عدالت میں کام کرتے ہوئے شاید دوسرا یا تیسرا دن تھا جس میں ایک مقدمہ ایسا آیا جس میں ایک شوہر نے اپنی بیوی پر زنا کاری کا الزام عائد کیا تھا، اور نیچے کی عدالت نے بیوی کو بدکاری کے جرم میں تعزیری سزا دی تھی۔ جب اس کی اپیل کی سماعت ہوئی، تو جج صاحبان نچلی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھنے کے حق میں تھے۔ میں نے اُن سے کہا کہ جب شوہر بیوی پر زنا کا الزام عائد کرے، تو بیوی کو شرعاً یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ لعان کا مطالبہ کرے۔ اس لئے ہمیں بیوی کو یہ حق دینا چاہئے۔ اس پر جسٹس آفتاب صاحب نے کہا کہ یہ تو فیملی کورٹ کا کام ہے، فوجداری عدالت یہ کام نہیں کرسکتی۔ میں چونکہ حدود آرڈی ننس کے مرتب کرنے میں براہ راست شریک تھا، اس لئے میں نے کہا کہ خود حدود آرڈی ننس میں لعان کا طریق کار موجود ہے، لیکن دوسرے جج صاحبان کو یہ علم نہیں تھا، اور اس سے پہلے کسی فوجداری عدالت میں لعان کی کوئی کارروائی نہیں ہوئی تھی، ان حضرات کے نزدیک فوجداری عدالت کے لحاظ سے یہ بات بالکل اجنبی تھی، اس لئے انہوں نے اس بات کو اہمیت نہیں دی، اورکثرت رائے سے اپیل مسترد کردی،۔ اس مقدمے کا فیصلہ جسٹس آفتاب صاحب مرحوم نے لکھا، جو اُس وقت بنچ کے سربراہ تھے۔ میرے پاس ان کا فیصلہ دستخط کے لئے آیا، تو میں نے اس پر اختلافی نوٹ لکھا جس میں قذف آرڈی ننس کی متعلقہ دفعات کا حوالہ دیکر یہ لکھا کہ اس مقدمے میں عورت کو لعان کی پیشکش ہونی چاہئے تھی، اور اگر وہ مطالبہ کرتی، تو عدالت کو اُس کے اور شوہر کے درمیان لعان کی کارروائی کرنی چاہئے تھی۔ جب میرا یہ نوٹ جسٹس آفتاب صاحب کے پاس پہنچا، تو اگلے دن انہوں نے مجھ سے شکوے کے سے انداز میں کہا کہ اتنی سی بات پر آپ کو اختلافی نوٹ لکھنے کی ضرورت نہیں تھی، ابھی اُن سے یہ بات ہوہی رہی تھی کہ جسٹس کریم اللہ درانی مرحوم کمرے میں داخل ہوئے، اور انہوں نے آفتاب صاحب سے کہا کہ واقعی ان علماء حضرات کی عدالت میں شمولیت کا فائدہ آج معلوم ہوا، واقعی مولانا جو بات کہہ رہے ہیں، وہ بالکل درست ہے، پھرانہوں نے قذف آرڈی ننس کی متعلقہ دفعات آفتاب صاحب کو دکھاکر کہا کہ ان دفعات میں لعان کی کارروائی صاف صاف الفاظ میں موجودہے، اور ہم فوجداری عدالت کی حیثیت میں بھی یہ کارروائی کرسکتے ہیں۔ چنانچہ اُس کے بعد عدالت نے میری گذارش کے مطابق کئی مقدمات میں یہ کارروائی کی۔
جیسا کہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں، میری اصل دلچسپی فوجداری مقدمات سے نہیں، بلکہ اُن درخواستوں سے تھی جن میں رائج الوقت قوانین میں سے کسی کو قرآن وسنت کے خلاف ہونے کی بنا پر چیلنج کیا گیا ہو۔ عدالت کے قواعد میں یہ بات درج تھی کہ ایسی درخواست دائر کرنے کے لئے نہ کسی وکیل کی ضرورت ہے، نہ کوئی فیس دینے کی ضرورت ہے، نہ کوئی اسٹامپ پیپر درکار ہے، کوئی بھی شہری سادہ کاغذ پر بھی ایسی درخواست دے سکتا ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ مذکورہ بالا غلط فہمیوں کی بنا پر، نیز اس کام کی اہمیت نہ سمجھنے کی وجہ سے، دینی حلقوں کی طرف سے ایسی کوئی درخواست نہیں آئی۔ میں نے متعدد جلسوں میں لوگوں، بالخصوص علماء کرام کو متوجہ کیا کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں، میں نے عرض کیا کہ مستثنیات کے علاوہ بھی سینکڑوں قوانین عدالت کے دائرئہ اختیار میں ہیں ۔ میرا یہ بیان اخبارات میں بھی شہ سُرخیوں کے ساتھ شائع ہوا، لیکن دینی حلقوں کو توجہ نہیں ہوئی۔ البتہ جن لوگوں کو اپنی کسی ذاتی ضرورت کے تحت کوئی قانون برا لگتا تھا، تو ایسے لوگ درخواستیں لے آتے تھے۔
جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں، یہ زمانہ دارالعلوم کی چھٹیوں کا تھا، اس لئے میں دو ڈھائی مہینے کے ارادے سے آیا تھا، اور خیال تھا کہ صدر ضیاء الحق صاحب سے در خواست کرکے اپنی جگہ کسی اور کا تقررکراؤں گا، اور اس کے بعد کراچی واپس آجاؤں گا، چنانچہ شعبان کا مہینہ میں نے وہیں گذارا۔ مجھے عدالت کی طرف سے پرائیویٹ سیکریٹری کے علاوہ ایک ٹویوٹا گاڑی، ایک ڈرائیور اور ایک باورچی ملا ہوا تھا، تنخواہ بھی اُس وقت کے لحاظ سے اچھی تھی۔ لیکن میرا دل وہاں نہیں لگتا تھا۔میرے دو بچے چھوٹے تھے، اور ہم سب بھرے پُرے گھرانے میں رہنے کے عادی تھے، اورکراچی کی چہل پہل سے مانوس۔ اس کے مقابلے میں اسلام آباد کے خاموش ماحول سے طبیعت مانوس نہیں ہوئی تھی۔ بچوں کو خوش رکھنے کے لئے میں انہیں شام کے وقت اسلام آباد کے تفریحی مقامات شکرپڑیاں، دامن کوہ اور راول ڈیم وغیرہ لے جاتا، اور چھٹی کے دن کبھی مری اور کبھی نتھیا گلی، لیکن کب تک؟ دوسری طرف مجھے شدت سے انتظار تھا کہ میں صدر ضیاء الحق صاحب سے مل کر اُن سے اپنا ارادہ بیان کروں۔ اسی دوران رمضان کا مبارک مہینہ آگیا، اور یہ پہلا موقع تھا کہ مجھے رمضان کراچی سے باہر گذارنا تھا۔
کراچی میں رمضان المبارک کا ایک خاص لطف ہے کہ شہر پر رمضان کی ایک خاص فضا چھائی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔اس کے مقابلے میں اسلام آباد میں رمضان پھیکا پھیکا سا لگتا تھا۔ گورنمنٹ ہاسٹل کی مسجد میں تراویح ہوتی تھی، مگر ایک ایسی قراء ت میں جو اس سے پہلے کبھی نہیں سُنی تھی۔چنانچہ میں تراویح پڑھنے کے لئے اسلام آباد کی مرکزی جامع مسجد(لال مسجد) جاتا جہاں حضرت مولانا عبداللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ تراویح پڑھایا کرتے تھے۔اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائیں کہ انہوں نے حق محبت ادا کرنے میں کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
آخر کار رمضان ہی میں میری صدر ضیاء الحق صاحب مرحوم سے ملاقات ہوگئی، اور میں نے اُن سے کہا کہ میں دارالعلوم نہیں چھوڑسکتا، اس لئے اسلام آباد کی مستقل رہائش اختیار کرنے سے بھی معذور ہوں۔ آپ میری جگہ جناب مولانا عبد القدوس قاسمی صاحب کا تقرر فرمادیں۔ مولانا دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل بڑے ذی استعداد بزرگ تھے، اُس وقت پشاور یونی ورسٹی کے شعبۂ عربی کے سربراہ تھے، اور انگریزی سے بھی واقف تھے۔صدر صاحب مرحوم نے میری بات سُنی، تو فرمایا کہ میراارادہ یہ ہے کہ آپ کو فیڈرل شریعت کورٹ سے سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ میں بھیج دوں، کیونکہ وہاں بھی دو علماء کا تقرر کرنا ہے۔ وہاں جانے سے آپ کا یہ مقصد آسانی سے حاصل ہو جائے گا کہ آپ دارالعلوم نہ چھوڑیں، کیونکہ سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ کا اجلاس روزانہ کی بنیادپر نہیں ہوتا، بلکہ مہینے دو مہینے میں ہفتہ دو ہفتے کے لئے اُس کا اجلاس ہوگا، باقی دن آپ دارالعلوم میں اپنے کام جاری رکھ سکیں گے، اورآپ کو اسلام آباد کی مستقل رہائش اختیار کرنی نہیں پڑیگی۔اسی طرح پیر محمد کرم شاہ صاحب کے بارے میں بھی میرا یہی ارادہ ہے۔پھر آپ کی جگہ میں آپ کے تجویز کردہ حضرات کا فیڈرل شریعت کورٹ میں تقرر کردیا جائے گا۔ مجھے اس تجویز پر عمل کرنے میں کوئی تأمل نہیں تھا، چنانچہ میں نے اس پر آمادگی ظاہر کردی۔ البتہ یہ عرض کیا کہ یہ کام شوال کے وسط تک ہوجائے تو اچھا ہے، تاکہ میں دارالعلوم میں اپنے کام شروع کرسکوں۔صدر صاحب نے فرمایا کہ ان شاء اللہ اس کی کوشش کرلی جائے گی۔ اس طرح میں بڑی حد تک مطمئن ہوگیا۔ لیکن رمضان بھی گذرگیا، اور عید میں نے لاہور جاکر کی۔شوال کا وسط بھی آگیا، لیکن سپریم کورٹ والی بات کا انتظار ہی رہا۔ میں صدرصاحب سے دوبارہ ملا۔ انہوں نے فرمایا کہ اس کام میں بوجوہ کچھ دیر لگ رہی ہے، اس لئے آپ اگر چاہیں تو کورٹ سے ایک ڈیڑھ مہینے کی چھٹی لے لیں، اور کراچی چلے جائیں۔چنانچہ میں عدالت سے ایک مہینے کی بلا تنخواہ چھٹی لے کر کراچی آگیا۔لیکن سپریم کورٹ کی بنچ بننے کا معاملہ ٹلتا رہا، اور میں ایک ماہ کی رخصت پوری ہونے پر دوبارہ کچھ عرصے کے لئے اسلام آباد چلا گیا، اور کچھ عرصے کے بعد پھر بلا تنخواہ چھٹی لے کر کراچی آگیا، اور اچھی طرح یاد نہیں کہ میرا کراچی آنے جانے کا یہ سلسلہ کتنی بار ہوا۔اسی آمدورفت کا نتیجہ یہ ہوا کہ فیڈرل شریعت کورٹ میں رہتے ہوئے میں کچھ زیادہ کام نہ کرسکا، یہاں تک کہ آخر کار سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ میں میرا تقرر ہوگیا۔اس عرصے میں میرے لکھے ہوئے فیصلوں میں سے بہت کم ایسے تھے جنہیں میں نے پی ایل ڈی میں شائع کرنا منظور کیا ہو۔ ان میں سے دو تین فیصلے فوجداری نوعیت کے تھے، اور ایک مفصل فیصلہ ”رجم” کی سزا کے بارے میں تھا۔
رجم کے قانون کو ختم کرنے کے لئے فیڈرل شریعت کورٹ نے جو فیصلہ دیا تھا، اُس کے خلاف حکومت نے ایک نظر ثانی کی درخواست ہمارے کورٹ میں آنے سے پہلے سے ہی دائر کر رکھی تھی۔ اس درخواست کی سماعت شروع ہوئی، تو جانبین سے دلائل دینے کے لئے بہت سے علمائ، وکلاء اور دانش وروں کو دعوت دی گئی۔کئی ہفتے سماعت جاری رہی، اور آخر کار نظرثانی کی یہ درخواست منظور ہوئی، اس کے بارے میں میں نے ایک مفصل فیصلہ لکھا جو پی ایل ڈی میں شائع ہوا۔البتہ جسٹس آفتاب حسین صاحب اپنے پہلے موقف پر قائم رہے کہ رجم حد نہیں، بلکہ تعزیری سزا ہے، لیکن چونکہ ان کی انفرادی رائے کی بنا پر رجم کی سزا کو قرآن وسنت کے خلاف قرار نہیں دیا جاسکتا تھا، اس لئے فیڈرل شریعت کورٹ کا پہلا فیصلہ باتفاق رائے واپس لے لیا گیا، اور رجم کا قانون برقرار رہا۔
میرے لئے عدالت کا یہ ماحول ایک نیا تجربہ تھا۔جناب جسٹس پیر کرم شاہ صاحب اور جناب جسٹس ملک غلام علی صاحب (رحمۃ اللہ علیہما) علماء کے کوٹے میں میرے ساتھ ہی کورٹ کے جج بنے تھے، اور شرعی معاملات میں اُن سے مسلسل مشاورت کا سلسلہ رہتا تھا۔حضرت جسٹس پیر کرم شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ بریلوی مسلک سے تعلق رکھتے تھے، لیکن بڑے فاضل،معتدل اور متوازن بزرگ تھے، ان کی تحریر وتقریر بڑی شگفتہ اور فصیح وبلیغ ہوتی تھی۔ تفسیر ضیاء القرآن ان کے فکری اعتدال کی شاہد ہے۔وہ مجھ پر بہت شفقت فرماتے تھے، اور ملکی مسائل میں پوری ہم آہنگی کے ساتھ ان کا بیش قیمت تعاون میرے لئے بڑی تقویت کا باعث تھا۔بعدمیں سپریم کورٹ میں بھی سالہا سال میں نے ان کے ساتھ گذارے،اور ان کی رفاقت کا شرف حاصل رہا، کبھی کسی ادنیٰ ناگواری کا کوئی شائبہ بھی پیدا نہیں ہوا۔
دوسرے بزرگ جناب جسٹس ملک غلام علی صاحب ؒ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب ؒ کے معاون خصوصی رہ چکے تھے، اور ان کی کتاب ”خلافت وملوکیت” کے بارے میں میرا اور ان کا قلمی مباحثہ معروف تھا جس کا ذکر میں پہلے کرچکا ہوں۔ مجھے عدالت میں آنے سے پہلے کبھی ان سے شخصی طورپر نیاز حاصل نہیں ہوا تھا،اور پہلی بار اُن سے ملاقات عدالت میں حلف برداری کے وقت ہی ہوئی، لیکن عدالت میں ساتھ کام کرتے ہوے باہمی تعلق، خیر خواہی اور مشاورت پر الحمد للہ اُس مباحثے کا کوئی اثر نہیں پڑا، بلکہ کبھی اُن سے اُس مباحثے کا ذکر تک نہیں آیا۔غرض بحیثیت مجموعی اُن کے ساتھ بھی اچھی رفاقت رہی۔ اعلیٰ عدالتوں میں روایت یہ ہے کہ جب ایک سے زائد ججوں نے ایک ساتھ حلف اٹھایا ہو، تو ان کے درمیان قدامت (سنیارٹی) کا تعین ان کی عمر کے حساب سے کیا جاتا ہے۔چونکہ ہم تینوں میں جناب جسٹس ملک غلام علی صاحب عمر میں سب سے زیادہ تھے، اس لئے ہم تینوں میں وہ سب سے سینئر قرار پائے، ان کے بعد حضرت پیر محمد کرم شاہ صاحب دوسرے نمبر پر تھے، اورمیری عمر چونکہ سب سے کم تھی، اس لئے میں سب سے جونیئر قرار پایا۔ جناب جسٹس آفتاب صاحب جناب ملک صاحب ؒ کے ساتھ ہم آہنگی کا ثبوت اکثر انہیں اپنے ساتھ بنچ میں شامل کرکے دیا کرتے تھے۔
جو جج صاحبان ہائی کورٹ سے آئے ہوئے تھے، اُن سے بھی رفتہ رفتہ اُنس پیدا ہوگیا تھا، خاص طورپر جسٹس کریم اللہ درانی، جسٹس ظہورالحق صاحب اور جسٹس چودھری صدیق صاحب (رحمہم اللہ تعالیٰ) سے بے تکلفی بھی رہی، اور اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائیں، انہوں نے ہمیشہ بڑی محبت اور احترام کا معاملہ فرمایا، اور اکثر شرعی مسائل میں انہوں نے ہمارے ساتھ موافقت ہی کی۔ جسٹس کریم اللہ درانی صاحب مرحوم تو بہت جلد اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے۔ جسٹس ظہورالحق صاحب ماشاء اللہ بڑے سلیم الفکر آدمی تھے، اور دینی ماحول میں پروان چڑھے تھے، ان کی ہر طرح کی معاونت ہمیں حاصل رہی۔چودھری صدیق صاحب صائم الدہر آدمی تھے۔ مسلسل روزے سے رہتے تھے، اور چائے کے وقفے میں وہ کاغذ پر کچھ لکھنے میں مصروف رہتے تھے۔ میں نے ایک مرتبہ پوچھا کہ وہ کیا لکھتے ہیں، تو انہوں نے بتایا کہ وہ ایک پیر صاحب کے مرید ہیں، جنہوں نے ان کو ہدایت دی ہوئی ہے کہ روزانہ ایک مخصوص تعداد میں درود شریف لکھا کریں، چنانچہ وہ چائے کے وقفے میں وہی لکھتے رہتے تھے۔اب مجھے معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہیں؟
کورٹ کے چیف جسٹس جناب آفتاب حسین صاحب تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں، وہ بھی بڑی خوبیوں کے حامل تھے، نماز روزے کے پابند تھے، اور ہمیشہ با وضو رہتے تھے۔ عربی نہ جاننے کے باوجود کورٹ کے نہایت قابل ریسرچ آفیسرمولانا انواراللہ صاحب (حفظہ اللہ تعالیٰ) کی مدد سے تفسیر، حدیث اورفقہ کی کتابوں کا محنت سے مطالعہ کرتے رہتے تھے۔وہ اسلام آباد میں تنہا رہتے تھے، اور دن رات مطالعے اور کورٹ کے کام میں منہمک۔ ہمارے عدالت میں آنے سے پہلے فیڈرل شریعت کورٹ کے وہ فیصلے جو کسی قانون کے شریعت کے مطابق یا مخالف ہونے سے متعلق تھے، زیادہ تر انہی کے لکھے ہوئے تھے، کیونکہ کوئی دوسرا ان کی طرح کا مطالعہ نہیں کرسکتا تھا۔ لیکن علماء سے ان کو نہ صرف یہ کہ مناسبت نہیں تھی، بلکہ ان سے بکثرت بد گمان ہی رہتے تھے۔چنانچہ اپنے مذکورہ بالا مطالعے کی بنیادپروہ اپنی ”مجتہدانہ” رائے قائم فرماتے رہتے تھے۔ نیز اُنکا ذہن کچھ یہ تھا کہ موجودہ انگریزی قوانین میں کوئی خاص خرابی نہیں ہے، اس لئے جب کوئی ایسی درخواست آتی جس میں کسی رائج الوقت قانون کو قرآن وسنت کے خلاف ہونے کی بنا پر چیلنج کیا گیا ہوتا، تو اُن کا میلان اُس درخواست کو رد کرنے کی طرف رہتا تھا۔ ایک مرتبہ قانون شرکت سے متعلق ایک درخواست آئی، تو انہوں نے سرسری سماعت ہی میں اُسے یہ کہکر رد کردیا کہ یہ اُن ”مالیاتی قوانین ” سے متعلق ہے جو فیڈرل شریعت کورٹ کے دائرئہ اختیار میں نہیں ہیں۔مجھے اور جسٹس ظہورالحق صاحب کو ان کی اس بات سے شدید اختلاف تھا کہ یہ قانون فیڈرل شریعت کورٹ کے دائرئہ اختیار میں نہیں ہے، لیکن جسٹس آفتاب صاحب مرحوم نے اُس در خواست کو خارج کرنے کے لئے بنچ کے دوسرے ارکان کی طرف دیکھا، تو میں نے اور جسٹس ظہورالحق صاحب نے اختلاف کیا، لیکن چونکہ اور کسی نے اعتراض نہیں کیا، اس لئے انہوں نے یہ درخواست خارج کردی۔ مجھے چونکہ اس فیصلے سے اختلاف تھا، اس لئے جب جسٹس آفتاب صاحب کا فیصلہ میرے پاس دستخط کے لئے آیا، تو میں نے اپنا فیصلہ الگ لکھنے کاارادہ کیا۔ دستور میں جن مالیاتی قوانین کو استثناء دیا گیا تھا، اُس کا مطلب میرے نزدیک یہ نہیں تھا کہ جس کسی قانون میں مال کا کوئی ذکر ہو، وہ استثناء میں داخل ہے، بلکہ اس کے لئے انگریزی میں Fiscal Law کی اصطلاح استعمال ہوئی تھی، اور اُس کا مقصد دراصل بینکوں کو اور ٹیکسوں کے نظام کو تین سال تک تحفظ دینا تھا، تاکہ اس دوران غیر سودی بنکاری کا نظام جاری کیا جاسکے۔ لہٰذا مجھے اپنا فیصلہ لکھنے کے لئے اس اصطلاح کی تشریح کرنی تھی، جو انگریزی میں بہتر طورپر کی جاسکتی تھی۔اس لئے میں نے پہلی بار وہ فیصلہ انگریزی میں لکھا، اور جسٹس ظہورالحق صاحب کو بھی دکھایا، انہوں نے بھی اپنے فیصلے میں مجھ سے بحیثیت مجموعی اتفاق کیا۔ ہم تینوں کے یہ فیصلے پی ایل ڈی میں شائع ہوئے ہیں۔

جاری ہے ….

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

(ماہنامہ البلاغ :صفر المظفر ۱۴۴۳ھ)