حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی

یادیں

(آٹھاون ویں قسط)

اسلامک ڈیویلمپنٹ بنک (البنک الاسلامی للتنمیۃ) کے شریعہ بورڈ کی رکنیت

یہ بینک در حقیقت منظمۃ التعاون الاسلامی (او آئی سی)کا قائم کردہ بینک ہے، اور تمام اسلامی ممالک اس کے ممبر ہیں، اور یہ بینک اپنے ممبر ملکوں کو ان کے اقتصادی منصوبوں اور انفرااسٹرکچرمیں تعاون کرنے کے لئے انہیں بھاری رقمیں دیتا ہے۔ اس کے قیام کے وقت سے اس کے قواعد میں یہ بات طے تھی کہ اس کاتمام کاروبار اسلامی طریقوں پر چلے گا۔ چنانچہ وہ رکن ممالک کی تمویل کے لئے قرض اور سود کے بجائے اسلامی طریقہ ہائے تمویل، مثلاً شرکت، مضاربت یا مرابحہ اور اجارہ یااستصناع ہی کے ذریعے انہیں رقم فراہم کرتا ہے۔ شروع میں اس ادارے نے مجمع الفقہ الاسلامی سے کچھ بنیادی ہدایات لے لی تھیں، انہی کی بنیاد پر اپنا کام چلا رہا تھا۔لیکن اس کا کوئی مستقل شریعہ بورڈ نہیں تھا جو تمام معاملات کی نگرانی کرے۔لیکن چونکہ یہ پورے عالم اسلام کابینک تھا، اور اس کا دائرہ کار دوسرے انفراد ی بینکوں کے مقابلے میں زیادہ وسیع تھا، اس لئے شریعہ بورڈ کے بغیر اس کا ٹھیک ٹھیک چلنا بہت مشکل تھا، اس لئے اس کا ایک شریعہ بورڈ بنادیا گیا جس کے پہلے صدر تیونس کے مفتی اوربڑے پختہ مالکی عالم شیخ محمد مختار السلامیؒ کو بنایا گیا اور دوسرے اعضاء میں شیخ عبدالستار ابوغدہؒ اور شیخ حسین حامد حسانؒ وغیرہ شامل تھے۔اس وقت میں اس کارکن نہیں تھا۔البتہ اس کا ایک ذیلی ادارہ مؤسسۃ التنمیۃ للقطاع الخاص جو مسلم ملکوں کے پرائیویٹ اداروں کو تمویل فراہم کرتا ہے، اس کا مجھے صدر بنادیا گیا تھا۔کئی سال میں نے اس میں کام کیا۔بعد میں ان دونوں کا ایک مشترک شریعہ بورڈ بنادیا گیا۔اس وقت شیخ مختار السلامی ؒ اپنی عمر اور ضعیفی کی وجہ سے معذور ہوچکے تھے، اس لئے شیخ حسین حامدحسانؒ کو مشترک بورڈکا صدر بنایا گیا اور ممبران میں توسیع کرتے ہوئے مجھے اور مراکش کے مشہور عالم شیخ محمد الروکی، سوڈان کے شیخ بشیر ،شام کے شیخ اُسید کیلانی، مجمع الفقہ الاسلامی کے موجودہ سیکریٹری جنرل ڈاکٹر قطب سانواور انڈونیشیا کے نوجوان نومسلم عالم ڈاکٹر انتونیو شافعی کو بھی ارکان میں شامل کرلیاگیا۔ سعودی عرب کے شیخ عبدللہ بن منیع اور شام کے ڈاکٹر عبدالستار ابو غدہ ؒ پہلے ہی سے ان کے رکن تھے۔ اسی دوران شیخ حسین حامد حسان رحمہ اللہ تعالیٰ کی وفات ہوگئی، اس لئے دوسرے تمام اعضاء نے متفقہ طورپر مجھے اس کا صدر منتخب کرلیا۔
یہ بینک دوسرے تجارتی بینکوں سے بڑی حد تک مختلف تھا، کیونکہ یہ افراد کے بجائے مسلمان ملکوں کو ان کے منصوبوں اور انفرااسٹرکچر کے لئے سرمایہ فراہم کرتا تھا۔ اس لئے اس کے معاملات کو دیکھنے سے بین الاقوامی بینکاری اور ملکوں کے باہمی تجارتی معاملات اور ان کے ذریعے ترقیاتی منصوبوں کے بارے میں خاصی معلومات اور فی الجملہ ان کا تجربہ بھی حاصل ہوا۔ اب بھی اس کے شریعہ بورڈ کی صدارت میرے ہی پاس ہے۔اس کی وجہ سے مجھے اور میری اہلیہ کوہرسال سعودی عرب کا سال بھر کے لئے متعدد سفروں کا ویزا ملتا رہتا ہے، اور چونکہ اس کااجلاس ہر تین ماہ بعد اور کبھی دوماہ بعد ہوتا رہا، اس لئے مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہر سال کم ازکم چارمرتبہ حرمین شریفین کی حاضری میسر آتی رہی، یہاں تک کہ کورونا کی وبا نے سفروں کا سلسلہ بند کردیا۔ اس لئے دوسال سے اس کا اجلاس آن لائن زوم کے ذریعے ہوتا ہے۔

مرکزی بینکوں میں غیر سودی بنکوں کے لئے الگ شعبے
ہر ملک میں تمام کمرشل بینکوں کی نگرانی کے لئے ایک مرکزی بینک ہونا لازمی ہوتا ہے جس کا ہرملک میں الگ نام ہوتا ہے۔ مثلاً ہمارے ملک میں اسے اسٹیٹ بینک کہا جاتا ہے۔امریکہ میں اسے فیڈرل ریزرو کہاجاتا ہے، برطانیہ میں بینک آف انگلینڈ وغیرہ ۔یہ بینک ایک تو حکومت کے لئے بینکاری کی خدمات انجام دیتا ہے، دوسرے اس کا اہم کام ملک کے تمام سرکاری اور پرائیویٹ بینکوں کی نگرانی کے لئے قواعد وضوابط مقرر کرنا ہے۔ نیز وہ ملک کی مجموعی معاشی پالیسی کا بھی تعین کرتا ہے۔
غیر سودی بینکوں کا دوسرااہم مسئلہ یہ تھا کہ وہ اپنے اپنے ملکوں کے مرکزی بینکوں کے تابع ہوتے ہیں، اور مرکزی بینک اپنی پالیسیوں میں شرعی تقاضوں کو مدنظرنہیں رکھتے ، اس مسئلے کے حل کے لئے ہم نے پہلی کوشش یہ کی کہ مرکزی بینک اسلامی بینکوں کی نگرانی کے لئے اپنے یہاں الگ شعبے قائم کریں جو اپنے ضوابط میں اسلامی بینکوں کی ضروریات کو مدنظررکھیں، اس سلسلے میں ہمیں پہلی کامیابی بحرین میں ہوئی جہاں مرکزی بینک میں ایک باقاعدہ شعبہ اس غرض کے لئے قائم کیا گیا، اور اس کاایک شریعہ بورڈ بھی بنایا گیا جس کا میں کافی مدت تک صدررہا ۔ دوسری کامیابی ملائیشیا میں ہوئی جہاں کے مرکزی بینک (بینک نگارا ) نے ایک مضبوط شریعہ بورڈ قائم کیا ، اور اسلامی بینکوں کے لئے ایک الگ قانون نافذکیا جس میں اسلامی بینکوں کو خاص ضوابط کا پابند بناکر ان کی خلاف ورزی پر بھاری سزائیں بھی مقرر کی گئیں۔(اگرچہ بعض معاملات میں انہوں نے شافعی مسلک کو بنیاد بناکر کچھ ایسے معاملات کی اجازت دیدی جو مجلس شرعی کے معیارات کے خلاف ہیں) اس کے بعد ہماری سفارش پر پاکستان کے مرکزی بینک (اسٹیٹ بینک آف پاکستان) نے ایک مستقل شعبہ اسلامی بینکوں کے لئے قائم کیا ، اور اس کاایک شریعہ بورڈ بھی بنایا جس کے فیصلوں کی پابندی تمام اسلامی بینکوں پر لازم ہے ۔ سوڈان میں بھی اسی قسم کا انتظام اور زیادہ مؤثر طورپر موجود ہے ۔ابوظبی کے سنٹرل بینک نے بھی ایک مضبوط اعلیٰ شریعہ بورڈ بنایا ہے جس کے فیصلوں پر عمل تمام غیر سودی بینکوں پر لازمی ہے۔ اور اب رفتہ رفتہ دوسرے مسلمان ملکوں میں بھی یہ رجحان بڑھ رہاہے۔

مجلس الخدمات المصرفیۃ الاسلامیہ (Islamic Financial Services Board)
بینکوں میں چونکہ عوام کا پیسہ بڑی مقدار میں جمع ہوتا ہے ، اس لئے مرکزی بینک کا سب سے اہم کردار یہ ہوتا ہے کہ وہ عوام کی ان رقموں کا تحفظ کرے ۔ اس غرض کے لئے وہ بینکوں کو مختلف قسم کے ضوابط کا پابند بناتا ہے ۔انہی ضوابط کی وجہ سے عوام کی رقمیں ایک خاص نظام کے تحت کڑی نگرانی میں استعمال ہوتی ہیں۔ ان ضوابط کی پابندی ہی ہے جن کی بنا پر عوام کو یہ بھروسہ ہوتا ہے کہ ان کی رقمیں کسی قسم کی بے ضابطگی یا فراڈ سے محفوظ رہیں گی ، یہ ضوابط بڑے فنی انداز سے اور بڑی دقت نظر کے ساتھ مرتب کئے جاتے ہیں جس کے لئے اس شعبے کے ماہرین سے کام لیا حاتا ہے،ورنہ ہمارے ملک میں متعدد مضاربہ اسکینڈلوں میں عوام کی رقمیں بری طرح اسی لئے ڈوبیں کہ وہ ان ضوابط سے آزادہوکر کام کررہے تھے۔ دوسری طرف سودی بینکوں کے لئے جو ضوابط ہوتے ہیں، وہ تمام تر اسلامی بینکوں کے لئے کارآمد نہیں ہوسکتے ، کیونکہ سودی نظام اپنے تصورات کے لحاظ سے اسلامی نظام مالیات سے بہت مختلف ہے ، اس لئے ضرورت تھی کہ اسلامی بینکوں کی نگرانی کے لئے مرکزی بینک الگ معیارات مرتب کرے ، اس غرض کے لئے البنک الاسلامی للتنمیۃ (اسلامک ڈیولپمنٹ بینک) جو تمام مسلمان کا مشترک ادارہ ہے ، اور اس کے بنیادی نظام میں یہ بات درج ہے کہ وہ اسلامی بنیادوں پر ممبر ملکوں کے لئے کام کرے گا ، اس کی تجویز پر تمام اسلامی ممالک کے مرکزی بینکوں نے ایک ادارہ "مجلس الخدمات المصرفیۃ الاسلامیۃ” (اسلامک فنانسنگ سروسز بورڈ) کے نام سے ملائیشیا میں قائم کیا جس کا مخفف” ایف آئی ایس بی” ہے، اور البنک الاسلامی للتنمیۃ کا شریعہ بورڈ اس ادارے کے شریعہ بورڈ کے طورپر بھی کام کرتا ہے ،جیساکہ میں نے پہلے عرض کیا، شیخ مختار السلامیؒ اور شیخ حسین حامد حسانؒ کی وفات کے بعد اس بورڈ کی سربراہی کی ذمہ داری بھی مجھ پر آگئی ہے۔
ایف آئی ایس بی اسلامی بینکوں اور مالیاتی اداروں کے لئے گورننس اور ضابطہ بندی کے الگ معیار مرتب کررہا ہے ، تاکہ مرکزی بینک اسلامی بینکوں کی نگرانی کے لئے ان معیارات پر عمل کریں۔ ادارہ یہ معیارات تیار کرکے ہمارے سامنے پیش کرتا ہے ، پھر ہم ان کا شرعی نقطۂ نظر سے جائزہ لیکر انہیں دو خواندگیوں میں حتمی شکل دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہمارے سالانہ دو اجلاس ہوتے تھے۔ ایک مدینہ منورہ میں ، اور دوسرا کوالا لمپور میں۔کورونا کی وبا کے بعد چونکہ غیر ملکی سفر مشکل ہوگئے، اس لئے اب اس کے اجلاسات انٹرنیٹ کے ذریعے زوم پر منعقد ہوتے ہیں۔اس کی صدارت اس وقت میرے پاس ہے۔ اور سعودی عرب کے شیخ عبداللہ بن منیع، مراکش کے شیخ محمد الروکی، سوڈان کے شیخ محمد بشیر، شام کے شیخ اسید کیلانی، مالی کے ڈاکٹر قطب مصطفی سانواور انڈونیشیا کے شیخ انتونیو شافعی اس کے ارکان ہیں۔ان معیارات کا موضوع انتہائی پیچیدہ اور فنی نوعیت کا ہے۔مرکزی بینک تجارتی بینکوں کی ہمہ جہتی نگرانی کے لئے نہایت باریک بینی سے قواعد وضوابط مقرر کرتا ہے جو ایک مستقل فن کی صورت اختیار کرگیا ہے۔اس لئے ہمیں پہلے ان کی اصطلاحات ،ضوابط اور ان کی فنی تطبیق کو اچھی طرح سمجھنا پڑتا ہے، اس کے بعد یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ ان ضوابط کا غیر سودی معاملات پر کیا اثر پڑسکتا ہے، اور جہاں وہ ضوابط غیر سودی معاملات پر غلط اثر ڈال سکتے ہیں، ان میں ترمیمات کرنی پڑتی ہیں۔چونکہ یہ کام ہمارے لئے بالکل نیا تھا، اس لئے اس میں سب سے زیادہ دماغ سوزی اور متعلقہ ماہرین کے ساتھ ردو کد سے کام لینا پڑا، لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ابتک بہت سے معیارات تفصیل کے ساتھ مرتب ہوچکے ہیں ، اور مرکزی بینکوں سے سفارش کی گئی ہے کہ وہ ان پر عمل کریں ، اور متعدد مرکزی بینکوں میں اس پر عمل بھی ہورہا ہے ۔ اس طرح اس بنیادی اہمیت کے کام میں بھی میراایک حصہ لگا ہوا ہے۔

مغربی ملکوں میں مکانات کے حصول کا مسئلہ
یورپ اور امریکہ میں مسلمانوں کو دو قسم کے مالیاتی مسائل درپیش ہیں ، ان میں سے سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ اکثر مسلمانوں کے لئے کوئی گھر بغیر سودی قرض کے حاصل کر نا تقریباً ناقابل عمل ہے ، اس وجہ سے بعض علماء نے یہ فتویٰ بھی دیا ہوا ہے کہ ایک گھر کی حدتک مسلمانوں کے لئے بدرجۂ محبوری سودپر قرض لیکر مکان حاصل کرنا جائز ہے ۔ ہم اس موقف کو درست نہیں سمجھتے ، اس لئے ہم نے بعض اداروں کو آمادہ کیا ہے کہ وہ سود کی بجائے شرکت متناقصہ کی بنیادپر لوگوں کو مکان فراہم کریں ، یعنی مکان اس ادارے اور طالب مکان کی شرکت داری میں خریدا یا بنایا جائے ، پھر مالیاتی ادارے کا حصہ مکان کا طالب کرائے پر لے لے ، پھررفتہ رفتہ وہ ادارے کے حصے بھی خریدتا جائے ، اسی نسبت سے اس کی کرائے کی رقم کم ہوتی جائے ، یہاں تک کہ چند سالوں میں وہ ادارے کا پورا حصہ خریدکر اس کا مالک بن سکتا ہے ۔ اس کی فقہی حیثیت اور خاص طور پر "ًصفقۃ فی صفقۃ” کی بنیادپر اس پر جو اعتراض ہوتا ہے اس کا مفصل جائزہ میرے مستقل مقالہ "الطرق المشروعۃ للتمویل العقاری ” کے نام سے میری کتاب "بحوث فی قضایا فقہیۃ معاصرۃ”میں شائع ہوچکا ہے ۔ اس طر ح وہاں کے مسلمانوں کے لئے سود کے بجائے ایک جائز معاملے کے ذریعے مکان حاصل کرنے کا راستہ نکالنے کی کوشش کی گئی، اورکئی ادارے اس کے لئے وجود میں آئے۔لیکن ” گائیڈنس فائنانس” کے نام سے جو ادارہ امریکہ کی متعدد ریاستوں میں کام کررہا ہے، وہ ہمارے زیر نگرانی قائم ہوا ہے۔میری صدارت میں اس کے شریعہ بورڈ میں میرے بیٹے ڈاکٹر عمران اشرف سلمہ، شیخ عبدالستار ابوغدہ رحمۃ اللہ علیہ اور بحرین کے شیخ نظام یعقوبی بطوررکن کام کرتے رہے ہیں۔امریکی قوانین کے تحت اس طریقے میں کئی رکاوٹیں تھیں ، لیکن غورا ورمشورے کے بعد ان کا حل نکال لیا گیا ہے ، اس پروگرام کو حتمی شکل دینے ، اور اس کے لئے قانونی دستاویزات تیار کرنے او ر اس میں ردووبدل کرنے میں کئی سال لگے ، اور اب وہ ادارہ مفید خدمات انجام د ے رہا ہے ۔ میں اس کے اجلاسات میں بحیثیت سربراہ بورڈ امریکہ میں شریک ہوتا رہا ،بعدمیں جب میں نے بوجوہ امریکہ کاسفر موقوف کردیا ، تو اس کے اجلاسات کبھی مغرب ، کبھی کسی اور اسلامی ملک میں ہوتے ہیں، اور ابھی آخری اجلاس مراکش کے شہر الدارالبیضاء (کاسا بلانکا )میں ہوا ۔
گائیڈنس کے بعد کچھ اور ادارے بھی اس کام کے لئے امریکہ اور کینیڈا میں اس دعوے کے ساتھ قائم ہوئے کہ ان کا طریق کار شریعت کے مطابق ہے۔ان میں سے بعض نے میرا نام بھی استعمال کیا، لیکن چونکہ یہ بات واقعے کے خلاف تھی کہ میں نے ان کے طریق کار کی منظوری دی ہے، اس لئے میں نے ان سے گذارش کی کہ میرا نام اپنی اسکیم سے ہٹادیں، کیونکہ مجھے اس کا تفصیلی علم نہیں ہے،اس لئے میں ان کے بارے میں اثبات یا نفی کا کوئی حتمی فیصلہ نہیں کرسکتا۔

ڈاو جونس انڈیکس کے بارے میں کچھ خدمت
اسی طرح مغربی ملکوں کے مسلمانوں کوایک مشکل یہ درپیش تھی کہ وہ اگر اپنی بچتوں کی سرمایہ کاری کرنا چاہیں، تو ان کے لئے کوئی قابل اطمینان راستہ نہیں تھا۔عام طورسے کمپنیوں کے حصص خریدکر ان کی آمدنی حاصل کرنا ایک مروج طریقہ ہے ، بشرطیکہ کمپنیوں کا کام حلال(۱) ہو۔ لیکن مغربی ملکوں کی نفع بخش کمپنیاں کسی نہ کسی ایسے کاروبار میں ملوث ہوتی ہیں جو شرعاً جائز نہیں ہوتا ۔تاہم بعض کمپنیاں ایسی بھی ہیں جو صرف جائزکام کرتی ہیں ۔امریکہ میں کئی ادارے ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کی ایسی فہرستیں شائع کرتی ہیں جو اسٹاک ایکسچینج میں مندرج ہوتی ہیں ، اور یہ ادارے ان کے نفع بخش ہونے کے لحاظ سے ان کی انڈیکس بناتے ہیں جن کی بڑھتی چڑھتی قیمتوں کاتعین انڈیکس میں کیا جاتا ہے ۔ اسی قسم کاایک ادارہ ڈاؤ جونس انڈیکس ہے، اس ادارے کے ایک مسلمان افسر جناب رشدی صدیقی نے مجھ سے رابطہ کیا کہ وہ ایک اسلامی انڈیکس بنانا چاہتے ہیں جس میں صرف ان کمپنیوں کو داخل کیا جائے جن کاکاروبار جائز ہو، مثلاً کپڑے کی صنعت یا موٹر کاروں کی صنعت وغیرہ۔ اس غرض کے لئے انہوں نے میری سربراہی میں ایک شریعہ بورڈ بنایا جس کے لئے متعدد مرتبہ مجھے امریکہ جانا پڑا،اور آخرکار ایک اسلامی انڈیکس تیار ہوگئی۔اس انڈیکس کی تیاری کے بعد مسلمانوں نے اسی کی طرف رجوع کیا، اور بہت سا سرمایہ ان کمپنیوں میں لگنا شروع ہوا، اور اس سے ناجائز کام کرنے والی بعض کمپنیوں کو بھی ترغیب ہوئی کہ وہ اپنے کاروبار سے ممکن حد تک غیر شرعی امور کو نکال کر اس نئی انڈیکس میں شامل ہوں ۔چنانچہ یہ سلسلہ خاصا زور پکڑ گیا۔اس موقع پر مغربی حلقے جو اپنے ملک میں اسلامی سرمایہ کاری کو گوارا نہیں کرسکتے تھے ، ان میں سخت بے چینی پیدا ہوئی ، اور انہوں نے میرے خلاف پروپیگنڈے کا ایک غیر متناہی سلسلہ جاری کردیا آخر کار میرے خلاف مہم اتنی بڑھی کہ مجھے اس ادارے سے الگ ہونا پڑا ، لیکن انڈیکس کا جو کام شروع ہوچکا تھا، وہ ابتک کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے ۔

غیر سودی نظام کی کوشش میں مشکلات اور رکاوٹیں
سودی نظام سے لڑنے، اور اس کی جگہ غیر سودی نظام لانے کے لئے مجھے تین طرف سے شدید مشکلات کا سامنا پیش آیا۔ ایک طرف سود کامتبادل تجویز کرنے میں میری اصل خواہش یہ تھی کہ مالیاتی ادارے جب کسی کو سرمایہ فراہم کریں ، وہ اسی طرح نفع ونقصان کی بنیادد پر ہو جس طرح وہ ڈپازیٹر وں سے مضاربت کی بنیاد پر رقمیں وصول کرتے ہیں ، اور اس طرح بڑے بڑے سرمایہ دار جو سارے عوام کی رقموں کو بینک سے قرض لیکراستعمال کرتے ہیں، وہ عام ڈپازیٹر کو اتنابھی نہیں دیتے جس سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے نقصان کا تدارک ہوسکے ۔ اس کاراستہ یہ تھا کہ بینک تاجروں اور صنعتکاروں کے منافع میں شریک ہوں ،میں ہرہر فورم پر یہ آواز اٹھاتا رہا ہوں کہ بینکوں کی سرمایہ کاری بھی نفع میں شرکت کی بنیاد پر ہو، جس سے ڈپازیٹر جو ان رقموں کے اصل مالک ہیں ، اپنے سرمائے کاایک قابل لحاظ نفع حاصل کرسکیں۔لیکن بینکوں کو یہ فکر لاحق تھی کہ اگر مضاربت کی بنیادپرتاجروں کو سرمایہ دیا جائے ، تو وہ اکثر نقصان دکھاکر نفع دینے سے بچنے کی کوشش کریںگے ، یا بہت کم نفع دیں گے ۔
اگر چہ اس مشکل کا حل نا قابل عمل نہیں ہے ، لیکن میری ہزار کوششوں کے بعد بھی سرمایہ کاری شرکت یا مضاربت کی بنیاد پر بہت کم رہی ،زیادہ تر مرابحہ ، اجارہ، سلم اور استصناع کی بنیاد پر کام ہوتا تھا ، اور اس میں بیچی ہوئی چیز کی قیمت یا کرائے پر دی ہوئی چیز کا کرایہ کم وبیش اتنا ہی حاصل ہوتا تھا جتنا سودی قرض پرسودملتا ہے۔لہٰذا لو گ سمجھتے ہیں کہ نتائج کے اعتبار سے یہاں بھی انہیں اتنی ہی رقم ملی جتنی سود سے حاصل ہوتی ۔یہ صورت حال یقیناً آئیڈیل صورت نہیں تھی ، البتہ اسے شرعی اصولوں کے تحت انجام دیا جائے ، تو فقہی اعتبار سے نا جائز بھی نہیں تھی ۔سود سے نکل کر اگر بیع یا اجارے کی آمدنی حاصل ہوجائے ، تووہ شرعی اعتبار سے سود سے یقیناً بہتر تھی۔اس کے علاوہ معاشی نتائج کے اعتبار سے بھی بیع ہو یا اجارہ یا سلم یااستصناع، ہر صورت میں معاملے کا موضوع کوئی نہ کوئی حقیقی اثاثہ ہوتا ہے۔اس کے برعکس سودی نظام میں تمام تر لین دین پیسوں کا ہوتا ہے، پشت پر کوئی نیااثاثہ وجود میں آنا ضروری نہیں ہوتا جس سے پورا معاشی نظام ایک بلبلہ بن کررہ جاتا ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کا وہ خاصہ ہے جس سے بازار میں وقفے وفقے سے شدید جھٹکے آتے ہیں جن سے معاشی بحران پیدا ہوتا ہے۔یہ خرابی اس غیر سودی نظام میں نہیں ہوتی جو بیع اور اجارہ وغیرہ پر مبنی ہوتا ہے، اسی لئے قرآن کریم نے سود کا متبادل "بیع” کو قرار دیا ہے(۲)۔
اس کے باوجود اسلام کے معاشی مقاصد اور تقسیم دولت کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے مثالی طریقہ یہی ہے کہ بینک اپنے گاہکوں سے بھی مضاربت کا معاملہ کریں اور تاجر اور صنعت کار جو بینک سے پیسے لیکر کاروبار میں لگاتے ہیں، وہ بینک کو اور اس کے ذریعے عام ڈپازیٹرز کو اپنے نفع میں شریک کریں۔لیکن غیر سودی بینکوں کا یہ خطرہ کہ جب بینک کاروباری لوگوں کے نقصان میں بھی شریک ہوگا، تو دیانت داری کے موجودہ معیار کو مد نظررکھتے ہوئے نقصان کے احتمالات بڑھ جائیں گے، غیر معقول خطرہ نہیں تھا، خصوصاً جب ملک میں سودی نظام بھی ساتھ ساتھ چل رہا ہو، اور غیر سودی بینکوں کے ساتھ ان کی مقابلے کی فضا قائم ہو۔لہٰذا ہم نے اس غیر سودی نظام کو بھی فی الجملہ گوارا کرلیا جو ڈپازیٹرز کے ساتھ تو مضاربت کا معاملہ کرتا ہے، لیکن اپنے گاہکوں سے مضاربت کے بجائے مرابحہ وغیرہ کے معاملات کرتا ہے۔
لیکن بینک چاہے غیر سودی بنیاد پر قائم ہوں، ان میں کام کرنے والی انتظامیہ نے تربیت سودی نظام ہی میں پائی ہوتی ہے، اس لئے ان کی یہ تربیت کہیں نہ کہیں اپنااثر دکھاتی ہے۔ چنانچہ بعض مرتبہ مرابحہ وغیرہ میں بھی اپنی خودساختہ ضرورت کا پریشر ڈال کر کچھ مزید سہولیا ت حاصل کرنے کا رجحان تقریباً تمام بینکوں میں پایا جاتا تھا ، اور ان کے پریشر سے متأثر نہ ہونے میں بڑی استقامت درکار تھی جس میں بعض اوقات کدورت بھی ہوجاتی تھی۔ تاہم جس بات پر ہم جم جاتے ، انتظامیہ آخرکار اس پر سر جھکادیتی تھی ، اور اگر سر نہ جھکاتی ، تو اس سے ہماراتعلق قائم نہ رہتا۔
دوسرے خود ان مسائل پر فقہی نظر سے غور کرتے ہوئے پتّہ پانی ہوتا تھا ، کیونکہ معاملات کی نئی نئی شکلیں سامنے آتی تھیں جن پر اس سے پہلے غور وتحقیق کی نوبت نہیں آئی تھی ،اس لئے باہم مشوروں کے علاوہ رجوع الی اللہ تعالیٰ کو اپنا شعار بنایا ہوا تھا ،لیکن ان جیسے مسائل میں خوف دامن گیررہتا تھا کہ ہم حدد سے متجاوز تو نہیں ہوگئے۔الحمدللہ ان مواقع پر دل لگاکر دعا اور استخارے کی توفیق ہوتی ، اور یہ دعا بکثرت زبان پر رہتی کہ یااللہ! اگر یہ بات آپ کی رضا کے مطابق نہ ہو، تو ہم سب کا دل اس سے پھیر دیجئے۔

امریکہ میں میرے خلاف پروپیگنڈے کی مہم
تیسرے جوں جوں غیر سودی بینکاری کا کام آگے بڑھا ، اسلام دشمن مغربی حلقوں کی طرف سے اس کی سخت مخالفت شروع ہوگئی۔ خاص طور پر امریکہ میں یہودی لابی نے میرے خلاف ایک مہم چلائی ، اور ہر کچھ دن کے بعد کوئی نہ کوئی مقالہ اخبارات یا انٹر نیٹ پر اسلامی فائنانس کے خلاف اور خاص طورپر میرے خلاف چھپنا شروع ہوگیا ۔اس سلسلے میں دسیوں جارحانہ مضامین امریکہ اور برطانیہ میں میرے خلاف شائع ہوئے جن میں تنقید سے لیکر گالی گلوچ تک ہر اسلوب آزمایا گیا تھا۔زیادہ تر میرے خلاف مضامین شائع کرنے والے یہودی تھے، اور انہوں نے مجھے "مالیاتی دہشت گرد” اور "جنونی جہادی” قرار دیا ہوا تھا۔ان کا کہنا یہ تھا کہ "اسلامی بنکاری” در حقیقت شریعت کو دنیا بھر میں نافذ کرنے کے لئے ایک "مالیاتی جہاد” ہے ، اور اس کا سرغنہ تقی عثمانی ہے۔
اگر ان سب تحریروں کو نقل کیا جائے تو ایک پوری کتاب بن سکتی ہے ۔لیکن ان تحریروں میں شاید اہم ترین تحریر امریکہ کے ڈک مورس( Dick Morris) اور ایلین مک گین( Eileen McGann) کی مشترک تالیف( CATESTROPHY)(تباہی)تھی ۔ ڈک مورس سابق امریکی صدر کلنٹن کا بیس سال تک سیاسی مشیررہا ہے۔ اس کتاب میں ایک پورا باب (تیرھواں باب”اسلامک فائنانس” کے موضوع پر(۳) ہے ۔ اس کا بنیادی موضوع تو اسلامی بینکاری اور شریعت کی مخالفت ہے ، لیکن پورے باب میں سب سے زیادہ جارحانہ تنقید کا ہدف مجھے بنایا گیا ہے کہ اس شخص نے امریکہ میں اسلامک فائنانس متعارف کراکر ہمارے سرمایہ دارانہ نظام پر ضرب لگانے کی کوشش کی ہے ۔ اس کتاب کے چند اقتباسات ذیل میں پیش کرتا ہوں ۔
ڈک مورس اس باب کے شروع میں لکھتا ہے:

There is a worldwide, religiously powered movement to undermine and conquer our Western and American way of life. One of the key tools of this movement is Shariah- compliant financing. It is a practice, orchestrated by Muslim extremists, that is designed to use the oil-generated wealth and economic clout of key Islamic nations to hijack our institutions, our social policies, and, ultimately, our values in the name of Islamic rule.
If this movement continues to gain in power and influence, it will, indeed, be a catastrophe for our way of life.
Meet Sheikh Muhammad Taqi Usmani. He is a prominent Islamic scholar and former justice of the Pakistani Shariah Appellate Court. In 1999, in addition to his Pakistani judicial role, Sheikh Taqi Usmani got a new day job: Dow Jones, HSBC, and many other top financial institutions hired him to advise them on where to invest hundreds of millions of dollars! And this was no short-term trial run: in March of this year, Dow jones announced its celebration of the programs tenth anniversary (although Usmani recently had to resign). (Catastrophe, pg 264)

’’اس وقت مذہبی قوت کی ایک عالمگیر تحریک ہے جس کا مقصد مغربی اور امریکی طرززندگی کو تباہ کرکے اسے فتح کرنا ہے ۔اس تحریک کا ایک کلیدی ذریعہ مالیاتی نظام کو شریعت کے مطابق بنانا ہے۔ یہ عمل مسلمان انتہا پسندوں کی منصوبہ بندی کے تحت انجام پا رہا ہے ، جس کا مقصد تیل سے پیدا شدہ دولت اور کلیدی اسلامی اقوام کی معاشی قوت کواسلامی اصولوں کے نام پر ہمارے اداروں ، ہماری سماجی پالیسیوں اور آخرکار ہماری اقدار کو ہائی جیک کرنا ہے ۔
اگر یہ تحریک اسی طرح قوت اور اثرونفوذ حاصل کرتی رہی ، تو یہ ہمارے طرززندگی کے لئے ایک حقیقی تباہی ہوگی۔
ذرا شیخ محمد تقی عثمانی سے ملئے ، یہ ایک ممتاز اسلامی اسکالراور پاکستان کے شریعت اپیلیٹ کورٹ کا سابق جج ہے ۔ پاکستانی عدلیہ میں اس کے کردار کے علاوہ ۱۹۹۹ء میں شیخ تقی عثمانی کو ایک نیا کردار ملا ۔ ڈاؤ جونس، ایچ ایس بی سی اور بہت سے دوسرے اعلیٰ مالیاتی اداروں نے اس کی خدمات اس غرض کے لئے حاصل کیں کہ وہ انہیں مشورہ دے کہ اربوں ڈالر کی دولت کی سرمایہ کاری کہاں کی جائے ۔ یہ بات کوئی مختصر مدت کا تجربہ نہیں تھی ، بلکہ اس سال مارچ میں ڈاؤ جونس نے اس پروگرام کی دسویں سالگرہ کا جشن منایا ہے ، (اگرچہ عثمانی کو حال ہی میں اس سے استعفا دینا پڑا ص ۲۶۴” اس کے بعد مصنف نے میرا تفصیلی تعارف کراتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ میں اقدامی جہاد کا حامی ہوں ، اور اس سلسلے میں میری طرف متعدد جھوٹی سچی باتیں منسوب کی ہیں ، پھر اس نے لکھا ہے :

In 1987, Sheikh Taqi Usmani was one of the issuers of a fatwa that announced a series of Islamic preconditions for Muslim investment in publicly traded stocks. This was a new concept, and in the intervening years it is one that has taken hold in the United States. And the sheikh, who does not hide his contempt for non-Muslims, has become a leader in what has become known as Shariah-compliant financing.

’’ ۱۹۸۷ء میں شیخ تقی عثمانی ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے یہ فتویٰ جاری کیا کہ مسلمان سرمایہ کاروں کے لئے کمپنیوں کے حصص لینے کے لئے کن کن شرائط کی پابندی لازمی ہے ۔ یہ ایک نیا تصور تھا ، اور پچھلے سالوں میں اس نے امریکہ میں اپنی مضبوط جگہ بنالی ہے ۔ اور شیخ (یعنی محمد تقی عثمانی) جو غیر مسلموں سے اپنی نفرت کو ڈھکا چھپا نہیں رکھتا،اب اس تحریک کا ایک لیڈر بن چکا ہے جو” شریعت کے مطابق مالیاتی نظام ” کہلاتی ہے ۔(ص۲۶۶)
آگے ان شرائط کی تشریح کرتے ہوے لکھتا ہے :

The issuing company must not be involved in vice industries like businesses associated with pork, alcohol, interest income-generating activities, entertainment (such as pornography and gambling)

” شیئر جاری کر نے والی کمپنی ’’ بُری صنعتوں ‘‘ میں ملوث نہیں ہونی چاہئے جن کا تعلق خنزیر ، شراب، سود کی آمدنی ، تفریحی سرگرمیوں مثلاً عریانی اور جُوے سے ہو۔” (ص:۲۶۷)
آگے لکھتا ہے :

Giving Muslim extremists massive leverage by linking sovereign wealth funds with Shariah-compliance boards is a frightening prospect indeed. Imagine the likes of Sheikh Muhammad Taqi Usmani deciding which companies should or should not get massive investments from the sovereign wealth funds of countries such as Kuwait, Saudi Arabia, Qatar, and others.

"مسلمان انتہا پسندوں کو اتنی چھوٹ دینا کہ وہ سرکاری دولت کو شریعت کے مطابق سرمایہ کاری سے جوڑے رکھیں، حقیقۃً ایک خوفناک صورت حال ہے ۔ ذرا تصور کیجئے کہ شیخ محمد تقی عثمانی جیسے لوگ اس بات کا فیصلہ کررہے ہیں کہ سعودی عرب ، کویت، قطر اور دوسرے ملکوں کی سرکاری دولت کی بھاری سرمایہ کاری کن کمپنیوں میں ہونی چاہئے ، اور کن میں نہیں ہونی چاہئے ۔” (ص :۲۷۶)

Just ponder for a moment what a catastrophe that would be. In order to attract the precious money controlled by these sovereign wealth funds, companies would have to pitch their activities to appease and please the extremist Shariah-compliance officers. It would put the power to control us into the hands of those who want to destroy us.
Not only could these advisers use this massive leverage to hurt the United States, the international Jewish community, and Israel, they could use it to destabilize our entire capitalist system (or what is left of it when Obama gets through with it).

’’ذرا ایک لمحے کے لئے سوچئے کہ یہ کتنی بڑی تباہی ہوگی کہ وہ قیمتی دولت جسے (مذکورہ ملکوں ) کے سرکاری اثاثوں کے فنڈکنٹرول کرتے ہیں ، اسے کشش دینے کے لئے (امریکہ کی ) کمپنیاں اپنی سرگرمیوں کو اس طرح تبدیل کررہی ہیں کہ وہ شریعت کے مطابق ہونے کی نگرانی کرنے والے انتہا پسند وں کو راضی اور خوش کرسکیں ۔ یہ صورت حال ہمیں کنٹرول کرنے کی طاقت ان لوگوں کے ہاتھ میں دیدے گی جو ہمیں تباہ کرنا چاہتے ہیں ۔
‘‘ان (شرعی ) مشیروں کو جو سر چڑھایا جارہا ہے ، وہ صرف اتنا ہی نہیں کہ اس طاقت کو امریکہ ، بین الاقوامی یہودی کمیونٹی اور اسرائیل کو نقصان پہنچانے کے لئے استعمال کریں گے ، بلکہ وہ اسے ہمارے پورے سرمایہ دارانہ نظام (یااس کا جو حصہ باقی رہ گیا ہے، اُس )کو غیر مستحکم کرنے کے لئے استعمال کرسکتے ہیں ۔” (ص :۲۷۶)

But even paranoids have enemiesand those who want to infect our financial institutions with the virus of Shariah compliance are among our most dangerous opponents. (pg 266)

"لیکن دیوانوں کے بھی دشمن ہوتے ہیں—-اور جو لوگ ہمارے اداروں کو شریعت کے مطابق جراثیم سے زہر آلود کرنا چاہتے ہیں وہ ہمارے سب سے زیادہ خطرناک مخالفین ہیں”
یہ اقتباسات کسی بازاری صحافی کے نہیں، بلکہ امریکی معاشرے کے ایک ایسے ذمہ دار شخص کے ہیں جو بیس سال تک امریکی صدر کا سیاسی مشیر رہا ہے۔ بازاری صحافیوں اور انٹر نیٹ پر لکھنے والوں نے تو اس موضوع پر پے درپے مضامین کاایک طویل سلسلہ جاری کیا ہوا تھا جو ابتک مسلسل جاری ہے۔اس لئے میرے بہت سے ہمدرد مجھے یہ مشورہ دیتے تھے کہ اب تمہاراامریکہ جانا مناسب نہیں، لیکن میں نے ضروری کاموں کی وجہ سے وہاں کا سفر جاری رکھا، یہاں تک کہ 9/11کے واقعے کے بعد بھی میں امریکہ گیا۔لیکن اس کے بعد جب میں نے یہ دیکھا کہ امیگریشن میں مسلمانوں کی تفتیش ہی نہیں، تذلیل کا ناقابل برداشت سلسلہ شروع کردیا گیا ہے، تو میں نے وہاں جانا بند کردیا، اور گائیڈنس فائنانس کے شریعہ بورڈ کی میٹنگز (جس سے میں ابھی تک وابستہ ہوں) میں نے دوسرے ملکوں مثلاً مراکش یا شام یا مصر وغیرہ میں منتقل کردیں۔

بعض دینی حلقوں کی طرف سے مخالفت
ایک طرف تو مغرب میں میرے خلاف مخالفت کا یہ طوفان کھڑا ہوا تھا۔ عین اسی زمانے میں میری ایک غیر متوقع مخالفت خود بعض دینی حلقوں کی طرف سے سامنے آئی۔ فقہی آراء میں اہل علم کااختلاف کوئی انہونی بات نہیں ہے ،لیکن جس انداز میں یہ اختلاف سامنے آیا ، وہ میرے لئے باعث حیرت بھی تھا اور باعث افسوس بھی ۔اس اختلاف کے واقعات خاصے طویل ہیں ، اور میں ان کی تفصیل میں جاکر ایک نا خوشگوار قصۂ پارینہ کو زندہ کرنا نہیں چاہتا۔میں شروع میں عرض کرچکا ہوں کہ غیر سودی بینکاری کے موضوع پر میں نے جس طرح کام شروع کیا، وہ صرف اپنی تنہا رائے سے نہیں کیا، بلکہ ابتداء میں اسلامی نظریاتی کونسل میں حضرت مولانا شمس الحق افغانی صاحب، حضرت مولانا مفتی سیاح الدین صاحب، حضرت مفتی محمد حسین نعیمی صاحب، پیر قمرالدین سیالوی صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم کے مشورے سے رپورٹ مرتب کی۔ پھر جب اس کی عملی تطبیق کا وقت آیا، تو حضرت والد صاحب اور حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری صاحب رحمۃ اللہ علیہما کی قائم کردہ "مجلس تحقیق مسائل حاضرہ” میں اس کے بنیادی مسائل پیش کئے۔یہ اجتماع دارالعلوم کراچی میں ۲۱ و۲۲ رجب ۱۴۱۲ ھ مطابق ۲۷؍ و ۲۸؍ جنوری ۱۹۹۲ء کو منعقد ہوا تھا،جس کی تفصیل حضرت مولانا مفتی رشید احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے احسن الفتاویٰ میں شائع کردی ہے ، اس میں میرے استاذ حضرت مولانا مفتی رشید احمد صاحب لدھیانوی، حضرت مولانا مفتی عبدالشکور ترمذی، حضرت مولانا مفتی وجیہ صاحب، حضرت مولانا مفتی سحبان محمود صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم شریک تھے۔حضرت مولانا مفتی ولی حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس وقت بیمار تھے، اس لئے وہ شریک نہیں ہوسکے تھے۔ لیکن چونکہ اس واقعے کو ایک لمبی مدت گذرگئی تھی، اس لئے وہ تحریر بعد کے حضرات کی نظروں سے اوجھل رہی، اور وہ یہ سمجھے کہ میں یہ سارا کام تنہا اپنی رائے سے کررہا ہوں۔اس لئے ان کے دل میں اس پر اشکالات پیدا ہوئے جن میں سے بہت سے اشکالات صورت مسئلہ واضح نہ ہونے کی بناء پر بھی تھے۔ان حضرات میں نہایت قابل احترام علماء کرام شامل تھے جن سے ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں،مختلف مسائل پر تبادلۂ خیال بھی ہوتا رہتا تھا ، اور ان سے یہ ذکر بھی آتا رہتا تھا کہ میں غیر سودی بینکاری کے لئے مختلف سطحوں پر کوشش کررہا ہوں ، لیکن کبھی کسی نے مجھ سے اس کے بارے میں کچھ پوچھا نہیں کہ یہ کام میں کس بناء پر اور کس انداز سے کررہا ہوں ، لیکن کچھ مجلسیں میری غیر موجودگی میں منعقد ہوئیں جن کا علم بھی مجھے بہت بعد ہوا۔ پھر۳۳؍ حضرات کے دستخط سے ایک مشترک فتویٰ اخبارات میں شائع کردیا گیا۔ اس فتویٰ میں غیر سودی بینکاری کے اس کام کو علی الاطلاق ناجائز قرار دیا گیا تھا ،فتویٰ میں اس کے دلائل بیان نہیں کئے گئے تھے ، اور نہ یہ واضح کیا گیا تھا کہ بنیادی اشکالات کیا ہیں۔
مجھے معلوم ہوا کہ فتویٰ کے دلائل بیان کرنے کے لئے ایک مفصل تحریر جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کے دارالافتاء میں مرتب کی گئی ہے ۔ جب مجھے اس تحریر کے مرتب ہونے کی خبر ملی ، تو میں خود جامعۃ العلوم الاسلامیہ کے دارالافتاء میں حاضر ہوا ، اور وہاں کے علماء کرام سے درخواست کی کہ وہ تحریر مجھے بھی دکھا دی جائے ، تاکہ میں اس کے دلائل سے باخبر ہوسکوں ، ہوسکتا ہے کہ اس کے بعد باہمی افہام وتفہیم سے اتفاق کی کوئی صورت نکل آئے ، لیکن ان حضرات نے مجھے وہ تحریر دینے سے معذرت کرلی۔
مجھے اس بات پر دکھ تھا کہ حضرت والد ماجد ؒ اور حضرت مولانا محمد یوسف بنوری صاحب رحمۃ اللہ علیہما کا طرزعمل ہمیشہ یہ رہا تھا کہ پیش آمدہ مسائل کو مجلس تحقیق مسائل حاضرہ میں پیش کرکے کھلے دل کے ساتھ ان پر بحث کی جاتی تھی ، پھر کوئی تحریر شائع کی جاتی تھی ، اور یہ پہلا موقع تھا کہ تحریر یک طرفہ طورپر مرتب کی گئی ، اور مجھے فراہم کرنے سے بھی انکار کردیا گیا ، اور اس کے شائع ہونے کے بعد اس کا ایک نسخہ مجھے بھیجاگیا۔
میں نہیں چاہتا تھا کہ اس اختلاف کو اخبارات اور رسالوں میں اچھالا جائے ،اس کے باوجود بعض اخبارات میں یہ بحث چل پڑی، لیکن میں نے کافی عرصے تک مکمل خاموشی اختیار کئے رکھی اورلوگوں کی شکایات کے باوجود کہ میں کیوں خاموش ہوں، میں ان اعتراضات پر فیما بینی وبین اللہ غور کرتا رہا ، اور اس اندیشے سے خالی نہیں رہا کہ کہیں میں نا دانستگی میں صحیح راستے سے بھٹک نہ گیا ہوں ۔ میں نے اپنا جائزہ لیا کہ میں نے یہ کام کسی دنیوی مفاد یا حب جاہ کی وجہ سے تو شروع نہیں کیا۔اللہ تعالیٰ نفس کے دسائس سے ہمیشہ محفوظ رکھے، لیکن الحمدللہ دل نے یہ گواہی دی کہ میری نیت ٹھیک تھی، البتہ مخالفت کرنے والوں میں بڑے قابل احترام علماء بھی شامل تھے، اس لئے میں نے اس کا بھی جائزہ لیا کہ میں نادانستگی میں کوئی بڑی غلطی تو نہیں کربیٹھا۔غیر جانب دار اہل علم سے مشورے بھی کئے ، اور اللہ تعالیٰ سے مسلسل دعا کرتا رہا کہ اگر میں غلطی پر ہوں ، تو میری غلطی مجھ پر واضح فرمادیں ، اور اس سے رجوع کی توفیق عطا فرمائیں۔
لیکن ہوا یہ کہ اس اختلاف کے اظہار کے لئے جو طرزعمل اختیار کیا گیا تھا ، پاک وہند کے مختلف علماء کرام نے اس کا برا منایا ، دارالعلوم دیوبند سے اس بارے میں استفتاء کیا گیا ، تو وہاں کے مفتی حضرات نے اس کا یہ جواب دیا:
"حضرت مولانا مفتی محمد تقی صاحب عثمانی مدظلہ العالی کی قائم کردہ وجاری شدہ اسلامک بینکنگ ماڈل کے اصول وضوابط اور عملی طریق کار وغیرہ ہمارے سامنے نہیں ، اس لئے کوئی حتمی رائے لکھنا بھی مشکل ہے، تاہم حضرت مفتی صاحب موصوف مدظلہ جبکہ فقہ وفتویٰ پر عمیق نظر رکھتے ہیں، اور اسلامی طریق پر بینکاری کو چلا نے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور سود ودیگر غیر شرعی معاملات سے نظام کے تحفظ کی استعداد رکھتے ہیں ،تو ایسی صورت میں مذکور فی السؤال ماڈل شرعاً درست وصحیح ہونا ہی راجح ہے ۔ اگر کسی جزوی معاملے میں مقامی علماء کرام اصحاب فتویٰ حضرات کو اختلاف ہو، تو تنہائی میں (عوام میں تشہیر کئے بغیر) بیٹھ کر اہل علم حضرات حکمت کے ساتھ اصلاحی قدم اٹھائیں تو اس میں کچھ مضائقہ نہیں ۔‘‘

از محمود حسن بلند شہری
الجواب صحیح
حبیب الرحمن ، زین الاسلام ، وقار علی

اس کے بعد مختلف علماء کرام نے ازخود مخالفین کی تردید میں تحریریں شائع کرنی شروع کردیں۔ سب سے پہلے حضرت مولانا مفتی مختارالدین صاحب مدظلہم نے ایک رسالہ "بلاسود بینکاری ” کے نام سے لکھا ، اور مخالفت کا جو انداز اپنایا گیا تھا، اس پر عالمانہ تنقید کی ۔اس کے بعد انہوں نے ملک کے مختلف حصوں میں غیر جانب دار علماء سے رابطہ کرکے ۱۴۰ علماء کرام کی رائے میری موافقت میں شائع کی ۔ بعض مدارس مثلاً دارالعلوم چار سدہ میں علماء کااجتماع اس مسئلے پر غور کرنے کے لئے منعقد ہوا ، فریقین کے دلائل کا جائزہ لیا گیا ، اور تمام حضرات نے بندے کی رائے کی موافقت میں ایک تحریر مرتب کرکے اپنے رسالے میں شائع کی ۔بعض اخبارات میں لوگوں نے اپنے طور پر اس فتوے اور جامعۃ العلوم الاسلامیہ کی تحریر پر تنقید کے لئے شائع کئے ۔ مولانا ثاقب الدین صاحب نے جامعۃ العلوم الاسلامیہ کی تحریر کے جواب میں ایک ضخیم کتاب لکھی(۴) ۔ اس پورے عرصے میں میں خاموش رہا ، اور زبانی یا تحریری طورپر جواب دہی کی فکر میں پڑنے کے بجائے مسلسل دعا کرتا رہا کہ اگر میں غلطی پر ہوں ، تواللہ تبارک وتعالیٰ مجھے حق کی طرف رجوع کی توفیق عطا فرمائیں۔البتہ حضرت مولانا مشرف علی صاحب تھانوی اور مولانا قاری احمد میاں صاحب مد ظلہما نے ۱۴؍ذوالقعدہ ۱۴۲۹ ھ مطابق ۱۳؍ نومبر ۲۰۰۸ء کو دارالعلوم الاسلامیہ لاہور میں علماء کا ایک اجتماع بلایا ۔ اس موقع پراحباب نے مجھے اپنا موقف پیش کر نے لئے کہا، تو اس وقت میں نے اپنا موقف علماء کے سامنے پیش کیا ، اور اسے فی الجملہ تائید حاصل ہوئی۔اس کے باوجود میں الحمد للہ تعالیٰ دعائے ہدایت میں مشغول رہا ، یہاں تک کہ اسی دوران مجھے حرمین شریفین کا سفر پیش آیا ، اور وہاں تقریباً ایک ہفتہ قیام رہا ، اللہ تعالیٰ نے مقامات اجابت پر دعا کی خوب توفیق عطا فرمائی ، اورمیں نے پورے اخلاص اور سچے دل سے اللہ تعالیٰ سے مانگا کہ اگر میں غلط راستے پر پڑگیا ہوں، تو مجھے اس سے نکلنے اور راہ راست پر آنے کی توفیق عطا فرما۔ لیکن جوں جوں دعا کرتا گیا ، اس پر شرح صدر ہوتا گیا کہ میرا موقف الحمد للہ تعالیٰ صحیح ہے ، اورمجھے تحریری طور پر کتابی شکل میں دلائل کے ساتھ اس موقف کو واضح کرنا چاہئے ، چنانچہ میں نے وہیں پر وہ کتاب لکھنی شروع کی جو بعد میں”غیر سودی بینکاری۔متعلقہ فقہی مسائل کی تحقیق اور اشکالات کا جائزہ ” کے نام سے شائع ہوئی۔
اس سب کے باوجود میں یہ کہتا رہا ہوں کہ غیر سودی بینکوں کے ساتھ معاملات کوئی فرض وواجب نہیں ہیں ، اورچونکہ اس مسئلے میں کچھ قابل احترام علماء کرام کا اختلاف ہے، اس لئے اگر کوئی شخص ان پر اعتماد کرکے ، یا احتیاط کے پیش نظر ان معاملات سے بچے ، تو یقیناً اقرب الی التقویٰ ہے ، لیکن جو لوگ سودی بینکوں کے ساتھ معاملات میں مشغول ہیں ، ان پر فرض ہے کہ وہ ان سے بچیں ، اور اگر ان کے لئے بینکاری کی سہولت حاصل کرنا ضروری ہو ، تو وہ غیر سودی بینکوں سے رجوع کریں ۔

جاری ہے ….

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

(ماہنامہ البلاغ :صفر المظفر،ربیع االاول ۱۴۴۴ھ)


(۱)حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ نے کمپنیوں کے حصص لینے کے جواز پر امداد المفتاویٰ میں مفصل بحث فرمائی ہے ۔
(۲)اس موضوع کی تفصیل میں نے متعدد مقالات میں بیان کی ہے ۔ مثلاً "سود پر سپریم کورٹ میں تاریخی فیصلہ”اور "موجودہ معاشی بحران کے اسباب اور اس کا حل شریعت کی روشنی میں "۔
(۳)Published by Harper Collins 2009
(۴)اس سلسلے میں جو مختلف مضامین علماء کرام کی طرف سے اس فتوی اور جامعۃ العلوم الاسلامیہ کی تحریر پر تنقید کے لئے شائع ہوئے ، ان کا ایک مجموعہ ادارہ الافنان (صفورہ چوک کرن ہسپتال روڈ بالمقابل پی ایس او پمپ یونیورسٹی روڈ کراچی 45270 )نے "اسلامی بینکاری اور علمائ” کے نام سے اگست ۲۰۰۹ ء میں شائع کردیا ہے جو تقریباً ڈھائی سو صفحات پر مشتمل ہے حضرت مولانا مفتی مختار الدین صاحب دامت برکاتہم نے اپنی کتاب "بلاسود بینکاری”میں ان میں سے متعدد تحریروں کے اقتباسات نقل کئے ہیں ۔