حضرت مولانا مفتی محمدتقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم

ملکی صورتِ حال اور عوام کے کرنے کے کام

حمدوستائش اس ذات کے لئے ہے جس نے اس کارخانۂ عالم کو وجود بخشا
اور
درود و سلام اس کے آخری پیغمبرپر جنہوں نے دنیا میں حق کا بول بالا کیا

پاکستان پر ۷۵ سالہ تاریخ میں روزِ اول سے طرح طرح کے بحران آئے ہیں، اور ملک نہایت نازک حالات سے گزر ا ہے ،لیکن پچھلے تقریباً پانچ سال سے وطنِ عزیز مسائل کے جس بھنور میں پھنسا ہوا ہے، شاید ۷۵سال میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔سیاسی سطح پر اس دور میں قوم جس بُری طرح تقسیم ہوئی اور سیاسی مخالفت نے جس طرح دشمنی اور نفرتوں کی شکل اختیار کی، اور جس طرح ایک دوسرے پر گالی گلوچ، الزام تراشیوں اور بے تحقیق افواہوں کا بازار گرم ہوا، افسوس ہے کہ اس کے لئے طوفانِ بدتمیزی کے سوا کوئی اور مناسب لفظ ملنا مشکل ہے۔
حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کی لڑائیاں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں، لیکن وہ کبھی بھی ملک و ملت کے لیے باہمی مفاہمت کے امکان سے یکسر خالی نہیں تھیں، لیکن اس دور میں نفرتوں کے ایسے زہریلے بیج بوئے گئے جن کی موجودگی میں ریاست کی صلاح و فلاح کے موضوع پر کسی ایسی سنجیدگی کا کہیں دور دور پتہ نہیں تھا جو حقیقی مسائل کو سر جوڑ کر حل کر سکے۔ فریقین کا بچہ بچہ دوسرے فریق کے ہر انسان کو غداراور دشمنِ ریاست اور کرپشن کی وجہ سے ناقابل معافی، چور اور ڈاکو قرار دیتا رہا۔ اگر کسی میں یہ خرابیاں موجود تھیں تو اسے برسرعام گالیاں دینے کے بجائے قانونی راستہ اختیار کیا جاتا اور انصاف کے ساتھ فیصلے ہوتے لیکن افسوس ہے کہ آخر میں ملک کی سب سے اونچی عدالت خود تقسیم ہو گئی اور اس میں کسی فریق کے ساتھ بے اعتنائی اور اس کے مخالف کے ساتھ خوشگوار تعلقات کا مظاہرہ کیا جاتا رہا۔
جمہوری نظاموں میں مخالفین کے درمیان تلخیاں بڑھ بھی جاتی ہیں لیکن عموما یہ تلخیاں کچھ متعین برائیوں کی بنیاد پر ہوتی ہیں اور باہمی مفاہمت یا عدالتی مداخلت سے ان کا کوئی حل نکل آتا ہے لیکن یہاں روزِ اول سے الزام ثابت ہونے سے پہلے ہی مخالفین کو مطعون کرنے کی گردان اتنی کثرت سے کی گئی کہ وہ بچے بچے کی زبان پر آگئی۔ اس کے نتیجے میں انتقامی کاروائیوں کے تحت ملک کے صاف ستھرے رہنماؤں نے بھی جیلیں کاٹیں اور جب آئینی طور پر عدم اعتماد پاس ہوا تو جمہوری روایات کا تقاضا تھا کہ اب برسر اقتدار پارٹیاں حزبِ اختلاف میں بیٹھ کر اپنا کردار ادا کریں اور برسرِ اقتدار حکومت پر تنقید کے ذریعہ اسے راہِ راست پر رکھنے کی کوشش کریں، لیکن انہوں نے اسمبلی سے استعفے دے کر ایک عوامی مہم شروع کر دی۔ نتیجہ یہ کہ پارلیمنٹ بہت سے اہم ارکان سے محروم ہو گئی اور وہاں سے کسی مزاحمت کے بغیر اہم قوانین بھی منظور ہوتے رہے۔ دوسری طرف جو برسر اقتدار آئے ان سے توقع تھی کہ وہ گالی کا جواب گالی سے دینے کے بجائے یا تو کوئی مفاہمت کا راستہ نکالتے یا کم از کم دوسرے فریقوں کے ساتھ ویسی انتقامی کاروائیاں نہ کرتے جیسے پچھلے دور اقتدار میں ان کے ساتھ روا رکھی گئی تھیں۔ لیکن نئی مخلوط حکومت نے بھی اس لڑائی میں نہلے پر دہلا لگانے کا راستہ اختیار کیا ،اور درجنوں مقدمات قائم کر کے لوگوں کو گرفتار کر لیا۔

اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد ۹۰دن میں انتخابات ایک آئینی تقاضا تھا ،لیکن نئی مردم شماری کی بنیاد پر حلقہ بندیوں کے عذر سے انتخابات بھی غیر یقینی مدت تک کے لیے معلق ہیں، اور قوم انتہائی بے یقینی کی صورت ِحال سے دوچار ہے جو کسی بھی معیشت کے لیے تباہ کن ہوتی ہے ۔چنانچہ اس غیر یقینی کیفیت نے معیشت کا بھتہ بٹھا دیا، ڈالر کی پرواز بے قابو ہو گئی، پیٹرول اور گیس کی قیمتیں کہیں سے کہیں پہنچ گئیں،مہنگائی نے ایک عام آدمی کے لیے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل کر دیا اور ایسے بے بس عوام کو کوئی ایسی کرن بھی نظر نہیں آتی جس سے امید باندھ کر وہ کسی طرح کے اچھے خواب دیکھ سکیں۔ حکومت اگر کچھ کرنا بھی چاہے تو آئی ایم ایف نے اس کے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں۔ اس ساری صورت ِحال کا تباہ کن نقصان سب سے زیادہ اُن عوام پر پڑا ہے جن کے لیے روٹی اور سبزی یا دال حاصل کرنا ہی سخت مشکل ہو گیا ہے۔
ہزاروں ارب کا قرض سر پر سوار کر کے ملک کا ہر شخص مقروض ہے۔ اس وقت تک حکومتوں کی بیشتر توجہات اپنے فریقِ مخالف کو مطعون کرنے، اس پر الزام لگانے میں سخت سے سخت الفاظ استعمال کرنے ،ہر بیان کا ترکی بہ ترکی جواب دینے اور افسوس یہ ہے کہ انتہائی ناشائستہ ویڈیوز سوشل میڈیا پر پھیلانے پر صرف ہو رہی ہیں۔ ریاست کہاں جا رہی ہے؟؟ اس کے بقا و تحفظ کو کیا چیلنج درپیش ہیں؟؟ اور عوام پر آئے دن مہنگائی کے جو بم گر رہے ہیں، ان کا مداوا کیسے ہوگا ؟؟ باہمی جھگڑوں میں الجھ کر ملک کے یہ جو ہری مسائل طاقِ نسیان میں پڑے ہوئے ہیں۔
اسی دوران نگراں حکومت نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی ہے اور نہایت محدود اختیار کے ساتھ سنبھالی ہے، اس کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ بڑے بڑے فیصلے کرے ،لیکن ابھی تک یہ بھی واضح نہیں کہ الیکشن کب ہوں گے؟
بے یقینی کی اس دھند لائی ہوئی فضا میں چیف آف آرمی اسٹاف نے تاجروں سے مل کر جو اقدامات کیے ہیں، وہ اس حبس کی فضا میں ایک ہوا کا جھونکا ہے۔ ڈالر کی قیمت جس رفتار سے بڑھ رہی تھی اور لوگ کہہ رہے تھے کہ یہ ۳۵۰روپے تک پہنچنے والا ہے، آرمی چیف کی ہدایت پر متعلقہ محکموں میں ڈالر کی اس بڑھوتری کا سنجیدگی سے جائزہ لیا گیا تو انکشاف ہوا کہ اس کی بڑی وجہ ڈالر کی غیر معمولی اسمگلنگ اور سٹے بازوں کی کاروائیاں تھیں اور منظور شدہ ایجنسیوں کے علاوہ بہت سی ایجنسیاں غیر قانونی طور پر ڈالروں کی ذخیرہ اندوزی کر رہی ہیں اور مصنوعی طلب پیدا کر کے ڈالر کی قیمت بڑھا رہی ہیں، نیز حوالہ ھنڈی کا کاروبار بھی ایک منظم شکل اختیار کر چکا ہے۔ اس لیے آرمی چیف نے حکومت کے ساتھ مل کر فساد کی ان جڑوں کو پکڑا، اور سخت اقدامات کیے ہیں، جس کا فوری نتیجہ چند ہی دن میں سامنے آگیا کہ اوپن مارکیٹ میں تقریباً ۳۷ روپے ڈالر کی قیمت میں کمی ہوئی اور انٹر بینک میں اب ۲۹۴روپے کا بک رہا ہے۔
اسی طرح چینی کی ذخیرہ اندوزی سے جو گرانی بڑھ رہی تھی، ذخیرہ اندوزوں پر چھاپے مار کر اس کی قیمت بھی نیچے ا ٓئی ہے۔ ڈالر کے چڑھنے اور روپے کے گرنے کے یہ اسباب ایسا نہیں ہے کہ پہلی بار ملک بوستان یا آرمی چیف کے علم میں آئے ہوں، سابق حکومتیں ان حالات سے یقیناً پوری طرح باخبر تھیں، اور یہ کام ان کے کرنے کا تھا کہ وہ کم از کم اس طریقے سے قوم کے آنسو پونچھتے لیکن وہ اپنے سیاسی مسائل میں اس قدر منہمک تھے کہ انہیں اس سامنے کی حقیقت کی طرف بھی توجہ نہیں ہوئی۔
اس قسم کے سرمایہ کاری کے کچھ اور اقدامات بھی حکومت اور فوج کے پیش نظر ہیں جن سے مزید حالات کی امیدباندھی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی ، خود سپریم کورٹ میں تقسیم ، جنوری میں ۹۰دن میں انتخابات کا ممکن نہ ہونا اور آئندہ کے لیے تاریخ کا تعین نہ ہونا ملک میں بے یقینی کی ایسی فضا پیدا کر رہا ہے جس کی موجودگی میں معیشت کا آگے بڑھنا بہت مشکل ہے۔

یہ ان حالات کا مختصر سا خلاصہ ہے جس سے ہمارا ملک گزر رہا ہے کہ بظاہر اس صورتحال سے نکلنے کا کوئی واضح راستہ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا، اور سُنا ہے کہ بہت سے لوگ مایوس ہو کر پاکستان چھوڑ چکے ہیں اور بہت سے چھوڑنے کی فکر میں ہیں۔ لیکن ہمارے دین نے ہمیں مایوسی سے منع کیا ہے۔ اگر دیانت داری کے ساتھ اس قسم کے حالات سے نکلنے کی صحیح تدبیر ہو سکے تو ملک ان شاء اللہ اس امتحان سے گزر جائے گا ۔اگرچہ عام آدمی کے بس میں یہ نہیں ہے کہ وہ ریاست کو صحیح راستے پر چلانے کے لیے کوئی اقدام کرے ، یہ کام اصحابِ اقتدار کا ہے ، لیکن ہر انسان خود اپنی اصلاح پر قادر ہے وہ خود اپنے آپ کو درست کرسکتا ہے، اور اپنے گناہوں سے استغفار کرکے وہ کام چھوڑ سکتا ہے جو نہ صرف اس کو بلکہ پورے ملک کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ لہذا سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ ہر شخص اس صورت ِحال میں وہ کام کرے جو ملک و ملت کی بہتری کا کام ہو سکتا ہے۔ دفتروں سے وہ رشوت ستانی ختم ہو جس کی نحوست سے پورا ملک بلبلا رہا ہے ۔ہر سرکاری اہلکار اپنے فرائض ایک دینی فریضہ سمجھ کر ادا کرے ۔جس کے قبضے میں جو اصلاح کی صورت ہو اسے اخلاص کے ساتھ اختیار کرے۔ اپنے فرائض منصبی دیانت داری سے ادا کرے،اور ماضی میں ملک کے ساتھ بے عملی اور بد عنوانیوں کے ذریعے جو ظلم کیا ہے، اس سے سچے دل سے تائب ہو۔
اور آخر میں انتہائی اہم بات!ہماری ساری توجہ، دوڑ دھوپ اور سوچ بچار صرف ظاہری اسباب کی حد تک محدود رہتی ہے، اور ہم یہ نہیں سوچتے کہ کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ خود سے نہیں ہو رہا۔ کائنات کے تمام زیر و بم اس خالق کائنات کے قبضے میں ہیں جسے کوئی انقلاب لانے کے لیے نہ کسی سبب کی ضرورت ہے نہ ظاہری ذرائع کی،اگر اس کی رحمت ہم پر متوجہ ہو جائے تو یہ سارے مسائل ہوا میں اڑ سکتے ہیں۔ ہماری کوتاہی یہ ہے کہ ہم حالات پر تبصرے اور افسوس کا اظہار تو کرتے ہیں،ہماری مجلسیں ان تبصروں سے بھری ہوتی ہیں، لیکن ان حالات کی اصلاح کے لیے اللہ تعالی سے مانگنا ہم نے چھوڑ رکھا ہے۔ اگر پاکستان کا ہر شخص روزانہ اللہ تعالی کے حضور حاضر ہو کر اپنے اور اپنی امت کے گناہوں کی معافی مانگے، سچے دل سے مانگے ،اور باری تعالی سے عاجزی اور گڑگڑا کر دعا کرے کہ اللہ تعالٰی خود ہماری اصلاح فرمادے، اور وہ ہمارے یہ حالات بدل دے ،تو خوب یاد رکھیے کہ اللہ تعالٰی کو ہم سے کوئی دشمنی نہیں ہے، خود ان کا ارشاد ہے کہ اگر تم شکر گزار اور ایمان والے بنو ، تو اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا؟ (سورۃ نساء :۱۴۷)
لہذا خود اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہونے کے ساتھ ہرمسلمان ہر نماز کے بعد اور ہر حالت میں یہ دعائیں مانگے، تو ممکن نہیں کہ حالات تبدیل نہ ہوں:
۱) یا اللہ ہماری شامت اعمال کو ہم سے دور فرما دیجیے۔
۲) یا اللہ ہمارے ملک کو ترقی ، استحکام اور خوشحالی کے راستے پر چلا دیجیے۔
۳) یا اللہ ہمارے عوام ، حکام اور زعماء کو نیک ہدایت فرمائیے۔
۴) اللّٰہُمَّ ضَعْ فِیْ أرْضِنَا بَرَکَتَہَا، وَزِیْنَتَہَا، وَسَکَنَہَا وَلَا تَحْرِمْنَا بَرَکَۃَ مَا أَعْطَیْتَنَا.
۵) اللّٰہُمَّ انْقَطَعَ الرَّجَاء ُ إلَّا مِنْکَ، نَجِّنَا مِمَّا نَحْنُ فِیْہِ، وَأَعِنَّا عَلی مَا نَحْنُ عَلَیْہِ، بِجَاہِ وَجْھِکَ الکَرِیْمِ، یَاحَیُّ یَاقَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ نَسْتَغِیْثُ، أَصْلِحْ لَنَا شَأنَنَا کُلَّہُ وَلَا تَکِلْنَا إلی أنْفُسِنَا طَرْفَۃَ عَیْنٍ.
۶) اللّٰہُمَّ اکْفِنَا کُلَّ مُہِمٍّ مِنْ حَیْثُ شِئْتَ وَمِنْ أَیْنَ شِئْتَ.
۷) اللّٰہُمَّ إِنَّا نَعُوْذُ بِکَ مِنَ الفِطَنْ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَن.
یہ ساری دعائیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمنے مانگی ہیں، اور اسی لیے مانگی ہیں کہ خاص طور پر ایسے حالات میں ہم ان کو اپنا وظیفہ بنائیں۔

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

(ربیع الاخر ۱۴۴۵ھ)