حضرت مولانا مفتی محمدتقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم

فلسطین پر اسرائیل کا وحشیانہ حملہ

حمدوستائش اس ذات کے لئے ہے جس نے اس کارخانۂ عالم کو وجود بخشا
اور
درود و سلام اس کے آخری پیغمبرپر جنہوں نے دنیا میں حق کا بول بالا کیا

فلسطین پر اسرائیل کے حالیہ جارحانہ وظالمانہ حملوں کی وجہ سے ہر دردمند مسلمان دل گرفتہ ہے ، رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے ۴؍ربیع الآخر ۱۴۴۵ ھ( ۲۰؍اکتوبر ۲۰۲۳ ء )کو جمعۃ المبارک کے موقع پر حاضرین سے جو خطاب فرمایا وہ اہم معلومات اورچشم کشا نکات کا خزینہ ہے ۔ افادئہ عام کے لئے یہ وقیع خطاب ہدیۂ قارئین ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ادارہ)


الحمد ﷲ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علی خیر خلقہ سیدنا ومولانا محمد خاتم النبیین وإمام المرسلین وقائد الغرّ المحجّلین، وعلی آلہ وأصحابہ أجمعین، وعلی کل من تبعھم بإحسان إلی یوم الدین۔

میرے محترم بزرگو بھائیو اور دوستو! السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ!
آج کل ہم مسلمان جن حالات سے گزر رہے ہیں ان میں کسی اور موضوع پر بات کرنا بے وقت معلوم ہوتا ہے۔ فلسطین کے مسلمانوں پر جو قیامت برپا ہے آج ہر مسلمان جس کو حالات کی خبر ہے وہ اس کی وجہ سے بے چین ہے۔ غزہ کے شہر میں جس وحشیانہ انداز میں بمباری کی گئی ہے تقریباً چارہزار سے زیادہ مسلمان، شہری آبادی کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیاجبکہ زخمیوں کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے ۔ اسپتالوں پر حملے ہورہے ہیں جو مریض زیر علاج ہیں ان کے اوپر حملے ہورہے ہیں بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو اس وحشت ناک بربریت کا شکار ہوگئی ہے۔
غزہ شہر کے بہت بڑے حصے کو کھنڈر میں تبدیل کردیا گیا۔ ان معصوم بچوں کے تڑپنے، کراہنے اور درد سہنے کے حالات کی اطلاع سے ہر مسلمان کا دل بے چین ہے۔ عالمی طاقتیں جو اپنے آپ کو انسانی حقوق کی علم بردار کہتی ہیں وہ نہ صرف خاموشی سے تماشہ دیکھ رہی ہیں بلکہ اس درندگی کی حوصلہ افزائی کررہی ہیں اور کھل کر یہ اعلان کیا جارہا ہے کہ ہم اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔
اس موقعہ پر دو باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں:
پہلی بات یہ ہے کہ اسرائیلی پروپیگنڈہ ہے جو ساری دنیا میں پھیلایا گیا ہے جس کی وجہ سے بہت سی حکومتیں جو غیر جانبدار بھی ہوں لیکن وہ غلط فہمی میں مبتلا ہوئیں۔
بعض اوقات یہ سوال خود مسلمانوں کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ حماس کو کیا پڑی تھی کہ وہ اسرائیل پر راکٹ داغ کر اس جنگ کو کھڑا کرتا، جب کہ اسے معلوم تھا کہ اسرائیل کی طاقت اس سے سو گنا سے بھی زیادہ ہے۔ یہ بھی معلوم تھا کہ اس کی پشت پر امریکا و برطانیہ اور پورا یورپ کھڑا ہے۔ تو وہ چند راکٹ داغ کر کیسے اس جنگ میں فتح حاصل کرسکتا ہے؟
لہٰذا بعض لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ حماس نے یہ خود کشی کا اقدام کیا ہے اور یہ کوئی عقل کی بات نہیں تھی کہ اتنی بڑی طاقت کو اس طرح للکار کر ایسی حالت میں جب کہ حماس کے پاس نہ کوئی فضائی طاقت ہے اور نہ اس درجے کے ہتھیار ہیں جیسے اسرائیل کے پاس ہیں اور امریکا اور برطانیہ ان کی مدد پر کھڑے ہیں۔ تو یہ ایک طرح سے خود کشی کا اقدام ہے۔
لیکن صورت حال یہ ہے کہ اسرائیل اپنی ذات میں کوئی قوت نہیں ہے۔ یہ ساری کی ساری قوت دے کر اس کو عالم اسلام کے بیچوں بیچ کھڑا کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد در حقیقت صرف فلسطین نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کے مقابلے میں ان کے خیال میں ایک ناقابل تسخیر قوت پیدا کردینا ہے۔
۱۹۴۷ء میں پاکستان قائم ہوا اور ۱۹۴۸؁ء میں اسرائیل کا قیام عمل میں آیا۔ ہزاروں لوگوں کا خون بہا کر دیر یاسین (Deir Yassin) (۱)کے اندر مسلمانوں کو ذبح کرکے ظلم و ستم کی انتہا کرکے ان کو اپنے گھروں سے نکال کر ۱۹۴۸؁ء میں یہودی ریاست قائم کی گئی ، اسی وقت قائد اعظم محمد علی جناح نے یہ کہا تھا کہ یہ مغربی طاقتوں کا ناجائز بچہ ہے۔
ایک طرف پاکستان ایک اسلامی قوت کے طور پر ابھر رہا تھا اسی وقت عالم اسلام کے بیچ میں ایک ناسور پیدا کردیا گیا جس کا نام اسرائیل ہے۔ پھر طرح طرح کے حیلوں بہانوں سے مسلمان ملکوں کو اس بات پر آمادہ کیا گیا کہ وہ اس کو تسلیم کریں یعنی ایک یہودی ریاست کے طور پر اس کو تسلیم کریں۔ کچھ ریاستیں دباؤ میں آکر انہیں تسلیم کرچکیں۔ مصر اور اردن نے اس کو بطور ایک ریاست کے تسلیم کرلیا۔
اب صورت حال ایسی بن رہی تھی کہ اس کو تسلیم کروانے کے لئے مسلمانوں کے مرکز یعنی سعودی عرب کے ساتھ تعلقات استوار کرانے کی کوشش کی جارہی تھی ۔ اگر ایک مرتبہ بھی سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرلیتا تو پھر دوسرے مسلمان ملکوں کے لئے مشکل ہوجاتا کہ وہ اس کو تسلیم نہ کریں لہٰذا اس کے ذریعے یہ سازش کی جارہی تھی کہ سارے مسلمان ملک اسرائیل کو ایک مستقل یہودی ریاست کے طور پر تسلیم کرلیں۔
ایسا نہیں ہے کہ حماس نے اچانک حملہ کردیا ہو، اسرائیل کے قیام سے لے کرآج تک فلسطینیوں کے اوپر ظلم و ستم اور بربریت کے اقدامات کی ایک اذیت ناک تاریخ ہے۔ اس کو ہر باخبر مسلمان جانتا ہے۔ کچھ کچھ عرصے بعد لگاتار فلسطین کے کسی نہ کسی حصے میں فلسطینیوں کو ذبح کیا جاتا رہا ہے۔ حماس نے محسوس کیا ہوگا واللہ اعلم کہ اگر ایک مرتبہ اسرائیل کو سارے عالم اسلام نے تسلیم کرلیا تو پھر یہ ناسور پوری طاقت کے ساتھ وجود میں آئے گا اور اس طرح صرف فلسطین ہی نہیں ان کا گریٹر اسرائیل کا جو منصوبہ ہے وہ وجود میں آجائے گا۔
اس لئے انہوں نے یہ سوچا کہ اس موقعہ پر اگر کوئی کاری ضرب لگادی جائے تو یہ تعلقات جو مختلف اسلامی ملکوں سے قائم ہو رہے ہیں کم از کم وہ رک جائیں گے اور ایسا ہی ہوا ان کے اس اقدام کی وجہ سے الحمد للہ مسلمان ملکوں میں ایک شعور پیدا ہوا اور وہ معاہدات جو ہونے جارہے تھے وہ ختم ہوگئے۔ پہلی کامیابی یہ حاصل کی۔
دوسرے فلسطین کے ان مجاہدین نے سوچا کہ آئے دن جو ظلم وستم ان پر توڑے جارہے ہیں ، وہ دھیرے دھیرے انہیں ختم کرنے کا منصوبہ ہے ۔ اور یہ اطلاعات بھی تھیں کہ اب کسی بڑے ظالمانہ اقدام کی تیاری ہورہی ہے ، اس لئے مرنا تو ہے ہی عزت کی موت کیوں نہ مریں۔ ایک مسلمان مجاہد کی موت کیوں نہ مرے ۔چنانچہ انہوں نے یہ اقدام کیا اور یہ اقدام اگرچہ عقل پرستوں کو سمجھ میں نہ آئے لیکن جس کے پیش نظر اللہ کے راستے میں شہادت کی تمنا ہوتی ہے، شہادت جس کی منزل مقصود ہوتی ہے اس کے لحاظ سے یہ بالکل درست اقدام ہے ۔
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اسرائیل کی جس شوکت اور دبدبے کا رعب چھایا ہوا تھا حماس نے اس رعب پر کاری ضرب لگائی۔ اگر استقامت کے ساتھ یہ جنگ جاری رہی اور جو مسلمان ملک ہیں وہ اپنے فرائض ادا کریں تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کچھ بعید نہیں ہے کہ یہ ایک فیصلہ کن معرکہ ہو اور اللہ تعالیٰ اس ناسور سے ہمیں نجات عطا فرمائے۔
دوسری بات جو میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ بعض ذہنوں میں یہ غلط فہمی رہتی ہے کہ اگر یہودی ایک ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں اور اس زمین میں قائم کرنا چاہتے ہیں جہاں ان کی تاریخ ہے۔ یعنی فلسطین کی زمین انبیاء کی سر زمین ہے اور بیشتر انبیاء کرام بنی اسرائیل سے آئے اور یہ یہودی بنی اسرائیل کی اولاد ہیں، اگر یہ وہاں پر اپنی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں تو اس میں کیا رکاوٹ ہے؟ کیوں اس کی مخالفت کی جاتی ہے؟ یہ پروپیگنڈہ اسرائیل کی طرف سے ساری دنیا میں پھیلایا گیا ہے کہ ہم اس زمین کے وارث ہیں، لہٰذا ہم اس بات کے حق دار ہیں کہ یہاں پر حکومت قائم کریں۔
میں یہ بات واضح کردوں کہ ہزاروں سال کی تاریخ میں فلسطین پر بنی اسرائیل کی حکومت صرف ۹۹ سال قائم رہی۔ اس سے پہلے فلسطین کے جو اصل باشندے ہیں وہ کنعانی ہیں۔ کنعانی وہ قوم ہے جو جزیرۂ عرب سے منتقل ہوکر فلسطین میں آکر آباد ہوئی۔ گویا اس کی جو ابتدا ہے وہ ان عربوں سے ہوئی ہے جو وہاں سے منتقل ہوکر فلسطین میں آباد ہوئے تھے اور صدیوں اس میں مقیم رہے۔ پھر حضرت موسی علیہ السلام کی تشریف آوری کے بعد حضرت سموئیل علیہ السلام کی قیادت میں فلسطین کو فتح کیا گیا۔ اس وقت سے لے کر ۹۹ سال بنی اسرائیل نے حکومت کی۔ اگرچہ وہ حکومت ٹوٹتی پھوٹتی رہی اور اس کے اندر مختلف دراڑیں پڑتی رہیں۔ خود ان کی بد اعمالیاں رنگ لاتی رہیںکہ انہوں نے انبیاء کرام کو قتل کیا۔ قرآن کریم میں اس کی صراحت ہے کہ اپنے دور حکومت میں انہوں نے انبیاء کرام کو قتل کیا ہے۔ اب بھی ان کی تاریخ اور تورات جو عہد نامہ قدیم بائبل کے اندر موجود ہے اس میں تصریح ہے کہ انہوں نے اس ننانوے سال کی تاریخ میں ہزاروںانبیاء کا قتل کیا ہے۔ فلسطین کے اوپر یہودیوں کی ننانوے سال میں جو آخری حکومت ختم ہوئی اس کو اٹھارہ سو سال گزر گئے ہیں یعنی ایک ہزار آٹھ سو سال۔ ان ایک ہزار آٹھ سو سال کے دوران ایک لمحے کے لئے بھی فلسطین میں یہودیوں کی حکومت موجود نہیں رہی۔ اب اٹھارہ سو سال کے بعد ایک آدمی یہ کہتا ہے کہ چونکہ میرے آباؤ اجداد وہاں پر مقیم رہے تھے، لہٰذا میں حق دار ہوں کہ اس وقت یہاں جو باشندے ہیں انہیں نکال باہر کروں اور میں حکومت کروں۔
یہ فلسفہ اگر ایک مرتبہ تسلیم کرلیا جائے تو بتاؤ موجودہ دنیا کا کیا حال بنے گا؟ پھر ریڈ انڈینز کہیں گے کہ امریکا کے اوپر ہماری صدیوں حکومت رہی ہے اور اس کو بہت زیادہ عرصہ بھی نہیں گزرا تو اب ہمارا حق ہے کہ ہم امریکا کے باشندوں کو امریکا سے نکال کر ریڈ انڈینز کی حکومت قائم کریں۔ کسی ایک ملک کے اوپر موقوف نہیں بلکہ ساری دنیا کے ممالک میں اگر یہ اصول تسلیم کرلیا گیاکہ موجودہ ساری حکومتیں تو ختم ہوجائیںاور اٹھارہ سو سال پہلے کے لوگ آکر آباد ہوں اور آباد ہوکر اپنی زمین سے موجود باشندوں کو نکالیں! یہ آخر دنیا کے اندر کوئی تسلیم کرسکتا ہے؟ لیکن یہ فلسفہ صرف اسرائیل کے حق میں تسلیم کیا گیا جب کہ اسرائیل یعنی بنی اسرائیل اور یہ یہودی دنیا کے مختلف ملکوں انگلینڈ، فرانس، سوٹزر لینڈ اور روس وغیرہ میں پھیلے ہوئے تھے اور کہتے ہیں کہ یہ سب جمع کرکے اکٹھے لا کر یہاں پر بسائے جائیں گے اور یہاں بسانے کے لئے اگر یہاں کے باشندوں کا قتل عام کرنا پڑا تو قتل عام بھی کیا جائے گا۔
چنانچہ ۱۹۴۸؁ء کے اندر سب سے زیادہ حصہ برطانیہ اور اس کے ساتھ امریکا کا ہے کہ انہوں نے مل کر اس ناجائز بچے کی پرورش کرنا شروع کی۔ ۱۹۴۸؁ء میں اسرائیل کے قیام کااعلان کیا۔ ادھر اسرائیل میں بنگوریون نے (Ben-Gurion)،جو اس وقت کا وزیر اعظم بنا تھا ،اِدھر اسرائیل کی ریاست قائم ہونے کا اعلان کیا اس کے دو گھنٹے کے بعد امریکا نے فوراً تسلیم کرلیا کہ ہاں ہم اس ریاست کو مانتے ہیں جبکہ اسرائیلی ریاست کا قیام دیر یاسین کے مذبح کے بعد آیا تھا، جس میں بے شمار بے گناہ فلسطینیوں کا قتل عام کیا گیا تھا، ان کو گھروں سے نکالا گیا تھا ، اس کے بعد یہ قائم ہوا تھا۔
لہٰذا یہ کہنا کہ ہمارا حق ہے یہ دعوی سیاسی طور پر بھی غلط ہے، کیونکہ اٹھارہ سو سال سے ان کی کوئی حکومت وہاں پر نہیں تھی بلکہ اس دوران کچھ عرصے عیسائیوں نے اور کچھ عرصے مسلمانوں نے حکومت کی۔
مسلمانوں کی حکومت کے دوران، ان کو پرامن طریقے سے مختلف جگہوں پر آباد کیا گیا البتہ خلافت عثمانیہ کے زمانے میں سلطان عبد الحمید رحمہ اللہ نے یہ فرمایا تھا کہ میں ان کو یہ نہیں کرنے دوں گا کہ وہاں جا کر اپنی آبادیاں بنائیں، لہٰذا انہوں نے یہ نہیں کرنے دیا لیکن خلافت عثمانیہ کے جس حصے میں بھی جہاں کہیں یہودی آباد تھے انہیں مذہبی آزادی حاصل تھی کہ اپنے مذہب پر عمل کریں کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ ان کے اوپر کوئی ظلم و ستم کیا جارہا ہو۔ اٹھارہ سو سال کے بعد یہ یہودی اب کہتے ہیں کہ اب ہمیں اس جگہ اپنی ریاست قائم کرنے کا حق ہے۔ سیاسی اعتبار سے اس بات کا غلط ہونا اس لئے واضح ہے۔
دوسری بات جو کہی جاتی ہے وہ دینی اعتبار سے ہے کہ یہاں پر حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام نے ہیکل تعمیر کیا تھا۔ ہم بھی اس کو تسلیم کرتے ہیں۔ خود قرآن کریم میں اس کا ذکر ہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے بنایا تھا حضرت سلیمان علیہ السلام نے مسجد اقصی تعمیر کی تھی۔ لیکن یہ بہت بڑا مغالطہ ہے کہ سب سے پہلے مسجد اقصی حضرت سلیمان یا حضرت داؤد علیہ السلام نے تعمیر کی تھی۔
حقیقت میں صورت حال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دو گھر بنائے تھے ایک گھر مکہ مکرمہ میں بیت اللہ اور اس کی تعمیر سب سے پہلے فرشتوں نے کی تھی پھر حضرت آدم علیہ السلام نے کی تھی پھر چونکہ اس کے نشانات مٹ گئے تھے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آکر اس کی نئی تعمیر فرمائی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام مسجد حرام کے بانی نہیں تھے بلکہ وہ مجدد تھے کہ انہوں نے اللہ کے حکم سے ان آثار کی تجدیدو تعمیر کی جو آثار مٹ گئے تھے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو حکم ہوا تھا۔
حضرت سلیمان علیہ السلام بھی بیت المقدس کے بانی نہیں ہیں۔ تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح کعبے کی تعمیر حضرت آدم علیہ السلام نے فرمائی تھی اسی طرح بیت المقدس کی تعمیر بھی حضرت آدم علیہ السلام نے کی۔ لیکن اس کے آثار مٹ گئے تھے تو حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام نے اس کی اسی طرح تجدید فرمائی جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبے کی تجدید فرمائی تھی۔ لہٰذا ایسا نہیں ہے کہ یہ بنی اسرائیل نے تعمیر کی ہو۔ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام نے تعمیر کی اور وہ ہمارے بھی پیغمبر ہیں تو اس لئے اس کی بنا پر یہودیوں کو اس پر دعوی کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا جب کہ ان کی کتاب جس کو وہ تورات اور عہد نامہ قدیم کہتے ہیں، اس کے اندر یہ مذکور ہے کہ سلیمان علیہ السلام آخر میں مرتد و کافر ہوگئے تھے، بت پرستی اختیار کرلی تھی۔ ایک طرف ان کی تورات یہ کہہ رہی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام مرتد و کافر ہوگئے تھے، بت پرستی کرنا شروع کردی تھی، قرآن کریم نے اس کی تردید کی ہے:

وَمَا کَفَرَ سُلَیْمَانُ وَلٰکِنَّ الشَّیَاطِیْنَ کَفَرُوْا
سلیمان (علیہ السلام) کافر نہیں ہوئے تھے لیکن شیاطین کافر ہوئے تھے۔

ایک طرف تو ان کو کافر، مرتد اور بت پرست کہہ رہے ہیں اور دوسری طرف یہ کہتے ہیں کہ یہ ان کی یادگار ہے اس واسطے ہم اس کے حق دار ہیں۔
چنانچہ نہ سیاسی اعتبار سے ان کا حق بنتا ہے اور نہ دینی اعتبار سے ان کا کوئی حق بنتا ہے۔ لیکن امریکا اور برطانیہ نے عالم اسلام کو منتشر کرنے کے لئے عالم اسلام کے دل میں لا کرایک ناسور پیدا کرنے کے لئے اسرائیل کو قائم کیا اور اس وقت سے مسلسل بغیر کسی توقف کے وہ وہاں کے باشندوں اور فلسطینیوں پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھا رہا ہے، اس لئے فلسطین کے ان مجاہدین نے ایک عرصہ دراز تک، ۳۵ پینتیس سال اذیت ، بربریّت اور غلامی کی اذیت جھیلنے کے بعدیہ حملہ کیااور اس حملے کے نتیجے میں جیسا کہ بالکل واضح تھا کہ اسرائیل کی طرف سے بھی اس کا مقابلہ ہوگا اور اس میں بہت سی شہادتیں ہوں گی ، وہ ہورہی ہیں۔
اس وقت وہاں کے مسلمانوں کے لئے یہ بہت بڑا المیہ ہے لیکن اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ پورا عالم اسلام ،جس کے استحکام کی خاطر، حماس کے مجاہدین میدان میں اترے ہوئے ہیں پورا عالم اسلام اس بارے میں خاموش ہے۔ بیانات بے شک دے دیئے گئے ہیں۔ تقریریں ہم بھی کر رہے ہیں لیکن ایسی کوئی عملی امداد یا اقدام کہ جس سے ان کو فائدہ پہنچے وہ نہیں ہے۔
شریعت کا حکم یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کے کسی خطے پر غیر مسلم حملہ آور ہوں تو سارے مسلمانوں پر الأقرب فالأقرب کے تحت جہاد فرض ہوجاتا ہے، یعنی سب سے پہلے اس خطے کے ساتھ رہنے والے جو مسلمان ہیں ان پر جہاد فرض ہوجاتا ہے اگر وہ کافی نہ ہوں تو ان کے برابر والوں پر، وہ کافی نہ ہوں تو ان کے برابروالوں پر، اس لحاظ سے جو قریب کے ممالک ہیں ان کے اوپر جہاد فرض ہے لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ جہاد بقدر استطاعت فرض ہوتا ہے۔ جس میں جتنی استطاعت ہو وہ اسی استطاعت کے مطابق جہاد میں شریک ہو، لہٰذا ان کی جانی، مالی اور دفاعی امداد تمام مسلمان ملکوں پرفرض ہے لیکن اس کے لئے ایسی حکمت عملی ضروری ہے جس سے ان کو فائدہ پہنچے نقصان نہ پہنچے۔ اس حکمت عملی کے لئے عالم اسلام کو چاہئے کہ وہ سر جوڑ کربیٹھے اور ایسی حکمتِ عملی تیار کرے۔
الحمد للہ خود ہماری حکومت پاکستان ایسی فوجی طاقت رکھتی ہے جو بہت کم ملکوں کو میسر ہے۔ اس کا فرض ہے کہ ان کی امداد کرے لیکن امدادایسی حکمت کے ساتھ کرے کہ جس سے ان کو فائدہ پہنچے، نقصان نہ پہنچے، اس کے لئے حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔ میں اس وقت اتنا ہی اشارہ کرسکتا ہوں کہ حکمت عملی کی ضرورت ہے اور اس حکمتِ عملی کے ساتھ ان کی امداد بشمول ِپاکستان ہر مسلمان ملک پر فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو توفیق دے۔
میں اپنی فوج کے بارے میں اتنی بات جانتا ہوں کہ بحمداللہ، اللہ کے فضل وکرم سے وہ مسلمان ہیں اور ان کے اندر ایمانی جذبات بھی ہیں، لہٰذا یہ بات مجھے مستبعد لگتی ہے کہ وہ اس معاملے میں بالکل خاموش بیٹھے ہوئے ہوں اور انہوں نے اس سلسلے میں کوئی حکمت عملی تیار نہ کی ہو اور مجھے امید ہے ان شاء اللہ وہ حکمت عملی تیار کی ہوگی، خدا کرے ایسا ہی ہو، ورنہ اگر ایک مرتبہ اسرائیل اس وقت کامیاب ہوگیا تو وہ صرف فلسطین تک محدود نہیں رہے گا بلکہ وہ پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور یہ ایسا سانپ ہے کہ اس کا سر اگر اس وقت نہ کچلا گیا تو پھر وہ دوسرے ملکوں کو ڈسنے کے لئے آگے بڑھے گا۔
لہٰذا سارے مسلمان ملکوں کو ایسی حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے جس کے ذریعے اس فتنے کا خاتمہ ہوسکے پھر جو عام مسلمان ہیں ان میں خود وہاں جاکر تو لڑنے کی طاقت نہیں ہے۔ اگر چلے بھی جائیں تو فائدہ کوئی نہیں لیکن جو امداد پہنچا سکتا ہے وہ امداد اس کو پہنچائے۔
ایک چھوٹی سی کوشش ہم نے بھی شروع کی ہے، کچھ مالی امداد ان لوگوں کو پہنچانے کی جو غزہ میں مصیبتوں کا شکار ہیں الحمد للہ وہ پہنچ بھی رہی ہے۔ اس میں بھی مسلمان اگر حصہ لینا چاہیں تو لیں اور ساتھ میں دعاؤں کا اہتمام کریں۔ یہ سوچو کہ اگر ہمارے اوپر بمباری ہورہی ہو، ہمارے بچے اور بوڑھے شہید ہورہے ہوں، ہماری عورتیں شہید ہورہی ہوں توکیا ہم چین سے بیٹھ جائیں گے؟ اس لئے جو کام بس میں ہے یعنی امداد وہ کرلی جائے اور اللہ تعالیٰ سے رجوع کیا جائے، الحاح وزاری سے دعا کی جائے۔ بندے کا کام یہی ہے کہ اپنی امکانی کوشش بھی کرے اور پھر اللہ تعالیٰ سے رجوع بھی کرے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے اس آیت کا مظاہرہ اس موقعہ پر دکھا دے کہ:
کَمْ مِنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً بِإِذْنِ اﷲِ
نجانے کتنی چھوٹی جماعتیں ہیں جو اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غالب آئی ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

(ماہنامہ البلاغ : جمادی الاولی ۱۴۴۵ھ)

">