حضرت مولانا مفتی محمدتقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم

فرشتہ صفت انسان

حمدوستائش اس ذات کے لئے ہے جس نے اس کارخانۂ عالم کو وجود بخشا
اور
درود و سلام اس کے آخری پیغمبرپر جنہوں نے دنیا میں حق کا بول بالا کیا

حقیقت یہ ہے کہ حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی قدس اللہ تعالی سرہ کے بارے میں کچھ عرض کرنا اپنی حیثیت سے بلند تصور کرتا ہوں اور اپنے آپ کو اس کے لئے نااہل پاتا ہوں۔ اگر چہ مجھے حضرت مولانا قدس اللہ تعالیٰ سرہ سے نیاز حاصل کرنے کا موقع کم ملا ہے اور میں بہت قریب سے ان سے استفادہ نہیں کر سکا، لیکن ان کی خدمات، ان کی شخصیت کی عظمت اور ان کا فیض میرے لئے ایسی چیز ہے جس کے بارے میں کوئی ادنی شک نہیں ہوسکتا۔
حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی قدس اللہ تعالیٰ سرہ اس دور میں امت مسلمہ کی رہنمائی کے لئے ایک روشن مینار کا کردار ادا کر رہے تھے ، اللہ تبارک و تعالی نے ان کو بہت سی عظیم خصوصیات سے نوازا تھا۔ وہ ندوۃ العلماء کے علاوہ دار العلوم دیو بند اور مظاہر علوم سہارنپور سے بھی فیض یاب ہوئے اور اللہ تبارک و تعالی نے انہیں یہ شرف عطا فر مایا کہ مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کے ساتھ سفر و حضر میں ان کی صحبت اٹھانے کا انہیں موقع ملا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کو جو علم اور امت کی فکر عطا فرمائی تھی ، اسی کے ساتھ ان اولیائے کرام سے اکتساب فیض کا موقع عطا فر مایا تھا جن سے در حقیقت ایک عالم دین اور ہر مسلمان کی شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے، اس کا نتیجہ تھا کہ اللہ نے ان کو علم وعمل کا ایسا پیکر بنایا تھا کہ وہ صرف الفاظ ونقوش کے علم کے حامل نہ تھے، بلکہ اس علم پر عمل کرنے کے جتنے مظاہر ہوتے ہیں، اللہ تبارک و تعالیٰ نے وہ سارے مظاہر ان میں جمع فرما دیے تھے۔
اس ناکارہ کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت مولانا علی میاںؒ کی زیارت اور ان سے براہ راست استفادہ کی توفیق بخشی اور خط و کتابت کے ذریعہ بھی الحمد للہ میں ان سے ہدایات لیتا رہا۔
ان کی شخصیت میں علم وعمل کی جو جامعیت تھی اور اسی کے ساتھ اللہ تبارک و تعالی نے انہیں امت کی فکر اور جو سوز دروں عطا فرمایا تھا، وہ اس دور میں خال خال ہی لوگوں کو نصیب ہوتا ہے، اسی بنا پر حضرت مولاناؒ نے غیر معمولی خدمات انجام دیں اور صرف ہند و پاک ہی میں نہیں بلکہ پورے عالم اسلام اور عرب دنیا کے اندر اٹھنے والے فتنوں کا مقابلہ کیا اور اس کی خاطر انہوں نے انتہائی درد مندی و دل سوزی اور اخلاص کے ساتھ ایسے پیغامات دیے جنہوں نے بہت سی زندگیوں کو بدل دیا۔ اگر ایک لفظ میں ان کی شخصیت کو یہ کہا جائے کہ وہ "سوز مجسم” تھے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا ۔
حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی ؒ کو ان سے جو تعلق قائم ہوا اور جس طرح انہوں نے ان کی صحبت اٹھائی اور سفر و حضر میں ان کی رفاقت کی سعادت انہیں نصیب ہوئی، اس کے نتیجہ میں وہ "حضرت مولانا علی میاںؒ کے عکس جمیل "بن کر اس دنیا کے سامنے پیش ہوئے اور جو مشن اور جو کام حضرت مولانا علی میاں قدس اللہ تعالی سرہ انجام دے رہے تھے، اس کام کو حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی قدس اللہ سرہ نے انہی کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق اور انہی صفات کے ساتھ نہ صرف یہ کہ قائم رکھا بلکہ اس کو اور آگے بڑھایا اور ساری دنیا تک پیغام پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت مولانا رابع حسنی قدس اللہ سرہ کو عربی ادب کا ملکہ بھی حضرت مولانا علی میاں کی طرح عطا فرمایا تھا۔ عربی ادب سے صحیح کام لینے اور اس کو صحیح طور پر استعمال کرنے کا جو سلیقہ مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی کو تھا، اللہ تعالی نے وہی سلیقہ اور انداز حضرت مولانا رابع حسنی ندوی قدس اللہ سرہ کو دیا تھا۔ جنہوں نے اپنی ادبی خدمات کے ذریعہ یہ واضح کردیا کہ ادب عربی کسی ذہنی عیاشی کا نام نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس کام کے لئے ہے کہ آدمی صرف اچھی نثر ونظم لکھے، بلکہ وہ اس لئے ہے کہ آدمی اس کے ذریعہ سے دنیا میں وہ پیغام پھیلائے اور دوسروں تک وہ آواز پہنچائے جو اللہ تبارک و تعالی نے قرآن کریم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ د نیا کو پہنچائی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی عملی تصویر بن کر دکھایا۔
مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی معیت میں حضرت مولاناسید محمد رابع حسنی ندویؒ سے مجھے کئی مرتبہ ملاقات کا موقع حاصل ہوا، اس کے علاوہ حضرت مولانا علی میاں ندویؒ کی وفات کے بعد بھی ایک دومرتبہ مجھے حضرت مولانا رابع صاحب سے نیاز حاصل ہوئی ، میں یہ سمجھتا ہوں کہ جتنی مرتبہ بھی حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی قدس اللہ سرہ کی مجھے زیارت نصیب ہوئی تو ایسا لگا جیسے انسانی روپ میں ایک فرشتہ ہمارے سامنے ہے۔ اللہ نے ان کو اُن اخلاق فاضلہ اور اُن صفات عالیہ کا ایک اہم پیکر بنایا تھا جو ایک اچھے مسلمان کے لئے اور اچھے عالم وداعی کے لیے ضروری ہے۔
حضرت مولانا علی میاں ندویؒ کی وفات کے بعد الحمد للہ مجھے حضرت مولانا رابع حسنی قدس اللہ سرہ سے ٹیلی فون اور خطوط کے ذریعہ استفادہ کا شرف حاصل رہا، اگر چہ یہ کم ہوا لیکن میں ان کو اپنا بڑا بزرگ اور مقتدیٰ سمجھتا ہوں اور الحمد للہ میں نے ان سے اپنے بعض اہم معاملات میں مشورے بھی لئے، بلکہ حضرت نے خود یہ کرم فرمایا کہ مختلف مواقع پر رابطہ فرما کراپنی ہدایات اور ارشادات سے مجھے نوازا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی وفات کسی ایک فرد یا کسی ایک خاندان کا صدمہ نہیں ہے، بلکہ یہ پورے عالم اسلام کا ایک بہت بڑا نقصان ہے، بلاشبہ آپ اس شعر کا مصداق ہیں ؎

وما کان قیس ہلکہ ہلک واحد
و لکنہ بنیان قوم تہدما

واقعہ یہ ہے کہ ان حضرات کا دنیا سے جانا ہمارے لئے ایک بہت بڑا صدمہ ہے اور ساتھ ہی ایک بہت بڑے خطرے کی نشان دہی بھی ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم ان کی روایات اور طریقوں کو بھلاکر محض الفاظ ونقوش کے علم کی حد تک محدود رہ جائیں اور اپنی زندگیوں کواس علم کے مطابق نہ ڈھالیں۔
اللہ کی سنت یہ رہی ہے کہ جب سورج ڈوبتا ہے توچاند ستارے آجاتے ہیں ، پھر وہ چاند ستارے ہی بعد میں جا کر سورج بن جاتے ہیں یعنی پھر دوبارہ سورج کی روشنی آجاتی ہے،لہٰذا اس قسم کے صدمات ساری دنیا میں پیش آئے ہیں اور اہل علم کی برادری میں خاص طور پر بہت پیش آئے ہیں ،لیکن یہ اللہ کا انمٹ قانون ہے کہ فَاِذَا جَاء اَجَلُہُمْ لَا یَسْتَاْ خِرُوْنَ سَاعَۃً وَّلَا یَسْتَقْدِمُوْنَ (الأعراف: ۳۴) (بس جب ان کا وہ وقت آپہنچا ہے تو وہ ایک لمحہ کے لیے بھی نہ آگے ہو سکتے ہیں اور نہ پیچھے)۔
معلوم ہوا اللہ تبارک و تعالی کے اس اٹل قانون میں کسی کودخل نہیں، اگر کسی کی قربانی کسی کی وفات کو مؤخر کر سکتی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ایک سانس کے بدلے اپنی ہزاروں جانیں قربان کر دیتے لیکن جو اللہ کا فیصلہ تھا اس کے آگے سب نے سر جھکایا اور صدمہ کے باوجود سب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کو آگے بڑھانے کی کوشش کی۔ اس لئے اس حادثہ کے موقع پر بھی میںیہی توقع رکھتا ہوں کہ حضرت مولانا رابع حسنی ندویؒ کی تعلیم وتربیت سے ان شاء اللہ ایسے افراد ضرور تیار ہوئے ہوں گے جو آئندہ ان کے مشن اور ان کے فیض کو نہ صرف جاری رکھیں گے بلکہ اس کو مزید ترقیات دیںگے، جس طرح انہوں نے اپنے شیخ حضرت مولانا علی میاں ندویؒ کے فیض کو جاری رکھا۔ اللہ اپنے فضل و کرم سے اس امید کو پورا فرمائے اور مجھے اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ یہ فیض جاری رہے گا۔
میں دل سے دعا گو ہوں کہ اللہ اپنے فضل و کرم سے ان کے درجات میں پیہم ترقی عطا فرمائے اور مقامات قرب میں ان کو خصوصی جگہ دے، ان کی خدمات کو اپنی بارگاہ میں شرف قبول بخشے اور ان کے فیوض سے ہمیں استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جو حضرات ان کے بعد آئے ہیں اللہ ان پر ان کے فیوض جاری رکھے۔ آمین!

(بشکریہ پیام عرفات)

٭٭٭

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

(محرم الحرام ۱۴۴۵ھ)