حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی

یادیں

(پچپن ویں قسط)

دارالمال الاسلامی کے شریعہ بورڈ سے ایک گفتگو
بہر کیف! فیصل بینک وہ پہلا مالیاتی ادارہ تھا جس سے میری وابستگی ہوئی ۔ بعد میں مجھے مصرف فیصل کے طریق کار میں کئی خامیاں نظر آئیں، اور بحرین کی حد تک ان میں سے بعض کی اصلاح بھی ہوئی۔ لیکن بعض معاملات ایسے تھے کہ ان میں مجھے شریعہ بورڈ کے دوسرے علماء سے رائے کااختلاف تھا۔ جب میں نے اپنے اختلاف کا اظہار کیا، تو کہا گیا کہ فیصل بینک درحقیقت ایک بڑے مالیاتی ادارے ”دارالمال الاسلامی” کاایک حصہ ہے جس کے تحت کئی مالیاتی ادارے کام کررہے ہیں۔ ”دارالمال الاسلامی” کا ایک بڑا شریعہ بورڈ ہے جس کی قرار دادیں اس کے تمام ذیلی اداروں پر نافذ ہوتی ہیں، اس لئے اگر کسی مسئلے پر اختلاف ہو، تو ”دارالمال الاسلامی” کے شریعہ بورڈ سے بات کرنی ہوگی جس کے سربراہ مصر کے سابق مفتی شیخ خاطر رحمۃ اللہ علیہ تھے، اور اس کے ارکان میں شیخ یوسف قرضاوی، شیخ صدیق الضریر رحمۃ اللہ علیہ، ڈاکٹر حسین حامد حسانؒ، اور پاکستان سے حضرت پیرکرم شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ شامل تھے۔
چونکہ”دارالمال الاسلامی ” کا مرکز سوئیٹزر لینڈ کے شہر جنیوا (۱)میں تھا، اس لئے اس کے شریعہ بورڈ کے زیادہ تر اجلاس جنیوا میں ہوتے تھے۔اس لئے بورڈ کے اجلاس میں اپنا موقف پیش کرنے کے لئے میں نے جنیوا کا دوسرا سفر کیا۔ یہ میرے لئے ایک مشکل موقع تھا کہ میرے سامنے بڑے سینئر علماء کا ایک مجمع تھا جس کی صدارت ازہر کے نامی گرامی بزرگ عالم شیخ خاطر رحمہ اللہ کررہے تھے، اور باقی تمام ارکان بھی مجھ سے عمر اور تجربے میں بہت بڑے تھے، اور ان کے ایسے فیصلوں سے اختلاف کرنا تھا جس پر وہ سب متفق ہوچکے تھے۔ بہر حال! میں نے جرأت کرکے وہاں اپنا موقف پیش کیا۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ان حضرات نے بھی میرے موقف کو کھلے دل سے سُنا، اور محض سرسری انداز میں رد نہیں کردیا، چنانچہ میری گذارشات میں سے کچھ باتیں مانی گئیں، اور کچھ نہیں۔ شیخ خاطر رحمہ اللہ تعالیٰ ایک بارعب شخصیت کے مالک تھے، لیکن میری نوعمری کے باوجود وہ علمی مسائل میں میری بہت ہمت افزائی فرماتے رہے۔
اس سلسلے میں ایک سب سے بڑی خرابی میری نظر میں یہ تھی کہ مرابحہ مؤجلہ کے عقد میں اگر خریدار جس کے ذمے قیمت واجب الاداء ہے، اگر مقررہ وقت پر اپنے واجبات ادا نہ کرسکے، تو اس سے ”تعویض” (ہرجانہ)کے نام پر کچھ رقم بینک وصول کرتا تھا۔ ہرجانے کے تعین کا طریقہ یہ تھا کہ اُس نے ادائیگی میں جتنی تاخیر کی ہے، اگر اتنی مدت کے دوران اسی بینک کے سرمایہ کاری اکاؤنٹ میں کچھ نفع ہوا ہو، تو اس نفع کی مقدار کے مطابق رقم نقصان کے معاوضے کے طورپر بینک وصول کرکے اسے اپنی آمدنی میں شامل کرتا تھا۔ گویا اگر یہ رقم مدیون سے وصول کرکے بینک اس کو اپنے سرمایہ کاری اکاؤنٹ میں شامل کرلیتا، تو اسے اتنا نفع ہوتا۔ مدیون کی عدم ادائیگی کی وجہ سے اسے اتنی رقم کا نقصان ہوا جو مدیون کی نادہندگی کی وجہ سے ہوا، اس لئے اسے اس نقصان کا ہرجانہ ادا کرنا چاہئے۔اصطلاحی الفاظ میں اسے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ”فرصت ضائعہ ” کا معاوضہ (opportunity cost)ہے۔میری نظر میں شریعت کے مطابق نقد رقم کی فرصت ضائعہ کا کوئی تصور نہیں ہے، اس لئے یہ طریق کارمیرے نزدیک واضح طورپر غلط تھا، اور جاہلیت والے ربا کے مشابہ تھا۔
میں نے جب اپنا موقف پیش کیا، تو میں ان کی رائے تبدیل کرنے میں اس وقت ناکام رہا۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ سودی اداروں میں تو اگر لوگ وقت پر ادائیگی نہ کریں، تو سود کا میٹر روزانہ بنیاد پر چلتا رہتا ہے، اس لئے لوگ وقت پر ادائیگی کااہتمام کرتے ہیں، غیر سودی بینکوں میں جب تاخیر کی وجہ سے کوئی اضافی رقم وصول نہیں کی گئی، تو لوگ شیر ہوگئے، اور باوجود امیر ہونے کے انہوں نے تاخیر شروع کردی، اس لئے ہمیں ہرجانے کے طورپر یہ رقم وصول کرنے کا یہ قاعدہ بنانا پڑا، اور اسے سود اس لئے نہیں کہا جاسکتا کہ اگر واقعۃً مدیون تنگدست ہو، تو اس سے یہ ہرجانہ وصول نہیں کیا جاتا، دوسرے یہ صرف اسی صورت میں وصول کیا جاتا ہے، جبکہ تاخیرکی مدت میں بینک کے سرمایہ کا ری اکاؤنٹ میں نفع ہوا ہو۔ اگر اس اکاؤنٹ میں نفع نہ ہوا ہو، تو کچھ وصول نہیں کیا جاتا۔
میرے نزدیک کئی وجہ سے یہ دلیل صحیح نہیں تھی، (جس کی تفصیل میں نے ”بیع بالتقسیط” پر اپنے مقالے میں بیان کی ہے جو میری کتاب ”بحوث فی قضایا فقھیہ معاصرۃ” کی پہلی جلد میں شائع ہوا ہے۔) اور میں سمجھتا تھا کہ اس ہرجانے کی موجودگی غیر سودی بینکاری کے چہرے پر ایک داغ بنی رہے گی۔ میں جب ”دارالمال الاسلامی” کے حضرات کو قائل نہ کرسکا، تو میں نے یہ مسئلہ ”مجمع الفقہ الاسلامی ” کے اجلاس میں پیش کیا، تاکہ وہاں بڑے پیمانے پر عالمی اجلاس میں اس پر غور کیا جاسکے۔ چنانچہ جب وہاں اس مسئلے پر بحث ہوئی، تو تقریباً اتفاق رائے سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ ہرجانے کی وصولی جائز نہیں ہے۔
تاہم یہ مسئلہ اپنی جگہ واقعۃً موجود تھا کہ لوگ اس بات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے مستقل ٹال مٹول کو اپنا وطیرہ بنائے ہوئے تھے، اور اس طرح مسلسل غیر سودی اداروں کو نقصان پہنچا رہے تھے۔ اس مسئلے کو حل کر نے کے لئے کراچی میں مجلس تحقیق مسائل حاضرہ کے اجلاس میں یہ طے کیا گیا تھا کہ ہرجانہ وصول کرنے کے بجائے مدیون یہ التزام کرے کہ اگر اس نے وقت پر ادائیگی نہ کی، تو وہ ایک متعین رقم صدقہ کرے گا۔ یہ رقم چونکہ بینک کی آمدنی میں شامل نہیں ہوگی، اس لئے اس سے بینک کو تو کوئی مالی اضافہ نہیں ملے گا، اس لئے یہ سود بھی نہیں ہوگا، لیکن مدیون پر ایک دباؤ رہے گا کہ وہ وقت پر ادائیگی کرے۔ اس کی تائید بعض مالکی علماء کے کلام میں بھی موجود ہے جس کی تفصیل میں نے اپنے مذکورہ مقالے میں بیان کی ہے۔ چنانچہ اس کے بعد سے غیر سودی بینکوں میں ہرجانے کی وصولی کا سلسلہ موقوف ہوگیا، اور اب وہ علماء حضرات بھی اس پر اصرار نہیں کرتے جو پہلے اس کے قائل تھے۔
فیصل بینک کی کراچی کی شاخ میں میرے اندازے کے مطابق کچھ عرصے تک کام ٹھیک چلا، لیکن پھر خرابیاں پیدا ہوگئیں،اور انہیں دور کرنے کے لئے میں نے اتنا وقت صرف کیا کہ شاید کسی اور ادارے میں نہیں کیا، لیکن افسوس ہے کہ میں اصلاح میں ناکام رہا۔بینک کی انتظامیہ میں بہت سی تبدیلیاں ہوتی رہیں۔ہر انتظامیہ اصلاح کے وعدے بھی کرتی تھی، ان کے ساتھ لمبے لمبے اجلاس بھی ہوتے تھے،لیکن عملی طورپر بات آگے نہیں بڑھ رہی تھی۔
آخرکار ایک انتظامیہ ایسی آئی جس سے میں بالکل مایوس ہوگیا۔ میں نے شہزادہ محمد بن فیصل مرحوم سے ایک ذاتی ملاقات میں تمام خرابیاں تفصیل سے بیان کیں، اور یہ بھی عرض کردیا کہ اگر وہ دور نہ ہوئیں، تو میں مزید خدمت سے معذور رہوںگا۔ جیساکہ پہلے عرض کیا، نئی نتظامیہ کو اصلاح کی طرف کوئی دھیان نہیں تھا، اس لئے آخر کار میں اس سے مستعفی ہوگیا۔اور بعد میں یہ ہوا کہ پاکستان میں اس بینک کا نام بھی تبدیل کردیا گیا۔ پہلے وہ ”فیصل اسلامک بینک” کہلاتا تھا۔اب اس کے نام سے ”اسلامک” کا لفظ بھی ہٹا دیا گیا، اور وہ نام اور کام کے لحاظ سے دوسرے سودی بینکوں ہی کی طرح کاایک سودی بینک بن گیا، اور اس لحاظ سے اچھا ہوا کہ نام سے جو دھوکہ لگ سکتا تھا، اس کاراستہ بھی بند ہوگیا(۲)۔
میزان بینک کا قیام
پاکستان میں فیصل بینک کے تجربے کی ناکامی کے بعد اسلامی بینکاری کا کوئی قابل اعتماد ادارہ موجود نہیں تھا۔ کچھ عرصے کے بعد ایک مرتبہ میں بحرین سے کراچی آرہا تھا تو میرے دوست جناب اقبال احمد صدیقی صاحب نے راستے میں ذکر کیا کہ بحرین کا ایک گروپ وہاں کے شاہی خاندان کے معزز رکن شیخ ابراہیم خلیفہ کی سربراہی میں پاکستان میں ایک غیر سودی بینک میزان بینک کے نام سے قائم کرنا چاہتا ہے، اس میں آپ کی خدمات درکار ہوں گی۔ فیصل بینک کے ناخوشگوار تجربے کے بعد میرے دل میں کچھ بددلی سی پیدا ہوگئی تھی۔اس لئے اس وقت میں نے کوئی وعدہ نہیں کیا۔بعد میں جب یہ بینک قائم ہوگیا تو اس کے منتظم اعلیٰ (چیف ایگزیکٹو) کے طورپر جناب عرفان صدیقی صاحب کو نامزد کیا گیا جن سے میرا پُرانا تعلق تھا، اور ان کے دینی مزاج سے میں واقف تھا۔انہوں نے پوری سنجیدگی کے ساتھ اس بینک کو شرعی تقاضوں کے مطابق چلانے کا عزم ظاہر کیا جس سے مجھے امید بندھی، اور میں نے اس کے شریعہ بورڈ کی صدارت قبول کرلی۔الحمد للہ انہوں نے بڑی حد تک اپنے عزم کو پورا کیا، اور اس کا پورا ڈھانچہ میری تجاویز کے مطابق وضع کیا۔اس کو صحیح رُخ پر چلانے میں میرے بیٹے ڈاکٹر عمران اشرف عثمانی سلمہ کا بہت بڑا دخل تھا۔ انہوں نے شرعی معاملات کی مؤثر نگرانی اور تمویلات کی مختلف قسموں کی صورت گری کے لئے ایک قابل ٹیم تیار کی جو تقریباً چالیس افراد پر مشتمل ہے، اور ہر قسم کے معاملات کے لئے مفصل ضابطے متعین کرکے بینک کو اس کا پابند بنایا، اور اس طرح وہ بفضلہ تعالیٰ کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے، اور اس کی مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے، یہاں تک کہ اسے ملک کے سب سے معیاری بینک کا اعزاز بھی ملا ہے۔
کچھ دوسرے مالیاتی اداروں سے تعلق
میں جس زمانے میں فیصل بینک کے شریعہ بورڈ پر تھا، اسی زمانے میں متعدد اسلامی مالیاتی اداروں نے بھی مجھے دعوت دی۔ فیصل بینک کے بعد شاید سب سے پہلے مجھے عرب بینکنگ کارپوریشن (اے بی سی)کی طرف سے دعوت دی گئی،جس کا مرکز بھی بحرین میں تھا، انہوں نے جو یقین دہانی کرائی، اس میں یہ وعدہ کیا کہ وہ فیصل بینک کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے، اس کے شریعہ بورڈ کے سربراہ ”الفقہ الإسلامی وأدلتہ” کے مصنف شیخ وہبہ زحیلی رحمۃ اللہ علیہ تھے، اور پھر میں نے اپنے دوست شیخ عبدالستار ابوغدہؒ کو بھی شامل کروایا۔بعض کمزوریوں کے باوجود یہاں کا طریق کار واقعی نسبۃً بہتر تھا، اس لئے کئی سال میں ان کے ساتھ رہا، لیکن دارالعلوم وغیرہ کی مصروفیات کی وجہ سے میں وہاں سے بھی مستعفی ہوا، حالانکہ شیخ وہبہ زحیلی رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ سے کہا کہ میں بورڈ کی صدارت سے تمہارے حق میں دستبردار ہوتا ہوں، تم بحیثیت صدر یہاں کام کرو۔ لیکن میری مجبوری تھی، میں ان کی یہ خواہش پوری نہیں کرسکا۔
عالمی بینکوں کا اسلامی بینکاری کی طرف رجحان
اسی دوران یہ واقعہ پیش آیا کہ میں بحرین میں تھا، وہاں کے سب سے بڑے بینک گلف بینک کے سربراہ ایک سفید فام انگریز تھے۔ وہ مجھ سے ہوٹل میں ملنے آئے، اور کہا کہ ہم اپنے بینک کا ایک حصہ (جسے اصطلاح میں window کہا جاتا ہے) اپنی طرف سے کھولنا چاہتے ہیں، آپ اس میں ہماری رہنمائی کریں۔میں نے ان سے پوچھا کہ آپ مسلمان تو ہیں نہیں،پھر اسلامک ونڈو قائم کرنے کا تقاضا آپ کے دل میں کیسے آیا؟ انہوں نے اس کا جواب یہ دیا کہ مسلمان ملکوں میں جب ہم سود کی بنیادپر اپنے گاہک تاجروں سے معاملہ کرنا چاہتے ہیں، تو وہ یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمیں شریعت کے مطابق تمویل چاہئے۔ یہ سن کر مجھے خوشی ہوئی کہ الحمد للہ تعالیٰ مسلمان تاجروں میں یہ شعور پیدا ہورہا ہے، اور اگر یہ شعور استقامت کے ساتھ جاری رہے، اور اس میں اضافہ ہو،تو یہ کایا پلٹ سکتا ہے۔ میں نے ان کے ساتھ کام کرنے سے تو معذرت کرلی، لیکن چونکہ مسلمانوں میں غیر سودی بینکوں کی طلب بڑھتی جارہی تھی، اس لئے اب دنیا کے مشہور سودی بینکوں نے بھانپ لیا کہ یہ ایک نئی مارکیٹ وجود میں آرہی ہے، اس لئے بیشترمغربی اور عالمی بینکوں، مثلاً سٹی بینک، ہانگ کانگ شنگھائی بینک، اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک،سعودی امریکن بینک وغیرہ میں یہ رجحان تیزی سے پھیلنا شروع ہوگیا کہ وہ اپنے بڑے بینکوں میں غیر سودی شعبے قائم کریں۔چنانچہ ایک کے بعد ایک بینک نے مجھ سے رابطہ کرنا شروع کردیا کہ میں ان کے شریعہ بورڈ میں کام کروں۔
اس موقع پر دو قسم کے خیالات نے مجھے کچھ عرصے تردد میں مبتلا رکھا۔ایک طرف ان عالمی بینکوں میں جنہوں نے دنیا بھر میں سودی نظام کو فروغ دیاہے، کسی بھی حیثیت سے کام کرنے کو دل نہیں چاہتا تھا، اور اس خیال سے تکدر پیدا ہوتا تھا کہ اس راستے سے انہیں کوئی نفع پہنچایا جائے۔لیکن اس کاایک اور پہلو بھی تھا، اور وہ یہ کہ دنیا میں غیر سودی بینکاری کو فروغ ملنے کاراستہ بھی انہی بینکوں کے ذریعے کھل سکتا تھا، دوسرے ہمارے مسلم ممالک میں یہ غلامانہ ذہنیت عام ہے کہ جس چیز کومغربی دنیا قبول کرلے، اسے یہاں بھی قابل قبول منوانے میں نسبۃً آسانی ہوتی ہے۔اس پہلو کو ترجیح دیتے ہوئے میں نے متعدد عالمی اداروں کے شریعہ بورڈز کی رکنیت قبول کرلی۔
چنانچہ اسی دوران برطانیہ کی ایک کمپنی ” رابرٹ فلیمنگ ” نے مجھ سے رابطہ کیا کہ ہم اسی طرح حلال کمپنیوں کے شئیرز کاایک فنڈ قائم کرنا چاہتے ہیں،جیسا معظم علی صاحب مرحوم کے پیش نظر تھا۔ اس میں عام لوگ اور غیر سودی بینک حصہ لے سکتے ہیں۔ یہ کام چونکہ بینکوں کے کام سے ہلکا تھا، اس لئے میں نے قبول کرلیا، اور انہوں نے میر ی سربراہی میں میرے دوست ڈاکٹر عبدالستار ابوغدہ اور ڈاکٹر نزیہ حماد کے ساتھ اس کا شریعہ بورڈ بنالیا، جس کے لئے لندن اور لکسمبرگ کے کئی سفر کرنے پڑے،لیکن اس کے نتائج اچھے رہے، بعد میں وہ کمپنی تحلیل ہوگئی،اور اس کے ذریعے یہ کام جاری نہیں رہ سکا۔
سٹی اسلامک بینک
عالمی بینکوں میں سب سے پہلے دنیا کا مشہورترین بینک ”سٹی بینک”آگے آیا، اور اُس نے صرف ایک شاخ ہی نہیں، بلکہ ایک مستقل ادارہ ” سٹی اسلامک بینک” کے نام سے قائم کرلیا جس کا مرکز بھی بحرین میں تھا۔ اس میں مجھے، ڈاکٹرنزیہ حماد اور ڈاکٹر عبدالستار ابوغدہؒ کو دعوت دی گئی کہ ہم ان کے شریعہ بورڈ کی رکنیت قبول کریں۔۔مجمع الفقہ الاسلامی میں ان کے ساتھ کام کرتے ہوئے مجھے اندازہ تھا کہ ان دونوں کی فقہ پر اچھی نظر ہے، انہوں نے مجھے اس کا صدر بناکر کام شروع کیا، ابتدائی کام کا خاکہ تفصیل سے تیار ہوگیا، اور اُس پر کام بھی شروع ہوگیا۔ سٹی بینک چونکہ ایک عالمی بینک تھا، اس لئے اس کے معاملات دنیا بھر میں بڑی وسعت کے ساتھ پھیلے ہوئے تھے۔چنانچہ اس سے عالمی سطح پر تمویلات کے بڑے بڑے منصوبوں اور نت نئے مسائل سمجھنے اور انہیں حدود شریعت میں رہ کر انجام دینے کے لئے بڑی دقتِ نظر اور محنت سے کام کرنا پڑا، لیکن الحمد للہ بحیثیت مجموعی کام اطمینان بخش طریقے سے ہوتا رہا۔
اسی دوران ان لوگوں کو خیال ہوا، کہ وہ رابرٹ فلیمنگ کی طرح کاایک فنڈ بنائیں جس میں کمپنیوں کے شیئرز خریدنے اور بیچنے کا کاروبار ہو۔اس قسم کے کاروبار میں یہ ہوتا ہے کہ اگرکسی کمپنی کا کوئی ذریعۂ آمدنی اتفاقاً ناجائز ہو، ادر اس کا تناسب پانچ فی صد سے زائد نہ ہو، تو اس کے منافع میں سے وہ ناجائز آمدنی بغیر نیت ثواب خیرات میں صرف کی جاتی ہے، اور اس کو خیرات میں صرف کرکے باقی آمدنی فنڈ کے شرکاء میں تقسیم ہوتی ہے۔ سٹی اسلامک بینک کا مرکز بحرین میں تھا،اور اُس کے ذمہ دار اس وقت ایک پاکستانی نژادمیمن تھے، ان کااصرار ہوا کہ یہ ناجائز آمدنی فنڈ کی طرف سے خیرات کرنے کے بجائے ہر حصہ دار کو اس کا پورا حصہ دیا جائے، اور اس کو یہ ہدایت کردی جائے کہ وہ اپنی آمدنی کا پانچ فی صد حصہ خود خیرات کردے۔جب میں نے یہ بات ماننے سے انکار کیا، تو انہوں نے کہا کہ قانون کی رُو سے ہم حصہ داروں کے نفع کا کوئی حصہ غیر تقسیم شدہ نہیں رکھ سکتے۔
مجھے رابرٹ فلیمنگ میں اپنے سابق تجربے کے تحت ظن غالب تھا کہ جب فنڈ کے پراسپکٹس میں اس کی صراحت کردی جائے، تو ناجائز آمدنی فنڈ کی طرف سے خیرات کرنے پر ایسی کوئی قانونی پابندی نہیں ہے۔ لیکن انہوں نے پورے جزم کے ساتھ قانونی پوزیشن وہی بتائی جس پر انہیں اصرار تھا، اس پر میں نے ان سے کہا کہ کسی قانونی ماہر سے پوچھ کر ہمیں اس کا تحریری جواب متعلقہ قانون کے حوالے سے بتایا جائے ۔
چند دن کے بعد انہوں نے ایک قانونی ماہر کا خط مجھے دکھایا۔ میں نے دیکھا کہ یہ اول تو سٹی بینک ہی کا قانون داں ہے، کہیں باہر کا نہیں، دوسری طرف اصل سوال کے جواب میں اس کی عبارت بھی گول مول سی نظر آرہی تھی۔ اس پر میں نے عرض کیا کہ ہم سوال خود مرتب کرتے ہیں، اس کا جواب کسی غیر جانب دار قانون داں سے ہمیں منگواکر دکھایا جائے۔ جب وہ جواب آیا، تو ثابت ہوگیا کہ ایسی کوئی قانونی پابندی نہیں ہے۔
مجھے اصرار اس لئے تھا کہ فنڈ کی شرعی حیثیت اُس وقت تک ثابت نہیں ہوسکتی جبتک وہ خود ناجائز آمدنی سے پاک ہونے کااہتمام نہ کرے۔ صرف حصہ داروں کو ہدایت جاری کرنے میں یہ قوی احتمال موجود تھا کہ بہت سے لوگ اس پر عمل نہ کریں۔جب یہ قانونی رائے بھی واضح ہوگئی، تو میں نے ان سے کہا کہ اب ان ذمہ دار صاحب کی بات پر ہمیں بھر وسہ نہیں رہا، اس لئے میں ان کے ساتھ کام نہیں کرسکتا، اس لئے میں استعفاء دیکر واپس چلا آیا۔
سٹی بینک کے شرق اوسط کے ذمہ دار محمد شروقی صاحب تھے۔ جب میں بحرین سے واپس کراچی آگیا، تو شروقی صاحب کا میرے پاس فون آیا کہ میں آپ سے ملنے کے لئے کراچی آنا چاہتا ہوں۔ میں نے عرض کیا کہ اگر صرف ملاقات کے لئے آنا چاہتے ہیں، تو ضرور تشریف لائیں، آپ میرے مہمان ہوںگے، لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ آپ میرے استعفاء کو واپس لینے کے لئے کہیں گے، اور میرے دل پر یہ بوجھ ڈالیںگے کہ آپ اتنی دور سے صرف اس مقصد کے لئے آئے ہیں، تو میں اپنے فیصلے کو بدلوں۔اس لئے میں پہلے ہی کہہ دیتا ہوں کہ آپ براہ کرم اس غرض سے تشریف نہ لائیں، اس لئے کہ میرااعتماد آپ کی انتظامیہ سے مجروح ہوچکا ہے، اب میں ان کے ساتھ کام کرنے سے معذور ہوں۔اس کے بعد انہوں نے آنے کاارادہ ملتوی کردیا، اور میں اپنے فیصلے پر قائم رہا۔
یہ داستان میں نے اس لئے لکھی ہے کہ اب ماشاء اللہ تعالیٰ نوجوان علماء کی خاصی تعداد مالیاتی اداروں کے مشیر کے طورپرکام کررہی ہے،انہیں ہر وقت اس کاا ہتمام کرنا چاہئے کہ وہ محض انتظامیہ کی زبانی باتوں سے کسی دھوکے میں نہ آئیں، بلکہ جب ان کے سامنے کوئی قانونی رکاوٹ بیان کی جائے، تو متعلقہ قانون کا خود جائزہ لیں، اور پھر یہ فیصلہ کریں کہ اول تو کوئی قانونی مجبوری ہے یا نہیں، اور اگر ہے، تو اس کی بنیاد پر کوئی سہولت دینا شرعاً ممکن ہے یا نہیں؟
اسلامی بینکاری کے ضوابط پر ایک انگریزی تصنیف
اب تک اسلامی بینکوں کے لئے کوئی ایسی کتاب وجود میں نہیں آئی تھی جو ان کے معاملات کے لئے حوالے کے طورپر استعمال کی جائے۔اس وقت تک جو اسلامی بینک بنے تھے، ان کی ہیئات الرقابۃ الشرعیۃ (شریعہ بورڈز) کے فتاویٰ پر ہی کام چل رہا تھا، انہی کی بنیاد پر ان کے معاملات کی نگرانی کی جاتی تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ بینکوں کے عقود اور معاملات زیادہ تر انگریزی میں ہوتے ہیں، اس لئے ایک ایسی جوالے کی کتاب انگریزی ہی میں ہونی ضروری ہے۔اس ضرورت کے تحت میں نے ایک کتاب Introduction to Islamic Finance Anکے نام سے تالیف کی جس میں تمویل کے جائز اسلامی طریقوں، ان کے بنیادی احکام اور ان کی شرائط تفصیل کے ساتھ اس انداز سے بیان کیں جو بینکوں کے قانون دانوں اور عملے کی سمجھ میں آسکیں۔اس کتاب نے رفتہ رفتہ واقعۃً اسلامی مالیاتی اداروں کے لئے ایک مستند حوالے کی حیثیت حاصل کرلی، اور جبتک ”معاییر شرعیہ” وجود میں نہیں آئے، اس وقت تک یہی کتاب ایک بنیادی مأخذ کے طورپر استعمال ہوتی رہی۔ابتداء ً اسے ہم نے کراچی سے اپنے مکتبے ”ادارۃ المعارف” سے شائع کیا تھا۔ بعد میں یہ بعض مغربی ملکوں، مثلاً ہالینڈ کے ایک ناشر نے بھی شائع کی، اور انٹرنیٹ پر بھی دستیاب رہی۔
یہ کتاب مالیاتی مسائل کے اصولوں پر مشتمل تھی۔ بعد میں میرے بیٹے ڈاکٹر عمران اشرف عثمانی سلمہ نے ان اصولوں پر عملی تطبیقات اور کیس اسٹڈیز کا اضافہ کرکے ایک زیادہ مفصل کتاب مرتب کردی جس سے مالیاتی اداروں کے لئے عملی کام اور آسان ہوگیا۔

جاری ہے ….

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

(ماہنامہ البلاغ :ذیقعدہ ۱۴۴۳ھ)


(۱)یہ بھی ایک ستم ظریفی تھی کہ شہزادہ محمد بن فیصل سعودی عرب کے شہزادے تھے، لیکن جب انہوں نے غیر سودی ادارے قائم کرنے کاارادہ کیا، تو سعودی عرب میں انہیں اس وقت اسکا لائسنس ملنا ممکن نہیں تھا، کیونکہ اسلامی ادارے کا لائسنس ملنے کا مطلب اس کا اعتراف ہوتا کہ دوسرے ادارے غیر اسلامی یا سودی ہیں، حالانکہ سرکاری سطح پر یہ بات تسلیم نہیں کی جاتی تھی وہاں کے بینک سودی یا غیر اسلامی ہیں، بلکہ سود کا نام وہاں کمیشن وغیرہ رکھا ہوا تھا۔ اس لئے وہ مجبور ہوئے کہ اپنا ادارہ وہ سوئٹزرلینڈ میں قائم کریں۔ الحمد للہ اب سعودی عرب میں صورت حال تبدیل ہوگئی ہے، اور اب اسلامی بینکوں کو لائسنس مل گیا ہے، اور وہاں بہت سے اسلامی بینک قائم ہوچکے ہیں۔

(۲) اب چند سالوں سے اس بینک نے ایک شعبہ اسلامی بینکاری کے نام سے پھر قائم کیا ہے، اور رفتہ رفتہ اسے دوبارہ مکمل اسلامی بینک بنانے کی کوشش ہورہی ہے، اورہمارے ساتھیوں میں سے بعض علماء اس کی نگرانی کررہے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ اس بار انتظامیہ اخلاص کے ساتھ اس کوشش میں مصروف ہے، اور دوسری طرف جیسا کہ میں آگے عرض کروںگا، الحمد للہ اب اسٹیٹ بینک کی طرف سے بھی اسلامی بینکوں کی شرعی حیثیت کی نگرانی ہوتی ہے اس لئے امید ہے کہ ان شاء اللہ اس کوشش میں کامیابی ہوگی۔