حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی

یادیں

(چھپن ویں قسط)

سایچ ایس بی سی ے تعلق
سٹی بینک کے بعد ایک اور عالمی شہرت کے بینک ہانگ کانگ شنگھائی بینک نے (جو ایچ ایس بی سی کے نام سے مشہور ہے) مجھ سے رابطہ کیا۔ اس نے بھی ایک غیر سودی شاخ بنائی، اور ہمارے دوست اقبال احمد خان صاحب کو اس کا سربراہ متعین کیا۔ اقبال احمد خان صاحب کو میں مدت سے جانتا تھا کہ وہ ما شاء اللہ دینی جذبے کے آدمی ہیں، اور ان پر یہ اعتماد کیا جاسکتا ہے کہ وہ شریعہ بورڈ کے فیصلوں کی پابندی کریں گے، اس لئے میں نے اس بورڈ کی سربراہی منظور کرلی جس میں میرے ساتھ ڈاکٹر نزیہ حماد، ڈاکٹر عبدالستار ابوغدہ اور بحرین کے شیخ نظام یعقوبی صاحب بھی رکن کی حیثیت میں موجود تھے، ایک عرصے تک میں اس بینک سے بھی وابستہ رہا۔
مجھے معاشیات اور مالیات کے فنون سے ذاتی اور طبعی قسم کا ایسا لگاؤ نہیں تھا کہ وہ میری پسند کا موضوع ہو، لیکن مجھے یہ دُھن سی لگ گئی تھی کہ غیر سودی بنکاری کسی طر ح فروغ پائے، اور سیدھے راستے پر چلے، اس لئے جب کسی ایسے ادارے سے دعوت ملتی جس سے کچھ توقعات وابستہ ہوسکتیں، تو میں اس میں کسی نہ کسی حیثیت میں شامل ہوجاتا، اور اس طرح یکے بعددیگرے بہت سے مالیاتی اداروں کے شریعہ بورڈز سے منسلک رہا ، اور اس غرض کے لئے بڑے لمبے لمبے سفر بھی کئے۔میرا بنیادی مقصد یہ ہوتا تھا کہ میں ایک مرتبہ ان کے طریق کار اور متعلقہ عقود (contracts) کو شرعی اعتبار سے درست کردوں۔ چونکہ یہ عقود انگریزی میں ہوتے، اور شریعہ بورڈ کے دیگر حضرات ان کے صرف ترجمے ہی پر انحصار کرسکتے تھے، اس لئے اصل انگریزی عقود کو جانچنے کی بنیادی ذمہ داری صرف مجھ پر آپڑتی تھی۔اس کے لئے مجھے سوسو ڈیڑھ ڈیڑھ سو صفحات کے عقود کا گہری نظر سے جائزہ لینا پڑتا تھا۔ چونکہ ان عقود کا مسودہ عام قانونی ماہرین تیار کرتے تھے جو فقہی نزاکتوں کاادراک نہیں رکھتے تھے، اس لئے مجھے اس جائزے میں انتہائی دماغ سوزی کرنی پڑتی تھی، اور متعلقہ قوانین کا بھی جائزہ لینا پڑتا تھا، پھر ان میں ترمیمات کرکے قانونی ماہرین سے انہیں منوانا پڑتا تھا۔اور اس کام کے لئے ان سے بحث کے دوران مجھے سختی سے بھی کام لینا پڑتا تھا۔قانونی معاہدوں میں اس بات کی بڑی گنجائش ہوتی ہے کہ صرف ایک لفظ کے فرق سے معاہدے کی روح ہی بدل جائے، اور بعض مرتبہ ایک قضیہ اس کی کسی ایک دفعہ میں جس طرح بیان کیا گیا ہے، کوئی دوسری دفعہ اس کا سارا زور کم یا ختم کردیتی تھی، ایسے مواقع پر جب میں غلطی پکڑکر اسے درست کرواتا، تو بڑے بڑے گھاگھ قانون داں بھی شرمندہ ہوجاتے، اور جب میں اس پر ناراضی کا اظہار کرتا، تو معذرت کرتے کہ یہ غلطی جان بوجھ کر نہیں، نادانستگی میں ہوئی ہے۔
اس طرح مجھے مختلف اداروں کے ایسے مفصل عقود اور معاہدات تیار کرنے کا موقع مل گیا جو بعد میں دوسرے اداروں کے لئے بھی ایک نظیر بن گئے۔لیکن جب میں کسی ادارے کے بنیادی ڈھانچے اور اس کے عقود درست کرنے اور ان کی نگرانی کا طریق کار متعین کرنے میں کامیاب ہوجاتا، تو اس ادارے کو چھوڑدیتا تھا، کیونکہ یہ موضوع میں نے صرف ضرورت کے تحت اختیار کیا تھا، اس سے میری ذاتی اور طبعی دلچسپی کبھی نہیں رہی۔اصل دلچسپی درس وتدریس اور طالب علمانہ تصنیف وتالیف سے تھی، اس لئے کسی بھی ادارے میں غیر ضروری مدت کے لئے رہنا مجھے گراں گذرتا تھا۔ اس طرح جن مختلف بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے میرا تعلق رہا، ان میں اپنے حصے کا مذکورہ بالا کام کرکے میں انہیں چھوڑتا رہا۔ایسے اداروں کی فہرست کافی طویل ہے جسے یہاں ذکر کرنے کی ضرورت نہیں۔
لیکن جب ان اداروں کو اندر سے دیکھنے کا موقع ملا تو اندازہ ہوا کہ سود کی بیماری نے کہاں کہاں اپنی جڑیں جما رکھی ہیں، اور اس کی خرابیوں اور تباہ کاریوں کا دائرہ کتنا پھیلا ہوا ہے۔ اس سے نجات حاصل کرنے کے لئے کچھ اس طرح کا کام درکار ہے جیسے کسی باغ پر آکاس بیل مسلط ہوگئی ہو، اور چمن کے پتے پتے سے اس کی رگیں نکالنی پڑ رہی ہوں۔
مختلف مالیاتی اداروں سے کچھ کچھ عرصے متعلق رہنے کا یہ زمانہ میری زندگی کا مصروف ترین اور مشکل ترین زمانہ تھا۔ ایک طرف اس کی مشکلات کی وجہ سے بھی، اور دوسری طرف اس لئے بھی کہ اس دوران دارالعلوم میں درس حدیث، فتویٰ اور تصنیف کا کام ساتھ ساتھ جاری تھا۔ اپنے اس اصل کام کو برقرار رکھنے کے لئے مجھے غیر ملکوں کے سفر اس طرح بھی کرنے پڑے کہ بارہا صبح کسی دوسرے ملک جاکر شام کوواپس آگیا، امریکہ جیسے ملک کا سفر بارہا صرف تین دن میں مکمل کرکے واپس آگیا، تاکہ دارالعلوم میں درس کا ناغہ کم سے کم ہو۔حالانکہ امریکہ کا سفر کرنے والے جانتے ہیں کہ وہاں پہنچنے کے بعد کئی دن تو وہاں کے رات دن اور سونے جاگنے کے نظام سے مناسبت پیدا کرنے میں لگ جاتے ہیں، لیکن میں اس نظام سے مناسبت پیدا ہونے سے پہلے ہی واپس روانہ ہوجاتا تھا۔مالیاتی اداروں کے لئے جو سفر ہوتے، ان کے علاوہ بہت سے سفر دوسرے دینی مقاصد کے لئے بھی ہوتے تھے جن میں مجمع الفقہ الاسلامی، مکہ مکرمہ کی رابطۃ العالم الاسلامی کی المجمع الفقہی کے اجلاسات میں شرکت اور ان کے لئے مقالات کی تیاری اور دوسرے دینی واصلاحی خطابات بھی شامل تھے۔
سفروں کے درمیان تالیفات
ہوائی جہاز کے ان لمبے لمبے سفروں کو میں تصنیف وتالیف کے ایسے کاموں میں استعمال کرتا تھا جو سفر میں انجام دئیے جاسکتے تھے۔اس طرح ہوائی سفروں میں میرا معمول یہ رہتا تھا کہ جہاز کی پرواز کے بعد میرا زیادہ تر وقت کمپیوٹر پر کام میں گذرتا تھا۔سفروں کی کثرت کی وجہ سے پی آئی اے، طیران الخلیج اور امارات ائیر لائنزکے عملے کے بہت سے افراد مجھے پہچان بھی گئے تھے۔
ایک مرتبہ میں لندن جانے کے لئے پی آئی اے کے جہاز میں سوار ہوا، ابھی جہاز نے اڑان نہیں بھری تھی، اور میں اپنی سیٹ پر تھا، تو جہاز کا ایک اسٹیورڈ ایک ائیر ہوسٹس کو ساتھ لیکر آیا، اوراس سے کہنے لگا کہ تم کافی دن سے چاہتی ہو کہ تقی صاحب سے کچھ سوالات کرو۔ ابھی یہ سیٹ پر خالی بیٹھے ہیں، ان سے بات کرلو، ورنہ جہاز کے اڑتے ہی ان کا کمپیوٹر کھل جائے گا، اور لندن کے قریب پہنچنے تک بند نہیں ہوگا، پھر ان سے کوئی تفصیلی بات کرنے کی فرصت نہیں ملے گی۔
اس طرح ان سفروں میں سب سے پہلے میں نے معارف القرآن کی آٹھ جلدوں کے انگریزی ترجمے پر گہری نظرثانی کا کام مکمل کیا۔یہ صرف سرسری نظر ثانی نہیں تھی، بلکہ اس کے پیراگراف کے پیراگراف مجھے ازسرِ نو لکھنے پڑتے تھے۔اس کام سے فراغت کے بعد میں نے قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ خود کرنے اور اس پر مختصر تفسیری حواشی لکھنے کا کام شروع کیا۔اس کے لئے مجھے انگریزی کے مروجہ تقریباً بارہ ترجموں کو سامنے رکھنا پڑتا تھا، لیکن چونکہ سفر میں ان سب کو کتابی شکل میں ساتھ رکھنا مشکل تھا، اس لئے میں ان تراجم کے زیر تالیف حصے کو کاغذ کی چند شیٹوں پر ٹائپ کراکر وہ کاغذ اپنے سامنے رکھتا تھا، اور کمپیوٹر میں تمام اہم تفاسیر پہلے سے موجود تھیں۔پھر بھی کچھ کام مجھے کراچی پہنچ کر بھی کرنا پڑتا تھا۔ اس طرح تقریباً تین سال میں یہ کام بفضلہ تعالیٰ مکمل ہوگیا، اور The Meaninngs of The Noble Quran کے نام سے شائع ہوا۔اور اس لحاظ سے بفضلہ تعالیٰ بہت مقبول ہوا کہ اس کی زبان آسان، جدید محاورات کے مطابق اور سادہ ہے۔یہ روایتی علماء کے کسی خوشہ چین طالب علم کی طرف سے قرآن کریم کا پہلا انگریزی ترجمہ ہے، اور اب لندن سے بھی اعلیٰ معیار کے ساتھ شائع ہوگیا ہے، اور انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہے۔
اس سلسلے میں ایک اور واقعہ یاد آگیا۔ آسٹریلیا کے ایک سفر میں جب میں سڈنی کے ائیر پورٹ پر اترا، اور کسٹم آفیسر کے سامنے پہنچا، جو بظاہر آسٹریلوی غیر مسلم تھا، تو اس نے میرا سوٹ کیس کھلوایا، اور اس میں سے کچھ کھانے کی چیزیں اور میرے پان، چھالیہ وغیرہ کا سامان نکال کر الگ رکھ لیا جس کا مطلب یہ تھا کہ یہ چیزیں اندر لے جانے کی اجازت نہیں ہے۔مجھے آسٹریلیا میں دس بارہ دن رکنا تھا، اور میری پان خوری کی عادت کے لئے یہ ایک بڑا حادثہ ہوتا کہ یہ پورا عرصہ میں پان کے بغیر گذاروں۔اس لئے مجھے خاصی تشویش لاحق تھی۔اتفاق سے سوٹ کیس میں میرے انگریزی تر جمۂ قرآن کا ایک نسخہ بھی تھا جو میں نے اپنے کسی دوست کو دینے کے لئے رکھا تھا۔کسٹم آفیسر کی نظر اس پر پڑی تو اس نے پوچھا یہ کونسی کتاب ہے؟ میں نے بتایا کہ یہ قرآن کریم کا ترجمہ ہے، اس نے پوچھا کہ یہ کس نے لکھاہے۔ میں نے جواب دیا کہ یہ میرا ہی لکھا ہوا ہے۔اب وہ کبھی مجھے اور کبھی کتاب کو دیکھنے لگا۔پھر اسے اٹھاکرتھوڑا بہت پڑھا۔پھر اس نے پوچھا کہ ”آپ نے یہ کتنے دن میں لکھا ہے؟” میں نے جواب دیا کہ ”تقریباً تین سال میں” اس نے ایک بار پھر حیرت کااظہار کیا، اور پھر کتاب اٹھاکر اپنے برابر ایک اور کسٹم آفیسر کے پاس لے گیا، اور اس سے کہا کہ دیکھو، یہ قرآن پاک کا ترجمہ ہے اور اس کا لکھنے والا یہاں میرے پاس کھڑا ہے، اس سے آکر ملو۔وہ بھی آکر ملا، اور اس نے بھی بڑی عزت وتکریم کا معاملہ کیا۔ پھر اس نے سوٹ کیس سے جو چیزیں ضبط کرنے کے لئے نکال کررکھی تھیں، وہ ایک ایک کرکے دوبارہ سوٹ کیس میں قاعدے سے رکھیں، اور سوٹ کیس بند کرکے مجھ سے معذرت کی اور کہا کہ میں خود آپ کو باہر آپ کے میزبانوں تک چھوڑکر آؤںگا۔میں نے منع بھی کیا، لیکن وہ نہ مانا، اور کہا کہ آپ کو راستہ تلاش کرنے میں دقت نہ ہو، اس لئے میں آپ کے ساتھ چلوںگا۔یہ کہکر وہ پورے اعزاز کے ساتھ مجھے باہر تک لایا، اور میرے میزبانوں کے حوالے کیا۔
انگریزی ترجمے کے بعد میں نے ”آسان ترجمۂ قرآن” کے نام سے اردو ترجمہ لکھنا شروع کیا، تو اس کا بھی بہت بڑا حصہ سفروں کے درمیان لکھا گیا، اور اس میں بھی دوسرے تراجم میں نے اسی طرح ساتھ رکھے جس طرح انگریزی ترجمے ساتھ رکھے تھے۔خلاصہ یہ کہ تقریباً دس بارہ سال کے سفر اس طرح گذرے کہ ان میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی کوئی نہ کوئی خدمت انجام دینے کی توفیق عطا فرمائی۔اس کے بعد جو سفر ہوئے مجھے اس لحاظ سے پھیکے معلوم ہوتے رہے کہ ان میں قرآن کریم کی کوئی خدمت میرے ساتھ نہیں تھی، البتہ پھر بھی کوئی نہ کوئی مضمون وغیرہ کا کام تقریباً ہمیشہ ساتھ رہتا تھا۔
حسابات کے نئے معاییر کی تیاری
مختلف مالیاتی اداروں میں کافی عرصہ گذارنے کے بعد مجھے یہ احساس ہوا کہ میں انفرادی اداروں میں جو کچھ خدمت انجام دے سکتا تھا، وہ بڑی حد تک دے چکا ہوں، اور اب مجھے کوشش کرنی چاہئے کہ انفرادی اداروں کی خدمت کے بجائے کسی ایسے کام میں کوئی حصہ ڈال سکوں جو بحیثیت مجموعی غیر سودی بینکاری کے مقصد میں بنیادی اہمیت رکھتا ہو، اور اس کا پائیدار فائدہ پوری صنعت کو ہو۔اللہ تعالیٰ نے اس کے بھی غیب سے اسباب پیدا فرمادئیے جس کی کچھ تفصیل ذیل میں ذکرکرتا ہوں۔
جیسا کہ میں پیچھے لکھ چکا ہوں، سودی نظام ایک آکاس بیل ہے جس سے جان چھڑانے کے لئے مختلف جہتوں میں کام کی ضرورت ہے، اور اس نظام کو اندرسے دیکھے بغیر اس کااندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ بات صرف اتنی نہیں ہے کہ بینکوں کے معاملات کو ربوا کے بجائے قرآنی متبادل ”بیع” کی بنیادپر قائم کیا جائے، بلکہ اس تبدیلی کے لئے اور بھی بہت سی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ اس کی صرف ایک مثال یہ ہے کہ تجارتی اداروں میں حسابات رکھنے کا جو طریقہ عالمگیر طورپر مروج ہے، وہ حساب کے بین الاقوامی معیارات کا پابند ہے جو طے شدہ فارمولوں کی بنیادپر طے کئے گئے ہیں۔ اگر تجارتی اداروں اور بینکوں کو سود سے پاک کیا جائے، تو ان کے حسابات رکھنے کے طریقے بھی بدلنے ضروری ہیں۔اس کے لئے لازمی ہے کہ غیر سودی تجارتی اداروں کے حسابی معیارات الگ ہوں۔ اس کے بغیر معاملات کلی طور پر غیر سودی نہیں ہوسکتے۔
اس ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے غیر سودی بینکوں نے ۱۹۹۰ء میں ایک ادارہ ”ہیئۃ المحاسبۃ والمراجعۃ للمؤسسات المالیۃ الإسلامیۃ) "(Accounting And Auditing Organization For Islamic Financial Institution(کے نام سے بحرین میں قائم کیا ، جو اب اپنے مخفف ”ایوفی” کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے پہلے سیکریٹری جنرل سوڈان کے ڈاکٹر رفعت عبدالکریم صاحب تھے جو عالمی شہرت کے آڈیٹر تھے۔ادارے کی شرعی رہنمائی کے لئے شیخ یوسف قرضاوی کے زیر صدارت ایک شریعہ بورڈ بنایا گیا جس میں سعودی عرب کے شیخ عبداللہ بن منیع اور شام کے ڈاکٹر عبدالستار ابو غدہ بھی رکن تھے۔ مجھے بھی اس کی رکنیت کی دعوت دی گئی، اور میں ایک عرصے تک اس کے رکن کے طورپر کام کرتا رہا۔ ان معیارات کی ابتدائی تیاری مسلمان محاسبین او ر آڈیٹرز کی طرف سے ہوتی تھی، پھر ہم شرعی نقطٔ نظر سے ان کا مفصل جائزہ لیتے، اور شرعی تقاضوں کے مطابق ان میں ترمیمات کرتے، یہاں تک کہ ہم نے اس ادارے کے ذریعے غیر سودی مالیاتی اداروں کے لئے مفصل حسابی معیارات ایک ضخیم جلد کی صورت میں تیار کرلئے، اور بہت سے مرکزی بینکوں نے اپنے ملک کے غیر سودی اداروں کو ان معیارات کی پابندی کا مکلف بنادیا۔
مجلس شرعی کا قیام اور معا ییر شرعیہ کی تیاری
جب یہ معیارات ایک حد تک مکمل ہوگئے، تو ایک دن میں کسی کام سے جدہ ائیر پورٹ پرایوفی کے سکریٹری جنرل ڈاکٹررفعت عبدالکریم کے ساتھ جہاز کے انتظار میں بیٹھا ہوا تھا۔ ڈاکٹر رفعت نے مجھ سے کہا کہ ہم نے حسابات کے لئے تو معیار بنادئیے ہیں، لیکن آپ دیکھتے ہیں کہ غیر سودی بینکوں کے جو شریعہ بورڈ ہیں، وہ بکثرت جزوی مسائل میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہیں۔ ایک بورڈ کسی معاملے کو جائز قرار دیتا ہے، اور دوسرا اسی کو اپنی رائے کے مطابق ناجائز سمجھتا ہے۔ اس طرح مالیاتی اداروں کے طرز عمل میں ہم آہنگی نہیں رہتی، اور ان کوآپس میں ایک دوسرے کے ساتھ معاملہ کرنے میں سخت دشواری پیدا ہوتی ہے۔ کیا یہ مناسب نہیں ہے کہ جس طر ح ہم نے ”حسابی معیارات” بنائے ہیں، اسی طر ح ہم ”شرعی معیارات ” بھی تیار کریں، جن کے ذریعے مالیاتی اداروں کو پابند کیا جائے کہ وہ ان معیارات کے دائرے میں رہکر کام کریں۔
مجھے خود بھی اس ضرورت کا مدت سے احساس ہورہا تھا، ڈاکٹر رفعت کی اس تجویز پر میں نے پسندیدگی کااظہار کیا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ اب میں اپنے ادارے کے ذریعے ایک عالمی ”مجلس شرعی ” قائم کرنے کی کوشش کرتا ہوں جو خالصۃً ممتاز علماء کرام پر مشتمل ہو۔ چنانچہ وہ اس مہم پر لگ گئے، اور کچھ عرصے کے بعد(۱۱؍ ذوالقعدہ ۱۴۱۹ھ مطابق ۲۷؍ فروری ۱۹۹۸ء کو) انہوں نے مندرجۂ ذیل علماء کا ایک اجتماع بلایا:
شیخ یوسف قرضاوی (مصر وقطر)، شیخ عبداللہ بن منیع،(سعودیہ) شیخ وہبہ الزحیلی،(شام) شیخ صدیق الضریر، (سوڈان)شیخ عبدالستار ابوغدہ،(شام) شیخ عبدالرحمن الاطرم(سعودیہ) شیخ عجیل جاسم النشمی (کویت) شیخ محمد علی تسخیری (ایران)شیخ غزالی بن عبدالرحمن (انڈونیشیا)شیخ داود محمد بکر (ملائیشیا) شیخ احمد علی عبداللہ(سوڈان)اس اجتماع میں ”المجلس الشرعی” کے قیام کی تجویز پیش کی گئی جوغیر سودی مالیاتی اداروں کے لئے ”معاییر” (Shariah Standards) تیار کرے، اور وہ رفتہ رفتہ تمام مالیاتی اداروں کے لئے واجب العمل قرار دئیے جائیں، تاکہ غیر سودی نظام بینکاری ہم آہنگی کے ساتھ چل سکے۔مذکورہ بالا تمام حاضرین نے اس کی سرگرم تائید کی، اور اس میں رضاکارانہ خدمات انجام دینے پر آمادگی ظاہر کی۔
جب مجلس کے رئیس اور نائب رئیس کے تقرر کا مرحلہ آیا، تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب شیخ یوسف قرضاوی صاحب نے رئیس کے طورپر میرا نام پیش کردیا، اور نائب رئیس کے طورپر شیخ عبداللہ بن منیع کا۔ میں نے ہرچند یہ ذمہ داری قبول کرنے سے معذرت کرنی چاہی، لیکن سب نے اس پر نہ صرف اتفاق کرلیا، بلکہ اصرار کیا کہ میں اسے قبول کرلوں۔ شیخ یوسف قرضاوی نے خود تو پہلے ہی مجلس کی باقاعدہ رکنیت سے اپنی مصروفیت کی بناپر معذرت کرلی تھی، اور وہ اس اجتماع میں اعزازی طور پر شریک ہوئے تھے، لیکن وہ مجھے اس خدمت کا پابند بناگئے۔ چنانچہ اس وقت (۱۹۹۸ء) سے آج (۲۰۲۲ء)تک ارکان میں بہت سی تبدیلیاں آتی رہیں، لیکن مجلس کی صدارت کی ذمہ داری مجھ پر چلی آرہی ہے،پچیس سال کے اس عرصے میں ہر تین سال بعد اس کی نئی تنظیم ہوتی، بعض ارکان کی جگہ دوسرے ارکان آجاتے، اور خفیہ رائے شماری کے ذریعے صدر اور نائب صدر کے نئے انتخابات ہوتے، لیکن احباب نے ہر مرتبہ مجھے ہی صدرمنتخب کیا۔
مجلس شرعی جن معاییر شرعیہ کو مدون کرنے کے لئے قائم کی گئی ہے، ان کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی مالیاتی اداروں میں جو فقہی معاملات انجام پاتے ہیں، ان کے شرعی ضوابط اور ان کثیر الوقوع جزئیات کو قانونی انداز میں مدون کردیا جائے جن کی مالیاتی اداروں کو ضرورت پڑتی ہے۔اس طرح کسی ایک عقد کے بنیادی احکام وضوابط جس دستاویز میں جمع کئے جائیں، اسے اس عقد کا ”معیار” کہا جاتا ہے۔ مثلاً ”شرکت ”کے بنیادی احکام وضوابط کے مجموعے کو ”معیار الشرکۃ”کہا جاتا ہے۔
کام کا طریقہ یہ ہے کہ جس موضوع کا معیار مرتب کرنا ہو، اس موضوع پر کسی محقق عالم سے ایک مفصل مقالہ لکھوایا جاتا ہے جس میں اسے پابند کیا جاتا ہے کہ وہ موضوع سے متعلق بنیادی احکام ائمہ اربعہ کے مذاہب کے مطابق دلائل کے ساتھ جمع کرے، اور اس موضوع سے متعلق جو نئے مسائل پیدا ہوئے ہیں، ان کے بارے میں مذاہب اربعہ کے اصولوں پر ان کے ممکنہ حل، معاصر علماء کرام کی آراء، اور اگر چاہے تو اپنی ترجیح، مع دلائل پیش کرے۔ پھر اس ”دراسہ”کی روشنی میں اپنی طرف سے ”معیار ” کاایک مسودہ تجویز کرے۔ یہ ”دراسہ” اور ”معیار ”کا مسودہ پہلے مجلس شرعی کی ذیلی کمیٹیوں میں پیش کیا جاتا ہے۔یہ کمیٹیاں بہت سے اہل علم پر مشتمل ہوتی ہیں، اور پوری تحقیق سے مسودے کا جائزہ لیکر اسے حتمی شکل دیتی ہیں، تاکہ وہ مجلس شرعی میں پیش کیا جائے۔ کمیٹیوں کی چھلنی سے گذرنے کے بعد مسودہ مجلس شرعی میں پیش ہوتا ہے۔ شروع میں سالہا سال یہ طریقہ رہا کہ مجلس کے سال میں دو اجلاس ہوتے تھے۔ ایک مکہ مکرمہ میں ماہ رمضان میں، اور دوسرا مدینہ منورہ میں چھہ ماہ کے بعد۔ہر اجلاس پورے ایک ہفتے جاری رہتا تھا۔ کچھ عرصے کے بعد سال میں تین تین دن کے چار اجلاس ہونے لگے، اور ویزا وغیرہ کی دشواری کی بناپر کچھ اجلاسات بحرین میں بھی منعقد ہوتے رہے۔اورجب کورونا کی وجہ سے سفر مشکل ہوگیا، تو اب اس کے اجلاسات آن لائن ہوتے ہیں، اور ہرمہینے کی آخری جمعرات اور ہفتے کو دوروزہ اجلاس ہوتا ہے۔
ان اجلاسات میں معیار کی ہر ہر شق پر مفصل بحث ہوتی ہے۔ فیصلے عام طورپر متفقہ ہوتے ہیں، البتہ کبھی کبھی مفصل مناقشات کے باوجود اختلاف رائے باقی رہے، تو فیصلہ کثرت رائے سے ہوتا ہے، اور مخالف رائے کو اجلاس کی کارروائی (محضر) میں درج کرلیا جاتا ہے۔آراء برابر ہوں، تو صدر مجلس کی رائے پر فیصلہ ہوتا ہے۔مجلس میں مذاہب اربعہ کی نمائندگی موجود ہے، اور بفضلہ تعالیٰ ہررکن اپنی رائے کھل کر پیش کرتا ہے، دلائل کا تبادلہ ہوتا ہے، کبھی کبھی بحث میں حدت بھی آجاتی ہے، لیکن ہر شخص مخالف رائے کا بھی پورااحترام کرتا ہے، اور بندے کے پچیس سالہ تجربے میں کبھی اختلاف رائے نے کسی قسم کی کدورت پیدا نہیں کی، بلکہ باہمی اخوت کا قابل رشک مظاہرہ ہوا۔اس طرح ابتک تقریباً ساٹھ معاییر تیار ہوکر شائع ہوچکے ہیں(۱)۔ اور ان کے ساتھ دراسات بھی طبع کردی گئی ہیں۔اس طرح معاصر فقہ المالیات کا ایک قابل قدر ذخیرہ وجود میں آگیا ہے۔ اختلاف کی گنجائش تو ہر تحقیقی کام میں رہتی ہے، لیکن بحیثیت مجموعی ان معاییر نے اسلامی مالیاتی اداروں کے لئے ایک مستحکم بنیاد فراہم کردی ہے۔اور اب تقریباً پندرہ مسلم ملکوں میں ان معیارات کو مالیاتی اداروں کے لئے ایک قانون کی سی حیثیت حاصل ہوگئی ہے،اور اسلامی مالیاتی اداروں کو قانونی طورپر پابند کردیا گیا ہے کہ وہ ان معاییر کے مطابق اپنے معاملات چلائیں، ان ممالک میں مرکزی بینک اس بات کی نگرانی کرتا ہے کہ ان پر ٹھیک ٹھیک عمل ہورہا ہے۔
یہاں بعض اوقات ذہنوں میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ جب اس مجلس میں حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی چاروں مذاہب کے لوگ موجود ہیں، اورجب ان مذاہب کے درمیان بہت سے فقہی مسائل میں اختلاف ہے، تو ان اختلافی مسائل میں اتفاق کا کیا راستہ ہوتا ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو مالیاتی اداروں سے متعلق اکثر مسائل تو وہ ہیں جن میں کسی مذہب کا کوئی اختلاف ہی نہیں ہے۔مثلاً سب متفق ہیں کہ سود حرام ہے، عینہ ناجائز ہے، کوئی شریک اپنے شریک کے سرمائے یا نفع کی ضمانت نہیں لے سکتا، اسی طرح رب المال مضارب کے اور مضارب رب المال کے نفع کا ضامن نہیں ہوسکتا، اور شرکت میں کسی شریک کا نفع اپنے سرمائے کے تناسب سے ہونا ہرحالت میں ضروری نہیں، البتہ نقصان ہمیشہ سرمائے کے تناسب سے برداشت کیا جاتا ہے۔بیع میں مبیع، ثمن یا مدت کی جہالت سے عقد فاسد ہوجاتا ہے۔دیون کی بیع ناجائز ہے، مبیع اور ثمن دونوں مؤجل نہیں ہوسکتے، فارورڈ سودے ناجائز ہیں۔ بیع صرف اسی چیز کی ہوسکتی ہے جو بائع کی ملکیت اور قبضے میں ہو، وغیرہ وغیرہ۔یہ سب مسائل وہ ہیں جو چاروں مذاہب میں اتفاقی ہیں، اس لئے ان میں اختلاف کا سوال ہی نہیں ہے۔
البتہ کچھ جزوی مسائل بیشک ایسے آجاتے ہیں جو ان مذاہب میں اختلافی ہیں۔ ایسے موقع پر بین الاقوامی معاملات میں قانون کسی ایک مذہب ہی کی بنیاد پر بنایا جاسکتا ہے، کیونکہ اگر مثال کے طورپر حنفی اور شافعی کے درمیان کوئی عالمی معاملہ ہوتا ہے تو یہ ممکن نہیں ہے کہ بائع اپنے مسلک کے مطابق معاہدے پر زور دے، اور مشتری اپنے مسلک پر۔اس طرح بین الاقوامی تجارت نہیں چل سکتی، لہٰذا دونوں کو کسی ایک مسلک پر متفق ہونا ضروری ہے۔ اور چونکہ ان مجتہد فیہ مسائل میں کوئی جانب بھی باطل محض نہیں ہوتی، اس لئے اس میں حاکم کے حکم کو، چاہے وہ کسی بھی معروف مذہب پر فیصلہ کرے، شرعاً سب پر یہاں تک کہ اس کے مخالف مسلک والوں پر بھی نافذ سمجھا جاتا ہے۔اس اصول کے پیش نظر خاص طور سے بین الاقوامی معاملات میں قانون کسی ایک مذہب کے مطابق ہی بنانا پڑتا ہے۔
اور ہمارے علماء دیوبند تقریباً سب اس بات پر متفق رہے ہیں کہ تجارتی معاملات میں جہاں کاروبار کی ضرورت داعی ہو، وہاں ائمہ اربعہ میں سے کسی کے قول کو اختیار کیا جاسکتا ہے۔ حکیم الامت حضرت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ میں نے حضرت گنگوہی قدس سرہ سے اس کی صراحۃً اجازت لی ہوئی ہے۔میں نے اپنی کتاب ”غیر سودی بینکاری” میں اس کی تفصیلات بیان کی ہیں۔
چنانچہ جب اس قسم کا کوئی مسئلہ آتا ہے، تو تمام ارکان کسی مذہبی تعصب کے بغیر اس مسئلے پر دقتِ نظر سے غور کرتے ہیں، اور ایک طرف نصوص شرعیہ کو اور دوسری طرف تجارت کی ضرورت اور عمومی مصلحت کو پیش نظر رکھتے ہوئے کسی ایک موقف پر عموماً متفق ہوجاتے ہیں، پھر بھی اگر اختلاف باقی رہے تو اکثریت کی رائے پر فیصلہ ہوتا ہے۔اس لئے مذاہب کااختلاف ان معاییر کی تیاری میں کوئی قابل ذکر رکاوٹ پیدا نہیں کرتا۔اور کسی کو اختلاف ہوتا ہے، تو وہ محضر میں اپنا اختلاف درج کرادیتا ہے۔اس طرح معاییر کے فیصلے مذاہب اربعہ کی حدود ہی میں رہے ہیں۔
اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حنفی مذہب بہت سے معاملات میں دوسرے مذاہب کے مقابلے میں اوسع ثابت ہوا ہے، اس لئے شاید یہ کہنے میں مبالغہ نہ ہو کہ زیادہ تر معاملات میں فقہ حنفی ہی کو ترجیح دی گئی ہے۔

جاری ہے ….

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

(ماہنامہ البلاغ :ذی الحجہ ۱۴۴۳ھ)


(۱)یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ دوسری عالمی مجالس کی طرح مجلس شرعی میں بھی تمام معاییر مجلس کی طرف سے شائع ہوتے ہیں ، لہٰذا یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر ہر مسئلے سے ہر رکن متفق ہو ، کسی کو اختلاف ہوتا ہے تو اجلاس کی روداد میں اس کا اختلاف ذکر کردیا جاتا ہے ۔