حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی

یادیں

(پینتیسویں قسط )

حضرت والد صاحبؒ کا پہلا دورۂ قلب
حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو ادھیڑ عمر ہی سے مختلف عوارض لگے ہوئے تھے ۔جسمانی قویٰ بھی کچھ زیادہ مضبوط نہیں تھے ، لیکن وہ اپنی روحانی اور ایمانی قوت وہمت سے مسلسل ایسے کاموں میں مصروف رہتے تھے جو ہم جوانوں کے لئے بھی قابل رشک تھے ۔ بیماریوں اور عوارض کے درمیان بھی ان کے تصنیفی اور دعوتی کام جاری رہتے تھے ۔ جیساکہ پہلے لکھ چکا ہوں، وہ دارالعلوم کی مؤثر نگرانی کے لئے لسبیلہ ہاؤس کے اپنے آرام دہ مکان کو چھوڑکر دارالعلوم کورنگی میں کھپریل کے بنے ہوئے کمروں میں منتقل ہوگئے تھے جن میں کمرے کے ساتھ مروجہ متصل غسل خانہ بھی نہیں تھا ، اور ملاقات کا کمرہ بھی خواب گاہ سے فاصلے پر الگ تھا ۔ اسی مکان میں انہوں نے کئی سال گذارے ، اور چونکہ دارالعلوم اور ملک وملت کے اجتماعی کاموں کے لئے شہر سے رابطہ بھی ضروری تھا ، اس لئے دوسرے تیسرے دن شہر کا سفر بھی کرنا پڑتا تھا ۔ اس طرح مصروفیات کا ایک طوفان تھا جس میں اُن کے شب وروز گذررہے تھے ۔
ربیع الثانی ۱۳۹۲ھ جون ۱۹۷۲ء کو انہیں سینے میں شدید درد محسوس ہوا ۔شروع میں اُس کے بارے میں یہ خیال رہا کہ ریاحی انداز کا درد ہوگا ،چونکہ حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ شروع سے یونانی طریق علاج کے عادی تھے ، اس لئے میں فوراً حکیم نصیرالدین نظامی صاحب مرحوم کے نظامی دواخانہ پہنچا ۔ انہوں نے سرکۂ ادرک اور کچھ دوائیں تجویز کیں ، مگر ان سے کچھ افاقہ نہ ہوا، تو ایک اور حکیم یامین صاحب کا علاج کیا ، لیکن درد بڑھتا گیا ۔ آخر کار حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ایک دوست ڈاکٹر صغیرالدین ہاشمی صاحب مرحوم کو بلایا گیا ۔ انہوں نے دیکھتے ہی حملۂ قلب کا شبہ ظاہر کیا ، اور ہم سے کہا کہ انہیں فوراً امراض قلب کے ہسپتال لے جانا ضروری ہے ۔ حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہسپتال میں داخل ہونے سے ہمیشہ متوحش ہوتے تھے ، اور انہیں اُس پر راضی کرنا بہت مشکل تھا ۔ لیکن ڈاکٹر صاحب مرحوم نے انہیں نہ صرف راضی کیا ، بلکہ اسٹریچر پر لیجانے کے لئے خود آگے بڑھکر انہیں اٹھالیا ۔ ہسپتال پہنچنے پر تصدیق ہوگئی کہ دل کا حملہ ہوا ہے ۔ ڈاکٹر شوکت علی سید مرحوم نے ہمیں بتایا کہ واضح "ہارٹ اٹیک” ہے ، لیکن درمیانہ درجے کا ہے ۔ چوبیس گھنٹے خطرے کے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اُن سے نکال لیا تو خطرہ ان شاء اللہ کم ہوجائے گا، لیکن ہرقسم کی حرکت سخت مضر ہوگی ۔ اللہ تعالیٰ نے کرم فرمایا ، وہ چوبیس گھنٹے گذرگئے ، حالت نسبۃً بہتر ہوتی گئی ،۔ ڈاکٹر سید اسلم صاحب ان کے خصوصی معالج رہے۔اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائیں کہ انہوں نے بڑی محبت سے علاج کیا ۔پھر کئی ہفتے انہیں ہسپتال میں رہنا پڑا۔ ہم بھائی اوقات تقسیم کرکے حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس رہتے تھے ۔ لاہور سے ہمارے بھائی جان بھی آگئے تھے ، اور انہوں نے خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی ۔
اتفاق سے حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے کمرے کے سامنے والے کمرے میں مشہور شیعہ عالم جناب رشید ترابی صاحب بھی دل کے دورے کی وجہ سے مقیم تھے ، اور حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کبھی کبھی ان کو کوئی تحفہ بھیج دیتے تھے ۔ گرمی کاموسم تھا ، اور کولروں کا اتنا رواج نہیں ہوا تھا ، اس لئے جناب ترابی صاحب کے کمرے میں برف کی سلیں رکھی رہتی تھیں ، اور وہ وقتاً فوقتاً ٹھنڈا پانی حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو بھیج دیا کرتے تھے ۔ حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں پیغام دیا کہ ” جناب ترابی صاحب! آپ نے یہاں بھی سبیل لگادی ہے!”
ڈاکٹر صاحبان نے یہ کہدیا تھا کہ حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو اب اپنی تمام مصروفیات پر نظر ثانی کرکے تھکنے سے ہر قیمت پر بچنا پڑے گا ۔ہسپتال سے گھر جانے کے بعد بھی کم ازکم چھہ ہفتے بستر پر رہنا ہوگا، اور ملاقاتوں پر پابندی لگانی ضروری ہے ۔ جو احتیاطیں انہوں نے بتائی تھیں ، وہ موجودہ گھر پر رہکر نہیں ہوسکتی تھیں ۔ اس لئے گھر کا نقشہ تبدیل کرکے دو نئے کمرے تیزرفتاری کے ساتھ اس طرح بنائے گئے کہ بوقت ضرورت ملاقاتی ان کی خواب گاہ ہی میں آکر ملاقات کرسکیں ۔اور اسی خواب گاہ کے متصل جو پہلا کمرہ ملاقاتیوں کے لئے تھا ، اُسے میرا دفتر بنا دیا گیا ، تاکہ جو بھی ملنے آئے،وہ پہلے میرے دفتر میں آئے ، اور میں حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے حالات کے مطابق اُس سے بات کرسکوں ، اور بہت ضروری ہو، تو ملانے کے لئے لے جاؤں۔دوسری طرف ہماری والدۂ ماجدہ بھی سخت علیل تھیں ، اور ان کی علالت کے تقاضے بھی مختلف تھے ، اس لئے انہیں برابر کے دوسرے کمرے میں رکھنا ضروری تھا ۔ جبتک ان کمروں کی تعمیر ہوئی ، حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ پہلے ہسپتال میں ، اور پھر لسبیلہ ہاؤس میں ہمارے دو بڑے بھائیوں کے مکان پر مقیم رہے ، اور کمروں کی تکمیل کے بعد دارالعلوم منتقل ہوئے۔ اس کے بعد ان کی مصروفیات اسی کمرے تک محدود ہوگئیں ، لیکن وہ یہیں چارپائی پر ہی اپنی تصنیف وتالیف ،فتویٰ اور دارالعلوم کے انتظامی امور انجام دیتے رہے ۔ہفتہ وار اصلاحی مجلس بھی جو اتوار کو عصر کے بعد ہوا کرتی تھی ، یہیں ہونے لگی ۔ کچھ عرصے کے بعدشام کو عصر کے بعد باہر برآمدے میں بھی تشریف لے آتے تھے ، اور فجر کے بعد گھر ہی میں کچھ چہل قدمی بھی فرمالیتے تھے ۔اسی کے ساتھ انہیں دل کی تکلیف کے ساتھ کچھ اور عوارض بھی چلتے رہے۔جناب ڈاکٹر اسلم صاحب ان کے دل کے معائنے کے لئے وقتاً فوقتاً دارالعلوم آجایاکرتے تھے، اور دوسرے عوارض کے لئے جناب ڈاکٹر صغیراحمد ہاشمی صاحب بڑی محبت سے آکر ان کا علاج کیا کرتے تھے ۔
ایک موقع پر انہیں جسم کے نچلے حصے میں نواسیر کا پھوڑا نکل آیا تھا ، جس کی وجہ سے چارپائی پر بیٹھنا بھی مشکل ہوگیا، مختلف دوائیں آزمائی گئیں ، لیکن کوئی خاص افاقہ نہ ہوا، آخر کار ڈاکٹر ہاشمی صاحب نے مشورہ دیا کہ اب آپریشن کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے ۔ البتہ آپریشن معمولی نوعیت کا ہوگا جس کے لئے بے ہوش کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی ، اور انہوں نے یہ انتظام بھی کرلیا کہ حضرت والد صاحبؒ کو ہسپتال جانا نہ پڑے ۔ اور گھر ہی میں تمام انتظامات کرلئے ۔ تکلیف ایسی تھی کہ حضرت والد صاحب ؒبا دل نا خواستہ اس کے لئے تیار ہوگئے ۔ گھر میں آپریشن کے لئے تیاری مکمل ہوگئی ، اور ایک شام یہ طے ہوا کہ اگلی صبح دس بجے کے قریب ڈاکٹر صاحب آپریشن کریں گے ۔ اس انتظام کے ساتھ ہم رات کو سوگئے ۔
صبح فجر کے وقت جب میں حضرت والد صاحب ؒ کے پاس پہنچا ، تو وہ مسکرارہے تھے ۔ میرے تجسس پر انہوں نے فرمایا کہ میں نے رات عجیب خواب دیکھا کہ ہمارے گھر میں سردار عبدالرب نشتر مرحوم کے آنے کی اطلاع تھی ، اچانک معلوم ہوا کہ ان کا پروگرام منسوخ ہوگیا ۔ میں نے اس کی تعبیر یہ لی کہ ہمارے گھر میں (آپریشن کا) جو نشتر آنے والا تھا ،وہ چلا گیا۔چنانچہ صبح ہوتے ہوتے وہ پھوڑا اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے پھوٹ گیا ، اور سارا مواد نکل گیا ۔ بظاہر اب آپریشن کی ضرورت نہیں رہی ۔یہ سن کرہماری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی ، ہم نے ڈاکٹرصاحب کو فون پر یہ واقعہ بتایا ۔ انہوں نے تصدیق کی کہ اب واقعی آپریشن کی ضرورت نہیں ہے، اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے اس مسکین بندے کو نہ صرف آپریشن سے بچایا ، بلکہ خواب کے ذریعے اس کی پیشگی اطلاع بھی دیدی ۔ سبحانہ ما اعظم شأنہ ۔
بھائی جان کی وفات
۱۹۷۴ء میں حضرت والد صاحب ؒ کو ایک شدید صدمہ ہمارے سب سے بڑے بھائی جناب محمد زکی کیفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کا پیش آیا ۔ انہیں حج سے واپسی کے بعداچانک دل کا شدید دورہ ہوا، اور چند گھنٹوں میں وہ اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ اس حادثے کی تفصیل میں بھائی جان پر اپنے مضمون میں لکھ چکا ہوں ، اور وہ میری کتاب ” نقوش رفتگاں” میں شامل ہے۔بھائی جان کے انتقال کی جانگداز خبر انہیں اس حالت میں ملی کہ دل کی کمزوری کے علاوہ نواسیر کی تکلیف بھی تھی ، اور ہاتھوں پر ہرپیز کے دانے نکلے ہوئے تھے ۔حکیم محمد سعید صاحب مرحوم عیادت کے لئے آئے ، تو انہوں نے دیکھ کر فرمایا کہ ” یہ حضرت مفتی صاحب ؒ ہی کا حوصلہ ہے کہ وہ اس تکلیف کو برداشت کررہے ہیں ، ورنہ ہرپیز کی اس نوعیت کی تکلیف ایسی ہوتی ہے جیسے جسم پر انگارے رکھ دئیے گئے ہوں۔ ” لیکن اپنے محبوب جوان بیٹے کی وفات پر ان کے صبر و استقلال کو کرامت کے سوا کسی اور لفظ سے تعبیر کرنا مشکل ہے ۔ میں نے اپنے مرحوم بھائی کی وفات پر دو مرثیے لکھے تھے ، جن میں سے ایک البلاغ میں شائع ہوا ، دوسرا شائع نہیں ہوا وہ میں نے حضرت والد صاحبؒ کو تو نہیں ، لیکن گھر والوں کو سنایا تھا ۔ اُس کا ایک شعر یہ تھا کہ:

کیا خبر تھی ہمیں یہ زہر بھی پینا ہوگا
آپ دنیا میں نہ ہونگے، ہمیں جینا ہوگا

نہ جانے کس طرح حضرت والد صاحبؒ نے میرا یہ شعر سُن لیا ۔ مجھ سے تو کچھ نہیں فرمایا ، لیکن انہی دنوں جناب آغا شورش کاشمیری صاحب مرحوم حضرت والد صاحب ؒسے تعزیت کے لئے تشریف لائے، تو حضرت ؒ نے فرمایا کہ ایک شعر تقی نے کہا ہے ، اُس نے تو شاعری کی ہوگی، لیکن میری حالت کی صحیح تصویر کھینچ دی ہے ، اور یہ فرماتے ہوئے آنکھ پُر نم اور آواز قدرے روہانسی ہوگئی ۔

تحریک ختم نبوت ۱۹۷۴ء
۱۹۷۴ء میں تحریک ختم نبوت شروع ہوئی ۔مسلمانوں کا یہ مطالبہ تو شروع سے چلا آتا تھا کہ قادیانی چونکہ اسلام کے بنیادی عقیدے ختم نبوت کے منکر اور مرزا غلام احمد قادیانی جیسے شخص کو نبی مانتے ہیں، اس لئے وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہیں ، اور اُنہیں غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے ۔اس مقصد کے لئے ۱۹۵۳ ء میں ایک ملک گیر تحریک بھی چلی تھی جس میں ہزاروں مسلمانوں نے ناموس رسالت پر اپنی جانیں نچھاور کیں ، لیکن افسوس ہے کہ کچھ سیاسی اسباب کے تحت اُس کے نتیجے میں خواجہ ناظم الدین مرحوم کی حکومت تو ختم ہوگئی ، لیکن اس مطالبے پر عمل نہ ہوسکا ۔
۲۹؍مئی ۱۹۷۴ء کو یہ واقعہ پیش آیا کہ دریائے چناب کے کنارے قادیانیوں نے جوشہر "ربوہ” کے نام سے بسایا ہوا تھا ،اُس وقت وہ صرف قادیانیوں ہی پر مشتمل تھا ۔ ایک مرتبہ اُس کے ریلوے اسٹیشن سے گزرتے ہوئے نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلبہ کی ایک جماعت پرقادیانیوں نے حملہ کردیا ، جس سے طلبہ کی جماعت کا بھاری جانی نقصان ہوا ۔ اس واقعے نے ملک بھر میں آگ لگادی ، اور ایک مرتبہ پھر یہ مطالبہ پوری قوت سے اٹھا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے ۔ اُس وقت حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری صاحب رحمۃ اللہ علیہ "مجلس تحفظ ختم نبوت ” کے امیر منتخب ہوئے تھے ، اوراُن کی سربراہی میں ایک مرتبہ پھر یہ تحریک زورو شور سے شروع ہوئی ۔ ملک کے گوشے گوشے میں اس مطالبے کے حق میں جلسوں جلوسوں کا سلسلہ شروع ہوا جس کے لئے حضرت ؒ نے ملک کے طول وعرض کے دورے فرمائے ، اوراپنی خداداد بصیرت سے تحریک کو پُر امن رکھتے ہوئے جوش وہوش میں توازن کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا ۔مرزا غلام احمد قادیانی کے پیرووں کو آئینی طورپرغیر مسلم اقلیت قرار دینا اُسی وقت ممکن تھا جب دستور پاکستان میں ترمیم کرکے ان کوغیر مسلم اقلیتوں میں شمار کیا جائے ۔ چنانچہ اس غرض کے لئے الحمد للہ "مجلس ختم نبوت” کے علاوہ دینی سیاسی جماعتوں میں سے جمعیت علماء اسلام نے حضرت مولانا مفتی محمود صاحبؒ کی قیادت میں ، جمعیت علماء پاکستان نے حضرت مولانا شاہ احمد نورانی صاحب ؒ کی سربراہی میں ، جماعت اسلامی نے میاں طفیل محمد صاحب ؒ کی سربراہی میں اس کام کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا ، اور آخرکار اُس وقت کی جتنی مسلمان سیاسی جماعتیں اسمبلی میں موجود تھیں ، ان کے اڑتیس نمائندوں کی طرف سے اس مطالبے کے حق میں تاریخی قرار داد پیش کی گئی جس پر مندرجۂ ذیل ارکان اسمبلی کے دستخط تھے :

۱ مولوی مُفتی محمود
۲ مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری
۳ مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی
۴ پروفیسر غفور احمد
۵ مولانا سید محمد علی رضوی
۶ مولاناعبدالحق (اکوڑہ خٹک)
۷ چوہدری ظہور الہٰی
۸ سردار شیر باز خان مزاری
۹ مولانا محمد ظفر احمد انصاری
۱۰ جناب عبدالحمید جتوئی
۱۱ صاحبزادہ احمد رضا خاں قصوری
۱۲ جناب محمود اعظم فاروقی
۱۳ مولانا صدر الشہید
۱۴ جناب عمر خان
۱۵ مخدوم نورمحمد
۱۶ جناب غلام فاروق
۱۷ سردار مولابخش سومرو
۱۸ سردار شوکت حیات خان
۱۹ حاجی علی احمد تالپور
۲۰ راؤ خورشید علی خان
۲۱ رئیس عطا محمد خان مری
 

محرّ کین قرارداد

نوٹ:بعد میں حسب ذیل ارکان نے بھی قرارداد پر دستخط کئے۔

۲۲ نوابزادہ میاں محمد ذاکر قریشی
۲۳ جناب غلام حسن خان دھاندلا
۲۴ جناب کرم بخش اعوان
۲۵ صاحبزادہ محمد نذیر سلطان
۲۶ مہر غلام حیدر بھروانہ
۲۷ میاں محمد ابراہیم برق
۲۸ صاحبزادہ صفی اللہ
۲۹ صاحبزادہ نعمت اللہ خان شنواری
۳۰ شنواری
۳۱ ملک جہانگیر خان
۳۲ جناب عبدالسبحان خان
۳۳ جناب اکبر خان مہمند
۳۴ میجر جنرل جمالدار
۳۵ حاجی صالح خاں
۳۶ جناب عبدالملک خاں
۳۷ خواجہ جمال محمد کوریجہ

 

یہ قرار داد محض ایک مطالبے کی حیثیت رکھتی تھی ، اور اس پر عمل کے لئے ضروری تھا کہ دستوری ترمیم کا بل اسمبلی میں پیش ہو۔چونکہ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی اکثریت تھی ، اور حکومت بھی اُسی کے ہاتھ میں تھی ، اُس لئے اُس کی موافقت کے بغیر ایسا کوئی بل پیش ہونا ممکن نہیں تھا ۔ چنانچہ حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک طرف تمام مکاتب فکر کے علماء اور دانش وروں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے اُس متفقہ مطالبے کے حق میں رائے ہموار فرمائی ، اور دوسری طرف مختلف رہنماؤں سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری رکھا ۔ چنانچہ اُس وقت کے وزیر اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو صاحب مرحوم سے بھی ملاقات فرمائی۔ اُس میں میرے بڑے بھائی حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب بھی اُن کے ساتھ تھے ۔ انہوں نے بتایا کہ حضرتؒ نے بھٹو صاحب مرحوم سے اُن مختلف سازشوں کا ذکر کیا جو قادیانیوں کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف کی جاتی رہی ہیں ، اسی ذیل میں انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ انہوں نے بہت سے مسلمان رہنماؤں کو شہید بھی کیا ،یا ان کی شہادت کا سبب بنے ۔ اس پر بھٹو صاحب مرحوم نے از راہ تفنن کہا کہ ” تو مولانا! کیا آپ مجھے بھی شہید کرانا چاہتے ہیں؟ ” حضرتؒ نے اس کے جواب میں برجستہ فرمایا : "تو ہوجاؤ نا شہید ، اللہ کے لئے "۔بہر حال!حضرتؒ اس تحریک میں نصیحت اور احتجاج دونوں پہلووںکو ساتھ لیکر چلے ، اور ملک بھر میں ان کی دعوت پر ایسے جلسے منعقد ہوتے رہے جسمیں سنی ،شیعہ، اہل حدیث، بریلوی ہر مکتب فکر کے علماء کامل اتحاد کے ساتھ اس مطالبے کی آواز بلند کررہے تھے ۔
جب یہ تحریک شروع ہوئی ، تو حضرت والد صاحبؒ پر دل کا پہلا حملہ ہوچکا تھا ، اور وہ بستر علالت پر تھے۔جیساکہ میں پہلے عرض کرچکاہوں ، میں نے اپنا دفتر بھی ان کی خواب گاہ سے متصل اس طرح بنالیا تھا کہ جو کوئی حضرت والد صاحبؒ سے ملنے آئے ، اُسے پہلے مجھ سے ملنا ہوتا تھا ، اور میں حضرت والد صاحبؒ کی صحت کی کیفیت کو مد نظررکھتے ہوئے ملاقات کاانتظام کرتا تھا ۔ حضرت والد صاحبؒ کو بھی مجھے بلانے اور کوئی حکم دینے میں آسانی ہوتی تھی ، گویا اس معاملے میں اُس وقت حضرت والد صاحبؒ کے سیکریٹری کے جیسے فرائض انجام دیتا تھا ، اور اسباق کی تدریس سے فارغ ہوکر اپنے تمام کام بھی وہیں کرتا تھا ۔ اس لئے اُن حالات میں میرا کراچی سے باہر کہیں جانا محھ پر بھی اور حضرت والد صاحبؒ پر بھی بہت شاق ہوتا تھا ۔ لیکن دوسری طرف میرے دل میں بھی یہ خواہش تھی کہ اگر تحفظ ختم نبوت کے اس مبارک مقصد میں میرا بھی کوئی حصہ لگ جائے ، تو میرے لئے سعادت ہوگی ، اور حضرت والد صاحبؒ نے بھی مجھ سے فرمایا تھا کہ جہاں ضرورت ہو، تم بھی اس کام میں حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت سے گریز نہ کرنا ، چنانچہ ایک مرتبہ حضرت بنوری ؒ حضرت والد صاحبؒ سے ملنے کے لئے تشریف لائے ، تو میں نے اُن سے درخواست کی کہ تحریک کے کسی کام میں آپ محسوس فرمائیں کہ میری کوئی خدمت کسی کام آسکتی ہے ، تو مجھے ضرور اس کا موقع عنایت فرمائیں ۔ چنانچہ ایک مرتبہ حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ نے کوئٹہ کا سفر فرمایا ، تو مجھے ساتھ چلنے کا حکم دیا ، اور مجھے حضرتؒ کی ہم رکابی کا شرف حاصل ہوا ۔ وہاں حضرتؒ نے حضرت مولانا عبدالواحد صاحب رحمۃ اللہ علیہ مہتمم مطلع العلوم بروری روڈکوئٹہ کے زیراہتمام مدرسے ہی میں قیام فرمایا ، اور دن کے وقت خان آف قلات سے ملاقات فرمائی جو اُس وقت بلوچستان کے گورنر تھے ۔ اور اُسی رات ایک عظیم الشان جلسے سے خطاب فرمایا ، اور اُس سے پہلے مجھے بھی مختصر تقریرکرنے کا موقع دیا جو ختم نبوت کے موضوع پر تھی۔ جب آخر میں حضرتؒ کے خطاب کا وقت آیا ، تو جوش وخروش سے بھر ے ہوئے جلسے میں لوگوں کو یہ توقع تھی کہ حضرتؒ اُسی سطح کی جوشیلی تقریر فرمائیں گے ، لیکن حضرتؒ کا سارا زور اخلاص ، للہیت اور رجوع الی اللہ پر تھا ، ان کا فرمانا تھا کہ تحریک خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہونی چاہئے ، اور یہ سیاسی سے زیادہ ایک دینی تحریک ہے جو اللہ تعالیٰ سے مضبوط تعلق کے بغیر کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتی ۔ حضرتؒ مجھ پر جو غیر معمولی شفقت فرماتے تھے ، اُس کی بنا پر بعض اوقات مجھے مشکل کا سامنا کرنا پڑتا تھا ۔ حضرت ؒ کااصرار تھا کہ رات کو میں اُنہی کے کمرے میں قیام کروں ، اور اس غرض کے لئے انہوں نے میری چارپائی اپنے سامنے بچھوائی ۔ حضرتؒ کے مقام بلند کی وجہ سے مجھے اس میں شرمندگی محسوس ہوتی تھی ، اس لئے میں نے باہر کسی ساتھی کے ساتھ سونے کی خواہش ظاہر کی ،لیکن حضرت ؒ نے مجھے اجازت نہیں دی ، اور میں حضرتؒ کی چارپائی کے سامنے سمٹا لیٹا رہا فجر کے بعد حضرتؒ کے سامنے مقامی اخبارات لائے گئے جن میں جلی سرخیوں کے ساتھ حضرتؒ کی تقریروں اور ملاقاتوں کا ذکر تھا ، آپ نے اُن اخبارات پر ایک سرسری نظر ڈالی ، پھرکچھ اس طرح کی بات ارشاد فرمائی کہ اس قسم کی عوامی تحریکات بعض اوقات انسان کو شہرت اور جاہ کے فتنے میں مبتلا کردیتی ہیں ۔ اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے رہنا چاہئے ۔
کوئٹہ کے اس سفر کے کچھ عرصے بعد حضرتؒ کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ راولپنڈی تشریف لے گئے ہیں ، اور جن حضرات نے اسمبلی میں قرارداد پیش کی ہے ، اُن سے صلاح مشورے جاری ہیں ۔ اُس وقت ذوالفقار علی بھٹو صاحب مرحوم وزیر اعظم پاکستان نے اس مسئلے پر غور کرنے کے لئے پوری اسمبلی کو ایک تحقیقاتی کمیٹی بنادیا تھا، جسے عدالتی اختیارات دئیے گئے تھے ، تاکہ وہ مرزا غلام احمد کے پیرووں اور مسلمانوں دونوں کے بیانات سن کر اور ضروری تحقیقات کرکے کسی نتیجے تک پہنچ سکے ۔
اسی دوران حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے ٹیلی فون کرکے فرمایا کہ مرزائیوں کے دونوں گروہوں نے اپنے اپنے مفصل محضرنامے اسمبلی کو پیش کرکے اُن میں اپنا موقف بیان کردیا ہے ، قادیانی گروپ کا محضرنامہ کئی سو صفحات پر مشتمل ہے ، اور لاہوری جماعت کا بھی کم وبیش اتنا ہی ہے ۔ یہاں مشورے سے یہ بات طے ہوئی ہے کہ مسلمانوں کی طرف سے بھی اپنا موقف مفصل دلائل کے ساتھ پیش کیا جائے جس میں ان دونوں محضرناموں کا جواب بھی ہو۔ حضرتؒ نے فرمایا کہ مسلمانوں کی طرف سے اس تحریر کو مرتب کرنے کے لئے تمہارا نام تجویز ہوا ہے ، اس غرض کے لئے تمہیں کچھ دن کے لئے راولپنڈی آنا پڑے گا، کیونکہ جو علماء کرام اس موضوع کے ماہرین ہیں ، وہ یہاں تشریف لاچکے ہیں ، اور وہ بیان لکھنے میں تمہاری مدد کریں گے ۔ میرے لئے اگرچہ یہ ایک عظیم سعادت تھی ،لیکن دوہری آزمائش بھی تھی، ایک طرف تو پوری امت مسلمہ کی طرف سے انتہائی ذمہ دارانہ بیان ترتیب دینا بذات خود ایک مشکل کام تھا ، اوردوسری طرف حضرت والد صاحبؒ کے بستر علالت پر ہونے کی وجہ سے غیر معین مدت کے لئے انہیں چھوڑکر جانا طبعی طورسے مجھے بہت بھاری معلوم ہوتا تھا ، لیکن جب میں نے حضرت والد صاحبؒ سے حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ کے اس فون کا ذکر کیا ، تو انہوں نے کام کی اہمیت کے پیش نظر مجھے فرمایا کہ تم ضرور چلے جاؤ ۔ جہاں تک میرا تعلق ہے ، الحمد للہ میری طبیعت میں افاقہ ہے ، اور میری دیکھ بھال کے لئے تمہارے بڑے بھائی ، خاص طور پر حضرت مولانا مفتی محمد رفیع صاحب موجود ہیں ۔ حضرت والد صاحبؒ کے فرمانے پر میں فوراً اس سفر کے لئے تیار ہوکر راولپنڈی روانہ ہوگیا۔عام طورپر اُس زمانے میں جب راولپنڈی جانا ہوتا ، تو حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب کامل پوری قدس سرہ کے صاحب زادے مولانا قاری سعیدالرحمن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مدرسے جامعہ اسلامیہ کے ایک کمرے میں قیام ہوتا تھا۔ اُن سے برادرانہ بے تکلفی بھی تھی ۔ میں راولپنڈی پہنچ کر سیدھا وہیں چلا گیا ، اُس وقت حضرتؒ مدرسے سے متصل کامران ہوٹل میں قیام پذیر تھے ۔ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا، تو یہ معلوم کرکے مزید خوشی ہوئی کہ محب محترم جناب مولانا سمیع الحق صاحب بھی اس کام میں شریک ہوںگے ، اور اس غرض کے لئے حضرت مولانا حیات صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو مرزا کی کتابوں کے تقریباً حافظ تھے ، اور قادیان میں انہوں نے بڑے معرکے کے مناظرے کئے تھے ، وہ بھی اپنے پورے مواد کے ساتھ وہاں تشریف لاچکے ہیں ، اس کے علاوہ ملتان کی مجلس تحفظ ختم نبوت کے ناظم جناب مولانا عبدالرحیم اشعر صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی اپنی کتابوں کے خزانے سمیت وہاں موجود ہیں ، اور یہ سب حضرات بیان لکھنے میں ہماری معاونت کے لئے موجود رہیں گے ۔دوسری طرف بیان کا جو سیاسی حصہ لکھنا تھا ، اُس میں مدد دینے کے لئے حضرت مولانا تاج محمود صاحبؒ اور حضرت مولانا محمد شریف جالندھری صاحب ؒ بھی موجود تھے ۔
اس موقع پر حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ سے فرمایا کہ:” میری تو شروع سے یہ خواہش تھی کہ بیان تم سے لکھوایا جائے ، لیکن میں نے معاملہ مشورے پر چھوڑ دیا تھا ، اور مجھے اس بات سے بہت خوشی ہوئی کہ جب مختلف نام زیر غور آئے ، تو سب سے پہلے حضرت مولانا مفتی محمود صاحب( قدس سرہ) نے تمہارا نام پیش کیا ۔میرا تو یہ منشأ پہلے سے تھا ، اس لئے میں نے اس کی تائید کی ، اور آخر کار فیصلہ اسی پر ہوا۔”
یہ کام انجام دینے کے لئے ایک وسیع جگہ کی ضرورت تھی ، تاکہ پور ی ٹیم یکجا رہکر کام کرے ۔ پھر وہاں اُن ارکان اسمبلی کا اجتماع بھی ضروری تھا جن کی طرف سے یہ بیان داخل ہونا تھا، تاکہ وہ اُس پر غور کرسکیں۔مجلس تحفظ ختم نبوت کے پاس مالی وسائل محدود بھی تھے ، اور حضرت بنوری ؒ انہیں احتیاط کے ساتھ خرچ کرنا چاہتے تھے ، اس لئے کسی بڑے ہوٹل میں یہ کام مشکل تھا ۔ البتہ حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب قدس سرہ کے متوسلین میں سے ایک مشہور بزرگ تاجر جناب بٹ صاحب مرحوم کے صاحب زادوں کا راولپنڈی کے مال روڈ کے قریب ایک ہوٹل (غالباًپارک ہوٹل کے نام سے ) تھا ۔ وہ ایک پرانا ہوٹل تھا ، لیکن پرانے طرز کی بیرکوں کی سی شکل میں ایک وسیع رقبے پر مشتمل تھا ، (اب وہ موجود نہیں رہا) اور اُس میں الگ الگ کمرے مناسب مقدار میں موجود تھے ۔ ان حضرات نے اس ہوٹل کو خالی کرکے یہ پیشکش کی کہ آپ حضرات یہاں منتقل ہوجائیں ۔ حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ نے اسے منظور فرمالیا ، اور ہم سب اُس میں منتقل ہوگئے ۔ہوٹل اگرچہ بوسیدہ سی حالت میں تھا ، لیکن اس کام کے لئے جس پُرسکون جگہ کی ضرورت تھی ، اُسے پورا کرتا تھا۔جب ہم پہلی رات وہاں منتقل ہوئے تو حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ نے کوئٹہ کی طرح یہاں بھی میری چارپائی اپنے کمرے میں رکھوائی ، اور حکم دیا کہ تم یہیں پر قیام کرو ۔ میں نے پھر عذر کیا تو حضرتؒ نے فرمایا کہ لکھنے والوں کا تحفظ بھی ایک اہم ضرورت ہے ، اس لئے تمہارے لئے یہی جگہ مناسب ہے جہاں تحفظ کا مناسب انتظام بھی ہے ۔ ایک رات میں نے حکم کی تعمیل کی ، لیکن پھر عرض کیا کہ مجھے رات کو دیرتک جاگنے کی عادت ہے ، اس لئے مجھے رات کو بھی کام کرنا ہوگا ، اور یہاں رہکر میں آزادی سے کام نہیں کرسکوں گا ۔ اس پر حضرتؒ نے یہ اجازت دیدی کہ ان کے کمرے سے متصل ایک دوسرے کمرے میں منتقل ہوجاؤں ۔
حضرتؒ نے یہ طے فرمایا کہ بیان کا مذہبی حصہ جس میں مرزا غلام احمد اور اُس کے پیرووں کے عقائد پر دینی اعتبار سے بحث کی جائے ، وہ تم لکھو ، اور انہوں نے مسلمانوں کے اجتماعی مقاصد کو سیاسی اعتبار سے جو نقصانات پہنچائے ہیں، اور جس طرح سیاسی مقاصد میں اپنے آپ کو ملت مسلمہ سے الگ رکھا ہے ، اُس کی تفصیل مولانا سمیع الحق صاحبؒ تحریر فرمائیں ۔چنانچہ اسی بنیادپر کام شروع ہوا ۔

(ماہنامہ البلاغ :ربیع الاول ۱۴۴۲ھ)

جاری ہے ….

٭٭٭٭٭٭٭٭٭