حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی

یادیں

(باونویں قسط)

عرب ممالک میں ہونے والی کانفرنسوں میں یہ بات واضح طورپر نظر آتی تھی کہ ان میں غیر عرب حضرات کو اول تو گفتگو کا موقع ہی کم دیا جاتا تھا، اور اگر دیا بھی گیا، تو ان کی بات کو اہمیت کے ساتھ کم سُنا جاتا تھا۔ اس قسم کی صورت حال ابتدائی ایک دو اجلاسوں میں میرے ساتھ بھی پیش آئی، لیکن پھر میں نے شیخ بلخوجہ رحمۃ اللہ علیہ سے اس کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ ”کیا غیر عرب حضرات مجمع کے رکن نہیں ہیں؟ یا کیا ان کو گفتگو میں شریک ہونے کا اس لئے حق نہیں ہے کہ وہ عربوں کی طرح پوری روانی سے بات نہیں کرپاتے؟ اللہ تعالیٰ شیخ بلخوجہ پر اپنی رحمتیں نازل فرمائیں، انہوں نے میری اس بات کا بہت اثر لیا، اور پھر ہرمعاملے میں مجھ سے رجوع کرنے اور میری رائے معلوم کرنے کی ایک رِیت ڈال دی، اس طرح جب ایک سے زائد مرتبہ مجھے مختلف مسائل پر بات کرنے کا موقع ملا، اور اُسے توجہ سے سُنا گیا، تو رفتہ رفتہ میرے ساتھ عرب اور غیر عرب کا فرق مٹ گیا۔ مجمع کے رئیس شیخ بکر ابوزید ؒ بھی مجھ سے بہت مانوس ہوگئے، اور ان سے بے تکلف دوستانہ تعلقات بھی قائم ہوگئے۔ ابتک مجھے ان کے بارے میں صرف اتنا معلوم تھا کہ وہ سعودی حکومت کے وزارت عدل کے سیکریٹری تھے،جسے عرب ممالک میں ”وکیل الوزارۃ” کہا جاتا ہے، اس کے علاوہ وہ کچھ عرصے مسجد نبوی میں امامت کی سعادت بھی حاصل کرچکے تھے، اور مجمع میں میں نے ان کو ہمیشہ فقہی مسائل میں بڑی حدتک متصلب پایا تھا۔وہ بکثرت مجمع کے اجلاسات کے بعد بھی الگ ملاقات کی خواہش ظاہر کرتے، اور مختلف موضوعات پران کے ساتھ کھلے دل سے گفتگو ہوتی رہتی تھی۔ایک مرتبہ اسی قسم کی کسی ملاقات میں انہوں نے مجھ سے اچانک پوچھ لیا کہ ”عبدالجبار بن وائل کا سماع اپنے والد حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہے، یا نہیں؟ ” میں اس زمانے میں دارالعلوم میں جامع ترمذی پڑھاتا تھا، اس لئے مجھے یاد تھا کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الحدود میں ذکر کیا ہے کہ عبدالجباربن وائل کا سماع اپنے والد سے نہیں ہے، البتہ ان کے بڑے بھائی علقمہ بن وائل کا اپنے والد سے سماع ثابت ہے ۔چنانچہ میں نے امام ترمذی ؒ کے حوالے سے انہیں یہی جواب دیدیا۔ اس پر وہ بہت ممنون ہوئے، اور اس اتفاقی واقعے کی وجہ سے ان پر میری حدیث دانی کا بھی مبالغہ آمیز تأثر قائم ہوگیا۔اور انہوں نے مجھ سے اجازت حدیث بھی حاصل کی۔
مجھے مجمع الفقہ الاسلامی کی ہیئت ترکیبی سے یہ اندیشہ تھا کہ اس میں مختلف حکومتوں کے نامزد کردہ علماء آئے ہوئے ہیں، اس لئے مغرب زدگی کے موجودہ دور میں شاید وہ اسلام کی مغرب زدہ تعبیر کو رائج کرنے کے لئے مجمع کا پلیٹ فارم استعمال کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے مجمع کے اجلاسات میں فضا کچھ ایسی قائم ہوگئی کہ پورے اجلاس پر دلائل کی قوت سے چھا جانے والے حضرات وہی تھے جو کسی مرعوبیت کے بغیر دین کی صحیح اور متوارث تعبیر پر ایمان رکھتے تھے۔اس میں شیخ بکرابوزید رحمۃ اللہ علیہ کا بڑا اہم کردار تھا۔ ان کے علاوہ تونس کے مفتی شیخ محمد المختار السلّامی ؒ، شام کے معروف فقیہ شیخ وہبہ زحیلی ؒ،سوڈان کے شیخ صدیق الضریر ؒ، ہمارے شامی دوست شیخ عبدالستار ابوغدہ ؒ، اردن کے ڈاکٹر عبدالسلام عبادی، شیخ عبدا للطیف فرفورؒ، شیخ سلیمان الاشقر، عراق کے شیخ ابراہیم فاضل الدبو،کردستان کے علی محی الدین القرہ داغی،عمان کے شیخ ابراہیم الخلیلی، رابطۂ عالم اسلامی کی مجمع فقہی کے شیخ عبدالرحمن البسام ؒبطور خاص قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ فقہ اسلامی کے مشہور مصنف شیخ مصطفی الزرقاء رحمۃ اللہ علیہ اور مصر کے شیخ یوسف القرضاوی حفظہ اللہ تعالیٰ بھی مجمع میں بڑی مؤثر حیثیت کے حامل تھے، اگرچہ بعض معاملات میں ہم لوگوں کی اکثریت ان سے با ادب اختلاف رکھتی تھی۔ سالہا سال تک مجمع کے ہر اجلاس میں کسی فقہی موضوع پر میرا کوئی نہ کوئی مقالہ ضرور ہوتا تھا، اور شروع میں طریقہ یہ تھا کہ ہر مقالہ نگار اپنے مقالے کا خلاصہ پیش کیا کرتا تھا، بعد میں تکرار سے بچنے کے لئے طریقہ یہ طے کرلیا گیا کہ ایک ہی موضوع پر جب کئی افراد نے مقالے لکھے ہوں، تو مجمع کی سیکریٹرییٹ کی طرف سے ان میں سے کسی ایک کو موضوع کے تمام مقالوں کا خلاصہ اور ان کا نقطۂ نظر پیش کرنے کے لئے طے کرلیا جاتا ہے جسے ”عارض”کا لقب دیا جاتا ہے۔ مجھے بھی بعض اجلاسات میں عارض کی خدمت انجام دینے کی نوبت آئی۔ خلاصے پیش ہونے کے بعد ان پر مفصل بحث ہوتی تھی جسے ” مناقشہ” کہا جاتا تھا۔ اس مناقشے میں بھی مجھے تقریباً ہر موضوع پر اظہار خیال کرنا ہوتا تھا۔ مجمع کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں پیش کئے ہوئے تمام مقالات، اور ان پر ہونے والامفصل مناقشہ لفظ بہ لفظ ریکارڈ ہوتا ہے، اور پھر مجمع کے مجلہ میں بھی وہ لفظ بہ لفظ شائع ہوتا ہے جس سے پڑھنے والا تمام آراء اور ان کے دلائل سے واقفیت حاصل کر سکتا ہے۔ اس طرح مجلہ کی ابتک پچاس سے زیادہ جلدیں شائع ہوچکی ہیں جو فقہی معلومات کا بڑا گرانقدر ذخیرہ ہیں۔مناقشے کے بعد مجمع کی طرف سے مختلف نقطہ ہائے نظر کے نمائندوں پر مشتمل ایک ”لجنۃ الصیاغہ” (ڈرافٹنگ کمیٹی) قائم کی جاتی ہے جو باہم بیٹھ کر مجمع کی قرار داد کا مسودہ تیار کرتی ہے۔ پھر وہ مسودہ دوبارہ مجمع کی مجلس میں پیش ہوتا ہے، اور اس پر دوبارہ بحث ہوتی ہے، اور پھر اتفاق یا کثرت رائے سے کوئی قرارداد منظور کی جاتی ہے۔عام طور سے ہر موضوع کی ”لجنۃ الصیاغہ” میں بھی میرا نام ضرور ہوتا تھا، اور اس طرح ہم لوگوں کی ذمہ داری دوہری ہوجاتی تھی۔ ایک طرف مجمع کی عام مجلس میں شرکت، جو صبح نو بجے سے ظہر تک، اور پھر عصر سے لیکر رات کے نوبجے تک جاری رہتی تھی، اور اس کے علاوہ ”لجنۃ الصیاغہ” کے اجلاس کبھی فجر کے بعد، کبھی ظہر کے بعد اور کبھی رات دس بجے کے بعد منعقد ہوتے تھے، اور اس طرح پورا ہفتہ انتہائی سخت مصروفیت میں گذرتا تھا۔
یہ اجلاسات کبھی مکہ مکرمہ میں، کبھی جدہ میں، کبھی کویت میں، کبھی اردن میں، کبھی بحرین، ابوظبی، دبی،قطر یا شارجہ میں، اور کبھی کوالالمپور یا برونائی میں منعقد ہوتے رہے۔
مجمع کے نظام کے تحت صدر کے علاوہ تین نائب صدر بھی منتخب ہوتے تھے۔چنانچہ کسی موقع پر مجھے مجمع کا نائب صدر بھی منتخب کرلیا گیا،اور میں تقریباً نو سال تک اس کا نائب صدررہا، میرے علاوہ تونس کے شیخ مختار السلامی اور اردن کے ڈاکٹر عبدالسلام عبادی بھی نائب صدر تھے۔لیکن نائب صدر کا کوئی اور خصوصی کام سوائے اس کے نہیں تھا کہ اگر کسی وقت صدر مجمع موجود نہ ہوں، تو ان میں سے کوئی مجمع کے اجلاس کی صدارت کرے۔ اتفاق ایسا تھا کہ ڈاکٹر بکر ابو زیدؒ جو مجمع کے صدرتھے، پورے اہتمام کے ساتھ اجلاس میں خود موجود رہتے تھے، اور کسی اجلاس سے غیر حاضر نہیں ہوتے تھے، اس لئے کسی نائب صدر کو اس کی یہ ذمہ داری سنبھالنے کا موقع نہیں آیا۔ صرف ایک مرتبہ جب مجمع کااجلاس برونائی میں ہورہا تھا، تو شیخ بکر ابوزیدؒنے مجھ سے کہا کہ مجھے ایک ضرورت سے سعودی عرب واپس جانا ہے، اس لئے باقی دنوں میں اجلاس کی صدارت میں تمہارے سپرد کرکے جانا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا کہ شیخ مختار السلامی مجھ سے عمر اور علم ہرچیز میں بڑے ہیں، آپ انہیں صدارت سونپ کر جائیں۔ لیکن انہوں نے اصرار کیا کہ نہیں، میں تمہاری صدارت کا اعلان کرکے ہی جاؤں گا۔ لیکن پھر اللہ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ ان کا عذر کسی طرح دور ہوگیا، اور وہ برونائی میں آخر تک موجود رہے، اس لئے مجھے اس آزمائش میں پڑ نے کا موقع نہیں آیا۔
اتنی بات تو مجھ پر واضح تھی کہ شیخ بکر ابو زیدؒمسلکاً سلفی ہیں، لیکن مجھ سے وہ جتنی محبت اور اکرام کے ساتھ ملتے تھے، اس کی وجہ سے مجھے کبھی یہ شبہ نہیں ہوا تھا کہ وہ اس مسلک میں متعصب ہوں گے۔لیکن کئی سال کے بعد کسی نے مجھے ان کی کتاب ”تحریف النصوص ” دکھائی، اور یہ دیکھ کر میرے افسوس کی انتہا نہ رہی کہ انہوں نے اس کتاب میں حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں یہ بے بنیاد الزام لگایا تھا کہ انہوں نے اپنی کتاب ”ایضاح الادلۃ ” میں (معاذاللہ) قرآن کریم کی ایک آیت میں تحریف کی ہے، اور اس بات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے حضرتؒ کے خلاف بڑے ثقیل الفاظ استعمال کئے ہیں۔ مجھے یہ کتاب اُس وقت ملی جب میں کراچی میں تھا۔ میں نے فوراً شیخ بکر ابوزیدؒ کو خط لکھا، اور ان کی سنگین غلطی پر انہیں متنبہ کیا، کچھ دن کے بعد میرے پاس ان کا فون آیا، اور انہوں نے کہا کہ میں نے نئے ایڈیشن میں کتاب کے اندر تبدیلی کردی ہے، اور آپ کا خط بھی اُس میں شامل کردیا ہے۔(اگرچہ جب کتاب کا نیا ایڈیشن آیا، تو اُس میں ثقیل الفاظ تو حذف کردیے گئے تھے، اور میرا خط بھی شامل کردیا گیا تھا، لیکن ایسی خاطر خواہ تبدیلی نظر نہیں آئی جس کے نتیجے میں حضرتؒ کا نام ہی ”تحریف ”کی فہرست سے خارج کردیا جاتا)
مجھے بعد میں یہ معلوم کرکے بھی شدیدافسوس ہوا کہ انہوں نے حضرت شیخ عبدالفتاح ابوغدہ رحمۃ اللہ علیہ کی ایک کتاب پر رد کرتے ہوئے ان کے بارے میں بھی نامناسب الفاظ استعمال کئے ہیں۔ چونکہ ان سے میری ملاقاتوں کا موضوع زیادہ تر مجمع سے متعلق باتیں ہوتی تھیں، اور فقہی معاملات میں مغرب زدہ افکار کے خلاف ہماری آراء اکثر وبیشتر موافق ہوتی تھیں، اس لئے ان سے سلفیت وغیرہ کے مسائل پر گفتگو کی نوبت نہیں آتی تھی، اور اگر کبھی آئی، تو وہ میری بات کشادہ دلی سے سنتے تھے، اس لئے مجھے ان کی ان متعصبانہ کتابوں کا علم نہیں ہوسکا تھا، یہاں تک کہ جب ایک دن شام کے محقق عالم شیخ محمد عوامہ مد ظلہم سے باتوں میں ذکر آیا کہ وہ مجمع کے صدر ہیں، تو انہوں نے ان کے حق میں بڑے ثقیل الفاظ استعمال کئے، اور اُس وقت مجھے ان کے اس پہلو کا علم ہوا۔
حضرت شیخ عبدالفتاح ابو غدہ رحمۃ اللہ علیہ ایک مرتبہ بذات خود مجمع کے ایک اجلاس میں تشریف لائے تھے اور چپکے سے میری نشست کے پیچھے بیٹھ گئے تھے۔ میں اس وقت ایک مسئلے میں حضرت امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے ایک قول کی تشریح کررہا تھا۔بعد میں میں نے پیچھے دیکھا تو وہ تشریف فرما تھے۔ میں نے کھڑے ہوکر ان کا استقبال کیا، اور انہوں نے میری گفتگو پر ہمت افزائی کے کلمات بھی ارشاد فرمائے۔ پھر کافی دیرتک کارروائی سنتے رہے۔ یہ سارا اجلاس شیخ بکر ابوزید رحمہ اللہ تعالی کی صدارت میں ہورہا تھا۔ لیکن اس وقت انہوں نے ان کے بارے میں مجھے کوئی اشارہ تک نہیں دیا۔
بعد میں مجھے خبر ملی کہ کسی نے حضرتؒ سے یہ کہا ہے کہ تقی شیخ بکرابوزیدؒسے بہت متأثر ہوگیا ہے، اورحضرت ؒ کے دل میں اس بات سے کچھ تکدر پیدا ہوا ہے۔ اس پر مجھے سخت تشویش ہوئی کہ میرے ایسے عظیم بزرگ کے قلب مبارک میں میری طرف سے تکدر خاطر پیداہوا۔ چنانچہ اس بات کا علم ہوتے ہی میں نے حضرت ؒ کو ایک مفصل خط لکھا جس میں عرض کیا کہ شیخ بکر ابوزیدؒ سے میرا تعلق مجمع الفقہ الإسلامی کی حد تک محدود ہے، اور چونکہ مغربیت کے سیلاب کے خلاف ہم آپس میں متحد رہتے ہیں، اس لئے باہمی ملاقاتیں بھی انہی موضوعات پر ہوتی ہیں۔ان کے سلفی مسلک پر کبھی کوئی بات نہیں ہوتی، اور اگر کبھی ہوئی ہے تو انہوں نے اسے تسلیم بھی کیا ہے۔
الحمد للہ! اس خط کے جواب میں حضرت ؒ نے جو کچھ لکھا،اس سے نہ صرف میری تشویش دور ہوئی، بلکہ ان کے یہ الفاظ میرے لئے نا قابل بیان ٹھنڈک ثابت ہوئے کہ:
”وفی الختام، انتم منی وأنا منکم من قبل ومن بعد،واستغفراللہ لی ولکم وأرجو لکم کلّ خیر وأرجو من اللہ أن یدیم أخوتنا صافیۃ وافیۃ وتقبلوا أطیب تحیّاتی لکم وللأخ الجلیل۔”
"آخر ی بات یہ ہے کہ ہمیشہ سے پہلے بھی اور بعد بھی آپ میرے ہیں، اور میں آپ کا ہوں، اور اپنے لئے بھی اورآپ کے لئے بھی اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں، اور اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ ہماری اخوت ہمیشہ مکمل اور بے غبار رہے۔اور میرے بہترین تحیات اپنے لئے اور جلیل القدر بھائی (حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی مد ظلہم) کے لئے قبول فرمائیے۔”
میں نے مجمع الفقہ الاسلامی کے اجلاسات میں یہ بات نوٹ کی تھی کہ اس میں برصغیر کے علماء کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے، کیونکہ میرے سوا اس علاقے سے کوئی بھی اس میں شریک نہیں ہے۔ اس لئے میں نے مجمع کے امین عام شیخ حبیب بلخوجہ رحمۃ اللہ علیہ سے بات کی، تو انہوں نے کہا کہ آپ برصغیر کے جن علماء کو بلانا چاہتے ہیں، ان کی سیرت ذاتیہ مجھے بھیج دیں، ان شاء اللہ ان کو بھی وقتاً فوقتاً مدعو کیا جاسکے گا۔ چنانچہ میں نے مجمع میں اپنی رکنیت کے کچھ ہی دنوں کے بعد پاکستان اور ہندو ستان کے مشاہیرعلماء کرام کو خط لکھا کہ وہ ازراہ کرم اپنی سیرت ذاتیہ (سی وی) مجھے ارسال فرمادیں، تاکہ میں وہ مجمع کے سیکریٹرییٹ میں جمع کراسکوں۔لیکن میرے اس خط کا بہت کم علماء کرام نے جواب دیا، اور آخر کار پاکستان سے صرف میرے بڑے بھائی حضرت مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب مد ظلہم، اور ہندوستان سے حضرت مولانا مجاہدالاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا بدرالحسن قاسمی صاحب زید مجدہم کو دعوت دی گئی، اور وہ مجمع کے بہت سے اجلاسات میں بحیثیت ”خبیر” شریک ہوتے رہے۔
مجمع کے بارے میں خاص طورپر پاکستان کے علماء میں شاید یہ تأثر تھا کہ یہ ایک سرکاری قسم کاادارہ ہے جس میں غلبہ عرب علماء کا ہے، اور عرب علماء کے بارے میں (غالباً ان کی وضع وقطع کی وجہ سے) یہ تأثر تھا کہ وہ فقہی معاملات میں قدرے متساہل ہیں۔اس لئے اس مجمع سے کسی خاص فائدے کی امید نہیں ہے۔ چنانچہ جب میں نے پاکستان کے علماء کو خط لکھا، تو ان میں سے ایک بزرگ نے صراحۃً مجھے یہ جواب دیاکہ وہ اس بنا پر اس میں شریک نہیں ہونا چاہتے، اور جیسا کہ میں اوپر لکھ چکا ہوں، شروع میں خود مجھے بھی یہ اندیشہ تھا، لیکن ساتھ ہی میں یہ بھی سمجھتا تھا کہ اگر ہم اس میں فعال ہوکر شریک ہوں، تو مجمع کی رائے پر بھی اثر انداز ہوسکتے ہیں، اور کم ازکم اپنا موقف دلائل کے ساتھ عالمی سطح پر پیش کر سکتے ہیں۔ چنانچہ سچی بات یہ ہے کہ مجمع کے کام میں فعال حصہ لینے کے بعد میرا منفی تأثر بڑی حد تک زائل ہوا۔ دور دور سے ہم نے عرب علماء کے بارے میں جو تأثر بٹھا رکھا تھا، ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے بعد اندازہ ہوا کہ ظاہری وضع قطع میں ان کا موقف برصغیر کے علماء سے مختلف ضرور ہے،جس کے لئے ان کے پاس کچھ صحیح یا غلط عذر بھی ہے، لیکن میں نے دیکھا کہ خاص طورپر نئے اقتصادی مسائل کے بارے میں بھی وہ بڑے محتاط ہیں۔ نیز ان کی وسعت علم کا بھی براہ راست تجربہ ہوا۔ چنانچہ مجمع کی طرف سے جو قرار دادیں (فتاویٰ) مرتب ہوئے ہیں، ان کے جائزے سے یہ بات بالکل واضح ہوتی ہے کہ ان میں پوری احتیاط کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ یقیناً بعض مسائل میں مجمع کے فیصلوں سے اہل علم کو اختلاف کا پورا حق ہے، لیکن یہ اختلاف ایسا ہی ہے جیسے مختلف مفتیوں کے فتاویٰ میں ہمیشہ ہوتا رہا ہے، ان میں سے کسی بھی فتوے کو باطل محض یا گمراہی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ مجھ سے عرب ممالک میں بھی اور پاکستان میں بھی متعدد مرتبہ ریڈیو پر یااخباری انٹر ویو میں یہ سوال کیا گیا کہ کیا مجمع کے فتاویٰ کو اجماع قرار دیا جاسکتا ہے؟ میں نے ہر مرتبہ یہ جواب دیا کہ عالم اسلام کے جو اہل فتویٰ اس میں شریک نہیں ہیں، ان کی غیر موجودگی میں اسے اجماع ہرگز نہیں کہا جاسکتا، البتہ اس اجتماعی غور وفکر کے نتیجے میں جو فتاویٰ منقح ہوکر آرہے ہیں، وہ یقیناً بڑا وزن رکھتے ہیں، اور اختلاف آراء کے باوجود مجمع کے اجلاسوں میں جس بے تکلفی اور سنجیدگی سے بحث ہوتی ہے، اور دلائل پرجس طر ح آزادی سے غور کیا جاتا ہے، وہی فتویٰ کی بنیاد بنتی ہے، اس لئے دوسرے اہل علم کو اسے بے وزن سمجھنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے، او ررفتہ رفتہ جب ادارے کا کام آگے بڑھے گا، اور اسی اسلوب پر بڑھے گا تو ان شاء اللہ اس کااثر پورے عالم اسلام پر پھیلے گا، اور بہت مضبوط دلائل کے بغیر ان سے انحراف مشکل ہوگا۔ چنانچہ مجمع کے تمام فقہی فیصلوں پر بڑے اہتمام سے کھل کر بحث ہوتی ہے، ایک آدھ بار کچھ گرما گرمی بھی ہوئی، لیکن الحمد للہ وہ کسی گروپ بندی تک نہیں پہنچی، نہ اس کی وجہ سے باہم کوئی تلخی پیداہوئی، اور اگر وقتی طور پر ہوئی بھی تو ہ مجلس کی حدتک محدود رہی، اور بحیثیت مجموعی سب بڑے شیروشکر رہے، اور دوسرے کی بات کو ناقابل لحاظ سمجھ کر اس سے مکمل بے اعتنائی کبھی نہیں برتی گئی۔ مجلس میں معرکۃ الآراء اختلافات کے باوجود جب ہم کھانے پر یا نجی مجلسوں میں ملتے، تو اُس میں تکدر کے بجائے بے تکلفی اور ایک دوسرے کااحترام پوری طرح ملحوظ رہتا تھا، بلکہ کسی کو یہ پتہ نہیں چل سکتا تھا کہ یہ مسائل میں ایک دوسرے کے حریف ہیں۔ اس طرح عالم اسلام کے چیدہ علماء پہلی بار اتنی کثرت سے شیرو شکر ہوکر بحثوں میں کھل کر حصہ لیتے، لیکن دوسرے نقطۂ نظر کو بھی بالکل باطل محض قرار نہیں دیتے تھے۔ اور اس طرح ان سب حضرات سے بہت بے تکلف برادرانہ تعلق قائم ہو گیا تھا ،پھر جب قراردادیں آخری شکل میں آخری اجلاس میں پہنچتیں، تو بکر ابوزید ؒ کا طریقہ یہ تھا کہ ان میں سے کسی جزئیے میں پوری تشفی نہیں ہوتی تھی، تو وہ اُسے آئندہ کے اجلاس تک ملتوی کردیتے تھے، اور اس قسم کے مؤخر مسائل کی ایک خاصی فہرست ہوگئی جس پر مزید غوروفکر کی سفارش کی جاتی تھی،پھر ان پر کسی اور اجلاس میں مزید معلومات اور تحقیقات کے ساتھ دوبارہ بحث ہوتی تھی۔
چونکہ مجمع کی کارروائی لفظ بلفظ چھپتی تھی، یعنی اُس میں صرف قرار دادیں نہیں، بلکہ اجلاس میں پیش کئے گئے مقالات، اور ان پر دی جانے والی تمام آراء جو برجستہ بیان کی جاتی تھیں، وہ بھی لفظ بہ لفظ محفوظ کرکے مجلہ میں شائع کی جاتی ہیں، اور ایک ایک مجلہ کئی کئی ضخیم جلدوں پر مشتمل ہوتا ہے، اور چھپنے کے بعد اہل علم اُسے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں،اب ان جلدوں کی تعدادپچاس جلدوں سے زیادہ ہوچکی ہے، میں نے یہ دیکھا کہ جو اہل علم یا طلبہ فقہی ذوق کے حامل ہیں،وہ ان مجلات کو گراں مایہ ذخیرہ سمجھتے، اور ان کا حوالہ دیتے، اور اب مجمع نے کسی بھی اور فقہی مجلس کے مقابلے میں سب سے زیادہ عالمگیر وقار حاصل کرلیا ہے۔
بعض معاملات پر انفرادی بحثوں کے بجائے اس بات کی ضرورت محسوس ہوتی کہ مجمع میں پہنچنے سے پہلے ان کے مسائل کی تحقیق کے لئے ایک چھوٹا اجتماع ”ندوہ ”(سیمینار) کے نام سے بلایا جائے، اور اس میں تمہیدی کام کرکے مجمع کو پیش کیا جائے۔ اس قسم کے ندوات سال میں کئی بار مختلف ملکوں میں منعقد ہوتے تھے، اور میں بھی ان میں سے اکثر میں شریک ہوتا تھا، اور اگر کسی وقت شریک نہ ہوسکتا ، تو مجمع کے ذمہ داروں، بالخصوص شیخ حبیب بلخوجہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے اس کی شکایت کی جاتی تھی۔میں کوشش کرتا تھا کہ ان چھوٹے اجتماعات میں بھی فعال کردار ادا کروں، اور اس کے نتیجے میں مجھے حرمین شریفین کی باربار حاضری بھی نصیب ہوجاتی تھی۔
ایک مرتبہ اسی قسم کا ایک ندوہ (سیمینار) مجمع الفقہ الاسلامی، معہد البحوث والتدریب (IRTI)جدہ اور مراکش کی وزارت اوقاف کے تعاون سے رباط میں طے کیا گیا۔ اس کا موضوع ”الاوراق المالیۃ”یعنی مالی دستاویزات (Financial Papers) تھا۔مقصد یہ تھا کہ ہمارے دور میں قرض یا دین کی جو دستاویزات بانڈ، ہنڈی، بل آف ایکسچینج وغیرہ کی صورت میں متعارف ہیں، ان کی شرعی حیثیت اور ان کے تبادلے سے متعلق شرعی احکام کی وضاحت کی جائے، او ر ان کے ناجائز ہونے کی صورت میں ایسی مالی دستاویزات کے بارے میں سوچا جائے جو شرعی اعتبار سے قابل تبادلہ یا قابل بیع ہوں۔ یہ تین روزہ سیمینار مراکش کے دارالحکومت رباط میں ہونا تھا، چنانچہ میں اس میں شرکت کے لئے ایک رات پہلے پیرس کے راستے رباط پہنچ گیا۔وزارت اوقاف کی طرف سے شہر کے سب سے بڑے ہوٹل میں سیمینار منعقد ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب عالم اسلام کے مختلف حصوں میں تجارتی سود کے بارے میں یہ آوازیں اٹھتی رہتی تھیں کہ وہ اُس ”ربا” کے حکم میں نہیں ہے جسے قرآن کریم نے حرام قرار دیا ہے۔اگرچہ مجمع الفقہ الاسلامی نے اس نقطۂ نظر کو پہلے ہی باتفاق مسترد کر دیا تھا، لیکن اس سیمینار میں ایک بار پھرچند حضرات کی طرف سے اس کی آواز بازگشت سنائی دی، لیکن حاضرین کی اکثریت کا موقف وہی تھا جو مجمع کی طرف سے پہلے طے ہوچکا تھا، لیکن بحث ومباحثہ بڑے شدومد سے دو دن متواتر جاری رہا، یہاں تک کہ ہمیں ہوٹل میں داخل ہونے کے بعد باہر نکلنے کا موقع ہی نہیں ملا۔
آخر کار جب تیسرے دن سیمینار کے نتائج کے طورپر قرار دادیں مرتب کرنے کا وقت آیا، تو ہمیں ایک انتہائی تکلیف دہ صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ جیسا کہ میں عرض کرچکاہوں، اس سیمینار کی ضیافت مراکش کی وزارت اوقاف ومذہبی امور کی طرف سے ہورہی تھی، اور اس کی بڑے پیمانے پر تشہیر بھی کی گئی تھی، یہاں تک کہ ذرائع ابلاغ میں اس سیمینار کی خبر کو وزارت کے بڑے کارنامے کے طورپرباربار نمایاں کیا جار ہا تھا۔لیکن جب قرار دادوں کی تدوین کے لئے ہم جمع ہوئے، تو یہ بات واضح تھی کہ سودی دستاویزات کے بارے میں سیمینار کا یہ فیصلہ شائع کیا جائے گا کہ وہ حرام ہیں، اس کے بعد ان دستاویزات کے تبادلے وغیرہ کے احکام کی وضاحت ہوگی، اور بالآخر ان کے شرعی متبادل کے بارے میں کوئی تجویز آئے گی۔ لیکن ابھی ہم سیمینار کے نتائج پر مشتمل قرار داد کا مسودہ لکھ ہی رہے تھے کہ اتنے میں ہمیں بتایا گیا کہ وزارت کا ایک وفد آپ سے ملنا چاہتا ہے، اور برابر کے ایک کمرے میں لجنۃ الصیاغۃ (ڈرافٹنگ کمیٹی) کے ارکان کا انتظار کر رہا ہے۔ ہم اسے خیر سگالی پر محمول کرتے ہوئے وفد کے پاس پہنچے، تو شروع میں ان حضرات نے جو شکل وصورت سے مساجد کے نمائندے معلوم ہوتے تھے، ہمارے لئے بڑے خیر مقدمی الفاظ استعمال کئے، اور کافی دیر ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے، پھر ان کے ایک نمائندے نے پوچھا کہ آپ قرارداد میں کیا لکھنے جا رہے ہیں؟ ہم نے مختصراً انہیں اپنا ارادہ بتایا۔ اس پر ان کی زبان سے یہ سُن کر ہماری حیرت کی انتہا نہیں رہی کہ آپ مطلق ربا کی حرمت کا ذکر ضرور کریں، لیکن سودی بانڈ، اور بل آف ایکسچینج وغیرہ کو حرام قرار دینے کی تصریح نہ کریں۔ہم نے بہت کہا کہ اس طرح یہ سیمینار بیکار ہوکر رہ جائے گا، اور جن مسائل کی تحقیق کے لئے دنیا بھر سے علماء جمع ہوئے ہیں، ان کی کوئی تحقیق سامنے نہیں آسکے گی۔دوسری طرف یہ اجتماع دراصل مجمع کا ہے، اور اس کے تمام ارکان اور نمائندوں، نیز معہد البحوث کے سارے لوگ اور مقالہ نگاروں کی بھاری اکثریت نے جو فیصلہ کیا ہے، ہمیں وہی قرار داد کے طورپر لکھنا ہے۔ لیکن وہ حضرات اس پر مصر رہے کہ ہماری درخواست یہ ہے کہ یہاں رہتے ہوئے آپ سودی مالی دستاویزات کی حرمت کا فتویٰ نہ دیں،اور کوئی عمومی عنوان اختیار کرلیں۔ ان کے ساتھ دیر تک گفت وشنید رہی، اور آخر کار اندازہ ہوا کہ حکومت اس سیمینار سے اس قسم کا کوئی اعلان جاری نہیں کرنا چاہتی۔
اس افسوسناک صورت حال کی وجہ سے شیخ حبیب بلخوجہ رحمۃ اللہ علیہ نے مجمع اور معہدکے چند ارکان کا ایک اجتماع بلایا، اور جب ہم نے اس بات پر احتجاج کیا کہ اگر یہ حضرات اس قسم کا کوئی اعلان کرنا نہیں چاہتے تھے توسیمینار بلانے کی کیا ضرورت تھی؟ تو شیخ حبیب بلخوجہ ؒ نے فرمایا کہ اب اس معاملے کو طول دینا مناسب نہیں ہے، ہمیں وزارت کے لوگوں کو کسی مشکل میں نہیں ڈالنا چاہئے، البتہ ہم اپنی قراردادوں سے پیچھے بھی نہیں ہٹیں گے، اور سیمینار کے نتائج کا اعلان ہم یہاں کے بجائے جدّہ جاکر اپنے مستقر سے کریں گے۔ تمام حاضرین نے چارو ناچار اسی تجویز سے اتفاق کیا۔سیمینار اُس وقت باقاعدہ قراردادوں کے بغیر ختم ہوگیا، اور پھر شیخ حبیب بلخوجہؒ نے ان کا اعلان جدّہ جاکر کیا۔(اندلس وہاں سے قریب تھا، اس لئے میں وہاں سے اندلس چلاگیا جس کا سفرنامہ شائع ہوچکا ہے۔)
اس واقعے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اُس وقت سودی نظام کے خلاف کوئی آواز اٹھانا خود بعض مسلمان ملکوں میں کس قدر مشکل تھا، لیکن الحمد للہ رفتہ رفتہ حالات میں تبدیلی آئی ہے، اور وہی مراکش جہاں ہم سودی دستاویزات کے حرام ہونے کااعلان نہیں کرسکے تھے، اب وہاں ”المصارف التشارکیۃ” کے نام سے غیر سودی بینکوں کا آغاز ہورہا ہے، اور آج سے تقریباً دو سال پہلے اُسی مراکش کی جامعۃ القرویین کے ایک بڑے ہال میں جو سامعین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، مجھے اسلامی مالیات پر درس دینے کی دعوت دی گئی، اور میں نے وہاں تالیوں کی گونج میں سودی نظام کے خلاف کھل کر تقریباً گھنٹہ بھر تقریر کی۔ اور اب ہمیں پھر دعوت دی جارہی ہے کہ ہم وہاں غیر سودی نظام کو متعارف کرائیں۔فالحمد للہ علی ذلک۔ …..

جاری ہے ….

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

(ماہنامہ البلاغ :شعبان المعظم ۱۴۴۳ھ)