حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی

یادیں

(اکاونوی قسط)

سوڈان کے قوانین پر نظر ثانی کے لئے دو سفر
۱۹۸۳ ء میں سوڈان کے صدر جنرل نمیری صاحب نے اپنے آخری دور میں سوڈان میں اسلامی قوانین نافذ کئے تھے، بہت سی حدود شرعیہ نافذ کی تھیں، اور ربا کو ختم کردیا گیا تھا۔ لیکن ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔جب صادق المہدی صاحب کی قیادت میں نئی حکومت آئی، تو اس نے یہ کہکر ان قوانین کو منسوخ کرنے کاارادہ کیا کہ ان قوانین میں بہت سے شرعی نقائص ہیں۔ اس سلسلے میں وہاں کی سیاسی اور دینی جماعتوں میں بڑی کشمکش چل رہی تھی۔آخر کچھ لوگوں نے حکومت کو اس بات پر آمادہ کیا کہ ان قوانین کو منسوخ کرنے کے بجائے علماء اور قانونی ماہرین کے مشورے سے ان نقائص کو دور کیا جائے۔اس غرض سے وہاں کی حکومت نے کچھ غیر جانب دار علماء اور قانون داں حضرات کی ایک کمیٹی بنائی جس میں اردن سے شیخ مصطفی الزرقاء کو، مصر سے جناب سالم العواء کو، اور پاکستان سے مجھے، ڈاکٹر تنزیل الرحمن صاحب اور پروفیسر خورشید احمد صاحب کو مدعو کیا گیا۔ چنانچہ ربیع الاول ۱۴۰۷ ھ مطابق نومبر ۱۹۸۶ ء میں پاکستان سے ہم تینوں نے رخت سفر باندھا۔ پہلے مکہ مکرمہ حاضر ہوکر عمرے کی سعادت حاصل کی، پھر اگلے دن سہ پہر میں جدہ سے سوڈان کے دارالحکومت خرطوم کے لئے روانگی ہوئی۔ شام کو عصر کے وقت ہمارا جہاز خرطوم کے ہوائی اڈے پر اترا۔ حکومتی نمائندے وہاں کے اٹارنی جنرل صاحب کی قیادت میں استقبال کے لئے موجود تھے۔ انہوں نے ہمیں وی آئی پی لاؤنج میں لے جاکر بٹھا دیا جہاں ہمیں عصر کی نماز اداکرنے کی جلدی تھی۔وضو کے لئے وی آئی پی لاؤنج کے غسل خانے میں پہنچے، تو اس کی حالت دگر گوں نظر آئی۔ایسا لگتا تھا جیسے کسی پرانی ریلوے کے مسافرخانے میں آگئے ہوں۔مشکل سے وضو کرکے لاؤنج میں آبیٹھے جہاں سوڈان کے مخصوص شربت ”کرکدے ” سے ہمار ی تواضع کی گئی، جسے پینے کا پہلا خوشگوارتجربہ تھا۔ہم اس انتظار میں تھے کہ سامان آئے تو قیام گاہ کے لئے روانہ ہوں، لیکن بیٹھے بیٹھے مغرب ہوگئی۔ مغرب کی نماز پڑھکر لاؤنج کے اہل کاروں سے پوچھا کہ سامان کب آئے گا؟وہ بڑی شفقت سے ہمیں اطمینان دلاتے رہے کہ اٹارنی جنرل صاحب بذات خود سامان لینے گئے ہوئے ہیں،اس لئے آپ کا سامان سب سے پہلے آئے گا۔انہی تسلیوں کے درمیان عشاء کا وقت ہوگیا، اور کوئی سامان لیکر نہ آیا۔ عشاء کے بعد بھی جب کافی دیر گذرگئی تو ہم نے کہا کہ براہ کرم ہمیں اسی جگہ لے چلیں جہاں سامان آتا ہے، تاکہ ہم خود اپنے سامان کو پہچان کر لاسکیں۔اس پر متعلقہ افراد نے شروع میں تردد کااظہار فرمایا کہ یہ وی آئی پی کے آداب کے خلاف تھا، لیکن جب رات گذرتی چلی گئی، اورانتظار ناقابل برداشت ہوگیا، تو ہم اصرارکرکے چلنے کے لئے کھڑے ہی ہوگئے جس پر وہ مجبوراً ہمیں سامان کی جگہ لے گئے۔ وہاں جاکر جو منظر دیکھا، وہ دیکھنے ہی سے تعلق رکھتا تھا، بیان کرنے سے نہیں۔
یہ ایک چھوٹاساکمرہ تھا جو کئی پروازوں کے سامان سے تقریباً چھت تک بھرا ہوا تھا، اور مسافر یا توان چھوٹی چھوٹی جگہوں میں ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے تھے جو سامان سے بچ گئی تھیں، یا پھر سامان کے ڈھیروں پر کھڑے نظر آرہے تھے۔ بمشکل ہم نے اندر داخل ہوکر اٹارنی جنرل صاحب کو تلاش کرنے کی کوشش کی، تو کچھ دیر بعد وہ سامان کے ایک ڈھیر کے اوپر کھڑے اپنے نیچے دبے ہوئے ایک سوٹ کیس کانمبر تلاش کرنے میں مشغول تھے۔اس حالت میں اپنا سامان خود تلاش کرنا بھی آسان نہ تھا، لیکن کافی جدوجہد کے بعد میرا اور پروفیسر خورشید صاحب کا سامان تو مل گیا، لیکن ڈاکٹر تنزیل الرحمن صاحب کا سامان پھر بھی نہ مل سکا۔ اس کی رپورٹ درج کرائی گئی، اور نتیجہ یہ ہے کہ تقریباً چھہ گھنٹے بعد ہم ائیر پورٹ سے ہوٹل کے لئے رات گیارہ بجے روانہ ہونے کے قابل ہوئے۔ بیچارے ڈاکٹر تنزیل الرحمن صاحب(۱) کئی دن تک سوتے جاگتے ہر وقت ایک ہی کوٹ پتلون میں گذاراکرتے رہے۔اپنے بے شمار سفروں میں اس قسم کا تجربہ چونکہ بہت کم ہوا، اس لئے وہ سارا منظر یاد رہ گیا۔ چھتیس سال پہلے تو وہاں کے ہوائی اڈے کا یہی عالم تھا۔امید ہے کہ اب وہ صورت نہیں رہی ہوگی۔
بہر حال! ایک ہفتہ خرطوم میں قیام رہا۔اور اس ہفتے کے دوران کمیٹی کے اجلاس ہوتے رہے جن میں نمیری صاحب کے نافذ کئے ہوئے قوانین کا جائزہ لیا جاتا رہا۔خاص طورپر شیخ مصطفی الزرقاء رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ علمی نشستیں بھی رہیں۔ کمیٹی کا اس بات پر اتفاق ہوا کہ یہ قوانین بحیثیت مجموعی شریعت کے دائرے میں ہیں، ان میں کچھ جزوی تبدیلیوں کی تو واقعی ضرورت ہے، لیکن ان کی وجہ سے ان کو بالکلیہ منسوخ کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔چنانچہ طے کیا گیا کہ ان میں جن ترمیمات کی ضرورت ہے، انہیں دفعہ وار لکھ کر ایک رپورٹ حکومت کو پیش کردی جائے۔ کمیٹی نے حدود وقصاص سے متعلق قوانین میں ترمیمات مرتب کرنے کا کام میرے سپرد کیا، لیکن چونکہ اس کے لئے کافی وقت درکار تھا، اس لئے طے ہوا کہ میں وطن واپس آکر اطمینان سے یہ ترمیمات مرتب کروں، اس کے بعد ایک مرتبہ پھر سوڈان میں کمیٹی کا اجلاس ہو جس میں وہ ترمیمات پیش کی جائیں، پھر مفصل رپورٹ حکومت کو پیش کی جائے۔ اس کے بعد ہم وہاں سے روانہ ہوکر واپس رات گئے جدہ پہنچے۔اس مرتبہ میں نے مکہ مکرمہ کے پاکستان ہاؤس میں چنددن قیام کے لئے بکنگ کرائی ہوئی تھی، چنانچہ جدہ سے ایک ٹیکسی کے ذریعے رات ایک بجے کے بعد مکہ مکرمہ پہنچا، پاکستان ہاؤس شارع اجیاد پر واقع تھا۔میں ٹیکسی اس کے سامنے رکواکر احرام کی حالت میں نیچے اترا، تو باہر نہایت برفانی ہوا چل رہی تھی۔پاکستان ہاؤس کا دروازہ بند تھا، دوتین مرتبہ گھنٹی بجائی، لیکن شاید اہل کار سوچکے تھے۔میں نے اس سے پہلے یابعد مکہ مکرمہ اتنی شدید سردی کبھی نہیں دیکھی۔ہوا اس قدر برفانی تھی کہ احرام کی حالت میں چند منٹ دروازہ کھلنے کے انتظار میں باہر کھڑا رہنا قابل برداشت نہ رہا، اس لئے میں نے ٹیکسی میں واپس آکر ڈرائیور سے کہا کہ وہ مجھے پیچھے فندق عبدالعزیز خوقیر لے چلے جو اس وقت شارع اجیاد کے کنارے(اس جگہ جہاں آج فندق الصفوۃ ہے،) حرم سے بالکل قریب واقع تھا۔ الحمد للہ وہاں کمرہ مل گیا، اور پھر میں نے احرام کی چادر پر ہوٹل کا کمبل ڈال کر رات میں عمرہ کیا، اور بفضلہ تعالیٰ چند دن حرم شریف کے سائے میں گذارنے کی توفیق ہوئی۔اور جہاں تک یاد ہے، اسی قیام کے دوران میں نے وہ مناجات کہی تھی:

سرگشتہ ودرماندہ، بے ہمت و ناکارہ
وارفتہ و سر گرداں، بے مایہ و بیچارہ
شیطاں کا ستم خوردہ، اس نفس کا دکھیارا
آج اپنی خطاؤں کا لادے ہوے پشتارہ
دربار میں حاضر ہے اک بندۂ آوارہ

پھر کراچی پہنچ کر میں نے اپنی دوسری مصروفیات کے ساتھ حدود وقصاص سے متعلق سوڈان کے قوانین پر مکمل تبصرہ لکھا، اور دفعہ وار ان میں ترمیمات تجویز کیں۔( ترمیمات پر مشتمل یہ تبصرہ میرے عربی مقالات کے مجموعے ”مقالات العثمانی”میں شائع ہوچکا ہے (۱))۔
جب یہ کام مکمل ہوگیا، تو متعلقہ کمیٹی کا دوسرااجلاس ۲ فروری ۱۹۸۷ ء کو خرطوم میں طے تھا۔ اس میں شرکت کے لئے ڈاکٹر تنزیل الرحمٰن صاحب اور پروفیسر خورشید احمد صاحب کے ساتھ میں ۳۱؍ جنوری۱۹۸۷ء کو شام ساڑھے چاربجے جدہ کے لئے روانہ ہوا، اور رات کو دس بجے مکہ مکرمہ پہنچ کربفضلہ تعالیٰ عمرہ ادا کیا، ایک بجے فارغ ہوکر رات پاکستان ہاؤس میں گذاری اگلے دن سہ پہرجدہ ائیر پورٹ پہنچے، تو وہاں یہ افسوسناک اطلاع ملی کہ میرے بہنوئی اور سابق ناظم دارالعلوم حضرت مولانا نور احمد صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ انتقال فرماگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔اس اطلاع سے دل بے چین ہوا، لیکن کام کی اہمیت کے پیش نظر نہ سفر کو ملتوی کرنا ممکن تھا، نہ ایسے وقت واپسی کی کوئی صورت ہوسکتی تھی جس سے جنازے میں شرکت ہوسکے۔اس لئے مغموم دل کے ساتھ تین بجے خرطوم کے لئے روانہ ہوکر وہاں شام چھہ بجے پہنچے ۔الحمد للہ اس مرتبہ وہاں ائر پورٹ پر وہ آزمائش پیش نہیں آئی جو پہلی مرتبہ پیش آئی تھی۔
اگلے دن صبح خرطوم کے قاعۃ الصداقۃ میں ”مؤتمر منہاج الدعوۃ وإقامۃ النظام الإسلامیّ” کے نام سے ایک کانفرنس تھی۔ اس کی دوسری نشست میں میری تقریر بھی ہوئی۔ اور اس کے بعد ہماری کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں مجوزہ ترمیمات کا جائزہ لیا گیا۔ پھر دوسرے دن بھی یہ کام جاری رہا اور رات کے وقت ترمیمات کو آخری شکل دیکر حتمی رپورٹ تیار کی گئی۔اسی رات سوڈان کے مشہور سیاسی رہنما جناب حسن الترابی نے (جو اس وقت اپوزیشن میں تھے) ہمیں کھانے پر مدعو کیا ہوا تھا۔ رات گئے تک ان کے ساتھ نشست رہی۔پھر ۴؍ فروری ۱۹۸۷ء کو سوڈان کے اس وقت کے وزیر اعظم صادق المہدی کے ساتھ ہماری ملاقات طے تھی۔ اس ملاقات میں ہم نے انہیں اپنی رپورٹ پیش کی، اور اس کے بعد ایک پریس کانفرنس میں اس کا اعلان کیا۔ اس کوشش کے نتیجے میں الحمد للہ وہاں کا ایک تنازعہ اختتام کو پہنچا، اور اسلامی قوانین کو منسوخ کرنے کاارادہ ختم کردیا گیا۔
اس طرح ہم اس کام سے فارغ ہوکر جمعہ ۶؍ فروری مطابق ۷؍ جمادی الثانیہ ۱۴۰۷ ھ کو صبح سات بجے خرطوم سے واپس روانہ ہوئے۔دس بجے صبح جدہ پہنچ کر نماز جمعہ بفضلہ تعالیٰ حرم مکہ مکرمہ میں اداکی، عصر کے بعد عمرہ کیا، اور اسی شام ساڑھے آٹھ بجے جدہ سیروانہ ہوکر رات ڈھائی بجے کراچی واپس پہنچے۔

مجمع الفقہ الاسلامی کی رکنیت
جب میں سپریم کورٹ میں کام کررہا تھا، تو کراچی ہائی کورٹ کی ایک تقریب میں صدر جنرل محمد ضیاء الحق صاحب بطور مہمان خصوصی مدعو تھے۔تقریب کے اختتام پر انہوں نے مجھ سے کہا کہ ”آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس” (او آئی سی) جو مسلمان ملکوں کی تنظیم ہے(۱) ، اُس نے ایک ادارہ ”اسلامک فقہ اکیڈمی ” کے نام سے قائم کرنے کاارادہ کیا ہے جس میں عصر حاضر کے نئے فقہی مسائل پر اجتماعی طورسے غور وفکر کیا جائے۔ ہم نے اُس کے پہلے اجلاس میں جسٹس آفتاب حسین صاحب کو پاکستان کے نمائندے کے طورپر بھیجا تھا، لیکن اکیڈمی کے حضرات کا کہنا یہ ہے کہ اس کی رکنیت کے لئے کسی ایسے شخص کو نامزد کیا جائے جو اسلامی علوم میں اختصاص اور عربی زبان پرقدرت رکھتا ہو، اس لئے میں پاکستان کی طرف سے اس کی رکنیت کے لئے آپ کا نام تجویز کرنا چاہتا ہوں، امید ہے کہ آپ کو منظور ہوگا۔ میں اُس وقت تک اکیڈمی کے پورے پس منظر سے باخبر نہیں تھا، لیکن میں نے دو وجہ سے جنرل صاحب ؒ کی اس پیشکش کو قبول کرلیا۔ایک وجہ تو اس موضوع سے اپنی دلچسپی تھی، اور دوسری وجہ یہ تھی کہ اکیڈمی کا مرکز جدہ میں تھا، اور اس رکنیت کی وجہ سے بظاہر حرمین شریفین کی حاضری کے مواقع خوب میسر آنے کی توقع تھی۔ جنرل صاحب ؒ نے فرمایا کہ میں وزارت خارجہ کو ہدایت کردونگا کہ وہ اس سلسلے میں آپ سے رابطہ کرلے۔ چنانچہ چند ہی دنوں کے بعد وزارت خارجہ کے افسران نے مجھ سے رابطہ کرکے اکیڈمی سے متعلق کاغذات میرے پاس بھجوادئیے۔
ان کاغذات کو دیکھنے سے معلوم ہوا کہ مسلمان ملکوں کی ایک سربراہ کانفرنس میں شاہ فیصل مرحوم نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ اوآئی سی کے تحت ایک ایسا فقہی ادارہ قائم کیا جائے جو مسلمان ملکوں کے سربرآوردہ علماء پر مشتمل ہو، اور اس میں وہ مسائل زیر بحث لائے جائیں جو عصر حاضر میں نئے پیدا ہوئے ہیں، اور ان میں اجتماعی غوروفکر کی ضرورت ہے۔ چنانچہ اس ادارے کا ایک تاسیسی اجلاس ہوچکا تھا، اور اس میں یہ طے ہوا تھا کہ اس ادارے کانام ”مجمع الفقہ الاسلامی ” (اسلامک فقہ اکیڈمی) ہوگا، اور ہر مسلمان ملک اپنے علماء میں سے ایک عالم کو نامزد کریگا جو اکیڈمی کا مستقل رکن ہوگا۔ لیکن چونکہ ملکوں میں نامزدگی کے لئے سیاسی عوامل بھی کارفرما ہوجایا کرتے ہیں، اس لئے اکیڈمی کے دستور میں یہ بات بھی طے کردی گئی تھی کہ حکومتوں کا کام صرف نام پیش کرنا ہوگا، جب کوئی ملک کسی رکن کانام پیش کرے، تو اکیڈمی اس کی اہلیت کا جائزہ لیکر اسے منظور یا نامنظور کریگی،اور جب کوئی شخص اس طرح رکن بن جائے، تو اسے معزول کرنے کا اختیار بھی اکیڈمی ہی کو ہوگا، متعلقہ حکومت کو نہیں۔رکن کی اہلیت کا معیار بھی اکیڈمی کے دستور میں طے کردیا گیا تھا کہ وہ اسلامی علوم میں اختصاص رکھتا ہو، اور عربی تحریر وتقریر پر اسے پوری قدرت ہو۔ حکومتوں کے نامزد کردہ افراد کے علاوہ اکیڈمی کی عمومی مجلس کو یہ اختیار بھی دیا گیا تھا کہ وہ عالم اسلام کے معروف علماء میں سے ایسے حضرات کو خود نامزد کرے جو فقہی بصیرت کے حامل ہوں۔ چنانچہ اس کے ارکان میں ایسے متعدد حضرات کو بھی شامل کیا گیا جن میں شیخ صدیق الضریر، شیخ وہبہ زحیلی، شیخ یوسف قرضاوی، شیخ عبداللہ بن منیع وغیرہ شامل تھے۔اس کے علاوہ مجمع کے نظام میں یہ بھی طے کیا گیا تھا کہ اس کے اجلاسات میں ارکان کے علاوہ عالم اسلام کے چیدہ علماء کرام کو بھی بحیثیت ”خبیر” (ایکسپرٹ) مدعو کیا جائے گا جنہیں بحث میں حصہ لینے کا بھی حق ہوگا، اور وہ مجمع کی لجنۃ الصیاغۃ (ڈرافٹنگ کمیٹی) میں بھی شامل ہوکر اپنی آراء پیش کرسکیں گے، لیکن اگر کسی مسئلے میں رائے شماری کی نوبت آئے، تو رائے شماری میں صرف ارکان شریک ہوں گے، چنانچہ آخری اجلاس میں جب قرار دادیں منظور کرنے کا وقت آئے گا، تو اُس اجلاس میں وہ شریک نہیں ہوسکیں گے، بلکہ اس میں صرف ارکان شریک ہوںگے۔
مجمع کے تأسیسی اجلاس میں تو نس کے مفتیٔ اعظم شیخ حبیب بلخوجہ (رحمۃ اللہ علیہ) کوامین عام (سیکریٹری جنرل) مقرر کردیا گیا تھا، اور حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے انتہائی قابلیت کے ساتھ مجمع کے امور کو منظم کیا، اور ان کی نظامت علیا کا دور مجمع کا سنہرا دور تھا۔
پھر مجمع کا پہلا باقاعدہ اجلاس ۲۰؍ نومبر ۱۹۸۴ء کو مکہ مکرمہ میں ہوا،جس میں میں نے پاکستان کی طرف سے مستقل رکن کی حیثیت سے شرکت کی۔ اس اجلاس کا کچھ حال میں نے البلاغ میں لکھا تھا جو اب میری کتاب ”جہان دیدہ” کے پہلے سفرنامے کا حصہ ہے۔اس اجلاس میں سعودی عرب کے شیخ بکر ابو زید رحمۃ اللہ علیہ کو مجمع کا رئیس منتخب کیا گیا۔ دستور کے لحاظ سے مجمع کی مجلس عمومی کے علاوہ ایک مجلس ہیئۃ المکتب (بیورو) کے نام سے بھی وجود میں آنی تھی جس کی حیثیت مجلس عاملہ جیسی ہوتی ہے۔ اس کا بھی انتخاب ہوا، اور مجھے اس کا بھی رکن منتخب کیا گیا۔ میرا نام موریطانیہ کے شیخ یونس عبدالودود رحمۃ اللہ علیہ نے پیش کیا تھا جو بڑے متبحر اور متبع سنت مالکی عالم تھے۔ اس اجلاس میں ان موضوعات کا تعین کیا گیا جن پر مجمع کو کام کرنے کی ضرورت تھی۔ اور طے یہ ہوا کہ ان موضوعات پر علماء سے مقالے لکھواکر انہیں مجمع کے اجلاس میں پیش کیا جائے گا، اور پھر ان کے بارے میں قرارداد مرتب کی جائے گی۔ یہ اجلاس بڑی حد تک تنظیمی اور تعارفی نوعیت کا تھا، اور اس میں کوئی علمی موضوع زیربحث نہیں آیا۔

مجمع کا دوسرا اجلاس اور اس میں مرزائیت پر قرارداد
اس کے بعد دوسرا اجلاس ربیع الثانی ۱۴۰۶ھ مطابق دسمبر۱۹۸۵ ء میں ہوا، اور اُس میں متعدد علمی اور فقہی موضوعات زیر بحث آئے۔اسی زمانے میں کیپ ٹاؤن کی عدالت میں مرزائیوں کا مقدمہ زیر بحث تھا۔اس لئے میں نے مجمع الفقہ الاسلامی کے سیکریٹری جنرل کو ایک خط لکھا جس میں ان سے گذارش کی کہ اس موضوع کو مجمع کے پہلے علمی اجلاس کے ایجنڈے میں شامل کیا جائے۔نیز اس موضوع پر ایک مقالہ بھی لکھ کر روانہ کیا۔میرا یہ خط اور مقالہ مجمع الفقہ الاسلامی کے مجلہ (الدورۃ الثانیۃ المجلد الاول) میں شائع ہوا ہے، اور میرے عربی مقالات کے مجموعے کی پہلی جلدمیں بھی شامل ہے۔ یہاں اپنا خط اور اس کا ترجمہ درج کیا جارہا ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم
إلی فضیلۃ العلّامۃ المحقِّق حبیب بلخوجہ، حفظہ اللہ تعالی ورعاہ
الأمین العامّ لمجمع الفقہ الإسلامیّ

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
فإنّ الطّائفۃَ القادیانیّۃَ، کما تعرفون، من الفِرَقِ الزّائغۃِ المنحرفۃِ الّتی لا تألو المسلمین خبالاً. وقد صدرت من مُعظَم البلاد الإسلامیّۃ فتاوَی العُلمائِ فی تکفیرہم، وفی الأخیر أدخلت حکومۃُ باکستان تعدیلاً فی دُستورِہا، قرّرت فیہ أنّ ہذہ الطّائفۃَ من الأقلّیّاتِ غیرِ المسلمۃ، وذلک فی سنۃ ۱۹۷۴م، ثمّ أتبعتہ فی العام الماضی بقانونٍ یَمنَعُہُم من استعمال المصطَلَحاتِ الإسلامیّۃِ، ک ”المسجد” و ”الأذان” و ”الخلفاء الرّاشدین” و ”الصحابۃ” و ”أمّہات المؤمنین”، وما إلی ذلک، کما قرّرت رابطۃُ العالَمِ الإسلامیِّ فی قرارہا الصّادر سنۃ ۱۹۷۳ م أنّہا فرقۃٌ کافرۃٌ منحرفۃٌ.
وبعد ہذا کلِّہ، فإنّ ہذہ الطّائفۃَ قد رفعت إلی المحکمۃ العالیۃ بکیب تاؤن من جنوب إفریقیّا، قضیّۃً ضدّ المسلمین، أنّ المسلمین یَحکُمون علیہم بالکُفر، ویَمنعونہم من الصّلاۃ فی مساجدہم وعن دَفْنِ موتاہم فی مقابرہم، وطَلَبُوا من المحکمۃ أن یُصدِر حُکماً ینہَی المسلمین عن کلِّ ذلک ویقرِّر أنّہم مسلمون.
وکان المحکمۃُ قد أَصْدَرَتْ فی مبدأ الأمر حُکماً علی المسلمین بأن لا یَمنَعُوا القادیانیّین من دخولِ مساجدِہم إلی أن تبلُغ القضیّۃُ نہایَتَہا، فرفع المسلمون طَلَباً إلی المحکمۃ بإلغاء ہذا الحکم، وأن لا یُمنع المسلمون من وضعہم السّابق إلی أن تَبُتَّ المحکمۃُ بالحکم فی القضیّۃ، فسافرنا من باکستان- ونحن عشرۃُ رجالٍ- إلی جنوب إفریقیّا، لنُساعدَ إخواننا المسلمین ہناک، والحمد للہ الّذی رَزَقَنا النَّجاحَ فی ہذہ المرحلۃ الابتدائیّۃ، وقد ألغت المحکمۃُ حکمَہا السَّابِقَ بعد سَماع دلائلِ الفریقین، وکانت القاضیۃُ إذ ذاک إمرأۃً نصرانیّۃً سمعت دلائلَنا بکلّ عنایۃٍ وإصغائٍ،
ثمّ رفع المسلمون طلباً آخرَ، أنّ الحکم بکُفر القادیانیّین وإسلامہم، إنّما ہو أمرٌ دینیٌّ بَحتٌ، لا ینبغی لمحکمۃٍ عَلمانیّۃٍ أن یتدخّلَ فیہا، بعد ما أجمع سائرُ المسلمین فی بِقاعِ الأرض أنّ أَتْباعَ مرزا غلام أحمد کلَّہم خارجون عن ملّۃ الإسلام. ولم یبق ہذا الأمرُ بعد ذلک موضوعَ نقاشٍ أو جدالِ.
وإنّ ہذا الطّلب رُفع إلی قاضٍ یہودیٍّ، وإنّکم تعرفون أنّ القادیانیّین لہم مرکزٌ فی إسرائیل، ولہم مع الیہود صلاتٌ قویّۃٌ، وزاد الضِّغثُ علی الإبّالۃِ أنّ ہذا القاضِیَ الیہودیَّ یُعَدُّ من فِرَقِہم المبتدِعۃ الّتی أخرجہا الأرتودکسیّون عن دائرتہم، فبطبعہ کان میّالاً إلی مواساۃ القادیانیّین، فحَکَم فی جواب ہذا الطّلب خلافَ المسلمین، وقال فی حُکمہ: إنّ المحکمۃ العَلمانیّۃَ ہِیَ المصدرُ الوحیدُ الّذی یستطیع أن یَحکُم فی ہذہ المسألۃِ الدّینیّۃِ حُکماً لا یتأثّرُ بعَوَاطِفِ العَصَبیّۃِ المذہبیّۃِ، فیجبُ علیہا أن تتدخّل فی ہذا الأمر ویَبُتَّ فیہ برأیٍ غیر مُنحازٍ.
فاضطُرّ المسلمون بعد ہذا الحکم أن یَعرِضُوا أمامَ المحکمۃ دلائلَ تکفیرِ القادیانیّین من الکتاب، والسّنّۃ، وإجماع الأمّۃ.
وقد طلب القادیانیّون من المسلمین إثبات أنّ علمائَ المسلین فی جمیع البلاد الإسلامیّۃ یعتبرون القادیانیّۃ کُفْرا، وذکروا للمحکمۃ أنّہ لیس ہناک فی العالم الإسلامیّ مجلِسٌ یُمثِّل علمائَ جمیعِ الدُّوَلِ الإسلامیّۃِ، حتّی یُقالَ: إنّ المسلمین أجمعوا علی ذلک.
وفی ہذا الصّدد یحتاج المسلمون فی ہذہ القضیّۃ إلی فتوی من مجلس دُوَلِیٍّ للعلماء یُمثِّل جمیعَ البلاد الإسلامیّۃ، ولا شکَّ أنّ مجمع الفقہ الإسلامیّ ہو أعظمُ ما وُجِد حتّی الآن من المجالس فی ہذا الشّأن، فیرید المسلمون فی جنوب إفریقیّا أن یُصدِر المجمعُ فتوی یُصرِّح بتکفیر أتباعِ مرزا غلام أحمد القادیانیّ، لیکون سنداً لہم عند دعواہم الإجماعَ علی ذلک.
وإنّ ہذہ القضیّۃَ ستَشْرَع المحکمۃُ فی سَماعِہا للخامس من شہر نوفمبر ہذا العام، ونرجو انعقادَ مجلسِ المجمع قَبْلَہ، فمن المناسِب جدّاً أن یُصدِر المجمعُ فتوی من قِبَل مجلسہ العامّ فی جلستہ القادمۃ.
وإنّی، نظراً إلی أہمّیّۃ الموضوع، قد سوّدتُ ہذہ الفتوی، لتکون وَرَقَۃَ عَمَلٍ لشُعبۃِ الإفتاء أوّلاً، وللمجلس ثانیاً.
فالمرجوّ أن ترسلوا ہذہ الفتوی إلی جمیع الإخوۃ الأعضائ، کوَرَقَۃِ عَمَلٍ للجلسۃ القادمۃ، وأرجو أنّ الإخوۃَ الأعضائَ نظراً إلی أہمّیّۃ الموضوع، یُسامِحون عن عَدَمِ دخول ہذا الموضوع فی اللّائحۃ الّتی أَعَدَّتْہا شعبۃُ التّخطیط.
وأرجو أیضا أن تخبرونی عن وصولِ ہذہ الرّسالۃ، وإدخالِ الموضوع فی لائحۃ الجلسۃ القادمۃ.
والسّلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

محمد تقی العثمانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم
"بگرامیٔ خدمت العلامۃ المحقق حبیب بلخوجہ حفظہ اللہ تعالیٰ ورعاہ(۱)،
سکریٹری جنرل، مجمع الفقہ الاسلامی

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آنجناب بخوبی واقف ہیں کہ قادیانی گروہ اُن گمراہ فرقوں میں سے ہے جو مسلمانوں کی بدخواہی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا۔ ان کی تکفیرپر بیشتر اسلامی ملکوں سے علماء کے فتاویٰ جاری ہوئے۔ اور آخر کارحکومت پاکستان نے اپنی آئین میں ایک ترمیم منظور کی، جس میں اس فرقہ کو ایک غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا ہے، یہ ۱۹۷۴ ء کا واقعہ ہے۔ پھر گزشتہ سال حکومت نے ان پر ”مسجد” ”اذان ”، ” خلفائے راشدین”، ”صحابہ” اور ”امہات المؤمنین” جیسی اسلامی اصطلاحات کو استعمال کرنے پر ایک قانون جاری کر کے پابندی عائد کی ، اسی طرح رابطہ عالم اسلامی نے بھی ۱۹۷۳ ء میں جاری کردہ اپنی قرارداد میں اسے ایک گمراہ، کافر فرقہ قرار دیا ہے۔
اس تمامتر صورت حال کے بعد، اب اس فرقے نے جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن کی عدالت عالیہ (ہائی کورٹ) میں مسلمانوں کے خلاف یہ مقدمہ دائر کیاکہ مسلمان انہیں کافر قرار دیتے ہیں، اور انہیں اپنی مساجد میں نماز ادا کرنے اور اپنے مردوں کو مسلمانوں کے قبرستانوں میں دفن کرنے سے روکتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے مطالبہ کیا کہ عدالت مسلمانوں کو اس مکمل رویہ سے باز رہنے اور انہیں مسلمان قرار دینے کا فیصلہ صادر کرے ۔
عدالت نے ابتداء میں مسلمانوں کو یہ حکم جاری کیا تھا کہ وہ قادیانیوں کو اس وقت تک اپنی مساجد میں داخل ہونے سے نہ روکیں جب تک مقدمہ اپنے انجام تک نہ پہنچے،جس پر مسلمانوں نے عدالت سے استدعا کی کہ اس فیصلے کو منسوخ کیا جائے، اور عدالت کے حتمی فیصلے تک مسلمانوں کواپنے سابق رویے سے نہ روکا جائے۔ چنانچہ، ہم – دس آدمیوں (پر مشتمل وفد) – نے پاکستان سے جنوبی افریقہ کا سفر کیا، تاکہ اپنے مسلمان بھائیوں کی کچھ مدد کرسکیں، اور الحمد للہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس ابتدائی مرحلے میں کامیابی عطا فرمائی۔چنانچہ عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد اپنے سابقہ فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔ اُس وقت جج ایک عیسائی خاتون تھیں جنہوں نے ہمارے دلائل پوری توجہ کے ساتھ سنے۔
اس کے بعد مسلمانوں نے ایک اور درخواست دائر کی کہ قادیانیوں کے کفر واسلام کا فیصلہ ایک خالصتاً مذہبی معاملہ ہے اور کسی سیکولر عدالت کو اس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے، پھر جب پوری دنیا کے مسلمانوں کا اس پر اجماع ہوچکا ہے کہ مرزا غلام احمد کے تمام پیروکار دائرہ اسلام سے خارج ہیں،تو اس کے بعد یہ معاملہ بحث یا نزاع کا موضوع رہا ہی نہیں۔
تاہم یہ درخواست ایک یہودی جج کے سامنے دائر ہوئی ۔اور آنجناب جانتے ہیں کہ قادیانیوں کا اسرائیل میں ایک مرکز ہے اور ان کے یہودیوں کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں۔ اس پر مزید مشکل یہ ہے کہ اس جج کا شمار یہودیوں کے ان فرقوں میں ہوتا ہے جنہیں آرتھوڈکس یہودیوں نے اپنے دائرہ سے خارج کردیا ہے، لہٰذا وہ طبعی طور پر قادیانیوں کے ساتھ ہمدردی کی طرف بہت مائل تھا۔چنانچہ اس درخواست کافیصلہ مسلمانوں کے خلاف دیا، اور اپنے فیصلے میں کہا کہ سیکولر عدالت ہی وہ ذریعہ ہے جو اس مذہبی مسئلہ میں ایسا فیصلہ کر سکتی ہے جو فرقہ وارانہ اور مذہبی جذبات سے متأثر نہ ہو؛اس لئے اس معاملے میں عدالت کو دخل دے کر ایک غیر جانبدار رائے پر فیصلہ دینا لازم ہے ۔
اس فیصلے کے بعد مسلمان اس بات پر مجبورہوئے کہ وہ عدالت کے سامنے قادیانیوں کی تکفیر کے دلائل قرآن وسنت اور اجماع امت سے پیش کریں۔
قادیانیوں نے مسلمانوں سے مطالبہ کیا کہ وہ یہ ثابت کریں کہ تمام اسلامی ممالک کے علماء قادیانیوں کو کافر قراردیتے ہیں، اور انہوں نے عدالت کے سامنے کہا کہ عالم اسلام میں ایسی کوئی کونسل نہیں ہے جو تمام اسلامی ممالک کے علماء کی نمائندگی کرتی ہو،جس کے بارے میں یہ کہا جاسکے کہ قادیانیوں کو کافر قرار ددینے پر مسلمانوں کا اجماع منعقد ہواہے۔
اس سلسلے میں مسلمانوں کو اس معاملے میں علماء کی ایک بین الاقوامی کونسل سے فتویٰ کی ضرورت ہے جو تمام اسلامی ممالک کی نمائندگی کرتی ہو، اس میں کوئی شک نہیں کہ مجمع الفقہ الاسلامی اب تک قائم ہونے والی اس جیسی کونسلوں میں سب سے بڑی ہے۔ اس لئے جنوبی افریقہ کے مسلمان یہ چاہتے ہیں کہ مجمع ایک ایسا فتویٰ صادر کرے جو مرزا غلام احمد قادیانی کے پیروکاروں کی تکفیر صراحتاً کرے، تاکہ یہ فتویٰ ان کے لئے اس موقف پر اجماع کے دعوی میں سند بن سکے۔
عدالت امسال ۵ ؍نومبر کو اس مسئلے کی سماعت شروع کرے گی، اور ہمیں امید ہے کہ مجمع کا اجلاس اس سے قبل منعقد ہوجائے گا، لہٰذا کونسل کے لئے یہ بہت مناسب ہوگاکہ اگلے اجلاس میں اپنی مجلس عمومی کی طرف سے فتویٰ جاری کردے۔
اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر میں نے ( منسلک )فتوی کا مسودہ تیار کیا ہے تاکہ پہلے شعبہ افتاء کے واسطے ”ورقۃ العمل”(ورکنگ پیپر)کا کام دے سکے اور پھر مجلس کے واسطے ۔
درخواست ہے کہ از راہ کرم یہ فتویٰ تمام ممبران بھائیوں کواگلے اجلاس کے لئے ورکنگ پیپر کے طور پر ارسال فرمائیں۔نیز موضوع کی اہمیت کے پیش نظر تمام ممبر بھائیوں سے امید ہے کہ اس بات سے درگزر کریں گے کہ شعبہ تخطیط کے تیار کردہ پروگرام میں یہ موضوع (پہلے سے) شامل نہ ہوسکا۔
مجھے یہ بھی امید ہے کہ آپ مجھے اس پیغام کی وصولی کے بارے میں مطلع فرمائیں گے، اور اس موضوع کو اگلے اجلاس کے نظم میں شامل فرمائیں گے۔والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکا تہ

محمد تقی عثمانی”

چنانچہ میری تجویز کے مطابق مجمع کے مذکورہ اجلاس میں یہ موضوع اور میرا مقالہ زیر بحث آیا۔بات اتنی واضح اور کھلی ہوئی تھی کہ اس میں کسی دوسری رائے کا احتمال ہی نہ تھا۔ اس لئے مرزائیوں کے غیر مسلم ہونے کے بارے میں مجمع کی قرار داد باجماع منظور ہوئی، اور کسی نے بھی اس پر کوئی شبہ تک ظاہر نہیں کیا۔قرارداد میں پاکستان کی قومی اسمبلی کی کارروائی اور اس کے مطابق آئینی ترمیم کی بھی مکمل تائید کی گئی۔ چونکہ مجمع الفقہ الاسلامی پورے عالم اسلام کے ممتاز نمائندوں پر مشتمل تھی، اس لئے اس کی یہ قرارداد مرزائیت کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔اگرچہ مرزائیوں کے خارج از اسلام ہونے پر پہلے بھی متعدد اداروں کی طرف سے یہ فتویٰ آچکا تھا، لیکن یہ پہلی قرارداد تھی جو پورے عالم اسلام کی نمائندگی کرنے والے اتنے بڑے اجتماع میں منظور ہوئی۔ اس کا متن یہ ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علی سیدنا محمد خاتم النبیین وعلی آلہ وصحبہ.
قرار رقم ۴
بشأن القادیانیۃ

أما بعد:
فإن مجلس مجمع الفقہ الإسلامی المنبثق عن منظمۃ المؤتمر الإسلامی فی دورۃ انعقاد مؤتمرہ الثانی بجدۃ من ۱۰ – ۱۶ ربیع الثانی ۱۴۰۶ ھ / ۲۲ – ۲۸ دیسمبر ۱۹۸۵ م.
بعد أن نظر فی الاستفتاء المعروض علیہ من ”مجلس الفقہ الإسلامی فی کیبتاون بجنوب أفریقیا ” بشأن الحکم فی کل من (القادیانیۃ) والفئۃ المتفرعۃ عنہا التی تدعی (اللاہوریۃ) من حیث اعتبارہما فی عداد المسلمین أو عدمہ، وبشأن صلاحیۃ غیر المسلم للنظر فی مثل ہذہ القضیۃ.
وفی ضوء ما قدم لأعضاء المجمع من أبحاث ومستندات فی ہذا الموضوع عن (میرزا غلام أحمد القادیانی) الذی ظہر فی الہند فی القرن الماضی وإلیہ تنسب نحلۃ القادیانیۃ واللاہوریۃ.
وبعد التأمل فیما ذکر من معلومات عن ہاتین النحلتین وبعد التأکد من أن (میرزا غلام أحمد القادیانی) قد ادعی النبوۃ بأنہ نبی مرسل یوحی إلیہ وثبت عنہ ہذا فی مؤلفاتہ التی ادعی أن بعضہا وحی أنزل علیہ وظل طیلۃ حیاتہ ینشر ہذہ الدعوی ویطلب إلی الناس فی کتبہ وأقوالہ الاعتقاد بنبوتہ ورسالتہ، کما ثبت عنہ إنکار کثیر مما علم من الدین بالضرورۃ کالجہاد.
وبعد أن اطلع المجمع (أیضًا) علی ما صدر عن (المجمع الفقہی بمکۃ المکرمۃ) فی الموضوع نفسہ.
قرر ما یلی:
۱- إن ما ادعاہ (میرزا غلام أحمد ) من النبوۃ والرسالۃ ونزول الوحی علیہ إنکار صریح لما ثبت من الدین بالضرورۃ ثبوتًا قطعیًا یقینیًا من ختم الرسالۃ والنبوۃ بسیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم، وأنہ لا ینزل وحی علی أحد بعدہ، وہذہ الدعوی من (میرزا غلام أحمد) تجعلہ وسائر من یوافقونہ علیہا مرتدین خارجین عن الإسلام، وأما (اللاہوریۃ) فإنہم کالقادیانیۃ فی الحکم علیہم بالردۃ، بالرغم من وصفہم (میرزا غلام أحمد ) بأنہ ظل وبروز لنبینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم.
۲- لیس لمحکمۃ غیر إسلامیۃ، أو قاض غیر مسلم، أن یصدر الحکم بالإسلام أو الردۃ، ولا سیما فیما یخالف ما أجمعت علیہ الأمۃ الإسلامیۃ من خلال مجامعا علمائہا، وذلک لأن الحکم بالإسلام أو الردۃ، لا یقبل إذا صدر عن مسلم عالم بکل ما یتحقق بہ الدخول فی الإسلام، أو الخروج منہ بالردۃ، ومدرک لحقیقۃ الإسلام أو الکفر، ومحیط بما ثبت فی الکتاب والسنۃ والإجماع: فحکم مثل ہذہ المحکمۃ باطل۔واللہ أعلم۔
ترجمہ:(۱)
الحمد للہ رب العلمین والصلاۃ والسلام علی سیدنا محمد خاتم النبیین وعلی ألہ و صحبہ أجمعین .
قرار داد نمبر۴(۴/۲)(۲)

قادیانی فرقہ کا حکم
"اسلامی فقہ اکیڈمی کی جنرل کونسل کا دوسرا اجلاس جدہ میں مورخہ۱۰ تا ۱۶ ربیع الثانی ۱۴۰۶ ھ مطابق ۲۲ تا ۲۸ دسمبر ۱۹۸۵ ء کو منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں جنرل کونسل نے کیپ ٹاون، جنوبی افریقہ کی مسلم جوڈیشنل کونسل کے ایک استفتاء پر غور کیا، جس میں فرقہ قادیانیہ اور اسی فرقہ کی ایک اور فرع فرقہ لاہوریہ کے بارے میں سوال کیا گیا تھا کہ ان کو مسلمانوں میں شمار کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ نیز یہ کہ ایک غیر مسلم شرعاً اس جیسے مسئلے میں کوئی فیصلہ صادر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں۔
مرزا غلام احمد قادیانی ہندوستا ن میں گذشتہ صدی میں پیدا ہوا تھا، اور قادیانی اور لاہوری فرقے اسی کی طرف منسوب ہیں، اکیڈمی کے ارکان کے سامنے اس فرقے سے متعلق جو تحقیقات اور دستاویزات پیش کی گئیں، ان میں مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کی طرف منسوب ان دونوں فرقوں کے بارے میں کافی معلومات موجود تھیں، اکیڈمی نے ان تمام معلومات پر غور کیا، جس کے نتیجے میں اس کے سامنے یہ بات پایہ ٔ ثبوت کو پہنچ گئی کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجا ہوا نبی ہے، جس پر وحی آتی ہے۔ اس کا یہ دعویٰ اس کی تصانیف سے بھی ثابت ہے۔ ان تصانیف میں سے بعض کے بارے میں اس نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ وہ اس کی وحی کا ایک حصہ ہیں، یہ بات بھی ثابت ہے کہ وہ عمر بھر اس دعوے کی نشر و اشاعت کرتا رہا ہے، اور لوگوں سے تقریر اور تحریر کے ذریعے یہ مطالبہ کرتا رہا ہے کہ وہ اس کی نبوت اور رسالت پر اعتقاد رکھیں، نیز یہ بھی ثابت ہے کہ اس نے بہت سی ضروریات ِ دین مثلاً جہاد وغیرہ کا انکار کیا ہے۔
مکہ مکرمہ میں قائم شدہ ”المجمع الفقہی” اس سلسلے میں پہلے ہی ایک قرار داد منظور کرچکی ہے، اکیڈمی کی جنرل کونسل نے اس قرار داد پر بھی غور کیا، اور اس تمام غور و خوض اور بحث و تمحیص کے نتیجے میں مندرجہ ذیل قرارداد باتفاقِ رائے منظور کی گئی:

قرارداد:
اولاً۔۔۔مرزا غلام احمد نے اپنی نبوت اور رسالت اور اپنے اوپر وحی کے نزول کا جو دعویٰ کیا، وہ دین کے اس بداہۃً اور قطعی و یقینی طور پر ثابت شدہ اس عقیدے کا صریح انکار ہے کہ نبی کریم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت اور رسالت کا اختتام ہوچکا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب کسی پر وحی نازل نہیں ہوگی۔ مرزا غلام احمد کا یہ دعویٰ خود اس کو اور اس کے تمام موافقین کو مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیتا ہے، جہاں تک لاہوری جماعت کا تعلق ہے، تو وہ اگرچہ مرزا غلام احمد کو ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ظل اور بروز قرار دیتی ہے، لیکن اس کے باوجود وہ مرتد ہونے میں قادیانی جماعت ہی کی طرح ہے۔
ثانیاً۔۔۔ کسی غیر مسلم عدالت یا کسی غیر مسلم جج کو ً یہ حق نہیں کہ وہ (کسی کے) اسلام یا ارتداد کا فیصلہ کرے۔ بالخصوص ایسے مسائل میں جن میں امتِ اسلامیہ کا اپنے علماء اور اپنے اداروں کے ذریعے اجماع منعقد ہوگیا ہو، اس لئے کہ (کسی کے)مسلمان یا مرتد ہونے کا فیصلہ اسی وقت قابلِ قبول ہوسکتا ہے جب وہ کسی ایسے مسلمان عالم سے صادر ہوا ہو جو ان تمام امور کو جانتا ہو جن کے ذریعہ اسلام میں داخل ہونا یا مرتد ہو کر اسلام سے نکلنا ثابت ہوتا ہو۔ اور وہ مسلمان عالم اسلام اور کفر کی حقیقت سمجھتا ہو، اور قرآن، سنت اور اجماع سے ثابت شدہ تمام احکام کا احاطہ رکھتا ہو۔ لہٰذا اس طرح کی (غیر مسلم) عدالت کا فیصلہ باطل ہے”۔
عرب ممالک میں ہونے والی کانفرنسوں میں یہ بات واضح طورپر نظر آتی تھی کہ ان میں غیر عرب حضرات کو اول تو گفتگو کا موقع ہی کم دیا جاتا تھا، اور اگر دیا بھی گیا، تو اس کی بات کو اہمیت کے ساتھ کم سُنا جاتا تھا۔ اس قسم کی صورت حال ابتدائی ایک دو اجلاسوں میں میرے ساتھ بھی پیش آئی، لیکن پھر میں نے شیخ بلخوجہ رحمۃ اللہ علیہ سے اس کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ ”کیا غیر عرب حضرات مجمع کے رکن نہیں ہیں؟ یا کیا ان کو گفتگو میں شریک ہونے کا اس لئے حق نہیں ہے کہ وہ عربوں کی طرح پوری روانی سے بات نہیں کرپاتے؟ اللہ تعالیٰ شیخ بلخوجہ پر اپنی رحمتیں نازل فرمائیں، انہوں نے میری اس بات کا بہت اثر لیا، اور پھر ہرمعاملے میں مجھ سے رجوع کرنے اور میری رائے معلوم کرنے کی ایک رِیت ڈال دی، اس طرح جب ایک سے زائد مرتبہ مجھے مختلف مسائل پر بات کرنے کا موقع ملا، اور اُسے توجہ سے سُنا گیا، تو رفتہ رفتہ میرے ساتھ عرب اور غیر عرب کا فرق مٹ گیا۔ مجمع کے رئیس شیخ بکر ابوزید ؒ بھی مجھ سے بہت مانوس ہوگئے، اور ان سے بے تکلف دوستانہ تعلقات بھی قائم ہوگئے۔ ……

جاری ہے ….

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

(ماہنامہ البلاغ :رجب المرجب ۱۴۴۳ھ)