حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی

یادیں

(اڑتالیسویں قسط)

عائلی قوانین کے بارے میں فیصلہ
میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ فیڈرل شریعت کورٹ کے دائرئہ اختیار سے جن قوانین کو دستور میں مستثنیٰ رکھا گیا تھا، اُن میں ”مسلم پرسنل لاء ”(یعنی مسلمانوں کے شخصی قوانین جو نکاح، طلاق، وراثت سے متعلق ہوتے ہیں) اس کا مطلب عام طور سے یہ سمجھا جا رہا تھا کہ جنرل محمد ایوب خان صاحب مرحوم کے زمانے میں جو ”مسلم فیملی لاز آرڈی ننس ” نافذ ہوا تھا،(اور جسے ” عائلی قوانین ” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اور علماء کرام کی طرف سے اُس کی شدید مخالفت ہوئی تھی) وہ بھی ہمارے دائرئہ اختیار سے باہر ہے، یعنی اُس کی کسی دفعہ کو ہم قرآن وسنت کے خلاف ہونے کی بناپر ختم نہیں کرسکتے۔ہمارے وفاقی شرعی عدالت میں آنے سے پہلے سپریم کورٹ کی ایک بنچ نے بھی ایک مقدمے میں یہی فیصلہ دے رکھا تھا کہ ” عائلی قوانین ” کا آرڈی ننس ہمارے دائرئہ اختیار سے باہر ہے۔یہ مقدمہ مسماۃ فرشتہ کے مقدمے کے نام سے مشہور ہے۔
لیکن مجھے شروع سے اس بات سے اتفاق نہیں تھا، اور میں یہ سمجھتا تھا کہ ”مسلم پرسنل لاء ” کو جو استثناء دیا گیا ہے، اُس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نکاح وطلاق وغیرہ سے متعلق حکومت نے کوئی قانون نافذ کیا ہو، تو اس کو بھی فیڈرل شریعت کورٹ یا سپریم کورٹ کی شریعت بنچ قرآن وسنت کے خلاف قرار نہیں دے سکتی، بلکہ اُس کا مقصد در حقیقت مختلف مکاتب فکر یعنی سنّی شیعہ وغیرہ کے شخصی قوانین کو تحفظ دینا ہے۔ لیکن چونکہ مسماۃ فرشتہ کے مقدمے میں سپریم کورٹ کی ایک تین رکنی بنچ پہلے فیصلہ دے چکی تھی، اس لئے عام طورسے جج صاحبان کے ذہن میں یہ بات تھی کہ یہ معاملہ طے ہوچکا ہے، اور اب اسے دوبارہ چھیڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔
اس کے باوجود میں یہ سمجھتا تھا کہ کسی وقت جبکہ شریعت بنچ پانچ ججوں پر مشتمل ہو، اُس وقت اس مسئلے پر دوبارہ غور کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ ایک مرتبہ ” زکوۃ آرڈیننس ” کی کچھ دفعات کو ہمارے سامنے چیلنج کیا گیا، تو حکومت کے وکیل نے یہ موقف اختیار کیا کہ یہ آرڈی ننس دو وجہ سے ہمارے دائرئہ اختیار سے باہر ہے۔ ایک اس لئے کہ یہ ایک ”مالیاتی قانون” ہے، اور دوسرے اس وجہ سے کہ یہ ”مسلم پرسنل لاء ” ہے، کیونکہ مسماۃ فرشتہ کے مقدمے میں یہ قرار دیا گیا ہے کہ ہر وہ قانون جو صرف مسلمانوں پر لاگو ہو، وہ ”مسلم پرسنل لائ”ہے۔
میں نے جب اس مقدمے کا فیصلہ لکھا، تو اُس میں اس بات کو تو تسلیم کیا کہ یہ ایک ”مالیاتی قانون” ہے، لیکن ”مسلم پرسنل لاء ” کے بارے میں اتنا لکھ دیا کہ ”چونکہ زکوۃ آرڈی ننس” مالیاتی قانون ” ہونے کی بنا پر اس عدالت کے اختیار سے باہر ہے، اس لئے اس مقدمے میں اس بات پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ ” مسلم پرسنل لائ” کی تعریف میں آتا ہے، یا نہیں؟ اس مسئلے پر کسی اور مناسب مقدمے میں غور کیا جا سکتا ہے”اس طرح یہ جملہ لکھ کر میں نے یہ اشارہ دیدیا کہ ”مسماۃ فرشتہ” والے فیصلے پر نظر ثانی کی گنجائش موجود ہے۔
اس فیصلے کے کچھ عرصے کے بعد ایک اور مقدمہ ہمارے سامنے آیا جس میں ”مسماۃ فرشتہ” کے فیصلے کی رُو سے یہ نظر آتا تھا کہ زیر نظر قانون ”مسلم پرسنل لائ” کی تعریف میں داخل ہے۔ اُس وقت ہماری بنچ پانچ افراد پر مشتمل تھی، اور اُس کی سربراہی جسٹس عبدالقدیر چودھری کر رہے تھے۔ اس موقع پر سرکاری وکیل نے ”مسماۃ فرشتہ ” کے فیصلے کا حوالہ دیا، تو اُس موقع پر میں نے کہا کہ ” مسماۃ فرشتہ ” کے مقدمے میں ”مسلم پرسنل لاء ” کی جو تعریف کی گئی ہے، وہ نظرثانی کی محتاج ہے۔اس پر وہ بولے کہ یہ فیصلہ تو پہلے ہوچکا ہے، اُس کو ازسرنو چھیڑا نہیں جاسکتا۔ میں نے کہا کہ نہیں وہ تین ججوں کا فیصلہ تھا، اور اس وقت پانچ ججوں کی بنچ ہے، وہ اس پر دوبارہ غور کرسکتی ہے۔ چودھری صاحب نے اس بات کی تائید کی، مگرکہا کہ بیشک ہم اُس پر نظر ثانی کرسکتے ہیں، لیکن اس فیصلے میں خرابی کیا ہے؟
اس پر میں نے عرض کیا کہ دستور کا منشأ یہ نہیں ہے کہ نکاح وطلاق وغیرہ سے متعلق جو قانون سازی کی جائے، اُسے قرآن وسنت کی روشنی میں پرکھا نہ جاسکے، بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ دستور کی دفعہ 227 میں یہ کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر کے شخصی قوانین میں قرآن وسنت کی وہی تعبیر معتبر ہوگی جسے وہ مکتب فکر درست مانتا ہو، مثلاً نکاح وطلاق میں اگرحنفی، شافعی، مالکی، حنبلی یا اہل حدیث یا شیعہ افراد کا کوئی موقف ہے، تو اُسے اُن کے حق میں قرآن وسنت کے خلاف قرار دیکر ختم نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اگر کوئی قانون ان مکاتب فکر میں سے کسی کا مسلک نہیں ہے، اور اُسے سب پر نافذ کیا جاتا ہے، تو اُسے قرآن وسنت کی بنیاد پر جانچنے کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔
میری اس بات کی مقدمے کے بعض وکلاء نے بھی تائید کی، اور جسٹس سعید الزماں صدیقی صاحب نے بھی اس کے حق میں دلائل دئیے، اور آخر کار بنچ کے پانچوں ججوں کے اتفاق سے مسماۃ فرشتہ کے مقدمے میں ”مسلم پرسنل لائ” کی جو تشریح کی گئی تھی، اُسے ختم کردیا گیا۔ یہ فیصلہ جناب جسٹس سعیدالزماں صدیقی نے لکھا، اور پی ایل ڈی میں شائع ہوا۔
اس مقدمے کے نتیجے میں اب تک جو یہ سمجھا جارہا تھا کہ جنرل ایوب خان صاحب مرحوم نے جو ”عائلی قوانین ” نافذ کئے تھے، انہیں دستور کا تحفظ حاصل ہے، اور انہیں فیڈرل شریعت کورٹ یا سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ قرآن وسنت کے خلاف ہونے کی بنا پر ختم نہیں کرسکتی، اُس کی تردید ہوگئی، اور اب اُن قوانین کو بھی چیلنج کرنے کا راستہ کھل گیا۔ لیکن افسوس ہے کہ دینی جماعتوں میں سے کسی کی طرف سے عائلی قوانین کے خلاف درخواست دائر نہیں ہوئی۔ البتہ بعض دو سرے لوگوں نے فیڈرل شریعت کورٹ میں عائلی قوانین کے خلاف درخواست دائر کی، لیکن دینی جماعتوں میں سے کسی نے اُس کی پیروی نہیں کی، اور مقدمہ کافی عرصے چلتا رہا، اور اُس کا فیصلہ بھی ہوگیا۔اُس کی اپیل ہماری سپریم کورٹ کی شریعت بنچ میں آئی، لیکن قبل اس کے کہ اُس کی سماعت ہوتی، میں سپریم کورٹ سے الگ ہوچکا تھا۔
اسی دوران ایک واقعہ یہ ہوا کہ صدر محمد ضیاء الحق مرحوم کی شہادت کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ مرحومہ کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی حکومت آگئی۔ایک عرصے تک میں اس دور میں بھی حسب سابق کام کرتا رہا، لیکن ایک دن اچانک یہ خبر ملی کہ حکومت نے مجھے بنچ سے معزول کردیا ہے۔ چنانچہ میں ایک عرصے تک سپریم کورٹ سے الگ رہا۔ لیکن بعد میں جب فاروق لغاری صاحب نے بحیثیت صدر مملکت محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم کی، تو ایک دن میرے پاس لغاری صاحب کا فون آیا کہ آپ کو سپریم کورٹ میں بحال کردیا گیاہے۔مجھے تو کسی سیاست سے نہیں، کام سے غرض تھی، اس لئے میں دوبارہ سپریم کورٹ میں کام کرنے لگا۔
”مالیاتی قوانین ” فیڈرل شریعت کورٹ اور سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ کی حدود اختیار سے دس سال تک کے لئے باہر رکھے گئے تھے، اور اس کا مقصد بظاہر یہ تھا کہ صدر محمد ضیاء الحق صاحب مرحوم نے بینکاری کے نظام کو سود سے پاک کرنے کے لئے اسلامی نظریاتی کونسل کو ہدایت کی تھی کہ وہ متبادل نظام پیش کرے، اور اس پر کام ہورہا تھا۔ جب دستور میں یہ ترمیم کی گئی کہ کسی قانون کو وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے، تو یہ خطرہ محسوس کیا گیا کہ اگر متبادل نظم وجود میں آنے سے پہلے بینکاری کے قوانین وفاقی شرعی عدالت کی وجہ سے ختم کردئیے گئے، تو ایک خلا پیدا ہوسکتا ہے، اس لئے دس سال کے لئے مالیاتی قوانین کو تحفظ دیدیا گیا تھا۔افسوس ہے کہ دس سال کی یہ مدت جو آئین میں متبادل نظام لانے کے لئے دی گئی تھی، صدر ضیاء الحق مرحوم کے بعد اس کی پیروی کرنے والا کوئی نہ رہا، اوربعد کی حکومتوں نے اس کی طرف نہ صرف یہ کہ کوئی توجہ نہیں دی، بلکہ سارے اقدامات اس کے مخالف سمت ہی میں ہوتے رہے، یہاں تک کہ دس سال کی مدت پوری ہوگئی۔
جب دس سال گذرگئے، تو وہ قوانین بھی وفاقی شرعی عدالت کے دائرئہ اختیار میں آگئے۔ چنانچہ بہت سے عام مسلمانوں نے ان قوانین کو فیڈرل شریعت کورٹ میں چیلنج کیا جن میں تجارتی سود کی اجازت دی گئی ہے۔فیڈرل شریعت کورٹ میں اُس وقت جسٹس ڈاکٹر تنزیل الرحمن صاحب چیف جسٹس تھے، انہوں نے مؤرخہ 14-11-1991 کواپنے مفصل فیصلے میں تجارتی سود کی تمام صورتوں کو قرآن وسنت کے خلاف قرار دیکر متعلقہ قوانین کو ایک معین مدت میں ختم کرنے کا فیصلہ دیدیا۔
لیکن یونائٹڈ بنک لمیٹڈ نے اس فیصلے کے خلاف ہماری سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ میں اپیل دائر کردی۔چونکہ عام تأثر یہ تھا کہ بینکوں اور سرکاری معاملات سے سود ختم کرنا بڑا مشکل کام ہے، اور اُس سے (معاذاللہ) معیشت پر بُرے اثرات پڑسکتے ہیں، اس لئے سپریم کورٹ کے جج صاحبان اس اپیل کی سماعت کو مؤخر کرتے رہے۔میں اپنے طورپراس وقت کے چیف جسٹس افضل ظلّہ صاحب سے یہ کہتا رہا کہ اس اپیل کو قصداً تعویق کا شکار رکھنا نا انصافی ہے۔ ایک موقع پر انہوں نے مجھ سے کہا کہ اب ہم کسی بھی وقت اُس اپیل کو سماعت کے لئے مقرر کرسکتے ہیں،اور اس غرض کے لئے انہوں نے مجھے ایک مہینے تک اسلام آباد میں روکے رکھا۔لیکن نہ جانے کیوں انہوں نے اپنی رائے بدل دی، اور اپیل سماعت کے لئے نہ لگ سکی۔ اس تأخیر کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ عدالت کے باہر سے ان اپیلوں کی جلد سماعت کا کوئی تقاضا کسی طرف سے نہیں تھا، یہ میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ دینی حلقوں نے اس عدالت کی اہمیت اور اس سے کام لینے کی ضرورت پر کبھی دھیان ہی نہیں دیا، اس لئے ان کے سرد خانے میں پڑے رہنے سے کسی کو کوئی تکلیف نہیں تھی۔
اس طرح ان اپیلوں کو سرد خانے میں پڑے شاید سات سال بیت گئے، اس عرصے میں تین چیف جسٹس تبدیل ہوئے، اور آخر کار جسٹس اجمل میاں چیف جسٹس بنے، تو انہوں نے فرمایا کہ جتنی فوجداری اپیلیں ابھی فیصلے کے انتظار میں ہیں، پہلے ان کا فیصلہ ہوجائے، تو اُس کے بعد ان اپیلوں کو سماعت کے لئے لگایا جائے گا۔ چنانچہ جب فوجداری اپیلیں ختم ہوگئیں، تو آخر کار انہوں نے ان اپیلوں کی سماعت کے لئے ایک بنچ بنادی جو میرے علاوہ جناب جسٹس خلیل الرحمن، جناب جسٹس منیر اے شیخ،جناب جسٹس وجیہ الدین اور جناب جسٹس محمود احمد غازی صاحب پر مشتمل تھی۔
اس اپیل کی سماعت کئی مہینے تک جاری رہی، اور اس میں ہم نے عدالت کی طرف سے بہت سے علمائ، ماہرین اقتصادیات، بینکرز اور دوسرے دانشوروں کو عدالت کی مدد کے لئے مدعو کیا۔ ان حضرات نے مفصل بیانات داخل کئے۔ لیکن حکومت کی طرف سے جو وکیل جناب سید ریاض الحسن گیلانی صاحب حکومت کی نمائندگی کے لئے مقرر ہوئے تھے، انہوں نے کئی تاریخیں لینے کے بعد اپنے دلائل کا آغاز کیا، لیکن کچھ عرصے بعدیہ درخواست دیدی کہ اس مقدمے کی سماعت کئی مہینے تک ملتوی رکھی جائے۔ انہیں مناسب موقع بھی دیا گیا کہ وہ اپنا نقطۂ نظر تفصیل سے بیان کریں، لیکن شنید یہ تھی کہ حکومت کے ساتھ ان کے ضابطے کے معاملات پر کوئی اختلاف پایا جاتا تھا، جو حل نہیں ہورہا تھا، اس لئے انہوں نے مزید دلائل جاری رکھنے کے لئے طویل مہلت مانگی تھی جو عدالت کی نظر میں قابل قبول نہیں تھی، اور وہ اُس وقت تک اپنے دلائل کا بنیادی تصور واضح بھی کرچکے تھے۔ اس لئے عدالت نے سماعت ملتوی رکھنے کے بجائے سماعت جاری رکھی، اور آخر کار کئی مہینوں کی سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔ اس موقع پر جناب جسٹس خلیل الرحمن صاحب نے سب سے زیادہ مفصل فیصلہ لکھا،جو شاید چھہ سوصفحات پر مشتمل تھا۔ دوسرا فیصلہ میرا تھا جو تقریباً ڈھائی سو صفحات پر محیط تھا، اور اس میں تجارتی سود کے جواز پر جتنے دلائل پیش کئے گئے تھے جن میں ریاض الحسن گیلانی کے دلائل بھی شامل تھے، ان کا مفصل جواب دیا گیا تھا، اور سود کو جو اقتصادی نظام کے لئے ایک لازمی جز قرار دینے کا تأثر تھا، اُسے شرعی، علمی اور تجرباتی دلائل کی روشنی میں رد کیا گیا تھا۔ میرا یہ فیصلہ پی ایل ڈی کے علاوہ ” سود پر تاریخی فیصلہ ” کے عنوان سے الگ بھی شائع ہوا جو اصلاً انگریزی میں تھا، اور اُسے میرے بیٹے مولانا ڈاکٹر عمران صاحب نے اردو میں منتقل بھی کیا۔ ایک فیصلہ جسٹس وجیہ الدین صاحب نے بھی لکھا تھا اور اس میں بھی سودی قوانین کو غیر اسلامی قرار دیا گیا تھا۔
عدالت کا طریق کار یہ ہوتا ہے کہ اگر مختلف ججوں نے اپنے اپنے فیصلے لکھے ہوں، تو عدالت کی طرف سے تمام فیصلے جاری کرنے کے بعد ایک ”عدالتی حکم” (Court Order)جاری کیا جاتا ہے جس کی پابندی حکومت پر لازمی ہوتی ہے۔عام طور سے یہ ”عدالتی حکم” مختصر ہوتا ہے، لیکن مسئلے کی اہمیت کے پیش نظر یہ طے ہوا کہ یہ حکم قدرے تفصیل کے ساتھ لکھا جائے، اور حکم لکھنے کا کام بنچ کی طرف سے میرے سپرد کیا گیا، چنانچہ اس عدالتی حکم کا مسودہ میں نے لکھا، اور آخر کار یہ فیصلہ لاہور میںرمضان کے مبارک مہینے میں 23 دسمبر 1999 کو نئی صدی شروع ہونے سے پہلے یہ تاریخی فیصلہ سنایا گیا جو 1100 صفخات پر مشتمل غالباً سپریم کورٹ کی تاریخ کا سب سے زیادہ ضخیم فیصلہ تھا۔ اور بہت سے حلقوں کی طرف سے اس کا گرمجوشی سے استقبال کیا گیا۔ جناب ارشاد احمد حقانی صاحب نے، جو اس وقت جنگ کے ممتاز کالم نگار تھے، اور بہتٍ سے معاملات میں تجدد پسندوں کی طرف ان کا رجحان رہتا تھا، انہوں نے ” ایک تاریخ ساز فیصلہ” کے عنوان سے ایک کالم میں اس فیصلے کی نظری اورعملی دونوں حیثیتوں سے نہ صرف تائید کی، بلکہ اسے انتہائی خوش آئند قرار دیا۔
اس فیصلے میں ہم نے سود کے قوانین کو ختم کرنے اور اس کے متبادل نظام لانے کے لئے ایک سال کی مہلت دی، اور ان کاموں کی بھی نشان دہی کردی جو اس مدت میں مقصد حاصل کرنے کے لئے ضروری ہوں گے۔
جب یہ فیصلہ آیا، تو اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے گورنر جناب عشرت حسین صاحب میرے پاس تشریف لائے، اور انہوں نے پو چھا کہ کیا اس ایک سال کی مدت میں توسیع ہوسکتی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اگر حکومت ان اقدامات پر سنجیدگی سے فوراً عمل شروع کردے، تو اول تو شاید توسیع کی ضرورت نہ پڑے، لیکن اگر حکومت توسیع مانگے، تو عدالتی طریق کار کی رُو سے اُسے ایک ایک دن کا حساب پیش کرنا ہوگا کہ اس میں اُس نے کیا کیا؟ اور اگر عدالت یہ محسوس کرے کہ حکومت نے حقیقت پسندی سے اس جانب سنجیدگی اور محنت سے کو شش کی ہے، اس کے باوجود کچھ رکاوٹیں ایسی ہیں جن کے لئے کچھ مزید مدت د ر کار ہے، تو اس پر حقیقت پسندی سے غور ممکن ہے، لیکن سال بھر کچھ نہ کرنے کے بعد اگر ایسی درخواست دی جائے گی، تو اُسے بے عملی کا بہانہ ہی سمجھا جائے گا۔
اسی دوران کسی بنک کی طرف سے اس فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست بھی دائر کردی گئی۔سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست کی حیثیت اپیل کی نہیں ہوتی۔بلکہ اس کے منظور ہونے کی شرائط یہ ہوتی ہیں کہ اول تو نظرثانی کی بحث حتی الامکان وہی بنچ سنے جس کے فیصلے پر نظر ثانی مطلوب ہے، دو سرے اُس میں فیصلے کے اندر پائی جانے والی کسی واضح غلطی کی نشان دہی کی جاسکتی ہو۔ نئے سرے سے پورے مقدمے کی سماعت مقصود نہیں ہوتی۔نہ کوئی ایسے دلائل پیش کئے جاسکتے ہیں جن پر پہلے بحث ہوچکی ہو۔
اتفاق سے جب ہماری طرف سے سود کے فیصلے کا اعلان ہوا، اُس وقت مارشل لاء کے ذریعے جنرل پرویز مشرف صاحب کی حکومت آچکی تھی۔انہوں نے اپنی بعض مجلسوں میں یہ فرمایا کہ یہ فیصلہ ان کی حکومت کو ناکام ثابت کرنے کی سازش ہے۔ چنانچہ اس پر نظر ثانی کی درخواست کو ایک بار پھر سرد خانے میں ڈال دیا گیا۔ اسی دوران جنرل صاحب نے دستور کو معطل کرکے پی سی او (پرویژنل کانسٹی ٹیوشن آرڈر) نافذ کردیا جس میں ملک کے اصل دستور کی بہت سی دفعات کو معطل کردیا، اور ججوں کو دعوت دی کہ وہ پی سی او کے تحت حلف اٹھائیں۔چنانچہ اس وقت کے چیف جسٹس سعیدالرحمن صدیقی، جسٹس خلیل الرحمن اور جسٹس وجیہ الدین نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کردیا، اور نتیجتاً وہ ریٹائرڈ ہوگئے۔ جسٹس منیر اے شیخ نے حلف اٹھا لیا۔ میں اس موقع پر شش وپنج میں پڑگیا۔ اس وقت یہ خیال تھا کہ میں نے اصل دستور کے تحت حلف اٹھا یا ہے، اور اب اگر میں پی سی او کے تحت حلف اٹھاؤں گا، تو یہ میرے سابق حلف کی خلاف ورزی ہوگی۔ اس لئے میں کئی ماہ تک حلف اٹھانے سے پرہیز کرتا رہا۔ اس وقت ارشاد حسن خان صاحب چیف جسٹس بن چکے تھے۔ ان کی طرف سے باربار تقاضا آتا تھا کہ میں حلف اٹھاؤں۔ اس وقت ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب مرحوم وزیر مذہبی امور بن چکے تھے۔ ارشاد حسن صاحب نے مجھ سے ان کی بات بھی نقل کی کہ وہ آپ سے نئے حلف اٹھانے کی فرمائش کررہے ہیں، ان فرمائشوں سے تو میری رائے تبدیل نہیں ہوسکتی تھی، لیکن عرصے تک سوچ بچار، استخارے اور مشوروں کے بعد میں نے یہ محسوس کیا کہ شریعت اپیلیٹ بنچ کے علماء ججوں کا معاملہ دوسرے ججوں سے مختلف ہے۔ اس لئے کہ پہلا حلف بھی دستور کی حفاظت کا تھا، اور دوسرا حلف بھی۔ شریعت اپیلیٹ بنچ کے علماء ججوں کی صورت حال یہ ہے کہ انہیں پورے دستور کا نہیں، بلکہ دستور کے صرف ایک باب کا محافظ بنایا گیا ہے۔ اگر دستور کی کسی اور دفعہ کی کوئی مخالفت کرے، تو شریعت اپیلیٹ بنچ کے پاس اس کے خلاف کوئی مقدمہ سننے تک کا اختیار نہیں ہے۔ البتہ دستور کاایک باب جس کی حفاظت کے لئے انہیں مأمور کیا گیا ہے، وہ پی سی او میں بھی جوں کا توں موجود ہے، اور اس کے تحت حلف اٹھا نے کا مطلب پہلے حلف کی تائید اور تأکید ہی ہوگی، اس کے خلاف کوئی بات نہیں ہوگی۔ دوسری طرف اگر میں بھی حلف اٹھانے سے انکار کرکے دوسروں کی طرح عدالت سے الگ ہوجاتا ہوں، تو ربا کی نظر ثانی کی درخواست کی پوری بنچ ہی ٹوٹ جائے گی۔ ان وجوہ سے میں نے آخرکار حلف اٹھا کر سہ بارہ کام شروع کردیا۔
جب ربا کے فیصلے پر ایک سال پورا ہونے لگا ، اور حکومت کو متعلقہ قوانین ختم کرنے کی جو مہلت دی گئی تھی، وہ ختم ہونے کے قریب آئی، تو حکومت نے ایک سال کی مدت میں توسیع کی درخواست دی۔ اس وقت شریعت اپیلیٹ بنچ میں دوسرے عالم جج جنا ب جسٹس محموداحمد غازی صاحب رحمۃ اللہ علیہ وزیر مذہبی امور مقرر ہونے کی بناپر عدالت چھوڑ چکے تھے، اور علماء کے کوٹے میں میرے سوا بنچ میں کوئی اور نہیں تھا۔ چیف جسٹس ارشاد صاحب نے بنچ بھی ایسی بنائی جس کے دوسرے ارکان کو اس مسئلے سے کوئی خاص واقفیت نہیں تھی۔ عام طور پر قاعدہ یہ ہوتا ہے کہ جب عدالت کی مقرر کی ہوئی کسی مدت میں توسیع کا مطالبہ کیا جاتا ہے، تو حکومت سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ جو مدت ابتک گذری ہے، اُس میں اُس نے عدالت کے حکم کی پیروی میں کیا قدم اٹھایا ہے؟ اور اُسے کس کام کے لئے مزید مدت درکار ہے، لیکن جسٹس ریاض صاحب، جو اُس وقت بنچ کے سب سے سینئیر رکن تھے، اور بنچ کی صدارت کررہے تھے، انہوں نے اٹارنی جنرل سے یہ سوال پوچھنے کی ضرورت بھی نہیں سمجھی۔ میں نے اٹارنی جنرل سے پوچھا، تو انہوں نے جواب دیا کہ حکومت نے اس کام کے لئے اسٹیٹ بینک کے گورنر کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کردیا ہے جو مسلسل کام کررہا ہے۔ میں نے انہیں عدالت کے حکم کا وہ حصہ دکھایا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ یہ کمیشن سودی نظام کی تبدیلی کے لئے بااختیار کمیشن ہوگا، اور تبدیلی کے پورے عمل کی نگرانی کریگا، لیکن وہ کمیشن تو صرف کچھ سفارشات مرتب کرنے کی حد تک محدود ہے۔ اس طرح کی سفارشات تو پہلے بھی مرتب ہوچکی ہیں، پھر حکومت نے اس عرصے میں نیا کام کیا کیا؟ اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے وہی ٹکسالی بات دہرائی کہ یہ اتنا بڑا کام ہے جو راتوں رات انجام نہیں دیا جا سکتا۔ میں نے عرض کیا کہ یہ بات ہم ساٹھ سال سے سنتے آرہے ہیں، بیشک کسی نظام کی تبدیلی کچھ وقت چاہتی ہے، لیکن یہ بات اُس وقت معقولیت کے ساتھ کہی جاسکتی ہے جب اس کام کے لئے کوئی واضح منصوبہ بندی اور ٹائم فریم ہو، ورنہ ہر معاملے کو اس طرح صدیوں لٹکایا جاسکتا ہے۔چونکہ بنچ کا عام رویہ حکومت کو مزید وقت دینے کے حق میں تھا، اس لئے اس موقع پر میں نے ریاض صاحب سے کہاکہ انہیں مزید مہلت دیتے ہوئے اس بات کا پابند بنا نا چاہئے کہ عدالت کے سابق حکم میں جو طریق کار درج ہے، اس کے تحت اس سال میں منظم اور مرحلہ وار کام کا واضح خاکہ پیش کریں،لیکن ایسا لگتا تھا جیسے ان کو یہ درخواست نمٹانے کی اتنی جلدی ہے کہ وہ اس موضوع پر کوئی لمبی گفتگو کرنا بھی ضروری نہیں سمجھتے، اس لئے آخر کار انہوں نے یہ درخواست منظور کرلی، اور حکومت کو ایک سال مزید دیدیا گیا۔شروع میں میرا ارادہ اس فیصلے پر اختلافی نوٹ لکھنے کا تھا، لیکن چیف جسٹس صاحب نے یہ کہہ رکھا تھا کہ عنقریب شریعت اپیلیٹ بنچ کو مکمل کرکے ہم نظر ثانی کی اصل درخواست سماعت کے لئے لگانے والے ہیں، اس میں اصل مسئلہ زیر بحث آئے گا، اور اُس موقع پر اپنی رائے میں زیادہ وضاحت کے ساتھ پیش کرسکوںگا، اور اس وقت اگر کوئی اختلافی نوٹ لکھا بھی،تو اس کا کوئی عملی فائدہ نہیں ہوگا،اس لئے اس بنچ کے دوسرے ارکان نے مجھ سے فرمائش کی کہ فی الحال میں کوئی الگ نوٹ نہ لکھوں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، اور بعد میں مجھے افسوس ہوا کہ یہ مجھ سے چُوک ہوگئی، ورنہ میں اس نوٹ میں کم ازکم اپنا موقف وضاحت کے ساتھ بیان کرسکتا تھا جس کا عملی فائدہ چاہے کچھ نہ ہو، لیکن ریکارڈ درست ضرور ہوجاتا۔ ما شاء اللہ کان، وما لم یشأ لم یکن۔
لیکن اس واقعے کے کچھ ہی عرصے کے بعد ہوا یہ کہ جب ربا کے مقدمے پر نظر ثانی کی درخواست سماعت کے لئے لگنے کا موقع آیا، جنرل پرویز مشرف صاحب کی حکومت نے شریعت اپیلیٹ بنچ میں میرا تقرر ختم کردیا، اور عالم ججوں کے کوٹے میں ایک تو ڈاکٹر رشید جالندھری صاحب کو مقرر کیا، دوسرے علامہ خالد محمود صاحب کو جو برطانیہ میں مقیم تھے، انہیں وہاں سے بلاکر جج بنادیا گیا۔ اس موقع پر اعلیٰ عدالتوں کی روایات کے بالکل برخلاف ججوں کے تقرر کے لئے بعض علماء سے انٹرویو کئے گئے، اور مجھے مولانا مفتی منیب الرحمن صاحب نے بتایا کہ ان سے انٹر ویو کرتے وقت یہ بھی پوچھا گیا کہ ”ربا” کے بارے میں آپ کا موقف کیا ہے؟ کیا آپ بینکوں کے سود کو ناجائز سمجھتے ہیں؟ انہوں نے کچھ اس قسم کا جواب دیا کہ جس چیز کو قرآن کریم نے حرام قرار دیا ہے، اسے میں جائز کیسے کہہ سکتا ہوں؟ البتہ اس پر غور کیا جاسکتا ہے کہ اس نظام کو ختم کرنے کے لئے کیا طریقہ اختیار کرنا چاہئے؟ اور اس کے لئے کتنی مدت درکار ہوگی؟ انٹر ویو کے بعد ان کا تقرر نہیں کیا گیا۔
اس طرح یہ نئی بنچ بناکر سود کے بارے میں ہمارے فیصلے پر اس بنچ سے نظر ثانی کرائی، اور اس بنچ نے متفقہ طورپر اس فیصلے کو برطرف کرکے مقدمہ دوبارہ ازسرنو سماعت کے لئے وفاقی شرعی عدالت کو بھیج کر سارا معاملہ ایک مرتبہ پھر سرد خانے کی نذر کردیا، اس وقت سے آج (4 مارچ 2016)(۱) تک مقدمہ دوبارہ وہیں پڑا ہوا ہے۔ہمارے سپریم کورٹ سے الگ ہونے کے نتیجے میں اب وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ اپنے کام کے لحاظ سے تقریباً معطل ہے۔ وفاقی شرعی عدالت میں دستور کی رُو سے تین علماء جج ہونے چاہییں، لیکن سالہا سال سے وہاں صرف ایک ڈاکٹر فدا محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ عالم جج کے کوٹے میں کام کررہے تھے، اور دو ججوں کا سالہا سال سے کوئی تقرر نہیں کیا گیا۔ اب ان کے انتقال کے بعد عدالت صرف تین ججوں پر مشتمل رہ گئی ہے جس میں باقاعدہ عالم بظاہر کوئی نہیں۔ آئین کی اس صریح خلاف ورزی پر احتجاج کرنے والا بھی کوئی نہیں۔چند سر پھرے اس مقدمے کی اب بھی پیروی کررہے ہیں، لیکن کوئی مؤثر آواز اس کے لئے نہیں اٹھتی۔ سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ میں آئینی طورپر دو علماء جج ہونے چاہییں، لیکن وہاں صرف ایک جج ڈاکٹر غزالی صاحب عالم ججوں کے کوٹے میں تشریف فرما ہیں، لیکن بنچ کا اجلاس ہی نہیں ہوتا، اور وہ باربار چیف جسٹس صاحب سے شکایت کر چکے ہیں، جو صدا بصحرا ثابت ہوئی ہے۔ خود میں نے کم ازکم تین مرتبہ وزیراعظم جناب نواز شریف صاحب کو اس طرف متوجہ کیا، لیکن کوئی اثر نہیں ہوا۔
میں نے جماعت اسلامی، جمعیت علماء اسلام، جمعیت علماء پاکستان اور دیگر جماعتوں کو بھی کئی بار اس طرف متوجہ کیا کہ وہ ان عدالتوں کی ہیئت ترکیبی درست کرنے کو اپنے مطالبات میں سر فہرست رکھیں، کیونکہ ملک میں قوانین کو اسلامی بنانے کا اس سے زیادہ مؤثر ذریعہ کوئی اور نہیں ہے۔ان میں سے بعض حضرات اسلامی نظریاتی کونسل کو منظم کرنے اور اس کی سفارشات کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لانے کا مطالبہ تو فرماتے رہے جس کی حیثیت محض مشاورتی تھی، اور اس کے ذریعے صدر ضیاء الحق صاحب مرحوم کے بعد کسی ایک قانون میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آسکی، اور عدالت کے ذریعے قوانین کی تبدیلی کا جو ذریعہ پیدا ہوا تھا، شایدیہ میری شامت اعمال ہی ہے کہ میں کسی کو اس کی اہمیت کا قائل نہیں کرسکا۔جن حضرات پر میں نے اس کام کی اہمیت واضح کی، ان میں سے بعض نے یہ فرمایا کہ ابتک ہمیں اس کی اہمیت کا اندازہ نہیں تھا، اور اب ہم اس طرف توجہ دیں گے، ان میں حضرت قاضی حسین احمد صاحب ؒاوربعض دوسرے دینی رہنما شامل ہیں، اور انہوں نے اس پر فوری آمادگی کا بھی اظہار کیا۔ مجھے یاد ہے کہ تنظیم اسلامی کے سربراہ جناب ڈاکٹر اسرار احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ، جن سے اس ناچیز کے دیرینہ تعلقات تھے، ایک مرتبہ دارالعلوم تشریف لائے۔اس سے قبل وہ علانیہ میری سپریم کورٹ میں شمولیت پر خاصی سخت تنقید فرماچکے تھے۔ میں نے ان پر بھی وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ کے کام کی صحیح نوعیت واضح کی، اور بتایا کہ دینی حلقوں نے اس کی اہمیت کو ابھی تک نہیں سمجھا، اس لئے اس سے وہ کام نہیں لیا جاسکا ، جو لیا جاسکتا تھا، اس کے باوجود جو کام ہوئے، ان کا تذکرہ کیا، تو وہ نہ صرف اس کے قائل ہوگئے، بلکہ اپنے اس ارادے کا بھی اظہار فرمایا کہ وہ واپس جاکر فوراً ایک ایسی کمیٹی بنادینگے جو قوانین کا جائزہ لیکر ان کے بارے میں عدالت میں در خواستیں دائر کرے، لیکن اس کے بعد بھی شاید اپنی دوسری مصروفیات کی وجہ سے وہ اپنے اس ارادے پر عمل نہ فرماسکے۔ رحمہ اللہ تعالیٰ رحمۃ واسعۃ۔
بہر حال! یہ ایک المیہ ہے کہ اب یہ عدالتیں ہماری بے حسی کی وجہ سے تقریباً معطل ہیں، اور اب ان کی ہیئت ترکیبی کچھ اس قسم کی ہے کہ اگر ان سے کام لینے کی کوشش کی بھی جائے، تو اس کا بار آور ہونا آسان نہیں ہے۔حکومت کے با اختیار افراد جو اس ہیئت ترکیبی کو درست کرسکتے ہیں، انہیں اس کی کوئی فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے جب نہ عوام کو اس کی ضرورت کا احساس ہے، اور نہ ان دینی حلقوں کو جنہیں اس ضرورت کا سب سے زیادہ احساس ہونا چاہئے تھا۔ والی اللہ المشتکی۔

جاری ہے ….

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

(ماہنامہ البلاغ :ربیع الثانی ۱۴۴۳ھ)