حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی

یادیں

(انیسویں قسط )

حضرت والد صاحب قدس سرہ کو ہم دونوں بھائیوں کے دورۂ حدیث کی تکمیل کی اتنی مسرت تھی کہ انہوں نے اس موقع پر ایک دعوت کااہتمام فرمایا ، اور اُسے ولیمہ کا نام دیا جس میں خاندان کے لوگوں کے علاوہ خاص اہل تعلق کو بھی مدعو فرمایا گیا تھا ۔پھر مدرسے کے سالانہ جلسے میں ہماری دستار بندی بھی ہوئی ۔چونکہ اُس وقت تک یہ طے نہیں تھا کہ دورۂ حدیث کے بعد ہمیں کیا کرنا ہے ، اس لئے میں نے دارالعلوم سے رخصت ہونے پر ایک نظم بھی کہی تھی جس کے کچھ اشعار یہ ہیں :
سلام اے میرے گلشن ، علم وفن کے پاک گہوارے
ہدایت کے فلک پر علم کے تابندہ سیارے
تری آغوش شفقت سے نکل کر جارہا ہوں میں
مرے قلب وجگربے چین ہیں، گھبرارہاہوں میں
چلا جاؤں گا میں ان علم کی دلکش فضاؤں سے
تری ان روح پر وراور کیف افزا ہواؤں سے
جہاں پر عمر کے میں نے سہانے دن گذارے ہیں
جہاں کے پھول تو ہیں پھول، مجھکو خار پیارے ہیں
جہاں کا ذرہ ذرہ واقف اسرار الفت ہے
جہاں کا ایک اک گوشہ مرے خوابوں کی جنت ہے
جہاں آکر میں آسی اپنی ہستی بھول جاتا تھا
خدا کی نعمتوں میں خود پرستی بھول جاتا تھا
مگر اے میرے گلشن ! تو نہ ہو اندوہگیں اتنا
ہماری اس جدائی پر ملول اتنا، حزیں اتنا
سبق تو نے پڑھایا ہے ہمیں عزم اور ہمت کا
صداقت کا، شجاعت کا،امانت کا، عدالت کا

نہ بھٹکیں جس سے ہم تو نے ہمیں وہ رہ دکھائی ہے
تری تعلیم ہی تو ہم پہ بنکرنورچھائی ہے
خدا توفیق دے ، اُس سے ہمیں زائل نہ دیکھے گا
اور اپنی کوششوں کو ہم پہ لاحاصل نہ دیکھے گا
امنگیں ہیں ہمارے دل میں اب کچھ کام کرنے کی
ترے پیغام کو مشہور کرنے ، عام کرنے کی
چمن پر باغباں کے بھیس میں صیاد بیٹھے ہیں
نہیں ہے کوہکن کوئی ، مگر فرہاد بیٹھے ہیں
بسے ، پھولے پھلے تُو، اور جہاں میں جگمگائے تُو
بہاروں کے حسیں جھرمٹ میں رہکر مسکرائے تُو
دورۂ حدیث کے بعد
درس نظامی کی تکمیل کے بعد ہم دونوں بھائی اپنے لسبیلہ ہاؤس کے مکان میں واپس چلے آئے۔اُس وقت تک یہ بات واضح نہیں تھی کہ اب ہمیں کیا کرنا ہے؟ ایک رائے یہ تھی کہ ہمیں مزید تعلیم اور عربی زبان میں مہارت کے لئے جامعۃ الازہر بھیج دیا جائے ۔میری کم عمری کی وجہ سے والدۂ ماجدہ رحمہا اﷲ تعالیٰ مجھے مصر بھیجنے پر راضی نہیں تھیں ،لیکن بھائی صاحب مدظلہم کے بارے میں وہ اس کو کسی قدرگوارا کرسکتی تھیں، اس لئے ان کے بارے میں لوگوں کا کافی اصرار تھا کہ انہیں ازہر بھیج دیا جائے۔ دوسری رائے یہ تھی کہ ہمیں دارالعلوم ہی میں تدریس کا آغاز کرنا چاہئے ۔ تیسری رائے یہ تھی کہ ہمیں عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق دین کی خدمت کے لئے انگریزی تعلیم بھی حاصل کرنی چاہئے ۔ چوتھی رائے یہ تھی کہ ہمیں حضرت والد صاحب قدس سرہ کے سائے میں فتویٰ کی تربیت حاصل کرنی چاہئے۔
حضرت والد صاحب قدس سرہ کو ہمیں مصر بھیجنے پر شرح صدر نہیں تھا ،کیونکہ” ازہر” اب پرانا جیسا "ازہر” نہیں رہا تھا ، اور اُس کے ماحول میں کافی تبدیلیاں آگئی تھیں ۔شاید حضرت والدصاحب ؒ نے استخارہ بھی فرمایا تھا ، اس لئے وہاں بھیجنے کی رائے نہیں بنی ۔ اور آخر کار فیصلہ یہ فرمایا کہ ہم دو گھنٹے دارالعلوم میں تدریس شروع کریں، اورباقی وقت فتویٰ کی تربیت حاصل کریں ۔اس وقت تک دارالعلوم میں تخصص کا کوئی شعبہ نہیں تھا ۔فیصلہ یہ کیا گیا کہ اگلے سال سے فتویٰ کا تخصص شروع کیا جائے گا۔ادھر مجھے یہ شوق بھی تھا کہ میں انگریزی زبان سیکھ کر انگریزی کے ذریعے دین کی جو خدمت بن پڑے ، اُس کی کوشش کروں ۔ اس لئے شعبان اور رمضان کی چھٹیوں میں میں نے اپنے بڑے بھائی مولانا محمدولی رازی صاحب مدظلہم سے درخواست کی کہ وہ مجھے انگریزی شروع کرادیں۔ اﷲ تعالیٰ نے انہیں غیرمعمولی ذہانت اور تدریس کا خاص سلیقہ عطا فرمایا ہے ۔ انہوں نے محسوس کرلیا کہ مجھے انگریزی پڑھانے کے لئے کوئی ریڈر قسم کی کتاب پڑھانے کے بجائے یہ زیادہ مناسب ہوگا کہ مجھے انگریزی گرامر کا معتد بہ حصہ دو مہینوں میں پڑھا دیا جائے ۔ ان کا خیال تھا ، اور بالکل صحیح تھا، کہ میں چونکہ عربی صرف ونحو اچھی طرح پڑھا ہوا ہوں، اس لئے انگریزی گرامر کو سمجھنا اور اسے صحیح استعمال کرنا میرے لئے آسان ہوگا ۔
چنانچہ انہوں نے کوئی کتاب سامنے رکھے بغیر مجھے انگریزی کی گردانیں (ٹینسیز)شروع کرادیں جو مجھے بڑی آسانی سے نہ صرف سمجھ میں آتی چلی گئیں ، بلکہ مجھے ان کے استعمال کی بھی مشق ہوگئی ،اور اس طرح جملوں کا بنیادی ڈھانچہ بڑی حد تک ذہن نشین ہوگیا۔
تدریس اور تخصّص کا آغاز
جب شوال ( ۱۳۷۹ ؁ھ) کا مہینہ آیا ، تو میری عمر کے سترہ سال پورے ہورہے تھے ، اور رسمی طالب علمی کی تکمیل کے بعد عملی زندگی کا آغاز ۔آنے والے دس سال میں میری مصروفیات چار مختلف دائروں میں تقسیم تھیں۔ تدریس ، فتویٰ ، تصنیف اور انگریزی تعلیم ۔
تدریس کا آغاز
طے یہ پایا تھا کہ درس نظامی سے فراغت کے اگلے سال ہمارے دوگھنٹے تدریس میں، اور باقی اوقات فتویٰ کی مشق میں لگائے جائیں گے۔لہٰذا مجھے پہلی بار دارالعلوم کے استاذ کی حیثیت میں دوگھنٹے پڑھانے کے لئے ملے۔ مجھے عربی کے پہلے درجے کی "عربی کا معلم "اور” طریقۃ جدیدۃ” پڑھانے کے لئے دی گئیں۔ لینے کوتومیں نے یہ دونوں سبق پڑھانے کی ذمہ داری لے لی، ” عربی کا معلم” میں نے ہدایہ کے سال میں ایک طالب علم کو پڑھایا بھی تھا، جس کا پر لطف واقعہ میں پہلے لکھ چکا ہوں ۔اس لئے پڑھانے کی حد تک تو مجھے کوئی اشکال نہیں تھا ،لیکن میری حالت یہ تھی کہ ابھی تک میری داڑھی بھی نہیں نکلی تھی، اورجب میں اپنی عمر اور اپنے پتلے دبلے جثے کو دیکھتا ، تو درسگاہ میں استاذ کی حیثیت سے داخل ہونا ایک آزمائش معلوم ہوتا تھا۔دوسری طرف جس جماعت کو مجھے پڑھانا تھا ، اُس میں مجھ سے بڑی عمر کے لڑکوں کی اچھی خاصی تعداد تھی، اور دوایک صاحبان تو اچھی خاصی داڑھی والے بھی تھے۔ مجھے ازخود درسگاہ میں جاتے ہوئے شرم سی معلوم ہوتی تھی ، اس لئے میں نے اپنے محسن استاذ گرامی حضرت مولانا سحبان محمود صاحب رحمۃ اﷲعلیہ سے درخواست کی کہ وہ درسگاہ میں مجھے لے جائیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ حضرتؒ نے پہلا سبق پڑھایا ، اور اس کے بعد میں نے پڑھانا شروع کیا۔ اپنی کم عمری اور پتلے دبلے جسم پر کسی قدر پردہ ڈالنے کے لئے میں گرمی کے موسم میں بھی شیروانی پہن کر خود ساختہ وقار کے ساتھ جاتا، اور قدرے بلند آواز سے پڑھاتا، تاکہ کچھ تو استادی کی لاج رہے ۔شروع میں جب میں درسگاہ میں اکیلا داخل ہوا، تو بعض داڑھی والے طلبہ کے چہروں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی، گویا وہ زبان حال سے یہ کہہ رہے تھے کہ : ” اچھا! یہ ہیں ہمارے استاذ جن کی ہمیں شاگردی کرنی ہوگی”۔
لیکن یہ اﷲتبارک وتعالیٰ کا خاص فضل وکرم ہی تھا کہ چند ہی دنوں میں تمام طلبہ مجھ سے مانوس ہوگئے، اور میری عمر کی کمی کا احساس اُن کے دلوں سے جاتا رہا ،یہاں تک کہ ان سے کام لینے کے معاملے میں میری سختی بھی ان کو گوارا ہوگئی۔ اس جماعت کے طلبہ میں جو لوگ مجھے یاد رہ گئے ہیں، ان میں سے مولانا عبد الصمد ایرانی سلمہ بطور خاص قابل ذکر ہیں کہ وہ ہر امتحان میں نمایاں پوزیشن حاصل کرتے تھے ، اور آج اﷲتعالیٰ کے فضل وکرم سے ایران کے بڑے علماء میں شمار ہوتے ہیں ۔ ان کے علاوہ مولانا عبد القیوم گلگتی صاحب جہاں تک یاد ہے ، ہر امتحان میں اول آیا کرتے تھے ، اور پھر وہ مکہ مکرمہ کی جامعۃ ام القریٰ میں عرصے تک بطور باحث کام کرتے رہے ، اور انہوں نے وہاں متعدد تحقیقی کام کئے ، اور آجکل مکتبۃ الحرم المکی میں باحث کے طورپر کام کررہے ہیں ۔
اس سال بڑے بھائی حضرت مولانا مفتی محمد رفیع صاحب عثمانی مدظلہم کو دوسرے درجے کی کتابیں ہدایۃ النحو، علم الصیغہ اور تیسیر المنطق پڑھانے کے لئے دی گئی تھیں ۔ ان کے اُس وقت کے شاگردوں میں مولانا عزیز الرحمن صاحب (جو آجکل ماشاء اﷲدورۂ حدیث کے استاذ اور ماہنامہ البلاغ کے مدیر ہیں) مولانا محمد اسحاق صاحب جہلمی، (جو اس وقت دارالعلوم میں درجہ علیا کے استاذ اور دارالاقامہ کے ناظم ہیں ) مولانا مہتاب صاحب (جو ماشاء اﷲاپنے علاقے کے ممتاز علماء میں شامل ہیں، اور تبلیغی جماعت کے سرگرم رکن ) وغیرہ شامل تھے ۔ ان میں سے کچھ حضرات مدرسے کے اوقات کے علاوہ مجھ سے بھی کچھ پڑھتے تھے۔ اور بعد میں ان کے کچھ اسباق، مثلاً مقامات حریری بھی میرے پاس آگئے تھے ۔
ہماری تدریس کی کتابوں میں ہر سال کچھ نہ کچھ ترقی ہوتی رہی ۔ ہم دونوں بھائیوں کو تدریس اور اُس کے مطالعے سے بڑی دلچسپی تھی ، اور ہم جب اپنی قیام گاہ پر ہوتے ، تو کھانے تک کے اوقات میں ہماری گفتگو کا زیادہ تر موضوع اپنی زیر تدریس کتابوں کی خاص خاص باتیں، طلبہ کی مجموعی کیفیت اور تدریس کو زیادہ سے زیادہ مؤثر بنانے کی تجاویز ہوا کرتی تھیں ۔اگرچہ دارالعلوم کی صحرائی زندگی اب بھی بڑی حدتک برقرار تھی، لیکن استاد بن جانے کے بعد بہت سے محبت کرنے والے طلبہ نے بعض وہ خدمتیں اصرار کرکے اپنے ذمے لے لی تھیں جو پہلے ہم خود انجام دیتے تھے ،مثلاً لالٹین اور اسٹوو کے لئے مٹی کا تیل لانا، یا دوسری ضروریات کی خریداری۔ لیکن تدریس اور فتویٰ کے کام میں انہماک ایسا تھا کہ اس صحرائی زندگی کی مشکلات خوشگوار بن گئی تھیں ۔عصر کے بعد قریبی باغات کی تفریح کے دوران بھی ہماری باتیں عموماً اسباق کے کسی نہ کسی موضوع کے متعلق ہی ہوتی تھیں۔
انہی دنوں میں ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ رات کو مطالعے وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد ذہن کچھ تھکا ہوا تھا۔ حضرت مولانا شمس الحق صاحب رحمۃ اﷲعلیہ بھی ہمارے کمرے میں آگئے۔ چودھویں تاریخ کی چاندنی رات تھی، سب کا دل چاہا کہ کچھ دیر باہر چہل قدمی کرآئیں۔چنانچہ بھائی رفیع صاحب ،حضرت مولانا شمس الحق صاحب، حکیم مشرف حسین صاحب اور میں ٹہلنے کے لئے باہر نکلے۔ چونکہ چاندنی رات میں باغات کے بجائے صحرا زیادہ اچھا لگتا ہے، اس لئے ہم مغرب کی سمت چل نکلے۔اس سمت میں اُس وقت سمندر تک کوئی عمارت وغیرہ نہیں تھی ۔ دور تک پھیلی ہوئی چاندنی میں ٹھنڈی ٹھنڈی ریت بڑی خوشگوار معلوم ہورہی تھی۔ ہم باتیں کرتے کرتے بہت دور نکل گئے، یہاں تک کہ دارالعلوم کی عمارتیں اتنی پیچھے رہ گئیں کہ ہمیں نظر نہیں آتی تھیں۔
جب اور آگے بڑھے، تو دُور ایک آدمی کا سراپا محسوس ہوا جو دیر سے اپنی جگہ کھڑا نظر آرہا تھا ۔ ہمیں حیرت ہوئی کہ اس ویرانے اور رات کے اس حصے میں یہ شخص صحرا کے بیچوں بیچ بے حرکت کیوں کھڑا ہے؟ بہر حال ! ہم رفتہ رفتہ اُس کے قریب پہنچے، تو دیکھا کہ اُس کے ہاتھ میں رائفل بھی ہے۔ اس نے ہمیں دور سے دیکھ کر ایکشن لیا ، اور رائفل کا رُخ ہماری طرف کرکے گرج دار آواز میں کہا:
” خبردار!وہیں ٹھہر جاؤ! ”
ہم رُک گئے ، اور وہ ہماری طرف روانہ ہوا۔ قریب آنے پر ہم نے دیکھا کہ وہ فوجی وردی میں ہے۔ وردی کو دیکھ کر اتنا تو اطمینان ہوا کہ وہ کوئی ڈاکو نہیں ہے، لیکن اس نے ہمارے سامنے کچھ دور ترچھا کھڑئے ہوکر پوزیشن لی ، اور رائفل کا رُخ ہماری طرف کرکے پوچھا :
"تم کون ہو؟ اور یہاں رات گئے کیا کرنے آئے ہو؟”
ہم نے بتایا کہ” یہاں سے مشرق میں کچھ دور دارالعلوم واقع ہے،ہم اس کے استاد ہیں، اور ٹہلتے ہوئے یہاں آنکلے ہیں”۔ تھوڑی سی رد وقدح کے بعد اس نے ہماری بات تسلیم کرلی، ور یہ اطمینان کرنے کے بعد کہ ہم مسلح نہیں ہیں ،رائفل بھی نیچے کرلی ،اورپھر ہمارے ساتھ ریت پر بیٹھ کر باتیں کرنے لگا۔
ہمارے دریافت کرنے پر اُس نے بتایا کہ اُس کا نام میجر سلطان ہے، وہ فوج میں میجر ہے ، اور اس علاقے سے کچھ حساس پائپ لائنیں گذرتی ہیں ۔اس کی ڈیوٹی ان کی حفاظت پر لگی ہوئی ہے۔ تھوڑی سی دیر میں میجر صاحب ہم سے گھل مل گئے، اور انہوں نے بتایا کہ ان کا اصل وطن چکوال ہے، اور وہ مولانا قاضی مظہر حسین صاحب رحمۃ اﷲعلیہ سے بھی ملتے رہے ہیں ۔ہم نے انہیں دارالعلوم آنے کی دعوت دی ، چنانچہ وہ دارالعلوم بھی کئی مرتبہ آئے۔ انہوں نے اپنا فون نمبر بھی ہمیں دیدیا تھا ۔
اس واقعے کے کافی عرصے کے بعد جب دارالعلوم کی چار دیواری بن چکی تھی، اور اس پر گیٹ لگ چکے تھے، ایسا ہوا کہ دارالعلوم سے کچھ عناد رکھنے والوں نے شرافی گوٹھ کے کچھ لوگوں کو دارالعلوم کے خلاف اُکسایا کہ دارالعلوم نے چار دیواری بناکر تمہارا کورنگی کی طرف آنے جانے کا راستہ بند کردیا ہے (حالانکہ دارالعلوم کی مشرقی دیوار کے ساتھ ساتھ ان کے لئے آمدورفت کاراستہ موجود تھا، بلکہ انہیں قریب پڑتا تھا) چنانچہ ان کے بہکائے میں آکر ان کے کچھ مسلح لوگوں نے دارالعلوم کے شمالی گیٹ پر دھاوا بول دیا، گیٹ پر فائرنگ بھی کی، اور گیٹ کو توڑنے کی کوشش کرنے لگے۔ میں مغرب کی نماز پڑھ کر واپس آرہا تھا، تو گیٹ پر شدید ہنگامہ نظر آیا۔گیٹ پر مسلسل ضربوں کی آوازیں آرہی تھیں، اور فائر بھی ہورہے تھے۔ میں نے اس وقت میجر سلطان صاحب کو فون کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ میں اس وقت قریب ہی ہوں، اور جلد پہنچتا ہوں۔ اس وقت ہم نے دارالعلوم کی حفاظت کے لئے کچھ اسلحہ کا لائسنس لے لیا تھا، اورایک پستول چوکی دار کو دے رکھی تھی، اس نے یہ منظر دیکھ کرمیری اجازت سے گیٹ پر پہنچ کر ہوائی فائرنگ کی، تو اس کی آواز سُن کر حملے کا زور کچھ رُکا۔ اتنے میں میجر سلطان صاحب اپنی فوجی گاڑی لے کر وہاں پہنچ گئے ، اور نہ صرف یہ کہ مجمع کو منتشر کیا، بلکہ اس کے بعد گوٹھ کے بڑوں سے جاکر ان لوگوں کی شکایت کی جس کے نتیجے میں گوٹھ کے ذمہ داروں نے دارالعلوم آکر اس واقعے پر اپنے افسوس کا اظہار کیا، اور آئندہ کے لئے لائحۂ عمل طے کرلیا گیا۔ الحمد ﷲ! اس کے بعد گوٹھ کے لوگوں سے دارالعلوم کے تعلقات کبھی خراب نہیں ہوئے۔
اس سارے واقعے میں میجر سلطان صاحب کا بڑا اہم کردار تھا۔ اور یہی میجر سلطان ہیں جو آج کرنل امام کے نام سے معروف ہیں ،جنہوں نے بعد میں روس کے خلاف افغانستان کے جہاد میں نمایاں کارنامے انجام دئیے ،اُن سے اس دور میں بھی رابطے جاری رہے، قندھار میں بھی ملاقات ہوئی، اور آخری ملاقات راولپنڈی میں ہوئی۔ لیکن افسوس ہے کہ اس مرد مجاہد کو آخر میں پاکستانی طالبان نے جاسوس قرار دیکر بڑے ظالمانہ انداز سے گولی مارکر شہیدکردیا۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔
شہر کی گہما گہمی سے اکتائے ہوئے لوگوں کے لئے ہمارا یہ و یرانہ کبھی کبھی پکنک کا ذریعہ بھی بن جاتا تھا ، چنانچہ ہمارے بھائی، رشتہ دار اور احباب کچھ وقت اس پُرسکون ماحول میں گذارنے کے لئے ہمارے پاس آجاتے تھے ، اوراس طرح ہمیں بھی ان کے ساتھ لطف اندوز ہونے کا موقع مل جاتا تھا۔
ایک مرتبہ برادر مکرم حضرت مولانا مفتی محمد رفیع صاحب مد ظلہم کے کچھ دوست رات گذارنے کے لئے آگئے۔ رات عشاء کے بعد ایک اونٹ گاڑی کرائے پر لی گئی، اور اُس میں سوار ہوکر کورنگی کریک کے ساحل پر جانے کا پروگرام بنا۔ چودھویں کا چاند اپنی آب وتاب کے ساتھ چمک رہا تھا ، اور اُس نے حدّ نظر تک پھیلے ہوئے صحرا کو ایک نورانی چادر اُڑھا رکھی تھی ۔ صحرائی ریت کی لہروں میں اونٹ اپنی بے نیاز چال کے ساتھ رواں دواں تھا ۔اس مسحور کن ماحول میں بھائی صاحب کے ایک دوست نے د لآویز ترنم کے ساتھ چاندنی کے بارے میں ایک نظم پڑھ کر سماں باندھ دیا ۔ رات کورنگی کریک کے ساحل پر گذارکر صبح سویرے ہم واپس آئے۔
ہمارے بھائی جان حضرت محمد زکی کیفی صاحب رحمۃ اﷲعلیہ خود بھی قادرالکلام شاعر تھے ، اور اُس وقت کے مشہور شاعروں سے ان کے دوستانہ تعلقات تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ جناب جگر مراد آبادی مرحوم کراچی آئے ہوئے تھے ۔بھائی جان بھی کراچی میں تھے۔انہوں نے حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ کی ایماء پر جناب جگر مرحوم کو ایک رات دارالعلوم میں گذارنے کے لئے مد عو کیا۔ اس مناسبت سے انہوں نے کراچی کے مشہور شعراء کو بھی دعوت دی ۔چنانچہ سرِشام حضرت جگر مرادآبادی صاحب کے ساتھ جناب ماہر القادری، جناب ادیب سہارن پوری اور جناب تابش دہلوی (رحمہم اللہ تعالیٰ جمیعاً)دارالعلوم آئے۔ دارالعلوم کی قدیم ترین عمارت جسے ہم پرانا بنگلہ کہا کرتے تھے ، اُس میں ان حضرات کے لئے حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ نے رات کے کھانے کا انتظام کیا ہوا تھا۔ کھانے کے بعد شعرو سخن کی محفل جمی ۔ حضرت جگر مراد آبادی رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنی دو غزلیں اپنے منفرد ترنم کے ساتھ سنائیں، جو ان کے لب ولہجے کے ساتھ آج بھی کانوں میں گونج رہی ہیں ۔
بے تاب ہے ، بے خواب ہے معلوم نہیں کیوں ؟
دل ماہئی بے آب ہے ، معلوم نہیں کیوں ؟
دل آج بھی سینے میں دھڑکتا تو ہے ، لیکن
کشتی سی تہِ آب ہے، معلوم نہیں کیوں؟
ساقی نے جو بخشا تھا بصد لطف و بہ اصرار
وہ جرعہ بھی زہراب ہے ، معلوم نہیں کیوں؟
اور یہ غزل:
نغمہ ترا نفس نفس ، جلوہ ترا نظر نظر
اے مرے شاہدِ حیات اور ابھی قریب تر
عرض ونیاز عشق کا چاہئے اورکیا صلہ؟
میں نے کہا بہ چشمِ نم ،اُس نے سُنا بہ چشمِ تر
دوسرے شعراء نے بھی اپنا کلام سُنایا، اور پھر بھائی جان نے جب ان حضرات کو یہ بتایا کہ حضرت والد صاحب قدس سرہ بھی شعر کہتے رہے ہیں، تو سب کا اصرار ہوا کہ وہ بھی اپنا کلام سُنائیں ۔ چنانچہ پھربھائی جان نے حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کی دو فارسی غزلیں سُنائیں۔
ایک غزل یہ تھی:
دیوانہ خوشتراست ،نہ فرزانہ خوشتر است
کانانکہ خواست جلوۂ جانانہ خوشتراست
زاہد ! مبیں حقیر گدایانِ عشق را
انفاسِ شاں ز سُبحۂ صددانہ خوشتر است
دیدی کہ رنج ہائے جہاں را کنارہ نیست
پس بامنے بہ گوشۂ کاشانہ خوشتر است
خوش درسِ علم وشغل فتاویٰ بہ دیوبند
لیکن شبے بہ خانقہِ تھانہ خوشتراست (۱)
حضرت جگر صاحب اس غزل کے ہر شعر سے محظوظ ہوتے ، اور بے ساختہ داد دیتے رہے۔دوسری غزل یہ تھی:
بگذر زمن کہ حالت زارم نہ دیدہ بہ
بگذار حال من کہ ہمیں نا شنیدہ بہ
چشمت اگررود بتماشائے غیر دوست
زیں گونہ دیدہا ، بخدا ، کور دیدہ بہ

ناکندنی ست در رہِ محبوب خارِپا
کیں خارِ عشق دررگِ جانم خلیدہ بہ

جاری ہے ….

٭٭٭٭٭٭٭٭٭