حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی

یادیں

(چھتیسویں قسط)

میرے سامنے ایک پہاڑ جیسی مشکل یہ تھی کہ مرزا غلام احمد اور اس کے پیرووں کے بارے میں مسلمانوں کی طرف سے اتنا کچھ لکھا جاچکا تھا کہ اُس سے الماریاں بھر ی ہوئی تھیں ۔ ان کے عقائد کے پہلو بھی بہت سے تھے ۔ اس سارے مواد کو ایک بیان میں سمیٹنا آسان نہیں تھا ۔ دوسرے ان میں سے ایسے مباحث کا انتخاب کرنا تھا جوسادہ اور عام فہم ہوں ، اور ارکان اسمبلی کسی پیچیدگی میں الجھے بغیر ان کو سمجھ سکیں ۔ تیسرے میں یہ ضروری سمجھتا تھا کہ مرزا غلام احمدیا اُن کے پیرووں کی طرف جوبات منسوب کی جائے ، وہ پوری احتیاط کے ساتھ اُس کے صحیح سیاق وسباق کے ساتھ نقل کی جائے جس پر یہ انگلی نہ اٹھائی جاسکے کہ نقل کرنے والے نے کسی کی طرف کوئی غلط بات منسوب کی ہے ، یا اُسے سیاق وسباق سے کاٹ کر نقل کیا ہے ۔
چنانچہ میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کرکے اُسی کے بھروسے پر کام شروع کیا ، لیکن پہلے یہ ضروری سمجھا کہ نبوت کے دعوے اور اُس کے نتائج پر مرزا غلام احمد کی جو عبارتیں پیش کی جاتی ہیں ، وہ براہ راست خود پڑھوں۔ اللہ تعالیٰ حضرت مولانا محمد حیات صاحب اور حضرت مولانا عبدالرحیم اشعر صاحب پر اپنی رحمت کی بارشیں برسائیں ، انہوں نے اپنی پوری زندگی ختم نبوت کے عقیدے کے لئے وقف کی ہوئی تھی ، ان کے پاس مرزا اور اُس کے متبعین کی اصل کتابوں کا پورا ذخیرہ موجود تھا ،جو وہ اپنے صندوقوں میں بھر کر لائے ہوئے تھے، یہاں تک کہ قادیانیوں کے روزناموں ” الفضل” "ریویو آف ریلیجنز”وغیرہ کے نہایت پرانے شماروں کے اصل نسخے ان کے پاس محفوظ تھے ۔ جن پہلووں کو میرے نزدیک بیان میں واضح کرنا ضروری تھا ، میں نے ان دونوں بزرگوں کی مدد سے ان اصل کتابوں کا خود بغور مطالعہ کیا ، اور سینکڑوں صفحات نظر سے گزارے ۔ اُس کے بعد اللہ تعالیٰ کے نام پر لکھنا شروع کیا ۔اللہ تعالیٰ نے طبیعت کچھ ایسی بنائی ہے کہ جب کسی موضوع پر کام شروع کرتا ہوں ، تو اُس کی ایک دُھن مجھ پر سوار ہوجاتی ہے ، چنانچہ وہ دُھن ایسی سوار ہوئی کہ کھانے اور نماز کے علاوہ سارا وقت وہی کام دل ودماغ پر سوار رہتا تھا ۔محب محترم مولانا سمیع الحق صاحب ؒ بھی دن رات اپنے کام میں لگے ہوئے تھے ، البتہ ان کا قیام ہوٹل کے قریب ہی اپنے ایک دوست کے گھر میں تھا۔ اُدھر جن ارکان اسمبلی کی طرف سے یہ بیان جانا تھا ، روزانہ شام کو عصر کے بعد وہ حضرات تشریف لاتے ، اور دن بھر کی لکھی ہوئی تحریر سن کر اُس میں مشورے دیتے تھے ، ان میں حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ حضرت مولانا مفتی محمود صاحب ؒ ، حضرت مولانا عبد الحق صاحبؒ (اکوڑہ خٹک)حضرت مولانا شاہ احمد نورانی صاحب ؒ، حضرت مولانا عبد المصطفی ازہری صاحب ؒ، حضرت مولانا ظفراحمدانصاری صاحبؒ، جناب پروفیسر عبدالغفور احمد صاحبؒ بطور خاص قابل ذکر ہیں ۔ جو مشورے یا ہدایات اُن کی طرف سے ملتیں ،(جو زیادہ نہیں تھیں) ، ان کے مطابق مسودے میں تھوڑی بہت ترمیم بھی اُسی وقت کرلی جاتی تھی ۔
اُدھر کسی وجہ سے یہ طے تھا کہ آئندہ دس دن کے اندر اندر یہ بیان ایک کتابی صورت میں اسمبلی میں داخل ہونا ہے ، اس لئے ضروری تھا کہ اس کی کتابت بھی ساتھ ساتھ ہوتی جائے (اُس وقت تک کمپیوٹر کی کمپوزنگ کا رواج نہیں ہوا تھا )۔مشورہ ہوا کہ کتابت کس سے کرائی جائے ۔ میں نے حضرت مولانا مفتی محمود صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا کہ اگر آپ حضرت سید نفیس شاہ صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) سے فرمائیں ، تو امید ہے کہ وہ فوراً قبول فرمالیں گے ۔ حضرت مفتی صاحب ؒ نے فرمایا کہ”نفیس تو پھر نفیس ہی ہیں” اور پھر انہوں نے حضرت نفیس شاہ صاحب ؒ کو فون کیا ، تو وہ خوشی خوشی اپنی ٹیم کے ساتھ وہیں تشریف لے آئے ، شام کو جتنا کچھ لکھا جاتا، ان کے رفقاء اس کی فوراً کتابت شروع کردیتے تھے ۔
قادیانی گروپ کے جو لوگ جو مرزا غلام احمدکو صاف صاف نبی مانتے ،اور نہ ماننے والوں کو کافر قرار دیتے ہیں ، ان کے بارے میں تو ایک عام آدمی کے لئے بھی یہ بات واضح تھی کہ وہ اسلام کے دائرے میں نہیں ہوسکتے ۔لیکن لاہوری جماعت کے لوگ جو بظاہرمرزا کو نبی ماننے سے انکار کرتے ہیں ، اور صرف ایک مذہبی پیشوا سمجھتے ہیں ، ان کے بارے میں بہت سے لوگ اس شبہے کا شکاررہتے ہیں کہ انہیں کس بنا پر دائرۂ اسلام سے خارج سمجھا جائے ۔ اس کے جواب میں عام طورپر یہ کہا جاتا ہے، اور صحیح بھی ہے ، کہ مرزا کا کفر اُس کے دعوائے نبوت کی بناپر ثابت اور واضح ہے ، جو لوگ اُسے کسی بھی معنی میں اپنا پیشوا سمجھیں ، وہ کیسے اسلام کے دائرے میں شمار ہوسکتے ہیں؟ اس کے علاوہ یہ بھی بجا طورپر کہا جاتا ہے کہ لاہوری گروپ کے سربراہ محمد علی لاہوری خود بھی ۱۹۱۴ء تک مرزا کو نبی کہتے اور مانتے رہے ہیں ، نبوت سے براء ت اُنہوں نے اُس وقت شروع کی جب نورالدین کی وفات کے بعد جانشینی کا مسئلہ کھڑا ہوا ۔
یہ باتیں اپنی جگہ درست ہیں ، لیکن میرے ذہن میں یہ بات تھی کہ جب وہ مرزا کی ہربات کی حقانیت کے قائل ہیں ، تو یقیناً اُس کے اُن دعووں کو بھی برحق مانتے ہیں جن میں اُس نے اپنے نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کیا ہے ، اس لئے ۱۹۱۴ء کے بعد بھی یقیناً وہ کسی نہ کسی معنیٰ میں اُس کے نبی ہونے کا ضرور اقرار کرتے ہیں۔اگر ان کی ایسی تحریریں سامنے آئیں ، تو لوگوں پر ان کے عقیدے کی حقیقت زیادہ واضح ہو سکے گی۔ چنانچہ میں نے ان کی ۱۹۱۴ء کے بعد کی تحریروں کا جائزہ لیا ۔ ان کی کتاب”النبوۃ فی الاسلام ” ۱۹۱۴ء کے بعد ہی کی تالیف ہے ، میں نے تقریباً اُس پوری کتاب کا مطالعہ کیا ، اور یہ حقیقت الم نشرح ہوکر سامنے آگئی کہ وہ بعد میں بھی مرزا کو نبی مانتے رہے ہیں ۔ چنانچہ میں نے ان کی اس کتاب سے صریح عبارتیں جمع کرکے اُس بیان کا حصہ بنائیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ حقیقۃً اُن میں اور قادیانی گروپ میں کوئی قابل ذکر فرق نہیں ہے ۔
میں اگر چہ دن رات بیان تیارکرنے میں مصروف تھا ، لیکن یہ وہ زمانہ تھا کہ پورے ملک میں ختمِ نبوت کے مطالبات کی تائید میں پُرجوش جلسے ہورہے تھے ، راولپنڈی اور اس کے مضافات میں بھی تقریباً روزانہ کوئی بڑا جلسہ ہوتا تھا ، جلسے کے منتظمین بکثرت ان جلسوں میں شرکت اور تقریر کرنے کی دعوت دیتے تھے ، لیکن میں اپنے زیرِ قلم کام کی وجہ سے معذرت ہی کرلیتاتھا ، ایک مرتبہ میں حضرت بنوری قدس سرہ کے پاس کھانے کی کسی نشست میں بیٹھا ہوا تھا ، اس وقت ایک جلسے کے منتظمین نے حضرت ؒ سے کہا کہ حضرت ! آج کا جلسہ بہت اہم ہے ، آپ تقی سے فرمادیں کہ وہ اس میں ضرور شریک ہوکر تقریر کرے ، حضرتؒ نے جواب میں فرمایا: اللہ کے بندو! ہرشخص سے اس کے مناسب کام لیا کرو ، تمہارے پاس مقرروں کی کچھ کمی ہے جو اس سے تقریر کا مطالبہ کررہے ہو ، اگر میں اسے تمہارے ساتھ جلسوں میں بھیجناشروع کردوں تو یہ کام کون کرے گا جس میں یہ مشغول ہے ، اس کے بعد کسی نے جلسوں میں لے جانے کی فرمائش نہیں کی ۔
محب محترم جناب مولانا سمیع الحق صاحب (اللہ تعالیٰ انہیں عافیت کے ساتھ سلامت رکھے)(۱) ہمیشہ سے بڑی باغ وبہار شخصیت کے مالک ہیں ۔ دن رات محنت کرنے کے باوجود اُن کی پُربہار طبیعت اپنی جولانی پر رہتی تھی ، جومیرے لئے ایک نعمت سے کم نہ تھی ، جب دل ودماغ بہت تھک جاتا ، تو ان کی صحبت میں چند لمحات بھی بڑے جانفزا ثابت ہوتے تھے ۔جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا ، شایدوسائل کی کمی اور احتیاط کے پیش نظرکئی روز تک مسلسل کھانے میں صبح وشام صرف دال پکتی رہی ۔ اگرچہ کام کی اہمیت کے پیش نظر ان باتوں کی طرف دھیان ہی نہیں تھا ، اور ہم ویسے بھی مدرسے کی زندگی میں اس قسم کے سادہ کھانے کے عادی بھی تھے لیکن ازراہِ مذاق ہم آپس میں روزانہ دال کھانے کی کیفیات کا تذکرہ کرتے رہتے تھے جب کئی دن اسی طرح گذر گئے ، تو ایک روز میں نے کھانے کے منتظم سے پوچھا : ” آج کیا کھانا ہے ؟” اُس نے جواب دیا: ” دال!” میرے منہ سے گھبرائے ہوئے لہجے میںبے ساختہ نکلا : "آج بھی دال ؟” مولانا سمیع الحق صاحب نے میرے اس جملے کو ظرافت کا ایک مستقل موضوع بنائے رکھا ، اور مدت تک مزے لیکر اُس کا حوالہ دیکر مجھے چھیڑتے رہے۔میں جواباً مولانا کو حضرتؒ کا ایک جملہ دہراکر چھیڑا کرتا تھا جس کا قصہ یہ تھا کہ حضرت بنوری ؒ نے مولانا سمیع الحق ؒکو ایک دن دوپہر کے کھانے کے وقت تربوز لانے کے لئے بازار بھیجا۔ وہ ایک اتنا بڑا تربوز لے آئے جسے ان کے لئے اٹھانا بھی مشکل ہورہا تھا ۔ لیکن جب کھانا کھانے کے بعد اُسے کاٹا گیا ، تو وہ اندر سے بالکل سفید نکلا ۔ حضرت بنوری ؒ کو اُسے دیکھ کر حیرت ہوئی ۔انہوں نے مولانا سمیع الحق صاحب سے فرمایا: "خدا کے بندے!اتنا بڑا تربوز اٹھا لائے ، مگر یہ نہ دیکھا کہ وہ پکا بھی ہے ، یا نہیں ؟ بھلا اتنا بڑا تربوز لانے کی کیا ضرورت تھی ؟”مولانا سمیع الحق صاحب کو حضرت بنوری ؒسے قابل رشک حد تک بے تکلفی تھی ۔انہوں نے جواب دیا: "حضرت!آپ نازک مزاج آدمی ہیں ، مجھے یہ خطرہ تھا کہ کوئی چھوٹا تربوز لایا ، تو آپ کو ناگوار ہوگا ۔مجھے کیا پتہ تھا کہ آپ کو نہ چھوٹا پسند ہے ، نہ بڑا۔”حضرتؒ یہ سُن کر مسکرائے، اور بے بسی کے انداز میں فرمایا: "واقعی عقل بڑی عجیب چیز ہے ۔”
بہر کیف! وہ بڑے یادگار دن تھے ۔ حضرت بنوری ؒ اور ان کے مشن کی وجہ سے وہاں علماء کرام اور اہل دانش کا بڑا خوبصورت گلدستہ جمع رہتا تھا ۔حضرت سید نفیس شاہ صاحب ؒ کہنے کو ایک بڑے عظیم خطاط تھے ، لیکن بڑے صاحب دل بزرگ تھے۔ وہاں کتابت اور اُس کی نگرانی کے علاوہ ان کی زبان پر طرح طرح کے علمی اور ادبی فوائد جاری رہتے تھے ۔ ان کے ساتھ تقریباً دس روزہ صحبت ایک انتہائی شیریں اور خوشگوار تعلق میں تبدیل ہوگئی جو بفضلہ تعالیٰ ان کی وفات تک مسلسل جاری رہا ۔
اس طرح دن رات ایک کرکے بیان کی تیاری ، اُس پر نظر ثانی اور اُس کی کتابت ساتھ ساتھ ہورہی تھی ، لیکن وقت بالکل قریب آلگا تھا ، اور ابھی کئی باتوں کی وضاحت باقی تھی ۔ آخر ایک رات میں کھانے کے بعد لکھنے بیٹھا ، تو وقت کاپتہ نہ چلا ، اور ساری رات لکھتے لکھتے گزرگئی ۔ صبح کی اذان کے وقت بارش ہورہی تھی ، اور میں آخری حصہ لکھ رہا تھا ۔ اتنے میں برابر کے کمرے کا دروازہ کھلا ، اور حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ اندر تشریف لائے ، اور پوچھا کہ کیا تم ابتک لکھ رہے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ حضرت !وقت کا پتہ ہی نہیں چلا ، اور الحمد للہ اب میں ختم کے قریب ہوں ۔حضرت ؒ نے دعائیں دیں ، اور واپس کمرے میں تشریف لے گئے ۔ بعد میں حضرت والد صاحب ؒکو فون کیا اور فرمایا کہ :” حضرت! مقدمۂ بہاول پور کی یاد تازہ ہورہی ہے ۔جس طرح آپ اُس مقدمے کے موقع پر رات بھر بیان لکھتے رہے تھے ، آج رات تقی میاں بھی ساری رات نہیں سوئے ، اور لکھنے میں مصروف رہے ۔” حضرت بنوری ؒ نے بعد میں ماہنامہ بینات کے اداریے میں بھی حضرت والد صاحبؒ کی وفات پر جو شذرہ لکھا ، اُس میں اس واقعے کا تذکرہ ان الفاظ میں فرمایا ہے :
"(حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب ؒ)مقدمہ بہاول پور میں امام العصر شاہ صاحبؒ کے دست راست رہے، اور آپ ہی کے قلم سے حضرت شیخ رحمہ اللہ کی دقیق وعمیق تعبیرات سہل اردو میں مرتب ہوئیں جو مقدمۂ بہاول پور کے نام سے معروف ہے ، اور فرمایا کہ ایک رات اسی کام میں ایسی گزری کہ عشاء کے بعد سے صبح تک اس کی تکمیل میں مشغول رہا(۲)۔ اس طرح حضرت شیخ کی دعاؤں اور توجہات کے مرکز بنے رہے ۔ ۱۹۷۴ء میں قادیانی مسئلہ کے سلسلے میں جو محاذ قائم ہواتھا ، اور حضرت شیخ (حضرت کشمیری رحمۃ اللہ علیہ) کے جوتوں کے صدقے میں حق تعالیٰ نے راقم الحروف سے کام لیا ، اس کے لئے حضرت مفتی صاحب (حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ)کے صاحب زادے عزیز گرامی برادرم مولانا تقی صاحب کو میں نے راولپنڈی میں بلایا تھا ، مسئلۂ قادیانیت میں امت اسلامیہ کے موقف کی ترتیب وتالیف میں برادر موصوف نے ایک دفعہ پوری رات گزاردی ، ایک لمحہ کے لئے بھی آرام نہ کرسکے۔میں نے حضرت مفتی صاحبؒ سے فون پر اور بعد میں زبانی یہ عرض کیا تھا کہ آپ کے مقدمۂ بہاول پور اور حضرت شیخ ؒ کی خدمت ومساعدت سے پوری مشابہت اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمادی جس سے حضرت مفتی صاحبؒ بہت خوش ہوگئے ۔اس طرح اللہ تعالیٰ نے برادر موصوف کو اپنے والد محترم کا صحیح خلف الرشید بنایا ، فطوبی لہ ہذہ السّعادۃ،وہنیئاً لہ بہذہ الخلافۃ. (ماہنامہ بینات ، منقول از مفتی ٔ اعظم نمبر ماہنامہ البلاغ ج: ۱ ص:۳۱)
جب بیان دوسو صفحات میں مکمل ہوگیا ،اور کتاب کا نام رکھنے کا وقت آیا ، تو لوگ مختلف جذباتی نام تجویز کررہے تھے ، لیکن حضرت مولانا مفتی محمود صاحبؒ نے فرما یاکہ:”نام سنجیدہ علمی انداز کا ہونا چاہئے” پھر خود ہی اُس کا نام ” ملت اسلامیہ کا موقف” تجویز فرمایا ۔لیکن پھرمجھ سے کہا کہ اصل بیان میں تو ضرورت اس بات کی تھی کہ اندازبیان سنجیدہ اور جذباتیت سے بالا ترہو ، تاکہ دلائل کا وزن برقرار رہے ، لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ موضوع چونکہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس اور ختم نبوت کا ہے، اسلئے یہ ایک مسلمان کا جذباتی مسئلہ بھی ہے ، لہٰذا آپ اس کے آخر میں ایک دو صفحے اس جذباتی پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے ارکان اسمبلی سے ایک دردمندانہ اپیل کی شکل میں لکھیں ،اور یہ اپیل کچھ جذباتی انداز کی بھی ہو، تو کچھ حرج نہیں ہے ۔
چنانچہ حضرت مفتی صاحبؒ کے حکم کے مطابق میں نے بیان کے آخر میں دوصفحے اسی انداز کی اپیل کے طورپرلکھے ۔
بہرحال! اس طوفانی رفتار سے یہ دوسو صفحات کی کتاب دس دن کے اندر اندر تالیف بھی کی گئی ، اُس کی کتابت بھی ہوئی ، چھپ بھی گئی ، اور اُس کی بائنڈنگ بھی ہوگئی ۔
چونکہ قادیانی گروپ کے سربراہ مرزا ناصراحمد اور لاہوری گروپ کے سربراہ صدرالدین صاحب بھی اسمبلی میں بیان دینے کے لئے پیش ہونے والے تھے ، اور اُن پر جرح بھی ہونی تھی ، اس لئے کتاب کی تالیف کے بعد یہ بھی تجویز ہوا کہ جرح میں پوچھے جانے والے سوالات بھی مرتب کئے جائیں ۔ چنانچہ بعد میں کچھ وقت باہمی مشورے سے ان سوالات کی ترتیب میں بھی لگا ۔ میں تو بعد میں کراچی واپس آگیا تھا ، لیکن ۵؍ اگست سے ۲۸؍ اگست تک وقفوں وقفوں سے مرزا ناصر اور صدرالدین صاحب کے بیانات اور اُن پر جرح کا سلسلہ جاری رہا ، اُس وقت کے اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیار صاحب کو جرح کرنی تھی ۔ انہیں سوالات مرتب کرنے میں حضرت مولانا ظفراحمد انصاریؒ اور حضرت مولانا مفتی محمود صاحبؒ نے ان کی خوب خوب مدد فرمائی۔ اس جرح کی پوری تفصیل عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی طرف سے "قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر بحث کی مصدقہ رپورٹ ” کے نام سے شائع ہوچکی ہے ۔
ان دونوں کے بیانات اور ان پر جرح کے بعد ۲۹؍اور ۳۰؍اگست کو حضرت مولانا مفتی محمود صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے وہ بیان پڑھکر سنایا جو” ملت اسلامیہ کے موقف ” کے نام سے مرتب اور طبع ہوا تھا ۔
آخرکار!اسمبلی کے دونوں ایوانوں نے ستمبر ۱۹۷۴ ؁ ء میں دستور میں ترمیم کرکے مسلمانوں کا یہ دیرینہ مطالبہ پورا کردیا ، اور مرزائیوں کے دونوں گروپس کو غیرمسلم اقلیت قرار دیدیا گیا۔اس موقع پر مجھ سے حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ ہم لوگوں کو تقسیم ہند کے معاملے میں کچھ اختلاف رہا تھا،لیکن اس واقعے کے بعد پاکستان کی قدر معلوم ہوئی ، کیونکہ یہ فیصلہ غیرمنقسم ہندوستان میں ہونا ممکن نہیں تھا۔

(ماہنامہ البلاغ :ربیع الثانی ۱۴۴۲ھ)

جاری ہے ….

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

——————————
(۱) افسوس کہ آج جب یہ سطور چھپنے جارہی ہیں، ان کے ساتھ رحمۃ اللہ علیہ لکھنا پڑرہا ہے ، اللہ تعالیٰ نے انہیں شہادت سے سرخ رو کرکے اپنے پاس بلالیا۔
(۲)۔۔ اس واقعے کی جو تفصیل میں نے خود حضرت والد صاحب ؒ سے سنی ، وہ یہ ہے کہ ۱۹۲۶ء میں احمد پور شرقیہ بہاول پور کی ایک مسلمان عورت نے اپنے شوہر کے مرزائی ہوجانے کی وجہ سے بہاول پور کی عدالت میں نکاح فسخ کرنے کا دعوی دائر کیا تھا ۔ سات سال تک یہ مقدمہ نچلی عدالتوں میں چل کر بالآخر بہاول پور کے دربارِ معلّی میں پہنچا اور ۱۹۳۳ء میں دربار معلی نے عدالت میں یہ لکھ کر واپس کیا کہ اس مسئلے کی پوری تحقیق ضروری ہے ۔ دونوں فریقوں کے علماء کی شہادتیں لی جائیں ، پھر کوئی فیصلہ کیا جائے ۔ قادیانی اس موقع پر قادیان کے رہنماؤںنے بڑی رقم خرچ کرکے مقدے کی پیروی میں قادیانی گواہوں اور وکلاء کا اہتمام لیکن مسلمان مدعیہ بیچاری غریب تھی ، اس کے بس میں نہیں تھا کہ علماء اسلام کو جمع کرکے ان کی شہادتیں پیش کرے ، لیکن جامعہ بہاول پور کے شیخ الجامعہ مولانا محمد حسین صاحب نے ملک کے مشاہیر علماء کو خط لکھ کر دعوت دی ۔ اس وقت امام العصر حضرت مولانا سید انور شاہ صاحب کشمیری قدس سرہ کو دعوت دی گئی ،حضرت ؒ نے معاملے کی اہمیت کی بنا پر بہاول پور سفر کرنا طے کرلیا۔ اور اپنے ساتھ حضرت مولانا سید مرتضی حسن صاحب چاند پوری ؒ کو بھی لیا، اور میرے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ساتھ چلنے کو فرمایا ، اتفاق سے اس وقت میرے دادا حضرت مولانا محمد یٰسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ بیمار تھے ، اور حضرت والد صاحب ؒ کے سوا ان کی کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی جو ان کی دیکھ بھال کرسکے ۔ لیکن حضرت شاہ صاحب قدس سرہ نے والد صاحبؒ سے فرمایا کہ آپ ساتھ چلیں ہم آپ کے والد صاحبؒ کے لئے دعا کریں گے ۔ ان شاء اللہ وہ ٹھیک ہوجائیں گے ۔
چنانچہ حضرت والد صاحبؒ حضرت شاہ صاحب ؒ کے ساتھ بہاول پور تشریف لے گئے اور تقریباً پچیس روز بہاول پور میں قیام ہوا۔
اس دوران حضرت شاہ صاحب ؒ کے حکم پر پہلا بیان عدالت میں حضرت والد صاحبؒ کا ہوا جو تین دن جاری رہا ، اور دودن بیان پر جرح ہوئی ، یہ بیان ساٹھ صفحات پر مشتمل ہے جو شائع ہوچکا ہے ۔
اس کے بعد حضرت شاہ صاحب ؒ کا بیان تین روز جاری رہا ، بیان کیاتھا ؟ علوم ومعارف کا ایک سمندر بہہ رہاتھا جس کے نتیجے میں عدالتی اہل کار بیان قلمبند کرنے سے عاجز ہوگئے ۔ بعد میں جج صاحب کی طرف سے کہا گیا کہ ہم حضرت شاہ صاحب ؒ کا بیان لکھ نہیں سکے ، اس لئے فائل پر کچھ موجود نہیں ہے ۔ آپ یہ بیان لکھ کرپیش کریں ، اس موقع پرحضرت شاہ صاحب ؒ نے حضرت والد صاحب ؒکو حکم دیا کہ آپ یہ بیان لکھ کر پیش کریں ۔ چنانچہ حضرت والد صاحب ؒ نے اس حکم کی تعمیل میں بیان لکھنا شروع کیا ، حضرت والد صاحب قدس سرہ فرماتے تھے کہ حضرت شاہ صاحبؒ کی طرف سے بیان لکھنا میرے لئے بڑی آزمائش تھی ، لیکن انہی کی دعاؤں سے اللہ تعالیٰ نے یہ کام کرایا۔ اسی دوران یہ واقعہ پیش آیا تھاکہ حضرت والد صاحب قدس سرہ ساری رات جاگ کر بیان لکھتے رہے ۔ اذانِ فجر کے بعد برابر کے کمرے سے حضرت شاہ صاحبؒ تشریف لائے تو والد صاحبؒ کو لکھتے ہوئے پایا، حضرت والد صاحب ؒ نے فرمایا کہ آخری سطریں لکھ رہا ہوں۔ اس پر حضرت ؒ نے والد صاحب ؒ کوڈھیروں دعائیں دیں۔ بالآخر الحمدللہ تعالیٰ ۷؍ فروری ۱۹۳۵ء کو اس مقدمے کا فیصلہ مسلمانوں کے حق میں ہوا جواس موضوع پرپہلا عدالتی فیصلہ تھا ۔ حضرت بنوری ؒ نے اس واقعے کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔