fatawa-usmani-2

بعض شرعی اَحکام کی مصلحتیں

(غیرمسلموں کی جانب سے چند اعتراضات کا جواب درکار ہے، اُمید ہے کہ آپ جواب ارسال فرماکر عنداللہ مأجور ہوں گے)
سوال۱:- اسلام میں کثیر الازدواجی (Poly Gamy) کی اجازت کیوں ہے؟ اور Poly Andry کیوں ممنوع ہے؟ اگر اولاد کی شناخت کا مسئلہ ہے تو یہ خون کے ایک سادہ سے ٹیسٹ سے حل ہوجاتا ہے۔ عورتیں چار شادی کا مطالبہ کریں تو کیا دلائل ہیں؟
۲:- اسلام میں خنزیر کیوں حرام ہے؟ اس کی اخلاقی و طبّی وجوہ ارشاد فرمائیں، اور یہ ثابت فرمائیے کہ اس کا گوشت کیوں مضر ہے؟
۳:- اسلام سے پہلے شراب پی جاتی تھی، یہ کیوں ممنوع نہ تھی؟
۴:- اگر کوئی اپنی بیوی کو غصّے، غلط فہمی یا شدید مجبوری کی حالت میں طلاق دے دے اور دوبارہ اس سے شادی کرنا چاہے تو مرد کی اس غلطی کی سزا اس بیچاری بے گناہ مظلومہ عورت کو حلالہ کی صورت میں کیوں دی جاتی ہے؟ کرے کوئی، بھرے کوئی!
۵:- اسلام میں (معاذ اللہ) عورت کو کم تر مخلوق کیوں تصوّر کیا جاتا ہے؟ مثلاً: جائیداد میں آدھا حصہ، آدھی گواہی، عقیقے میں آدھی قربانی، طلاق کا حق نہ ہونا، اگر خلع لینا ہو تو اپنے حق مہر سے دستبردار ہونا پڑے، وغیرہ وغیرہ۔
جواب:- آپ کے سوالات کے جواب سے پہلے دو اُصولی باتیں عرض کرتا ہوں۔

غیرمسلموں سے گفتگو

۱:- غیرمسلموں سے جب کبھی اسلام کے بارے میں گفتگو کی نوبت آے تو گفتگو ہمیشہ اُصولِ اسلام پر ہونی چاہئے، جزوی اَحکام پر نہیں، کیونکہ تمام جزوی اَحکام دراصل اُصولوں پر مبنی ہیں۔ جب تک انسان ان اُصولوں کا قائل نہ ہو، جزوی اَحکام کی حکمتیں ٹھیک ٹھیک سمجھ میں نہیں آسکتیں، اور ایک کے بعد دُوسرے حکم پر اعتراض کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔

ہر حکم کی مصلحت سمجھ میں آنا ضروری نہیں

۲:- اللہ تعالیٰ کا کوئی حکم حکمتوں سے خالی نہیں ہے، لیکن ضروری نہیں ہے کہ ہر حکم کی مصلحت کلی طور انسان کی سمجھ میں آجائے۔ اگر ہر حکم کی مصلحت انسان کی سمجھ میں آجاتی تو اللہ تعالیٰ کو وحی کے ذریعے اَحکام عطا فرمانے کی ضرورت نہ تھی، صرف اتنا کہہ دیا جاتا کہ مصلحت اور حکمت کے مطابق عقل سے کام لے کر عمل کرو۔ شریعت کے اَحکام تو آتے ہی عموماً اس جگہ پر ہیں جہاں یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ اگر اس معاملے کو صرف انسانی عقل کے حوالے کیا گیا تو وہاں ٹھوکر کھائے گا۔ لہٰذا اگر کسی حکم کی پوری مصلحت سمجھ میں نہ آئے تو اس حکم سے انکار نہیں کیا جائے گا۔ دیکھئے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کو حکم دیا گیا کہ اپنے بیٹے کو ذبح کردو، بظاہر اس حکم میں کوئی مصلحت نہ تھی، لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مصلحت نہیں پوچھی، فوراً عمل کرنے پر تیار ہوگئے۔ جب اللہ تعالیٰ کو حکیمِ مطلق اور اپنا پروردگار مان لیا تو اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اس کے ہر حکم کو بجا لائے اور حکمت و مصلحت کا مطالبہ نہ کیا جائے۔
اگر آپ ایک ملازم رکھیں اور جب آپ اسے کسی کام کا حکم دیں تو وہ پہلے آپ سے اس کی مصلحت بتانے کا مطالبہ کرے، تو کیا وہ ملازم وفادار سمجھا جائے گا یا برطرف کرنے کا مستحق ہوگا؟ جب ایک ملازم کا یہ حال ہے تو بندے کا معاملہ اپنے مالک کے ساتھ خود سوچ لیجئے۔
لہٰذا اصل تو یہ ہے کہ شرعی اَحکام کی مصلحتوں کے زیادہ درپے ہونا نہیں چاہئے، تاہم بہت سے شرعی اَحکام کی کچھ مصلحتیں انسان کو سمجھ میں آجاتی ہیں۔ حضرت مولانا تھانویؒ کی کتاب ’’اَحکامِ اسلام عقل کی نظر میں‘‘ انہی مصلحتوں کو بیان کرنے کے لئے لکھی گئی ہے، کبھی اس کا مطالعہ فرمالیں۔
اس تمہید کے بعد آپ کے سوالات کا مختصر جواب حاضر ہے۔

۱:- مردوں کو چار شادیوں کی اجازت کیوں؟

یہ ایک حیاتیاتی حقیقت ہے کہ اگر ایک مرد چار عورتوں کے پاس جائے تو چاروں کو حاملہ بناسکتا ہے، لیکن ایک عورت چار مردوں کے پاس جائے تو وہ ایک ہی سے حاملہ ہوگی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ فطرت کے لحاظ سے عورت یک زوجی کے لئے پیدا کی گئی ہے نہ کہ مرد، اس کے علاوہ مرد پر ایسا کوئی زمانہ معمولاً نہیں آتا جب وہ جنسی تعلق کے قابل نہ ہو، لیکن عورت پر حیض و نفاس اور حمل کے ایام میں ایسے دور باقاعدہ آتے ہیں جب وہ جنسی تعلق کے قابل نہیں ہوتی، لہٰذا مرد کو جنسی تسکین کے لئے زیادہ کی ضرورت ہوسکتی ہے، عورت کو اس کی ضرورت نہیں۔

۲:- خنزیر کیوں حرام ہے؟

خنزیر کے طبّی نقصانات سینکڑوں اطباء اور ڈاکٹروں نے بیان کئے ہیں، اور اخلاقی نقصان یہ ہے کہ اس سے قوّتِ بہیمیہّ میں اضافہ ہوتا ہے، جس کا مشاہدہ آپ دن رات مغرب میں کرتے ہیں۔

۳:- شراب ایک دم سے کیوں حرام نہیں ہوئی؟

اسلام کے اَحکام بتدریج آئے ہیں، ایک دم سارے اَحکام آجاتے تو عمل مشکل ہوتا، اس لئے رفتہ رفتہ کرکے بُری عادتیں چھڑالی گئیں۔

۴:- حلالہ کیوں؟

یہ خیال غلط ہے کہ ’’حلالہ‘‘ کوئی تدبیر ہے جس پر عورت کو مجبور کیا جارہا ہے۔ اصل یہ ہے کہ جس شخص نے اللہ کی مقرّر کی ہوئی تمام حدود کو پامال کرکے تینوں طلاقیں دے دیں، وہ اب اس لائق نہیں کہ ایک شریف عورت اس کے پاس رہے۔ لہٰذا حکم یہ ہے کہ اب اس سے نکاح نہ کرو، کوئی اور شوہر تلاش کرو۔ ہاں! اگر اس شوہر سے بھی نبھاؤ نہ ہو اور وہ ازخود طلاق دیدے تو اس صورت میں اُمید ہے کہ پہلا شوہر کچھ سبق حاصل کرچکا ہوگا۔ اس لئے اگر اب اس سے نکاح کرنے پر بیوی رضامند ہو تو اس کی اجازت دے دی گئی ہے۔ اور یہ جو محض حیلے کے طور پر حلالہ کیا جاتا ہے، وہ شریعت کے منشاء کے خلاف ہے۔

۵:- کیا عورت کم تر مخلوق ہے؟

عورت ہرگز کم تر مخلوق نہیں، البتہ مرد کے مقابلے میں کمزور ضرور ہے جیسا کہ مشاہدہ ہے، اس لئے کسبِ معاش کی ذمہ داری اس پر نہیں ڈالی گئی۔ اس کی کمزوری اور بعض دُوسری نفسیات کے پیشِ نظر مرد کو اس کے کسبِ معاش کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے، اور جب وہ کسبِ معاش کی ذمہ دار نہیں تو جائیداد میں بھی اس کا حصہ آدھا اور کسبِ معاش کے ذمہ دار کا حصہ پورا ہے، (اسلام کے سوا کسی مذہب میں تو آدھا حصہ بھی نہیں ہے)۔
یہ تمام موضوعات تفصیل طلب ہیں اور ایک خط میں ساری بات کو سمیٹنا ممکن نہیں ہے، اس لئے آپ ’’مسلمان عورت‘‘ از مولانا ابوالکلام آزادؒ کا مطالعہ فرمالیں۔

واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
۵؍۵؍۱۴۱۲ھ(۱)