رمضان المبارک تقوٰی اورقرب ِالہٰی کامہینہ ہے

اللہ تبارک وتعالیٰ ہرسال یہ ایک مہینہ بھیجتے ہیں کہ کہاں بھٹک رہے ہو، چلو لوٹ آؤ،گیارہ مہینے کی دنیاکی محنت نے تمہیں اللہ تعالیٰ کی یادسے غافل کردیا،دنیاکی فکر غالب آگئی ہے اورآخرت کی فکرمغلوب ہوگئی ہے،تمہارے شوق ،سوچ اوراُمنگ کامرکز کوئی اورچیزبن گئی ہے،لوٹ کرآؤ،اس ماہ میں ہم تمہارے رُخ کوسیدھا کریں،ہم تمہیں قریب لیکرآئیں۔فرمایا:
{ یٰٓـأَیُّہَا الَّذِینَ ٰامَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ }
رمضان کامہینہ بھیجنے کامقصدتقوٰی پیداکرناہے کہ دنیاکی فکرمیں لگ کرتقوٰی کمزورہوگیاہے ،آخرت کی فکرمغلوب ہوگئی ہے،ہم تمہیں ا س مہینے میں اپنے پاس بلارہے ہیں،یہ اس مہینے کامقصودہے۔
چنانچہ پہلے ضبط ِنفس کی تربیت دی جارہی ہے کہ گیارہ مہینے بہت کھاپی لیا،اب ہماری خاطراس طرح دن گذاروکہ نہ کھاؤاورنہ پیو،اب کھانے پینے کا تقاضا دل میں پیدا ہورہاہوگالیکن ہماری خاطرتم کھانے پینے کوچھوڑے ہوئے ہوگے تو{ اَلصَّوْمُ لِیْ وَ اَنَا اَجْزِیْ بِہٖ }یہ روزہ خالص میرے لئے ہوگا،اس میں رِیاکاری کااحتمال نہیں،اس میں دِکھاوے کااحتمال نہیں،لہٰذااس کابدلہ میں ہی دوں گا۔
دیگراعمال کی جزاء اللہ تعالیٰ نے بتلادی لیکن روزے کی جزانہیں بتلائی،بلکہ فرمایاکہ اس کی جزامیں دوں گا،اس سے روزے کی جزا کی عظمت بیان ہوئی،ظاہرہے کہ جب اللہ تعالیٰ ہی دیں گے تواپنے قرب کی دولت عطافرمائیں گے،اپنے سے تعلق کی دولت عطافرمائیں،یہ اجریہیں دنیامیں ملے گا،حضرت حکیم الامت مولاناتھانوی قدس اللہ سرہ فرماتے ہیںکہ جب کسی نیک کام کے کرنے میں سستی ہو،اس سستی کا مقابلہ کرکے وہ کام کرو اور جب کسی گناہ سے بچنے میں سستی ہو تو اس سستی کا مقابلہ کرکے اس گناہ سے بچو،اسی سے تعلق مع اللہ پیداہوتاہے،اسی سے باقی رہتاہے اور اسی سے ترقی کرتا ہے۔
سجدہ مقامِ قرب ہے
حضرت عارفی قدس اللہ سرہ فرمایاکرتے تھے کہ تراویح کوکیاسمجھوگے کہ کیاہے؟ تراویح کی بیس رکعات ہیں اورچالیس سجدے ہیںاورسجدے کے بارے میں حدیث میں آتاہے کہ:
{اَقْرَبُ مَا یَکُوْنُ الْعَبْدُ اِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی فِی السُّجُوْدِ}
بندہ اپنے اللہ سے کسی بھی وقت اتناقریب نہیں ہوتاجتناسجدے کی حالت میں ہوتاہے،سورۂ اقراء کی آخری آیت میںاللہ تعالیٰ نے بھی بڑے پیارسے فرمایاکہ سجدہ کرلو اور میرے پاس آجاؤ،اللہ تعالیٰ کے قرب کاکوئی ذریعہ سجدہ سے بڑا نہیں، حضرت فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے تراویح میں چالیس سجدہ عطافرمائے ہیں، گویاچالیس مقامات ِقرب عطافرمادئیے توایک طرف دن میں روزے سے قرب بڑھ رہاہے اور دوسری طرف رات کوتراویح سے قرب ِالہٰی میں اضافہ ہورہاہے۔
رمضان المبارک صبرکامہینہ ہے
پھرفرمایاکہ یہ {شَھْرُ الصَّبَرِ} یعنی صبرکامہینہ ہے،ایک صبرتویہی ہے کہ کھانے پینے سے رُک رہے ہیں،اوردوسراصبریہ کہ دل میں جوبری خواہشات پیدا ہورہی ہوں ان کے اُوپرصبرکرو،ان کے تقاضوں پرصبرکرو،زبان کوروکو،اگرکوئی لڑنے پر آمادہ ہوتو کہہ دوکہ میں روزے سے ہوں ،اس وقت اگرچہ طبیعت کی خواہش مقابلے کی ہوتی ہے کہ جتنی گالیاں یہ دے رہاہے میں اس سے دس زیادہ دیدوں،اس نے ایک ماراتومیں دس ماردوں،لیکن اس وقت اپنے آپ کوروکنے کااورصبرکرنے کاحکم ہے۔
اسی طرح عام حالات میں بھی غیبت کرنا،جھوٹ بولناحرام ہے،لیکن رمضان کے مہینے میں گناہ کی شناعت اوربرائی اورزیادہ بڑھ جاتی ہے،ایک مرتبہ نبیِ کریم ﷺ تشریف لے جارہے تھے،دوآدمی کودیکھاکہ ایک دوسرے کی حجامت (پچھنے لگانا) کررہا تھا اورآپس کی باتوں میں غیبت کررہے تھے،نبیِ کریم ﷺنے فرمایاکہ {اَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَ الْمَحْجُوْمُ }کہ پچھنے لگانے والااورجس کولگائے جارہے ہیں دونوں کا روزہ تو ٹوٹ گیا،بعض فقہائؒاس طرف گئے کہ حجامت سے روزہ ٹوٹ جاتاہے،لیکن اکثرفقہائؒ فرماتے ہیں کہ حجامت سے روزہ ٹوٹنامرادنہیں،مطلب یہ ہے کہ روزے کامقصدتھاکہ انسان اپنے اُوپرضبط کرتااورکوئی غلط بات زبان سے نہ نکالتا،وہ انہوں نے غیبت کرکے فوت کردیا۔