حضرت مولانا مفتی محمدتقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم

رمضان کیوں آیا ہے؟

حمدوستائش اس ذات کے لئے ہے جس نے اس کارخانۂ عالم کو وجود بخشا
اور
درود و سلام اس کے آخری پیغمبرپر جنہوں نے دنیا میں حق کا بول بالا کیا

ماہ رمضان المبارک کی عظمت واہمیت کے بارے میں متعدداہل قلم کے مضامین منظر عام پر موجود ہیں مگر اس بارے میں جو گرانقدر اور بصیرت افروز تحریر نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے۱۲؍رمضان ۱۴۱۴ھ کو روزنامہ جنگ کراچی کے لئے لکھی تھی وہ بلاشبہ اپنی مثال آپ ہے ۔ حضرت والا مدظلہم کی یہ وقیع تحریر ہدیۂ قارئین ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ادارہ)

اسلام سے باہر نظر دوڑا کر دیکھئے تو محسوس ہوگا کہ دنیا بھر کے فکری نظام کلیۃً انسان کے دماغ کو مخاطب کرتے ہیں ، اور مذہب وتصوف خالصۃً اس کے دل کو۔ ان دونوں میں سے ہر ایک کی الگ الگ بادشاہت ہے جس پر وہ بلاشرکتِ غیرے حکمرانی کرتے ہیں ، اور یہ دو بادشاہ نہ صرف یہ کہ ایک "اقلیم”میں نہیں سماتے ، بلکہ بسا اوقات ایک دوسرے سے بر سرپیکار نظر آتے ہیں ۔لیکن اسلام بیک وقت انسان کے دل اور دماغ دونوں سے اس طرح خطاب کرتا ہے کہ ان کے درمیان کوئی رسّہ کشی پیدا نہیں ہوتی جو انہیں ایک دوسرے کے مدّمقابل کھڑا کردے ۔ اس کے بجائے ابتداء ًیہ دوونوں اپنی اپنی حدود متعین کرکے ساتھ ساتھ چلتے ہیں ، اور بالآخر ایک دوسرے میں گُھل مل کر اس طرح شیر و شکر ہوجاتے ہیں جیسے دودریاؤں کا سنگھم ایک حدپر جاکر دونوں کو یک جان کردیتا ہے ۔ یہ وہ مرحلہ ہے جہاں دل کو "عشق و محبت "کے ساتھ”سوچنا سمجھنا”بھی آجاتا ہے ، اور دماغ میں "سوچنے سمجھنے”کے ساتھ "عشق ومحبت”کی صلاحیت بھی پیدا ہوجاتی ہے ۔
اس لطیف حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے جس کی لطافت بیان سے زیادہ ادراک میں ہے اگر انسان قرآن کریم کی اُن آیات پر غور کرے جن میں "سوچنے سمجھنے”کو دماغ کے بجائے "قلوب”کی صفت قراردیاگیا ہے تواس کلامِ الہٰی کے اعجاز کے آگے فصاحت وبلاغت کی پوری کائنات سجدہ ریز نظر آتی ہے اللہ اکبر!
مختصر یہ کہ اسلام کی تعلیمات عقل اور عشق کا ایک ایسا حسین آمیزہ ہیں کہ اگر ان میںسے کسی ایک عنصر کو بھی ختم کردیا جائے تو اس کا سارا حسن ختم ہوجاتا ہے ۔ اگر عقائد و عبادات کا نظام عقل سے بالکلیہ آزاد ہوجائے تو کوئی توہم پرست یا دیومالائی مذہب وجود میں آجاتا ہے ، اور اگر عقل کو وحی پر مبنی عقائد و عبادات سے آزاد کردیاجائے تو وہ کسی ایسے خشک سیکولر نظرئیے کو جنم دیکر رُک جاتی ہے جو مادّے کے اس پار دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوتا ہے ۔ نتیجہ دونوں صورتوں میں محرومی ہے ، کہیں جسم کے جائز تقاضوں سے ، کہیں روح کے حقیقی مطالبات سے ۔
جب سے سیکولر ازم کے مقابلے کی ضرورت کے تحت اسلام کی سیاسی ، معاشی اور معاشرتی تعلیمات پر ہمارے عہد کے مفکرین اور اہل قلم نے زیادہ زور دینا شروع کیا ہے ، اس وقت سے بعض حضرات نے شعوری یا غیر شعوری طورپر عقائد و عبادات کو پس منظر میں ڈال کر انہیںثانوی حیثیت دیدی ہے ، اور انہیں وہ اہمیت دینا چھوڑ دیا ہے جو فی الواقعہ انہیں حاصل ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان ایک "معاشی جانور”(Economic Animal)ہوکر رہ گیا ہے ، اور اس کی ساری دوڑ دھوپ اس جسم کو پالنے پوسنے کی حدتک محدود ہے جو ایک نہ ایک دن مٹی میں مل جانے والا ہے ۔ اسے روحانی ترقی کے ان مدارج کی کوئی فکر نہیں جو درحقیقت انسان کو دوسرے جانوروں سے ممتاز کرتے ہیں ، اور جن کی بدولت وہ مٹی میں ملنے کے باجود بھی زندئہ جاوید رہتا ہے ۔
جو لوگ مادی منافع اور نفسانی لذتوں ہی کو اپنا سب کچھ سمجھتے ہیں ، ذرا ان کی اندرونی زندگی میں جھانک کر دیکھئے ، وہ راحت و آرام کے سارے اسباب و وسائل اپنے پاس رکھنے کے باوجود "سکونِ قلب”کی دولت سے کتنے محروم ہیں ؟ اس لئے کہ انہوں نے اپنے گِرد وپیش میں جو دنیا بنائی ہے ، وہ چاہے دنیا کے سارے خزانے لاکر ان کے قدموں پر ڈھیر کرسکتی ہو ، لیکن قلب کو سکون اور روح کو قرار بخشنا اس کے بس کی بات نہیں ، یہ خدانا آشنا زندگی کا لازمی خاصہ ہے ، کہ اس کے شیدائی ایک انجانی سی بے قراری کا شکار رہتے ہیں ۔ اس بے قراری کا ایک کرب انگیز پہلو یہ ہے کہ انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ بے قرار کیوں ہیں؟وہ ہمہ وقت اپنے دل میں ایک نامعلوم اضطراب اور پراسرار کسک محسوس کرتے ہیں ۔ لیکن یہ اضطراب کیوں ہے؟کس لئے ہے؟وہ نہیں جانتے۔
انسان اس کائنات کا خالق ومالک نہیں ، وہ کسی کی مخلوق ہے ۔ اس کا مقصد زندگی ہی یہ ہے کہ وہ کسی کی بندگی کرے ۔ اس لئے اس کی فطرت یہ چاہتی ہے کہ وہ کسی لافانی ہستی کے آگے سرنگوں ہو، اس کی عظمتوں پر اپنے عجزونیاز کی پونجی نچھاور کرے ، مصائب میں اس کے نام کا سہارا لے ، اسے مدد کے لئے پکارے ، اور زندگی کے مشکل ترین لمحات میں اس کی توفیق سے رہنمائی حاصل کرے ۔ آج کی مادہ پرست زندگی اسے خواہ دنیا کی ساری نعمتیں عطاکرسکتی ہو ، لیکن اس کی اس فطری خواہش کی تسکین نہیں کرسکتی ۔ انسان کی یہ فطرت بعض اوقات نفسانی خواہشات کے انبار میں دب تو جاتی ہے ، لیکن مٹتی نہیں ، اور یہی وہ چھپی ہوئی فطری خواہش ہے جو اسے کیف ونشاط کے سارے وسائل مل جانے کے باجود آرام نہیں لینے دیتی ، اور بعض اوقات اس کی زندگی کو اجیرن بناکر چھوڑتی ہے ؎

یوں زندگی گزار رہا ہوں ترے بغیر
جیسے کوئی گناہ کئے جارہاہوں میں

اسلام کی تعلیمات میں "عبادات”کا شعبہ اسی مقصد کے لئے رکھا گیا ہے کہ اگر ان پر ٹھیک ٹھیک عمل کرلیا جائے تو عبادات کے یہ طریقے انسان کی روح کو حقیقی غذا فراہم کرکے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کے رشتے کو مضبوط اور مستحکم بناتے ہیں ۔ اور جسم وروح کے تقاضوں میں توازن پیداکرکے انسان کو ایک ایسے نقطۂ اعتدال (Equilibrium)تک پہنچاتے ہیں جو درحقیقت سکون و اطمینان کا دوسرا نام ہے ، قرآن کریم کا ارشاد ہے :

اَلاَبِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ (الرعد : ۲۸)
یاد رکھو ! اللہ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔

رمضان کا مقدس مہینہ ہر سال اس لئے آتا ہے کہ سال کے گیارہ مہینے انسان اپنی مادّی مصروفیات میں اتنا منہمک رہتا ہے کہ وہی مصروفیات اس کی توجہ کا مرکز بن جاتی ہیں ، اور اس کے دل پر روحانی اعمال سے غفلت کے پردے پڑنے لگتے ہیں ۔ عام دنوں کا حال یہ ہے کہ چوبیس گھنٹے کی مصروفیات میں خالص عبادتوں کا حصہ عموماً بہت کم ہوتا ہے ، اور اس طرح انسان اپنے روحانی سفر میں جسمانی سفر کی بہ نسبت پیچھے رہ جاتا ہے ۔ رمضان کا مہینہ اس لئے رکھا گیا ہے کہ اس مبارک مہینے میں وہ جسمانی غذا کی مقدار کم کرکے روحانی غذا میں اضافہ کردے اور اپنے جسمانی سفر کی رفتار ذرا دھیمی کرکے روحانی سفر کی رفتار بڑھادے ، اور ایک مرتبہ پھر دونوں کا توازن درست کرکے اس نقطہ ٔ اعتدال پر آجائے جو اس زندگی کی سب سے بڑی نعمت ہے ۔ اور اگر ذرا غور سے دیکھیں تو اسی نقطۂ اعتدال پر پہنچنے کی مسرت ہے جس کا جشن "عید الفطر”کی صورت میںمقرر کیاگیا ہے ۔
لہٰذا رمضان المبارک صرف روزے اور تراویح ہی کا نام نہیں ہے ، بلکہ اس کا صحیح فائدہ اٹھانے کے لئے ضروری ہے کہ انسان اس مہینے میں نفلی عبادات کی طرف بھی خصوصی توجہ دے ،اور کسی کی حق تلفی کئے بغیر اگر اپنے اوقات کو مادی مصروفیات سے فارغ کرسکتا ہے ، تو انہیں فارغ کرکے زیادہ سے زیادہ نوافل ، تلاوت اور ذکرو تسبیح میں صرف کرے۔
"کسی کی حق تلفی کئے بغیر”میں نے اس لئے کہا کہ اگرکوئی شخص کہیں ملازم ہے تو ڈیوٹی کے اوقات میںاپنے فرائض منصبی چھوڑ کر نفلی عبادات میں مشغول ہونا شرعاً جائز نہیں ۔ البتہ اگر اس کے پاس اپنے فرائض منصبی سے متعلق کوئی کام نہیں ہے اور وہ خالی بیٹھا ہوا ہے تو بات دوسری ہے ۔
لیکن کسی کی حق تلفی کئے بغیر بھی رمضان میں اپنی مادی مصروفیات ہر شخص کچھ نہ کچھ ضرور کم کرسکتا ہے ۔ اور اپنے آپ کو ایسے مشاغل سے فارغ کرسکتا ہے جو یا تو غیر ضروری ہیں ، یا انہیں مؤخر کیاجاسکتا ہے ۔ اس طرح جو وقت ملے اسے نفلی عبادتوں ، ذکر اور دعامیں صرف کرنا چاہئے ۔
اس کے علاوہ جو بات سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ رمضان کے دن میں انسان جب روزے کی حالت میں ہوتا ہے تو وہ کھانا پینا چھوڑدیتا ہے ، یعنی اللہ تعالیٰ کی بندگی کے تقاضے سے وہ چیزیں ترک کردیتا ہے جو عام حالات میں اس کے لئے حلال تھیں ۔ اب یہ کتنی ستم ظریفی کی بات ہوگی کہ انسان روزے کے تقاضے سے حلال کام تو ترک کردے ، لیکن وہ کام بدستور کرتا رہے جو عام حالات میں بھی حرام ہیں ۔ لہٰذا اگر کھانا پینا چھوڑ دیا ، مگر جھوٹ ، غیبت ، دلآزاری ، رشوت ستانی وغیرہ جو ہر حالت میں حرام کام تھے ، وہ نہ چھوڑے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ایسا روزہ انسان کی روحانی ترقی میں کتنا مدد گار ہوسکتا ہے ؟
لہذا رمضان المبارک میں سب سے زیادہ اہتمام اس بات کا ہونا چاہئے کہ آنکھ ، زبان ، کان اور جسم کے تمام اعضاء ہر طر ح کے گناہوں سے محفوظ رہیں ، اپنے آپ کو اس بات کا عادی بنایا جائے کہ کوئی قدم اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں نہ اٹھے ۔
رمضان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے "ایک دوسرے کی غمخواری کا مہینہ”قراردیا ہے ۔ اس مہینے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ و خیرات بھی بہت کثرت سے کیاکرتے تھے ، اس لئے رمضان میں ہمیں بھی صدقہ وخیرات ، دوسروں کی ہمدردی اور ایک دوسرے کی معاونت کا خصوصی اہتمام کرنا چاہئے ۔
یہ صلح وصفائی کا مہینہ ہے ، لہٰذا اس میں جھگڑوں سے اجتناب کا بھی خاص حکم دیا گیا ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ "اگر کوئی شخص تم سے لڑائی کرنا چاہے تو اس سے کہدو کہ میں روزے سے ہوں”۔
خلاصہ یہ ہے کہ رمضان صرف سحری اور افطاری کا نام نہیں ، بلکہ یہ ایک تربیتی کورس ہے جس سے ہر سال مسلمانوں کو گذاراجاتا ہے ۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان کا تعلق اپنے خالق ومالک کے ساتھ مضبوط ہو، اسے ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ سے رجوع کرنے کی عادت پڑے ، وہ ریاضت اور مجاہدہ کے ذریعے اپنے اخلاق رذیلہ کو کچلے ، اور اعلی اوصاف و اخلاق اپنے اندر پیدا کرے ۔ اس کی اندر نیکیوں کا شوق اور گناہوں سے پرہیز کا جذبہ بیدار ہو ، اس کے دل میں خوف خدا اور فکر آخرت کی شمع روشن ہو جو اسے رات کی تاریکی اور جنگل کے ویرانے میں بھی غلط کاریوں سے محفوظ رکھ سکے ۔ اسی کا نام "تقویٰ”ہے ، اور قرآن کریم نے اسی کو روزوں کا اصل مقصد قراردیا ہے ، ارشاد ہے :

یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ(البقرۃ : ۱۸۳)
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں ، جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے ، تاکہ تم میں تقوی پیدا ہو۔

جو شخص "تقویٰ”کے اس تربیتی کورس سے ٹھیک ٹھیک گذر جائے ، اس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خوشخبری عطافرمائی ہے کہ "جس شخص کا رمضان سلامتی سے گذر جائے اس کا پورا سال سلامتی سے گذرے گا”۔
اس سے معلوم ہوا کہ رمضان ہمیں سال بھر کی سلامتی سے ہمکنار کرنے کے لئے آیا ہے ، بشرطیکہ ہم سلامتی چاہتے ہوں ، اور یہ سلامتی حاصل کرنے کے لئے اس ماہِ مقدس کا استقبال اور اکرام و اعزاز کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے ۔ آمین۔

۲/رمضان ۱۴۱۴ھ ۱۳/ فروری۱۹۹۴ء

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

(ماہنامہ البلاغ :رمضان المبارک ۱۴۴۲ھ)