خطاب: حضرت مولانا مفتی محمدتقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
ضبط و ترتیب: مولوی شفیق الرحمن فاضل جامعہ دارالعلوم کراچی

طلبِ علم کا اصل مقصد کیاہے؟

حمدوستائش اس ذات کے لئے ہے جس نے اس کارخانۂ عالم کو وجود بخشا
اور
درود و سلام اس کے آخری پیغمبرپر جنہوں نے دنیا میں حق کا بول بالا کیا

۲۲؍رجب ۱۴۴۲ھ( ۷؍ مارچ ۲۰۲۱ء) اتوار کے روزنائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے حضرت مولانا عبید اللہ خالد صاحب مدظلہم کی دعوت پر جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کراچی میں دورئہ حدیث کی تکمیل کرنے والے طلبہ سے ان کی دستار بندی کے موقع پر اہم خطاب فرمایا جو فضلائے مدارس کے لئے مشعل راہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ادارہ)

 

الحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی سیدنا ومولنا محمدخاتم النبیین وإمام المرسلین والمبعوث رحمۃ للعلمین، وعلی آلہ وأصحابہ أجمعین، وعلی کل من تبعہم بإحسان إلی یوم الدین، أما بعد!
حضراتِ علماء کرام معزز حاضرین اور میرے طالبعلم ساتھیو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ تعالیٰ وبرکاتہ!

یہ جامعہ فاروقیہ جو میرے محبوب و مکرم اور معظم استادِ گرامی شیخ الکل حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب قدس اللہ سرہ کا ایک صدقہ جاریہ ہے اور ان شاء اللہ رہتی دنیا تک ہم جیسے طالبعلموں کی رہنمائی کرتا رہے گا،یہاں حاضری میرے لئے ہمیشہ خو ش نصیبی اور باعثِ سعادت رہی ہے ۔ اور میں اپنے ان استاد گرامی کی شخصیت کے بارے میں الفاظ نہیں پاتا جن کے ذریعہ میں ان کے ساتھ اپنی محبت اور عقیدت کااظہار کرسکوں۔انہوں نے مجھے علم کی وادی میں انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا اور ان کے عظیم احسانات ہیں کہ میں کبھی بھی اپنے آپ کو ، ان کے احسانات کے بوجھ سے ہلکا نہیں کرسکوں گا،آج وہ یہاں جلوہ افروز نہیں ہیں۔ اور اس سے بھی زیادہ ان کے جلیل القدر فرزند میرے انتہائی محبوب و مکرم دوست حضرت مولاناعادل خان صاحب شہید کی شہادت کا ایک اندوہ ناک سانحہ اسی سال پیش آیا ۔اور مجھے ایسا لگا جیسے کوئی ان کو میرے ہاتھوں سے اٹھاکر لے گیاکیونکہ ان کے آخری لمحات میرے ساتھ گزرے تھے۔اللہ تبارک وتعالیٰ حضرت والا کو، ان کے صاحبزادے کو اپنے مقاماتِ قرب میں اعلیٰ ترین درجہ عطا فرمائے۔اور انہوں نے جویہ صدقہ جاریہ چھوڑا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے فیوض سے ہمیشہ دنیا کو منور اور روشن کرتے رہیں ۔میں حضرت مولانا عبیداللہ خالد صاحب کا تہہ دل سے ممنون ہوں کہ انہوں نے اپنی شفقت اور محبت سے مجھے آج اس اجتماع میں حاضری کی دعوت دی اور میری عزت افزائی فرمائی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کو اپنے پیش رو شیخ الکل حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب قدس اللہ تعالیٰ سرہ اور ان کے جلیل القدر فرزند کے کام کومستقل اور بہتر طریقہ پر آگے بڑھانے اور اس جامعہ کی ظاہری اور باطنی ترقیات کا سبب بننے کی توفیق عطافرمائے۔اس موقع پر جبکہ الحمد للہ دورۂ حدیث کے طلبا کی ایک بڑی تعداد اپنے علمی سفر کا مرحلہ مکمل کر رہی ہے ،میں جامعہ کو، حضرت مولانا عبید اللہ خالد صاحب دامت برکاتہم کو ،ان طلباکے اساتذہ کرام کو،ان کے والدین اور خاندانوں کو تہہ دل سے مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ اللہ جل جلالہ نے انہیں اس ایک عظیم نعمت سے نوازا کہ اتنی بڑی تعداد اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اس سالـ ان شاء اللہـ دستارِ فضیلت پہنے گی ۔اللہ تعالیٰ اس کو مبارک فرمائے ۔آمین
"فارغ التحصیل "کی اصطلاح
جب کوئی دورۂ حدیث کی تکمیل کرتا ہے تو عام طور سے اس کے لئے ایک لفظ استعمال ہوتا ہے” فارغ التحصیل” ۔مجھے یہ لفظ اچھا نہیں لگتا ،کیونکہ” فارغ التحصیل” کے لفظی معنیٰ یہ ہیں کہ اب یہ تحصیلِ علم سے فارغ ہوگئے ،یعنی جو کچھ علم حاصل کرنا تھا وہ پورا ہوگیا،اب اس کے بعد فراغت ہے ۔لیکن ظاہر ہے کہ یہ اس کا اصطلاحی مفہوم نہیں ہے۔مطلب یہ ہے کہ تحصیلِ علم تو ایسی چیز ہے جو مہد سے لحد تک چلتی ہے ،اور انسا ن زندگی کے کسی بھی مرحلے میں اپنے آپ کو طلبِ علم سے مستغنی نہیں کرسکتا ۔جب رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ جل جلالہ نے یہ فرمایا کہ (وَقُلْ رَبِّ زِدْنِی عِلْمًا) (طہ:۱۱۴)یعنی آپ یہ دعا کیجئے کہ اے پروردگار میرے علم میں اضافہ فرمائیے۔ وہ ذاتِ اقدس جو علوم اولین وآخرین کی جامع تھی، اس سے زیادہ اس کائنات میں کوئی اعلم پیدا نہیں ہواہے نہ آئندہ ہوگا،لیکن ان کو بھی اللہ جل جلالہ فرماتے ہیں کہ یہ دعاکرتے رہا کرو کہ اے میرے پروردگارمیرے علم میں اضافہ فرما ۔لہٰذا درحقیقت جب ہم دورۂ حدیث کی تکمیل کرتے ہیں تو یہ علم سے فراغت نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک جنم روگ ہے کہ زندگی بھر کے لیے اس کی ذمہ داری ہمارے اوپر عائد ہوتی ہے۔علم سے کبھی فراغت نہیں ہوتی ،علم کی طلب کبھی ختم نہیں ہوتی اور مرتے دم تک جاری رہتی ہے۔ ہمارے تمام سلفِ صالحین اور اکابرِ علماء نے کبھی بھی اپنے آپ کو مکمل عالم نہیں سمجھا ۔ہمیشہ اپنے آپ کو طالب علم کہتے رہے۔
ہمیشہ اپنے آپ کوطالب علم سمجھنا چاہئے
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قدس اللہ تعالیٰ سرہ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ ساری دنیا کے عقلاء ،عقل کے دعوے کرنے والے ،جو آجکل کی اصطلاح میں دانشور کہلاتے ہیں ،جمع ہوکر شریعتِ اسلامیہ کے کسی ایک جزئیہ پر کوئی اعتراض لیکر آجائیں ، الحمد للہ، اللہ تعالیٰ کے بھروسہ پر کہتا ہوں کہ دو منٹ میں ان کو لاجواب کرسکتا ہوں اور میں تو ایک طالب علم ہوں ،علماء کی تو بڑی شان ہوتی ہے۔تو ان اکابر نے ہمیشہ اپنے آپ کو طالبعلم سمجھا ۔یہ ایک بڑی ناپسندیدہ صورتحال ہمارے معاشرے میں پیدا ہوتی جارہی ہے کہ انسان خود اپنے آپ کو عالم کہتا ہے کہ ہم علماء ہیں ،ہم علماء نے یہ کام کیا ۔میں سمجھتاہوں کہ یہ الفاظ ہم جیسے طالب علموں کوزیب نہیں دیتے،ہم اگر ساری زندگی بھی طالب علم رہیں تو یہی ہمارے لئے بہت بڑا اعزاز اور شرف ہے کہ اللہ تعالیٰ طالب علموں کی حیثیت سے دنیا سے اٹھائے۔لہٰذا میر ی اپنے عزیز طلباء سے جو اس وقت الحمد للہ اپنے درسِ نظامی کی تکمیل کرر ہے ہیں ،ان سے میری انتہائی عاجزانہ درخواست ہے کہ وہ اس تکمیل کواپنے لئے فراغت تحصیل نہ سمجھیں بلکہ یہ سمجھیں کہ طالبعلمی تو اب شروع ہوئی ہے ۔یہ سارے علوم جو ہم پڑھتے پڑھاتے ہیں،ان کا حاصل صرف یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل و کرم سے ان علوم کے نتیجے میں انسان کے اندر قوتِ مطالعہ پیدا ہوجاتی ہے اوراتنی استعداد پیدا ہوجاتی ہے جس سے وہ ان علوم میں آگے ترقی کرے،اور علوم و معارف کا جو ناپیدا کار سمندر ہے اس میں غواصی(غوطہ زنی)کا فن اس کو آجائے۔لہٰذا مبارک باد کے ساتھ میں یہ بڑی عاجزانہ گزارش کرتا ہوں کہ کبھی بھی اپنے آپ کوطلب ِعلم سے مستغنی نہ سمجھیں،یہ طلب علم ان شاء اللہ مرتے دم تک جاری رہے گی۔
حضرت علامہ انورشاہ کشمیری رحمہ اللہ کا ذوقِ مطالعہ
میرے والدِ ماجد حضرت مولانا مفتی محمدشفیع صاحب قدس اللہ تعالیٰ سرہ امام العصر حضرت علامہ انورشاہ صاحب کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کے خصوصی شاگرد تھے اور انہوں نے مجھے یہ واقعہ سنایا کہ حضرت علامہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ ایک مرتبہ دیوبند میں بیمار ہوگئے تھے ،اور رات کے وقت دیوبند میں یہ افواہ پھیل گئی کہ حضرت شاہ صاحب قدس اللہ تعالیٰ سرہ کا وصال ہوگیا ہے ، تو حضرت کے جتنے شاگرد تھے وہ پریشان ہوکر حضرت کے گھرکی طرف دوڑے، آخری شب کا وقت تھا، انتظار کیا، معلوم ہواکہ وہاں گھر کے آس پاس بظاہر وفات کے آثار نہیں تھے ،لیکن سوچا کہ نمازِ فجر کے بعد حضرت کی خدمت میں عیادت کے لئے حاضر ہوں تو والد صاحب قدس اللہ تعالیٰ سرہ فرماتے ہیں کہ ہم فجر کی نماز کے بعدحضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان کا ایک چھوٹا سا حجرہ تھا، وہاں ہم حضرت کی عیادت کو پہنچے تو دیکھا کہ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے سامنے جائے نماز کے ساتھ ایک چوکی رکھی ہوئی ہے جس پر ایک کتاب کھلی ہوئی ہے ،چونکہ اندھیرا تھا ،سورج کی روشنی پوری طرح نہیں پھیلی تھی،اس لئے حضرت اس پر جُھک کر اس کا مطالعہ کر رہے تھے ۔جب یہ منظر دیکھا تو حضرت کے بعض شاگردوں نے حضرت سے عرض کیا کہ حضرت آپ نے ہماری زندگی کے بہت سارے مسائل حل کئے اور کتنے ہی علوم ومعارف آپ نے اپنی تقریر ،تدریس اور تحریروں کے ذریعے دنیامیں پھیلا ئے ہیں ۔ ایک سوال ہے ، اس کا جواب ہمیں دیجیے کہ آپ اتنے بیمار ہیں کہ سارے دیوبند میں آپ کی وفات کی خبر مشہور ہوگئی ،اور اس حالت میں بھی آپ مصلّٰی پر بیٹھ کر سامنے کتاب رکھ کر اور جھک کر اس کا مطالعہ کر رہے ہیں، ذرا ہمیں یہ بتائیے کہ ایسا کون سافوری مسئلہ پیش آگیا تھا کہ جس کی وجہ سے آپ کو کتاب کی مراجعت کی ضرورت پیش آئی ،اللہ تعالیٰ نے آپ کو علوم تو ایسے دیے ہیں کہ ساری دنیا کی کتابیں آپ کی نگاہ سے گزر چکی ہیں ،سارے مسائل آپ نے حل کر کے ہم لوگوں کو سیراب کیا ہے تو ایسا کون سا مسئلہ ہے جو ابھی تک آپ کے علم میں نہیں آیا اور اگر علم میں نہیںآیا تو اس وقت اس کی ایسی کیافوری ضرورت تھی جو ابھی ابھی اسی حالت میں اس کو دیکھناضروری تھا ،اگر ایسا کوئی مسئلہ تھا بھی تو آپ کے شاگرد موجودہیں کسی بھی شاگرد سے فرمادیتے کہ اس مسئلہ کو تلاش کرکے آپ کو بتادیتا۔لیکن آپ اپنی جان پر یہ ظلم کر رہے ہیں کہ اس بیماری کی حالت میں جھک جھک کر کتا ب کا مطالعہ کر رہے ہیں ،یہ کیوں کر رہے ہیں؟ براہ کرم ہمیں اس سوال کا جواب دیجیے۔تو حضرت نے بہت ہی معصومانہ انداز سے سرِاقدس اٹھایا اور فرمایا کہ بھائی تم صحیح کہتے ہو لیکن میں کیا کروںیہ کتاب دیکھنا بھی تو ایک بیماری ہے یہ ایسی بیماری لگ گئی ہے کہ جب تک کتاب سامنے نہ ہو اس وقت تک زندگی بیکار معلوم ہوتی ہے ۔یہ تھے ہمارے اکابررحمہم اللہ تعالیٰ جن کی کتابوں سے ،جن کی تقاریر سے ،جن کے فیوض سے ہم سب سیراب ہوتے ہیں ۔تو طلبِ علم کبھی ختم نہیں ہوتی اور کسی وقت ختم نہیں ہوتی ۔
حضر ت امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ اور طلبِ علم
حضرت امام ابویوسف رحمۃا للہ علیہ بیمار تھے ،ان کے شاگرد ان کی عیادت کے لئے حاضر ہوئے تو حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے خیریت دریافت کی تو آپ نے رسمی طورپر جواب دے کر فرمایا کہ ذرا یہ بتاؤ کہ حج میں جمرات کی جو رمی ہوتی ہے وہ سوار ہوکر کرنا افضل ہے یا پیدل کرنا افضل ہے۔یعنی عین مرض وفات میں بھی یہ مسئلہ ذہن میں چکر کھارہا ہے کہ رمی جمار راکباً (سوار ہوکر)کرنا افضل ہے یا ماشیاً(پیدل)کرنا افضل ہے۔شاگردنے کہا کہ حضرت راکباً افضل معلوم ہوتی ہے ۔فرمایا کہ نہیں،عرض کیا کہ پھر ماشیاً افضل ہوگی، فرمایا نہیں ۔عرض کیا حضرت پھرآپ ہی فرمائیے۔فرمانے لگے کہ مجھے یہ خیال آرہا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرۂ عقبہ کی جو پہلے دن رمی کی تھی وہ سوار ہوکر کی تھی ،اور باقی دنوں کی رمی پیدل کی تھی، لہٰذا پہلے دن کی رمی تو راکباً افضل ہے باقی دنوں میں ماشیاًیعنی پیدل چل کے رمی کرنا افضل ہے ۔حضرت کے وہ شاگرد کہتے ہیں کہ میں یہ علم کی بات سن کر حضرت کے گھر سے نکلا ،چند قدم چلا تھا کہ اس گھر سے آواز آئی کہ حضرت امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کی روح پرواز کرگئی۔یعنی آخری وقت تک ذہن میں ایک فقہی مسئلہ چکر کاٹ رہا تھا اورمرنے تک اسی کی طرف دھیان تھا ۔اسے کہتے ہیں طلب العلم من المہد الی اللحد۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمارے بزرگوں کو ایسا بنایا تھا ۔اللہ تعالیٰ اس طلب کا کوئی حصہ ہمارے اندر بھی پیدا فرمادے ۔
یہ طلب بھی اس وقت معتبر ہے جبکہ اس طلب کا مقصود اللہ جل جلالہ کی رضا ہو،اگر آدمی علم طلب کر رہا ہے لیکن اس لئے کر رہا ہے کہ دنیا کماؤں گا ،اس لئے کر رہا ہے کہ دنیا میں اپنا نام پیدا کروں گا،دنیا بڑے بڑے القاب سے یاد کرے گی اوراس کی دنیا جہاں میں شہرت ہوگی ،اگر اس نیت سے کر رہا ہے تو اس علم کی ایک دمڑی قیمت نہیں ہے ،یہ طلبِ علم اسی وقت معتبرہے جبکہ اس کا مقصود اللہ تعالیٰ کی رضائے کامل ہو۔
مدارس اور عصری تعلیمی اداروں کے طلباکی فکری سوچ کا فرق
آج ہم سے کہاجارہا ہے ،اور اس بات پر زور دیا جارہا ہے اور دلائل قائم کئے جارہے ہیں کہ تم اپنے طلباء کو اس لئے پڑھاؤ کہ ان کو بڑی بڑی ملازمتیں مل سکیں ،تاکہ یہ سرکاری محکموں میں جاکر اعلیٰ مناصب حاصل کرسکیں۔ان کو حیرت ہوتی ہے اور ان کے تصور میں بھی یہ بات نہیں آتی کہ کوئی انسان دولت کے علاوہ کسی اور مقصد کے لئے پڑھتا ہے۔ اس لئے کہ پوری قوم کا ذہن یہ بنادیا گیا ہے کہ تعلیم کا اصل مقصود دنیا کا حصول ہے۔ تعلیم کا اصل مقصود بڑی بڑی ملازمتیں ہیں ،تعلیم کا اصل مقصود مال ودولت حاصل کرنا ہے ۔جتنے بھی عصری تعلیمی ادارے دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں آپ ان کے کسی بھی طالب علم سے پوچھئے کہ کیوں پڑھ رہے ہوتو جواب ملے گاکہ(career) اچھا بنانا ہے ،اور کیریئر اچھابنانے کے لئے یہ تعلیم حاصل کر رہا ہوں تاکہ مجھے اچھی ملازمت ملے،اچھی معیشت ہو،خوشحال زندگی گزاروں ،اور یہ کہ میرا نام ہوکہ فلاں نے فلاں علم میں اتنی ترقی حاصل کی ہے۔ جتنے تعلیمی ادارے دنیا بھر میں پھیل رہے ہیں سب کا مقصود ایک ہے کہ زیادہ سے زیادہ دنیا کا حصول ،زیادہ سے زیادہ خوشحالی ،اس سے زیادہ کچھ نہیں۔اس لئے جب حکومت کے لوگوں سے اور ان لوگوں سے جو ہمارے مدارس کا حلیہ بگاڑنا چاہتے ہیں ،جب ہماری ان سے بات ہوتی ہے اوروہ یہ کہتے ہیں آپ کیوں ہماری اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ آپ کے طلباء فارغ ہوکر در در پھرتے ہیں ،ان میں کوئی امام بن جاتا ہے کوئی مؤذن بن جاتا ہے ،کوئی خطیب بن جاتا ہے ،زیادہ سے زیادہ معراج ہوئی تو کوئی مدرس بن جاتا ہے۔تنخواہیں ان کی کم ہوتی ہیں ،ان کو پیسے کم ملتے ہیں اورہم آپ کے طلباء کا بھلاچاہتے ہیں ،ہم یہ چاہتے ہیں کہ آپ کے طلبا ایسے علوم کے ماہر ہوں کہ جن کے نتیجے میں وہ بڑے بڑے مناصب تک پہنچیں اور بہت زیادہ پیسے کمائیں اور ان کی زندگی خوشحال ہوتو آپ اس میں کیوں رکاوٹ بنتے ہیں ۔
"احسان یہ کیجیے کہ یہ احسان نہ کیجیے”
میں نے ان سے عرض کیا کہ بھائی خدا کے لیے ہمیں اپنے حال پر چھوڑ دیجیے،اورہمیں یہ راستہ نہ دکھائیے،”احسان یہ کیجیے کہ یہ احسان نہ کیجیے”۔آپ ہم سے یہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے طلباء کو اس لئے پڑھائیں کہ ان کے پیش نظر یہ ہوکہ وہ پڑھنے کے بعد زیادہ پیسے کمائیں گے ،اور زیادہ دولت کمائیں گے تویہ ہمارے اصل مقصودِ تعلیم کی نفی ہے ۔ہمیں اپنی گھٹی میں یہ پڑھایاجاتا ہے کہ تمہاراعلم اس لئے ہے کہ تاکہ تم پہلے خوداس پر عمل کرو،اورپھردوسرے مسلمانوں کی خدمت کرو ،دعوت کے ذریعہ ،تبلیغ کے ذریعہ،تحقیق کے ذریعہ تم ان کی خدمت انجام دو۔پیسے تو اللہ تعالیٰ دینے والا ہے ،اللہ تعالیٰ رزاق ہے اس نے رزق اپنے ذمہ لیا ہے (وَمَا مِنْ دَابَّۃٍ فِی الْأَرْضِ إِلَّا عَلَی اللَّہِ رِزْقُہَا وَیَعْلَمُ مُسْتَقَرَّہَا وَمُسْتَوْدَعَہَا) (ہود:۶)رزق تو وہ دینے والا ہے ۔آج تک ہم نے کسی مولوی کے بارے میں یہ نہیں سنا کہ وہ بھوک کی وجہ سے، فاقہ کشی کی وجہ سے خود کشی کر گیاہو۔جدیدتعلیم حاصل کرنے والوں میں آپ سنیں گے کہ خود کشی کرلی ،کیوں کرلی اس لئے کہ جو اپنا مطلوبہ معیارِ زندگی بنایاتھا وہ حاصل نہیں ہورہا تو خودکشی کرلی ۔الحمد للہ ہمارے یہاں کوئی ایسا نہیں کرتا ۔
ایک مرتبہ مجھ سے ایک عالم کہنے لگے کہ بات تو یہ لوگ ٹھیک کہہ رہے ہیں، آپ کیوں ان کی بات نہیں مانتے کیونکہ بہرحال ہمارے طلبا جب فارغ التحصیل ہوکے جاتے ہیں تو ان کو اپنی معیشت کی فکر ہوتی ہے ،کچھ معیشت کا انتظام کرلیں تو اچھا ہے ۔میں نے کہا اچھا ہونا اور بات ہے ، مقصد ہونا اور بات ہے ۔بے شک ایک زندگی کی ضرورت معاش بھی ہے اور ہماری دعائیں ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے طلباکو معاش کے اندر بھی اعلیٰ مقام عطافرمائے ۔لیکن یہ ہمارا مقصدِ زندگی نہیں ہوسکتا ۔
ایک مرتبہ میرے پاس طلبہ کا مجمع تھا ،میں نے ان کے سامنے یہ سوال رکھا کہ ایک عالم صاحب یہ کہہ رہے تھے کہ ہمارے طلبہ میں بھی اب یہ رجحان پیدا ہورہا ہے کہ ہمیں جو یہ درسِ نظامی پڑھایا جاتاہے توا س کے نتیجے میں ہمیں ملازمتیں نہیں ملتیں، ہمیں معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔میں نے ان سے پوچھا کہ تم بالکل سچ سچ بتادو ،اور اس وقت زبان سے نہ بتاؤ ،اور ہاتھ اٹھاکر نہ بتاؤ، مجھے تحریر ی طورپر لکھ کر دو کہ کیا تم واقعی چاہتے ہو کہ تمہیں ایسے علوم پڑھائے جائیں اور ان کو اس مقصد سے پڑھایا جائے کہ تمہاری معیشت بہتر ہوجائے اور تمہارے حالات ِ زندگی بہتر ہوجائیں اور تم زیادہ سے زیادہ پیسے کما لواگر یہ چاہتے ہوتو مجھے لکھ کربھیج دو ۔میں نے کہا میں ابھی پوچھوں گا تو کہتے ہوئے شرماؤگے کہ میں استاذ کے سامنے یہ کہہ رہا ہوں کہ میں پیسے کمانا چاہتا ہوں شاید تمہیں شرم آجائے اس لئے لکھ کر مجھے جواب دو۔ الحمد للہ سارے طالب علموں نے بغیر کسی استثناء کے حتی کہ ایک طالب علم میرے پاس آکر رونے لگا کہنے لگا جی آپ کو کس نے کہہ دیا کہ ہم پیسے کمانے کے لیے پڑھتے ہیں ،ہمارا تو ایک ہی مقصد ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کی رضاحاصل کرنا۔سارے طالب علموں نے بلااستثناء ہر ایک نے تحریری طورپر یہ جواب دیا۔الحمد للہ یہ اللہ تعالیٰ کا ہمارے اوپر فضل و کرم ہے اس کا احسان ہے، اس کا انعام ہے کہ یہ جذبہ ابھی ہمارے طلباء کے اندر باقی ہے ۔اور جو لوگ اس کو کُھرچنا چاہتے ہیں اور اس جذبہ کو فناکرنا چاہتے ہیں،ان شاء اللہ وہ فنا ہوجائیں گے یہ جذبہ فنا نہیں ہوگا۔
موجودہ پانچ وفاق اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا مقولہ
آج ہمارے سامنے یہ دعویٰ لایا جاتا ہے کہ تم تو ہماری بات مانتے نہیں ہو،اور تم تو ہمارے ساتھ بحثیں کرتے ہواور کہتے ہو کہ ہم اپنے طلبہ کو آزاد اور خود مختارمدارس کے ماحول میں پڑھائیں گے، ہمیں کسی حکومت کا دباؤ منظور نہیں ،ہمیں کسی خارجی اور بیرونی عناصر کادباؤ منظور نہیں ،تم ہم سے یہ کہتے ہو تو ٹھیک ہے چلو پھر تم اپنی جگہ رہو، ہم پانچ وفاق الگ قائم کرلیتے ہیں ۔اب پانچ وفاق۔ ماشاء اللہ۔ حکومت کے زیرِ اثر قائم کردئے گئے ہیں ،کیوں قائم کئے گئے؟ نیتیں تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے لیکن بظاہر اس لئے قائم کئے گئے کہ تم کہتے ہو کہ ہم صرف اللہ کی رضاکے لئے پڑھتے ہیں دیکھو ہمارے پاس کیسے لوگ آرہے ہیں اور وہ کس لئے پڑھ رہے ہیں اور کس طرح ہماری بات مانتے ہیں ۔تو جب ایک صاحب نے مجھ سے یہ کہا تو میں نے اس کو حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا ایک مقولہ سنایا ۔
حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے جب مؤطالکھی تھی تو اس وقت بہت سے لوگوں نے اسی طرح کے حدیث کے مجموعے تیار کئے اور بعض نے توان کا نام بھی مؤطا ہی رکھاتو کسی نے حضر ت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے کہا کہ آپ نے تو موطالکھ دی لیکن یہ جتنے لوگ ہیں انہوں نے بھی آپ کے مقابلے میں موطائیں لکھی ہیں ،وہ بھی لکھ رہے ہیں اور حدیث کے مجموعے تیار کر رہے ہیں ،اس پرآپ کا کیا تبصرہ ؟ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے صرف ایک جملہ ارشاد فرمایا، فرمایا”ماکان للہ یبقیٰ” جو کام اللہ کے لئے ہوگا وہ باقی رہے گا۔لہٰذا جومؤطا اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر لکھی گئی ہے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے لکھی گئی ہے وہ تو باقی رہے گی اور جو محض مقابلہ کے لئے لکھی گئی ہے یا محض اپنا نام روشن کرنے کے لئے لکھی گئی ہے وہ باقی رہنے والی نہیں ہے۔میرے عزیز ساتھیو!اس جملے کو ہمیشہ یاد رکھنا ۔کبھی بھولنا مت "ماکان للہ یبقیٰ”جو اللہ کے لئے ہوگا وہ باقی رہے گاجو غیر اللہ کے لئے ہوگا وہ فناء ہوجائے گا ۔آج اس واقعہ کو تقریباًساڑھے بارہ سو سال ہورہے ہیں اورآج آپ کتابوں کی فہرست میں دیکھ لیجیے کہ کون سی موطا باقی رہ گئی ہے۔مؤطا امام مالک ہی باقی رہ گئی ہے ۔موطا امام مالک کے راوی بہت سے ہیں یحیی ابن یحییٰ الگ ہیں ،امام محمد الگ ہیں ،اور بہت سے راوی ہیں لیکن ہیں سب ایک ہی موطا امام مالک کے راوی ۔اس کے علاوہ ان دیگرمؤطات کا کہیں کوئی نام و نشان نہیں ملتا ۔
تو بھائی کوئی اگر اپنا وفاق الگ بناتا ہے ،کوئی اپنی تعلیم کا نظام بناتا ہے تو شوق سے بنائے ،میں یہ کہتاہوں کہ "ماکان للہ یبقیٰ "جو اللہ کے لئے ہوگا باقی رہ جائے گا ،اگر تم اللہ کے لئے کر رہے ہوتو ٹھیک ہے تم باقی رہوگے اور اگر ہم اللہ کے لئے کر رہے ہیں تو ان شاء اللہ ہم باقی رہیں گے ۔

مغربی ایجنڈا اور اس میں رکاوٹ
میرے عزیزو!میں اس لئے کہہ رہا ہوں کیونکہ آج آپ مغربی طاقتوں کا نشانہ ہیں ،آج ان پر یہ راز کھل گیا ہے کہ اگر ہمارے راستہ میں کوئی رکاوٹ ہے تویہ مُلاّہے ،یہ راز ان پر کھل گیا کہ ہمارے عزائم اور ہمارے منصوبوں کے راستے میں ایک ہی رکاوٹ ہے وہ ہے مُلاّ۔اقبال نے کہا تھا کہ ؎

افغانیوں کی غیرتِ دین کا ہے یہ علاج
مُلا کو اس کے کوہ و دمن سے نکال دو
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمدصلی اللہ علیہ وسلم اس کے بدن سے نکال دو

یہ ہے مغرب کا ایجنڈا،وہ سمجھتاہے کہ جب تک یہ قوم باقی رہے گی ہمارے منصوبے عالم اسلام کے اندر کبھی کامیاب نہیں ہوں گے،جب تک کہ یہمُلاّ بیٹھا ہے اس وقت تک ہمارے منصوبے کامیاب نہیں ہوں گے،یہ اس کو سمجھ میں آگیا ہے ۔اور اس کے سمجھ میں آنے کے نتیجے میں آپ نشانہ ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہمارے حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب قدس اللہ تعالیٰ سرہ کی روح پُرفتوح پر انوار کی بارش فرمائے۔انہوں نے قریہ قریہ،گلی گلی،گاؤں گاؤں جاکر،اس طرح مدرسے قائم کردیے ہیں کہ خیبر سے لیکر کیماڑی تک ،اور بلوچستان کی آخری حدود سے لیکر گوادر تک آپ کو کوئی دس میل ایسے نہیں ملیں گے جن میں کوئی مدرسہ نہ ہو۔تو آج یہ سوچتے ہیں کہ اتنی بڑی تعداد کو ہم کیسے ختم کردیں ۔اور ہم یہ کہتے ہیں کہ ان شاء اللہ کبھی نہیں ختم کرسکیں گے،ایڑی چوٹی کا زور لگالیں ،جبر استعمال کرلیں ،لالچ استعمال کرلیں ،ان شاء اللہ ختم نہیں ہوں گے۔لیکن اب وہ سمجھتے ہیں کہ چلو بھائی اب ہم طلبہ کو دوسری طرف لگادیں،ان کو دنیاوی لالچ دینا شروع کردیں ۔چنانچہ کبھی توایسا ہوتا ہے کہ یونیورسٹیوں کے اندر درسِ نظامی گروپ کے نام سے ایک گروپ بنادیا جاتا ہے۔علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں ایک درسِ نظامی گروپ بنایا گیا تھا،وہ درسِ نظامی گروپ اس لئے بناتھاکہ جب اس درسِ نظامی گروپ کے لوگ تیار ہوں تو وہ ایسے عالم ہوں گے جو عصرِ جدید کے تقاضوں سے باخبر ہوں گے۔لہٰذا جب یہ سامنے آئیں گے تو یہ مولوی اور مُلا خود ہی ختم ہوجائیں گے۔لیکن کچھ عرصے کے بعد خود یونیورسٹی نے ،اور حکومت نے کہا کہ یہ چلنے والے نہیں ہیں درسِ نظامی گروپ کو ختم کرو۔پھر پرویز مشرف صاحب نے اپنے زمانے میں کہا کہ کچھ ایسے ماڈل مدارس قائم کروجودوسروں کے لیے نمونہ ہوں، اس کے اندر علومِ دین بھی پڑھائے جائیں گے، اس میں عصری تعلیم بھی پڑھائی جائے گی ۔چنانچہ تین ماڈل مدارس پاکستان میں قائم کردیے گئے۔اور ان میں میں بظاہر سب ہی کچھ پڑھا یاجانے لگا،درسِ نظامی کی بھی اہم کتابیں پڑھائی جارہی تھیں ،اور عصری علوم بھی پڑھائے جارہے تھے ۔کچھ سالوںبعد خود اس وقت کے کسی وزیر نے ہمارے ساتھیوں سے کہا کہ خدا کے لئے یہ ماڈل مدارس آپ لے لیں ،ہم سے نہیں چلتے ۔اور آج جاکے دیکھیں وہاں خاک اڑ رہی ہے ۔اور نہ جانے کیا کچھ حربے استعمال کئے گئے ہیں ۔
جامعہ اسلامیہ جو اسلام آباد میں قائم ہے ،میں کہتاہوں کہ علمی معیار کے اعتبار سے ایک اچھے معیار کی یونیورسٹی ہے ،اس میں کوئی شک نہیں۔ لیکن میں ایک سوال پوچھتاہوں کہ اگر کسی مسلمان کو کوئی شرعی مسئلہ پوچھنا ہوتا ہے تو آج تک کبھی کسی نے جامعہ اسلامیہ کے کسی عالم سے ، یا اس کے کسی مفتی سے پوچھا کہ بتائیں اس مسئلہ کا شرعی حل کیا ہے ؟وہاں کوئی نہیں جاتا مسئلہ معلوم کرنے کے لئے ۔جب شرعی مسئلہ معلوم کرنا ہوتا ہے تو انہی بوریانشینوں کے پاس آتے ہیں ،کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ دین کا صحیح علم کہاں اور کس جگہ ہے۔اس لئے ہزار حربے آزمالئے جائیں ،ہزار طریقے بنادئیے جائیں لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ ہمارے بزرگوں کا فیض ہے ،یہ ان کی میراث ہے ان کے سوز ِ دروں کا حصہ ہے ،ان کی راتوں میں کی ہوئی دعاؤں کا ثمرہ ہے کہ الحمد للہ سارے ملک کے اندر صرف اسلامی مدارس ہیں جو لوگوں کے لئے دین کا مرجع بنے ہوئے ہیں اور ان شاء اللہ بنے رہیں گے ۔
خلاصۂ کلام دو پیغام

لہٰذا میں دوپیغام آپ حضرات کو دینا چاہتا تھا
۱)ایک یہ کہ طلبِ علم کو کبھی مت چھوڑنا کسی بھی مرحلہ میں،ہر وقت اپنے آپ کو طالبِ علم سمجھنا۔
۲) دوسرایہ کہ یہ طلبِ علم اللہ کے لئے ہونی چاہیے ،جب کوئی اللہ کا ہوجاتا ہے تو اللہ اس کا ہوجاتا ہے،من کان للہ کان اللہ لہ،اللہ تعالیٰ پھر ا س کو کس طرح سرفرازفرماتا ہے، کس طرح اس کو عزت دیتا ہے ، جب طلبِ صادق ہوتی ہے ،اخلاص ہوتا ہے تو دولت تمہارے قدموں میں آکے گرتی ہے ۔تأتیہ الدنیا وہی راغمۃ،(المعجم الأوسط)”دنیا ذلیل ہوکر تمہارے قدموں میں آتی ہے ۔ایک مرتبہ تم دنیا سے منہ موڑ کر اللہ تعالیٰ کی طرف رخ کرلو، دنیا آئے گی، ذلیل ہوکر تمہاے قدموں میں بکھیری جائے گی ،تم ان شاء اللہ دولت کے اعتبار سے بھی، معاش کے اعتبار سے بھی کسی سے پیچھے نہیں رہوگے۔لیکن دنیا سے انکار اور دنیا سے اعراض اس آخری نتیجے کی وجہ سے نہ ہو کہ کسی وقت دنیا میرے قدموں میں آجائے گی ،بلکہ اللہ کے لئے ہو ،جب اللہ کے لئے ہوگا تو پھر دیکھنا کہ ان شاء اللہ دنیا میں بھی کامیاب رہوگے اور آخرت میں بھی کامیاب رہوگے۔اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی رحمت سے، اپنے فضل وکرم سے ہم سب کو اپنے بزرگوں کی یہ میراث اخلاص کے ساتھ حاصل کرنے اور باقی رکھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
٭٭٭٭٭٭٭٭٭

(ماہنامہ البلاغ – شعبان المعظم 1442 ھ)