حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی

یادیں
(اکیسویں قسط )

ادب عربی کی تدریس
مجھے بچپن سے شعرو ادب کے ساتھ خصوصی دلچسپی اور مناسبت تھی ۔ اس لئے میں جس جماعت کو صرف ونحو اور فقہ وغیرہ پڑھا رہا ہوتا، ادب میں مجھے اُس سے اگلی جماعت کا کوئی سبق ضرور دیا جاتا تھا۔ چنانچہ جب مجھے مقامات حریری پڑھانے کے لئے دی گئی، تو اگرچہ مجھے اُس کے مسجع اور پر تکلف قافیہ بند اسلوب سے مناسبت نہیں تھی ، اور مجھے سلیس عبارتیں زیادہ اچھی لگتی تھیں، لیکن میں نے مقامات پڑھانے میں بڑی محنت کی، کیونکہ اُس میں عربی الفاظ اور محاورات کا بڑا ذخیرہ موجود ہے ۔میں اُس کے مطالعے کے دوران نہ صرف ” سریشی "سے لیکر ” افاضات "تک اُس کی تمام شروح کو دیکھتا ، بلکہ لغات کی تحقیق کے لئے براہ راست لغت کی کتابوں کی طرف رجوع کرتا ، اور اپنے پاس ان معلومات کی یادداشتیں محفوظ کرلیتا ۔البتہ طلبہ کے سامنے اتنی باتیں ہی بیان کرتا جنہیں وہ ہضم کرسکیں ۔ خاص طورپر الفاظ کے مواقع استعمال بتانے کے لئے قرآن کریم کی آیات اور بعض مرتبہ عربی محاورات کا حوالہ دیدیتا تھا ۔اس کے بعد "دیوان متنبی”، "سبعہ معلقہ” اور” دیوان حماسہ بھی میں نے اسی ذوق وشوق سے پڑھائیں۔متنبی کی شرح "عکبری ” سبعہ معلقہ اور”حماسہ”کی شرح "زوزنی”مستقل میرے مطالعے میں رہیں، اور” حماسہ”کے ساتھ میں نے ” مفضلیات” کوبھی مطالعے میں رکھنے کی کوشش کی ،تاکہ اُس دور کے شعرکا مزاج پیش نظر رہ سکے۔
"مقامات”شروع کرنے سے پہلے میں نے جب علم ادب کے تعارف سے متعلق مختلف کتابوں کا مطالعہ کیا ، توکسی کا یہ مقولہ سامنے آیا کہ عربی ادب کے چار ستون ہیں:”البیان والتبیین للجاحظ”، "الکامل للمبرد”، "ادب الکاتب لابن قتیبۃ” اور "الأمالی لأبی علی القالی”۔ان میں سے تیسری اور چوتھی کتابیں تو دارالعلوم کے کتب خانے میں اُس وقت موجود نہیں تھیں، لیکن پہلی دو کتابیں موجود تھیں، اور میں فرصت کے اوقات میں اُن کا تفریحی مطالعہ بھی کیا کرتا تھا ۔ اس کے علاوہ مجھے کتب خانے میں "العقدالفریدلابن عبدربہ” مل گئی تھی جو مجھے ان دونوں سے زیادہ اچھی لگی کہ اُس میں عربی نثرو نظم اور خطبات کا بہترین انتخاب تھا ۔ پھر میں اُس کو بکثرت مطالعے میں رکھتا تھا۔اصول لغت پرعلامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اﷲعلیہ کی کتاب ” المزہر "بھی مجھے بہت پسند آئی، اور اُس سے بھی میں نے بہت استفادہ کیا۔ابن رشیق کی "العمدۃ” اور عسکری کی "کتاب الصناعتین”میں کسی کباڑیے سے خرید لایا تھا ، ان کا مطالعہ بھی بڑا لطف دیتا تھا۔
اس کے علاوہ مجھے جدید عربی ادب کی کتابیں پڑھنے کا بھی شوق تھا ، اور حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی صاحب رحمۃ اﷲعلیہ، شکیب ارسلان ، عباس محمود العقاد، منفلوطی ، شیخ مصطفی السباعی رحمۃ اﷲعلیہ وغیرہ کی تحریریں بھی شوق سے پڑھا کرتا تھا ۔
علم ادب کا مقدمہ
عام طور سے جب کوئی کتاب پڑھائی جاتی ہے، تو اس کے شروع میں استاذ مقدمۃ العلم کے طورپر اس علم کی تعریف، موضوع اور غرض وغایت ،نیز اُس کی مختصر تاریخ بیان کیا کرتا ہے ۔دوسرے تمام علوم کے مقدمات عموماً اس علم کی کتابوں کے شروع میں مذکور ہوتے ہیں ،لیکن علم ادب کے بارے میں مجھے اس قسم کا کوئی منضبط اور جامع مقدمہ نہ مل سکا ۔”مقامات”کی شروح میں اس موضوع پر جو کچھ لکھا گیا ہے، اُس سے میری تشفی نہیں ہوئی ۔اس لئے مجھے خیال آیا کہ میں علم ادب کا ایک مقدمہ خود لکھوں ۔اور میں نے اوپر جن کتابوں کا ذکر کیا ہے ، اُن کے حاصل مطالعہ کو اُس مقدمے میں اس طرح درج کروں جس سے ادب کی مختلف اصناف کا تعارف اور ان کی مختصر تاریخ واضح ہوجائے۔چنانچہ میں نے بڑے ذوق وشوق سے عربی میں یہ مقدمہ تحریر کیا جس میں ادب کی تعریف، و جہ تسمیہ، موضوع اور غرض وغایت کے علاوہ اُس کو نثر اور نظم دو حصوں میں تقسیم کرکے نثر کی مختلف اصناف ذکر کیں، جن میں مکالمہ، خطبات، مکتوب نگاری، مقالہ نویسی، اورتوقیعات وغیرہ شامل تھیں، اور ان میں سے ہر صنف کے بارے میں یہ بتایا کہ ان کے اسلوب میں مختلف زمانوں میں کیا کیا تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، اور ان تبدیلیوں کو مثالوں سے واضح کیا۔اسی طرح نظم کے حصے میں یہ بتایا کہ شعر گوئی کی شروعات کس طرح ہوئیں ؟ پھر شعر کی مختلف اصناف کا تعارف کرایا جن میں قصیدہ، غزل اور رجز کے علاوہ اندلس کی”موشحات” اور” اجزال ” کا تعارف بھی شامل تھا ۔ پھر عرب شعراء کے مختلف ادوار جاہلیین، مخضرمین، اسلامیین اور مولدین کا تعارف اور ان کی خصوصیات بیان کیں، اور ہر صنف کا انتخاب بھی شامل کیا ، اور اس طرح یہ ایک مفصل کتاب بن گئی جسے میں نے بڑے پیارسے ایک فائل میں رکھا ہوا تھا، اور اپنی تدریس کے زمانے میں اُس میں حذف و اضافہ بھی کرتا رہتا تھا۔
اسی دوران مجھے اطلاع ملی کہ حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اﷲعلیہ کراچی تشریف لائے ہیں۔مجھے خواہش ہوئی کہ میں اپنی یہ کاوش حضرت ؒ کی خدمت میں بغرض اصلاح پیش کروں ، ا ور کم ازکم اُس پر حضرتؒ کی نظر ہی پڑجائے تو یہ میرے لئے باعث سعادت ہوگا ۔چنانچہ میں وہ فائل لیکر حضرتؒ کی خدمت میں پہنچا ۔حضرت ؒ نے بڑی شفقت سے اُسے ملاحظہ فرمایا، اور جہاں تک یاد ہے، اُس پر میری ہمت افزائی بھی فرمائی ۔ چونکہ مجھے معلوم تھا کہ حضرتؒ بہت مصروف رہتے ہیں ، اس لئے میں نے اُن سے کوئی تقریظ وغیرہ لکھنے کی فرمائش نہیں کی۔حضرتؒ کا اُس پر نظر ڈال لینا ہی میرے لئے باعث ِبرکت تھا ۔ لیکن اُس کے بعد جو المیہ پیش آیا، اُس کا صدمہ اب بھی جب یاد آجاتا ہے،تو بدن میں جھرجھری سی آجاتی ہے ۔ ہوا یہ کہ واپسی میں جس ٹیکسی میں میں سوار ہوا ، اُس میں مجھے اپنی ایک عزیزہ کو بھی اپنے گھرلانا تھا ،جن کے ساتھ سامان بھی اچھا خاصا تھا ۔ جب ہم گھر پہنچے، تو ان کا سامان اتارنے کی فکرمیں مجھے یہ خیال نہ رہا کہ میری وہ فائل بھی ٹیکسی کی نشست کے پیچھے رکھی ہے ۔چنانچہ اور سارا سامان تو اُتر گیا، لیکن میری وہ فائل جس میں میرا مسودہ تھا،ٹیکسی میں رہگئی، اور ٹیکسی روانہ ہوگئی۔ جب ٹیکسی میری پہنچ سے باہر ہوگئی، تو مجھے یاد آیا، اور میرے پاس کفِ افسوس مَلنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا ۔ پھر میں نے ٹیکسی کو تلاش کرنے کے جتنے جتن اُس وقت ہوسکتے تھے، وہ کئے، شاید اخبار میں اشتہار بھی دیا، لیکن ٹیکسی کا پتہ نہ ملنا تھا ، نہ ملا۔ ما شاء اﷲکان ومالم یشأ لم یکن۔کمپیوٹر اور فوٹو اسٹیٹ کا زمانہ ابھی نہیں آیا تھا کہ مسودے کی کاپی بناکر اُسے الگ محفوظ رکھ سکتا ۔نتیجہ یہ ہوا کہ خاصے طویل عرصے کی یہ محنت ضائع ہوکر رہگئی ۔
بہر حال!مشیت خداوندی کو یہی منظور تھا کہ میر ی وہ تالیف منظر عام پر نہ آئے اور یقیناً اسی میں کوئی مصلحت تھی ۔
عربی تقریریں
عربی میں طالب علمانہ تقریر کرنے کی مشق مجھے اپنے شامی اساتذہ، خاص طورپر استاذ احمد الاحمد کے طفیل پہلے ہی سے تھی، لہٰذا جب کوئی مہمان دارالعلوم میں آتا، تو مجھے عربی میں ان کے خیرمقدم کے لئے کہا جاتا ۔ اسی دوران جمادی الاولیٰ ۱۳۸۲ھ (مطابق اکتوبر ۱۹۶۲ء) میں شام کے مشہور عالم حضرت شیخ عبدالفتاح بو غدّہ رحمۃ اﷲعلیہ اپنے پاکستان کے پہلے دورے پر تشریف لائے۔ حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ اپنے شام کے دورے کے موقع پر اُن سے مل چکے تھے، اوروہاں سے انہوں نے ہمیں جو خط لکھا تھا، اُس میں انہوں نے شیخؒ کا بڑے تعریفی انداز میں تذکرہ کیا تھا ۔اس موقع پر ان کی صحبت میں رہنے کی سعادت ملی، تو دل ان پر فریفتہ ہوگیا ۔ جب وہ دارالعلوم تشریف لائے ، تو حسب معمول اساتذہ کی طرف سے ترحیبی تقریر کے لئے مجھ سے کہا گیا ۔ میں نے اس تقریر میں حضرتؒ کے خیر مقدم کے علاوہ دارالعلوم دیوبند کے قیام کا پس منظر اور اکابر علمائے ہند کی خدمات کا بھی قدرے جذباتی انداز میں تذکرہ کیا ، تو حضرتؒ نے دارالعلوم کی معائنے کی کتاب میں میری ہمت افزائی کرتے ہوئے تحریرفرمایا:
"لقد کان من فصاحۃ الأخ الحبیب فی اﷲ الشّیخ محمد تقی العثمانی ما کشف عن تقصیر العرب فی لغتہم.” (روداد دارالعلوم کراچی، ۱۳۸۰ ھ تا ۱۳۸۲ ھ ، صفحہ ۲۶ )
"میرے بھائی شیخ محمد تقی عثمانی ، جن سے مجھے اﷲتعالیٰ کی خاطر محبت ہے ،اُن کی فصاحت ایسی تھی کہ اُس نے خود عرب لوگوں کی اپنی زبان میں کوتاہی کوواضح کردیا”۔
یہ تبصرہ تو یقیناًحضرتؒ کی طرف سے اپنے ایک چھوٹے سے شاگرد کی ہمت افزائی تھی جس میں انہوں نے مبالغے کو بھی برا نہیں سمجھا ، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ مجھے ان کے اس سفر میں ان کی غیر معمولی شفقت میسر آئی، وہ جہاں تشریف لے جاتے ، میں ان کے ساتھ رہنے کی کوشش کرتا، ان کی تقریروں کا اردو میں ترجمہ کرتا، اور ان کے علمی افادات سے خوب فائدہ اٹھاتا ۔یہاں تک کہ ایک موقع پر انہوں نے مجھ سے فرمایا: "لو کنت تفاحۃً لأکلتک "۔ یعنی ":اگر تم ایک سیب ہوتے تو میں تمہیں کھالیتا.” اس کے بعد انہوں نے مجھے تفاحۃ الہند وباکستان کا لقب دیدیا ، اور اپنی ایک تالیف(” التصریح” کے حاشیے )میں میرے نام کے ساتھ یہ لقب بھی تحریر فرمایا ۔ان کے ساتھ تعلقات کا کچھ مفصل حال میں نے "نقوش رفتگاں”میں ان کے تذکرے کے تحت بیان کیا ہے ۔اور کچھ مزید ان شاء اللہ تعالیٰ آگے آئے گا۔ رحمہ اﷲتعالیٰ رحمۃً واسعۃ ۔
نحووصرف اور ادب کے ساتھ الحمد ﷲبلاغت، فقہ، اصول فقہ، فرائض ،منطق ، فلسفہ ، کلام اور تمام علوم مروجہ کی کتابیں پڑھانے کا موقع ملا، اور اس طرح درس نظامی کی تمام کتابیں مختلف سالوں میں پڑھائیں، صرف تین کتابیں ایسی تھیں جو پڑھانے کی نوبت نہیں آئی ۔ایک "مختصر المعانی” ، دوسرے "سلم العلوم” اور تیسرے "میبذی” ۔ البتہ بلاغت میں” دروس البلاغۃ” اور "البلاغۃ الواضحۃ” پڑھاتا رہا، اور منطق میں شرح تہذیب اور قطبی تک پہنچ سکا۔ شرح عقائد باقاعدہ درس کی شکل میں تو پڑھانے کی نوبت نہیں آئی، لیکن مولانا افتخاراحمد صاحب کا (جو ماشاء اﷲاس وقت دارالعلوم میں صحیح مسلم پڑھاتے ہیں) وہ سبق کسی وجہ سے رہ گیا تھا ، اس لئے ان کو خارج میں اس کا کچھ حصہ پڑھایا۔
مشرقی پاکستان کا سفر۲۷ جنوری ۱۹۶۱ء
۱۹۶۱ء کے شروع ہی میں حضرت والد صاحب قدس سرہ کے ساتھ پہلی بار مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش)کے سفر کی نوبت آئی۔ سلہٹ کے ایک متدین رئیس جناب مجدالدین صاحب (رحمہ اللہ تعالیٰ)حضرت والد صاحبؒ کو کافی عرصے سے لکھ رہے تھے کہ سلہٹ عرصے تک اکابر علماء دیوبند کی توجہات کا مرکز رہا ہے ، اور یہاں حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی (رحمۃ اللہ علیہ)طویل طویل قیام فرماتے رہے ہیں ، نیز حضرت شیخ الہند قدس سرہ کے دوسرے شاگرد حضرت مولانا سہول عثمانی صاحب ؒ بھی یہاں عرصے تک مقیم رہے ، اور سلہٹ کے لوگوں میں اس طرح بزرگوں سے استفادے کا خاص ذوق ہے ۔ لہٰذا ہماری خواہش ہے کہ آپ سلہٹ تشریف لائیں ، مقصود رسمی جلسے نہیں ہیں ، بلکہ آپ چند ہفتے یہاں مقیم رہیں ، اور سہولت کے مطابق لوگ آپ کی مجالس سے استفادہ کرتے رہیں ۔ حضرت والد صاحبؒ نے آخر کار جنوری ۱۹۶۱ء میں دوہفتے کے لئے سفر کا ارادہ فرمالیا ، اورمیرے لئے انتہائی خوشی کی بات یہ تھی کہ اپنے ساتھ مجھے بھی لے جانے کاارادہ ظاہر فرمایا۔ یہ شعبان (۱۳۸۰ھ)کا مہینہ تھا ، اور ہمارا تعلیمی سال ختم ہورہا تھا ، اس لئے دارالعلوم سے غیر حاضررہنے میں کوئی حرج بھی نہیں تھا ۔بنگال کے حالات بہت سُن رکھے تھے ، اور اُسے دیکھنے کا شوق بھی تھا ، اس موقع پر اچانک اس سفر میں حضرت والد صاحبؒ کے ساتھ جانے کی اتنی خوشی تھی جو ابتک یاد ہے ۔ چنانچہ۲۷جون کی صبح اس یادگار سفر کے لئے روانگی ہوئی ۔ حضرت والد صاحبؒ کے ایک شاگرد مولانا جمیل احمد صاحب اکیابی ؒ جو اُس وقت دارالافتاء میں ناقل فتاویٰ بھی تھے ، اور حضرت والد صاحبؒ کے خطوط اور بیانات وغیرہ بھی نقل کیا کرتے تھے ، وہ یھی سفر میں ساتھ تھے۔ یہ جدہ سے مدینہ منورہ کے ۱۹۵۱ء والے چھوٹے سے سفر کے بعد(جو میرے بالکل بچپن میں ہوا تھا)میرا ہوائی جہاز کا پہلا طویل سفر تھا۔میری عمر کا اٹھارواں سال چل رہا تھا ، اس لئے حضرت والد صاحبؒ کی معیت اور بنگال کی سیاحت کی اصل مسرت کے علاوہ جہاز میں سفر کرنے کی بھی اپنی خوشی تھی ۔اُس وقت تک جیٹ طیارے اتنے عام نہیں ہوئے تھے ، اور جس جہاز میں ہم سوار ہوئے ، وہ پنکھوں والا سپر کانسٹی لیشن طیارہ تھا جو دس گیارہ ہزار فیٹ سے زیادہ بلند نہیں ہوتا تھا ، اس لئے اُس کی کھڑکی سے زمین نظر آتی رہتی تھی ۔میں سارے راستے کھڑکی سے پہلے سندھ ، پھر ہندوستان کانظارہ کرتارہا، الہ آباد میں دریاؤں کاسنگھم ،پھر بھوپال ، اور اُس کے بعد دورتک پھیلا ہوا کلکتہ دیکھنا ابتک یاد ہے۔ آخرتقریباً ساڑھے پانچ گھنٹے کے سفر کے بعد ڈھاکہ پہنچے تو ایک بڑا مجمع حضرت والد صاحبؒ کے استقبال کے لئے موجود تھا ۔ حضرت مولانا مفتی محی الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ حضرت والد صاحبؒ کے خاص جاں نثارشاگردتھے ، انہی کا مدرسہ اشرف العلوم محلہ "بڑا کٹرہ” میں واقع تھا ، وہیں قیام ہوا ۔ مدرسے کے مہتمم حضرت پیرجی حضور ؒ کے لقب سے مشہور تھے ، اور اپنے تقدس میں بنگال کے بزرگ ترین عالم اور اہل اللہ میں ان کا شمار ہوتا تھا ، ان کی زیارت ہوئی۔ اگلا دن ڈھاکہ ہی میں گذرا ، اور لال باغ کے مدرسے میں جانا ہوا،جہاں حضرت مولانا شمس الحق صاحب فرید پوریؒ اور حضرت مولانا احمداللہ صاحب ؒ (جو حافظ جی حضورؒ کے لقب سے مشہور تھے)ان کی زیارت ہوئی ۔سلہٹ سے جناب مجدالدین صاحب کے سمدھی ، جو بذات خود وہاں کے بڑے نواب تھے ، حضرت والد صاحبؒ کو سلہٹ لے جانے کے لئے ڈھاکہ پہنچے ہوئے تھے، اور مدرسہ عالیہ سلہٹ کے ناظم کتب خانہ مولانا تفضل علی صاحب ؒ بھی ان کے ساتھ آئے تھے جن سے بعد میں میرے بڑے بے تکلف تعلقات ہوگئے تھے ۔رات کو عشاء کے بعد ٹرین کے ذریعے سلہٹ روانہ ہوئے ، اوررات ٹرین کے فرسٹ کلاس کے ایک مخصوص کمپارٹمنٹ میں گذاری ۔ صبح سویرے آنکھ کھلی ۔تو ٹرین کلاوڑہ اسٹیشن پر کھڑی تھی ، وہاں سے چند گھنٹے کا سفر بڑے سرسبزو شاداب اور خوبصورت مناظر سے گذرتے ہوئے طے ہوا ۔مولانا تفضل علی صاحب ؒ کی ایک بات مجھے ابتک یاد ہے ۔ نواب صاحب کے ساتھ ان کا ایک خادم دوسرے ڈبے میں سفر کررہا تھا۔ جب صبح کے وقت بستر تہہ کرنے کا وقت آیا ، تو نواب صاحب اس انتظار میں تھے کہ اگلے اسٹیشن پر وہ خادم آکر بستر تہہ کردے گا ، مولانا تفضل صاحبؒ نے بستر پھیلے دیکھے،تو وہ خود تہہ کرنے کے لئے آگے بڑھے ۔ نواب صاحب نے کہا کہ "آپ رہنے دیں ، ابھی آدمی آئیگا تو وہ بستر سمیٹ لے گا ” ۔مولانا تفضل صاحبؒ نے جواب دیا:”ہم بھی تو آدمی ہیں ” اور پھر خود ہی سارے بستر سمیٹ کر رکھ دئیے۔ ان کے اس جملے سے سبق ملا کہ جب انسان اپنا کوئی ضروری کام خودکرسکتا ہو، تو خادم کے انتظار میں اُسے کیوں ٹلائے؟
سلہٹ اسٹیشن پر استقبال کرنے والوں کا اتنا بڑا ہجوم تھا کہ چلنا مشکل ہوگیا ۔ جنا ب مجدالدین صاحب مرحوم کے بارے میں یہ سُن رکھا تھا کہ وہ یہاں کے بہت بڑے رئیس ہیں ، لیکن جب انہیں دیکھا ، تو انکے حلیے اور لباس وپوشاک سے ایک انتہائی متواضع اور متدین بزرگ کا تصور آتا تھا ، اور مجھے ان کے سراپا میں ہندوستان کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفرمرحوم کی یاد تازہ ہوتی تھی ۔ وہ علیگڈھ سے ایم اے کئے ہوئے تھے ، اور اُس وقت کے صدر مملکت جنرل محمد ایوب خان صاحب مرحوم کے دوست تھے ، اور ایوب خان صاحب مرحوم جب کبھی سلہٹ آتے ، انہی کے یہاں ٹھہرتے تھے ۔ وہ اپنے گھر لے گئے جو اُس وقت "پھولباڑی ہاؤس” کے نام سے موسوم تھا ۔ گھر کے ڈرائنگ روم میں ایک شیر کی کھال لٹکی ہوئی تھی جوکسی وقت خود اُنہوں نے شکار کیا تھا ۔ اسی خوبصورت گھر کے ایک بیرونی کمرے میں حضرت والد صاحبؒ کا قیام ہوا ۔ یہ گھر سلہٹ کے درگاہ محلے میں واقع تھا ، جو حضرت شاہ جلال مجرد ایمنی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار اور درگاہ مسجد کے قریب واقع تھا ۔ حضرت شاہ جلال مجرد ایمنی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں روایت یہ ہے کہ وہ یمن سے تشریف لائے تھے ، اور یہاں ان کی بزرگی اور تقدس کا تقریباً وہی مقام تھا جوہندوستان میں حضرت خواجہ معین الدین صاحب چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کا سمجھا جاتا ہے۔
مجدالدین صاحب مرحوم کا مکان نہایت پُرفضا جگہ پر واقع تھا ۔ مجدالدین صاحب مرحوم نے جس قدردانی ، مزاج شناسی اورشائستگی کے ساتھ حضرت والدصاحب رحمۃ اللہ علیہ کی میزبانی کی ، اُس کا گہرا نقش ابتک دل پر قائم ہے ۔ ان کے صاحب زادے جناب محی السنہ صاحب مرحوم اُس وقت نوجوان تھے ، اور سفر وغیرہ کے تمام تر انتظامات وہی کیا کرتے تھے ۔اس قیام کے دوران میری نوعمری کے پیش نظر دو صاحبان میری تفریح طبع کا خاص خیال رکھتے تھے ، ایک مولانا تفضل علی صاحب ، اور دوسرے جناب نجابت علی صاحب جو وہاں کی "انجمن ترقی اردو "کے ذمہ دار تھے ، اور اُنہیں اردو کے محاورات سیکھنے کا بڑا شوق تھا ، وہ ہرصبح مجھے آس پاس کے علاقوں میں لے جایا کرتے تھے ۔ سلہٹ چھوٹی چھوٹی سرسبزپہاڑیوں سے بھر اہواہے،جو وہاں ٹیلے کہلاتے ہیں ، فجر کے بعد ہم سیر کے لئے ان کے ساتھ کسی نہ کسی ٹیلے پر چلے جاتے ، اور قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوتے ۔سلہٹ کسی وقت آسام کا حصہ تھا ، اور یہاں سے افق پرآسام کے پہاڑ کھاسیا جنتادھند میں لپٹے ہوئے نظر آتے تھے ۔انہی پہاڑوں میں سے نکلتا ہوا دریائے سُرماسلہٹ تک آتا ہے ، اور شہر اُس کے دونوں طرف آباد ہے ، اور ہم کبھی کبھی سیر کے لئے اُس کے پل پر چلے جاتے تھے۔
شب براء ت بھی اُس سال سلہٹ کے قیام کے دوران آئی ، اور یہ عجیب منظر میں نے دیکھا کہ صرف سلہٹ شہر سے نہیں ، آس پاس کے دیہات اور دور کے شہروں سے بھی لوگوں کے قافلے بوریا بستر اٹھائے جوق درجوق حضرت شاہ جلال صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مقبرے کا رُخ کر رہے تھے ۔ مسجد اور اُس کا دور تک پھیلاہوا صحن تو کھچا کھچ بھر ہی گیا تھا، لوگوں نے آس پاس کی گلیوں اور سڑ کوں پر بھی دور تک ڈیرے ڈالے ہوے تھے۔یہ سب لوگ درگاہ مسجد میں شب براء ت منانے آئے ہوئے تھے ، اور ان کی تعداد کسی طرح دو ڈھائی لاکھ سے کم نہ ہوگی ۔ معلوم ہواکہ شب براء ت کے موقع پر ہرسال یہاں یہی حال ہوتا ہے ۔
سلہٹ میں حضرت والدصاحب رحمۃ اللہ علیہ کا تقریباً دو ہفتے قیام رہا ۔ دن میں دوبار وہیں پر مجلس ہوتی جس میں علاقے کے علماء اور عوام شریک ہوتے ، اور اس موقع پر وہاں کی ایک بڑی تعداد نے حضرت والدصاحب رحمۃ اللہ علیہ سے اصلاحی تعلق قائم کیا ، اور بعض حضرات بیعت بھی ہوئے ۔حضرت مولانا سہول عثمانی صاحب حضرت شیخ الہندؒ کے خاص شاگرد تھے ، اور مدت تک سلہٹ میں مقیم رہے۔ (مجدالدین صاحب نے ان کی بڑی صحبت اٹھائی تھی جس کے اثرات ان پر نمایاں تھے ۔ ) حضرت مولانا سہول صاحب ؒ کے صاحب زادے مولانا محمود صاحب ؒروزانہ حضرت والدصاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آتے ، اور مجلسوں سے سیراب ہوتے ، اور با لآخر حضرت والدصاحب رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت بھی ہوئے۔حضرت والدصاحب رحمۃ اللہ علیہ جونکہ اُس وقت ہمارے لسبیلہ ہاؤس کے مکان میں رہتے تھے، اور ہم دونوں بھائیوں کا قیام دارالعلوم کی مصروفیات کی وجہ سے شرافی میں تھا ، اس لئے مجھے حضرت والدصاحب رحمۃ اللہ علیہ کی اصلاحی مجلسوں سے استفادے کا موقع کم ملتا تھا ۔ الحمد للہ اس سفر میں اللہ تعالیٰ نے اُس کا موقع بھی عطا فرمایا ۔
درگاہ محلے کی جامع مسجد کے امام حضرت مولانا اکبر علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ تھے جو انتہائی متواضع اور سادہ بزرگ تھے، ان کے حلیے اور چال ڈھال سے کوئی پتہ بھی نہیں لگا سکتا تھا کہ وہ کوئی عالم ہوں گے ، ان کی ادا ادا میں بلا کی معصومیت تھی ، اور وہ روزانہ تہجد کے وقت حضرت والد صاحب ؒکے لئے چائے بناکر لاتے تھے ۔ اسی قیام کے دوران حضرت والد صاحبؒ نے انہیں مسجد کے ساتھ ایک مدرسہ قائم کرنے کا مشورہ دیا تھا ، چنانچہ انہوں نے قاسم العلوم کے نام سے مدرسہ قائم فرمایا جو اب بنگلہ دیش کے ممتاز مدارس میں شمار ہوتا ہے ۔
جناب مجدالدین صاحب مرحوم کے سلہٹ اور اُس کے مضافات میں چار چائے کے باغ تھے ۔ ان میں سے دوباغوںمیں ایک ایک رات کے قیام کے لئے وہ حضرت والد صاحبؒ کو لے گئے ، چائے کے باغات اُسی وقت پہلی بار دیکھنے کا موقع ملا ۔ باغ کیا تھے ؟ میلوں میں پھیلی ہوئی پوری پوری ریاستیں تھیں ۔ہر باغ میں ان کی فیکٹری بھی تھی ، اور نہایت آراستہ پیراستہ بنگلہ بھی تھا ۔ اور واقعہ یہ ہے کہ میں نے اُن سے زیادہ خوبصورت ، منظم اورخوش منظر باغ پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے ، اور اپنی نوعیت کے لحاظ سے شاید اُن کے بعد بھی ایسے باغ کہیں اور نظر نہیں آئے ۔مجدالدین صاحب مرحوم نے حضرت والدصاحب رحمۃ اللہ علیہ کی راحت کے خیال سے کسی عام جلسے میں شرکت کا کوئی نظم نہیں رکھا تھا ، لیکن ہندوستان کی سرحد کے قریب ایک گاؤں میں ایک بڑا مدرسہ تھا جہاں حضرت والدصاحب رحمۃ اللہ علیہ کی اجازت سے ان کے سالانہ جلسے میں شرکت منظور کرلی تھی ۔ وہاں جانے کے لئے دریائے سُرما میں سفر کرنا پڑتا تھا ۔چنانچہ مجدالدین صاحب مرحوم نے ایک آرام دہ اور خوبصورت کشتی کااہتمام کیا تھا جس کے ذریعے تقریباً دو گھنٹے کا دریائی سفر کرکے وہاں پہنچے ۔ جلسہ اتنا بڑا تھا کہ حد نظر تک سر ہی سر نظر آرہے تھے ، لیکن ان میں بڑی تعداد علماء اور دینی مدارس کے طلبہ کی تھی۔ حضرت والدصاحب رحمۃ اللہ علیہ نے وہاں تقریباً ایک گھنٹے خطاب فرمایا ، اور مجھے یاد ہے کہ خطبے کے بعد گفتگو کی تمہید میں یہ شعر پڑھا تھا :

امیر جمع ہیں احباب، درد دل کہہ لے
پھر اجتماع دل دوستاں رہے ،نہ رہے

اور اس کے بعد اہل علم کے طبقے میں جو قابل اصلاح باتیں ہوا کرتی ہیں ، ان کا بطور خاص ذکر فرمایا تھا۔
بہر کیف!سلہٹ کا یہ قیام بڑا مفید، دلچسپ اور یادگار تھا ۔ رمضان شروع ہونے سے کچھ ہی پہلے ہم واپس گھر آگئے۔
اس کے بعد ایک مرتبہ اور مجھے حضرت والدصاحب رحمۃ اللہ علیہ کی معیت میں یہاں آنے کا موقع ملا ، مگر اُس وقت قیام مختصر رہا۔

جاری ہے ….

٭٭٭٭٭٭٭٭٭