خطاب : حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم

مولانا شمس الحق صاحب فرید پوریؒ

ذیعقدہ ۱۳۸۸ھ کو مشرقی پاکستان کے معروف عالم دین حضرت مولانا شمس الحق صاحب فرید پوری رحمتہ اللہ علیہ بھی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ شب وروز کے ہنگاموں میں نہ جانے کتنوں کے بارے میں یہ خبر ملتی ہے کہ وہ ہم سے رخصت ہوگئے۔ بہت سوں کے چھوٹ جانے سے دل شدید رنج والم بھی محسوس کرتا ہے۔ لیکن ایسے لوگ کم ہوتے ہیں جن کی وفات کی خبردلوں پر نجلی سی گرادے، جن کا آفتابِ زندگی مشرق میں غروب ہوتو مغرب والے اندھیرا محسوس کریں۔ اور جن کی یاد ان لوگوں کے دل میں بھی ایک ہُوک پیدا کردے جو ان سے رشتہ داری کا رسمی رابطہ نہیں رکھتے۔
اللہ تعالیٰ مولانا شمس الحقؒ پر اپنی رحمت کی بارشیں برسائے، وہ ایسے ہی لوگوں میں سے تھے۔ اپنے اخلاص،للہیت، مجاہدانہ عزم و عمل اور پُر خلوص خدمات کی وجہ سے وہ علمی اور دینی حلقوں میں ہر دلعزیز شخصیت کے مالک تھے، اور جو شخص بھی علم و دین کی کچھ قدر وقیمت اپنے دل میں رکھتا ہے اس کے لئے ان کی وفات ایک عظیم سانحہ ہے۔
غیر منقسم ہندوستان میں علم دین کے دو بڑے مرکز تھے۔ دارالعلوم دیوبند اور مظاہر العلوم سہار نپور۔ مولانا رحمتہ اللہ علیہ نے دونوں سے اکتساب فیض کیا تھا، ان دونوں اداروں میں ان کو اکا بر اہلِ اللہ کی صحبت اٹھانے کا موقع ملا، پھر دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہونے کے بعد تھانہ بھون میں حکیم الامت حضرت تھانوی رحمتہ اللہ علیہ کے چشمئہ فیض سے بھی سیراب ہوئے، جہاں علم کی حقیقت کے ساتھ قلب کو سوذ وگداز نصیب ہوا۔
مولانا ؒ مشرقی پاکستان کے شہر فرید پور کے رہنے والے تھے آخر وقت تک وطن وہی رہا، لیکن علمی اور تبلغی خدمات کے لئے ڈھا کہ کو اپنا مستقر بنالیا تھا، وہیں پر قلعئہ لال باغ کے پاس جامعہ قرآنیہ کے نام سے ایک دینی مدر سے کی بنیاد ڈالی جوڈ ھا کہ کے مشہوراور مرکزی دینی اداروں میں نمایاں حیثیت رکھتاہے۔ کبھی کبھی چھٹیاں گذارنے کے لئے یا خرائی صحت کی بنا پر اپنے اہل وعیال کے پاس فرید پور چلے جاتے تھے۔ ورنہ مدرسہ کے انتظام کے علاوہ ملک کی دینی اور کسی حد تک سیاسی سر گرمیوں میں مئوثر حصہ لینے کی وجہ سے سال کے بیشتر اوقات یہیں گذارتے تھے۔اللہ تعالیٰ نے ان کے اخلاص اور دینی لگن کی وجہ سے انہیں عوام و خواص میں غیر معمولی مقبولیت اور وجاہت عطا فرمائی تھی، وہ چاہیے تو اپنے لئے بہتر کو ٹھی بنگلے بنوا سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے اپنے قیام کے لئے جامعہ قرآنیہ کا ایک ایسا تنگ وتاریک حجرہ منتخب کیا جسے دیکھ کر کن فی الدینا کاء نک غریب (دنیا میں ایسے رہو جیسے ایک پردیسی) کی عملی تفسیر سامنے آجاتی تھی۔
مولانا بنگلہ زبان کے بڑے اچھے مصنّف تھے۔ بنگال کے عوام کی دینی تعلیمات سے روشناس کرانے کے سلسلے میں ان کی خدمات نا قابل فراموش ہیں۔ ’’بہشتی زیور‘‘ حکیم الامت حضرت تھانویؒ کی وہ مقبولِ عام کتاب ہے جس نے لاکھوں بلکہ شاید کروڑوں مسلمانوں کو فائدہ پہچایا، زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جس متعلق ایک مسلمان کی ضروریات کو اس میں جمع نہ کردیا گیا ہو، حضرت مولانا شمس الحق صاحبؒ نے اس عظیم الشان کتاب کا بنگلہ ترجمہ کیا ہے جو ان اطراف میں بہت مقبول ہے، اس کے علاوہ حضرت مولانا تھانویؒ کی اور بھی بہت سی تصانیف کو بنگلہ زبان میں منتقل کرنے کا سہرا انہی کے سر ہے۔
اخلاص اور خیر خواہی کے ساتھ حق گوئی اور بیبا کی ان کی خاص صفت تھی، وقت کے حکمرانوں کے ساتھ ان کے بڑے اچھے تعلقات تھے، اور عام طور سے وہ ان میں گھلے ملے رہتے تھے، لیکن جہاں کہیں دین کا معاملہ آجاتا اور حدود اللہ میں کوئی رخنہ پڑتا نظر آتا، وہ پوری صفائی، بیباکی اور جرأت وعزیمت کے ساتھ اپنی بات کہنے سے نہ چوکتے۔ اس صاف گوئی کے صلے میں انہیں بعض حکمرانوں کا معتوب بھی بننا پڑا۔ لیکن چونکہ ان کا غم وغصہ اخلاص کے ساتھ ہوتا تھا، اس لئے عام طور سے حکمران اس کا احساس کرتے تھے کہ ان کی حمایت و مخالفت میں کوئی ذاتی مفاد یا گندی سیاست کا کوئی د اعیہ شامل نہیں ہوتا، وہ جو کچھ کہتے ہیں، اللہ کے لئے کہتے ہیں۔ اس احساس کا نتیجہ تھا کہ سیکڑوں معاملات میں حکمرانوں کی مخالفت کے باوجود کوئی ان کے درپے آزاد نہیں ہوا۔ اور کسی نے انہیں اپنا دشمن نہیں سمجھا۔
مولاناؒ نے عمر زیادہ نہیں پائی بمشکل ساٹھ تک پہنچے ہوں گے، لیکن سالہا سال سے مختلف بیماریوـں نے انہیں گھیر رکھا تھا، اور ان مسلسل ومتواتر بیماریوں نے انہیں بہت ضعیف بنا دیا تھا۔ مجھے اپنے بچپن میں تو انہیں تندرست وتوانا دیکھن ایاد ہے لیکن بدوّشعور کے بعد انہیں مکمل طور سے صحت مند کبھی نہیں دیکھا، اختلاج قلب کے مستقل مریض تھے ایک زمانے میں سارے جسم پر سخت ورم آگیا تھا، لیکن ان تمام بیماریوں کے باوجود دین کی خدمت کے لیے ان کے عزم وحوصلہ میں کبھی کمی نہیں آئی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ عمر گذرنے کے ساتھ ساتھ اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ ان کی محبت میں بے پناہ اضافہ ہورہا ہے، اور خدمت دین کے ولولے جوان ہورہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے جس حصے میں جب کبھی علماء کی طرف سے کسی اجتماعی کام کا پروگرام بنتا، ناممکن تھا کہ مشرقی پاکستان کے علماء میں مولانا شمس الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا نام اس کا جزء نہ ہو۔۔۔۔۔!
تین سال پہلے جہاد پاکستان کے فوراً بعد والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مدظلہم العالی اور حضرت مولانا محمد یوسف بنوری صاحب دامت بر کا تہم نے ان کی دعوت پر مشرقی پاکستان کا دورہ کیا۔ راقم الحروف بھی ان حضرات کے ساتج تھا۔ ڈھاکہ کے تمام اجتماعات اور نجی مجلسوں میں وہ اپنی بیماری کے باوجود دل وجان سے شریک رہے، لیکن جب کشورگنج، چاٹ گام اور سلہٹ وغیرہ جانے کا موقعہ آیا تو وہ سفر کے قابل نہ رہے اور ڈھاکہ ہی میں رک گئے۔ اور اس کے بعد ان پر مرض کا شدید حملہ ہوا، جب ہم لوگ واپس ڈھاکہ پہنچے تومولاناؒ اس وقت بھی شدید بیمار تھے، اور ان کو بار بار دل کے دورے پڑرہے تھے۔ اتفاق سے حضرت والد صاحب مد ظلہم بھی سفر کے دوران بیمار ہوگئے تھے اور مسلسل سفر نے بے حد کمزور کردیا تھا، اس بناء پر سفر کو مختصر کر کے کراچی واپس جانا ضروری ہوگیا۔ چنانچہ ہم عصر کے وقت ڈھاکہ پہنچے اور اسی رات دو بجے کے طیارے سے کراچی روانہ ہونا تھا، ہمار اقیام مدرسہ اشرف العلوم میں تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ ذرا مہلت ملے تو مولانا رحمتہ اللہ علیہ سے ملاقات کر آئوں، اتنے میں ایک صاحب میرے پاس ان کا پیغام لیکر آئے کہ میں بھی بیمار ہوں اور حضرت مفتی صاحب بھی، تھوڑی دیر کے لئے تم آجائو کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں۔ میں کرم فرمائے محترم جناب مولان مفتی محی الدین صاحب کو والد صاحب کے پاس چھوڑ کر لال باغ چلاگیا۔ جھپٹنے کا وقت تھا، میں مولاناؒ کے کمرے میں داخل ہوا تو کچھ دیر کے لئے ششدر رہ گیا۔ یہ مسجد کے ایک گوشے میں ایک نہایت تاریک ساکمرہ تھا، چاروں طرف سے بند بیچ میں ایک پارٹیشن کھڑا تھا، اور اس کے سائے میں ایک چھوٹا سا تخت بچھا ہوا تھا، یہ تخت مولانا ؒ کا بسترِا ستراحت تھا، تخت کے نیچے ایک چٹائی پڑی تھی، مولانا ؒ اس چٹائی پر بیٹھے ہوئے کھانا کھا رہے تھے، کھانا کیا تھا؟ ایک بڑے سے پیالے میں دال اور شور بے کی ملا جلا سالن تنوری روٹی اور بس۔
اس سے قبل مولاناؒ کا خصوصی کمرہ دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا، ہمیشہ مدرسہ کے دفتر میں ملاقات ہوتی رہی جو بڑا کشادہ اور خاصا باسلیقہ تھا۔ آج پتہ چلا کہ جس شخص نے مدرسہ اور مسجد کی اتنی بڑی اور کشادہ عمارتیں بنوائی ہیں وہ خود اس طرح رہتا ہے؟ میں محوِحیرت تھا کہ اختلاج قلب کا وہ مریض جو صبح وشام دل کے جھٹکے سہہ رہا ہے،اس حجرے میں اس بے سرو سامانی ساتھ کیسے گزارہ کرسکتا ہے؟ معاً میرے ذہن میں حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک الفاظ گونج گئے، (دنیا میں ایسے رہو جیسے تم ایک پردیسی ہو یا ایک مسافر)
مولانا مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے، اس وقت بھی طبعیت پر اختلاج کا اثر تھا، لیکن کافی دیر تک بڑے اثر انگیز انداز میں مسلمانوں کے باہمی افتراق کا ذکر کرتے رہے اور اسے ختم کرنے کی کچھ عملی تجاویز بتائیں۔فرمانے لگے:

’’ہم تو چند روزکے مہمان ہیں خدا جانے پھر ملاقات ہوگی یا نہیں، اب آ پ کے کام کر نے کا وقت ہے، خدا کے لئے اس افتراق کوختم کرنے کی کوشش کیجئے یہ ہماری تمام بیماریوں کی جڑ ہے۔ حضرت مفتی صاحب کی اللہ تعالیٰ عافیت کے ساتھ سلامت رکھے، ان سے میرا سلام کہئے، اور میری طرف سے کہہ دیجئے کہ اتحاد کی جس دعوت کو لیکر وہ چلے ہیں وہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اسے کسی قیمت پر نہ چھوڑیں۔’’

اس وقت نہ جانے کیوں باربار میرے دل میں دل میں یہ خیال آرہا تھا کہ شاید یہ مولانا ؒ سے آخری ملاقات،۔۔۔۔۔۔۔اور بالآ خر یہ ملاقات آخری ہی ثابت ہوئی۔ ایک سال بعد پھر ڈھاکہ جانا ہوا لیکن مولاناؒ خرابئی صحت کی بنا پر فرید پور میں تھے، ملاقات کی حسرت ہی لیکر واپس آگیا،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اب چند روز پہلے حضرت والد صاحب مدظلہم کی زبانی یہ اضطراب انگیز خبر سن ہی لی کہ مولاناؒ ہم سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہوگئے، ان کی بے چین روح مالک حقیقی سے جاملی اور ان کی ع

عمر بھر کی بے قراری کو قرار آہی گیا

علم وفضل کی دنیا میں کبھی کمی نہیں رہی، لیکن اخلاص اور دین کی سچی تڑپ وہ جنسِ گراں ہے جو کہیں خال خال ہی ملتی ہے۔ اس اعتبار سے مولاناؒ کی وفات ملّت کا ایسا نقصان عظیم ہے جسکی تلافی ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ مولاناؒ پر اپنی رحمتیں نازل فرما کر انہیں دارِآخرت کا سکون اور چین نصیب فرمائے، ان کے بعض صاجزادگان بھی عالم ہیں، امید ہے کہ انشاء اللہ وہ اپنے والد ماجد کے مشن کو سنبھال کر ان کے لئے ذخیرئہ آخرت ثابت ہوں گے، اللہ تعالیٰ انہیں صبر جمیل عطا فرمائے اور خدمت دین کی توفیق ارزائی فرمائے۔ آمین ثم آمین۔

(البلاغ جلد ۲ شمارہ ۱۲)