حضرت معاویہؓ اور عہد کی پابندی

اگر آج اس کی (وعدوں اور معاہدوں کی پاسداری کی مثال تلاش کریں تو اس دنیا میں ایسی مثالیں کہاں ملیں گی؟ ہاں ! محمد رسول اللہ ﷺ کے غلاموں میں ایسی مثالیں مل جائیں گی، انہوں نے یہ مثالیں قائم کیں ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ان صحابہ کرام میں سے ہیں جن کے بارے میں لوگوں نے معلوم نہیں کیا کیا غلط قسم کے پروپیگنڈے کئے ہیں ، اللہ تعالیٰ بچائے۔ آمین۔ لوگ ان کی شان میں گستاخیاں کرتے ہیں ، ان کا ایک قصہ سن لیجئے۔

فتح حاصل کرنے کے لئے جنگی تدبیر
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ چونکہ شام میں تھے، اس لئے روم کی حکومت سے ان کی ہروقت جنگ رہتی تھی، ان کے ساتھ برسرپیکار رہتے تھے اور روم اس وقت کی سپرپاور سمجھی جاتی تھی، اور بڑی عظیم الشان عالمی طاقت تھی، ایک مرتبہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ کرلیا، اور تاریخ متعین کرلی کہ اس تاریخ تک ہم ایک دوسرے سے جنگ نہیں کریں گے، ابھی جنگ بندی کے معاہدے کی مدت ختم نہیں ہوئی تھی۔ اس وقت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دل میں خیال آیا کہ جنگ بندی کی مدت تو درست ہے۔ لیکن اس مدت کے اندر میں اپنی فوجیں رومیوں کی سرحد پر لے جاکر ڈال دوں ، تاکہ جس وقت جنگ بندی کی مدت ختم ہو، اس وقت میں فوراً حملہ کردوں ۔ اس لئے کہ دشمن کے ذہن میں تو یہ ہوگا کہ جب جنگ بندی کی مدت ختم ہوگی۔ پھر کہیں جاکر لشکر روانہ ہوگا، اوریہاں آنے میں وقت لگے گا۔ اس لئے معاہدہ کی مدت ختم ہوتے ہی فوراً مسلمانوں کا لشکر حملہ آور نہیں ہوگا۔ اس لئے وہ اس حملے کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔ لہٰذا اگر میں اپنا لشکر سرحد پر ڈال دوں گا اور مدت ختم ہوتے ہی فوراً حملہ کردوں گا تو جلدی فتح حاصل ہوجائے گی۔

یہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے
چنانچہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی فوجیں سرحد پر ڈال دیں ، اور فوج کا کچھ حصہ سرحد کے اندر ان کے علاقے میں ڈال دیا، اور حملہ کے لئے تیار ہوگئے۔ اور جیسے ہی جنگ بندی کے معاہدے کی آخری تاریخ کا سورج غروب ہوا، فوراً حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے لشکر کو پیش قدمی کا حکم دے دیا چنانچہ جب لشکر نے پیش قدمی کی تو یہ چال بڑی کامیاب ثابت ہوئی، اس لئے کہ وہ لوگ اس حملے کے لئے تیار نہیں تھے۔ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا لشکر شہر کے شہر، بستیاں کی بستیاں فتح کرتا ہوا چلا جارہا تھا، اب فتح کے نشے کے اندر پورا لشکر آگے بڑھتا جارہا تھا کہ اچانک دیکھا کہ اب پیچھے سے ایک گھوڑا سوار دوڑتا چلا آرہا ہے، اس کو دیکھ کر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اس کے انتظار میں رک گئے کہ شاید یہ امیرالمؤمنین کا کوئی نیاپیغام لے کر آیا ہو، جب وہ گھوڑا قریب آیا تو اس نے آوازیں دینا شروع کردیں ۔

اَللّٰہُ اَکْبَرْ اَللّٰہُ اَکْبَرْ، قِفُوْا عِبَادَ اللّٰہِ! قِفُوْا عِبَادَاللّٰہِ!
اللہ کے بندو ٹھہرجائو، اللہ کے بندو ٹھہر جائو،

جب وہ اور قریب آیا تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ وہ حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ ہیں ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ

وَفَائٌ لاَغَدْرٌ وَفَائٌ لاَغَدْرٌ۔

مؤمن کا شیوہ وفاداری ہے، غداری نہیں ہے،عہدشکنی نہیں ہے، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے تو کوئی عہدشکنی نہیں کی ہے۔ میں نے تو اس وقت حملہ کیا ہے جب جنگ بندی کی مدت ختم ہوگئی تھی، حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگرچہ جنگ بندی کی مدت ختم ہوگئی تھی لیکن آپ نے اپنی فوجیں جنگ بندی کی مدت کے دوران ہی سرحد پر ڈال دیں اور فوج کا کچھ حصہ سرحد سے اندر بھی داخل کردیا تھا۔ اور یہ جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی تھی اور میں نے اپنے ان کانوں سے حضور اقدس ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ:

مَنْ کَانَ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ قَوْمٍ عَہْدٌ فَلاَیَحُلَّنَّہٗ وَلاَیَشُدَّنَّہٗ حَتّٰی یَمْضِیْ أَمَدُہٗ أَوْ یَنْبِذَ إِلَیْہِمْ عَلٰی سَوَائٍ۔ (ترمذی، کتاب الجہاد۔ باب فی الغدر۔ حدیث نمبر:۱۵۸۰)

یعنی جب تمہارا کسی قوم کے ساتھ معاہدہ ہو، تو اس وقت تک عہد نہ کھولے، اور نہ باندھے۔ یہاں تک کہ اس کی مدت گذر نہ جائے۔ یا ان کے سامنے پہلے کھلم کھلا یہ اعلان کردے کہ ہم نے وہ عہد ختم کردیا، لہٰذا مدت گزرنے سے پہلے یا عہد کے ختم کرنے کا اعلان کئے بغیر ان کے علاقے کے پاس لے جاکر فوجوں کو ڈال دینا حضور اقدس ﷺ کے اس ارشاد کے مطابق آپ کے لئے جائز نہیں تھا۔

سارا مفتوحہ علاقہ واپس کردیا
اب آپ اندازہ لگائیے کہ ایک فاتح لشکر ہے، جو دشمن کا علاقہ فتح کرتا ہوا جارہا ہے، اور بہت بڑا علاقہ فتح کرچکا ہے اور فتح کے نشے میں چور ہے۔ لیکن جب حضور اقدس ﷺ کا یہ ارشاد کان میں پڑا کہ اپنے عہد کی پابندی مسلمان کے ذمے لازم ہے۔، اسی وقت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حکم دیدیا کہ جتنا علاقہ فتح کیا ہے وہ سب واپس کردو، چنانچہ پورا علاقہ واپس کردیا اور اپنی سرحد میں دوبارہ واپس آگئے۔ پوری دنیا کی تاریخ میں کوئی قوم اس کی نظیر پیش نہیں کرسکتی کہ اس نے صرف عہد شکنی کی بناء پر اپنا مفتوحہ علاقہ اس طرح واپس کردیا ہو۔ لیکن یہاں پر چونکہ کوئی زمین کا حصہ پیش نظر نہیں تھا کوئی اقتدار اور سلطنت مقصود نہیں تھی بلکہ مقصود اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا تھا، اس لئے جب اللہ تعالیٰ کا حکم معلوم ہوگیا کہ وعدہ کی خلاف ورزی درست نہیں ہے، اور چونکہ یہاں وعدہ کی خلاف ورزی کا تھوڑا سا شائبہ پیدا ہورہا تھا۔ اس لئے واپس لوٹ گئے۔ یہ ہے وعدہ کہ جب زبان سے بات نکل گئی، تو اب اس کی خلاف ورزی نہیں ہوگی۔

(اصلاحی خطبات جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 165)
********