رمضان المبارک ہمدردی اورغمخواری کامہینہ ہے

اسی مہینے کورسول اللہ ﷺنے فرمایا {شَھْرُ الْمُوَاسَاۃِ}یہ غم خواری کامہینہ ہے،ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کے جذبات کوفروغ دینے کامہینہ ہے، اس میں جتنا ہوسکے دوسروں سے ہمدردی کی جائے،حدیث میں فرمایاہے کہ رمضان میں اپنے خادموں کابوجھ ہلکاکردو،ان پرایسی مشقت نہ ڈالوکہ جواُن کیلئے دُشواری کاسبب بنے اوراگرکوئی دُشوارکام اُن کوکہاہے توخوداُن کی مددکرو۔
اپنے اِردگرداورملنے جلنے والے لوگوں کے ساتھ ہمدردی اورخیرخواہی کا سلوک رکھو۔نبیِ کریم ﷺکے بارے میں حدیث میں آتاہے کہ رمضان کے اندر آپ ﷺ اتنے سخی ہوتے تھے کہ جیسے چلتی ہوئی ہواہوتی ہے کہ وہ ہرانسان کوسیراب کرتی ہے۔
اصل استقبالِ رمضان کاطریقہ
یہ سارے اعمال کرواکراللہ تعالیٰ سے ہمار ی دوری کوختم کرکے ہمیں اللہ تعالیٰ کے قریب لانامنظورہے،تواس رمضان کی تیاری اوراس کااستقبال یہ ہے کہ اس کواپنی ظاہری،باطنی میل چیل دورکرنے کامہینہ سمجھوکہ گیارہ ماہ میں ہم پرجودنیا کا گردوغبار چڑھ گیاہے،اس سے ہمیں پاک وصاف کرنامقصودہے کہ کم ازکم اس ماہ کے اندراپنی سوچ کارُخ آخرت کی طرف کرلیںتاکہ اللہ تعالیٰ سے جودوری ہوگئی ہے وہ قرب میں بدل جائے۔
اس کاطریقہ یہ ہے کہ رمضان کے مہینے میں اس بات کی کوشش کی جائے کہ زیادہ سے زیادہ وقت اصل عبادت میں کہ جس کیلئے ہم پیداکئے گئے ہیں،صَرف کیاجائے ، ایک عبادت براہِ راست عبادت ہے اورایک بالواسطہ عبادت ہے، بالواسطہ عبادت کرتے ہوئے توگیارہ ماہ ہوگئے،اب اس مہینے کے اندربراہِ راست اوربلاواسطہ عبادتوں کی طرف زیادہ توجہ کریں،خاص طورپرنفلی عبادتوں میں جوکہ اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ ہیں،ان کااہتمام عام دنوں سے زیادہ کیاجائے،پہلے سے اپنانظامُ الاوقات ایسابنائیں کہ ہماری دنیاوی مصروفیات کم سے کم ہوںاورآخرت کی مصروفیات زیادہ ہوں،جیسے کوئی آدمی جب سفرپرجاتاہے توپیچھے گھروالوں کاانتظام کرکے جاتاہے،اسی طرح اس ماہ میں اپنی دنیاوی مصروفیات کم سے کم کرکے آخرت کی طرف رغبت زیادہ کرنی چاہئے۔
نفلی عبادات اورتلاوت ِکلامِ پاک کی کثرت
اس ماہ میں فرائض اورسننِ مؤکدہ کے علاوہ نفلی عبادتوں کازیادہ اہتمام کرنا چاہئے،عام دنوں میں تہجد،اشراق،چاشت اوراوابین کی توفیق نہیں ہوتی توان دنوں میں اہتمام ہوجائے۔
اوابین کی چھ رکعتیں ہوتی ہیں لیکن احادیث میں بیس رکعتوں تک کاذکرآیا ہے،اسی طرح اشراق وچاشت کی نمازوں میں بھی کوئی تعدادمقررنہیں ہے،اورقرآنِ کریم کی تلاوت کوجتنازیادہ ہوسکے کیاجائے،نبیِ کریم ﷺحضرت جبرئیلِ امین علیہ السلام کے ساتھ رمضان المبارک میں قرآنِ کریم کادورفرمایاکرتے تھے،تلاوت بھی صحیح طریقے سے ہونی چاہئے،حروف کی ادائیگی کاصحیح کرناہرمسلمان کے ذمہ فرضِ عین ہے۔
ہمارے بزرگوں کی تلاوت ِ قرآن مجیدکے حوالے سے مختلف شانیں ہیں، بہت سے حضرات روزانہ ایک قرآنِ کریم ختم کرتے تھے،بہت سے حضرات عام دنوں کے مقابلے رمضان میں دوگنی تلاوت کرتے تھے،حضرت علامہ انورشاہ کشمیریؒ کے حالات میں مذکورہے کہ وہ عام دنوں جتنی تلاوت فرماتے لیکن باقی وقت قرآنِ کریم کے تدبرمیں خرچ فرماتے،یعنی اس کی تفسیر،معانی اورحقائق ومعارف میں غوروفکرزیادہ فرماتے،اسی کے نتیجے میں ’’مشکلات ِقرآن‘‘وجودمیں آئی۔
اہلِ علم اورعام مسلمان بھی اس مہینے میں قرآنِ کریم کی تفسیرکیلئے کچھ وقت نکالیں کہ تلاوت کے ساتھ ساتھ مستندترجمہ اورتفسیرسے اس کوسمجھنے کی کوشش کریں، کیونکہ قرآنِ کریم ایسی چیزہے کہ اگرکوئی اس کوڈھنگ سے پڑھ لے تواللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق اورقرب میں اضافہ کابہترین ذریعہ ہے۔
عبادتوں کے ساتھ گناہوں سے پرہیز
ان سب کاموں کے کرنے کے ساتھ ساتھ گناہوں سے بھی پرہیزضروری ہے، آنکھوں،کانوں اورزبان کی حفاظت بھی ضروری ہے،اس اہتمام کے ساتھ پہلے سے تیاری کی جائے اوراس اہتمام کے ساتھ یہ مہینہ گزاراجائے،اللہ تعالیٰ کی رحمت سے اُمید ہے کہ اس مہینے کاجومقصدہے،وہ حاصل ہوگا۔
نبیِ کریم ﷺنے فرمایا:
{ مَنْ سَلِمَ لَہٗ رَمَضَانُ سَلِمَتْ لَہٗ سَنَۃٌ }
جس شخص کا رمضان سلامتی سے گزرجائے تواِن شاء اللہ تعالیٰ پوراسال سلامتی سے گزرے گا۔
اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے ہم سب کوعمل کی توفیق عطافرمائیں۔آمین
وآخر دعوانا ان الحمدللّٰہ ربّ العٰلمین