fatawa-usmani-2

کیا موجودہ سائنسی تحقیقات قرآن و حدیث سے متعارض ہیں؟

سوال:- چاند، سورج اور سیاروں کے بارے میں موجودہ سائنس کی جو تحقیق ہے، کیا وہ قرآنِ کریم کی رُو سے دُرست ہے؟ یہاں بعض حضرات کہتے ہیں کہ سائنس اور قرآن و حدیث میں کوئی تعارض نہیں ہے، لہٰذا اس کی ہر بات دُرست ہے۔ اور بعض کا کہنا ہے کہ سائنس کے نظریات قرآن سے ٹکراتے ہیں، براہ کرم اس معاملے میں اپنی جامع و مانع رائے سے مطلع فرمائیے۔
جواب:- آپ کا سوال اپنے جواب کے لئے درحقیقت ایک مبسوط مقالے کی وسعت چاہتا ہے، تاہم اُصولی طور پر چند ضروری باتیں پیشِ خدمت ہیں۔ اُمید ہے کہ وہ آپ کی اُلجھن دُور کرنے میں مددگار ثابت ہوں گی۔
۱:- سب سے پہلے یہ بات سمجھ لیجئے کہ سائنس کا بنیادی مقصد ان قوّتوں کا دریافت کرنا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں ودیعت فرمائی ہیں۔ اگر ان قوّتوں کو انسانیت کی فلاح و بہبود میں استعمال کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ اسلام کی نظر میں نہ صرف جائز بلکہ مستحسن ہے۔ اسلام ان کوششوں کے راستے میں کوئی رُکاوٹ کھڑی کرنے کے بجائے ان کی ہمت افزائی کرتا ہے، اس سلسلے میں اسلام کا مطالبہ صرف اتنا ہے کہ ان قوّتوں کو ان مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے جو اسلام کی نظر میں جائز اور مفید ہیں۔ دُوسرے الفاظ میں سائنس کا کام یہ ہے کہ وہ کائنات کی پوشیدہ قوّتوں کو دریافت کرے، لیکن ان قوّتوں کا صحیح مصرف مذہب بتاتا ہے، وہی ان اکتشافی کوششوں کے لئے صحیح رُخ اور بہتر فضا مہیا کرتا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی اسی وقت انسانیت کے لئے مفید ہوسکتی ہے جب اسے اسلام کے بتائے ہوئے اُصولوں کے مطابق استعمال کیا جائے، ورنہ شاید اس سے کسی کو انکار نہیں ہوگا کہ سائنس جس طرح انسانیت کے لئے مادّی فلاح و بہبود کا باعث بن سکتی ہے، اسی طرح اگر اس کا غلط استعمال کیا جائے تو وہ ہمارے لئے تباہ کن بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ مثال ہمارے سامنے ہے کہ ماضی میں سائنس نے جہاں انسانیت کو راحت و آسائش کے اسباب مہیا کئے ہیں، وہاں اس کے غلط استعمال نے پوری دُنیا کو بدامنی اور بے چینی کا جہنم بھی بنادیا ہے۔ سائنس ہی نے سفر کے تیز رفتار ذرائع بھی ایجاد کئے اور اسی نے ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم بھی بنائے، لہٰذا سائنس کا صحیح فائدہ اسی وقت حاصل کیا جاسکتا ہے جب اسے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے اُصولوں کے مطابق استعمال کیا جائے۔
۲:- دُوسری بات یہ سمجھنے کی ہے کہ سائنس کی تحقیقات دو طرح کی ہیں۔ ایک وہ جو صریح مشاہدے پر مبنی ہیں، ایسی تحقیقات نہ کبھی قرآن و سنت سے متصادم ہوئی ہیں اور نہ ہوسکتی ہیں، بلکہ مشاہدہ تو یہ ہے کہ ایسی تحقیقات نے ہمیشہ قرآن و سنت کی تصدیق ہی کی ہے، اور قرآن و سنت کی بہت سی وہ باتیں جو کچھ عرصہ پہلے لوگوں کی سمجھ میں ذرا مشکل سے آتی تھیں، سائنس کی ان تحقیقات نے ان کا سمجھنا آسان بنادیا ہے، مثلاً معراج کے موقع پر بُراق کی جس تیزرفتاری کا ذکر صحیح احادیث میں آیا ہے، قدیم زمانے کے نام نہاد عقل پرست اسے بعید از قیاس سمجھتے تھے، لیکن کیا آج سائنس نے یہ ثابت نہیں کردیا کہ تیزرفتاری ایک ایسی صفت ہے جس کو کسی حد میں محدود نہیں کیا جاسکتا۔
دُوسری قسم کے سائنٹفک نظریات وہ ہیں جو مشاہدہ اور یقین کے بجائے ظن و تخمین پر یا کم علمی پر مبنی ہیں، اور اس سلسلے میں سائنس داں کسی یقینی نتیجے پر ابھی تک نہیں پہنچ سکے ہیں، ایسی تحقیقات بعض اوقات قرآن و سنت کی تصریحات سے ٹکراتی ہیں، ایسے مواقع پر سیدھا اور صاف راستہ یہ ہے کہ قرآن و سنت کی تصریحات میں کوئی تأویل کئے بغیر ان پر ایمان رکھا جائے، اور سائنس کی جو تحقیقات ان سے ٹکراتی ہیں ان کے بارے میں یہ یقین رکھا جائے کہ سائنس ابھی اپنی کم علمی کی بناء پر اصل حقیقت تک نہیں پہنچی، جوں جوں انسان کی سائنسی معلومات میں اضافہ ہوگا قرآن و سنت کے بیان کئے ہوئے حقائق واضح ہوتے جائیں گے۔
مثلاً بعض سائنسدانوں کا یہ خیال ہے کہ آسمان کا کوئی وجود نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کا یہ خیال اس بناء پر قائم نہیں ہوا کہ انہیں آسمان کے موجود نہ ہونے پر کوئی دلیلِ قطعی مل گئی ہے، بلکہ ان کے استدلال کا حاصل صرف یہ ہے کہ ہمیں آسمان کے وجود کا علم نہیں ہوسکا، اس لئے ہم اس کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے۔ دُوسرے الفاظ میں یہ خیال ’’علم عدم‘‘ کے بجائے ’’عدمِ علم‘‘ پر مبنی ہے ۔۔۔۔۔۔ لہٰذا ہم جو قرآن و سنت کی قطعیت پر ایمان رکھتے ہیں، پورے وثوق اور اعتماد کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ ان سائنسدانوں کی یہ رائے قطعی غلط ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ قرآن و سنت کی تصریح کے مطابق آسمان موجود ہے، مگر سائنس اپنی کم علمی کی بناء پر اسے دریافت نہیں کرسکی، اور اگر انسان کی سائنسی معلومات میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا تو عین ممکن ہے کہ سائنس دانوں کو اپنی اس غلطی کا احساس ہوجائے اور وہ اسی طرح آسمان کے وجود کو تسلیم کرلیں جس طرح بہت سی ان چیزوں کو تسلیم کیا ہے جن کا پہلے انکار کیا جاتا تھا۔
مشکل یہ ہے کہ ہمارے یہاں ہر چیز کو اس کے مقام پر رکھنے کی ذہنیت ختم ہوتی جارہی ہے، جب کسی چیز کی اہمیت ذہن پر سوار ہوتی ہے تو بسااوقات اس میں حدود سے تجاوز ہونے لگتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی نہایت مفید اور ضروری فنون ہیں، اور دورِ حاضر میں تو مسلمانوں کے لئے ازحد ضروری ہے کہ ان فنون کی طرف بطورِ خاص توجہ دے کر ان میں ترقی کی انتھک کوشش کریں، اس کے بغیر موجودہ دُنیا میں ان کے لئے اپنا جائز مقام حاصل کرنا ممکن نہیں رہا، لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ کوئی سائنسدان اپنے ظن و تخمین سے جس کسی نظریئے کا اعلان کردے اسے وحی کی طرح دُرست تسلیم کرلیا جائے، اور اس کی بناء پر قرآن و سنت میں تأویل و ترمیم کا دروازہ کھول دیا جائے، یا اس کی بناء پر قرآن و سنت میں شکوک و شبہات پیدا ہونے لگیں، خاص طور پر جب یہ شب و روز کا مشاہدہ ہے کہ سائنس کے اس قسم کے نظریات آئے دن بدلتے رہتے ہیں۔
۳:- یاد رکھئے کہ اسلام کا معاملہ عیسائیت سے بہت مختلف ہے۔ عیسائی مذہب میں اتنی جان نہیں تھی کہ وہ زمانے کی نت نئی ضروریات اور انسان کی بڑھتی ہوئی سائنٹفک معلومات کا مقابلہ کرسکتی، لہٰذا سائنس اس کے لئے ایک عظیم خطرہ بن کر سامنے آئی۔ اس کے لئے ضروری تھا کہ وہ کلیسا کے وقار کو سلامت رکھنے کے لئے یا تو سائنس کی مخالفت کرے یا اپنے مذہب میں رَدّ و بدل کرے۔ شروع میں رومن کیتھولک چرچ نے پہلے راستے کو اختیار کیا، اور چونکہ عوام پر اس کا اقتدار قائم تھا، اس لئے گلیلیو جیسے سائنسدانوں کو بے شمار رُکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا، لیکن جب کلیسا کا اقتدار ڈھیلا پڑا تو اَب اس کے لئے سوائے اس کے کوئی راستہ نہیں رہ گیا تھا کہ وہ اپنے مذہب میں ترمیم کرکے اس کی نئی تشریح و تعبیر کریں۔ چنانچہ اہلِ تجدّد (Modernism) کے مکتبِ فکر نے یہ راستہ اختیار کرلیا۔
لیکن یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ عیسائی مذہب کو انتہائی غیرفطری اور غیرمعقول بنیادوں پر کھڑا کیا گیا تھا۔ اسلام کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے، وہ دینِ فطرت ہے، اور عقل و خرد کی کوئی دلیل اسے چیلنج نہیں کرسکتی۔ اس میں زمانے کی ہر ضرورت کو پورا کرنے اور ہر دور کی تحقیقات کے ساتھ آنکھیں ملانے کی پوری صلاحیت ہے۔ لہٰذا ہمیں اسلام کے وقار کو سلامت رکھنے کے لئے سائنس کی مخالفت کی ضرورت ہے، نہ اسلام کو بدلنے کی، اس لئے کہ ہمارا ایمان یہ ہے کہ سائنس جس قدر ترقی کرے گی اور انسان کی سائنسی معلومات میں جتنا اضافہ ہوگا اسلام کی حقانیت اور واضح ہوتی چلی جائے گی، بشرطیکہ انسان کا نقطۂ نظر صحیح معنوں میں سائنٹفک رہے، اور وہ محض قیاس و تخمین کو یقین اور مشاہدے کا درجہ نہ دے بیٹھے۔
بس یہ ہے وہ بات جو علمائے دین کہتے ہیں، اس کا حاصل اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہر چیز کو اس کے صحیح مقام پر رکھنا چاہئے، جذباتی نعروں کی رو میں آکر حدود سے تجاوز کرجانا دانشمندی کا تقاضا نہیں ہے۔
حیرت ہے کہ اس معتدل اور سوفیصد معقول بات کی وجہ سے بعض حضرات مسلسل یہ تشہیر کر رہے ہیں کہ علمائ، سائنس اور ٹیکنالوجی کے مخالف ہیں، اور اس میدان میں ترقی کرنا ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ اس الزام کے جواب میں ہم یہ دُعا کرنے کے سوا کیا کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان حضرات کو فکرِ سلیم عطا کرے۔

واللہ سبحانہ اعلم
آخر جمادی الاولیٰ ۱۳۸۷ھ