fatawa-usmani-2

قصص القرآن کی فلم بندی کا شرعی حکم

سوال:- کیا فرماتے ہیں علمائے دین مندرجہ ذیل مسئلے کے بارے میں کہ ایک فلم قصص القرآن کے نام سے جاری کی گئی ہے، جس کے اندر مختلف قرآنی واقعات کو فلم کے طور پر پیش کیا گیا ہے، مثلاً بنی اسرائیل کے ذبح کا واقعہ، فرعون کے غرق ہونے کا واقعہ اور بنی اسرائیل کے خروج کا واقعہ، فلم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شبیہ نہیں دِکھائی گئی، بلکہ کسی اور شخص کی زبانی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اَحکام بنی اسرائیل تک پہنچائے گئے ہیں۔
ایسی فلم کو دیکھنے اور دِکھلانے کا شرعاً کیا حکم ہے؟ براہِ کرم مدلل بیان فرمائیں، عین نواز ش ہوگی۔
جواب:- قرآنِ کریم کے واقعات کی مصوّر فلم بنانا، دیکھنا اور دِکھانا ہرگز جائز نہیں، بلکہ قرآنِ کریم کی بے حرمتی کی بناء پر اس عمل میں شدید وبال کا اندیشہ ہے، اس کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:-
۱:- قرآنِ کریم کے مضامین جس عظمت و جلال کے حامل ہیں اس کا تقاضا یہ ہے کہ ان مضامین کو قرآنِ کریم ہی کے الفاظ میں پورے ادب و احترام کے ساتھ پڑھا، یا سنا جائے، اس کے برعکس پیشہ ور اداکاروں اور بہروپیوں کو مقدس قرآنی شخصیتوں کی مصنوعی شکل میں پیش کرکے ان سے قرآنِ کریم کے بیان کردہ واقعات کی مصنوعی نقالی کرانا، آیاتِ قرآنی کو کھیل تماشہ بنانے کے مرادف ہے، جو بنصِ قرآنی حرام ہے، آیت ہے:-

وَذَرِ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَھُمْ لَعِبًا وَّلَھْوًا وَّغَرَّتْھُمُ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا وَذَکِّرْ بِہٖ اَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌم بِمَا کَسَبَتْ لَیْسَ لَھَا مِنْ دُوْنِ اﷲِ وَلِیٌّ وَّلَا شَفِیْعٌ ۔۔۔۔ الخ۔
(سورۂ انعام:۷۰)

۲:- کوئی فلم جانداروں کی تصاویر سے خالی نہیں ہوتی، اور جانداروں کی تصاویر بنانا، دیکھنا اور دِکھلانا شرعاً جائز نہیں، لہٰذا قرآنی مضامین کو ایسے ذرائع سے پیش کرنا جو درجنوں احادیث کی رُو سے ناجائز ہے، نہ صرف حرام بلکہ قرآنِ کریم کی توہین کے مترادف ہے۔
۳:- واقعات کی فلم اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک اس میں عورتوں کے کردار نہ ہوں، چنانچہ مذکورہ فلم میں بھی کردار موجود ہیں، اور خواتین کے بے حجاب مردوں کے سامنے آنا یا ان کی تصاویر کا بلاضرورت نامحرَموں کو دِکھلانا قرآن و حدیث کی رُو سے بالکل ناجائز ہے، اور ناجائز کام کو قرآنِ کریم کے مضامین کو بیان کرنے کے لئے ذریعہ بنانا بھی نہ صرف حرام بلکہ معاذ اللہ قرآنِ کریم کی توہین کے مترادف ہے۔
۴:- کسی سچے سے سچے واقعے کو بھی جب فلم کی شکل دی جاتی ہے تو اس میں فلم ساز کے فرضی تخیلات کی آمیزش ناگزیر ہے، اس کے بغیر عموماً کوئی فلم تیار نہیں ہوسکتی، فلم ساز کو ایک مربوط فلم بنانے کے لئے لامحالہ واقعات کے خلاء کو اپنے فرضی قیاسات سے پُر کرنا پڑتا ہے، اور کچھ نہیں تو متعلقہ اشخاص کی شکل و شباہت، ان کی تعداد، ان کے انداز نشست و برخاست، ان کے اِردگرد پائے جانے والے ماحول، پسِ منظر اور ان کے عادات و خصائل کو لازماً قیاسی مفروضات کی بنیاد پر پیش کرنا پڑے گا، اور فلم میں ان سب باتوں کو قرآنِ کریم سے ممتاز نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا یہ سارے قیاسات قرآنِ کریم ہی کی طرف منسوب کئے جائیں گے جو قرآنِ کریم کی معنوی تحریف کے مشابہ ہے۔
زیرِ بحث فلم کے بارے میں بھی ذمہ دار فلم دیکھنے والوں نے بتلایا ہے کہ اس میں قرآنِ کریم کے بیان کردہ واقعات کے ساتھ بہت سی اسرائیلی روایات اور فرضی تخیلات کو قرآنی واقعات کے ساتھ شامل کردیا گیا ہے، اور جن ناواقف لوگوں کو قصص القرآن سے واقف کرانے کے موہوم شوق میں یہ فلم دِکھلائی جارہی ہے، ان کے لئے قرآن اور غیرِقرآن میں امتیاز کرنے کا کوئی راستہ نہیں، وہ اس سارے مجموعے ہی کو قرآنی مضامین سمجھیں گے اور ان کو قرآنِ کریم کے بارے میں اس سنگین غلط فہمی میں مبتلا کرنے کی ذمہ داری ان لوگوں پر ہوگی جو اس فلم کو بنانے یا دِکھانے کے ذمہ دار ہیں۔
۵:- قرآنِ کریم کے بیان کردہ واقعات میں بہت سے مقامات پر ایسے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جن کی ایک سے زیادہ تشریحات ممکن ہیں، اور ان میں سے کسی ایک تشریح کو یقینی اور قطعی طور پر کسی دُوسرے احتمال کے بغیر قرآنِ کریم کی حقیقی مراد قرار دینا جائز نہیں، مفسرین جب ایسی آیات کی تشریح کرتے ہیں تو عام طور سے ممکنہ احتمالات ذکر کردیتے ہیں، ورنہ کم از کم کسی نہ کسی صورت سے یہ واضح کردیتے ہیں کہ اتنی بات قرآنِ کریم کی ہے اور اتنی تفسیر کی، تاکہ قرآن کا غیرِ قرآن سے ملتبس ہونا لازم نہ آئے، یہ صورت فلم میں کسی طرح ممکن نہیں، بلکہ فلم ساز کے ذہن میں مذکورہ آیت یا واقعے کی جو تفسیر ہے صرف اسی کو لازماً قرآنی مضمون کی شکل میں اس طرح پیش کیا جائے گا کہ اس میں کوئی دُوسرا احتمال نہیں ہوگا اور فلم کے زور سے اسی تفسیر کا نقش ذہن پر اس طرح قائم کردیا جائے گا کہ گویا اس فلم میں بیان کردہ تصویر عینِ قرآن ہے، یہ صورت بھی قرآن اور غیرِ قرآن کے درمیان التباس پیدا کرنے کا موجب ہے، اس لئے بھی یہ فلم بالکل ناجائز ہے۔
۶:- فلم کا اصل منشاء تعلیم و تبلیغ نہیں ہوتا، بلکہ تفریحِ طبع اور کھیل تماشوں سے لذّت حاصل کرنا ہوتا ہے، لہٰذا اس فلم کو دیکھنے والے دراصل تفریحِ طبع کی غرض سے فلم دیکھیں گے نہ کہ علم، عبرت یا نصیحت حاصل کرنے کی غرض سے، جس کی واضح دلیل یہ ہے کہ اگر یہی مضامین اپنی اصلی صورت میں وعظ و تذکیر کے لئے بیان کئے جاتے تو یہ لوگ اس میں شریک ہونے کے لئے تیار نہ ہوتے، اور قرآنی مضامین کو سننے سنانے کا مقصدِ اصلی کھیل تفریح کو بنالینا کسی طرح جائز نہیں، بلکہ اس کا مقصدِ اصلی عبرت اندوزی ہے، اس کے ضمن میں تنشیط و تفریح بھی حاصل ہوجائے تو اور بات ہے، لیکن کھیل تفریح کو اصل قرار دے کر اسی کو مقصدِ اصلی بنالینا ہرگز جائز نہیں۔
مذکورہ بالا وجوہ کی بناء پر، نیز دُوسرے متعدّد مفاسد کے پیشِ نظر ایسی فلم بنانا، دیکھنا، دِکھانا سب ناجائز ہے، مسلمانوں کو اس سے سختی کے ساتھ پرہیز کرنا چاہئے اور حکومت کا بھی فرض ہے کہ نہ صرف یہ کہ ایسی فلمیں دِکھانے سے باز رہے بلکہ آئندہ اس قسم کی فلموں کی نمائش کا مکمل طور پر سدِ باب کرے۔

واللہ سبحانہ اعلم
احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ
۱۸؍۹؍۱۴۰۴ھ
(فتویٰ نمبر ۱۵۹۹/۳۵ د)
الجواب صحیح

الجواب صحیح الجواب صحیح الجواب صحیح
اصغر علی ربانی بندہ عبدالرؤف سکھروی محمد رفیع عثمانی عفی عنہ
۱۸؍۹؍۱۴۰۴ھ ۱۸؍۹؍۱۴۰۴ھ دارالافتاء دارالعلوم کراچی۱۴

——————————
(۱) وفی الدر المختار باب الحیض، ج:۱ ص:۲۹۳ (طبع ایچ ایم سعید) ویمنع قرائۃ قرآن ۔۔۔۔ ولا بأس لحائض وجنب بقرائۃ أدعیۃ ومسھا وحملھا وذکر اﷲ تعالٰی وتسبیح۔ مزید حوالہ جات اگلے صفحے کے حاشیہ نمبر۲ میں ملاحظہ فرمائیں۔
(۲) تفصیل اور دلائل کے لئے آگے صفحہ نمبر:۱۹۴ کا فتویٰ اور اس کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیں۔