حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی

یادیں

(بارہویں قسط )

علامہ عثمانی ،رحمۃ اللہ علیہ کے مزار کے پاس زمین
اس تعلیمی سال (۱۳۷۴ ؁ ھ مطابق ۱۹۵۵ ؁ ء )کے دوران ایک اہم واقعہ پیش آیا جس کا قدرے تفصیل کے ساتھ ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے :
اُس وقت تک کراچی میں دارالعلوم کے سوا کوئی اور بڑا مدرسہ نہیں تھا ، اس لئے طلبہ کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہاتھا، اور نانک واڑہ کی عمارت بہت تنگ پڑگئی تھی۔ہر شخص یہ ضرورت محسوس کرتا تھا کہ مدرسہ کسی کشادہ جگہ پر منتقل ہو۔ حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ سے زیادہ کس کو اس ضرورت کااحساس ہوسکتا تھا ، اس لئے وہ کسی بڑی جگہ کی تلاش میں تھے۔چنانچہ ایک طویل جدو جہد کے بعد اس کام کے لئے وہ کشادہ جگہ مل گئی جو شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی، رحمۃ اﷲعلیہ کے مزار کے قریب ایک کشادہ میدان کی سی شکل میں خالی پڑی ہوئی تھی ۔
اس زمین کے حصول اورپھر اُس سے دست برداری کا واقعہ چونکہ حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ کی زندگی کا عجیب واقعہ ہے جس کے بارے میں میں نے اپنے شیخ عارف باﷲحضرت ڈاکٹر عبدالحی صاحب عارفی اور حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری، رحمۃ اﷲعلیہما اور متعدد علماء کو یہ فرماتے ہوے سُنا ہے کہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ کا تنہا یہ عمل اُن کی عظمت کردار اور صدق واخلاص کا اعلیٰ مقام ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔ ابتک اس واقعے کی تفصیلات کہیں مطبوعہ ریکارڈ پر نہیں آئیں ، حالانکہ وہ انتہائی سبق آموز ہیں، اس لئے میں یہ واقعہ قدرے تفصیل سے عرض کرتا ہوں ۔
حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ حضرت علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی، قدس سرہ کے شاگرد اور تحریک پاکستان وغیرہ میں ان کے رفیق کار تو تھے ہی، اُس کے علاوہ اُن سے حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ کی دُور کی یہ رشتہ داری تھی کہ حضرت علامہؒ ہماری دادی صاحبہ، رحمہا اﷲتعالیٰ کو مُمانی کہا کرتے تھے۔ گویا حضرت والد صاحبؒ اُن کے کسی رشتے سے ماموں زاد بھائی تھے۔حضرت علاّمہؒ کو ان کے خاندان والے محبت میں "پھول ابا” اور ان کی اہلیہ محترمہ، رحمہا اﷲتعالیٰ کو” پھول امّاں "کہا کرتے تھے۔اُن کی کوئی اولاد نہیں تھی، ان کے بھائی جناب فضل حق صاحب فضلی مرحوم نے دینی علوم کے بجائے کچھ عصری تعلیم حاصل کی تھی جس کی بناپر وہ دیوبند کے محکمۂ ڈاک میں افسر تھے ۔اُنہی کی صاحب زادی کو حضرت علامہ ؒ نے منہ بولی بیٹی بنایا ہوا تھا جو مولانا محمد یحییٰ صاحب،رحمۃ اﷲعلیہ کے نکاح میں تھیں۔مولانا محمد یحییٰ صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ ایک قوی ّالاستعداد عالم تھے۔
حضرت علاّمہؒ کی وفات کے موقع پر ان کے مزار کے لئے جگہ اُس وقت کے وزیر اعظم جناب لیاقت علی خان صاحب مرحوم نے متعین کی تھی ۔مزار کے قریب ایک وسیع جگہ خالی پڑی تھی ۔ حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ کوایک طرف یہ خیال تھا کہ حضرت علاّمہؒ کے مزار سے متصل کوئی اُن کے شایانِ شان دارالعلوم قائم ہو، دوسرے حضرت علاّمہ، قدس سرہ کی پاکستان کے لئے جو خدمات ہیں ، اُن کے پیش نظر اُن کا حق ہے کہ اُن کی اہلیہ محترمہ، ان کی منہ بولی اولاد اور ان کے بھائی کوجو اُنہی کی وجہ سے پاکستان منتقل ہوئے تھے، اور ہندوستان میں اپنی جائیدادیں چھوڑ کر آئے تھے ، رہائش کی کوئی جگہ فراہم کی جائے ۔ چنانچہ حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ نے حضرت علاّمہؒ کے مذکورہ بالا اعزہ اور بعض دوسرے معززین کی طرف سے ایک درخواست حکومت کو دی تھی کہ اس جگہ پر حضرت علاّمہ عثمانی، قدس سرہ کی یادگار میں ایک دارالعلوم قائم کیا جائے، اور علامہؒ کے رشتہ داروں کو بھی اُس میں رہائش کیلئے جگہ دی جائے۔یہ درخواست چند اشخاص کی طرف سے تھی، اور جیساکہ حکومتی اداروں کا معمول ہے، وہ سرد خانے میں پڑی رہی، اور اُس پر کئی سال کوئی کارروائی نہ ہوسکی، یہاں تک کہ دارالعلوم کیلئے نانک واڑہ میں جگہ مل گئی۔جب یہ جگہ تنگ پڑی ،اور نئی جگہ کی ضرورت محسوس ہوئی، تو حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ کو یہ مشورہ دیا گیا کہ حضرت علامہ عثمانی، رحمۃ اﷲعلیہ کے مزار والی جگہ پر ابتک کوئی کارروائی اس لئے نہیں ہوئی کہ وہ چند اشخاص کی طرف سے انفرادی درخواست تھی۔اب چونکہ دارالعلوم محض ایک تصور نہیں ، بلکہ ایک باقاعدہ رجسٹرڈ ادارہ ہے، اس لئے اگر اُس کی طرف سے اس جگہ کو دارالعلوم کے لئے لینے کی درخواست دی جائے ،تو اُس کی کامیابی کی امید ہے۔چنانچہ حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ نے حضرت علاّّمہ ؒ کے اعزّہ کے علم میں لاکر کراچی کے چیف کمشنرکودارالعلوم نانک واڑہ میں مدعو کیا ،تاکہ وہ بذات خود جگہ کی تنگی اور دارالعلوم کی ضرورت کااندازہ کریں، اس موقع پر حضرت علاّّمہ عثمانی ،رحمۃ اﷲعلیہ کے مذکورہ اعزّہ بذات خود موجود تھے ، اور انہی کی موجودگی میں زبانی طورپر یہ تجویز پیش کی کہ دارالعلوم کووہ جگہ حضرت علاّّمہ ؒ کی یادگار کے طورپر الاٹ کردی جائے، اوراس میں حضرت علامہ ؒ کی اہلیہ اور اعزہ کو بھی رہائشی پلاٹ دئیے جائیں ۔ پھر ۳؍جولائی ۱۹۵۳ ؁ ء کو چیف کمشنر کے پاس درخواست دی، جو حضرتؒ کے اعزّہ کے علم میں تھی۔ مختلف حکام سے اس بارے میں بات چیت ہوتی رہی، اور چونکہ یہ معلوم ہوا کہ یہ کام میونسپل کارپوریشن کی قرارداد کے بغیر ممکن نہیں ہوگا، اس لئے ۵؍ جنوری ۱۹۵۴ ؁ ء کو اس مقصد کیلئے میونسپل کارپوریشن میں درخواست دی گئی، جس میں دارالعلوم کیلئے زمین الاٹ کرنے کے علاوہ یہ درخواست بھی شامل تھی کہ اسی کے ایک حصے میں حضرت علاّمہؒ کی اہلیہ محترمہ، منہ بولے داماد اور بھائی صاحب کو آٹھ آٹھ سوگز کے رہائشی پلاٹ دئیے جائیں۔ ان کے علاوہ حضرتؒ کے کچھ دور کے پانچ رشتہ داروں کے نام بھی اس فہرست میں شامل فرمادئیے گئے تھے جن کے لئے رہائشی پلاٹ کی درخواست دی گئی۔ (۱) چنانچہ ایک طویل جدو جہد کے بعد۳؍ مئی ۱۹۵۴ ؁ ء کو کارپوریشن کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے اس درخواست کی منظوری کی سفارش کی جس کے بعد کارپوریشن کے لینڈ مینجر آفس نے ۲۳؍ جولائی ۱۹۵۴ ؁ء کو کچھ شرائط کے ساتھ درخواست منظور کی، اور حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ کی طرف سے ان شرائط کو منظورکرنے کے بعد۱۶؍ نومبر ۱۹۵۴ ؁ ء کومیونسپل کارپوریشن نے اپنی ایک قراردادنمبر ۴۸۶ میں دونوں باتوں کی باضابطہ منظوری دیدی جس کی رُو سے سولہ ہزاردوسوگز دارالعلوم کو ، اوردوہزار پانچ سو اڑتالیس گز حضرت علاّمہؒ کی اہلیہ محترمہ اور حضرت علاّمہؒ کے دوسرے رشتہ داروں کو الاٹ ہونا تھا۔دارالعلوم کو جو زمین دی گئی وہ لیز پر تھی اور یہ کہا گیا تھا کہ لیز کی شرائط پوری نہ کرنے پر وہ حکومت واپس لے سکتی ہے، لیکن جو رہائشی پلاٹ حضرت علاّمہؒ کی اہلیہ اوررشتہ داروں کو دئیے جانے تھے ، وہ مالکانہ حقوق کے ساتھ تھے۔ اسی میں حضرت والدصاحب ؒکوبھی بحیثیت صدر دارالعلوم اور حضرت مولانا نوراحمد صاحب ؒ کو بحیثیت ناظم دارالعلوم بالترتیب آٹھ سو اور پانچ سوگز کے پلاٹ دئیے جانے کی بھی منظوری دی گئی، لیکن حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ نے ایک درخواست دی کہ وہ اور مولانا نوراحمد صاحب ؒ اپنی ذاتی رہائش کے لئے کوئی زمین یہاں لینا نہیں چاہتے ، لہٰذا جوزمین ان کو شخصی طورپر دینا طے ہوا ہے ، وہ بھی دارالعلوم ہی کو دیدی جائے ۔
قانونی اعتبار سے اس قرارداد پر عمل کیلئے اُسے چیف کمشنر کراچی کے پاس بھیج دیا گیا۔چیف کمشنر نے اپنی منظوری میں لکھا کہ سولہ ہزاردوسوگز زمین دارالعلوم کو دی جاتی ہے ، اور میونسپل کارپوریشن نے جو رہائشی پلاٹ حضرت علامہؒ کی اہلیہ محترمہ اور ان کے داماد اور بھائی کے لئے مخصوص کئے ہیں ، ان کی بھی منظوری دی جاتی ہے ، لیکن جو پلاٹ صدر دارالعلوم حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ (صدر دارالعلوم کراچی) اور مولانا نوراحمد صاحب ؒ(ناظم دارالعلوم کراچی) کے لئے مخصوص کئے گئے ہیں ، چونکہ انہوں نے خود اس سے دستبرداری کی درخواست دی ہے، اس لئے وہ پلاٹ بھی دارالعلوم کو دئیے جاتے ہیں۔البتہ ان کے علاوہ حضرت علامہؒ کے جوپانچ دُور کے رشتہ دار ہیں ، ان کو رہائشی پلاٹ دینا منظور نہیں۔(کراچی میونسپل کارپوریشن کے لینڈ مینجر آفس سے کارپوریشن کی قرار دادکے ساتھ چیف کمشنرکا یہ حکم نامہ۷؍ دسمبر ۱۹۵۴ ؁ء کوL.c.g.L 1.54 کے نمبرپرجاری ہوا جو اپنے تمام متعلقہ کاغذات کے ساتھ دارالعلوم میں محفوظ ہے۔)
قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ نے اس جگہ پر مدرسہ بنانے کا اعلان فرمادیا۔اس احاطے پر”دارالعلوم کراچی بیادگارشیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی” کا بورڈ بھی لگ گیا۔حضرت مولانا نوراحمد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ کو اﷲتعالی نے انتھک محنت ،مہم جوئی اور بڑے بڑے مشکل کام جلد ازجلد کرنے اور کروانے کا خاص وصف عطا فرمایا تھا۔انہوں نے ہی اس زمین کی منظوری حاصل کرنے کے لئے دن رات ایک کردئیے تھے، اور جب زمین مل گئی، تو انہوں نے ہی کچھ عارضی کمرے اس غرض کے لئے جلدی جلدی بنالئے کہ وہاں سے تعمیری کام کی نگرانی کی جاسکے، اور ہر وقت رابطے کی آسانی کے لئے وہاں ٹیلی فون بھی لگوالیا ، اور بقدر ضرورت بجلی کا کنکشن بھی حاصل کرلیا۔
لیکن حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ کی خواہش تھی کہ مدرسے کی تعمیر کا باقاعدہ افتتاح ملک کے اہل اﷲعلماء سے کرایا جائے ۔چنانچہ حضرت مولانامفتی محمدحسن صاحب ، حضرت مولانا محمد ادریس صاحب کاندھلوی اور حضرت مولانا احمد علی صاحب لاہوری، رحمہم اﷲتعالی کو لاہور سے ، حضرت مولانا خیر محمد صاحب، رحمۃ اﷲ علیہ کو ملتان سے ، حضرت مولانا اطہر علی صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ کو مشرقی پاکستان سے دعوت دی گئی، اوراتوار ۲۶؍اور پیر ۲۷؍جمادی الثانیہ ۱۳۷۴ ؁ ھ مطابق۲۰؍ اور ۲۱؍فروری ۱۹۵۵ ؁ ء کو ایک دو روزہ سالانہ جلسے کا اعلان کر دیا گیاجس میں نئی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا جائے۔
حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ مہتمم دارالعلوم دیوبند کو بھی حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ نے ایک خط کے ذریعے اس جلسے میں شرکت کی دعوت دی جس کے جواب میں حضرت ؒ نے تحریر فرمایا:
دفتر دارُ العلوم دیوبند ضلع سہارنپور
مخدوم برادرم ،زید مجدکم العالی
سلام مسنون نیاز مقرون ۔ مکرمت نامہ نے سرفراز فرمایا، سب سے پہلے تو اس مژدۂ جانفزا (تاسیس دارالعلوم )پر اپنی انتہائی خوشی اور اس کے ساتھ ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں ۔ اثناء قیام کراچی میں کئی دارالعلوموں کے نام کان میں پڑتے تھے ۔بعضے قائم ہوئے، بعضوں کے قائم کرنے کے لوگ خواب دیکھ رہے تھے، اور ان سب کو حضرت مولانا شبیر احمد صاحب ، رحمۃ اﷲعلیہ کے منصوبہ کی طرف منسوب کر نے کے ارادے ظاہر کرتے تھے ۔لیکن یہ عجیب بات ہے کہ ان منصوبوں کو اس نسبت کے ساتھ دل کبھی قبول نہیں کرتا تھا ، دل میں یہ چیز جمی ہوئی تھی کہ اس منصوبہ کے تحت اگر دارالعلوم قائم ہوگا تو وہ صرف مولانا مفتی محمد شفیع صاحب قائم کریں گے ۔ جب آپ نے بھی دارالعلوم کے قیام کی اطلاع فرمائی ،او راس کے بارہ میں ایک مختصر سا ٹریکٹ بھی آیا ، تو دل خوشی سے باغ باغ ہو گیا کہ اُس منصوبہ نے صحیح معنی میں آج جنم لیا ہے، اور اب یہ آگے بڑھے گا ۔ اور اس ناچیز کا تصور صحیح ہو گیا۔ ساتھ ہی اپنے دل میں خواہ مخواہ یہ منصوبہ بھی جما لیا تھا کہ یہ دارالعلوم اُسی جگہ قائم ہونا چائیے جس جگہ کو مولانا مرحوم نے اپنی خوابگاہ بنایا ہے ۔اُس جگہ کو دیکھ دیکھ کر گویا لالچ آتا تھا کہ یہ جگہ گویا دارالعلوم ہی کو تک رہی ہے، حق تعالیٰ کا شکر ہے کہ آج اُس نے یہ مژدہ بھی سنا دیا کہ منصوبہ صاحب ِمنصوبہ کے قریب ہو گیا، اور دارالعلوم وہیں پہنچ گیا جہاں سے اُسے روحانی طور پر ہر وقت کمک ملیگی ۔
دارالعلوم دیوبند بھی پہلے جاری ہوا تھا پھر عمارت کی تاسیس ہوئی تھی ، وہی نقشہ اِ س دارالعلوم کا بھی ہو رہا ہے ۔یہ مشابہت فال نیک ہے ۔ اُس دارالعلوم کو اگر اُس وقت کے ممتاز ارباب اخلاص نے قائم کیا تھا ، تو اِ س دارالعلوم کو بھی اُن کے سچے جانشین قائم کر رہے ہیں جو علم وعمل میں اُن کے پیرو اور جانشین ہیں ۔
میری انتہائی کوشش ہوگی کہ میں اس مبارک تقریب میں شامل ہوں ، لیکن آپ جانتے ہیں کہ قبضہ کی بات نہیں ہے اور وہ بھی بقید وقت ۔دعاء فرمادیں کہ حق تعالیٰ کامیاب فرمائے ۔ السعی منا والا تمام من اﷲ ۔
میری طرف سے اس یاد فرمائی کا شکریہ جناب اور حضرات ممبران دارالعلوم قبول فرماویں ۔ سب مل کر دعاء کازور لگادیں تو تیسیر عسیر ہوجائے گی، سعی اپنے دل کے جذبہ سے ہوگی ۔ خلیفہ جی (۱)کی خدمت بابرکت میں سلام مسنون ۔ بچوں کو دُعاء ۔ والدہ صاحبہ اور بھاوج صاحبہ کی خدمت میں سلام مسنون واستدعاء دُعاء ۔ والسلام
محمد طیب
از دیوبند ۲۷؍۵ ۱۳۷۴ ھ

حضرت مولانا محمد ادریس صاحب کاندھلوی ،رحمۃ اﷲعلیہ نے تحریر فرمایا:
مخدوم ومحترم دامت، فیوضکم وبرکاتکم
بعد تحیۂ مسنونہ آنکہ گرامی نامہ صادر ہوا موجب صد مسرت ہوا، ان شاء اﷲتعالیٰ، دل وجان سے حاضر ہوں گا ، مگر درخواست ایک تو یہ ہے کہ اگر کوئی مضمون متعین فرمادیں کہ اس موضو ع پر وعظ کرنا ہوگا، تو اس کو سوچ لوں، جب فاروق اعظم ؓ تقریر سے پہلے ” زوّرتُ فی نفسی مقالۃً ” فرمادیں، تو ہم جیسے نابکاروں کا کیا ذکر ۔
دوم یہ کہ جلسہ اگر حضرت مولانا عثمانی مرحوم کے مزار کے سامنے ہو تو بہتر ہے ۔
سوم یہ کہ اس ناچیز کو دو دن میں فارغ فرمادیں، تاکہ جنا ب والا سے فارغ ہو کر دوسرا کوئی کام کر سکوں۔ جواب باصواب کا منتظر ہوں ۔
والسلام
محمد ادریس غفر لہ
حضرت مولانا خیرمحمد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ نے تحریر فرمایا:
دفتر مدرسہ عربیۂ خیر المدارس ملتان شہر ( پاکستان )

مخدومی مکرمی حضرت مفتی صاحب، دامت برکاتہم
السلام علیکم ورحمۃ اﷲوبرکاتہ
طلب خیریت کے بعد عارض ہوں کہ :
گو فروری میں اسقد رطویل وعریض سفر بہت دشوا رنظر آرہا ہے مگر بقول ” الضرورات تبیح المحظورات ” ،تعمیلاً للارشاد ۱۸؍ فروری ۱۹۵۵ ؁ء بروز جمعہ پنجاب سے روانہ ہو کر ۱۹؍ فروری بروز شنبہ کراچی شہر ان شاء اﷲتعالیٰ پہنچوں گا ۔ اور مدرستہ الاسلام سندھ میں مولوی آفتاب احمد صاحب کے پاس قیام کروں گا۔آپ کی خدمت میں کسی وقت خود حاضر ہوجاؤںگا ۔ آپ استقبال کا کوئی اہتمام نہ فرماویں۔والسلام
طالب دعا احقر خیر محمد عفی عنہ از ملتان
۱۲؍ فروری ۱۹۵۵ ء
حضرت مولانا احمد علی صاحب لاہوری، رحمۃ اﷲعلیہ نے تحریر فرمایا:
انجمن خدّام الدّین
شیرانوالہ دروازہ لاہور
مخدومی ومخدوم العلماء والفضلاء حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب، دامت برکاتکم
السلام علیکم ورحمۃ اﷲوبرکاتہ
دارالعلوم کے قیام کے لئے زمین کا مل جانا ایک نعمت ہے ۔ ان شاء اﷲتعالیٰ مسلمانوں کے لئے یہ سرزمین باعث ہدایت ہوگی ، بارگاہ الٰہی سے بصد عجز ونیاز دُ عا کرتا ہوں کہ اﷲتعالیٰ آپ کی مبارک زندگی میں اسے انتہائی تکمیل تک پہنچائے، اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے یہ چشمۂ آبِ حیات طلباء علوم دینیہ کو سیراب کرتا رہے ، اور ہمیشہ اس سرزمین سے خدا پرست مقبول بارگاہ الٰہی علماء کرام پیدا ہوتے رہیں ۔ وما ذلک علی اﷲ بعزیز ۔
اپنی مجبوریوں کی بناء پر حاضری سے معذور اور جناب والا سے معافی کا خواستگار ہوں ۔ احقر الانام احمد علی عفی عنہ
حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ کے استاذ حضرت مولانا رسول خان صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ نے تحریر فرمایا:
گرامی خدمت جناب مولانا صاحب ، دامت فیوضکم وبرکاتکم
السلا م علیکم ورحمۃ اﷲوبرکاتہ
گرامی نامہ پہنچا۔ باعث صد افتخار وعزت ہوا ، حق تعالیٰ جنا ب کے ترقیا ت دینی ودنیاوی کا سلسلہ غیر محدود فرمائے ۔ آمین ۔
میں بسر وچشم حاضری کیلئے تیار ہوں ، اس بنیاد میں شرکت سعادت سمجھتا ہوں ۔ مگر جنا ب کو لڑکی کا مقدمہ معلوم ہے ۔۷؍ فروری ۱۹۵۵ ؁ ء میں تاریخ ہے۔ یہ تاریخ اگر حاضری سے مانع نہ ہوئی تو اس سعادت میں ضرور شریک ہوں گا، ان شاء اﷲتعالیٰ ۔
جناب سفر خرچ نہ ارسال فرمائیں ۔اگر مانع نہ ہوا ، تو اس بنیاد کے شرف سے محروم نہ ہوںگا ، جناب کی یاد فرمائی کا بیحد شکر گزار ہوں ۔ والسلام مع الاکرام
مکرمی جناب حاجی وجیہ الدین صاحب سے اگر ملاقات ہو تو میری طرف سے السلام عرض کردینا ۔
محمد رسول خان عفا عنہ الرحمن
امام العصر حضرت علامہ انورشاہ صاحب کشمیری ،رحمۃ اﷲعلیہ کے صاحب زادے مولاناازہرشاہ قیصر صاحب ؒ نے تحریر فرمایا:
حضرت المحترم، دام فضلکم، سلام مسنون
دارالعلوم کراچی کی روداد اور جلسہ کا دعوت نامہ ملا ، دلی شکریہ عرض کرتا ہوں ، عمارت سے متعلق اعلان دلجمعی سے پڑھا ۔ میری رائے کیا ؟ لیکن اتنا ضرور عرض کروں گا کہ کسی وقت جماعت دیوبند کا ایک حصہ کٹ کر گجرات وکا ٹھیا واڑوالوں تک گیا اور اس نے افریقہ تک دین کی اشاعت کی ، تو دوسری دفعہ وہ افراد اس جماعت کے لئے اس پر مامور کئے گئے کہ وہ نومولود سلطنت میں اسلامی شعائرکو محفوظ کر دیں۔ خوش قسمت ہے وہ زمین جس نے مولانا عثمانی کے لئے اپنی آغوش کھولدی ، اور خوش نصیب ہے وہ خطہ جسے مولانا مفتی محمد شفیع صاحب کی کام کرنے والی شخصیت میسر آئی ،اہل پاکستان اگر غو رکریں تو ان کے یہاں دارالعلوم کی تعمیر وتأسیس کے سلسلہ میں ایک بڑا کام ہور ہا ہے جس میں امیر وغریب سب کو اپنی وسعت کے مطابق حصہ لینا چاہئے ۔
امید ہے کہ آپ کے مزاج گرامی بعافیت ہوں گے ، والدہ صاحبہ محترمہ سلام فرماتی ہیں ۔والسلام
سید محمد ازہر شاہ قیصر

چنانچہ جن حضرات نے وعدہ فرمایا تھا ، وہ تشریف لائے۔ جلسے میں جہاں اکابر کے خطابات ہونے تھے وہاں دارالعلوم کے طلبہ کی بھی تقریریں اور مکالمے رکھے گئے تھے۔ میری عمر بارہ سال تھی ، اور مجھے استاذ احمد الاحمد نے بڑی محبت سے ایک عربی تقریر کی تیاری کرائی تھی، اور شاید طلبہ کے ایک عربی مکالمے میں بھی مجھے شامل کیا تھا ۔اپنی کم عمری کے باعث میری تقریر کی بڑی ہمت افزائی کی گئی۔
اجلاس کی پہلی نشست۲۰؍ فروری کو سعودی عرب کے سفیر جناب عبد الحمید الخطیب، رحمۃ اﷲعلیہ کی صدارت میں رکھی گئی تھی جو بذات خود ایک اچھے عالم تھے ۔دوسری نشست حضرت مولانا خیر محمد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ کے زیر صدارت تھی، تیسری نشست ۲۱؍ فروری کو حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ کے زیر صدارت اور چوتھی نشست حضرت مولانا اطہر علی صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ کے زیر صدارت تھی۔ اس کے علاوہ حضرت مولانا محمد ادریس صاحب کاندھلوی ،رحمۃ اﷲعلیہ حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کوئٹہ سے خلیفہ عبدالحق صاحب اور صوبہ سرحد سے حضرت مولانا شیرمحمد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ نے بھی جلسے سے خطاب فرمایا۔ان کے علاوہ مرکزی وزراء میں سے جناب سردار عبدالرب نشتر صاحب ، ابوحسین سرکارصاحب اور ڈاکٹر مالک صاحب نیز اسپیکر دستور ساز اسمبلی جناب مولوی تمیزالدین صاحب ، شام کے سفیر جناب جواد المرابط صاحب ،رحمہم اﷲتعالی نے بھی شرکت فرمائی۔
۲۱؍ فروری ۱۹۵۵ ؁ ء کے روزنامہ جنگ میں پہلے دن کے جلسے کی یہ خبر شائع ہوئی:
دارالعلوم کے لئے ۹۳ہزار کے عطیات کا اعلان
"کراچی۔ ۲۰؍ فروری۔ آج دارالعلوم کراچی کا افتتاحی اجلاس عام زیر صدارت سفیر سعودی عرب السید عبد الحمید الخطیب منعقد ہوا جس میں کراچی کے شہریوں کی بیشتر تعداد کے علاوہ پاکستان کے مختلف علاقوں کے مقتدر علماء جن میں مولانا مفتی محمد حسن ( لاہور ) مولانا خیر محمد ( ملتان ) خلیفہ عبد الحق (کوئٹہ ) مولانا اطہر علی صد رنظام الاسلام پارٹی ( مشرقی پاکستان ) اور مقامی علمائے کرام شامل تھے ۔ سفیر شام جناب جواد المرابط صاحب ، مولوی تمیز الدین خاں صاحب اور سردار عبد الرب نشتر صاحب بھی شریک جلسہ ہوئے ، نئے طریقۂ تعلیم سے عربی سیکھے ہوئے طلباء نے عربی زبان میں تقریریں کیں ۔ (۱) جسے سامعین نے بہت پسند کیا ، صدرنے اپنی تقریر میں اسلامی علوم کی تحصیل وترقی کے لئے قیام دارالعلوم پر دلی مسرّت کا اظہار کیا ، علم کی اہمیت وفضیلت واضح کی، اور دارالعلوم کی کامیابی کے لئے دعا کی۔ جلسۂ عام میں کراچی کے ایک تاجر جناب سیٹھ عبد اللطیف باوانی نے دارالعلوم کی تعمیر کیلئے ۹۳؍ ہزار روپے عطیہ کا اعلان کیا ۔صدر کی تقریر سے پہلے مولانا محمد ادریس صاحب کاندھلوی شیخ الحدیث (جامعہ اشرفیہ لاہور) اور استاد احمد الاحمد شامی نے تقریریں کیں۔اجلاس کی دوسری نشست بعد عشاء منعقد ہوئی ۔تیسری نشست آج ّڈھائی بجے دن سے ۵ بجے تک ہو ئی ۔ او رچوتھی نشست آج بعد عشاء منعقد ہوئی جس میں مولانا مفتی محمد حسن اور دیگر علما نے تقاریر کیں”۔ (روزنامہ جنگ ۲۱؍ فروری ۱۹۵۵ ؁ ء)
لیکن اچانک یہ حادثہ پیش آگیا کہ حضرت علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی، قدس سرہ کے رشتہ داروں کے درمیان کسی نے یہ غلط فہمی پھیلادی کہ یہ جگہ جو حضرت علامہؒ کے مزار کے قریب ہے ، اس پر سب سے پہلا حق تو آپ حضرات کا ہے ۔ مفتی محمد شفیع صاحب ؒ آپ کا حق غصب کررہے ہیں ، لہٰذا انہیں اس سے روکا جائے۔جن حضرات نے اس معاملے کو بڑھا چڑھاکر ہوا دی، اُن کی تحقیق میں پڑنا اس لئے مناسب نہیں ہے کہ اب وہ حضرات اﷲتعالیٰ کے پاس پہنچ چکے ہیں، اﷲتعالیٰ ان کی مکمل مغفرت فرمائیں۔لیکن بات یہاں تک پہنچی کہ حضرت شیخ الاسلام ، قدس سرہ، کی اہلیہ محترمہ جو خالص گھریلو خاتون تھیں، اور دنیا کے معاملات سے انہیں سروکار نہیں تھا ، ان کے بھی کان بھرے گئے ، اورا ن کی طرف سے لکھ کرجنگ اخبار میں ایک مراسلہ شائع کیا گیا، اور ایک پوسٹر بھی حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ کے خلاف شائع کیا گیا۔
جب حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ، کو علم ہوا ، تو وہ حضرت علامہ ؒ کی اہلیہ محترمہ کی خدمت میں گئے، اور صورت حال کی وضاحت کی کوشش کی، لیکن وہ ایک سادہ لوح اور گھریلو خاتون تھیں جن کے دل میں بے اعتمادی کی فضا پیدا کی جاچکی تھی، اس لئے انہوں نے کوئی مثبت جواب نہیں دیا ، اور آخرکارنوبت یہاں تک پہنچی کہ جس جگہ مدرسے کاافتتاحی جلسہ ہورہا تھا اخبارات میں شائع ہوا کہ وہ وہاں خودپہنچ کر احتجاج کریںگی ۔
یہ بات میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ جب چیف کمشنر کو دارالعلوم میں بلایا گیا تھا ،اُس وقت حضرت علامہ عثمانی رحمۃ اﷲعلیہ کے مذکورہ اعزہ کی موجودگی میں زبانی طورپر یہ تجویز پیش کی گئی تھی کہ دارالعلوم کووہ جگہ حضرت علامہ ؒ کی یادگار کے طورپر الاٹ کردی جائے۔اور پھر ۳؍جولائی ۱۹۵۳ ؁ ء کو چیف کمشنر کے پاس درخواست دی، جو حضرتؒ کے اعزّہ کے علم میں تھی، اور اُ س وقت ان کی طرف سے کوئی اعتراض نہیں کیا گیا تھا ۔اب جبکہ تمام مراحل ان کے سامنے طے کرلئے گئے ، تو اچانک یہ اعتراض کھڑا کردیا گیا۔
جب حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ نے یہ سُنا تو انہوں نے ایک ایسا فیصلہ کرلیا جو آج کے ماحول میں تقریباً ناقابل تصور تھا۔ حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ نے فرمایا کہ میں اﷲتعالیٰ کی رضا کی خاطر مدرسہ کھول رہا ہوں، کوئی تجارتی دوکان نہیں ۔اور میں اپنے استاذ کی اہلیہ کو ناراض کرکے مدرسہ بنانا نہیں چاہتا، لہٰذا اس جلسے میں دارالعلوم کا سنگ بنیاد نہیں رکھا جائے گا ، البتہ چونکہ دور دراز سے بڑے مقتدر علماء کرام اور زعمائے ملت جلسے میں شریک ہونے کے لئے آچکے تھے، اس لئے یہ فرمایا کہ جلسہ بدستور جاری رہے گا ، تاکہ لوگ ان بزرگوں کے خطابات سے مستفید ہوسکیں، لیکن یہ مدرسے کے سنگ بنیاد کا جلسہ نہیں، بلکہ ایک عام سالانہ جلسہ ہوگا، اور جب تک اس اٹھائے ہوئے تنازعے کا تصفیہ حضرتؒ کی اہلیہ محترمہ کی رضامندی سے نہیں ہوجاتا یہاں مدرسے کی تعمیر ملتوی رہے گی۔
چنانچہ روزنامہ نئی روشنی کے ۲۳؍ فروری ۱۹۵۵ ؁ ء کے شمارے میں جلسے کے بارے میں یہ خبر شائع ہوئی:

دین او رقوم کی خدمت نہ کرنے والا تاجر کُفران نعمت کا مُجرم ہے
دارالعلوم کے اجلاس میں عربی کے مسائل پر غور
کراچی ۲۲؍ فروری (نامہ نگار خصوصی ) دارالحکومت پاکستان میں جامع ازہر کے طریقہ پر عظیم الشان اسلامی درسگاہ دارالعلوم کی جدید عمارت بیاد گار شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی ،رحمۃ اﷲعلیہ کے تعمیری کام کے افتتاح کا اعلان ہزا کسلنسی سید عبد الحمید الخطیب سعودی سفیر متعینہ پاکستان نے ایک عظیم الشان تقریب میں کیا جس میں تمام پاکستان کے جیّد علماء اور فضلاء نے شرکت کی ۔ ان میں حضرت مولانا اطہر علی صاحب ، صد رجمعیۃ علمائے اسلام ونظام اسلام پارٹی مشرقی پاکستان ، مولانا خیر محمد صاحب ملتان ، مفتی محمد حسن صاحب پنجاب ، حضرت شیخ الحدیث علامہ محمد ادریس قاسمی لاہور ، شیخ القراء قاری حامد حسین صاحب ، حضرت خلیفہ عبد الحق صاحب بلوچستان ، حضرت مولانا شیر محمد صاحب سرحد وغیرہ وغیرہ ۔
اکابر علماء اور مولوی تمیز الدین خان صاحب ، سردار عبد الرب نشتر ، ابو الحسین سرکار وزیر مرکزیہ ڈاکٹر عبدالمطلب مالک وزیر مرکزیہ ، سید امین المصری ، ہزایکسی لنسی سفیر شام ، سیٹھ عبد اللطیف باوانی ، مسٹر اے ایم قریشی سابق صدر مسلم لیگ وصدر اخوان پاکستان خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ مولانا مفتی محمد متین الخطیب نے نظام نامۂ عمل پیش کیا ،اور مختصر روئیداد سالانہ پیش کی جس میں بتایا گیا کہ یہ دارالعلوم بیاد گار حضرت شیخ الاسلام علامہ شبیر عثمانی ایک ٹرسٹ کے تحت قائم کیا جا رہا ہے ، جس میں سیٹھ باوانی حکیم حافظ محمد سعید مالک ہمدرددواخانہ ، خان بہادر فضل کریم ، خان بہادر حاجی وجیہ الدین ، سیٹھ حاجی شریف ، حاجی ابراہیم ، مفتی محمد شفیع صاحب ٹرسٹی ہیں ، اور یہ ٹرسٹ رجسٹرڈ ٹرسٹ ہے جسے حکومت پاکستان نے محاصل سے معاف کیا ہے ۔ یہ اراضی میونسپل کارپوریشن نے بہ سفارش آنریبل چیف کمشنر اسی رجسٹر ڈ ٹرسٹ کے نام الاٹ کی ہے ۔ حکومت نے اسی دارالعلوم سے علیحدہ آٹھ سو گز اراضی شیخ الاسلام کی بیوہ بیگم صاحبہ اور۸ ؍ سو گز اراضی شیخ الاسلام کے بھائی کو مرحمت فرمائی ہے ۔
کارروائی کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا ، اور دارالعلوم کی تحریک ترویج عربی کے سلسلہ میں مختلف حضرات نے عربی میں تقریریں کیں ۔ جن کا مقصد ترویج علم دین اور عصر حاضرکے مطابق مسلمانوں کو علوم جدیدہ سے مستفیض ہونے کامشورہ دیناتھا۔ سفیر سعودی عرب نے خطبہ افتتاحیہ میں مسئلہ توحید وایقان مسلم پر ایک فاضلانہ خطبہ دیا ، اور مسلمانوں کو وحدت ورسالت کے موضوعات پر متحد ومنظم ہونے کا مشورہ دیا۔دارالعلوم کے سلسلہ میں فرمایا مجھے اس کے افتتاح کرنے کی عزت حاصل ہونے کافخر ہے ۔
پہلے دن کی نشست کے اختتام پر اعلان تحریر ی پڑھ کر سنایا کہ سنگ بنیاد رکھنے کی رسم بدیں وجہ ملتوی کی جاتی ہے کہ ٹرسٹ کے روبرو بیگم علامہ عثمانی ؒکی چند تجاویز زیر غور ہیں ۔ سیٹھ حاجی عبد اللطیف باوانی نے ۹۳؍ ہزار روپیہ دارالعلوم کے تعمیری فنڈ میں دیا ، تعمیر کا کام شروع ہوچکا ہے ۔ عمارت پر آٹھ لاکھ روپیہ صرف ہوں گے۔اور اس طرح ایک عظیم اسلامی درسگاہ اسلامی حکومت میں پایۂ تکمیل کو پہنچ جائے گی۔ سیٹھ باوانی نے کہا میں تاجر ہوں ، اور ایک تاجر کا فرض ہے کہ اﷲتعالیٰ کی نعمتوں سے جو اُسے ملتی ہیں قوم ، ملک اور دین کی خدمت کرے ، اور اگر کوئی تاجر یہ فرض ادا نہیں کرتا ، تو وہ کفران نعمت کرتا ہے ۔ تمام علماء اور مقررین نے عربی زبان کی ترویج پر زور دیا ، اور کہا عربی جاننا پاکستانی مسلمانوں کے لئے از بس ضروری ہے ۔ (روزنامہ نئی روشنی ۲۳؍فروری ۱۹۵۵ ؁ء )
جن لوگوں نے حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ کی زبان سے یہ بات سُنی کہ انہوں نے اس جگہ دارالعلوم کی تعمیر کو ملتوی کردیا ہے وہ دنگ رہ گئے ۔ لوگوں نے کہا کہ یہ جگہ دارالعلوم کو الاٹ ہوچکی ہے، قانونی طورپر کسی کو اس میں مداخلت کا کوئی حق نہیں ہے، اور سرکاری مشینری نے بھی یقین دلایا ہے کہ ہم آپ کے ساتھ پوری طرح تعاون کریں گے۔ تعمیرکانقشہ باضابطہ منظور ہوچکا ہے۔ کچھ کمرے بھی بن گئے ہیں، حاجی عبداللطیف باوانی صاحب نے تعمیر کے لئے ۹۳؍ہزارروپے کے عطیہ کااعلان کردیا ہے، ملک بھر کے مشہور علماء تشریف لائے ہوئے ہیں، ان کی موجودگی میں افتتاحی جلسہ ہوچکا ہے ۔ایسی حالت میں جبکہ نانک واڑہ کی جگہ بہت تنگ ہوگئی ہے، اس جگہ سے دستبردار ہوناسخت بددلی اور بدنامی کا سبب ہوگا۔ لیکن حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ نے فرمایا کہ میں دارالعلوم کی بنیاد اپنے استاد کی اہلیہ محترمہ کے ساتھ جھگڑے پر نہیں رکھ سکتا۔بلکہ میرے بڑے بھائی حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب کا بیان ہے کہ حضرت والد صاحب، رحمۃ اللہ علیہ نے مجلس منتظمہ سے کہا کہ چونکہ زمین مجلس منتظمہ کو الاٹ ہوچکی ہے ، اس لئے آپ کو پورا حق ہے کہ آپ قانون کے مطابق تعمیر کی کارروائی جاری رکھیں، لیکن میں اس کا حصہ نہیں بنوں گا ، اور اپنے مدرسے کا کام نانک واڑے میں اُس وقت تک جاری رکھوں گا ، جبتک کوئی زمین کسی جھگڑے کے بغیر نہیں مل جاتی ۔
اس کے بعد حکیم محمد سعید صاحب مرحوم اور خان بہادر فضل کریم صاحب کو حضرتؒ کے اعزہ سے بات چیت کرنے کیلئے بھیجا گیا ۔ان حضرات نے جو مطالبات پیش کئے ، ان میں سے بیشتر حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ، نے مان لئے ،مثلاً یہ کہ ان کی پہلی تجویز یہ تھی کہ مدرسہ حضرت علامہ عثمانی، رحمۃ اﷲعلیہ کے نام سے قائم ہو، اس پر پہلے ہی عمل ہوچکا تھا ۔ جو بورڈ لگایا گیا تھا ،اُس پر واضح لفظوں میں” بیادگار شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی ،رحمۃ اﷲعلیہ "لکھا ہوا تھا ، ان کا دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ جناب فضل حق صاحب کو حضرت علامہؒ کے مزار اور اس کی قریبی مسجد کا متولی بنایا جائے ، حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ نے اس کو بھی منظور کرلیا لیکن ان کا تیسرا مطالبہ یہ تھا کہ مدرسے کا ٹرسٹ تبدیل کرکے اُسے علامہ عثمانی ٹرسٹ بنایا جائے جو حضرت علامہ عثمانی، رحمۃ اﷲعلیہ کے ورثاء پر مشتمل ہو۔یہ بات اصولی طورپر اول تو اس لئے غلط تھی کہ ایک وقف تعلیمی ادارے کو ہمیشہ کے لئے وراثت کی بنیادپر قائم نہیں کیا جاسکتا ، دوسرے زمین کا الاٹمنٹ دارالعلوم کی مجلس منتظمہ کے نام ہوچکا تھا ، اُسے توڑے بغیر اس مطالبے پر عمل ممکن نہیں تھا، جو موجودہ حالات میں عملاً تقریباُ نا ممکن تھا ، اور سرکاری حلقے بھی اُس پر راضی نہیں تھے ۔تیسرے حضرت علامہؒ کے ورثاء میں ایک حضرت مولانا محمد یحییٰ صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ ہی ایسے تھے جو عالم تھے، اورجنہیں مدرسے کے معاملات سے دلچسپی ہوسکتی تھی ۔ چنانچہ حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ نے یہ پیشکش کی کہ انہیں دارالعلوم کی مجلس منتظمہ میں شامل کرلیا جائے گا۔لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ جو لوگ ان حضرات کو اُبھاررہے تھے ، ان کے پیش نظر نہ مدرسہ قائم کرنا تھا اور نہ حضرت ؒ کے اعزہ کی کوئی خیر خواہی۔ اس لئے ان مطالبات کو تسلیم کرنے کے باوجود مخالفت جاری رہی۔اور حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ اپنے اس موقف پر قائم رہے کہ میں مدرسے کی بنیاد جھگڑے پر رکھنا نہیں چاہتا اور بالخصوص اپنے استاذ کی اہلیہ محترمہ کوناراض کرکے ۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ بکثرت سُنایا کرتے تھے کہ :
"أنازعیم ببیت فی وسط الجنّۃ لمن ترک المراء وہومحقّ”
یعنی :”میں اُس شخص کو جنت کے بیچوں بیچ گھر دلوانے کاذمہ دار ہوں جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑدے”۔
حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ کو ہم نے ہمیشہ اسی حدیث پر عمل کرتے ہوئے پایا ،لیکن یہ ایسا موقع تھا کہ اس وقت اپنے حق سے دست برداری کے اس معمول کو نبھانا بڑے دل گردے کا کام تھا، اور ہم سب کے دل اس پر مسوس رہے تھے، اور یہ بات بھی تقریباً واضح نظر آرہی تھی کہ اس کے نتیجے میں یہاں حضرت علامہؒ کے شایان شان کوئی دارالعلوم نہیں بن سکے گا ، اور یہ جگہ نہ جانے کس کام میں استعمال ہوگی ، چنانچہ واقعہ یہی ہوا کہ اُس جگہ نہ کوئی دینی مدرسہ قائم ہوسکا، نہ حضرت علامہؒ کے اعزہ کو رہائش کی کوئی جگہ مل سکی، نہ حضرتؒ کے بھائی مزار اور مسجد کے متولی بن سکے ۔بلکہ جب یہ حضرات اعزہ کسی طرح دارالعلوم کی تعمیر پر راضی نہ ہوئے اور بالآخرحضرت والد صاحبؒ نے اس زمین سے مکمل دست برداری اختیار فرمالی ، تو بعد میں جناب اے ایم قریشی صاحب نے (جن کے گھر میں حضرت شیخ الاسلام ؒاور ان کی اہلیہ محترمہ مقیم رہے تھے) اسلامیہ کالج کے نام سے وہاں اپنا پرائیویٹ ادارہ بنایا جس میں فیس لے کر عصری تعلیم دی جاتی ہے۔ اس میں حضرت علامہ عثمانی ؒ کا کسی بھی حیثیت سے کوئی حوالہ تک نہیں تھا۔ حضرت علامہؒ کامزاراسی کالج کے احاطے میں سالہا سال ایسی کس مپُرسی کی حالت میں رہا کہ وہاں تک پہنچنا بھی دشوار تھا۔ کالج کی انتظامیہ کو اُسے صاف رکھنے کا بھی کوئی خاص اہتمام نہیں تھا۔ پھر سالوں بعدمیری فرمائش پر جنرل محمد ضیاء الحق صاحب مرحوم نے اُس کاراستہ الگ کرکے اُسے قابل رسائی بنایا۔
لہٰذا اُس وقت ہم جیسا کوئی ہوتا ، تو وہ یہ دلیل بڑی آسانی سے پیش کرسکتا تھا کہ اگر ہم نے یہ جگہ چھوڑدی تو اس جگہ پر کوئی بھی ایسا کام ہوسکتا ہے جو حضرت علامہؒ کی حرمت کے خلاف ہو، لیکن جس دل میں اﷲتعالیٰ کی رضا کے سوا کوئی اور مصلحت نہ تھی، اُس کا فیصلہ یہی تھا کہ دارالعلوم کی بنیاد جھگڑے پر رکھنی درست نہیں۔حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ نے اپنے بزرگوں سے یہی سیکھا تھا ۔
قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی ،قدس سرہ نے بھی حضرت شیخ عبد القدوس گنگوہی رحمۃ اﷲعلیہ کی ویران پڑی ہوئی خانقاہ کو آباد کرکے وہاں قرآن وحدیث کی تعلیم کا مبارک سلسلہ جاری فرمایا تھا ،لیکن جب شیخ ؒ کے سجادہ نشینوں نے اعتراض کیا ، تو سالہا سال جاری رہنے والے تعلیمی سلسلے کو ایک لمحہ تأمل کے بغیر وہاں سے بے سروسامانی کے ساتھ مسجد میں منتقل کر دیا تھا۔ حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ انہی کے روحانی وارث تھے اس لئے ان کافیصلہ ہم سب کے لئے کتنا حیرت انگیز اور کتنا تکلیف دہ رہا ہو، اُن کے لئے معمول کے مطابق تھا۔وہ یہ سمجھتے تھے کہ اگر اﷲتعالیٰ کو منظور ہوگا تووہ دارالعلوم کے لئے کوئی اور بہتر جگہ عطا فرمادیں گے۔اسی لئے میں نے بڑے بڑے علماء کو یہ فرماتے ہوئے سُنا کہ حضرت مفتی صاحب، قدس سرہ ،کا تنہا یہ عمل اُن کی عظمت کردار اور صدق واخلاص کا اعلیٰ مقام ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔
علامہ عثمانی رحمۃ اﷲعلیہ کے مزارکے قریب والی زمین کا یہ واقعہ جمادی الثانیہ ۱۳۷۴ ؁ھ ہجری کا ہے۔اُس کے بعد ہمارا تعلیمی سال شعبان میں ختم ہوگیا۔اور شوال ۱۳۷۴ ؁ھ سے نیا سال شروع ہوا،لیکن یہ حضرت والد ماجد، رحمۃ اﷲعلیہ کے اخلاص اور توکل کی برکت تھی کہ اس واقعے کو چند مہینے ہی گذرے تھے کہ اﷲتعالیٰ نے اس سے کہیں زیادہ بڑی زمین شرافی گوٹھ میں عطا فرمادی جس کی تفصیل میں، ان شاء اﷲآگے ذکر کروں گا۔

جاری ہے ….

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

</section