یادیں (چوتھی قسط)

حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی

یادیں

(چوتھی قسط )

یہ تھا میرے آٹھ بہن بھائیوں کا مختصر تذکرہ، میں ان سب سے چھوٹا ہوں ، اور جیساکہ میں پہلے لکھ چکا ہوں ،میری پیدائش۵؍شوال ۱۳۶۲؁ ء کو ہوئی تھی ۔حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ،رحمۃ اللہ علیہ، کی وفات تقریباً تین مہینے پہلے ہوچکی تھی ۔ اس لئے میرے تمام بہن بھائیوں کو یہ شرف حاصل ہے کہ انہوں نے یاتو حضرت، رحمۃ اللہ علیہ، کی بذات خود زیارت کی تھی ، یا کم ازکم حضرتؒ کی مبارک نگاہیں ان پر پڑی تھیں ۔ میں ان دونوں سعادتوں سے محروم رہا ، نیز ہمارے تمام بہن بھائیوں کے نام بھی حضرت قدس سرہ نے رکھے تھے ۔میرا نام اگرچہ براہ راست حضرتؒ کی طرف سے رکھنے کا سوال نہیں تھا، لیکن جب حضرت والد صاحبؒ کی درخواست پر میرے کسی بڑے بھائی کا نام حضرتؒ تجویز فرماتے ، تو کئی ہم قافیہ نام تجویز فرمادیتے تھے کہ ان میں سے کوئی نام رکھ لیا جائے ۔ ان کئی ناموں میں ایک نام "محمد تقی ” بھی تھا جو مجھ سے پہلے کسی اور بھائی کا نہیں رکھا گیا تھا ۔ بظاہر حضرت والد صاحب ،رحمۃ اللہ علیہ، نے میرا نام اسی فہرست میں سے رکھا جو حضرتؒ کی تجویز کی ہوئی تھی ، اور چونکہ حضرت والد صاحب ؒ حضرت حکیم الامتؒ کی وفات کے بعد عموماً اپنے محبوب استاذ و مربی حضرت میاں صاحب (یعنی حضرت مولانا سید اصغر حسین صاحب دیوبندی، رحمۃ اللہ علیہ) سے مشورے کیا کرتے تھے ، اوروہ صاحب کشف وکرامات بزرگ تھے ، اس لئے غالب گمان یہ ہے کہ میرا نام رکھنے میں ان کا مشورہ بھی شامل ہوگا ۔
میرے تینوں بڑے بھائی دارالعلوم دیوبند میں پڑھتے تھے ۔ میرا تو اس وقت قاعدۂ بغدادی بھی باضابطہ شروع نہیں ہوا تھا ، اس لئے دارالعلوم دیوبند میں پڑ ھنے کا سوال ہی کیا تھا ؟لیکن کبھی کبھی اپنے ان تین بڑے بھائیوں کے ساتھ میں بھی دارالعلوم چلا جاتا ۔اس لئے اُس وقت کے دارالعلوم کا ایک دھندلا سا نقش ذہن پر ضرور بیٹھ گیا تھا۔
طفلی وآغوش مادر خوش بہارے بودہ است
ہمارے گھرکی پچھلی طرف (یعنی مغربی سمت میں) ہمارے دادا حضرت مولانا محمد یاسین صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ، کا گھر تھا جس میں ہماری دادی صاحبہ ،رحمۃ اﷲعلیہا (جو حضرت گنگوہی قدس سرہ سے بیعت تھیں)رہا کرتی تھیں، ہمارے اور اُن کے گھر کے درمیان ایک سرنگ نما راستہ تھا، جسے ہم” نیم دری” کہا کرتے تھے۔اس جدّی مکان کے بعد ہمارے ہی خاندان کے مختلف گھرتھے ،جن کے درمیان ایک پتلی سی گلی ایک نسبۃً کشادہ علاقے تک پہنچتی تھی جسے ہم” چوک” کہتے تھے ، اور وہ ہم بچوں میں کھیل کے میدان کے طورپر مشہورتھا،اور ہمارے اُس وقت کے تصور کے لحاظ سے وہ ایک وسیع اسٹیڈیم سے کم نہ تھا جس میں محلے بھر کے بچے وہ کھیل کھیلا کرتے تھے جنہیں کھیلنے کیلئے نہ کوئی پیسہ خرچ کرنے کی ضرورت تھی ،اورنہ کسی کوچ سے تربیت لینی پڑتی تھی۔ہمارے بڑے بھائی بھی عموماً عصر کے بعد اسی چوک میں دیسی قسم کے کھیل کھیلتے تھے ۔جہاں تک میرا تعلق ہے، تین چار سال کے ایک نادان بچے کی کُل کائنات گھر سے شروع ہوکر اس چوک پر ختم ہوجاتی تھی، جہاں میں خود کھیلنے سے زیادہ دوسروں کو کھیلتے دیکھ کر ہی دل خوش کرلیا کرتا تھا۔
جیساکہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں ،میری تین بھانجیاں اور ایک بھانجے مجھ سے عمر میں ایک سے لے کر تین سال تک بڑے تھے ،اس لئے خاندان سے باہر کوئی دوست تلاش کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی ، انہی بھانجے بھانجیوں سے دوستی کا سا تعلق تھا، اور بچپن کے کھیلوں کا رشتہ انہی کے ساتھ قائم ہوگیا تھا،اس زمانے کے کھیلوں میں آنکھ مچولی وغیرہ ہی ایسے کھیل تھے جو ہم اپنی عمر کے لحاظ سے کھیل سکتے تھے، اور اُس کے لئے گھر ہی کافی تھا، اُس کے لئے” چوک” کا اسٹیڈیم استعمال کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ گلی ڈنڈا وغیرہ ہماری بساط سے آگے کی بات تھی ۔ ویسے بھی میں کسی کھیل میں کوئی قابل ذکر مہارت کبھی حاصل نہ کرسکا۔
میں اپنے نو بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا ، اور شاید اس وجہ سے سب کا لاڈلا بھی۔اب معلوم نہیں کہ یہ اس لاڈ پیار کا کرشمہ تھا ، یا واقعی اس بات میں کوئی حقیقت بھی تھی کہ میرے والدین سے لے کربہن بھائیوںتک سب کے سب اتنی چھوٹی سی عمر میں میری ذہانت کا تذکرہ فرمایا کرتے تھے۔اور دلیل میں میرے جو واقعات پیش کئے جاتے تھے، وہ مجھے اب تک اس طرح یاد ہیں جیسے وہ آج کی بات ہو۔ ان میں سے چند واقعات جن سے شاید آپ بھی لطف اندوز ہوں، اس وقت قلم پر آنے کے لئے بیتاب معلوم ہورہے ہیں:
میرے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب پر اﷲتعالیٰ اپنی رحمت ورضوان کی بارشیں برسائے ،وہ اگرچہ دارالعلوم دیوبند جیسے ادارے کے سب سے بڑے مفتی تھے، اور اﷲتعالیٰ نے انہیں علم وفضل کے جس مقام سے نوازا تھا ، اُس کا شہرہ پورے ملک میں تھا ،اور ان کے جاں نثار شاگرد ان کی ہر خدمت کو اپنے لئے بہت بڑا اعزاز سمجھتے تھے ،لیکن حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ ،کے مزاج میں اس قدر تواضع اور سادگی تھی کہ گھر کا سودا سلف لینے کیلئے خود بازار جایا کرتے تھے ،اور کبھی کبھی گھر کے استعمال کی کوئی چیز خریدتے، تو اُسے اپنے دامن ہی میں رکھ کر لے آتے تھے۔ اُس وقت میں اس قابل ہوچکا تھا کہ والد صاحب ؒکی انگلی پکڑکر ان کے ساتھ بازار جاسکوں ۔ جب کبھی ایسا ہوتا تو واپسی میں وہ مجھے بھی میرے مطلب کی کوئی چیز دلا دیتے ۔ چاکلیٹوں اور ٹافیوں کا زمانہ ابھی نہیں آیا تھا ، اس لئے ہماری پسندیدہ چیزیں کیا تھیں؟ بھنے ہوے چنے ،مکئی کی کھیلیں ، چاول کے مرمرے، ملائی کا برف (جوآئس کریم کی ایک دیسی شکل تھی) اور دیسی ہی قسم کی مٹھائیاں! ذراترقی ہوئی تو ایک پیسے میں ایک چاکلیٹ نماچھوٹی سی مٹھائی ملنے لگی تھی، جس کی شکل سنگترے کی ایک قاش جیسی ہوتی تھی، اوراُسے ہم سنگترے کی مٹھائی کہا کرتے تھے ۔اب خیال آتا ہے کہ اُس دور میں بچوں کی خواہشات تمام تر ایسی چیزوں سے متعلق ہوتی تھیں، جو صحت کیلئے فائدہ مند اور قدرتی خصوصیات کی حامل ہوتی تھیں اور ہرجگہ سستے داموں مل جایا کرتی تھیں۔بچوں کو خوش کرنے کیلئے جومضر صحت اور مہنگی چیزیں آج ایجاد ہوگئی ہیں ، ان کا کوئی تصور نہیں تھا۔
بہرکیف!حضرت والد صاحب ، رحمۃ اﷲعلیہ ،جب ہمیں اپنے ساتھ کہیں لے جاتے ، تو مذکورہ بالا چیزوں میں سے کوئی چیز ہمیں بھی دلادیتے ،اوراس کے نتیجے میں جانے آنے کی محنت بھی وصول ہوجاتی، اوربازار کی سیر اُس کے علاوہ تھی۔لیکن حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ ، کا ہمیں کوئی چیز دلادینا خود اُنہی کی طرف سے ہوتا تھا ۔اس بات کا کوئی رواج نہیں تھا کہ اولاداپنی طرف سے کوئی چیز دلوانے کی فرمائش یااس کا مطالبہ کرے ۔
چنانچہ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ، بازار سے گھر کے لئے آلو لے کر جارہے تھے ۔ میں بھی ان کی انگلی پکڑے ان کے ساتھ تھا۔اتفا ق سے اُس دن حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ ،مجھے بازار سے کچھ دلانا بھول گئے۔ذہن تو اس طرف لگا ہوا ہی تھا کہ ہمیں بھی کوئی چیز ملنی چاہئے، لیکن جب نہ ملی، اور بازار ختم ہوکر والد صاحب اُس گلی میں مڑنے لگے جس میں ہمارے مطلب کی کوئی دوکان نہ تھی، تو اندازہ ہوگیا کہ اب کچھ ملنے والا نہیں ہے ۔ جیساکہ پہلے عرض کیا، اپنی زبان سے فرمائش کرنا تو معمول اور رواج کے خلاف تھا ، دوسری طرف حضرت والد صاحب (رحمۃ اﷲعلیہ)کو متوجہ کرنے کو بھی دل چاہ رہا تھا کہ آپ کچھ بھولے جا رہے ہیں ۔ ان دو متضاد باتوں کا حل میرے اس بچپن کے ذہن نے یہ نکالا کہ میں نے حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ، سے کہا ":اباجی !میری گود میں آلو ہی ڈال دو”۔ حضرت والد صاحبؒ میری زبان سے یہ جملہ سن کر بیساختہ ہنس پڑے، اورپھر آلو کے بجائے میرے مطلب کی کوئی چیز مجھے دلاکر گھر واپس پہنچے ، اور سب گھر والوں کو میری یہ بات سنائی جو بعد میں ایک لطیفہ بن گئی۔
اسی طرح دیوبند میں بدھ کے دن ایک بازار لگا کرتا تھا، جس میں آس پاس کے گاؤں والے اپنا اپنا سامان لاکر بیچا کرتے تھے ، اور اس بازار میں عام طورپر گھریلو استعمال کی چیزیں سستے داموں مل جایا کرتی تھیں ۔ اسے” بدھ بازار” کہا جاتا تھا ۔ حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ، ایک مرتبہ اُس بازار میں جاتے ہوے مجھے بھی ساتھ لے گئے ۔اب یاد نہیں کہ انہوں نے وہاں سے کیا چیزیں خریدیں ،وہ بازار بھی زیادہ تر گھریلو استعمال کی اجناس کا بازار تھا ،اور اس میں بچوں کے مطلب کی کوئی خاص چیز تھی بھی نہیں۔چنانچہ اُس روز بھی انہوں نے مجھے کچھ نہ دلایا، یہاں تک کہ واپسی شروع ہوگئی ۔ ایک آخری دوکان میں چینی کے بنے ہوئے بتاشوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا ۔جب ہم وہاں سے گذرے تو مجھ سے نہ رہا گیا اور میں نے حضرت والد صاحب، ر حمۃ اﷲعلیہ ،سے کہا”: اباجی!بتاشوں کا بھاؤ ہی پوچھ لو”۔اور اس طرح والد صاحب ؒکو ان کا بھولا ہوا فریضہ یاد دلادیا۔
ہمارا گھر دیوبند کے جس محلے میں تھا ، اُسے بڑے بھائیوں کا محلہ کہا جاتا ہے ۔ دراصل ہمارے جدامجد کی اولاد "بڑے بھائی "کہلاتی تھی ، اور انہی کے نام پر محلے کا نام بھی مشہور ہوگیا تھا ۔ہمارے گھر کے صدر دروازے کی طرف(جو مشرق میں تھا) وہ چھوٹی سی سڑک تھی جو مسلمانوں کی آبادی کو ہندووں کی آبادی سے ممتاز کرتی تھی ۔اس سڑک پر ہمارے گھر کے دوسری طرف تمام تر ہندو آباد تھے ،لیکن اُن سے پڑوس کے اچھے تعلقات قائم تھے ۔ ہمارے گھر کے سامنے اُسی سڑک پر ایک آٹے کا کارخانہ تھا جسے ہم "انجن "کہا کرتے تھے ۔مجھے یاد ہے کہ اُس میں ایک مرتبہ آگ لگ گئی ،تو سب سے پہلے حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ، ان کی مدد کو پہنچے اور دیر تک آگ بجھانے کیلئے پانی اور زمین سے کھودی ہوئی مٹی ڈالنے کے کام میں مصروف رہے۔ غیرمسلم پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک ہمارے سارے اکابر کا خاص وصف تھا۔ میرے لئے یہ ایک دلچسپ منظر تھا ، اور میں گھر سے یہ تماشادیکھنے کے بعد اپنے بڑے بہن بھائیوں کے سامنے یہ منظر اپنی تتلائی ہو ئی زبان میں بیان کرتا، اور اپنے ہاتھ پاؤں کی حرکات سے وہ نقشہ کھینچنے کی کوشش کرتا ،اور اس منظر کشی میں اپنے کسی بہن بھائی کے اوپر اُس طرح چڑھ جاتا جیسے میں نے آگ بجھانے والوں کو انجن پر چڑھتے دیکھا تھا۔ میرے بہن بھائی مجھ سے فرمائش کرکے اس منظر کشی کا مطالبہ کیا کرتے تھے۔
میں تقریباً چھہ سال کی عمر تک تتلائی ہوئی زبان بولتا رہا، اوراُس کے بھی طرح طرح کے لطیفے خاندان میں مشہور ہوئے ۔ حضرت علامہ انورشاہ صاحب کشمیری ،رحمۃ اﷲعلیہ ،کے بڑے صاحبزادے حضرت مولانا ازہر شاہ قیصر (رحمۃ اﷲعلیہ)جو عرصے تک ماہنامہ دارالعلوم دیوبند کے ایڈیٹر رہے، میرے سب سے بڑے بھائی جناب محمد زکی کیفی، رحمۃ اﷲعلیہ، کے دوست تھے ،اور اس حوالے سے ان کا ہمارے گھر میں بکثرت آنا جانا تھا ، وہ مجھ سے بہت محبت کرتے تھے، گھر والے مجھے پیار سے” تقی” کے بجائے "تقوّ” کہا کرتے تھے اور مولانا ازہر صاحب بھی مجھے اسی نام سے پکارتے ،اور اکثر مجھے گود میں اٹھا کر” تقو ّ تقوّ” کہکرچھیڑا کرتے تھے۔دوسری طرف ان کا نام "ازہر” تھا جسے بگاڑکر میں اپنی تتلائی ہوئی زبان میں "اجہل” کہتا تھا، چنانچہ جب وہ دروازے پر دستک دیتے، اور میں باہر نکل کر انہیں دیکھتا ، تو بھائی جان کو آکر بتاتا کہ ": بھائی اجہل آئے ہیں "۔مولانا ازہر صاحبؒ میری اس زبان کے بڑے مزے لیا کرتے تھے ۔ چنانچہ پاکستان آنے کے بعد جب میری ادارت میں ماہنامہ البلاغ جاری ہو،ا اور اُس کا پہلا شمارہ مولاناؒ کے پاس پہنچا تو انہوں نے مجھے خط میں لکھا (جو سالہا سال کے بعد میرے نام ان کا پہلا خط تھا)کہ: ” اب تو آپ مولانا محمد تقی عثمانی ہیں لیکن میرے نزدیک آپ وہی تقوّ میاں ہیں جو مجھے اجہل کہا کرتے تھے” ۔ اورخط کے آخر میں اپنے نام کی جگہ لکھا : "وہی آپ کا اجہل بھائی”۔
ہمارے گھر میں شعروادب کا بڑا چرچا تھا ۔حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ، کا شعری مجموعہ تو ان کے "کشکول "میں چھپ چکا ہے۔ بڑے بھائی جان (مولانا محمدزکی کیفی، رحمۃ اﷲعلیہ) باقاعدہ شاعر تھے، اور ان کی وجہ سے کئی شاعروں کا گھر میں آنا جانا رہتا تھا ۔میری دو بڑی بہنیں ایسی تھیں کہ اگرچہ انہوں نے کسی مدرسے یا اسکول میں کبھی نہیں پڑھا ، بلکہ صرف گھریلو تعلیم پر اکتفا کیا، لیکن ان کا شعری اور ادبی ذوق بڑا پاکیزہ تھا، اور کبھی کبھی وہ خود شعر کہتی تھیں ۔اس سارے ماحول کے نتیجے میں بچپن کے اُس بالکل ابتدائی دور میں بہت سے اشعار مجھے بھی یاد ہوگئے تھے جو میں اپنی تتلائی ہوئی زبان میں پڑھا کرتا تھا ، اور گھر والے میری زبان سے یہ تتلائے ہوئے اشعار سن کر محظوظ ہوتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان کے مختلف حصوں میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے تھے ۔ایک ایسا ہی فساد گڈھ مکٹیشر میں ہوا ،تو وہاں کے ایک شاعر نے اس فساد کا نقشہ ایک نظم میں بڑے دردناک اندازمیں کھینچا تھا۔اُس نظم کے یہ اشعار مجھے اُسی وقت سے یاد ہیں :
کیا کیا ہوا موجودہ حکومت کے سہارے !
گنگا کے کنارے!
گھر جلتے تھے، اڑتے تھے ہواؤں میں شرارے
گنگا کے کنارے !
بوسے جنہیں ماں باپ دیا کرتے تھے سوبار
کرتے تھے جنہیں پیار!
کفار نے نیزے اُنہی رخساروں پہ مارے !
گنگا کے کنارے !
میری وہ بہن جو بہنوں میں سب سے چھوٹی اور چار بھائیوں سے بڑی ہیں ، اور ہم انہیں چھوٹی آپا کہتے ہیں،اور بفضلہ تعالی حیات ہیں ، انہوں نے مجھے یہ نظم کسی وقت اچھے سے ترنم سے سنادی تھی ۔ وہ مجھے اتنی پسند آگئی کہ جب تک میں ان کے منہ سے وہ نظم نہ سن لیتا ،سوتا نہیں تھا ۔چنانچہ وہ اس نظم سے میری لوری کا کام لیا کرتی تھیں ۔اور بعد میں میں نے ان سے خطاب کرتے ہوئے انہی کے بارے میں ایک نظم کہی تھی جسکا مطلع یہ تھا :
چھوٹی آپا! مری اس نظم کا عنواں تم ہو
تم ہو اس بزم کی تزیین کا ساماں تم ہو

اس کے آخری شعر میں اسی لوری کی طرف اشارہ ہے :

لوریوں میں بھی مجھے درس دئیے ہیں تم نے
ہاں مری بہن ،مری دوست، مری ماں تم ہو

اس کے علاوہ قصبے بھر میں پاکستان بنانے کی تحریک چلی، تو شاعروں نے اُس کی حمایت میں جوشیلی نظمیں کہیں،اور وہ میں نے کہیں سے سن لیں تواپنی تتلائی ہوئی زبان میں انہیں نہ جانے کس طرح بگاڑکر دہرانا شروع کردیا ۔ مولانا عامر عثمانی ،رحمۃ اﷲعلیہ، کی یہ نظم اُس زمانے میں بڑی مقبول اور مشہورہوئی تھی کہ :
یا رنج وبلا کا خوف نہ کر، یا نام نہ لے آزادی کا!
گر دارو رسن کی تاب نہیں ، الزام نہ لے آزادی کا

نیز ان کی ایک نظم یہ تھی :
اگر لینی ہے آزادی تو مسلم لیگ میں آؤ
اخوت کا عَلَم لیکر جہان ِکفر پر چھا ؤ
میں اس جیسی نظموں کو سمجھے بوجھے بغیر بگاڑبگاڑکر تتلائی ہوئی زبان میں پڑھتا ، اور گھر والے اُس سے مزے لیتے تھے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب پورے ہندوستان میں تحریک آزادی اپنے شباب پر تھی، اور مسلمانوں کی طرف سے قیام پاکستان کا مطالبہ زور پکڑ رہا تھا ۔چنانچہ ہمارے گھر کی مشرقی سمت میں جو چھوٹی سی سڑک تھی، اُس پر سے بھی جلوس گذرا کرتے تھے۔ چونکہ ان جلوسوں میں اکثر کسی نہ کسی کے لئے "زندہ باد” کے نعرے لگتے تھے ، اس لئے جب دور سے کسی جلوس کا شور سُنائی دیتا، تو میں گھر والوں سے اپنی توتلی زبان میں کہتا ":جندہ باد آلہے ہیں” (زندہ باد آرہے ہیں )۔ اس کے علاوہ ان جلوسوں کے مختلف نعرے سُن سُن کر مجھے یاد ہوگئے تھے ، مثلاً "سینے پہ گولی کھائیں گے پاکستان بنائیں گے” ۔ میں جب وہ نعرے اپنی تتلائی ہوئی زبان میں دہراتا ، تو سارے گھر والے اُس کا مزہ لیتے تھے۔
پھوپی امۃ الحنان کا گھریلومکتب
ہم جس محلے میں آباد تھے، اُس میں اُ س چوک کے قریب جس کا ذکر میں نے پہلے کیا ہے، ہمارے خاندان کی ایک بزرگ خاتون کا قیام تھا جن کانام ا مۃ الحنان تھا ،اور ہم انہیں پھوپی کہا کرتے تھے، کیونکہ وہ حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ، کی رشتے کی بہن تھیں۔ اُن کا گھر کیا تھا ؟ خاندان بھر کے ،بلکہ دور دور کے ،بچوں کی ایسی تعلیم گا ہ تھی جس میں کئی کئی پشتوں نے اُن سے تعلیم حاصل کی تھی ۔ وہ کہنے کو تو بچیوں اور بہت چھوٹے بچوں کو قرآن شریف ناظرہ پڑھاتی تھیں، لیکن درحقیقت وہ بچیوں کو قرآن شریف کے علاوہ بہشتی زیور کے ذریعے وہ سب کچھ پڑھا دیتی تھیں جس کی انہیں شادی کے بعد تک ضرورت ہوتی ، اور نہ صرف نظریاتی طورپر پڑھا دیتی تھیں ،بلکہ اُس کی عملی تربیت بھی دیتی تھیں ۔یہی ان کا مشغلہ تھا ، اور یہی ان کا شوق ،جس کے ذریعے انہوں نے سینکڑوں بچوں اور بچیوں کو انسانیت سکھادی تھی ۔ ہماری سب سے بڑی بہن سے لے کر مجھ تک ، سب نے اُن سے پڑھا تھا۔
میں ابھی اس قابل تو نہ ہوا تھا کہ اس تعلیم گاہ کا باقاعدہ شاگرد بنوں، لیکن میرے والدین مجھے غیر رسمی طورپر قاعدۂ بغدادی دے کر اُن کے گھر بھیج دیتے تھے ، اور اس طرح قاعدہ ٔبغدادی کا آغاز میں نے اس گھریلو مکتب میں کیا تھا جہاں محترمہ امۃ الحنان صاحبہ، رحمۃ اﷲ علیہا ،اپنی کڑک دار آواز میں تعلیم وتربیت کے فرائض بڑی تندہی سے انجام دیتی تھیں۔
یہ ساری باتیں مجھے یاد ہیں، اور اس کے علاوہ بھی بہت سی باتیں جو شاید قارئین کے لئے کسی دلچسپی یا فائدے کی حامل نہ ہوں ۔ اُس وقت میری عمر کیا تھی ؟ میں یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا ، لیکن ساڑھے چار سال سے یقیناً کم تھی ،کیونکہ پانچ سال کی عمر پوری ہونے سے پہلے ہی ہم دیوبند سے پاکستان روانہ ہوگئے تھے۔ البتہ مجھے اپنے سب سے بڑے بھائی جناب محمد زکی کیفی، رحمۃ اﷲعلیہ، کانکاح یاد ہے جو ۱۹۴۶ ؁ ء میں ہوا تھا ۔ اُس وقت میری عمریقیناً تین سال تھی۔ لہٰذا جو باتیں مجھے یاد ہیں وہ تین سے ساڑھے چار سال تک کی عمر کی باتیں ہیں ۔ اور آج مجھے حیرت ہوتی ہے کہ مجھے کل کی بات بھی بعض اوقات یاد نہیں رہتی ،لیکن اتنی کمسنی کی یہ باتیں اس طرح یاد ہیں جیسے میں اب انہیں دیکھ رہا ہوں ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بچپن کے زمانے میں جوباتیں ذہن پر نقش ہوجاتی ہیں، وہ کتنی دیرپا اور انمٹ ہوتی ہیں ۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ بچوں کے سامنے اچھی باتیں کرو اور یہ نہ سمجھو کہ ان نادانوں پر ہماری اُن باتوں کا کیا اثر پڑے گا جو ان کی سمجھ سے بالاتر ہیں ۔
البتہ یہ میری محرومی ہے، اور اس کی دل میں حسرت بھی ہمیشہ رہی کہ دیوبند اُس وقت بھی بڑے درجے کے علماء اور اولیاء کرام کا مرکز تھا ، لیکن میری عمر اُس وقت اتنی چھوٹی تھی کہ اُن میں کسی کی زیارت مجھے یاد نہیں ۔البتہ مجھے ایک مرتبہ اپنے والدین کے ساتھ تھانہ بھون جانا یاد ہے، اور یہ میری یاد میں ریل کا پہلا سفر تھا ، لیکن اُس وقت کچھ شعور نہ تھا کہ تھانہ بھون کیا ہے؟اور وہاں جانے کا کیامقصد ہے؟ البتہ ان کے بعدحضرت والد ماجد، رحمۃ اﷲعلیہ، کے دوسرے محبوب ترین استاد اور مربی حضرت مولانا سید اصغر حسین صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ (جو حضرت میاں صاحب کے نام سے مشہورہیں) بقید حیات تھے، اور غالب گمان یہ ہے کہ حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ، نے بظاہر میری تحنیک بھی اُن سے کرائی ہوگی، لیکن افسوس ہے کہ مجھے حضرتؒ کی زیارت یاد نہیں ہے ۔البتہ بعدمیں میں نے ایک خواب میں اُن کی زیارت کی تھی ، اور اُن کا جو حلیہ دیکھا تھا، جب میں نے وہ اپنے بڑے بہن بھائیوں سے بیان کیا ، تو اُنہوں نے بتایا کہ یہ حضرتؒ ہی کا حلیہ تھا۔ اسی طرح اُس وقت شیخ الاسلا م حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی اورشیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحب، رحمہمااﷲتعالی ،جیسے اکابر بھی دیوبند میں تشریف فرما تھے ، لیکن مجھے کم عمری کی وجہ سے ان کی زیارت کا شرف حاصل نہیں ہوسکا۔
اسی دوران ۲۷؍رمضان المبارک ۱۳۶۶؁ ھ مطابق ۱۴؍ اگست ۱۹۴۷؁ ء کو جمعۃ الوداع کی مبارک رات میں پاکستان کاقیام عمل میں آگیا۔اُس وقت میری عمر چارسال سے آٹھ دن کم تھی ۔ مجھے وہ خاص دن تو یاد نہیں ہے جس دن پاکستان بنا ،لیکن یہ یاد ہے کہ گھر میں چونکہ باربار پاکستان بن جانے کا ذکر ہوتا رہتا تھا ، اس لئے میرے اُس بچپن کے ذہن میں کچھ ایسا تصور بیٹھا ہوا تھا جیسے کوئی بڑی سی عمارت بنی ہے جس میں ایک بڑا سا ہال ہے ، اور اُس کی دیوار پر چاند تارے کی تصویر بنی ہوئی ہے۔
پاکستان بنتے ہی ملک کے مختلف حصوں میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے ، اور مشرقی پنجاب میں مسلمانوں پر سکھوں کی طرف سے لرزہ خیز مظالم کی ایک قیامت برپا ہوگئی۔ یوپی کا ضلع سہارن پور جس کاایک قصبہ دیوبند بھی تھا ، چونکہ مشرقی پنجاب سے بالکل ملا ہوا تھا ، اس لئے اس علاقے میں بھی سکھوں کی اچھی خاصی آبادی تھی، اورسکھوں کے مظالم کا دائرہ ہمارے ضلع تک پہنچ چکا تھا ، اور ہندووں کی طرف سے بھی اُن کی پشت پناہی جاری تھی ۔اُن کے بھی جارحانہ نعروں پرمشتمل جلوس نکلا کرتے تھے۔ہمارے محلے کی مشرقی جانب میں چونکہ ہندؤوں کی آبادی دورتک پھیلی ہوئی تھی جس کو”ہندواڑہ” کہا جاتا تھا۔اس لئے ہررات یہ افواہیں گرم رہتی تھیں کہ آج کی رات سکھوں یا ہندووں کی طرف سے حملہ ہوگا۔ اس خطرے کے پیش نظر محلے کے نوجوان باریاں مقرر کرکے محلے کے مختلف ناکوں پر ساری رات پہرہ دیا کرتے تھے۔ حالات کے اس پس منظر میں میرے بچپن کے ذہن پر خاص طور سے سکھوں کی ایک خونخوار تصویر مسلط ہوگئی تھی ،اور چار سالہ دماغ میں یہ بات سما گئی تھی کہ سکھ کوئی خطرناک مخلوق ہے۔ چنانچہ ایک مرتبہ میں گھر والوں کی نہ جانے کس بات پر ناراض ہوکر گھر والوں کا بائیکاٹ کرتے ہوئے رات کوگھر کے مشرقی دروازے کے قریب ایک کونے میں جالیٹا ۔یہ کونامیری نظرمیں دو وجہ سے خطرناک تھا۔ ایک تواس میں ایندھن کے طورپر استعمال ہونے والی لکڑیاں پڑی رہتی تھیں جن میں بعض اوقات بچھو بھی نکل آتے تھے ، اور دوسری طرف یہیں ہمارے گھر کا وہ دروازہ تھا جو ہندواڑے کی اُس سڑک پر کھلتا تھا جہاں سے سکھوں کے جلوس گذرا کرتے تھے، اور وہیں سے ان کے حملے کا خطرہ سب سے زیادہ تھا۔ لیکن میں اپنی دانست میں یہ دو عظیم خطرے مول لے کر گھر والوں کو یہ جتانا چاہتا تھا کہ ا ن کاکوئی طرزعمل اتنا ناقابل برداشت ہے کہ اُس نے مجھے اس انتہائی سنگین اور مہلک احتجاج پر آمادہ کردیا ہے۔چنانچہ میرے بہن بھائی جب باری باری مجھے مناکر واپس گھر لے جانے کے لئے آتے تو اپنی تتلائی ہوئی زبان میں میرا ایک ہی جواب ہوتا ، اور وہ یہ کہ : "چاہے چھتھ آؤ ، چاہے بچھو تاتو ،ہم تو یہیں پلے لہیں دے”۔یعنی ” چاہے کوئی سکھ آجائے، یا کوئی بچھو کاٹ لے، ہم تو یہیں پڑے رہیں گے”۔ آخر جب میرا یہ سنگین احتجاج کوئی بہن بھائی ختم نہ کرسکا، تو حضرت والد صاحب ،رحمۃ اﷲعلیہ، کو مداخلت کرنی پڑی ، وہ تشریف لائے، مجھے گود میں لے کر پیارکیا ،اور مجھے اٹھاکر گھر میں لائے، اور بظاہر اس کے بعد ہمارے مطالبات تسلیم کرلئے گئے۔
جاری ہے ….

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

</section