حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی

یادیں

بسم اﷲ الرحمن الرحیم
الحمد ﷲ رب العلمین والصلوۃ والسلام علی رسولہ الکریم وعلی آلہ واصحابہ اجمعین وعلی کل من تبعہم بإحسان إلی یوم الدّین

تمہید
میرے بہت سے دوستوں اور کرم فرماؤں نے میرے سفرنامے پڑھنے کے بعد مجھ سے فرمائش کی کہ میں اپنی آپ بیتی لکھوں ۔ لیکن میں نے ہمیشہ اسے ان حضرات کی محبت کاایک شاخسانہ سمجھ کراس پر کبھی سنجیدگی سے غور نہیں کیا، کیونکہ میں یہ سمجھتا تھا کہ سوانح حیات بڑے آدمیوں کی لکھی جاتی ہے جن کی زندگی میں دوسروں کے لئے کوئی سبق ہو ۔مجھ جیسا شخص جو اپنی سابق زندگی پر نظر ڈالے ، تو اسے اپنے اعمال پرندامت اور شرمندگی کے سوا کچھ حاصل نہ ہو، اس کی سوانح سے کسی کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے ؟
اب سے تین سال پہلے مجھ سے میرے انتہائی قابل احترام بزرگ اور دارالعلوم ڈابھیل کے صدرمفتی حضرت مولانا مفتی احمد خان پوری صاحب مدظلہم نے (جن کی خدمات ہندوستان بھر میں بلکہ عالم اسلام کے مختلف خطوں میں پھیلی ہوئی ہیں) حرم شریف میں یہ فرمائش کی ، تو اُس وقت بھی میں نے یہی عذر کیا ، لیکن اس کے بعد حضرت مفتی صاحب مدظلہم نے ڈابھیل پہنچ کر ایک مفصل خط تحریر فرمایا جس میں نہ صرف اپنی طرف سے ، بلکہ متعدد دوسرے اہل علم کی طرف سے پوری سنجیدگی اور اہتمام کے ساتھ یہ فرمائش دہرائی گئی تھی ۔ یہ مکتوب گرامی درج ذیل ہے :

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۲۷؍جون ۲۰۱۱
مخدومنا المحترم والمکرّم حضرت اقدس مولانا محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
خدا کرے حضرت والا بعافیت اور سلامت ہوں، احقر عرصۂ درازسے حضرت مفتی محمد شفیع صاحب نور اللہ مرقدہ اور حضرت والا کی تصانیف کا گرویدہ رہا ہے، وجہ اس کی صرف اور صرف یہی ہے کہ یہ تصانیف علمائے ربانیّین کے مذاق ومزاج کی رعایت سے پُر ہیں، اور ہمارے علماء کی سلامتیٔ فکر اور پاکیزہ خیالات کی ترجمان ہیں، بالخصوص حضرت والا کی دورِ اخیر کی تصانیف کا تو کیا کہنا؟ دینی مزاج کے حاملین ذوق و شوق اور بڑی رغبت سے پڑھتے ہیں ، کئی اشاعتیں ہاتھوں ہاتھ نکل جاتی ہیں، جب تصانیف کی مقبولیت کا یہ حال ہے تو صاحب تصانیف کی محبوبیت کا کیا عالم ہوگا؟ اس کو لکھنے کی ضرورت نہیں، سال گزشتہ اسی ماہ جولائی میں ہندوستان کا سفر ہوا تھا، جس میں یہاں کے باشندوں کی وارفتگی کا مشاہدہ حضرت والا خود فرما چکے ہیں۔
اس مختصر تمہید کے بعد حضرت والا کی خدمت میں مؤدبانہ درخواست عرض کرنا چاہتا ہوں جو صرف احقر ہی کی نہیں؛ بلکہ دین سے وابستہ بہت بڑے طبقہ کی دلی دھڑکن ہے، اگر درخواست کو عملی جامہ پہنایا جائے تو بڑی تشنگی دور ہوگی، اہل علم کا بہت بڑا طبقہ دلی دعائیں دے گا، اور ان کو چراغ راہ ہاتھ لگے گا، اس مشعلِ راہ سے اہل علم اپنی زندگی کے عقدۂ لا ینحل حل کیا کریں گے۔
درخواست یہ ہے کہ حضرت والا اپنی آپ بیتی تحریر فرمادیں، اپنی آپ بیتی لکھنے کے متعلق ہمارے اکابر کا طریقہ بطور دلیل آپ کے سامنے پیش کرنا سورج کو چراغ دکھلانے کے مترادف ہے، اس لئے ان کی خود نوشتہ سوانح حیات اور آپ بیتی کے نام لکھنے کی جسارت کرنے سے قاصر ہوں؛ البتہ ایک بات جو احقر کے ناقص خیال میں آئی ،وہ یہ ہے کہ زندوں کی سوانح نسلِ حاضر کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی تلقین میں زیادہ مفید ہے۔اکابرین کی زندگی ہی میں ان کے کمال اور ہنر کی صحیح معرفت کے بعد (یعنی منظر عام پر تحریری شکل میں آنے کے بعد)ان سے بلا واسطہ اور بروقت فائدہ اٹھا کر ان کے کارناموں اور ان کی روشن کی ہوئی شمعوں سے زیادہ کام لیا جاسکتا ہے،اور دین و دنیا کی ترقی کی منزلیں زیادہ آسانی اور تیزی سے طے کی جاسکتی ہیں، کیونکہ وفات یافتہ حضرات کے حوالہ سے دیکھا جائے، تو سچ یہ ہے کہ ان کی سیرت وکردار کے دفاتر صرف” نظریہ ” ہوتے ہیں؛ متشکل اور” متحرک نمونۂ عمل” نہیں ہوتے؛ اس لئے ان کی سیرت اور کردار کا مطالعہ کرنے والے کے لئے (بالخصوص ان کے لئے جو ان کے عہد کو نہ پا سکیں)ایک بہت بڑا سوال یہ ہوتا ہے کہ ہمیں کون بتائے گا کہ اس سیرت وکردار کو کس طرح عملی جامہ پہنایا جائے؟ جبکہ زندوں کے حوالہ سے کہا جاسکتا ہے کہ "نظریہ” اور” نمونۂ عمل "دونوں موجود ہیں۔
"کتاب مبین "کے ساتھ "نور عظیم "خود رب العالمین جل جلالہ وعم نوالہ کا وضع کردہ قانون ہے، اور اللہ جل شانہ نے خود ہی اس کی راہ دکھائی اور مخلوق کو اس پر چلایا ہے، نیز اس کے بندوں نے اس کو طبعی طور پر قبول کر کے اس پر عمل کیا ہے، امید ہے کہ اس قانون فطرت کی لاج رکھ کر احقر کی درخواست کی طرف توجہ منعطف فرمائیں گے۔
احقر کی درخواست کسی معمولی شخصیت کی آپ بیتی لکھنے کی نہیں؛ بلکہ ایسی عظیم شخصیت کے حوالہ سے ہے جس کی علمی اور دینی خدمات اور تصنیفی کارنامے دنیا کے سامنے ہیں، اور پورا عالمِ اسلام ان کے احسانات کے زیر بار ہے، جس نے تنہا صرف ایک آدمی کا نہیں بلکہ ایک مکمل انجمن کا کام کیا ہے، جس کی نظیر اس عہد میں نہیں ملتی۔
ممکن ہے کہ بعض خردہ گیر طبیعتیں (جن سے ماضی قریب میں حضرت والا کو واسطہ پڑا) اس آپ بیتی پر خودنمائی اور کارناموں کی بے جا تشہیر کا عنوان لگائیں، اور ان کو اس میں تفاخر اور مبالغہ آرائی کی بو آئے؛ لیکن چند گنے چنے معترضین کی الزام دہی کی وجہ سے جن سے کوئی زمانہ خالی نہیں رہا اور جن کی ملامت سے کوئی بچ نہیں سکا ان اہل ذوق اور فدائیوں کو اس سرمایہ سے محروم کرنا صحیح نہ ہوگا جن کی تعداد لا تعدّ ولا تحصی ٰ ہے، اور جو اس جیسی آپ بیتی کو سرمایۂ بصیرت بنانے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔علوم دینیہ اور مدارس عربیہ کے طلباء سے لے کر حکومتی ایوانوں اور کچہریوں کے خادموں اور ملک وبیرون ملک کے ہر فرد بشر کے لئے اس میں عبرت وبصیرت اور ذکر وموعظت کا بڑا سامان ہے۔
جب حضرت اقدس تھانوی ؒ نے اپنی تصنیف "اشرف السوانح ” میں غیر معمولی اطناب سے کام لیا، حضرت اقدس مدنی ؒ نے ” نقش حیات ” میں اپنے حالات قلم بند کئے، حضرت شیخ الحدیث ؒ نے آپ بیتی تصنیف فرمائی، تو ان کے معاصرین نے کیسے کیسے تبصرے کئے!کیسی کیسی سرگوشیاں کیں! لیکن یہ سب اکابر ہم اصاغر اور آنے والی نسلوں کے شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ناقدین وحاسدین کی خردہ گیری کی سزا آئندہ نسلوں کو نہیں دی، اور تواضع وانکساری اور فنائیت کے پیکر مجسم ہونے کے باوجود اپنے حالات و واقعات، علمی وروحانی کمالات سے اہلِ ذوق کو محروم نہیں کیا۔
احقر امید کرتا ہے کہ حضرت والا بھی اپنے اکابر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہمیں محروم نہیں کریں گے۔
سطور ِ بالا میں احقر نے اپنی دیرینہ دلی آرزو بے ہنگم طور پر صاف صاف لکھنے کی جرأت کی، اس کی وجہ بھی بالکل حضرت والا کی عنایات وشفقتیں ہیں، جب جب بھی ملاقات کی سعادت نصیب ہوئی، احقر نے دیکھا کہ حضرت والا کی خُرد پروری اور ذرہ نوازی روز افزوں ہے، ممکن ہے اس تحریر میں ادب ملحوظ نہ رہ پایا ہو اور کوئی نامناسب جملہ نکل گیا ہو، اگر حضرت والا ایسا محسوص فرمائیں، تو میں حضرت والا کی خدمت میں بصد ادب ونیاز معافی کا خواست گار ہوں،اور دل کی گہرائیوں سے دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ حضرت والا کی شخصیت کو عالم اسلام کی خدمت کیلئے دیر تا دیر بعافیت زندہ وسلامت رکھے۔ ایں دعا از من واز جملہ جہاں آمین باد۔
أملاہ: العبد أحمد عفی عنہ خانپوری
خادم دار الافتاء جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ،ڈابھیل، گجرات، الہند۔
اس مکتوب گرامی کے ساتھ ایک مزید تحریر بھی تھی جس میں جامعہ ڈابھیل کے ایک صالح استاد کے قلم سے ان کا ایک خواب بیان کیا گیا تھا جو بندے کے لئے ایک بشارت پر مشتمل تھا۔ اسکو محض تحصیل سعادت کے لئے نقل کررہا ہوں ، جس کے بارے میں حضرت امام محمد بن سیرین رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا یہ مقولہ پوری طرح پیش نظر ہے جو میں نے اپنے والد ماجد رحمۃ اللہ علیہ کی ایک تحریر میں دیکھا تھا ۔ حضرت محمد بن سیرین رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے بارے میں یہ بات مشہور ومعروف ہے کہ وہ تعبیر خواب کے امام ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ : "الرؤیا تسرّ ولا تغرّ”.یعنی خواب خوش کرنے کے لئے تو ٹھیک ہے، لیکن اس سے دھوکے میں نہیں پڑنا چاہئے ،کیونکہ کسی شخص کی مقبولیت عنداللہ کا اصل مدار کسی خواب پر نہیں ہوتا ، بلکہ اس کے بیداری کے اعمال پر ہوتا ہے ۔ البتہ اُسے فال نیک سمجھ کر اس سے خوش ہو جانے کی حد تک ٹھیک ہے ، بشرطیکہ اُسے اعمال صالحہ اور اتباع سنت میں اضافے کا ذریعہ بنایا جائے۔
اس وضاحت کے ساتھ حضرت مدظلہم کی یہ تحریر بھی جو ان کے خط کے ساتھ منسلک تھی ، ذیل میں نقل کرتا ہوں:
۲۴؍ رجب المرجب ۱۴۳۲ ھ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آج سے پانچ سال پہلے ہمارے جامعہ کے درجہ حفظ کے ایک مدرس (جو صالح اور معمولات کے پابند ہیں) نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا، وہ خواب انہیں کے الفاظ میں (بتغییر یسیر) نقل کیا جاتا ہے:
"بندہ شبیر احمد نرولی نے ایام حج (ذی الحجہ) میں ایک خواب دیکھا تھا ،اس کے متعلق تعبیر مطلوب ہے۔ خواب کی تفصیل اس طرح ہے کہ بندہ نے بوقت تہجد یہ محسوس کیا کہ جامعہ ڈابھیل میں خانقاہ کا سلسلہ جاری ہے، اور بندہ بھی گاؤں میں پڑھا کر وقتافوقتا شریک ہوتا ہے، تو میں مسجد جامعہ آیا تو پتہ چلا کہ مسجد کے حی علی الفلاح والی جانب داخل ہوتے ہی پہلے دروازے کے قریب پہلی کھڑکی کے پاس پنکھے کے نیچے سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں، اس درمیان بعض نے ملاقات کا شرف حاصل کیا، بندہ نے بھی ملاقات کی، پھر تھوڑی دیر تک اور آنے والے حضرات نے ملاقات کی، بندہ کو مزید شوق ہوا ملاقات کا تو دوبارہ آگے بڑھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دیکھ کر کچھ جلدی سے اٹھ بیٹھے اور ملاقات کا شرف بخشا اور ارشاد فرمایا: خیریت سے ہو؟بندہ نے بحمد اللہ سے جواب دیا، پھر کچھ ہی دیر بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے چائے لائی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوش فرمائی، بندہ کے دل میں خیال آیا میں بھی کچھ گھر سے منگواؤں، میں نے ایک طالب علم کو اشارہ سے بتلایا: جلدی سے جا کر گھر سے کھانا لے آؤ، تو وہ فوراً گھر سے مرغی کا گوشت اور روٹی لایا، میں نے ادباً پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تناول فرمایا، میں بہت خوش ہورہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شکم سیر ہو کر تناول فرمایا، تو مجھے ہجرت والا قصہ یاد آیا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام معبد رضی اللہ عنہا کے گھر دودھ تناول فرمایا تھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ نوش فرمایا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا نوش فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیر ہوگئے اور میں خوش ہوگیا، وہی جذبہ میرا تھا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بائیں طرف پہلی کھڑکی کی طرف توجہ فرمائی، اس پر ایک کتاب انوار نبوت (مصنفہ مفتی شبیر صاحب) تھی، مجھ سے فرمایا: کتاب لاؤ! میں نے پیش کی، اور ساتھ ہی کھول کر بتلانے لگا ، اور ادباً عرض کیا :یا رسول اللہ! ان کی ہر کتاب مدلل ہوتی ہے، مفتی صاحب ہر حدیث کا حوالہ جلد نمبر ، صفحہ نمبر ، سطر نمبر سب لکھتے ہیں، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہاں! ہندوستان میں مفتی شبیر اور پاکستان میں مفتی محمد تقی عثمانی بہت اچھا کام کر رہے ہیں، اس کے کچھ دیر بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے حی علی الصلاۃ والی جانب تشریف لائے، پہلی کھڑکی کے پاس کچھ حضرات کھانا کھا رہے تھے، چاول اور دودھ ملا ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصائے مبارک الگ رکھا اور شریک ہوگئے، اتنے میں مولانا عبد اللہ کاپودروی صاحب تشریف لائے، ملاقات کی، فرمایا: یا رسول اللہ! آپ نے خلاف معمول عصا رکھ دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں بھائی! کسی کی خاطر صدمہ برداشت کرنا چاہیے۔ اس درمیان بہت سے علماء حضرات موجود تھے، حضرت والا مفتی احمد صاحب مد ظلہ بھی شریک تھے، بات چل رہی تھی، فجر کی اذان کی آواز آئی اور بند ہ کی آنکھ کھل گئی”۔
اس خط کے ملنے کے بعد میں نے حضرت مفتی صاحب مد ظلہم کو یہ جواب دیا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

گرامی قدر مکرم حضرت مولانا مفتی احمد خان پوری صاحب مد ظلہم العالی

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آنجناب کا گرامی نامہ بذریعہ ای میل ایسے وقت ملا جب سفر برطانیہ کیلئے پابرکاب ہوں، اس سے پہلے متعدد احباب کی طرف سے جب بھی اپنی آپ بیتی لکھنے کی تجویز آئی، بندہ نے اُسے سختی کے ساتھ اس لئے رد کیا کہ حقیقۃً بندہ اپنے آپ کو اس لائق نہیں سمجھتا کہ اپنے حالاتِ زندگی لکھے جائیں، اور دوسرے اہم کام ہر وقت سامنے رہتے ہیں، لیکن آنجناب نے جس انداز مشفقانہ میں یہ خط تحریر فرمایا ہے، اسے پڑھنے کے بعد پہلی بار اس تجویز پر سنجیدگی سے غور کرنے کا خیال پیدا ہوا۔ حقیقت تو اب بھی وہی ہے کہ ایک مکھی مچھر کی آپ بیتی کسی کو کیا نفع پہنچائے گی؟ لیکن آنجناب نے جن پہلووں کی طرف توجہ دلائی ہے، اُن میں بعض ایسے ہیں کہ ان پر سنجیدگی سے سوچنے لگا ہوں، ایک خیال اب بھی بڑی رکاوٹ ہے، اور وہ یہ کہ باقی ماندہ عمر میں کچھ دوسرے کام تالیف کے سلسلے میں پیش نظر ہیں، سوال یہ ہے کہ اوقات کو اُن کاموں میں صرف کرنا زیادہ بہتر ہے یا اس کام میں؟ کسی وقت موقع ہوا تو ان شاء ا للہ اس پر آنجناب سے زبانی رہنمائی لوں گا۔
جو خواب آنجناب نے نقل فرمایا ہے، اسے پڑھ کر عجیب کیفیت ہوئی جو الفاظ سے بالا تر ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ بندہ کو اُس کا اہل بننے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین۔ مفتی شبیر صاحب مد ظلہم اور ان کی تصانیف دیکھنے کا شوق پیدا ہوگیا۔ بندہ اُن سے ناواقف ہے۔ ہوسکے تو ان کے بارے میں چند سطور تحریر فرمادیں۔

والسلام
محمد تقی عثمانی
۶؍۸؍۱ ھ

اسکے بعد ایک اور مرتبہ حضرت مفتی صاحب مدظلہم کا یہ خط موصول ہوا:

باسمہ تعالیٰ

بخدمت حضرت مولانامحمدتقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
عافیت خواہ بعافیت ہے، خدا کرے حضرت والا بخیر وعافیت ہوں۔
احقر نے ماہِ شعبان المعظم میں حضرت والا سے آپ بیتی مرتب کرنے کی بذریعہ عریضہ درخواست کی تھی جسے حضرت والا نے بالمشافہہ اور تحریراً شرف قبولیت سے مشرف فرمایا ۔ فجزاکم اللہ أحسن الجزاء ۔
ماہِ مبارک میں مکّہ معظمہ میں باریابی کا شرف حاصل ہوا، اس وقت حضرت والا نے فرمایا تھا "آپ بیتی شروع کردی ہے”۔
اپنے مقام (انڈیا) پہنچنے کے بعد حضرت والا کا نوازش نامہ احقر کے نام آیا اس میں بھی اس سلسلہ میں سنجیدگی سے سوچنا تحریر فرمایا ہے۔
احقر کی درخواست کو شرفِ قبولیت عطا فرماکر اس کو عملی جامہ پہنانے سے بڑی مسرت ہوئی اور حضرت والا کی خورد نوازی کا احساس بھی۔
یہاں جس کسی کو یہ بات معلوم ہوئی بڑا خوش ہوا اور دعا گو ہے کہ اس سلسلہ کو اللہ تعالی ٰ آگے بڑھا کر جلد از جلد تکمیل فرمائے۔ (آمین )
حضرت والا نے اپنے مکتوب گرامی میں جو یہ تحریر فرمایا ہے:
"ایک خیال یہ بھی بڑی رکاوٹ ہے اور وہ یہ کہ باقی ماندہ عمر میں کچھ دوسرے کام تالیف کے سلسلہ میں پیش نظر ہیں، سوال یہ ہے کہ اوقات کو ان کاموں میں صرف کرنا زیادہ بہتر ہے یا اس کام میں”؟
اس کا اصل جواب تو حضرت والا ہی جانتے ہیں احقر کے ناقص خیال میں یہ ہے:
(1)تالیف کے کام حضرت والا اپنی زیر نگرانی کروالیں، اور آپ بیتی کا کام بذات خود انجام دیں؛ اس لئے کہ اوّل الذکر کام کی انجام دہی اور اس میں نقص کی صورت میں تلافی اہل علم کے بس میں ہے۔ جب کہ ثانی الذکر کام میں یہ نہیں ہوسکتا، احوال کی صحیح تصویر کشی دوسرا کر ہی نہیں سکتا اگر کوشش کرے گا بھی تو افراط و تفریط کا امکان ہے، جیسا کہ بعض سوانح نگار اس کا شکار ہوئے ہیں۔
(2)حضرت والا کے بیان سے ایسے امر کا حل ہزاروں انسانوں نے سیکھا، عمل کیا ور مفید پایا۔ حضرت والا ہی کے الفاظ” اصلاحی خطبات "سے نقل کرتا ہوں۔
"کام کرنے کا بہترین گُر”
ہمارے والد ماجد حضرت مفتی محمد شفیع صاحب قدس اللہ سرہ فرمایا کرتے تھے کہ جو کام فرصت کے انتظار میں ٹال دیا وہ ٹل گیا، وہ پھر نہیں ہوگا؛ اس واسطے کہ تم نے اس کو ٹال دیا۔ کام کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ دو کاموں کے درمیان تیسرے کام کو دھنسا دو،یعنی وہ دو کام جو تم پہلے سے کر رہے ہو،اب تیسرا کام کرنے کا خیال آیا، تو ان دو کاموں کے درمیان تیسرے کام کو زبردستی گھسادو، وہ تیسرا کام بھی ہوجائے گا. اور اگر یہ سوچا کہ ان دو کاموں سے فارغ ہو کر پھر تیسرا کام کریں گے تو پھر وہ کام نہیں ہوگا۔ یہ منصوبے اور پلان بنانا کہ جب یہ کام ہو جائے گا تو پھر یہ کام کریں گے یہ ٹالنے والی باتیں ہیں۔ (اصلاحی خطبات :۱/ ۵۳)
مذکور بالا دو حل پیش کرنے کی جرأت اور ہمت مکتوب گرامی کے الفاظ” کسی وقت موقع ہوا تو ان شاء ا للہ اس پر آنجناب سے زبانی رہنمائی لوں گا” سے ہوئی ، ورنہ ایسے امور میں کسی چھوٹے کا اپنے بڑے کو مشورہ دینا آفتاب کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔
مکتوب گرامی میں از راہِ تواضع تحریر فرمایا ہے:
"حقیقت تو اب بھی وہی ہے کہ کہ ایک مکھی مچھر کی آپ بیتی کسی کو کیا نفع پہنچائے گی”
احقر کے خیال میں مذکورہ جملہ بڑا معنی خیز ہے اس کے جواب میں بس اتنا کافی ہے کہ اگر مکھی میں نفع نہ ہوتا،تو قرآن کریم کی ایک سورت "النحل "کو اس کے نام سے موسوم نہ کیا جاتا۔
ایک اور نکتہ ذہن میں آرہا ہے، وہ یہ کہ مکھی مچھر دونوں اڑنے والے جانور ہیں۔ حضرت والا کی آپ بیتی در حقیقت جگ بیتی ہے۔ اہل ِ علم میں سے شاید ہی کسی نے اتنا طیران الارض کیا ہو جتنا حضرت نے فرمایا ہے۔ کتاب "جہانِ دیدہ” اور "دنیا مرے آگے” اس کا بین ثبوت ہے۔ حضرت کے سفرناموں کا جب یہ حال ہے کہ ؎ لذیذ بود حکایت، دراز تر گفتم
تو آپ بیتی کا کیا حال ہوگا؟اس کو الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔
بہر حال مکرر درخواست ہے کہ آپ بیتی تحریر فرمانے کا جو سلسلہ جاری فرمایا ہے اس کی تکمیل ضرور فرماویں۔
اللہ تعالیٰ حضرت والا کے سایہ عاطفت کو دیر تا دیر بعافیت وسلامت باقی رکھیں اور اوقات میں برکت نصیب فرماویں۔

أملاہ العبد أحمد عفی عنہ خانپوری
خادم دار الافتاء والتدریس
جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل
بتاریخ ۱۰؍ ذی قعدہ ۱٤۳۲ ھ

اس مکتوب میں حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم نے اس بندۂ عاجز کے بارے میں جن خیالات کااظہار فرمایا ہے ، وہ تو یقیناً ان کے حسن ظن اور محبت کااثر ہے ، ورنہ من آنم کہ من دانم۔ لیکن اس مکتوب گرامی کے ساتھ دل میں ایک اور خیال نے مجھے اس فرمائش پر عمل کا داعیہ پیدا کیا ۔اور وہ یہ کہ میرے کچھ محبت کرنے والوں نے اپنی محبت کے تقاضے سے میری سوانح اردو اور عربی میں مرتب فرمائی ہیں ، اور انہیں دیکھ کر مجھے یہ اندازہ ہوا کہ ان کی محبت نے بہت سے معاملات میں انہیں مبالغے پر آمادہ کردیا ہے ، نیز بعض موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے ان معاملات کا پورا پس منظر اور تفصیلات ان کے سامنے نہیں آسکیں ، اور ان کی صحیح حقیقت میرے علاوہ شاید کوئی اور بیان نہ کر سکے ۔ اس لئے ریکارڈ درست رکھنے کی خاطر یہی مناسب ہے کہ میں خود اپنے قلم سے ان کی حقیقت واضح کروں ۔
دوسری طرف جو چیز میرے لئے بہت بڑے مانع کی حیثیت رکھتی تھی ، وہ یہ کہ متعدد تالیفی خدمات میرے پیش نظر تھیں جنہیں چھوڑ کر اپنی ذاتی داستان چھیڑ دینا طبیعت پر بار تھا ۔ان دونوں جہتوں میں تطبیق کے لئے ہی میں نے حضرت مفتی احمد خان پوری صاحب مدظلہم سے یہ وعدہ کرلیاتھا کہ میں اپنے سفروں کے دوران ان کی فرمائش کو پورا کرتے ہوئے عمر رفتہ کی یادیں قلمبند کرنے کی کوشش کروں گا۔
چنانچہ میں نے جواب میں مندرجۂ ذیل خط لکھا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

گرامی قدر معظم حضرت مولانا مفتی احمد خان پوری صاحب مد ظلہم العالی

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حضرت والا کا گرامی نامہ بذریعہ ای میل موصول ہوا، اور تعمیلِ ارشاد کی خاطر اللہ تبارک وتعالیٰ کے نام پر ارادہ کر لیا ہے کہ ان شاء اللہ تعالیٰ یہ کام فی الحال سفروں کے دوران شروع کردوں گا۔ آنجناب حج کے سفر پر روانہ ہورہے ہیں، بندہ دست بستہ دعاؤں کا ملتجی ہے، اور اگرچہ معلوم ہے کہ آنجناب اس ناکارہ کیلئے دعا فرماتے ہی ہیں، لیکن پھر بھی درخواست کرنے کو دل چاہتا ہے، اور یہ دعا بھی فرمائیں کہ اگر اس کام میں اللہ تعالیٰ کی رضا ہو تو اسے بعافیت مکمل اس طرح کرنے کی توفیق عطا فرمائیں کہ دوسرے کاموں کا بھی حرج نہ ہو۔ نیز روضۂ اقدس پر اس ناکارہ کا سلام عرض کرنے کی بھی درخواست ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ آپ کو حج مبرور کی سعادتوں سے مالا مال کر کے بعافیت واپس لائیں، اور بایں فیوض تا دیر آپ کا سایۂ عاطفت ہم پر قائم رکھیں۔ آمین۔ والسلام

بندہ محمد تقی عثمانی
۲۸؍ذو القعدۃ ۱۴۳۲ ھ

چنانچہ اس صورت پر عمل کرتے ہوے میں نے جہازوں اور سفر کی قیام گاہوں پر یہ کام شروع کیا۔کچھ عرصے کے بعد حضرت مفتی صاحب مد ظلہم سے پھر ملاقات ہوئی ، توا س کاایک معتد بہ حصہ مکمل ہوچکا تھا۔ حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم کو اس کی اطلاع دی ، تو انہوں نے فرمایا کہ میں اس سلسلے کو اپنے ماہنامے "البلاغ” میں قسط وار شائع کرنا شروع کردوں ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے نام پر اگلے مہینے سے یہ سلسلہ البلاغ میں شروع کررہا ہوں ۔اللہ تعالیٰ اسے پڑھنے والوں کے لئے نافع اور مفید بنائیں۔ آمین۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭