حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی

یادیں

(سینتالیسویں قسط)

ہمارے فیڈرل شریعت کورٹ آنے سے پہلے زرعی اصلاحات کے قوانین کے بارے میں جسٹس آفتاب صاحب مرحوم کا یہ فیصلہ آچکا تھا کہ ان قوانین کو دستور نے تحفظ دے رکھا ہے، اس لئے یہ قوانین بھی عدالت کے دائرئہ اختیار سے باہر ہیں۔ میرا نقطہ ٔ نظر یہ تھا کہ آئین کی رُو سے دستور تو اس عدالت کے اختیار سے باہر ہے، لیکن دستورنے جن قوانین کو تحفظ دے رکھا ہے، انہیں” دستور ”نہیں کہا جاسکتا، اس لئے وہ عدالت کے اختیار سے باہر نہیں ہیں۔ لیکن فیصلہ ہمارے آنے سے پہلے ہوچکا تھا۔ البتہ ایک ایسی ہی در خواست پر جسٹس آفتاب صاحب نے اپنے اُس فیصلے کا حوالہ دیا، تو اُس پر میں نے ایک مختصر نوٹ لکھ دیا کہ میری رائے میں یہ فیصلہ نظر ثانی کا محتاج ہے۔ (بعد میں سپریم کورٹ نے متفقہ طورپر میرے موقف کے حق میں فیصلہ دیا)
جسٹس آفتاب صاحب مرحوم کو میرا اس طرح اُن سے اختلاف کرنا پسند نہیں آتا تھا ، اور انہوں نے بعض مجلسوں میں اس بات پر کسی قدر ناگواری کا بھی اظہار فرمایا کہ میں خالص قانونی امور میں بھی اُن سے کیوں اختلاف کرتا ہوں، بلکہ ایک موقع پر انہوں نے یہاں تک فرمایا کہ ” اس معاملے میں ہماری رائے حرف آخر ہے ” حالانکہ اول تو ججوں کی رائے میں اختلاف ہونا، اور اختلافی فیصلے لکھنا عدلیہ کے عرف میں نہ کوئی انہونی بات تھی، نہ اس پر کسی ناگواری کا اصولی طورپر کوئی موقع تھا۔دوسرے وہ قانونی معاملات میں اپنی رائے کو میرے مقابلے میں ”حرف آخر” غالباً اس لئے سمجھتے تھے کہ یقیناً ان معاملات میں ان کا علم اور تجربہ مجھ سے کہیں زائد تھا۔ لیکن جب شرعی مسائل کا معاملہ آتا، تو وہ علماء کی رائے کو اتنا وزن دینے کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے جتنا وہ قانونی معاملات میں اپنی رائے کو وزنی سمجھتے تھے، اور بعض مرتبہ مسائل کے سلسلے میں بلاوجہ بھی الجھ پڑتے تھے۔ان کی طبیعت میں کسی قدر غصہ بھی تھا، جو کسی اختلافی مسئلے کے دوران لفظوں سے جھلک بھی پڑتا تھا۔ ان وجوہ سے ظاہری وضع داری کے باوجود اُن سے باربار کچھ تناؤ کی سی کیفیت پیدا ہوجاتی تھی۔مجھ سے ان کی کسی قدر ناراضی بعض اوقات ان کے انتظامی فیصلوں پر بھی اثر انداز ہوجاتی تھی۔
شروع میں صورت حال یہ تھی کہ رائج الوقت قوانین کے بارے میں یہ عدالت اُسی وقت فیصلہ دے سکتی تھی جب کسی شہری نے اس بارے میں کوئی درخواست دی ہو، عدالت از خود کسی قانون کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں دے سکتی تھی۔ لیکن جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا، اس قسم کی درخواستیں بہت کم آرہی تھیں، لیکن بعد میں عدالت کو کسی قانون کے بارے میں خود اپنی تحریک پر (Suo motu) کارروائی کرنے کا اختیار بھی مل گیا۔ اس موقع پر ہم نے طے کیا کہ مختلف قوانین کا خودبھی جائزہ لیا جائے، اور جو قانون قرآن وسنت کے خلاف معلوم ہو، اُس کے بارے میں عام نوٹس جاری کیا جائے، اور علماء اور وکلاء کو دعوت دی جائے کہ وہ اُس کے بارے میں اپنا موقف عدالت کے سامنے بیان کریں، اور حکومت کو بھی نوٹس دیا جائے کہ وہ اپنا موقف دلائل کے ساتھ پیش کرے۔ چنانچہ جسٹس ظہورالحق صاحب کی تحریک پر یہ کام میرے ذمے لگایا گیا کہ میں ”قانون معاہدہ” (Contract Act) کا جائزہ لوں، اور اُس میں اُن دفعات کی نشاں دہی کروں جو بظاہر قرآن کریم یا سنت کے خلاف نظر آتی ہیں،کیونکہ یہ قانون بیشتر دیوانی معاملات کی بنیاد ہے، اور اگر وہ ٹھیک ہوجائے تو بہت سے دیوانی معاملات کی اصلاح ہوسکتی ہے۔ چنانچہ میں نے یہ کام شروع کیا، اور اس کے بارے میں کافی محنت اور مراجعت کرکے ایک مفصل تحریر تیار کی۔ طے یہ ہوا تھا کہ یہ تحریر تمام ججوں کو پیش کی جائیگی، اور پھر ایک مشترک مجلس میں اُس پر مشورہ ہوگا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ جسٹس آفتاب صاحب مرحوم قوانین میں کسی بڑی تبدیلی کے حق میں نہیں تھے۔ اس لئے جس کسی دفعہ کے متعلق میں یہ اظہار خیال کرتا کہ اس میں شرعی نقطۂ نظر سے فلاں خامی ہے، تو وہ فوراً اُس کا دفاع شروع کر دیتے،اور اکثر سوچنے کو بھی تیار نہیں ہوتے تھے، یہاں تک کہ پورے قانون معاہدہ میں انہیں کوئی بات قرآن وسنت کے خلاف محسوس نہیں ہوئی۔مجھے اس بات پر بھی حیرت ہوتی تھی کہ جناب جسٹس ملک غلام علی صاحب (رحمہ اللہ تعالیٰ) بھی ہر بات میں انہی کی تائید فرماتے تھے۔اگر میں کسی مسئلے پر گفتگو کے دوران فقہاء کرام کا حوالہ دیتا، تو بعض اوقات جسٹس آفتاب صاحب مرحوم برافروختہ بھی ہوجاتے تھے۔ کئی دن میں اس صورت حال پر تحمل کا مظاہرہ کرتا رہا، لیکن ایک موقع پر انہوں نے بھری مجلس میں کوئی ایسی بات کہدی جو نہ صرف نامناسب، بلکہ میرے لئے ناقابل برداشت تھی، اور جس میں فقہاء کی اہانت کا بھی پہلو نکلتا تھا۔ اس پر مجھے بھی کچھ تاؤ آگیا، اور میں نے فائل ان کے سامنے رکھ کر کہا کہ اگر آپ کا طرز عمل یہ ہے، تو معاف کیجئے، میں آپ کے ساتھ کام نہیں کرسکتا، آپ اپنے طورپر کام کیجئے، میں اپنے طورپر کروں گا۔یہ کہہ کر میں مجلس سے اٹھکر اپنے چیمبرمیں آگیا۔
چیف جسٹس کی حیثیت سے بیشک ان کا رتبہ زیادہ تھا، اور انتظامی اختیارات بھی ان کو حاصل تھے، لیکن جہاں تک عدالتی حدود اختیار کا تعلق تھا، مجھ میں اور اُن میں کوئی فرق نہیں تھا، فیصلہ کرنے کا جو اختیار انہیں حاصل تھا، مجھے بھی اتنا ہی اختیار حاصل تھا، اس لئے میں نے فیصلہ کیا کہ میں ان کے بغیر کام کروں گا۔ میرے کمرے میں آنے کے بعد جسٹس ظہورالحق صاحب ؒ اور جسٹس چودھری صدیق صاحبؒ میرے پاس آئے، اور مجھ سے معذرت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جسٹس آفتاب صاحب مزاج کے سخت ہیں، آپ ا ن کی وجہ سے بد دل نہ ہوں، اور میں ان شاء اللہ انہیں سمجھانے کی کوشش کروں گا۔ بعد میں انہوں نے جسٹس آفتاب صاحب سے بات کی، اورانہوں نے وعدہ کیا کہ وہ میری ناراضی کی تلافی کریں گے، اور آئندہ اس قسم کا طرز عمل اختیار نہیں کریںگے۔چنانچہ اگلے دن جب میں ایک دوسرے مقدمے کی سماعت کے لئے پہنچا، تو انہوں نے معمول سے زیادہ تپاک سے میرا استقبال کیا، اور معذرت کا کوئی لفظ تو نہیں فرمایا، لیکن مجھے ساتھ کام کرنے کی دعوت دی، اور مجھ سے کہا کہ ‘‘We are led by you’’”ہم تو آپ کی قیادت میں کام کررہے ہیں‘‘
اس کے بعد واقعی ان کا طرز عمل کافی تبدیل ہوا، اور میں دوبارہ ان کے ساتھ مشورے میں شریک ہوگیا۔لیکن ابھی ہمارا یہ کام جاری ہی تھا کہ میرا تقرر سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ میں ہوگیا، اور اس طرح یہ کام بیچ میں رہ گیا۔
سپریم کورٹ میں تقرر
سپریم کورٹ میں اُس وقت جو شریعت اپیلیٹ بنچ بنائی گئی، اُس کے سربراہ جناب جسٹس محمد افضل ظلہ تھے (جو بعد میں چیف جسٹس بن کر ریٹائر ہوئے)نیز اُس میں جسٹس نسیم حسن شاہ صاحب اور جسٹس شفیع الرحمن کے ساتھ حضرت پیر محمد کرم شاہ صاحب ازہری رحمۃ اللہ علیہ کو اورمجھے عالم جج کے نام پر شامل کیا گیا تھا۔الحمد للہ ان حضرات کے ساتھ ہماری بہت اچھی مناسبت قائم رہی۔ بعض امور میں اختلاف رائے بھی ہوا، تو وہ اپنی حدود میں رہا۔
اُس وقت سپریم کورٹ راولپنڈی کی ایک عمارت میں قائم تھا۔اسی عمارت کے سامنے ایک کوٹھی میں کورٹ کا ریسٹ ہاؤس ہوا کرتا تھا۔ جب بنچ کا اجلاس ہوتا، تو میں اُس ریسٹ ہاؤس میں اکثر تنہا اور کبھی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ ہفتے دو ہفتے کے لئے مقیم ہوجاتا تھا۔
سپریم کورٹ میں آنے کے بعد مجھے زیادہ دلجمعی کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں، مجھے فوجداری مقدمات کے بجائے اُن مقدمات سے زیادہ دلچسپی تھی جن میں رائج الوقت قوانین کا شریعت کی روشنی میں جائزہ لینے کا مطالبہ کیا گیا ہو۔الحمد للہ یہاں مجھے ایسے بہت سے مقدمات کا فیصلہ کرنے کا موقع ملا۔
ابتدائی دنوں میں سب سے اہم مقدمہ پنجاب اور سرحد کے قانون شفعہ کے بارے میں تھا۔ ان دونوں صوبوں میں شفعے کے قوانین عرصۂ دراز سے شریعت کے خلاف چلے آرہے تھے جس کی وجہ سے ان صوبوں میں مقدمہ بازی کا ایک لا متناہی سلسلہ چلا ہوا تھا۔ مثلاً ان میں شریعت کی مخالفت کا ایک پہلو یہ تھا کہ شرعاً حق شفعہ ثابت ہونے کے لئے جو شرائط ہوتی ہیں، وہ ان قوانین میں موجود نہیں تھیں۔شریعت میں شفعہ کا قانون اس لئے نہیں تھا کہ لوگ اُس کی بنیاد پر اپنی جائیدادوں میں اضافہ کرتے چلے جائیں، بلکہ اس لئے تھا کہ کسی جائیداد کے مالک کو اگر یہ خطرہ ہو کہ برابر کی زمین کا کوئی نیا خریدار وہاں آکر اُسے نقصان پہنچائے گا، تو وہ فوراً شفعہ کا دعویٰ دائر کردے، چنانچہ شریعت میں شفعے کے حق کی ایک اہم شرط یہ ہے کہ اُس کا حق دار خریداری کا علم ہوتے ہی بلا تاخیر شفعے کا دعویٰ کرے، لیکن ان قوانین میں یہ حق دیا گیا تھا کہ کوئی شخص ایک سال کے اندر اندر کسی بھی وقت یہ دعویٰ کرسکتا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی شخص کوئی جائیداد بیچتا، تو خریدار کو سال بھر تک یہ اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ کوئی اُس پر شفعے کا دعویٰ کررہا ہے یا نہیں۔پھر یہ بھی ہوتا تھا کہ سال گذرنے سے ذرا پہلے کوئی یہ دعویٰ کردیتا تھا، اور پھر مقدمہ بازی میں دونوں کا وقت اور روپیہ خرچ ہوتا رہتا تھا، اور سالہا سال تک وہ زمین لٹکی رہتی تھی، اور یہ فیصلہ نہیں ہوپاتا تھا کہ آخر کار اس کا مالک کون ہوگا۔
اسی طرح شریعت میں شفعے کا حق یا تو اس شخص کو ہوتا ہے جو زمین میں بیچنے والے کا شریک ہو، یا اس کاپڑوسی ہو، لیکن پنجاب اور سرحد کے قوانین میں کچھ اور لوگوں کو بھی شفعے کا حق دیدیا گیا تھا جو شرعاً حقدار نہیں تھے۔
کچھ حضرات نے ان قوانین کو وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کیا تھا، اور ہمارے اُس عدالت میں جانے سے پہلے جناب جسٹس آفتاب حسین صاحب مرحوم نے اپنے ایک فیصلے کے ذریعے ان در خواستوں کو خارج کرکے ان قوانین کو بحال رکھا تھا، اور اپنے طویل فیصلے میں یہ قرار دیا تھا کہ ان میں شرعی اعتبار سے کوئی خرابی نہیں ہے۔ ان کے اس فیصلے کے خلاف اپیل سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ میں دائر تھی، اور ہمارے سپریم کورٹ پہنچنے کے بعد اُس کی سماعت شروع ہوئی۔دونوں طرف سے وکلاء کی بحث کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا گیا، اور فیصلہ لکھنے کے لئے جسٹس ظلہ صاحب نے فائل حضرت پیر محمد کرم شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو بھیجی۔ انہوں نے بڑا فاضلانہ فیصلہ لکھا۔ اُس وقت ہماری بنچ میں جناب جسٹس ایم ایچ ایس قریشی صاحب بھی شامل تھے۔انہوں نے حضرت پیر کرم شاہ صاحب ؒ کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے اپنا فیصلہ الگ لکھا، اور اُس میں کچھ ایسے نکات اٹھائے جو حقیقت میں تو اتنے اہم نہیں تھے، لیکن اُن جدید تعلیم یافتہ حضرات کے لئے پرُکشش ہوسکتے تھے جنہوں نے اسلامی علوم کو باقاعدہ نہیں پڑھا۔مگر بات اتنی سنگین تھی کہ اگر ان کو ایک مرتبہ عدالتی سطح پر درست مان لیا جائے، تومعاشی اور تجارتی معاملات میں شریعت کے احکام کی کلّی نفی ہوسکتی تھی۔ایک ملاقات میں جناب جسٹس ظلہ صاحب نے بھی مجھ سے کہا کہ انہوں نے بڑے مضبوط دلائل دئیے ہیں۔
میں نے عرض کیا کہ مجھے ابھی اپنا فیصلہ لکھنا ہے، اس لئے تھوڑا انتظار فرمالیں۔ اس کے بعد کوئی رائے قائم فرمائیں۔چنانچہ میں نے مفصل فیصلہ لکھا، اور اُس میں جناب جسٹس قریشی صاحب کے دلائل پر بھی تبصرہ کیا، اور فیصلہ لکھ کر دوسرے جج صاحبان کے پاس بھیج دیا۔ اس کو پڑھنے کے بعد دوسرے جج صاحبان (جسٹس افضل ظلہ اور جسٹس شفیع الرحمن صاحب)نے بھی اُس سے اتفاق کرکے اُس پر دستخط کردئیے حضرت پیر محمد کرم شاہ صاحب ؒ کا فیصلہ پہلے ہی سامنے آچکا تھا۔ اور آخرکار عدالتی حکم مؤرخہ 23 فروری 1986 کو یہی جاری ہوا کہ یہ قوانین قرآن وسنت کے خلاف ہیں۔دستور کی رو سے جب سپریم کورٹ کی شریعت بنچ کسی قانون کو خلاف قرآن وسنت قرار دے، تو وہ ایک تاریخ دیتی ہے تاکہ اُس تاریخ تک حکومت ان قوانین میں شریعت کے مطابق ترمیم کرلے، لیکن اگر اُس تاریخ تک وہ ترمیم نہ کرے، تو اُس تاریخ سے وہ قانون جسے شریعت کے خلاف قرار دیا گیا ہے، خود بخودبے اثر یعنی ختم ہوجاتا ہے۔ چنانچہ شفعہ کے قوانین کے بارے میں مندرجۂ ذیل عدالتی حکم جاری ہوا:

Appeals no 4 and 5 of 1979 are dismissed, and all other appeals are allowed in terms of the formal last part of the judgment of Maulana Muhammad Taqi Usmani J. If possible, a consolidated law of preemption be enacted accordingly till 31.7.1986.
1979” کی اپیل نمبر 4 اور 5 خارج کی جاتی ہیں، اور باقی تمام اپیلیں اُس تفصیل کے مطابق منظور کی جاتی ہیں جو جسٹس مولانا محمد تقی عثمانی کے فیصلے کے آخری حصے میں بیان کی گئی ہے۔اگر ممکن ہو، تو ایک نیا جامع قانون شفعہ اس فیصلے کے مطابق زیادہ سے زیادہ 31 جولائی 1986 تک نافذ کردیا جائے”(پی ایل ڈی 1986 سپریم کورٹ)

اس فیصلے کے نتیجے میں ہزاروں دیوانی مقدمات جن کی وجہ سے پنجاب اور سرحد میں سینکڑوں زمینیں سالہا سال سے لٹکی پڑی تھیں، سب خارج ہوگئے۔ٍپھر جن لوگوں کے مفادات پر اس تبدیلی سے ضرب پڑی تھی، وہ ایک مدت تک اعلیٰ عدالتوں میں اس فیصلے کے اثرات پر بحث کرتے رہے، اور بعد میں فیصلے کے نتیجے میں پنجاب اور سرحد کی حکومتوں نے جو نیا قانون بنایا، اُس کو بھی چیلنج کیا گیا، اور معاملہ ایک سے زائد مرتبہ ہماری عدالت میں آیا، اور اُس پر بھی میں نے ایک فیصلہ اردو میں اور ایک انگریزی میں لکھا جس کے بعد یہ مقدمات ختم ہوگئے۔میرے یہ فیصلے پی ایل ڈی میں بھی رپورٹ ہوئے ہیں(۱)، اور میری کتاب ” عدالتی فیصلے ” میں بھی شائع ہوئے ہیں۔
اسی طرح ایک اہم فیصلہ قمار کے بارے میں تھا جس میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 294 اے کے اس حکم کو ختم کیا گیا جس کی رُو سے سرکاری لاٹری جوے کی ممانعت سے مستثنیٰ تھی، اور اس کے علاوہ صوبائی حکومت کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ کسی خاص لاٹری کو لائسنس دے سکتی ہے ۔اس فیصلے میں قمار کی مفصل تعریف کرکے اُس کی تمام صورتوں کو ناجائز اور غیر قانونی قراردیا گیا۔(پی ایل ڈی 1992 سپریم کورٹ ص 166 تا 179)
ایک اور قانون جو انگریزوں کے وقت سے ہمارے ملک میں بھی نافذ چلا آتا تھا، ” قبضۂ مخالفانہ” (Adverse Possession) کا قانون تھا۔ قانون میعاد سماعت کی دفعہ 28 کی رُو سے اگر کوئی شخص کسی دوسرے کی جائیداد پر غاصبانہ قبضہ کرکے اُس پر بارہ سال تک اس طرح قابض رہے کہ اس دوران اصل مالک نے کوئی دعویٰ نہ کیا ہو، تو اصل مالک کا حق ملکیت ہی ختم ہوجاتا تھا، اور غاصب کو ملکیت کے حقوق حاصل ہوجاتے تھے۔اس موضوع پر بھی میں نے ایک مفصل فیصلہ لکھا تھا جسکے نتیجے میں ”مخالفانہ قبضہ” کا قانون ختم ہوگیا۔ (این ایل آر 1991 SD ص 700)
تعزیرات پاکستان کا قانون تمام تر انگریز کے بنائے ہوئے تعزیرات ہند پر مبنی تھا، اس میں حدود وقصاص کے احکام نہیں تھے۔ حدود کو قانوناً نافذ کرنے کے لئے حدودآرڈی ننس تو صدر ضیاء الحق کے زمانے میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارش پر نافذ ہوچکا تھا جس کا مفصل تذکرہ میں پیچھے کر چکا ہوں۔ قصاص اور دیت کا اسلامی قانون نافذ کرنے کے لئے میں نے ایک ابتدائی مسودہ اسلامی نظریاتی کونسل کی رکنیت کے زمانے میں مرتب کرکے پیش کیا تھا، لیکن وہ ابھی نافذ نہیں ہوسکا تھا کہ میں کونسل سے وفاقی شریعت عدالت میں منتقل ہوگیا۔یہاں کچھ لوگوں نے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کو چیلنج کیا ہوا تھا کہ وہ شریعت کے قانون قصاص ودیت کے خلاف ہے(۱)۔ اس لئے اس کو تبدیل کیا جائے۔ اس مقدمے کا فیصلہ بھی میں نے تفصیل کے ساتھ لکھا جس میں دفعہ 302 کے تمام خلاف شریعت پہلووں کو واضح کیا گیا تھا۔ یہ فیصلہ پی ایل ڈی میں بھی شائع ہوا، اور میری کتاب ”عدالتی فیصلے ” میں بھی شائع ہوا ہے۔
اس فیصلے کے نتیجے میں جب حکومت نے قصاص اور دیت کا قانون نافذ کرنے کا ارادہ کیا، تو اُس وقت میرا وہ مسودہ جو میں نے اسلامی نظریاتی کونسل میں تیار کیا تھا، اس کو بنیاد بناکر اس کی ڈرافٹنگ کی گئی، اور وزارت قانون کی فرمائش پرمیں اس میں شریک رہا۔وزارت کے ایڈیشنل سیکریٹری جناب امجد صاحب کو ڈرافٹنگ کی ذمہ داری دی گئی تھی۔میں ان کے ساتھ اس کام میں شریک رہا، اور کئی ہفتوں کی نشستوں کے بعد وہ آخری شکل میں نافذ ہوا۔ اس آخری شکل میں بنیادی احکام تو وہی رکھے گئے جو میرے تیار کردہ مسودے میں بیان ہوئے تھے، البتہ بہت سی چیزیں حذف ہوگئیں، اور ترتیب میں بھی اس لئے تبدیلی آئی کہ اس نئے قانون کو حدود آرڈی ننس کی طرح الگ قانون کے طورپر نافذ کرنے کے بجائے تعزیرات پاکستان ہی کا حصہ بنادیا گیا تھا۔بہر حال! اس طرح ملک کے تعزیری قوانین کا بیشتر حصہ الحمد للہ شریعت کے مطابق ہوگیا۔
یہاں اس زمانے میں اپنے لکھے ہوئے تمام فیصلوں کا تذکرہ مقصود نہیں۔ میری کتاب ”عدالتی فیصلے” میں ان میں سے بیشتر فیصلے یکجا شائع ہوچکے ہیں، لیکن یہ چند مثالیں یہ بتانے کے لئے عرض کی ہیں کہ وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ کی اہمیت کا کچھ اندازہ ہوسکے کہ اس کے ذریعے قوانین کو اسلامی بنیادوں پر تبدیل کرنے کا کام کتنا مؤثر ہوسکتا ہے۔ پارلیمنٹ کے راستے سے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے سوا مجھے یاد نہیں ہے کہ کسی رائج الوقت قانون کو شریعت کے مطابق بنایا گیا ہو، لیکن ان عدالتی فیصلوں کے ذریعے بہت سے قوانین علمی بنیادوں پر تبدیل ہوئے۔ مجھے اس بات کی ابتک بڑی حسرت ہے کہ ملک کے دینی حلقوں اور جماعتوں نے اس ادارے سے فائدہ اٹھاکر قوانین کوتبدیل کرانے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ جن درخواستوں پر ہم نے فیصلے دئیے، وہ زیادہ تر ایسے لوگوں کی دائر کی ہوئی تھیں جن کے ذاتی مسائل کو حل کرنے میں اسلامی قانون مدد کرسکتا تھا۔ میں نے علماء کرام اور دینی جماعتوں کے ذمہ دار حضرات سے نہ جانے کتنی بار یہ التجا کی کہ آپ علماء اور وکلاء کی ایک کمیٹی بناکر تمام رائج الوقت قوانین کا جائزہ لیں، اور خلاف شریعت قوانین کے خلاف در خواستیں دائر کریں۔بعض حضرات کو میں نے اجمالی طورپربعض قوانین کی فہرست بھی بناکر دیدی کہ وہ ان کا جائزہ لیں،لیکن میرے سترہ سالہ عدالتی دور میں ان کی طرف سے کوئی ایک درخواست بھی دائر نہیں ہوئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عدالتی ماحول میں یہ تأثر عام ہوگیا کہ لوگوں کو عدالت کے ذریعے قوانین کو شرعی بنیادوں پر چیلنج کرنے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ عدالت کے چیف جسٹس صاحبان جو کوئی مقدمہ کسی بنچ کو سپرد کرنے کا اختیار رکھتے تھے، انہوں نے بھی ایسے مقدمات سے سرد مہری اختیار کی ہوئی تھی۔ اس قسم کی جو اپیلیں آتی تھیں، وہ مدت تک سماعت کے لئے لگاتے ہی نہیں تھے، اورہماری بنچ میں زیادہ تر فوجداری مقدمات لگتے رہتے تھے۔میں نے بار بار چیف جسٹس صاحبان سے عرض کیا کہ شریعت اپیلیٹ بنچ کا اصل مقصد قوانین سے متعلق اپیلوں کا فیصلہ کرنا ہے، فوجداری مقدمات کا فیصلہ ضمنی طورپر اُس کے سپرد کیا گیا ہے، جیساکہ آئین کی ترتیب سے ظاہر ہے، لہٰذا ان مقدمات کو اولیت دینی چاہئے، لیکن تقریباً ہربار ان کا جواب یہ ہوتا کہ فوجداری مقدمات کے تقاضے زیادہ ہیں، اور قوانین کو اسلامی بنانے سے متعلق جو اپیلیں ہیں، ان کا کوئی پوچھنے والا نہیں کہ اتنی دیر کیوں ہورہی ہے۔ بلکہ سیکولر ذہن کے حضرات اس سے یہ نتیجہ نکالتے کہ عوام کو اسلامی قوانین کے نفاذ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اگرچہ میرا جواب یہ ہوتا تھا کہ ہمیں لوگوں کے تقاضوں کی بنیاد پر نہیں، بلکہ زمانی اولیت کی بنیادپر مقدمات لگانے چاہییں، لیکن یہ آواز اکثر صدا بصحرا ہوکر رہجاتی تھی۔ نتیجہ یہ کہ اس قسم کے مقدمات کئی کئی سال پڑے رہتے تھے۔ باہر سے ان کی پیروی کرنے یا ان کا تقاضا کرنے والا کوئی نہیں تھا۔
ان کے علاوہ حدود آرڈی ننس کے تحت مقدمات کی آخری اپیل ہمارے پاس آیا کرتی تھی۔ان مقدمات میں بھی بہت سے فقہی اور قانونی مسائل زیر بحث آتے تھے۔ان کا حتمی فیصلہ بھی اس دوران کیا گیا۔یہ فیصلے بھی قانونی مجلات میں شائع ہوتے رہے ہیں۔اور اب وہ بھی میری کتاب ”عدالتی فیصلے”کے نئے ایڈیشن میں شائع ہورہے ہیں۔

جاری ہے ….

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

(ماہنامہ البلاغ :ربیع الاول ۱۴۴۳ھ)