یادیں (دسویں قسط)

حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی

یادیں

(دسویں قسط )

انجمن اصلاح صبیاں
ہمارے گھر کے قریب مسجد باب الاسلام تھی جس کاذکر پیچھے گذر چکا ہے۔ اس مسجد کے قریب ایک مکان میں حضرت حاجی محمد ایوب صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ، رہا کرتے تھے۔ اُن کے کئی صاحبزادے تھے جن میں میرے تقریباً ہم عمر جناب محمد کلیم صاحب تھے (اﷲتعالیٰ اُنہیں بعافیت تادیر سلامت رکھے) اُن سے نمازوں میں ملاقات کے دوران دوستی ہوگئی جو بحمداﷲآج تک قائم ہے ۔ ماشاء اﷲاُن کا گھرانہ دیندار گھرانہ تھا۔اُن کے ساتھ کھیل کود کا تو زیادہ اتفاق نہیں ہوا ، لیکن اُنہوں نے یہ تجویز پیش کی کہ بچوں میں دینی شعور پیدا کرنے کے لئے ایک بچوں کی جماعت بنانی چاہئے ۔چنانچہ زیادہ تر اُنہی کی کوششوں سے مسجد میں غالباً ہفتہ وار بچوں کا ایک اجتماع شروع ہوگیا۔ کلیم صاحب اگرچہ اسکول میں (شاید ساتویں یا آٹھویں جماعت میں) پڑھتے تھے، لیکن ما شاء اﷲگھر کی تربیت کے نتیجے میں اُس عمر کے لحاظ سے دینی معلومات بھی خوب تھیں، اور اُنہیں بات کرنے کا سلیقہ بھی مجھ سے زیادہ آتا تھا ۔ چنانچہ جہاں تک یاد ہے ، پہلی مجلس میں اُنہوں نے حضرت عمر، رضی اﷲتعالیٰ عنہ، کے اسلام لانے کا واقعہ بچوں کو بڑی کامیابی سے سُنایاجسے بچوں نے بہت پسند کیا۔ میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ میں بولتے وقت بہت اٹکا کرتا تھا، اس لئے کلیم صاحب کی طرح روانی سے تقریر کرنا مجھے بھاری معلوم ہوتا تھا ۔ لیکن جب بار بار بچوں کا یہ اجتماع ہونے لگا ، تو مجھے بھی کچھ نہ کچھ بولنا پڑتا تھا ۔ چنانچہ جہاں تک یاد ہے ، میں” حکایات صحابہ "سے کسی صحابی کے واقعات یاد کرکے سُنانے لگا تھا ۔ میرے بھانجے حکیم مشرف حسین صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ، اگرچہ بندرروڈ پر ہم سے دور رہتے تھے ، لیکن بچوں کے اس اجتماع میں وہ بھی پوری طرح شریک رہا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ہم نے سوچا کہ بچوں کی اس جماعت کا کوئی نام بھی رکھدینا چاہئے ۔ ہماری سمجھ میں اور کچھ نہ آیا تو اُسے "شعبۂ تبلیغ اسلام” کہنے لگے؛ اور س اُس کی رُوداد وغیرہ بھی کسی کاپی میں لکھی جانے لگی ۔ ایک مرتبہ یہ کاپی حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کی نظر پڑگئی، تو اُنہوں نے مجھ سے پوچھا یہ کیا ہے؟ میں نے ساری تفصیل بتادی تو حضرت ؒ نے فرمایا کہ یہ نام مناسب نہیں ۔ اس کانام” انجمن اصلاح صبیاں ” رکھدو۔ چنانچہ پھر ہم نے اسی نام سے ایک مہر بھی بنوالی، اور یہ سلسلہ ہمارے برنس روڈ کا مکان تبدیل کرنے پرختم ہوا۔
عربی تعلیم کے مراکز
اسی سال یہ واقعہ پیش آیا کہ پاکستان میں سوریا (شام ) کے سفیر جناب جواد المرابط صاحب جو اگرچہ مغربی وضع وقطع میں رہتے تھے ، لیکن بڑے عبادت گذار اور صاحب دل آدمی تھے ، اورحضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ، کے پاس بڑی محبت اور عقیدت کے ساتھ آیاکرتے تھے، انہوں نے حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ، کو یہ تجویز پیش کی کہ سوریا کا سفارت خانہ دارالعلوم کے ساتھ اشتراک عمل کرکے کراچی شہر کے مختلف علاقوں میں عربی زبان بالطریق المباشر (ڈائریکٹ میتھڈ سے ) سکھانے کیلئے مراکز قائم کرسکتا ہے ۔حضرت والد صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ، نے اس تجویزکو پسند کرتے ہوئے اس کی منظوری دیدی ، اور اس کیلئے دارالعلوم کو بنیادقرار دیکر شہر کے مختلف اداروں میں یہ مراکز قائم کئے گئے۔استاذ محمد امین المصری اُس وقت سوریا کے سفارت خانے میں” الملحق الثقافی” (کلچرل اٹیچی ) کے عہدے پر فائزتھے۔ عربی کی تعلیم کے ان مراکز کی نہ صرف نگرانی اور نصاب کی تیاری انہوں نے اپنے ذمے لی ، بلکہ بذات خود عربی پڑھانے کیلئے بھی تیار ہوگئے ۔
انہوں نے اپنا درس دارالعلوم میں شروع کیا۔وہ ہرروز اپنا درس لکھکر لاتے، اور عربی ہی میں پڑھاتے۔ان کے پڑھانے کا طریقہ یہ تھا کہ جو لفظ سکھاتے، اس کے معنیٰ عملاً سمجھاتے تھے ، اور پھر ایک ایک طالب علم سے وہ لفظ کہلواتے تھے ، اور تلفظ صحیح کرنے پر خصوصی زور دیتے تھے ۔ انہوں نے سب سے پہلے "کتاب” کالفظ پڑھایا۔ اگرچہ انہیں معلوم تھا کہ” کتاب "کالفظ اردو میں بھی اسی معنی میں بولا جاتا ہے، اور سب طلبہ اس کا مطلب بھی سمجھتے ہیں، لیکن مجھے یاد ہے کہ انہوں نے کتاب ہاتھ میں لیکر لفظ” کتاب” کم ازکم پچاس مرتبہ ضرور کہا ہوگا، اور پھر اتنی ہی مرتبہ طلبہ سے بھی کہلایا ، تاکہ وہ اس کا تلفظ صحیح عربی لہجے میں کرسکیں۔ اس طرح وہ ہر درس لکھکر لاتے ، اورا س کی پوری مشق کرواتے۔ پھر اُن کے یہی دروس کتابی شکل اختیار کرگئے، اور طریقۃ جدیدۃ لتعلیم العربیۃ کے نام سے شائع ہوئے ۔
شروع میں کچھ روز ہم نے استاذ امین مصری ،رحمۃ اﷲعلیہ، ہی کے ابتدائی درس میں شرکت کی ۔ چونکہ وہ روزانہ کا سبق روزانہ تیار کرتے تھے، اس لئے بعض اوقات کسی عمل کا مظاہرہ کرنے کیلئے کچھ طلبہ کو اپنے پاس بلاکر کھڑا کرلیتے تھے ، اور اس کام کیلئے بکثرت قرعۂ فال میرے نام پڑا کرتا تھا ، کیونکہ میں شاید اُس جماعت میں سب سے کم عمر تھا ، اس لئے” طریقۃ جدیدۃ” کتاب میں میرا نام بھی آگیا ہے۔
پھرکچھ دن کے بعد استاذ امین مصری ،رحمۃ اﷲعلیہ، کو یہ محسوس ہوا کہ جماعت میں مختلف معیار کے لوگ شامل ہیں ، اور اُن سب کو” طریقہ جدیدۃ ” کے معیار پر پڑھانا مناسب نہیں ہے ، اس لئے بعد میں انہوں نے طلبہ کی استعداد کے مطابق تین جماعتیں بنادیں، ا ور ہمیں دوسری جماعت میں شامل فرمادیا۔ اس غرض کے لئے تین مزید شامی اساتذہ کی خدمات حاصل کی گئیں ۔استاذ احمد الاحمد، استاذ عبدالحمید ہاشمی اور استاذ یاسین الحلو۔استاذ یاسین الحلو سے تو ہمیں استفادے کی نوبت نہیں آئی، کیونکہ وہ ہم سے اوپر کی جماعت کو پڑھایا کرتے تھے ۔ لیکن استاذ احمد الاحمد اور استاذ عبد الحمید الہاشمی کے دروس سے ہم نے خوب خوب فائدہ اٹھایا۔
استاذ احمد الاحمد بڑے سنجیدہ رہتے تھے ۔ایک مرتبہ دارالعلوم میں کسی مہمان کی آمد کے موقع پر اُنہوں نے مجھ سے کہا کہ تم اس جلسے میں عربی میں تقریر کرو۔ اس کیلئے انہوں نے ہی مجھے تقریر لکھنے کو کہا۔ میں نے الٹے سیدھے الفاظ میں چند جملے لکھکر انہیں دکھائے جن کے شروع میں اپنی کم علمی اور قلت بضاعت (کم مائیگی)کا ذکر بھی کیا تھا۔ انہوں نے دیکھتے ہی فرمایا کہ یہ” قلتِ بضاعت "والی باتیں چھوڑدو ،یہ باتیں کسی خطیب کو احساس کمتری میں مبتلا کرکے تقریر کو پھیکا بنادیتی ہیں۔ پھر انہوں نے خود تقریر لکھکر مجھے دی، اور فرمایا کہ اسے یاد کرلو۔میں نے یاد کرلی تو اُنہوں نے فرمایا”: اب مجھے تقریر کرکے دکھاؤ کس طرح کروگے؟” ، میں نے اپنے دیسی انداز میں حفظ کی ہوئی تقریر پڑھنی شروع کردی۔ انہوں نے مجھے ٹوکا ، اور کہا کہ تقریر اس طرح نہیں کی جاتی ۔آؤ ، میرے ساتھ کھڑے ہو۔ پھر اُنہوں نے اپنا دایاں پاؤں آگے اور بایاں پاؤں کچھ پیچھے رکھکر کہا کہ "اس طرح کھڑے ہو” اس سے اپنے اندر خوداعتمادی پیدا ہوتی ہے۔اُس کے بعد وہ ایک ایک جملہ مجھ سے کہلواتے، اور پھر کہتے ": یوں نہیں اس طرح کہو”اور پھر وہ وہی جملہ قدرے گرج دار آواز میں کہتے، اور جب تک میری آواز اور لہجے میں مطلوبہ ٹھہراؤ یا گرج پیدا نہ ہوجاتی، وہ مجھ سے ایک ہی جملہ باربار کہلواتے رہتے۔ اس طرح انہوں نے تقریر کرنے کی پوری مشق کرائی، اور میں نے ان کی ہدایات کے مطابق جلسے میں تقریر کی ،تو اُنہوں نے مجھے خوب شاباش دی۔
دوسری طرف استاذ عبدالحمید ہاشمی بڑے خوبصورت ، ہنس مکھ اور طرح دار نوجوان تھے۔ وہ اپنا کوئی سبق لکھکر نہیں لاتے تھے ۔ بلکہ وہ طلبہ سے خوش طبعی کی باتیں اور ہنسی مذاق کرکرکے عربی سکھایا کرتے تھے ۔ کبھی کبھی تختۂ سیاہ پر چاک سے کوئی آیت قرآنی ، کوئی حدیث یا کوئی ادبی عبارت لکھ دیتے ، اور اُس کے ادبی اسرارورموزہمیں بتایا کرتے، کبھی کسی شعر کی تشریح فرماتے ،اورعربی تلفظ کی بھی خوب مشق کراتے تھے ۔ سبق کے دوران وہ کسی طالب علم کو اپنے ساتھ کھڑا کرلیا کرتے تھے۔ اورتختۂ سیاہ پر جو عبارت لکھی ہے ، اُس سے اُس عبارت کے بارے میں سوالات کرتے، اور ساتھ ساتھ طرح طرح کے لطیفے سُناتے رہتے، یا اُسی طالب علم کے ساتھ مذاق کرتے رہتے ۔
ایک مرتبہ وہ غالباً "تنافر حروف” کا مطلب سمجھا رہے تھے کہ جملے میں ایک جیسے حروف اس طرح جمع نہیں کرنے چاہییں جن کی ادائیگی دشوار ہوجائے ۔ اس کی مثال میں انہوں نے ایک دیہاتی مچھلی پکڑنے والے کے بارے میں بتایا کہ اُس کی مقامی زبان میں چھوٹی کشتی کو "ککک” کہتے تھے ،جو تین "کاف” کا مجموعہ ہے ۔ ایک مرتبہ وہ اپنی کشتی میں سوار ہوکر مچھلی پکڑنے نکلا ، تو دیکھا کہ ایک اور شخص اُسی جیسی کشتی میں سوار مچھلی پکڑ نے کے لئے دریا میں جال ڈالے ہوئے ہے۔ اُس موقع پر اُس نے دوسرے شخص سے خطاب کرتے ہوئے دو شعر کہے :
یا راکباً فی کَکَکِک وصائداً فی شَرَ کِک
کَکَکُکَ کَکَکَکِی وکَکَکِی کَکَکَکِک
سولہ "کاف” پر مشتمل یہ شعر انہوں نے چاک سے تختۂ سیاہ پر لکھ کرطلبہ کو دعوت دی کہ اُسے پڑھیں۔ طالب علم اُسے پڑھنے میں باربار اٹکتے ، اور دوسرے ہنس ہنس کر دوہرے ہوجاتے۔
غرض اُن کا درس بڑا رنگارنگ اور دلچسپ ہوتا تھا، اور ہمیں اُن کے درس کا انتظار لگا رہتا تھا ۔ایک دن اُنہوں نے اپنی مٹھی بند کرکے طلبہ کو چیلنج دیا کہ جو کوئی میری یہ مٹھی کھول دیگا ، میں اُسے انعام دوں گا ۔ جماعت میں بڑے بڑے قدآور اور مضبوط لوگ موجود تھے ۔ سب نے باری باری زور لگاکر اُن کی مٹھی کھولنے کی کوشش کی، مگر کوئی کامیاب نہ ہوا ۔ آخر میں ہمارے ایک ہم سبق ساتھی مولانا عبدالرزاق مرادآبادی(رحمۃاللہ علیہ، جو بعد میں مدینہ منورہ ہجرت کرگئے تھے ، اور وہیں ان کی وفات ہوئی) بڑے قوی ہیکل نوجوان تھے ،اور انہوں نے کسی سے ہار ماننا سیکھا ہی نہیں تھا، وہ بڑے دعویدار اندازمیں آگے بڑھے، اور اُنہوں نے زور لگانا شروع کیا۔ استاذ اور شاگرد دونوں کے چہرے کا رنگ زور لگانے کی وجہ سے سرخ ہورہا تھا، (اور اُس سرخ چہرے میں استاذ اور زیادہ خوبصورت نظر آرہے تھے) لیکن مٹھی اُن سے بھی نہ کھل سکی ۔آخر کار استاذ نے کہا ":چلو میں تمہاری تھوڑی سی مدد کرتا ہوں ۔”اور یہ کہکر انہوں نے اپنی بھنچی ہوئی انگلیوں میں تھوڑا سا اتنافاصلہ پیدا کرلیا کہ وہ قدرے ڈھیلی پڑگئیں ، اور بند انگلیوں کے درمیان اتنی جگہ بن گئی کہ کوئی اُن کے بیچ میں اپنی انگلی داخل کرسکتا تھا۔ انہوں نے عبدالرزاق صاحب سے کہا کہ” اگر آپ اس میں اپنی ایک انگلی داخل کرلیں تو شاید اُس کی مدد سے آپ کیلئے مٹھی کھولنا آسان ہو ، چنانچہ عبدالرزاق صاحب ؒ نے جھٹ اپنی انگلی اندر داخل کرلی۔ لیکن جونہی انگلی اندر گئی، استاذ نے اپنی انگلیوں کو زور سے مزید بھینچ دیا، اور اُن کی انگلی درمیان میں پھنس کررہ گئی۔ اب عبدالرزاق صاحب ؒان کی مٹھی تو کیا کھولتے ؟ اُن کوخوداپنی پھنسی ہوئی انگلی کے لالے پڑگئے۔اب وہ ہیں کہ انگلی بیچ سے نکالنے کیلئے ایڑی چوٹی کازور لگا رہے ہیں ، اور پوری جماعت ہنسی سے دوہری ہوئی جارہی ہے۔آخر مولانا عبدالرزاق صاحبؒ کو شکست کااعتراف کرناپڑا، اور پھر استاذ نے اُن کی انگلی کو رہائی بخشی۔ غرض وہ اس طرح طلبہ کو ہنسا ہنساکر مختلف حالات سے متعلق عربی محاورے اور بول چال کا انداز سکھایا کرتے تھے۔
اﷲتعالیٰ ان دونوں استادوں کو بہترین جزا عطا فرمائے ۔انہوں نے ہماری جماعت میں عربیت کا ذوق پیدا کرنے میں ناقابل فراموش حصہ لیا۔آج جب مجھے عرب ممالک میں عربوں سے گفتگو یا تقریرو تحریر کی نوبت آتی ہے، تو عموماً لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا آپ نے مصر یا سعودی عرب میں پڑھا ہے ؟ اور جب میں یہ جواب دیتا ہوں کہ میری تمام ترعربی اور دینی تعلیم صرف اور صرف دارالعلوم کراچی میں ہوئی ہے، تو لوگ تعجب کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے عربی تحریرو تقریر سے جو مناسبت بھی عطا فرمائی، اُس کا پہلا سبب توہمارے استاذ گرامی شیخ الحدیث حضرت مولانا سحبان محمود صاحب، رحمۃ اﷲعلیہ، کی تعلیم وتربیت تھی کہ انہوں نے ہمیں عربی کے صرف قواعد ہی کی تعلیم نہیں دی ،بلکہ عربی لکھنے کی مشق پر بھی بہت زور دیا، اور دوسراسبب یہ دو شامی استاذتھے جو ہرروز کسی نہ کسی ادبی عبارت کے ادبی پہلوؤں پر بات کرتے ، اور اُسی کی بنیادپر عربی تقریرو تحریر کی مشق کراتے تھے۔
شروع میں ان حضرات کا درس دارالعلوم نانک واڑہ ہی کے ایک ہال میں ہوتا تھا ، بعد میں سول ہسپتال کے سامنے ایک اسکول میں منتقل ہوگیا تھا ، اور ہم عصر کے بعد وہاں جاکر تقریباً ایک گھنٹہ ان کے درس میں شریک ہوتے تھے۔
اس سال میرے سالانہ امتحان کا نتیجہ یہ رہا جو دارالعلوم کی روداد بابت رمضان ۱۳۷۳؁ ء تا شعبان ۱۳۷۴؁ ء مطابق مئی ۱۹۵۴؁ ء تا اپریل ۱۹۵۵؁ ء میں چھپا ہوا ہے:
قدوری:۴۷ ، کافیہ :۵۰،نفحۃ العرب:۵۳ ، تیسیر المنطق :۴۵ ، البلاغۃ الواضحۃ :۵۰ ، النحوالواضح :۵۰ مرقات:۴۵ ، اوسط :۴۸ ، درجۂ اولیٰ اور نفحۃ العرب میں اول۔

جاری ہے ….

٭٭٭٭٭٭٭٭٭