حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی

یادیں

(تیسویں قسط )

ایل ایل بی اور قانون کی تعلیم
بی اے کے بعد شروع میں خیال تھا کہ معاشیات ہی میں ایم اے کروں ، لیکن اس کے لئے تنہا مطالعہ کافی نہیں تھا ۔ دوسرے حقیقت یہ ہے کہ معاشیات میری ذاتی دلچسپی کا موضوع نہیں تھا ۔میں اُسے صرف مذکورہ بالا ضرورت ہی کی وجہ سے پڑھنا چاہتا تھا ، اور تعارف کی وہ ضرورت بی اے میں بڑی حد تک پوری ہو گئی تھی ۔ اب اس کی دوسری فنی بحثوں پر زیادہ وقت صرف کرنے کو دل نہیں چاہتا تھا ۔ دوسری طرف میں قانون کی تعلیم حاصل کرنا چاہتا تھا ، تاکہ قانون کے میدان میں بھی اپنی بساط کی حد تک دین کی کوئی خدمت انجام دے سکوں۔
اس کے لئے مجھے ایل ایل بی کرنا تھا ۔ لیکن ایل ایل بی میں دشواری یہ تھی کہ اُس کا امتحان پرائیویٹ طورپر نہیں دیا جاسکتا تھا ۔ اس کے لئے کسی لاء کالج میں داخلہ ضروری تھا ۔ کراچی میں اُس وقت دو لاء کالج تھے۔ ایک اردو لاء کالج جس میں ذریعۂ تعلیم اردو تھا ، اور دوسرے ایس ایم لاء کالج جس میں تعلیم انگریزی میں ہوتی تھی ۔ ایس ایم لاء کالج اپنے معیار تعلیم کے لحاظ سے بھی مشہور تھا ، اور چونکہ قانون کی زبان انگریزی تھی، اس لئے قانون اور اصول قانون کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لئے مناسب یہی تھا کہ قانون کی تعلیم انگریزی ہی میں حاصل کی جائے ۔دوسری طرف دشواری یہ تھی کہ میرے لئے روزانہ دارالعلوم سے روزانہ ایس ایم لاء کالج جاکر پڑھنا اپنی دارالعلوم کی مصروفیات کے ساتھ تقریباً ناممکن تھا ۔ اس دشواری کے حل کے لئے میں ایس ایم لاء کالج کے پرنسپل جناب عزیزاللہ شیخ صاحب سے جاکرملا، وہ ایک قابل استاذ، وکیل اور اُس وقت نیشنل عوامی پارٹی سندھ کے غالباً صدر تھے ۔ میں نے ان سے اپنی دشواری بیان کی۔کہنے لگے کہ وکالت کرنی ہے تو باقاعدہ پڑھے بغیر کیسے کروگے؟ میں نے عرض کیا کہ اول تو میں قانون وکالت کرنے کے لئے پڑھنا نہیں چاہتا ، نہ میرا یہ ارادہ ہے کہ وکالت کروں ، بلکہ میں ریسرچ کے مقصد سے پڑھنا چاہتا ہوں۔ دوسرے اﷲتعالیٰ کے فضل وکرم سے میں نے دارالعلوم میں فقہ اچھی طرح پڑھنے کی کوشش کی ہے ، اس لئے قانونی باتیں سمجھنے کے لئے مجھے استاد کی ضرورت کم ہوگی۔ کچھ اسی قسم کی باتیں میں نے پرنسپل صاحب سے کیں ۔کچھ دیر کی ملاقات میں وہ رام ہوگئے ، اور انہوں نے کہا ":اچھا!آپ بس ضروری حد کالج آجایا کریں ۔ہم آپ کا نام اپنے کالج کی طرف سے امتحان کے لئے بھیج دیں گے۔البتہ ہمارے فنکشنوں میں ضرور شریک ہوں”۔
داخلہ ہوجانے کے بعد میں نے قانون کی نصابی کتابیں اردو اور انگریزی دونوں میں خرید لیں، اور گھر پر ان کا تھوڑا تھوڑا مطالعہ کرتا رہا، اور پرنسپل صاحب کے فرمانے کے مطابق کبھی کبھی کالج چلا جاتا تھا ۔ اگرچہ یونی ورسٹی کی طرف سے ا س کی اجازت تھی کہ اردو کتابوں کے ذریعے تعلیم حاصل کی جائے، اور اردو ہی میں امتحان دیا جائے ۔چنانچہ اردو کالج میں قانون کی تعلیم اردو ہی میں ہوتی ہے۔لیکن چونکہ ابتک خود ہمارے قانون کی اصل زبان انگریزی ہے، اس لئے مجھے اردو میں قانون پڑھنا ایسا ہی معلوم ہوا جیسے کوئی فقہ کا عالم بننے کیلئے فقہی کتابیں عربی میں پڑھنے کے بجائے اُن کا اردو ترجمہ پڑھے ۔ ظاہر ہے کہ اس طرح وہ فقہ میں مہارت پیدا نہیں کرسکتا، اور نہ فقہ کے اصل مآخذ تک پہنچنے کی صلاحیت اُسے حاصل ہوسکتی ہے ۔دوسری طرف میرا مقصد صرف امتحان دینا اور ڈگری حاصل کرنا نہیں تھا ، بلکہ میں واقعۃً قانون کی فہم حاصل کرنا چاہتاتھا، اور میری خواہش تھی کہ اس کے اصل مآخذ تک میری براہ راست رسائی ہو، اس لئے میں نے اصل انگریزی کتابوں ہی کے ذریعے نصاب پڑھا ، البتہ جن کتابوں کے اردو ترجمے دستیاب تھے ، وہ بھی سامنے رکھے، تاکہ جہاں ضرورت ہو، ان سے مدد لی جاسکے۔
عام طورسے لوگ گیس پیپرز خرید کر ان کی مدد سے تیاری کرتے ہیں ، لیکن میں نے یہ راستہ کبھی اختیار نہیں کیا ،کیونکہ مقصود امتحان پاس کرنا نہیں، بلکہ واقعۃً تعلیم حاصل کرنا تھا ۔ میں کبھی کبھی کالج بھی چلا جاتا ، اور وہاں کسی کلاس میں شریک بھی ہوجاتا ، لیکن اصل کام مطالعے ہی کے ذریعے کرتا تھا ۔ پرنسپل صاحب کے ایک شاگرد امیرالدین قریشی صاحب تھے ۔اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت فرمائے ، انہوں نے کالج ہی کے احاطے میں قانون کی درسی کتابوں کی دوکان بھی کھولی ہوئی تھی ۔ان سے اچھی خاصی دوستی ہوگئی تھی، اﷲتعالیٰ انہیں بہت جزائے خیر عطا فرمائیں، وہ میرے رجسٹریشن وغیرہ کے کاموں میں بھی میری مدد کرتے تھے، اورمطالعے میں کہیں مشکل پیش آتی تو ان کے ذریعے کسی استاد سے وہ مشکل بھی حل ہوجاتی تھی ۔
جب امتحان کا وقت قریب آیا، تو میں نے دارالعلوم سے تقریباً دو ہفتے کی چھٹی لے لی ، اور صبح سے لیکر رات گئے تک کتابوں کے مطالعے میں منہمک رہتا، اور اہم کتابوں کے نوٹ ساتھ ساتھ تیار کرتا جاتا تھا۔ جیساکہ میرا اندازہ تھا ، فقہ کی تعلیم نے قانون کو سمجھنا بہت آسان کردیا تھا ۔ اس لئے عموماً دشواری پیش نہیں آتی تھی ، اور اگر کہیں پیش آتی، تو کالج کے کسی استاد سے حل ہوجاتی تھی۔
جب میں قانون کی کتابیں پڑھتا تھا ، تو فقہ سے اُس کا تقابل کرکے قدم قدم پر اپنے فقہاء کرام کی عظمت کااحساس ہوتا تھا ۔واقعہ یہ ہے کہ قانون کی وہ زبان جو اپنی جامعیت کے لئے آج مایۂ نازسمجھی جاتی ہے، ہمارے فقہاء اسلام نے اس سے کہیں زیادہ دقت نظر اور باریک بینی سے فقہ کی کتابیں تالیف فرمائی ہیں۔ خاص طورپر فقہ کے جو معروف متون ہیں، اُنہوں نے جن مختصر الفاظ میں معانی کے دریا ایک کوزے میں سموئے ہیں ، ان کی مثال کہیں اور ملنی مشکل ہے۔
اسی طرح قانون میں ایک مستقل موضوع” تعبیر قوانین”( Interpretation of Statutes)کا ہوتا ہے جس میں قانون کی تشریح کے طریقے بیان کئے جاتے ہیں ۔ جب میں نے اس کی کتاب پڑھی تو محسوس ہوا کہ ہمارے فقہاء کرام نے اصول فقہ میں عبارۃ النص، اشارۃ النص، دلالۃ النص، اقتضاء النص اورمنطوق اور مفہوم کی بحثیں کرکے تشریح قانون کو جس طرح منضبط فرمادیا ہے، اُس کے آگے” تعبیر قانون” کی یہ کتابیں بچوں کا کھیل معلوم ہوتی ہیں۔
بہر کیف!امتحان کا دن آگیا ، اور میں اس احساس کمتری کے ساتھ امتحان گاہ میں پہنچا کہ میں نے باقاعدہ کلاسوں میں شرکت نہیں کی ہے، اور مطالعے ہی سے کام چلایا ہے، اس لئے میں کالج کے باقاعدہ طالب علموں کا مقابلہ نہیں کرسکوں گا۔ لیکن جب امتحان سے پہلے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھنے اور ان کی باتیں سننے کا موقع ملا ، تو اندازہ ہوا کہ بہت سی باتیں جنہیں وہ بہت مشکل سمجھ رہے تھے ، مجھے بالکل مشکل نہیں لگیں۔امتحان کے پرچے آئے، تو مجھے ان کے حل کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی ، یہاں تک کہ تمام پرچے پورے ہوگئے۔ جب نتیجہ آیا ، تو میں نے دیکھا کہ میرا رول نمبر ان طلبہ کی فہرست میں درج ہے جن کا نتیجہ کسی کارروائی کے نامکمل ہونے کی وجہ سے روک لیا گیا ہے ۔ میں کالج پہنچا، اور وجہ معلوم کی تو پتہ چلا کہ کوئی فیس میری نادانستگی میں ادا ہونے سے رہ گئی تھی ۔ میں نے وہ فیس اپنے ساتھی امیرالدین قریشی صاحب کو دی ، اور انہوں نے اطمینان دلایا کہ وہ فیس جمع کرکے یہ کمی پوری کردیں گے ، اور ساتھ ہی انہوں نے چنددن بعد کی تاریخ دی کہ اُس تاریخ میں میں کالج آکر اپنا نتیجہ معلوم کرلوں ۔ میں نے وہ دن خاصی بے چینی میں گذارے، اور آخر کار معینہ تاریخ اور وقت پر کالج پہنچا تو دیکھا کہ میرے وہ ساتھی کالج کے کچھ دوسرے افراد کے ساتھ میرے استقبال کے لئے کھڑے ہیں۔ انہوں نے مجھے دیکھتے ہی مبارکباد دینی شروع کردی ، میں سمجھا کہ وہ میری عام کامیابی پر مجھے مبارکباد دے رہے ہیں ، لیکن تھوڑی ہی دیر میں انہوں نے مجھے بتایا کہ میں نے یونی ورسٹی میں دوسری ، اورکالج میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے ۔
یہ پہلے سال کی بات تھی ۔دوسرے سال بھی میں نے وہی طریقہ اختیار کیا جو پہلے سال کیا تھا ۔ اور آخر کار ایل ایل بی کے دونوں سال الحمد ﷲبخیر و خوبی پورے ہوگئے، اور آخر کار ۲۱؍جون ۱۹۶۹ء کو مجھے ایل ایل بی کی ڈگری بھی مل گئی ۔
قانون کی تعلیم سے نہ میرا مقصد وکالت کرنا تھا ، نہ کبھی عدالتوں میں کام کرنے کادور دورکوئی ارادہ تھا۔میں نے تو اس غرض سے ایل ایل بی کیا تھا کہ موجودہ قوانین کا تنقیدی جائزہ لیکر اسلامی قوانین کی تدوین وترتیب کی کوئی خدمت انجام دینے میں آسانی ہو۔ لیکن قدرت کو کچھ اورہی منظور تھا۔ ایل ایل بی کرنے کے چند سال بعد ہی مجھے پہلے فیڈرل شریعت کورٹ اور پھر سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ کے جج کی حیثیت میں تقریباً اٹھارہ سال کام کرنے کا موقع ملا جس کی تفصیل ان شاء اﷲمیں آگے ذکر کرونگا۔
اور اسی دوران یہ عجیب اتفاق بھی سامنے آیا کہ ایک رات میں سپریم کورٹ میں اگلے دن کے مقدمات کی فائلیں دیکھ رہا تھا، تو ایک فائل میں وکیل کا نام عزیزاللہ شیخ نظر آیا جس سے میں چونکا کہ یہ وہی عزیزاللہ شیخ تو نہیں ہیں جومیرے ایل ایل بی کرنے کے زمانے میں ایس ایم لاء کالج کے پرنسپل تھے۔ اگلے دن میں عدالت میں پہنچا، تو دیکھا کہ وہی اُس مقدمے میں بطور وکیل ہمارے سامنے پیش ہوئے ، اور ان کے اسسٹنٹ کے طورپرامیرالدین قریشی صاحب ، یعنی میرے وہ ساتھی بھی تھے جو ایل ایل بی کے امتحان کی انتظامی کارروائیوں میں میری مدد فرمایا کرتے تھے۔ مقدمے کے فیصلے کے بعد وہ دونوں میرے چیمبر میں تشریف بھی لائے، اور ان سے دلچسپ گفتگو بھی رہی۔اور یہ ان سے آخری ملاقات تھی ۔اب وہ دونوں دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان کی مکمل مغفرت فرمائیں ۔آمین۔
ایم اے کاامتحان
اب میں بی اے ایل ایل بی تو ہوچکا تھا ، اور جن مضامین کو میں با قاعدہ پڑھنا چاہتا تھا ، وہ ایک حد تک مکمل ہوچکے تھے ، اُدھر دارالعلوم کی تدریس میں میں دورۂ حدیث تک پہنچ چکا تھا ۔ فتویٰ اور تصنیف کا کام اُس پر مستزاد تھا، اور میری شادی بھی ہوچکی تھی ۔اس لئے کسی اور تعلیمی مہم جوئی کے لئے میرے پاس وقت نہیں تھا، البتہ لوگ کہتے تھے کہ جب اتنا کیا ہے، تو ایم اے بھی کرلو۔ چنانچہ میں نے دونوں تقاضوں کے درمیان تطبیق کے لئے یہ سوچا کہ کسی ایسے مضمون میں ایم اے کرلوں جس کے لئے زیادہ محنت اور مطالعے کی ضرورت نہ ہو۔کراچی یونی ورسٹی سے ایم اے اسلا میات کرنا سب سے آسان کام تھا کہ اس کا کوئی خاص معیار ہی نہ تھا، لیکن وہاں ایم اے کرنے سے مجھے غیرت آئی ، کیونکہ مجھے اس کا معیار معلوم تھا،اور میں خود ایم اے اسلامیات کے امتحانی پرچے دیکھتا رہا تھا ۔لہٰذامیں نے پنجاب یونی ورسٹی سے عربی زبان کے ایم اے میں پرائیویٹ داخلہ لینے کو ترجیح دی۔ الحمد ﷲ!دارالعلوم کی تعلیم کے نتیجے میں عربی زبان وادب میرے لئے بہت آسان تھے ۔ اس لئے تیاری کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی، اور جتنی نئی کتابیں پڑھنی تھیں ، مجھے خود انہیں پڑھنے کا شوق تھا۔ سارے سال تو مجھے نصابی کتابیں پڑھنے کا موقع کم ہی ملا، لیکن جب امتحان کا وقت آیا ، تو اُس کے تمام پرچوں کے درمیان ایک ایک ہفتے کا وقفہ تھا جو میری تیاری کے لئے کافی تھا ۔
چنانچہ امتحان کے زمانے میں دارالعلوم سے ڈیڑھ مہینے کی چھٹی لیکرمیں لاہور میں اپنے بڑے بھائی جناب محمد زکی کیفی صاحب رحمۃ اﷲعلیہ کے یہاں مقیم رہا، اور ہر آنے والے پرچے کی تیاری اُس سے پہلے والے ہفتے میں کرتا رہا۔ مجھے چونکہ عربی ادب سے پہلے ہی بڑا لگاؤ تھا،اس لئے یہ تیاری محض ایک کام کے بجائے تفریحی مطالعہ بن گئی ۔ اسی زمانے میں "الکامل للمبرد” اور "المفضلیات "کا بڑے ذوق وشوق سے مطالعہ کیا ،شوقی مصری کی شاعری پڑھی جو اپنے آپ کو ملک الشعراء کہلانے سے اس بناپر ناراض ہوا کرتے تھے کہ اس لقب کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے بھی شعراء ہیں اور وہ ان کے بادشاہ ہیں، حالانکہ اُن کے سوا کوئی شاعرہے ہی نہیں۔ اس کے علاوہ طٰہٰ حسین ، احمد امین (۱)اور منفلوطی کے ادبی شہ پاروں سے لطف اندوز ہوا، اور امتحان کے بعد جب نتیجہ آیا تو پتہ چلا کہ میں نے یونی ورسٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔ فالحمد ﷲعلی ذلک۔اور اس طرح مؤرخہ ۲؍ مارچ ۱۹۷۲ ؁ ء کو میری ڈگریوں میں ایم اے کا بھی اضافہ ہوگیا۔
اس کے بعد کبھی کبھی خیال آتا تھا کہ پی ایچ ڈی بھی کرلوں ، لیکن صرف امتحان دینے اور ڈگری لینے کے لئے کسی موضوع پر مقالہ لکھنا طبیعت پر بار تھا ، کیونکہ اُس وقت تک متعدد تصنیفی کام ساتھ ساتھ جاری تھے ، اور ان میں سے کوئی پی ایچ ڈی کا موضوع نہیں بن سکتا تھا، اور جو موضوعات تجویز کئے جارہے تھے ، اور جس معیار کے مقالے پی ایچ ڈی میں لکھے جارہے تھے ، ان سے کوئی خاص مناسبت نہیں ہوئی، اور سوچ سوچ ہی میں وقت گذرتا گیا، اور میں نے پی ایچ ڈی کرنے کا خیال ہی دل سے نکال دیا، یہاں تک کہ وہ وقت آگیا کہ میں پی ایچ ڈی کا طالب علم بننے کے بجائے پی ایچ ڈی کا ممتحن بن گیا۔
تصنیف وتالیف
مضمون نگاری کا شوق مجھے بچپن سے تھا ۔جیساکہ میں بچپن کے حالات بیان کرتے ہوے عرض کرچکا ہوں ، سب سے پہلے میں نے روزنامہ جنگ میں تین مراسلے لکھے تھے۔ سب سے پہلے مراسلے کا عنوان تھا : "صنف نازک اور شاعری” دوسرے مراسلے کا عنوان تھا: "مخلوط تعلیم” اور تیسرے کاعنوان: "نوٹوں پر تصویر”۔ میری عمر اُس وقت بارہ سال کی ہوگی۔اس کے بعد جب میں ہدایہ اولین کے سال میں تھا، اپنے استاذ حضرت مولانا مفتی ولی حسن صاحب رحمۃ اﷲعلیہ کی سرپرستی میں طلبہ کے ایک تقریری مقابلے کے لئے میں نے ایک مضمون لکھا تھا جس کا عنوان تھا :”حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑے شارع تھے”۔ اور اس پر مجھے انعام بھی ملا تھا۔
پہلی تالیف
اس کے بعد جب ہم درجۂ تخصص میں فتویٰ کی تربیت لے رہے تھے ، تووہ جنرل ایوب خان صاحب مرحوم کے اقتدار کا ابتدائی دورتھا، اور انہوں نے جابجا اپنی تقریروں میں خاندانی منصوبہ بندی پر بہت زور دینا شروع کردیا تھا ، اور اس کی تائید میں کچھ اہل قلم کے مضامین اور کتابیں بھی شائع ہورہی تھیں ۔حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ نے مجھے اس موضوع پر مضمون لکھنے کا حکم دیا ۔ چنانچہ میری پہلی باقاعدہ کتاب” ضبط ولادت ” اُس وقت تیار ہوئی ۔میری عمرکا وہ سترہواں سال تھا، اوراس وقت ذہن پر یہ ناپختہ تأثر تھا کہ نو تعلیم یافتہ لوگوں کو دین کی بات سمجھانی ہو تو اُسے عقلی دلائل کے ذریعے سمجھانا زیادہ بہتر ہے ۔یہ حقیقت تو بعدمیں ذہن نشین ہوئی کہ دین کی بات دین ہی کے نقطۂ نظر سے قبول کرنا ایک مسلمان کا شیوہ ہونا چاہئے ۔ اس کی تائید کے طورپر اگر اُس کی عقلی حکمتوں کو بھی بیان کردیا جائے تو کچھ حرج نہیں ، لیکن عقلی دلائل کو اولیت دیکر بات کرنا درست نہیں ۔بہر حال!اس کتاب میں میرایہ کمسن ذہن جگہ جگہ نمایاں ہے ۔اور اسی وجہ سے میں نے اس کتاب میں اس مسئلے کے شرعی پہلو سے زیادہ اُس کے عقلی اور معاشی پہلو پر زیادہ زور دیا، اوراس کی شرعی حیثیت کے بارے میں جوکچھ لکھنے کی کوشش کی ، وہ خود مجھے ناکافی معلوم ہوا ، اس لئے میں نے حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ سے درخواست کی کہ اس پر آپ براہ راست تحریر فرمائیں تو نہ صرف یہ کہ بدرجہا بہتر ہوگا، بلکہ اس موقع پر ضرورت اسی بات کی ہے کہ کسی بڑی اورمستندومعتمد شخصیت کی طرف سے شرعی حکم کی وضاحت ہو ۔ چنانچہ حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ نے یہ باب بنفس نفیس تحریر فرمایا، اور اس کی وجہ سے میری یہ ناپختہ تحریر بھی معتبر ہوگئی۔یہ میری پہلی پہلی کتاب تھی ، اس لئے اس کے شائع ہونے کا بھی بڑا شوق تھا ۔ میرے مرحوم بھائی جناب محمد رضی عثمانی صاحب ؒ نے اسے اپنے ادارے دارالاشاعت سے شائع کیا، اور اتنی کمسنی میں ایک مطبوعہ کتاب کامؤلف ہونے پر میری ہمت افزائی بھی بہت ہوئی۔
تجارتی سود
اس کے بعدغالباًمیری دوسری تالیف "تجارتی سود” تھی۔ اُس وقت بعض متجددین نے یہ بحث چھیڑی ہوئی تھی کہ بینکوں میں جس سود کا لین دین ہوتا ہے، وہ اُس” ربا” کی تعریف میں داخل نہیں ہے جس کو قرآن کریم نے حرام قرار دیا ہے۔ حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ نے ان کی تردید میں "مسئلۂ سود” کے نام سے کتاب تحریر فرمائی تھی جس میں سود کی حرمت پر قرآن وسنت کے احکام تفصیل سے بیان فرمائے تھے ، اور اس دعوے کی بھی تردید فرمائی تھی کہ تجارتی سود حضور اقدس صلی اﷲعلیہ وسلم کے عہد مبارک میں موجود نہیں تھا ۔ اس تالیف کے بعد حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ سے اُس وقت کے آڈیٹر جنرل جناب یعقوب شاہ صاحب مرحوم نے اس مسئلے کے بارے میں رابطہ کیا ، اور اپنے اشکالات پیش کئے ۔ حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ نے ان کے جوابات دئیے ، اور مزید گفتگو کے لئے انہیں میرے حوالے کردیا ۔اپریل ۱۹۶۳؁ ء میں میری اُن سے ملاقاتیں بھی ہوئیں ، اورخط وکتابت بھی ہوتی رہی ، اور ان کے اشکالات کے دوران مجھے یہ اندازہ ہوا کہ تجارتی سود کے بارے میں مزید وضاحت کی ضرورت ہے ، چنانچہ میں نے خاص اسی موضوع پر یہ مقالہ لکھا، اور حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ نے اُسے اپنی کتاب کے دوسرے حصے کے طورپر شامل فرمالیا۔
ہمارے عائلی مسائل
میری تیسری باقاعدہ تالیف” ہمارے عائلی مسائل” تھی۔ یہ جنرل محمد ایوب خان صاحب مرحوم کے اقتدار کا ابتدائی دور تھا۔ انہوں نے "مسلم فیملی لاء ” کے نام سے ایک آرڈیننس جاری کیا تھا جس میں کئی دفعات شریعت کے خلاف تھیں ۔خاص طورپر پوتے کی میراث، تعدد ازواج اور طلاق وعدت کے مسائل میں اجماع امت کے خلاف موقف اختیار کیا گیا تھا ۔ اس کے بارے میں حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ نے جنرل ایوب صاحب کو ایک خط بھی لکھا تھا جس میں اس قانون کی غلطیاں قرآن وسنت کے دلائل کی روشنی میں بیان فرمائی تھیں ۔حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ کا یہ خط” عائلی قوانین پر مختصر تبصرہ” کے نام سے شائع ہوا ہے ۔
جب علماء کرام کی طرف سے ان قوانین پر احتجاج ہوا ، تو بعض حلقوں نے حکومتی موقف کے دفاع میں مقالے اور کتابیں لکھیں۔ انہی میں سے ایک کتاب” عورت کا عائلی مقام "کے نام سے شائع ہوئی ، کتاب کے مصنف کے طورپر ایک خاتون کا نام لکھا ہوا تھا، اور مقدمے میں ان کا تعارف کراتے ہوئے یہ لکھا تھا کہ وہ ایک معروف عالم دین کی اہلیہ اور بر صغیر کے ایک مسلم عالم بزرگ کی بہو ہیں ۔ تحقیق سے یہ اندازہ ہوا کہ جن خاتون کا نام لکھا ہوا ہے ، در حقیقت وہ ایک گھریلو خاتون ہیں، اور اس کتاب کی تالیف ان کی اہلیت سے بالاتر ہے ، اور درحقیقت یہ ان کے شوہر کی تالیف ہے جو ایک عبقری عالم کے صاحب زادے ہونے کے باوجود منکرین حدیث اور بعض متجددین عصر کے ہتھے چڑھ گئے تھے۔ انہوں نے کسی مصلحت سے یہ کتاب اپنے بجائے اپنی اہلیہ کے نام سے شائع کی ہے ۔اور چونکہ وہ واقعۃً ایک ذی علم آدمی ہیں ، اس لئے ان کی کتاب عام آدمی کے لئے شدید مغالطے پیدا کر سکتی ہے ۔ اس لئے حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ نے مجھے حکم دیا کہ میں اس کا جواب لکھوں۔
میں اُس وقت نوجوان تھا ، اور تازہ تازہ درس نظامی کی تکمیل کی تھی، ادب وانشاء کا بھی ذوق تھا، اس لئے میں نے اُس کا جواب اس انداز سے لکھا کہ علمی بحثوں کے ساتھ اُس میں طنزوتعریض کے نشتر پوری آزادی سے استعمال کئے ، اور اپنا سارا زورِ کلام اس پر صرف کردیا۔ تقریباً دو سو صفحات کا یہ مسودہ تیار ہوا تو میں نے حسب معمول وہ پورا مسودہ حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ کی خدمت میں پیش کیا، حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ نے اس کا کچھ حصہ مجھ سے سنا ، اور کچھ خود پڑھا، اور پھر مجھ سے فرمایا:”ما شاء اﷲتم نے جواب تو خوب لکھا ہے ،لیکن یہ بتاؤ کہ اس کے لکھنے کا مقصد کیا ہے ؟ اگر مقصد یہ ہے کہ جو لوگ پہلے سے تمہارے ہم خیال ہیں ، وہ اسے پڑھکر تمہاری تعریف کریں کہ واہ!کیسا دنداں شکن جواب دیا ہے ! تو بیشک تمہاری یہ تحریر اس مقصد میں پوری طرح کامیاب ہے، لیکن اگر مقصد یہ ہے کہ جن لوگوں کے دل میں شکوک وشبہات پیدا ہوگئے ہیں، وہ اُسے پڑھکر راہ راست پر آجائیں، تو اس مقصد کے لحاظ سے تمہاری یہ تحریر بالکل مفید نہیں ہوگی ، کیونکہ تم نے اس میں طنزو تعریض کے نشتر چلاکر ایسے لوگوں کے دل میں ایک ضد پیدا کردی ہے جس کے بعد ان کا دل صحیح بات سننے اور ماننے کے بجائے اپنے دفاع پر آمادہ ہوجائے گا "۔
پھر حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ نے فرمایا کہ میں خود اپنا تجربہ تمہیں بتا تاہوں ۔میں نے قادیانیوں کی تردید میں ختم نبوت کے نام سے جو کتاب لکھی، اس میں مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے پیرووں کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کئے، اور بہت شوخ وشنگ تحریر لکھی ۔ لیکن جب یہ کتاب پہلے پہل شائع ہوئی ، تو میرے پاس ایک قادیانی کا خط آیا جس میں اُس نے لکھا تھا کہ آپ نے اس کتاب میں جو دلائل دئیے ہیں، ان سے میں بہت متأثر ہوا ہوں ، لیکن جب آپ کے انداز تحریر کو دیکھتا ہوں تو میرے دل میں یہ رکاوٹ پیدا ہوتی ہے کہ جو لوگ حق پر ہوتے ہیں ، وہ طنزو تشنیع سے کام نہیں لیتے ، اور نہ سخت الفاظ استعمال کرتے ہیں ۔ اس کے بجائے ان کا انداز ناصحانہ ہوتا ہے (۱)۔حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ فرماتے ہیں کہ ان صاحب نے اپنی دلی رکاوٹ کی جووجہ بیان کی، وہ صحیح ہو یا غلط ،میں نے اس کے بعد اپنے طرز تحریر میں یہ احتیاط برتنے کو ضروری سمجھا کہ بلا ضرورت انداز بیان دلآزار نہ ہو۔چنانچہ پھر میں نے اس نقطۂ نظر سے کتاب پر نظر ثانی کی ، اور ایسے الفاظ کتاب سے نکال دئیے جن سے مخاطب کے دل میں ضد پیدا ہو۔
حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ نے یہ بات تو بار بار ارشاد فرمائی کہ جب اﷲتعالیٰ حضرت موسی اور حضرت ہارون علیہما السلام کو فرعون کو دعوت ایمان دینے کے لئے بھیج رہے تھے، اُس وقت ان کو یہ ہدایت عطا فرمائی تھی کہ :

قُوْلَا لَہُ قَوْلاً لَیِّناً
یعنی اس سے نرم بات کہنا

حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ فرماتے تھے کہ تمہارا مخالف فرعون سے بڑا گمراہ نہیں ہوسکتا، اور تم حضرت موسی اور حضرت ہارون علیہما السلام سے بڑے مصلح نہیں ہوسکتے ۔ جب ان کو فرعون تک سے نرم بات کہنے کا حکم دیا جارہا ہے، تو ہمارے لئے کب جائز ہوگا کہ اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کی خاطر اپنے مخالف کیلئے سخت الفاظ استعمال کریں ۔
شاید اسی موقع پر یہ بات بھی ارشادفرمائی تھی کہ ہمارے زمانے میں دو شاعر ایسے ہوئے ہیں جنہوں نے شعر کے ذریعے دینی فکر پیدا کرنے میں بڑااہم کردار ادا کیا ہے، اور شاعری کو بڑے اصلاحی پیغامات دینے کے لئے استعمال کیا ہے، ایک شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال صاحب اور دوسرے اکبر الہ آبادی ۔ ان دونوں میں بھی اکبر الہ آبادی کی فکر اول الذکر کے مقابلے میں زیادہ متوازن اور صائب تھی، لیکن قوم کو جتنا فائدہ اقبال مرحوم کی شاعری سے پہنچا، اور جتنی دور تک ان کا پیغام عام ہوا،اتنا اکبر مرحوم کانہیں ہوسکا۔حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ نے فرمایا کہ اس کی وجہ میرے خیال میں یہ تھی کہ اکبر مرحوم نے طنز کا طریقہ اختیار کیا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کمزوروں کا ہتھیار ہے ۔
بہر کیف!حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ نے میرے مسودے کے طنز آمیز انداز کو دیکھ کر یہ ساری نصیحتیں اس انداز سے ارشاد فرمائیں کہ وہ اُسی وقت سے الحمد ﷲدل میں پیوست ہوگئیں۔اور اس کے بعد میں نے مسودے کو اس نقطۂ نظر سے کافی تبدیل کیا اور اس کے بعد وہ کتاب شائع ہوئی۔
یہ میری پہلی مستقل کتاب تھی۔اس کے بعد سے آج تک مجھے کوئی ایسا زمانہ یاد نہیں جس میں کوئی نہ کوئی کتاب زیر تالیف نہ رہی ہو، بلکہ بسااوقات ایک ہی زمانے میں کئی کئی کتابیں یا مضامین ساتھ چل رہے ہوتے ہیں۔
ماہانہ رسالوں میں بھی میں کبھی کبھی مضامین لکھا کرتا تھا ۔بڑے بھائی مولانا محمد ولی رازی مد ظلہ نے ۱۹۶۱؁ء میں "فکرنو” کے نام سے ایک نیم ادبی ماہنامہ جاری کیا تھا ۔ اُس میں کئی ماہ تک لکھتا رہا ۔ ایک مضمون کا عنوان تھا ” جوسب کے لئے رحمت ہیں (صلی اللہ علیہ وسلم)”نیز اُس رسالے میں کتابوں پر تبصرے بھی میں نے لکھے ۔ حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ماہنامہ بینات جاری فرمایا تھا ۔ ان کے ایڈیٹر کی فرمائش پر میں نے ۱۹۶۳ ؁ ء میں "قرآن کریم کے مضامین پر ایک نظر” کے عنوان سے مضمون لکھا تھا ۔ یہ مضمون اب میری کتاب "علوم القرآن” کا حصہ بن چکا ہے ۔
اظہارالحق کی تحقیق و تعلیق
جس سال میں دورۂ حدیث میں تھا، اُس سال پاکستان میں ایک مرتبہ پھر عیسائی مشنریوں کی سرگرمیاں بہت بڑھ گئی تھیں ۔ ملک کے مختلف حصوں میں ان کے جلسے منعقد ہورہے تھے ۔ ان میں سے ایک تین روزہ جلسہ دارالعلوم نانک واڑہ کے قریب لارنس روڈ(موجودہ نشترروڈ) کے ایک میدان میں منغقد ہورہا تھا ۔ اس جلسے میں کچھ بظاہر اپاہج لوگوں کو لایا جاتا، اور لوگوں کے سامنے ان کو پیش کرکے ان پربائبل پڑھی جاتی اورکہاجاتا کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے ان کی معذوری دور کردی ہے ۔ ایک بڑے مجمع کے سامنے ان کی شفا یابی کا مظاہرہ کیا جاتا ، اور لوگوں کو عیسائی مذہب اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی، اور دکھایا جاتا کہ فلاں فلاں شخص نے عیسائی مذہب اختیار کرلیا ہے۔
اس جلسے کے پہلے دن میں اور بڑے بھائی حضرت مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب مدظلہم نے بھی اس جلسے میں گئے ، اور خودجاکر یہ جعلی مظاہرہ دیکھا ۔ وہاں بہت سے عام مسلمان بھی موجود تھے، اور بظاہر اس مظاہرے سے متأثر ہورہے تھے ۔ ساتھ ساتھ عیسائی پادریوں کی تقریریں بھی جاری تھیں ۔ ہمیں یہ منظردیکھ کر بہت صدمہ ہوا کہ لوگوں کو مرتد بنانے کی یہ کوشش کھلم کھلا ہورہی تھی ۔
نوجوانی کا گرم خون تھا، اور ہماری غیرت کو برملا للکارا جارہا تھا ۔ اس لئے ہم سے صبر نہ ہوسکا۔ہم نے مشورہ کیا کہ اس سلسلے کو روکنے کا کیا طریقہ اختیار کرنا چاہئے ۔ حکومت سے کوئی توقع نہیں تھی کہ وہ ایسے جلسوں کو روکے ۔آخر میں طے ہوا کہ ایک مضمون لکھ کر چھاپا جائے ، اور اُسے اسی جلسے میں تقسیم کیا جائے ۔ چنانچہ ہم نے ایک بڑا جذباتی مضمون لکھا جس میں مسلمانوں کو مخاطب ہوکر ان کی غیرت ایمانی یاددلائی گئی تھی ، اور ان سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ اپنی دینی حمیت کے تحت نہ صرف اس جلسے کا بائیکاٹ کریں، بلکہ ارتداد کی اس کھلی دعوت کو ناکام بنائیں ۔ مضمون تو لکھ لیا ،لیکن اسے کسی پریس میں چھپوانا ایک مسئلہ تھا، کیونکہ عام پریسوں کے لئے اُسے چھاپنے پر آمادہ ہونامشکل تھا ۔ یہ جذباتی مضمون ان کے لئے مشکلات پیدا کر سکتا تھا ۔
ان دنوں میرے بڑے بھائی جناب محمد ولی رازی صاحب مدظلہم محبوب پرنٹنگ پریس کے نام سے ایک پریس چلارہے تھے ، انہوں نے فرمایا کہ بلا سے ہمیں کسی قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے، میں یہ مضمون اپنے پریس میں چھاپ دوںگا ۔ چنانچہ انہوں نے یہ مضمون چند گھنٹوں میں سینکڑوں کی تعداد میں اپنے پریس میں چھاپ دیا ۔اور پھر ہم تینوں اپنے ساتھ کچھ اوردوستوں کے ساتھ یہ ہینڈبل لیکر شام کے وقت جلسہ گاہ میں پہنچے، اور وہاں انہیں تقسیم کیا۔اس دوران اخبارات میں بھی علماء اور مختلف دینی حلقوں کی طرف سے اس جلسے کے انعقاد کی اجازت دینے پر احتجاجی بیانات بھی غالباً شائع ہوئے تھے، اور بہت سے مسلمان نو جوان وہاں صورت حال کا جائزہ لینے کے لئے پہنچے ہوئے تھے ۔ اُس ہینڈبل کا وہاں تقسیم ہونا تھا کہ ان نو جوانوں کے دلوں میں ایک آگ سی لگ گئی ، اور انہوں نے جلسے کے دوران احتجاج شروع کردیا، اور کچھ لوگ اس احتجاج کے دوران اسٹیج کے بالکل قریب پہنچ گئے ، اور انہوں نے مطالبہ کیا کہ یہ تما شا بند کیا جائے ، اور اگر کرنا ہے تو ہمارے علماء کے ساتھ دلیل اور برہان سے مناظرہ کیا جائے۔ اسٹیج کی طرف بڑھتے ہوئے لوگوں کا جو ش وخروش دیکھ کر اسٹیج پر بیٹھے یا کھڑے ہوئے پادریوں نے عافیت اسی میں سمجھی کہ وہ اسٹیج سے واپس روانہ ہوجائیں ۔ ان کے وہاں سے ہٹتے ہی جلسہ درہم برہم ہوگیا، اور پھراچانک نہ جانے کس طرح اسٹیج کی بجلیاں بھی کٹ گئیں، اور اس کا سامان بھی بکھرگیا، اور آن کی آن میں اس میدان پر اندھیرا چھا گیا، اور لوگ تتر بتر ہوگئے ۔
لیکن اس جلسے کے درہم برہم ہونے کے بعد عیسائیوں نے ہینڈبل تقسیم کرنے والوں کے خلاف پولیس میں رپورٹ درج کرادی ۔ پولیس ہینڈبل تیار کرنے والوں اور اُسے چھاپنے والوں کی تلاش میں رہی ، اورآخر کار ہم تینوں بھائیوں تک پہنچ گئی ۔ ہم چند روز پولیس کی پوچھ گچھ کا سامنا کرتے رہے ، لیکن اُس ہینڈبل کی جذباتی زبان کے باوجوداس میں کوئی ایسی بات نہ تھی جو قانون کی گرفت میں آسکے ۔ اس لئے ہمارے خلاف یہ مقدمہ کچھ روز میں رفع دفع ہوگیا۔
بہرحال!یہ تو ایک مثال تھی ، اُس وقت ملک بھر میں عیسائیوں کی اس طرح کی سرگرمیاں شدت کے ساتھ جاری تھیں، اور ملک کے مختلف حصوں سے ارتداد کی خبریں آرہی تھیں ۔ اس لئے ضرورت تھی کہ کچھ لوگ اس فتنے کے مقابلے کے لئے تیار ہوں، اور دلیل وحجت کے میدان میں عیسائی مشنریوں کا مقابلہ کریں ۔ لیکن اُس وقت عیسائی مذہب اور اس کی تفصیلات سے واقفیت رکھنے والے لوگ بہت کم تھے جو یہ فریضہ ادا کرسکیں ۔ حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ نے فرمایا کہ انگریز کے اقتدار کے ابتدائی دور میں عیسائی مشنریاں بڑی آب وتاب سے ہندوستان آئی تھیں، اور اُس وقت انہوں نے کہیں زیادہ قوت سے مسلمانوں سے مناظرے شروع کئے تھے ۔ اس موقع پر علماء کرام نے ان کی کتابوں کا بنظر غائر مطالعہ کرکے اس فتنے کے مقابلے کے لئے اپنے آپ کووقف کیا تھا ۔ اس دور میں عیسائیت کی تردید میں بہت سے مناظرے ہوئے، اور بہت سی کتابیں لکھی گئیں ۔ یوں تو علماء کی ایک بڑی تعداد نے اس فتنے کا دلیل کے ذریعے ڈٹ کر مقابلہ کیا، لیکن اس موضوع پر حضرت مولانا رحمت اﷲصاحب کیرانوی رحمۃ اﷲعلیہ کی خدمات سب سے زیادہ مؤثر اور نمایاں رہیں ۔ انہوں نے مناظرے میں پادری فنڈر کو شکست فاش دی، اور متعدد کتابیں لکھیں ۔ ان کتابوں میں سب ٍسے زیادہ جامع کتاب” اظہارالحق ” تھی۔یہ کتاب انہوں نے عربی میں لکھی تھی، اور پھر اس کا انگریزی اور فرانسیسی میں ترجمہ بھی ہوا تھا۔لیکن اس کااردو ترجمہ ابھی تک نہیں ہوسکا تھا ۔حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ کی ایماء پر دارالعلوم کراچی کے اُس وقت کے ناظم اعلیٰ حضرت مولانا نوراحمد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ اس کام کے لئے تیار ہوئے کہ وہ اس کا اردو ترجمہ کراکر شائع کریں ۔ چنانچہ انہوں نے ہمارے استاد گرامی حضرت مولانا اکبر علی صاحب رحمۃ اﷲعلیہ کو آمادہ کیا کہ وہ اس کا اردو ترجمہ کریں ۔
چنانچہ جس سال ہم دورۂ حدیث کے بعد تخصص کررہے تھے ، اُس سال حضرت مولانااکبر علی صاحب رحمۃ اﷲعلیہ دن رات اس ترجمے کے کام میں مصروف تھے ۔انہوں نے حیرت انگیز رفتار سے ترجمہ اس طرح مکمل کرلیا کہ کسی بھی قسم کی کوئی مددگار کتاب ان کے سامنے نہیں تھی ۔ ترجمہ مکمل ہوا تو حضرت مولانا نوراحمد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ نے محسوس فرمایا کہ اس سے استفادہ آسان بنانے کے لئے اس پر ابھی مزید کام کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ تم اس ترجمے کو ایڈٹ کرو ،اس کے بعد اس کی اشاعت مفید ہوگی۔ حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ نے بھی مجھے حکم فرمایا کہ اس پر کام کروں ۔
عیسائی مذہب کے بارے میں کچھ عمومی معلومات تو بیشک تھیں، لیکن اس موضوع پر”اظہارالحق "جس پائے کی تحقیقی کتاب ہے ، اس کو ایڈٹ کرنے کے لئے عمومی معلومات کی نہیں، تحقیقی مطالعے کی ضرورت تھی ۔ استاذ مکرم حضرت مولانا اکبر علی صاحب قدس سرہ نے جو ترجمہ کیا تھا ، وہ ان کی اعلیٰ صلاحیتوں کا آئنہ دار تھا، لیکن اُس کو عام فہم اور لوگوں کے لئے آسان بنانے کے لئے چند درچند کام ضروری معلوم ہوتے تھے ۔ سب سے پہلی بات تو یہ تھی کہ اظہارالحق بائبل کے حوالوں سے بھری ہوئی ہے ۔ بائبل وہ کتاب ہے جس کے مسلم ترجمے ہرزبان میں ہوئے ہیں ۔ حضرت مولانا رحمت اﷲصاحب کیرانوی رحمۃ اﷲعلیہ نے اپنی کتاب میں بائبل کے عربی ترجمے کے اقتباسات درج فرمائے ہیں ۔استاذ مکرم حضرت مولانا اکبر علی صاحب قدس سرہ نے ان عربی اقتباسات کا خود اردو ترجمہ فرمایا، شاید پیش نظر یہ تھا کہ ترجموں میں بہت سی تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں، اس لئے شاید موجودہ اردو ترجموں میں وہ بات نہ ہو جس سے حضرت مولانا ؒ استدلال کرنا چاہتے ہیں ۔ اور یہ بات بڑی حد تک ٹھیک بھی تھی، لیکن اس میں یہ خطرہ بھی تھا کہ کوئی شخص کسی عبارت کے بارے میں یہ کہدے کہ اس کا ترجمہ صحیح نہیں ہوا ۔ لہٰذا میں نے مناسب سمجھا کہ ان تمام عبارتوں کو بائبل کے مروجہ اردو ترجمے میں منتقل کروں، اور اگر کہیں مصنف رحمۃ اﷲعلیہ کی نقل کردہ عبارت موجودہ ترجمے سے مختلف ہو تو اس اختلاف کو حاشیے میں واضح کردوں ۔
اس کے علاوہ بہت سے مقامات کا عیسائی مذہب کی اصطلاحات، ان کے بڑے بڑے مصنفین اور ان کی کتابوں کے تعارف کے بغیر عام آدمی کی سمجھ میں آنا مشکل تھا ۔ اور بعض جگہوں پر تو اس تعارف کے بغیر شدید غلط فہمیاں پیدا ہونے کا اندیشہ تھا ۔ دوسری طرف ان مشکلات کو حل کرنے کیلئے مجھے نہ کتابیں میسر تھیں ، نہ کسی ایسے شخص کی رہنمائی حاصل تھی جسے اس موضوع پر عبور ہو۔ مجھے جس کسی کے بارے میں معلوم ہوا کہ انکا عیسائیت پر مطالعہ اچھا ہے ، میں ان کے پاس گیا، اور ان سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کی ، لیکن بات کسی ایک نکتے کی نہیں تھی جو کسی سے حل کرلیا جائے، اور ہر شخص اپنے مسائل میں گرفتار تھا، اس لئے کوئی قابل ذکر مدد حاصل نہیں ہوسکی۔
اﷲتعالیٰ جزائے خیر دیں محترم ابراہیم باوانی صاحب مرحوم کو کہ جب انہوں نے یہ سنا کہ میں اس موضوع پر کام کررہا ہوں ، اور مجھے کتابوں کی ضرورت ہے تو وہ مجھے اپنا انسا ئیکلو پیڈیا برٹانیکا کا پورا سیٹ دے گئے کہ وہ مجھے مختلف مواقع پر مدد دے سکے ۔ یہ ۱۹۵۰ ؁ ء کا ایڈیشن تھا،اور واقعہ یہ ہے کہ اس سے مجھے بہت مدد ملی۔ اس کے علاوہ میں مختلف چرچوں کے کتب خانوں میں گیا، اور وہاں جو کوئی کتاب مجھے مددگار معلوم ہوئی، وہ خرید لایا۔ نیز کراچی میں لیاقت نیشنل لائبریری اور اسٹیٹ بنک کی لائبریری میں بعض کتابیں کارآمد تھیں ۔ان سے مدد لینے کے لئے مجھے خود ان لائبریریوں میں جانا پڑتا تھا ۔چنانچہ ہوتا یہ تھا کہ میں رات کو عشاء کے بعداپنے زیر تدریس اسباق کا مطالعہ کرنے کے بعد اظہارالحق کا کام کرتا تھا ۔ کام کے دوران جو با ت قابل تحقیق نظر آتی اور اپنے پاس موجود کتابوں سے حل نہ ہوتی، اسے میں نوٹ کرلیتا تھا ، اور اگلے دن تین چار گھنٹے دارالعلوم میں پڑھانے اور ایک دو گھنٹے فتویٰ کا کام کرنے کے بعد عصر سے کچھ پہلے میں کورنگی کے ایریا کے بس اسٹاپ پر پہنچتا، وہاں سے بس میں سوار ہوتا ،بکثرت بس بھری ہوئی ہوتی ،اور میں ڈنڈا پکڑکر کھڑا رہتا ، بس مجھے ایمپریس مارکیٹ اتارتی ، وہاں عموماً جہانگیر پارک کی مسجد میں عصر پڑھتا ، اور پھردوسری بس میں بیٹھ کر میں ویدر ٹاور پہنچتا جہاں اُس وقت لیاقت نیشنل لائبریری واقع تھی ۔ وہاں جاکر مطلوبہ کتاب نکلواتا ، اور اُس میں مطلوبہ مضمون تلاش کرتا۔ اُس وقت میں بی اے کررہا تھا، اس لئے انگریزی پر بھی عبور نہیں تھا ، اس لئے بکثرت کتاب کا مطلب سمجھنے کے لئے بکثرت ڈکشنری کی مدد لینی پڑتی تھی ۔ اس طرح کبھی گوہر مقصود ہاتھ آجاتا ، اور کبھی نہ آتا ۔ آخر کار واپس اُسی طرح پہلے صدر، اور پھر وہاں سے کورنگی کی بس میں ڈنڈاپکڑکر دارالعلوم پہنچتا ۔ بس اسٹاپ سے گھر تک تقریباً ایک کلومیٹر کا فاصلہ اندھیرے صحرا میں طے کرتا ہوا رات گئے گھر پہنچتا ، کیونکہ اُس وقت دارالعلوم کی چار دیواری نہیں تھی، اور بس اسٹاپ سے دارالعلوم اور دارالعلوم میں گھر تک نہ کوئی آبادی تھی، نہ کوئی روشنی۔ اللہ تعالیٰ میری والدہ ماجدہ پر اپنی رحمتوں کی بارش برسائے، وہ میری راہ دیکھ رہی ہوتی تھیں ،میری واپسی پر وہ مجھے کھانا کھلاتیں، اور ان کی خدمت میں چند لمحات گذارکر میں اپنی لکھنے کی میز پر پہنچ جاتا ، اوراگر اس سفر سے کچھ حاصل ہوا ہوتا، تو اُسے کتاب میں جگہ دیدیتا ،اُس کے بعد اپنے زیر تدریس اسباق کا مطالعہ کرکے سوتا۔
ہفتے میں کم وبیش دو دن تو اس طرح گذرتے ،اورتین دن میں عصر کے قریب اُسی طرح بس میں لٹک کر حسن الزماں اخترصاحب سے کئے ہوے معاہدے کے مطابق (جس کا ذکر میں پہلے کرچکا ہوں) ان کے پاس جاتا، ان سے معاشیات پڑھتا ، اور انہیں ہدایہ پڑھاتا ۔لہٰذا ہفتے کی بیشتر شامیں اُس زمانے میں شہر کی آمدورفت میں گذرتی تھیں ۔مشکل سے دو دن ایسے ملتے تھے جن کی شام میں گھر پر گذار سکوں ۔
کبھی کبھی اظہارالحق کے کام کے دوران میری ہمت ہارنے لگتی ، جب یہ تصور کرتا کہ جتنا کام کیا ہے، اس سے زیادہ باقی ہے، تو میرا حوصلہ ٹوٹنے لگتا ۔لیکن اﷲ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اس بے ہمتی کا مقابلہ کرکے کام جاری رکھتا ۔اور مجھے اپنی تقریباً تمام تالیفات میں یہی تجربہ ہوا کہ تالیف کے عین درمیان ایک مرحلہ ایسا ضرور آتا تھاکہ طبیعت اُس تالیف سے اُچاٹ ہو جاتی، اور دل چاہتا کہ اُسے چھوڑکر الگ ہوجاؤں، لیکن پھر اﷲتعالیٰ کی توفیق شامل حال ہوتی ، اور میں سمجھتا کہ یہی آزمائش کا وقت ہے ، اور اپنے اوپر زبردستی کئے بغیر اس آزمائش سے عہدہ برآ ہونا ممکن نہیں ۔ چنانچہ اپنے اوپر زبر دستی کرکے کام جاری رکھتا ، اور الحمد ﷲ ، پھر وہ کیفیت زائل ہوجاتی۔
جب کتاب کی تحقیق وتعلیق کاکام پورا ہوا ، تو مجھے احساس ہوا کہ اس پر ایک مفصل مقدمے کی ضرورت ہے۔لیکن اس کے لئے مجھے مزیدکتابوں کی ضرورت تھی ۔مجھے لاہور کے ایک سفر کے دوران پتہ چلا کہ لاہور کی پنجاب پبلک لائبریری میں عیسائیت کے موضوع پرکچھ اچھی کتابیں موجود ہیں ، چنانچہ میں نے اسی غرض کے لئے لاہور کا سفر کیا ، اور وہاں کچھ دن اس طرح گذارے کہ میں صبح سویرے لائبریری چلا جاتا، اور کتابوں کا مطالعہ کرکے اُن سے نوٹ تیار کرتا، اور طویل طویل اقتباسات نقل کرتا ۔ اس طرح ایک اچھی خاصی مفصل کاپی تیار ہوگئی ۔ یہ کاپی لیکر میں واپس کراچی آیا ، اور مقدمہ تحریر کیا جو” اظہارالحق” کی ابتدا میں بھی شائع ہوا، اور بعدمیں "عیسائیت کیا ہے ؟” کے نام سے الگ کتابی صورت میں بھی ۔پھر اس کا انگریزی ترجمہ میرے جنوبی افریقہ کے دوست شعیب عمر صاحب نے کیا، اور عربی ترجمہ جناب مولانا نورعالم امینی ندوی صاحب (زیدمجدہ)نے کیا، اور اُس پر حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی صاحب رحمۃ اﷲعلیہ نے پیش لفظ بھی تحریر فرمایا۔
اظہارالحق کے مصنف حضرت مولانا رحمت اﷲ کیرانوی رحمۃ اﷲعلیہ کے پوتے حضرت مولانا محمد سلیم صاحب رحمۃ اﷲعلیہ مکہ مکرمہ میں خود حضرت کیرانوی ؒ کے قائم کردہ مدرسہ صولتیہ کے مہتمم تھے ۔ انہیں جب معلوم ہوا کہ میں اس پر کام کررہا ہوں، تو انہوں نے کراچی کے ایک اہل خیر تاجر کو اس کی طباعت وغیرہ کے اخراجات اٹھانے کی ترغیب دی ۔اور انہوں نے مجھ سے اپنے اس ارادے کا اظہار فرمادیا۔یہ اہل خیر بزرگ دینی حلقوں میں کافی مشہور تھے ۔ان کی نیکی اور بزرگی کے باوجود وہ ذرا زودرنج واقع ہوئے تھے، اور بعض اوقات چھوٹی چھوٹی باتوں پربھی شکایتیں کرنے لگتے تھے ، اسی لئے مجھے اس بات میں کچھ تأمل تھا کہ ان سے اس سلسلے میں کوئی مالی امداد وصول کی جائے ۔
اسی دوران میں نے اپنے کام کے تعارف اور لوگوں کی آراء معلوم کرنے کے لئے اپنے کام کا کچھ حصہ ماہنامہ فاران میں شائع کرادیا ۔ اس کے بعد اُن سے ملاقات ہوئی ، تو انہوں نے اس پر شدت سے اعتراض کیا، اور یہ فرمایا کہ تم نے پہلے سے یہ حصہ شائع کرکے ہمارے کام کی قدر وقیمت گھٹادی ہے ۔یہ اعتراض انہوں نے ایسے لہجے اور ایسے الفاظ میں فرمایا جیسے طباعت کے اخراجات کی پیشکش کرکے انہوں نے یہ سارا کام اپنی ملکیت سمجھ لیا ہے ، اور مجھ ناسمجھ کو یہ احساس بھی ہوا جیسے ان کے نزدیک میں یہ کام ان کے زیر ہدایت یا ان کے اجیر کے طورپر کررہا ہوں ۔ میں نے ان کی بزرگی کا لحاظ کرتے ہوئے اُنہیں اس وقت اس اشاعت کی مصلحت بتانے پر ہی اکتفا کیا ، اور ان کے نامناسب انداز پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا، اس کے بعد بھی انہوں نے کام کی رفتار کے بارے میں کچھ خیالات کااظہاراس طرح فرمایا جیسے یہ سارا کام انکی نگرانی میں ہورہا ہے۔میں انہیں سکون سے جواب دیدیا کرتا، لیکن دل میں یہ طے کرلیا کہ اب ان سے کوئی مالی تعاون حاصل نہیں کرنا۔
اس کے کچھ عرصے کے بعد انہوں نے مجھے ایک ہزار روپے کا چیک بھیجا ۔( اُس وقت کے ایک ہزار اپنی قوت خرید کے اعتبار سے شاید آج کے تقریباً ایک لاکھ کے برابر ہوں گے ) اور یہ ظاہر فرمایا کہ وہ یہ چیک میری خدمت پر انعام کے طورپر بھیج رہے ہیں۔ان کے طرزعمل کی وجہ سے دل میں جو کوفت تھی، اس موقع پرمیرے نفس نے مجھے اس پر آمادہ کیا کہ میں انہیں ایک خط میں ان کے نامناسب طرزعمل کی تفصیل بتاکر یہ لکھدوں کہ اس طرزعمل کی وجہ سے آپ کا یہ چیک میں واپس کررہا ہوں ۔ایسا یاد پڑتا ہے کہ شاید میں نے ایسا خط لکھ بھی دیا تھا ، اور پھر حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ کی خدمت میں پیش کیا تھا ۔حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ خود بھی ان کے اس طرزعمل کی وجہ سے ناخوش تھے، لیکن انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ تمہارا یہ انداز ان کے ساتھ قطع تعلق کا سا انداز ہے، اور تعلق توڑناتوآسان کام ہے، کسی بھی وقت کیا جاسکتا ہے ، لیکن تعلقات کو نبھانا اور تحمل کا مظاہرہ کرنا اصل مردانگی ہے ۔ اس لئے حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ نے چیک واپس کرنے کو تو منظور فرمایا، لیکن میرے بجائے خود انہیں ایک خط لکھا جس میں چیک کی واپسی کا ذکر اس انداز سے فرمایا کہ اس میں ان کی پیشکش کا شکریہ بھی تھا، اور ساتھ ہی یہ ذکر بھی کہ یہ کام اﷲتعالیٰ کے بھروسے پر شروع کیا گیا تھا، اور اُسی کے بھروسے پر جاری ہے ، اور فی الحال چونکہ کام ابھی باقی ہے ، اور طباعت کا مرحلہ آنے میں دیر ہے، اس لئے یہ چیک واپس کررہا ہوں ۔اس طرح جو مقصد تھا کہ ان کا چیک واپس کردیا جائے ، وہ بھی حاصل ہوگیا، اور کسی قسم کی بد مزگی بھی پیدا نہیں ہوئی ۔ اﷲتعالیٰ حضرت والد صاحب پر اپنی رحمتوں کی بارشیں برسائیں ،وہ اس طرح قدم قدم پرخوش اخلاقی ، تحمل اور بردباری کا درس دیا کرتے تھے۔
بہر کیف!الحمد ﷲ! تقریباً ساڑھے تین سال میں اظہارالحق کا یہ کام تکمیل کو پہنچا ، اور وہ مکتبہ دارالعلوم کراچی سے” بائبل سے قرآن تک "کے نام سے شائع ہوا، اور اﷲتعالیٰ کے فضل وکرم سے اُسے علمی حلقوں میں وسیع پیمانے پر مقبولیت حاصل ہوئی، اور یہ اطلاعات بھی ملیں کہ اس کے مطالعے سے بہت سے عیسائیوں کو مشرف بہ اسلام ہونے کی توفیق عطا ہوئی ۔

(ماہنامہ البلاغ :رمضان المبارک ، شوال ۱۴۴۱ھ)

جاری ہے ….

٭٭٭٭٭٭٭٭٭