حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی

یادیں

(اڑتیسویں قسط)

حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی وفات
حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ پر دل کا پہلا حملہ ربیع الثانی ۱۳۹۲ھ مطابق ۸؍جون ۱۹۷۲ ء کو ہوا تھا۔ اس کے بعد ان کی کمزوری بڑھتی چلی گئی، شروع میں انہیں تفسیر معارف القرآن کو مکمل کرنے کی آرزو تھی وہ بستر ہی پرر ہ کر تفسیر لکھنے میں مصروف رہتے تھے۔اتوار کی مجلس بھی وہیں ہوجاتی تھی، اور حضرت مولانا قاری رعایت اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو ان دنوں دارالعلوم کے ناظم اعلی تھے، روزانہ ظہر سے پہلے کچھ دیر حضرتؒ کے سامنے کرسی پر بیٹھ کر دارالعلوم کے اہم معاملات انہیں بتاکر ان کی رہنمائی لے لیا کرتے تھے۔حضرت مولانا محمد عاشق الٰہی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے دارالافتاء سنبھالا ہوا تھا، اور وہ بھی کبھی کبھی کسی فتوے کے بارے میں مشورہ کرنے کے لئے تشریف لے آتے تھے، اور میں حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے برابر والے کمرے میں دفتر بناکر حضرتؒ کے بے نام سیکریٹری کے فرائض انجام دیتا رہتا تھا۔حضرتؒ کو وقفے وقفے سے دل پر دباؤ کی سی کیفیت رہتی تھی جس کی اُداسی چہرہ مبارک پر صاف دیکھی جاسکتی تھی۔ایسے مواقع پر کچھ گھریلو ٹوٹکے استعمال کرلئے جاتے تھے۔حضرتؒ کروٹ سے لیٹ جاتے، اور میں یا بھائی رفیع صاحب مد ظلہم ان کی ریڑھ کی ہڈی کے دونوں طرف ہلکے ہلکے دباتے تو اُس سے انہیں قدرے سکون ہوجایا کرتا تھا۔لیکن یہ کیفیت بڑھتی چلی گئی، اور چہرے پر اداسی میں اضافہ ہوتا چلا گیا، یہاں تک کہ ایک دن فرمایا کہ اب میرے دل میں کوئی خواہش باقی نہیں رہی، یہاں تک کہ پہلے معارف القرآن کی تکمیل کی بھی جو خواہش تھی، اب وہ بھی نہیں ہے۔جتنا اللہ تعالی کرادیں گے، میں اُس پرراضی ہوں، اور یہ آیت بھی بکثرت پڑھا کرتے تھے کہ:
(مَا عِنْدَکُمْ یَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللَّہِ بَاقٍ) (النحل:۹۶)
اس کے باوجود حضرتؒ نے تفسیر کا کام جاری رکھا ہوا تھا، اور اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے وہ ۲۱؍شعبان ۱۳۹۲ھ میں مکمل ہوگیا۔اتنی بڑی آٹھ جلدوں کی تفسیرکی طباعت کے لئے اس زمانے میں بڑے مالی وسائل درکار تھے جو شروع میں مہیا نہیں تھے، لیکن جنوبی افریقہ میں حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ایک معتقد جناب حاجی عبدالحی ورا چھیہ رحمۃ اللہ علیہ نے پہلی جلد کی طباعت کے اخراجات اپنے ذمے لئے تھے۔پھر حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے یہ انتظام فرمایا تھا کہ پہلی جلد کی فروخت میرے بڑے بھائی حضرت محمد رضی عثمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ذریعے ان کے دارالاشاعت سے کروائی، اور فروخت کی پوری رقم اگلی جلدوں کی طباعت کے لئے اپنے پاس محفوظ رکھی، اور اس سے دوسری جلد چھپوائی۔شروع میں اس کے حساب وکتاب کا کام بھی خود ہی فرماتے رہے۔ بعد میں یہ کام مجھے سپرد فرما دیا تھا۔جتنی رقم ایک جلد کی فروخت سے حاصل ہوتی، اس کا پورا حساب میں رکھتا تھا ، اور اگلی جلد کی طباعت کا خرچ اسی آمدنی سے پورا کرتا تھا۔اس طرح اللہ تعالیٰ نے آٹھوں جلدوں کی طباعت کاانتظام فرمادیا ۔
معارف القرآن کی تکمیل کے بعد حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی ان پرانی تالیفات کو مرکز توجہ بنایا جو کسی وقت شروع کی تھیں، اور نامکمل رہ گئی تھیں، چنانچہ ۱۳۹۲ھ کے اختتام کے بعد سے ۱۳۹۵ھ کے عمرے کے سفر تک ایسی بہت سی تالیفات کو مکمل فرمالیا تھا۔
دل کا یہ دوسرا دورہ جو میرے سفر نیروبی کے دوران ہوا تھا اور جس کا پورا واقعہ میں نے اوپر لکھا ہے، اس کے بعد حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی صحت مزید گرتی چلی گئی۔ اب زیادہ تر انتظامی کام میرے بڑے بھائی حضرت مولانا مفتی محمد رفیع صاحب مدظلہم، حضرت مولانا قاری رعایت اللہ صاحب اور حضرت مولانا سحبان محمود صاحب رحمۃ اللہ علیہما کے سپرد کردئے تھے، اور ان کے انداز سے یوں لگتا تھا جیسے وہ اب اللہ تعالیٰ کے حضور جانے کے لئے اس طرح تیار بیٹھے ہیں جیسے کوئی مسافر ٹرین آنے کے انتظار میں بیٹھا ہوتا ہے۔ ساری زندگی تحریر وتصنیف میں گذری تھی، اور میری والدہ مرحومہ نے، جو بذاتِ خود بیمار تھیں، انہیں ہمیشہ کچھ نہ کچھ لکھتے ہوئے دیکھا تھا، اور جب وہ انہیں قلم کے بغیر دیکھتیں، تو ایسا لگتا تھا جیسے ان کے دل پر چوٹ لگ رہی ہو، وہ حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے کہتیں:”کچھ لکھ لو”، اور اس کے جواب میں حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے چہرے پر ایک اداس مسکراہٹ آجاتی۔البتہ فتاویٰ پر نظر ثانی کا کام آخر تک جاری رکھا، نیز اتوار کی مجلس بھی اس طرح جاری رکھی کہ حضرت مولانا مفتی عبدالرؤوف صاحب مد ظلہم حضرت حکیم الامتؒ کے ملفوظات پڑھکر سُناتے تھے، اور حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کہیں کہیں کچھ تشریح فرمادیتے تھے۔
وفات سے پہلے اتوار کو جو آخری مجلس ہوئی، اُس میں پہنچنے میں مجھے کچھ دیر ہوگئی، کمرہ اس وقت بھر چکا تھا، اور میں آخری صف میں کچھ جگہ بناکر بیٹھنا چاہ رہا تھا۔ حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے دیکھا، تو فرمایا: "یہاں میرے پاس چارپائی پر آجاؤ” ۔مجھے کچھ تردد ہونے لگا ، تو فرمایا: "آجاؤ، پھر میں تمہیں ایک واقعہ سُناؤںگا” ۔ تعمیلِ حکم کے لئے میں آگے بڑھکر حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی چارپائی کی پائنتی پر بیٹھ گیا۔اُس وقت فرمایا کہ ایک مرتبہ میرے ساتھ بھی یہ واقعہ پیش آیا تھا کہ میں حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں کچھ دیر سے پہنچا تھا، اور کسی پچھلی صف میں بیٹھنے لگا تھا، تو حضرتؒ نے مجھے اپنے قریب (شاید تخت یا چار پائی پر) بٹھانے کے لئے بلایا، مجھے تردد ہوا تو حضرتؒ نے فرمایا کہ "آجاؤ، میں تمہیں ایک واقعہ سُناؤنگا۔ چنانچہ میں نے حکم کی تعمیل کی اور حضرتؒ کے پاس جاکر بیٹھ گیا۔ اس پر حضرت نے یہ واقعہ سُنایا کہ شاہ جہاں کی وفات کے بعد مسئلہ یہ تھا کہ اس کے دو بیٹوں اورنگ زیب عالمگیر اور داراشکوہ میں سے کون اس کا جانشین بادشاہ بنے۔اُس زمانے میں ایک بڑے صوفی بزرگ تھے (جن کا نام مجھے اب یاد نہیں آرہا) دونوں ان کی خدمت میں دعا کرانے گئے۔ پہلے دارا شکوہ پہنچے تو بزرگ نے انہیں اپنے پاس تخت پر بیٹھنے کے لئے کہا، لیکن دارا شکوہ نے عذر کردیا کہ میں آپ کے پاس بیٹھنے کے لائق نہیں ہوں۔ بعد میں اورنگ زیب عالمگیر ؒ گئے، ان کو بھی بزرگ نے اپنے پاس تخت پر بیٹھنے کو کہا تو وہ کسی تأمل کے بغیر ان کے پاس تخت پر جا بیٹھے۔اس پر ان بزرگ نے کہا کہ ان دونوں نے خود ہی اپنے تخت پر بیٹھنے کا فیصلہ کرلیا۔ چنانچہ بعد میں ایسا ہی ہوا کہ تخت شاہی اورنگ زیب عالمگیرؒ ہی کو ملا۔
بہر حال! حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ انتظار وصال میں دن گذارتے رہے۔ ایک دن ایسا بھی ہوا کہ ایک صاحب بیمار پُرسی کے لئے آئے، اور انہوں نے شفاء کامل کی دعا کی۔ وہ چلے گئے تو بیساختہ آنسو آگئے ، اور یہ شعر پڑھنے لگے:

وہ لوگ جو میرے لئے خواہاں ہیں شفا کے
وہ کوس رہے ہیں مجھے پردے میں دعا کے

اسی دوران رمضان آگیا، اور رمضان میں آپ کی طبیعت معمول سے زیادہ خراب رہی، بار بار دل پر دباؤ ہوتا، اور اداسی مزید بڑھ جاتی ۔عید آئی، تو ایک روز فرمانے لگے: "میرا حال بھی عجیب ہے۔رمضان المبارک میں کبھی دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی تھی کہ وقت تو قریب نظر آرہا ہے، میری وفات رمضان میں ہوجائے، تو اچھا ہو،لیکن میں یہ دعا بھی نہ کرسکا، کیونکہ مجھے یہ خیال آیا کہ اگر میری وفات رمضان میں ہوئی، تو میرے گھر والوں اور احباب کو روزے کی حالت میں صدمے کے علاوہ تجہیزوتکفین کی مشقت اٹھانی پڑے گی، پھر یہ شعر پڑھا:

تمام عمر اسی احتیاط میں گذ ر ی
کہ آشیاں کسی شاخِ چمن پہ بار نہ ہو

آخر رمضان المبارک کے ٹھیک دس دن بعد وقتِ موعود آ پہنچا۔ صبح کو ایک فتویٰ لکھا، اور اُسکے فوراً بعد دل کا شدید دورہ ہوا، اور اسی رات جو ۱۱؍شوال ۱۳۹۶ ھ کی رات تھی، اچانک بجلی کے جانے سے پورے ماحول پر اندھیرا چھا گیا۔حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے معالج ڈاکٹر اسلم صاحب نے ہسپتال لے جانے کا اصرار کیا، وہ شروع میں راضی نہ تھے، لیکن ڈاکٹر صاحب کے اصرار پر راضی ہوگئے۔ڈاکٹر صاحب ہمیں پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ حالت تشویشناک ہے، غرض اسی حالت میں ہسپتال لے جایا گیا، اور وہیں پر جان جاں آفریں کے سپرد کردی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مجھے حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی میں جب ان کی وفات کا تصور آتا تھا، تو ایسا لگتا تھا کہ میں اس صدمے کو برداشت نہیں کرسکوں گا۔ لیکن جب یہ وقت آگیا، تو ایسا معلوم ہوا کہ آنسو خشک ہوگئے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے ہم چار بھائیوں، تین بہنوں اور والدہ مرحومہ کو ہمت عطا فرمائی، اور زندگی کا یہ سب سے بڑا سانحہ بھی گذرگیا۔ رحمہ اللہ تعالیٰ رحمۃً واسعۃ وأسکنہ جنات النعیم فی مقعد صدق ۔
حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں میں نے البلاغ کا مفتیٔ اعظم نمبر دو جلدوں میں شائع کیا جس میں حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی مد ظلہم نے "حیاتِ مفتیٔ اعظم” کے نام سے حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی مختصر سوانح لکھی ، اور میں نے "میرے والد، میرے شیخ” کے عنوان سے ان کے مزاج و مذاق پر مفصل مضمون لکھا ہے، یہ دونوں کتابیں الگ بھی شائع ہوگئی ہیں۔ نیز اس نمبر میں حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں اس وقت کے مشاہیر اہل علم کے انتہائی مفید مضامین شامل ہیں۔

مکہ مکرمہ کی تعلیمی کانفرنس
حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی علالت کے زمانے کی بات ہے ۔ اب مجھے صحیح سن تو یاد نہیں رہا ، لیکن شاید ۱۹۷۳ ء ہوگا ۔جب حج کا موسم قریب آیا ، تو مجھے کہیں سے حج بدل کی پیشکش ہوئی ۔ ۱۹۶۴ء کے حج کے بعد سے مجھے حرمین شریفین حاضر ہونے کا موقع نہیں ملا تھا ۔اس لئے دل للچایا کہ اس موقع سے فائدہ اٹھاؤں ، لیکن حضرت والد صاحب ؒ کی علالت کی وجہ سے انہیں اس حالت میں چھوڑکر جانے پر بھی دل آمادہ نہیں ہوتا تھا ۔کسی طرح حضرت والد صاحبؒ کو علم ہوگیا ۔ انہوں نے بھی دبے لفظوں میں جانے کی اجازت دیدی ، لیکن سوچنے کے بعد دل نے یہی فیصلہ کیا کہ الحمدللہ فریضۂ حج ادا ہوچکا ہے ۔ اس وقت نفلی حج کے لئے جانا مناسب نہیں ۔چنانچہ میں نے نہ جانے کا فیصلہ کرلیا۔حضرت والد صاحبؒ نے کسی موقع پر پو چھا کہ حج کا کیا ہوا؟ تو میرے منہ سے نکلا کہ” اباجی! ہمارا حج عمرہ تو یہیں ہے” حضرت والد صاحبؒ یہ جملہ سُن کر بہت خوش ہوئے ، دعائیں دیں ، اور کچھ اس طرح کی بات ارشاد فرمائی کہ ان شاء اللہ تعالیٰ تمہیں حرمین شریفین کی بہت حاضریاں نصیب ہوںگی ۔ حضرت والد صاحبؒ کی دعاؤں کا ہی اثر ہے کہ الحمدللہ اُس کے بعد سے کوئی سال ایسا نہیں گیا جس میں ایک سے زائد مرتبہ حاضری نصیب نہ ہوئی ہو، بلکہ اب تو سالہا سال سے ایسا ہورہا ہے کہ ہرتیسرے چوتھے مہینے حاضری ہوجاتی ہے ۔اس واقعے کے کچھ ہی عرصے کے بعد اول تو خود حضرت والد صاحبؒ کے ساتھ رمضان کا عمرہ کرنے کا موقع ملا جس کی تفصیل پیچھے عرض کرچکا ہوں ۔پھر حضرت والد صاحبؒ کی وفات کے چند ہی مہینوں کے بعد کراچی یونیورسٹی کے صدر شعبۂ عربی میرے پاس آئے ، اور انہوں نے کہا کہ ہم جدہ کی جامعۃ الملک عبدالعزیز کے ساتھ مل کر مکہ مکرمہ میں "اسلامی تعلیم” کے موضوع پر ایک عالمی کانفرنس منعقد کررہے ہیں ۔ اُس میں پاکستان کے دینی مدارس کے نظام اور نصاب کے موضوع پر آپ ایک مقالہ لکھیں ، اور اُس مقالے کے ساتھ کانفرنس میں شریک ہوں ۔ چنانچہ میں نے "منہج التعلیم الدینی فی باکستان "کے عنوان سے ایک مقالہ لکھ کرکانفرنس میں بھیج دیا ، جو اب الگ شائع ہوچکا ہے ، اور اُس میں نئے حالات کے تحت ترمیم واضافہ کے بعد وہ میرے عربی مقالات کے مجموعے” مقالات العثمانی ” کا حصہ بن چکا ہے ۔
جب کانفرنس کا وقت آیا ، تو میرے بچپن کے دوست جناب محمد کلیم صاحب (مجاز بیعت حضرت عارفی قدس سرہ) نے بھی میرے ساتھ عمرے پر جانے کا ارادہ کرلیا ، اوراپنے خرچ پر اس پورے سفر میں ساتھ رہے۔کانفرنس ۱۲؍ربیع الثانی ۱۳۹۷ ھ مطابق ۳۱؍ مارچ ۱۹۷۷ ء کو شروع ہونی تھی ، اس وقت ملک میں ذوالفقار علی بھٹو صاحب مرحوم کے خلاف ایک زبردست تحریک چل رہی تھی ، جس کی وجہ سے ملک بد امنی کا بھی شکار تھا ۔اس لئے مجھے حکومت پاکستان سے اجازت لینے میں دیر ہوگئی ،اورمیں کانفرنس شروع ہونے کے دودن بعد روانہ ہوسکا ۔اس وقت مکہ مکرمہ کے مضافاتی علاقے "ام الجود "میں انٹر کانٹی ننٹل ہوٹل بڑی شان وشوکت کے ساتھ نیانیا بنا تھا ۔کانفرنس اُسی میں ہونی تھی ، اور قیام کا انتظام بھی اُسی میں تھا ۔ چنانچہ ہم وہاں پہنچے ۔ میرے لئے کمرہ وہیں پر بک تھا ۔ لیکن حرم سے دور ہونے کی بنا پر مجھے وہاں ٹھہرنا بہت بھاری معلوم ہوا۔ اس لئے میں نے منتظمین سے درخواست کرکے اپنا قیام وہاں سے فندق مکہ میں منتقل کرلیا۔ یہ ہوٹل انٹر کانٹی ننٹل کی طرح شاندار تو نہیں تھا ، لیکن حرم کے باب العمرہ کے بالکل سامنے واقع تھا ، اور ۱۹۷۴ ء کے رمضان میں حضرت والد صاحبؒ کے ساتھ ہم نے اُسی میں قیام کیا تھا ۔ چنانچہ دل کی مراد بر آئی ، اور حرم کا قرب نصیب ہوگیا ۔
کانفرنس کے اوقات میں ہم انٹر کانٹی ننٹل جاتے ، اور باقی اوقات میں حرم شریف سے فیضیاب ہوتے رہے ۔میں حضرت والد صاحبؒ کے خادم کے طورپر تو بین الاقوامی کانفرنسوں میں شریک ہوتا رہا تھا ، لیکن کسی بین الاقوامی کانفرنس میں بحیثیت مندوب شریک ہونے کا یہ پہلا موقع تھا ۔ البتہ خوش قسمتی یہ تھی کہ حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس کے نمایاں مندوبین میں شامل تھے ، اور کانفرنس کے دوران ان کی صحبت سے فیضیاب ہونے کے مواقع میسر آتے رہے ، اور حضرتؒ کی شفقتوں نے نہال کئے رکھا ۔
اگرچہ یہ کانفرنس اس لحاظ سے کامیاب رہی کہ اس میں چالیس ملکوں کے تین سو تیرہ نمائندوں نے بڑی سلامت فکر کے ساتھ اسلامی ملکوں کے نظام تعلیم کے بارے میں مفصل بنیادی اصول مرتب کئے ۔ میں نے اس کانفرنس کی پوری تفصیل اور اس پر تبصرہ البلاغ کے جمادی الثانیہ ۱۳۹۷ھ کے اداریے میں لکھا ہے، اور شاید میرے مضامین کے کسی زیر ترتیب مجموعے میں بھی شامل ہوجائے۔
لیکن ا سی موقع پر حضرتؒ مولانا سید ابوالحسن علی الندوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مرتبہ مجھ سے تنہائی میں فرمایا کہ اس قسم کی بہت سی کانفرنسوں میں شرکت کے بعد میرا تجربہ یہ ہے کہ ان میں شرکت کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا ۔کام تو وہی ہے جو آپ تنہائی میں بیٹھ کر کررہے ہیں ۔ آپ اپنے تصنیفی کام کی طرف زیادہ متوجہ رہئے، اور بے فائدہ کانفرنسوں میں شریک ہونے کو کم سے کم ہی رکھیں تو بہتر ہے ۔ اس کے بعد میں نے سیاسی اور عمومی انداز کی کانفرنسوں سے احتراز ہی کی کوشش کی ، اوراس طرح کی بیشتر کانفرنسوں میں شرکت سے معذرت ہی کرتا رہا، اور اگر کہیں شریک ہوا ، توکسی مجبوری یا کسی اور فائدے کی توقع کی وجہ سے شریک ہوا ۔البتہ فقہی انداز کی مجلسوںمیں شرکت کا بہت موقع ملا ، کیونکہ وہ اجتماعی فقہی مسائل میں اہل علم کے باہم مشورے کی ایک مفید صورت ہوتی ہے ، اور ان سے معلومات میں اضافے کے ساتھ بہت سے فقہی مسائل منقح ہوئے ، اس کی تھوڑی سی تفصیل ان شاء اللہ تعالیٰ میں حسب موقع ذکرکروں گا ۔
اسی موقع پر حضرت مولانا سید ابوالحسن ندوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ سے یہ بھی پوچھا کہ اجتماعی فقہی مسائل میں میں نے آپ کے والد ماجد رحمۃ اللہ علیہ کے نقطۂ نظر میں اعتدال کے ساتھ توسع محسوس کیا ہے ، فقہ حنفی کے ساتھ دوسرے مذاہب سے استفادے کے بارے میں ان کا نقطۂ نظر کیا تھا؟ میں نے عرض کیا کہ اجتماعی ضرورت کے مواقع پر وہ ائمۂ اربعہ میں سے کسی سے استفادے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے ، البتہ ائمۂ اربعہ سے باہر جانے سے احتراز فرماتے تھے ۔ اس پر فرمایا کہ میرے خیال میں ائمۂ اربعہ کے دائرے میں ہماری ہر اجتماعی ضرورت پوری ہوسکتی ہے ۔باہر جانے کی ضرورت ہی نہیں ۔
اس سفر کی یہ بات بھی مجھے یاد ہے کہ حضرت مولانا عاشق الٰہی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اُس وقت دارالعلوم سے رخصت لیکر ہجرت کی نیت سے حجاز آچکے تھے ، اور اُس وقت مکہ مکرمہ میں اس طرح مقیم تھے کہ آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا ۔ وہ مجھ سے ملنے کے لئے فندق مکہ آئے ۔میں نے ان سے تنہائی میں پوچھا کہ آپ کے خرچ کا کیا انتظام ہے ؟ اس پر انہوں نے مسکراکرفرمایا کہ "میرا خرچ ہی کیا ہے ؟ سارے دن میں ایک ریال” اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ہجرت مدینہ کی خاطر کس طرح زندگی گذاررہے تھے ۔ ہوٹل میں میرے کمرے کے سامنے چائے کا انتظام تھا ، میں نے ان کی خاطر کے طورپر انہیں چائے کی پیشکش کی ، تو انہوں نے فرمایا: "یہاں کے مہمان آپ ہیں ، اس لئے یہ چائے آپ کے لئے تو جائز ہے ، میرے لئے جائز نہیں”۔ میں نے عرض کیا کہ "یہ چائے اسی لئے رکھی ہے کہ جب چاہیں ، استعمال کریں ، اور اس کے بارے میں عرف یہ ہے کہ مہمان کا مہمان بھی مہمان ہوتا ہے ۔اس لئے میں نے یہ پیش کی ہے ، ورنہ جن چیزوں میں عُرف نہیں ہے ، ان میں میں یہ تصرف نہیں کرتا”۔ اس پر فرمایا کہ "اس تفصیلی توجیہ میں جانے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ میں چائے نہیں پیوں گا تو نقصان ہی کیا ہے” ؟ ان کے اس تقویٰ کا دل پر بہت اثر ہوا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائیں ۔ وہ مذاق مذاق میں بھی بڑے افادات ارشاد فرماتے رہتے تھے ۔
مکہ مکرمہ کے بعد چند دن مدینہ منورہ میں بھی بڑی عافیت کے گذرے ، اور اس کے بعد گھر واپسی ہوئی ۔
اعلاء السنن کی تھوڑی سی خدمت
حکیم الامۃ حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے "اعلاء السنن” کے نام سے ایک عظیم تالیفی منصوبہ شروع فرمایا تھا ۔ اس کا بنیادی مقصدان احادیث کو جمع کرکے ان کی مفصل شرح کرنا تھا جو حنفی مسلک کی بنیاد ہیں۔ ابتداء میں یہ کام حضرت مولانا احمد حسن سنبھلی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے فرمایا تھا ۔ بعد میں یہ کام حضرت مولانا ظفراحمد صاحب عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کے سپرد فرمایا ، اور انہوں نے یہ عظیم الشان کتاب جس عرق ریزی اور قابلیت کے ساتھ مرتب فرمائی ، اس کی نظیر اس دورمیں ملنی مشکل ہے ، لیکن یہ کارنامہ مسودے کی شکل میں تھا ، اور پہلی بار حضرت مولانا شبیر علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے وسائل کی کمی کی وجہ سے اُسے معمولی کاغذپر کتابت وطباعت کے معمولی معیار کے ساتھ شائع کردیا تھا ، تاکہ وہ محفوظ ہوکر اہل علم کے پاس پہنچ جائے ، اور جب کبھی اُسے اچھے معیارپر شائع کرنے کی نوبت آئے ، تو اُس سے کام لیا جاسکے۔
جب حضرت مولانا نور احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اعلاء السنن کو کمپوزنگ کرکے اپنے ادارۃ القرآن سے شائع کرنے کا بیڑا اٹھایا ، تو حضرت مولانا ظفراحمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اُس کی جلد اول پر نظر ثانی فرمائی، جس کی تفصیل میں نے اعلاء السنن کے مقدمے میں بیان کی ہے ۔ اس موقع پر مجھے خیال آیا کہ اعلاء السنن میں جن کتابوں کے حوالے آئے ہیں ، ان کے ایڈیشن بدل چکے ہیں ، اور اب لوگوں کو ان کے حوالوں کی تلاش میں دشواری پیش آسکتی ہے ، اس لئے نئی طباعت کے وقت میں حاشیے میں نئے ایڈیشنوں اور متعلقہ ابواب کے حوالے دیدوں ، تو قارئین کو آسانی ہوگی ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے نام پر میں نے یہ کام شروع کردیا۔اس کے لئے کتابوں کی مراجعت کی ضرورت تھی ، اس لئے میں نے یہ کام دارالعلوم کے کتب خانے میں بیٹھ کر شروع کیا جو اُس وقت انتہائی خستہ حالت میں تھا ۔ شروع میں صرف اتنی بات پیش نظر تھی کہ حوالے نئے دیدئیے جائیں ، لیکن جب کام شروع کیا، تو کچھ اور پہلو بھی سامنے آئے ، مثلاً جن فقہی مسائل پر حضرت عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے گفتگو کی تھی ، ان میں فقہاء کے مختلف مذاہب کا تذکرہ جہاں اصل کتاب میں نہیں تھا ، وہاں مذاہب کی تھوڑی سی تفصیل بھی ذکر کردی، اور بعض جگہ احادیث کی تخریج بھی۔
حضرت شیخ عبدالفتاح ابو غدہ رحمۃ اللہ علیہ اُس وقت ریاض میں تھے۔ انہوں نے اس پر بہت خوشی کااظہار فرمایا۔پھر میں نے جلد اول کے کچھ فرمے حضرتؒ کی خدمت میں بھیجے ، حضرتؒ اس وقت بیمار تھے، لیکن اسی بیماری کے دوران (صفر ۱۳۹۶ھ میں) میرے خط کے جواب میں سات صفحات کا ایک خط ارسال فرمایا جس میں کتاب کے انداز طباعت کے بارے میں مفصل ہدایات بھی تھیں ، اور اعلاء السنن کی تقریظ ان سات صفحات کے علاوہ چار صفحات پر مشتمل تھی جو اعلاء السنن کے شروع میں شائع ہوچکی ہے۔ اس تقریظ کے بارے میں اس خط میں حضرتؒ نے جو کچھ تحریر فرمایا، اُس سے اُن کی تواضع کے مقام بلند کااندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اس خط کا یہ حصہ میں یہاں نقل کرتا ہوں:
"أخی الأعزّ: ما أزال فی أعقاب المرض والحمد للہ، وکاد یزول عنّی وقبل زوالہ خلفہ زکام شدید، سد الخیاثیم والأسماع، وذہب بالفکر والذہن إلی أعمق الأصقاع، وصرت فی أشدّ الخجل والحرج من تأخری بالکتابۃ إلیکم، فکتبت والعینان تکفان، والذّہن کلیل علیل- الکلماتِ الّتی ترونہا صُحبۃَ ہذہ الرّسالۃ، وأرجو أن أکون قاربتُ المقام، ومَعذرۃً من التّقصیر والتّأخر، وأستحلفکم باللہ أن تکونوا علی أتمّ الحرّیّۃ والاختیار فی إلغاء الکلمۃ، أو إثباتِہا أو طیِّ ما شئتم منہا، أو تعدیلِ ما ترون تعدیلَہ فیہا، فہی کلمۃُ محبّ ولا ریب-، ولکنّہ علیل کلیل فعذرُہ مقبول، وبضاعتُہ مزجاۃ، ورحم اللہ امرء اً عرف حدّہ ووقف عندہ. فتصرّفوا فیہا بما ترَون دون ما حرجٍ أو تلکؤ، واللہ ینفع بکم ویرعاکم.
وأما الملاحظات حول النہج فی الإخراج، فأبعث بہا إلیکم مشاراً إلیہا علی ذات الملازم الّتی أتحفتمونی بہا، نظراً إلی أنّی الآن مریض، وإلی أنّ الإشارۃ المجرّدۃ دون الإشارۃ المعرّفۃ، الّتی قال فیہا الإمام أبو حنیفۃ رضی اللہ عنہ: ہی أشہر طرق التّعریف. وآمل أن لا أتأخر فی إرسالہا طویلا.”
"میرے عزیز ترین بھائی! میں ابھی بیماری کے آخری مراحل میں ہوں ، مرض الحمدللہ زائل ہونے کے قریب ہے ،لیکن اس کے زوال سے پہلے شدید زکام نے اس کی جگہ لے لی ہے جو ناک اور کانوں کو بند کرکے عقل اور ذہن کو کہیں دور لے گیا ہے ، اور آپ کو خط لکھنے میں جو دیر ہوئی، اس پرسخت شرمندگی اور قلق کی حالت میں ہوں ،اور اس خط کے ساتھ (تقریظ کے )جو کلمات آپ کو ملیں گے ، وہ اس حالت میں لکھے ہیں کہ آنکھیں بہہ رہی ہیں ، اوربیمار ذہن تھکا ہوا ہے ۔مجھے امید ہے کہ میں قریب جگہ تک پہنچ گیا ہوں ،اور جو کوتاہی اور تأخیر ہوئی ، اس پر معذرت !اور میں آپ کو اللہ تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ آپ کو مکمل اختیار ہے کہ جس لفظ کو چاہیں،نکال دیں یا باقی رکھیں ، یا جس حصے کو چاہیں ، حذف کردیں ، یا اس میں جو ترمیم مناسب سمجھیں ، کردیں ، کیونکہ یہ اگرچہ بلاشبہہ یہ ایک محبت کرنے والے کے الفاظ ہیں ،لیکن وہ کمزور اور بیمار ہے ،اور اس کی پونجی کھوٹی ہے ۔اور اللہ تعالیٰ اس شخص پررحم فرمائے جو اپنی حد کو پہچان کر وہیں رک جائے ۔لہٰذا اس (تقریظ ) میں آپ جو چاہیں ،کسی ہچکچاہٹ یا حرج کے بغیرجو چاہیں، تصرف کریں۔اللہ آپ سے نفع پہنچائیں ، اور آپ کی حفاظت کریں۔
جہاں تک کتاب کے طریق کار کے بارے میں میری آراء کا تعلق ہے ، آپ نے جو فرمے بھیجے ہیں ، میں نے انہی کے حاشیوں پر لکھ دی ہیں ۔
اس کے بعد میں نے کتاب کے جو فرمے حضرت ؒ کے پاس بھیجے تھے، حضرتؒ نے انہی فرموں کے مختلف مقامات پر اپنی آراء بھیج کر سرفراز فرمایا۔اور ۶؍ شوال ۱۳۶۶ھ کو میرے نام یہ خط لکھا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم
إلی الأخ الکریم فضیلۃ الأستاذ الشیخ محمد تقی العثمانی الموہوب المحبوب حفظہ اللہ تعالی ورعاہ وأکرمہ وأولاہ
السّلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، وبعد، فأرجو أن تکونوا بخیر من اللہ ونعمۃ وعافیۃ سابغۃ وارفۃ.
أبعث إلیکم بالملازم الّتی نعِمتُ بالنّظر فیہا، امتثالاً لأمرکم الحبیب، وأشرْتُ بعض الإشارات علی خِطّتہا المطبعیّۃ رجاء التحسین والتجمیل، فوق الکَحَل الجمیل، ولعلّ الإشارات بالقلم تفید ما رغبتم بیانہ، ولکم النظر الأسدّ فی الإثبات والإلغاء لما نہجتموہ، والّذی أشرتُ إلیہ أظنّ أنّہ یلائم ذوقکم الرفیع، ونظرکم البدیع، ولکم تحیاتی وشکری، وارفعوا تحیاتی إلی سماحۃ السید مولانا الوالد حفظہ اللہ تعالی وأمدّہ بالعافیۃ والشفاء ، ونفعنا بصالح دعواتہ وأنفاسہ العالیۃ، وتحیّاتی أیضا إلی فضیلۃ الأخ العزیز محمد رفیع رفع اللہ مقامہ وأتمّ علیہ فضلہ وإنعامہ، وإلی أنجالکم المحبوبین، أقرّ اللہ بہم العیون والقلوب، وأکرمنی بصالح دعواتکم جمیعا، وأستودعکم اللہ، إلی لقاء حبیب قریب بإذن اللہ، والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.
الریاض الأربعاء ۶\۱۰\۱۳۹۶
عبد الفتاح أبو غدۃ
أرجو إرسال نسخۃ (إعلاء السنن) مع حامل ہذہ التحیۃ، وشکراً.

جس تاریخ کو انہوں نے یہ خط لکھا، اُس کے صرف پانچ دن بعد یعنی ۱۱؍ شوال کو حضرت والد صاحب قدس سرہ کی وفات ہوگئی، اور یہ مکتوب گرامی مجھے غالباً اس حادثے کے بعد ملا۔
اس طرح اعلاء السنن کی پہلی دو جلدوں پر حواشی کا کام الحمد للہ مکمل ہوگیا ، لیکن ماشاء اللہ جس رفتار سے اعلاء السنن کی جلدیں چھپ رہی تھیں ، میں اُس رفتار کا ساتھ نہ دے سکا ، اور پھر مناسب یہ معلوم ہوا کہ اس عظیم کتاب کی اشاعت کو میرے اس کام کی تکمیل کے انتظار میں روکنا مناسب نہیں ہے ۔اس لئے اگلی جلدیں میری تعلیقات کے بغیر ہی شائع ہوئیں ، اور الحمد للہ یہ عظیم کام مکمل ہوگیا۔بہر حال! دو جلدوں پر ہی سہی ، مجھے اس تاریخ ساز کتاب کی تھوڑی سی خدمت کی سعادت حاصل ہوگئی۔

(ماہنامہ البلاغ :جمادی الثانیہ۱۴۴۲ھ)

جاری ہے ….

٭٭٭٭٭٭٭٭٭