حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی

یادیں

(اٹھائیسویں قسط )

تدریس
حج کے یہ واقعات ۱۹۶۴ ء کے ہیں۔اُس وقت دارالعلوم میں میرے سپرد ایک تو تدریس تھی ، دوسرے فتویٰ نویسی کی مشق بھی حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے زیر نگرانی جاری تھی ۔ تیسرے میں نے حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ایماء سے اپنے طورپرانگریزی اور کچھ عصری مضامین پڑھنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا تھا ۔ان تینوں کاموں کا کچھ خلاصہ یہاں پیش کرتا ہوں۔
دارالعلوم میں میری تدریس بالکل ابتدا سے شروع ہوکر درجہ بدرجہ آگے بڑھتی رہی ، اور سلم العلوم اور میبذی کے سوا درس نظامی کی تمام کتابیں پڑھانے کی نوبت آئی ۔ ہمارے استاذمکرم حضرت مولانا سحبان محمود صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے ہم نے تدریس کا یہ طریقہ سیکھا تھا کہ پہلے طالب علم سے عبارت پڑھواتے ، اور اگر پڑھنے میں کوئی غلطی ہوتی ، تو اس کی اصلاح فرماتے ، اور غلطی کی وجہ خود طالب علم ہی سے نکلوانے کی کوشش کرتے ۔ پھر جو عبارت پڑھی گئی ہے ، کچھ دیر کے لئے کتاب سے ہٹ کر اُس کا خلاصہ طلبہ کوبراہ راست مخاطَب کرکے سمجھا تے تھے، جب یہ اطمینان ہوجاتا کہ طلبہ اچھی طرح سمجھ گئے ہیں ، تو دوبارہ کتاب کی طرف لوٹ کر عبارت کا ترجمہ کرتے ، اور جو مفہوم سمجھایا تھا ، اُس پر عبارت کو منطبق فرماتے تھے ۔میں نے تدریس کے دوران اسی طریقے کی اتباع کی ، اور اُس کا بہت فائدہ محسوس کیا ۔ حضرت استاذ رحمہ اللہ تعالیٰ کی ہمیں یہ بھی تلقین تھی کہ جب درس سے پہلے کتاب کا مطالعہ کرو، تو اُس وقت ہی خود سمجھنے کے ساتھ یہ بھی سوچا کرو کہ یہ مضمون طلبہ کو آسان انداز میں کس ترتیب سے اور کس طرح سمجھانا ہے کہ طالب علم کے ذہن پر کم سے کم بوجھ پڑے۔ چنانچہ میرا معمول یہ رہا کہ جس علم کی بھی کوئی کتاب پڑھانی ہوتی ، اُس کی عربی شروح ،بلکہ دوسری خارجی کتابوں کا بھی مطالعہ کرتا ، لیکن طلبہ کے سامنے صرف اتنی بات عرض کرتا جسے وہ آسانی سے ہضم کرسکیں۔
ہمارے طرز تعلیم اور کالجوں یونی ورسٹیوں کے طرز تعلیم میں یہ بڑا فرق ہے کہ وہاں کتاب پڑھانے سے زیادہ جو علم پڑھایا جارہا ہے ، اس کی اہم باتوں کو لیکچروں کی مدد سے سمجھایا جاتا ہے ، لیکن عام طورپر کوئی کتاب باقاعدہ نہیں پڑھائی جاتی ۔ اس سے اُس علم کے بنیادی مسائل تو طالب علم سمجھ لیتا ہے ، لیکن چونکہ کسی خاص کتاب کے ساتھ مناسبت نہیں ہوتی، اس لئے اگر خود اپنے مطالعے سے کچھ سمجھنا چاہے ، توعموماً اس کی عادت نہیں پڑتی ۔اس کے برعکس ہمارے یہاں کسی بھی علم کی کسی کلاس کی کتاب کو اُس علم کے سمجھانے کے لئے بنیاد بنایا جاتا ہے ، اور طالب علم کو کتاب سے وابستہ کردیا جاتا ہے جس سے اُسے خود براہ راست کتابوں کے مطالعے اور اس کے اسرارو رموز کو سمجھنے کی عادت پڑتی ہے ۔ لیکن بعض اوقات کتاب حل کرنے کی کوشش میں اتنا مبالغہ کیا جاتا ہے کہ کتاب کی تعبیرات اصل بن جاتی ہیں ، اور علم پیچھے رہ جاتا ہے ۔ نیز بعض اوقات کتاب کو اس طرح پڑھایا جاتا ہے کہ مصنف کے خلاف اٹھنے والے ہر اعتراض کا جواب دینا ضروری سمجھا جاتا ہے ، اور مصنف سے کوئی غلطی ہوئی ہو ، تو اس کی بھی تاویل کرنا ضروری سمجھ لیا جاتا ہے ۔
افراط وتفریط کے درمیان معتدل راستہ یہ ہے کہ اصل میں مقصود علم سکھانا ہو، اور ساتھ ساتھ کتاب سے طالب علم کی اتنی مناسبت پیدا کردی جائے کہ وہ اس علم کی کتابوں کا خود مطالعہ کرنا چاہے ، تو اُسے دشواری نہ ہو۔ حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنے استاذ حضرت علامہ انورشاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ ان کا طرز تدریس یہی تھا کہ وہ صرف کتاب نہیں ، بلکہ کتاب کے ساتھ علم پڑھایا کرتے تھے۔حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے ہم نے جو کتابیں پڑھیں ، ان میں ان کا بھی یہی طریقہ دیکھا ، اور اُس پر خود بھی عمل کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اس کے لئے صرف زیرِ درس کتاب کے بجائے اُس علم کی دوسری کتابوں سے بھی مدد لینی پڑتی تھی ۔
تفسیر کی تدریس
دارالعلوم میںتیسرے درجے سے ہر سال ترجمۂ قرآن کریم کا ایک سبق ہوتا تھا ۔اُس کے تمام حصے مختلف سالوں میں پڑھانے کی نوبت آئی ، اور تفسیر جلالین بھی پڑھائی ، لیکن مجھے یہ احساس تھا کہ تفسیر قرآن کریم کا کوئی زیادہ معیاری درس بھی ہونا چاہئے ۔ اس کے لئے میں نے حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ سے یہ درخواست کی کہ دارالعلوم میں دورۂ حدیث کے طرزپر دورۂ تفسیر بھی شروع کیا جائے ، اور اُس کے لئے یہ تجویز دی کہ تفسیر کی کوئی مفصل کتاب پڑھانا تو ایک سال میں ممکن نہیں ہے لیکن یہ کیا جاسکتا ہے کہ جس طرح دورۂ حدیث میں استاذ اور طالب علم کے سامنے متن حدیث کی کوئی کتاب ہوتی ہے ، اور استاذ اُس کی مختلف شروح کا مطالعہ کرکے اہم مباحث کا خلاصہ تقریر کی صورت میں بیان کرتا ہے ، اسی طرح متن قرآن کریم طلبہ اور اساتذہ کے سامنے ہو، اور استاذ مختلف تفاسیر کا خود مطالعہ کرکے اہم تفسیری مباحث تقریر کی صورت میں بیان کرے ۔حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ نے اس تجویز کو پسند فرمایا ، اور قرآن کریم کے دس دس پارے تین مختلف اساتذہ پر تقسیم کرکے انہیں اسی طرح پڑھانے کا حکم دیا ۔ میرے پاس سورۂ شعراء سے آخر تک کا حصہ آیا، اور میں نے اس کو بڑی دلچسپی سے اس طرح پڑھایا کہ اہم تفاسیر، تفسیر ابن کثیر ، تفسیر مظہری ، تفسیر قرطبی اور بالخصوص امام رازی رحمۃ اﷲعلیہ کی تفسیر کبیر کا مطالعہ کرکے اہم تفسیری مباحث کا خلاصہ طلبہ کے سامنے پیش کرتا تھا۔ اس دوران تفسیر کبیر کا تقریباً باستیعاب مطالعہ کرنے کا موقع ملا ، اور اندازہ ہوا کہ اُس کے بارے میں جو کسی نے یہ تبصرہ کیا ہے کہ: "فیہ کلّ شیء إلاّ التّفسیر” (یعنی اس میں تفسیر کے سوا سب کچھ ہے )وہ اس تفسیر پر کتنا بڑا ظلم ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ امام رازی رحمۃ اﷲعلیہ نے جس انضباط کے ساتھ تفسیری مسائل کو مرتب انداز میں پیش کیا ہے ، اس کی کوئی نظیر کسی اور تفسیر میں موجود نہیں ہے ۔ یہ درست ہے کہ انہوں نے کلامی مسائل کو زیادہ شرح وبسط کے ساتھ بیان فرمایا ہے ، لیکن یہ سب کچھ وہ تفسیر کی وضاحت کے بعد کرتے ہیں اوران کے زمانے میں اس کی ضرورت بھی تھی ، لیکن اس کی وجہ سے ان کی تفسیری قدروقیمت کو کسی طرح کم نہیں کیا جاسکتا ۔ خاص طورپر نظمِ قرآن کریم اور آیات کریمہ کے باہمی ربط پر ان کا کلام عام طورسے بڑا اطمینان بخش ہوتا ہے ۔ بہر حال! اُس سال تفسیر کے اس درس سے مجھے بڑا فائدہ ہوا ۔ بعض طلبہ نے میری یہ تقریر ضبط بھی کی ۔ خاص طورپر مولانا محمد اسحاق جہلمی نے ( جو اس وقت دارالعلوم میں دورۂ حدیث کے استاذ ہیں )اُسے بڑے اہتمام سے ضبط کیا ۔
حدیث کی تدریس
اس طرح ہوتے ہوتے ہماری تدریس مشکوۃ شریف تک پہنچ گئی ۔اور اس کے بعد دورۂ حدیث کا بھی کوئی سبق ملنے لگا ۔جہاں تک یاد ہے ، سب سے پہلے ابن ماجہ کا درس میرے سپرد ہوا ۔اُس وقت ادارہ تحقیقات اسلامی کے سربراہ ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب تھے ، اور ان کے منفرد نظریات کا بڑا شورتھا۔ "سنت” کے بارے میں ان کے کچھ عجیب وغریب نظریات تھے جن کا آخری نتیجہ احادیث پر عدم اعتماد کی صورت میں نکلتا تھا۔ میں نے ابن ماجہ کا سبق شروع کرنے سے پہلے ایک مفصل مقدمۃ العلم طلبہ کے سامنے بیان کیا جس میں علم حدیث کی بنیادی معلومات کے ساتھ ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب کے نظریہ سنتِ جاریہ پر تفصیل سے گفتگو کی ، اور اُسے منضبط بھی کرلیا ۔ یہ بحث اب میرے اردو مقالات میں شائع ہورہی ہے۔ اس کے بعدمختلف سالوں میں سنن نسائی، طحاوی اور شمائل ترمذی پڑھانے کی نوبت آئی۔اسی دوران موطأ امام مالک ؒ کا درس میرے حصے میں آیا ۔ مجھے اُس وقت یہ احساس ہوا کہ چار امہات کتب (بخاری، ترمذی، مسلم اور ابوداود) کے سوا باقی تمام کتابوں میں جو جزوی طورپر پڑھائی جاتی ہیں، کتاب الطہارۃ اور کتاب الصلوۃ ہی کا تکرار ہوتا رہتا ہے ۔ اس لئے جب موطأامام مالک ؒ مجھے پڑھانے کو ملی ،تو میں نے سوچاکہ اسے ابتدا سے پڑھانے کے بجائے کتاب البیوع سے پڑھانا میرے اور طلبہ کے لئے زیادہ مفید ہوگا ۔ چنانچہ میں نے اس کی "کتاب البیوع”شروع کرادی ۔ اس وقت مجھے اس کی مشکلات کا اندازہ نہیں تھا لیکن جوں جوں درس آگے بڑھا ، اس کی مشکلات کااندازہ ہوا ، اور بعض مقامات پر تو دانتوں پسینہ آگیا ۔درحقیقت امام مالک رحمۃ اﷲعلیہ کی فقہی اصطلاحات ان کی اپنی خصوصیت ہیں ، اور بعض اوقات ان کو سمجھنے کے لئے مطالعے میں کئی کئی گھنٹے صرف ہوجاتے تھے ، اور موطأکی جتنی شروح مہیا تھیں ، ان سب کی طرف رجوع کرنا پڑتا تھا۔لیکن اس کا فائدہ مجھے یہ ہوا کہ مالکی فقہ کا اسلوب کچھ نہ کچھ دسترس میں آگیا۔
ہمارے دورۂ حدیث میں پڑھنے کے وقت سے صحیح بخاری ؒ کا درس حضرت مولانامفتی رشید احمد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ ہی دیا کرتے تھے ۔ اور ترمذی کا درس حضرت مولانا سلیم اﷲخان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس تھا۔ یہ دونوں بزرگ یکے بعد دیگرے دارالعلوم سے چلے گئے ، تو صحیح بخاریؒ کا درس حضرت والد صاحب قدس سرہ نے اپنے ذمے لے لیا ، اور جامع ترمذی حضرت مولانا سحبان محمود صاحب رحمۃ اﷲعلیہ کی طرف منتقل ہوگئی۔ حضرت والد صاحب رحمۃ اﷲعلیہ شروع میں ہمارے لسبیلہ ہاؤس کے مکان ہی میں مقیم تھے ، اور ہفتے میں دو چار مرتبہ دارالعلوم شرافی تشریف لاتے تھے ، لیکن جیساکہ پہلے لکھ چکا ہوں ،۴ اپریل ۱۹۶۳ ؁ ء مطابق ۹ ذیقعدہ ۱۳۸۲ ؁ ھ سے انہوں نے اپنے شہر کے کاموں کو سمیٹ کرصحیح بخاری ؒ کے درس کی خاطر دارالعلوم ہی میں رہائش کا فیصلہ فرمالیا تھا ۔ لسبیلہ کے مکان میں ہمارے دونوں بڑے بھائی جناب محمد رضی عثمانی صاحب (رحمہ اﷲتعالیٰ اور جناب محمد ولی رازی صاحب مد ظلہم مقیم رہے ) والدین کے دارالعلوم میں منتقل ہونے کی وجہ سے ہمیں بھی یہ سہولت ہوگئی تھی کہ ابتک ہم والدین سے دور دارالعلوم میں قیام پر مجبور تھے ۔ اب الحمد ﷲ والدین کے سائے میں گھر کی سہولتیں میسر آگئیں ۔ اس کے علاوہ سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ حضرت والد صاحب قدس سرہ کی ہمہ وقت صحبت اور خد مت سے جو محرومی تھی ، وہ دور ہوئی ، اور اب حضرتؒ کی براہ راست تربیت میسر آگئی ، اور ان کے کاموں کو بھی سمجھنے کا موقع ملا۔
لیکن حضرت والد صاحب قدس سرہ کی مصروفیات اتنی مختلف انداز کی تھیں کہ اس کے لئے آپ کو لمبے لمبے سفر بھی کرنے پڑتے تھے ، اور بکثرت شہر کی آمدورفت بھی رکھنی پڑتی تھی ، اس لئے آخر کار صحیح بخاریؒ کا درس نبھانا آپ کے لئے مشکل ہوگیا ، اور اب آپ نے یہ درس حضرت مولانا سحبان محمود صاحب ؒ کی طرف منتقل کرنے کا فیصلہ فرمالیا جو اُس وقت تک جامع ترمذیؒ پڑھایا کرتے تھے ۔چونکہ حضرت مولانا سحبان محمود صاحب رحمۃ اﷲعلیہ کے سپرد دارالعلوم کی نظامت تعلیمات بھی تھی ، اس لئے وہ صحیح بخاریؒ کے درس کے ساتھ ترمذی کا درس جاری نہیں رکھ سکتے تھے ۔چنانچہ سوال پیدا ہوا کہ ترمذی کا درس جو دورۂ حدیث میں بڑا اہم سمجھا جاتا ہے ، وہ کس کے سپرد کیا جائے ؟ اس موقع پر حضرت مولانا سحبان محمود صاحب رحمۃ اﷲعلیہ نے حضرت والد صاحب قدس سرہ کو تجویز دی کہ اب یہ سبق تقی کو منتقل کر دیا جائے ۔ مجھے اپنی بے بضاعتی اور نااہلی کا احساس تھا ، اس لئے شروع میں تأمل ہوا ، لیکن بڑوں کے حکم کی وجہ سے میں نے یہ سوچا کہ جب اپنی طلب کے بغیر بڑے کوئی کام سونپ دیں تو اﷲتبارک وتعالیٰ کی طرف سے ان شاء اﷲتوفیق بھی ملے گی ۔ چنانچہ میں نے اﷲ تعالیٰ کا نام لیکر یہ درس شروع کرادیا ، اور پھر تقریباً بیس سال یہ سبق میرے پاس رہا۔شروع میں اس درس کے مطالعے میں مجھے تقریباً تین چار گھنٹے لگ جاتے تھے ۔میرا حافظہ کمزور تھا ، اس لئے میں مطالعے کے دوران یادداشتیں تیار کرتا ، اور درس سے پہلے ان پر ایک نظر ڈال لیتا تھا ۔درس کی تقریر میں نے پہلے سال املاء کرائی ، لیکن بعد میں املاء کا طریقہ چھوڑدیا ، اور ایران کے ایک طالب علم مولوی عطاء اﷲ صاحب نے جو تقریر ضبط کی تھی ، وہ کئی سال میں نے اپنے سامنے رکھی ، اور ہر سال اُس میں حذف واضافہ کرتا رہا ۔حاشیے پر اکثر اپنے مآخذ کے حوالے بھی لکھتا رہا ۔یہاں تک کہ جس سال میرے بھانجے مولانا رشید اشرف صاحب سلمہ(۱) (جو ماشاء اﷲاب خود جامع ترمذی کے مقبول استاذ ہیں )دورۂ حدیث سے فارغ ہوئے،اور انہوں نے میری تقریر ترمذی کو تحقیق وتخریج کے ساتھ مرتب کرنے کاارادہ ظاہر کیا، تومیں نے اپنی یادداشتیں بھی انہیں دیدیں ، اور پھر انہوں نے ماشاء اﷲاتنی قابلیت اور تحقیق ونکتہ رسی کے ساتھ اُسے مرتب کیا اور اُس میں اپنی طرف سے گراں قدر اضافے بھی کئے کہ وہ بفضلہ تعالیٰ "درس ترمذی” کے نام سے شائع ہوئی ،اورترمذی کے اساتذہ اور طلبہ کے لئے ایک مأخذ بن گئی۔افسوس ہے کہ مولانا رشید اشرف صاحب سلمہ کے سر بہت سی انتظامی ذمہ داریاں آگئیں ، جن کی وجہ سے وہ اپنا کام تین جلدوں میں کتاب الطلاق تک پہنچا سکے ۔ادھر طلبہ کااصرار تھا کہ باقی ماندہ تقریر بھی جلدی طبع ہو۔ ان کی ضرورت کومد نظر رکھتے ہوئے مولانا عبداﷲمیمن صاحب سلمہ نے (جو اس وقت دارالعلوم کی شاخ بیت المکرم کے ناظم ہیں ) باقی ابواب کی تقریر ٹیپ ریکارڈر کی مدد سے محفوظ کرلی،اوریہ خیال ظاہر کیا کہ اُسے جوں کی توں کسی مزید تحقیق وتخریج کے بغیر شائع کردیا جائے، اور مولانا رشید اشرف صاحب کو جب موقع ملے ، وہ ان ابواب پر بھی اپنا تحقیقی کام جاری رکھیں ۔ میں نے اس تجویز کو اس طرح منظور کرلیا کہ یہ حصہ” درس ترمذی” کے بجائے "تقریر ترمذی” کے نام سے شائع ہوجائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔کتاب الطلاق سے آگے کتاب البیوع وغیرہ کے ابواب تقریر ترمذی کے نام سے شائع ہوگئے جو الحمد ﷲطلبہ کی ضرورت پوری کر رہے ہیں ، لیکن ان پر ابھی اُس طرح کا کام باقی تھا جیسا مولانا رشید اشرف صاحب سلمہ نے "درس ترمذی” پرکیا تھا ۔چنانچہ دارالعلوم کے ایک اور فاضل ومحقق مولانا ابوبکر احسان صاحب سلمہ نے جو مردان میں ایک بڑے مدرسے اور مرکز تحقیق کے سربراہ ہیں ، بذات خودبڑی قابلیت اور تحقیق سے یہ کام شروع کیا ، اور اب وہ مکمل ہوکر شائع ہونے والا ہے ۔
تقریباً بیس سال میں جامع ترمذی ہی پڑھاتا رہا اور صحیح بخاری ؒہمارے محبوب استاذ حضرت مولانا سحبان محمود صاحب رحمۃ اﷲعلیہ کے پاس ہوتی تھی۔
۲۰۰۰؁ ء میں عید الاضحی کے بعد حضرت مولانا مجاہدالاسلام قاسمی رحمۃ اﷲعلیہ کی دعوت پر ان کے فقہی مذاکرے میں شرکت کے لئے میں ہندوستان روانہ ہوا ۔مذاکرہ بہار کے دارالحکومت پٹنہ میں ہونا تھا ، جس کے بعد میراارادہ لکھنو، دیوبند ،تھانہ بھون وغیرہ حاضر ہونے کا تھا ، اور پھر دہلی سے میری سیٹ لندن کے لئے بک تھی کیونکہ مجھے وہاں ایک اجتماع میں شرکت کرنی تھی ۔ میں دہلی سے ہوتا ہوا پٹنہ پہنچا ، اور مذاکرے میں شریک ہوا ، لیکن دوسرے ہی دن مجھے وہاں بڑے بھائی حضرت مولانا مفتی محمدرفیع عثمانی صاحب مد ظلہم کا فون پہنچا، اور انہوں نے یہ جانکاہ خبر دی کہ حضرت مولانا سحبان محمود صاحب قدس سرہ وفات پاگئے ہیں۔اس صدمے نے مجھے ہلا دیا ۔ اور میں اپنا باقی تمام سفر ملتوی کرکے افتاں خیزاں واپس کراچی پہنچا ۔ حضرتؒ کی نہ آخری زیارت مقدر میں تھی ،اور نہ جنازے اور تدفین میں شرکت۔پورادارالعلوم سوگوار تھا ۔حضرتؒ کی وفات سے کئی جہتوں میں زبردست خلا پیدا ہوا ، اور خاص طورسے صحیح بخاریؒ کے درس کا معاملہ بہت اہم تھا ۔حضرت بھائی صاحب دامت برکاتہم نے حکم فرمایا کہ اب صحیح بخاری ؒ کا درس تمہیں دینا ہوگا ۔ دوسرے اساتذہ بھی اسی تجویزپر متفق تھے۔ میں ایک عالمِ حیرت میں تھا ۔کہاں صحیح بخاریؒ اور کہاں میں؟ اس تجویزپر عمل کرناایک جسارت معلوم ہوتی تھی ۔لیکن بڑوں کا حکم تھا ، اس لئے اپنی نااہلی کے احساس کے باوجود اﷲتعالیٰ کے بھروسے پر یہ ذمہ داری لے لی ، اوراس سال میں نے اپنی دوسری مصروفیات اور اسفار کو کم کرکے زیادہ توجہ صحیح بخاریؒ کے درس کو دی ، اور اُس کے لئے تین چار گھنٹے روزانہ مطالعہ کا معمول بنایا جس میں بخاری کی بیشتر شروح مطالعے میں رہتیں ، لیکن متعدد تجربات کے بعد میں نے مطالعے کی اصل بنیاد حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب رحمۃ اﷲعلیہ کی "لامع الدراری” اور کتاب الصلوۃ کی ابتدا تک حضرت علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی رحمۃ اﷲعلیہ کی تقریر بخاری، یعنی "فضل الباری” کوبنایا۔
چند سال صحیح بخاریؒ کی دونوں جلدیں پڑھانے کی نوبت آئی۔اس دوران مولانا انور حسین صاحب نے جو چند سال پہلے دارالعلوم سے فارغ ہوئے تھے، میری تقریر بخاری کو ٹیپ کرکے اُسے قلم بند کرنا بھی شروع کردیا جو بعد میں "انعام الباری” کے نام سے انہوں نے شائع کی ، اور اب تک اُس کی گیارہ جلدیں شائع ہوئی ہیں۔ چند سال بعد میں نے بخاری شریف کی جلد ثانی اپنے لائق وفائق بھتیجے مولانا محمود اشرف عثمانی صاحب کے سپرد کردی جسے انہوں نے بڑی قابلیت اور افادیت کے ساتھ پڑھایا ۔پھر انہیں دل کا شدیددورہ ہوا ، جس کے نتیجے میں ایک سال وہ تدریس سے بالکل قاصر رہے ، تو دوبارہ دونوں جلدوں کی خدمت کی توفیق ہوئی۔پھر چند سال جلد ثانی کا بیشتر حصہ انہوں نے پڑھایا ، اور کچھ حصہ میں نے ۔الحمد ﷲ اب کئی سال سے ایک بار پھر جلدثانی مکمل طورپر وہی پڑھارہے ہیں۔ اﷲتعالیٰ ان کی صحت عمر اور علم وعمل میں برکت عطا فرمائیں ، اور ان کے فیوض کو جاری وساری رکھیں ۔آمین۔

(ماہنامہ البلاغ :رجب المرجب۱۴۴۱ھ)

جاری ہے ….

٭٭٭٭٭٭٭٭٭