حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی

یادیں

(انچاسویں قسط)

چند متفرق واقعات
میں سپریم کورٹ سے تقریباً سترہ سال وابستہ رہا۔اس دوران بہت سے سبق آموز یا دلچسپ واقعات پیش آئے۔ان میں سے چندواقعے ذکرکرنے کو دل چاہ رہا ہے۔
۱۔۔۔۔سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے ہمیں معمول کے مطابق جو پروٹوکول دیا جاتا تھا، مجھے اپنی سادگی پسند طبیعت کی وجہ سے اس کے بعض پہلو گراں معلوم ہوتے تھے، لیکن عقلی طورپر میں اس کی ضرورت کا قائل تھا، کیونکہ وہ عدالت عظمیٰ کے وقار کا تقاضا تھا۔مثلاً جب ہماری گاڑی جس پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہراتا تھا،پولیس کے کسی اہل کار کے سامنے آتی، تو وہ اٹینشن کی پوزیشن میں آکر سلامی دیا کرتا تھا۔
ایک مرتبہ ہماری بنچ کا اجلاس کراچی کے ہائی کورٹ کی عمارت میں ہورہا تھا۔عدالتی کام سے فارغ ہوکر جب میں اپنی جھنڈے والی کار میں بیٹھ کر ہائی کورٹ سے روانہ ہوا، تو پولیس کے اہل کار حسب معمول سلامی دیتے رہے۔ ہائی کورٹ سے نکلنے کے بعد میرے ڈرائیور نے بتایا کہ اُس کے گھر میں کوئی فوری ضرورت پیش آگئی ہے، اور وہ مجھے گھر پہنچاکر واپس شہر آئے گا۔ میں نے سوچا کہ اس بیچارے کو یہ ناگہانی ضرورت درپیش ہے، اور اگر یہ مجھے دارالعلوم پہنچاکر واپس بس میں آئے گا، تو بہت دیر ہوجائے گی، اس لئے میں نے اُس سے کہا کہ وہ یہیں سے اپنے گھر چلا جائے، اور گاڑی پر سے جھنڈا اتارکر مجھے گاڑی دیدے، میں خود کار چلاکر دارالعلوم چلا جاؤں گا۔ ڈرائیور شروع میں اس پر تیار نہیں تھا، لیکن میں نے اصرار کرکے اُسے آمادہ کرلیا۔
اس نے گاڑی سے جھنڈا اتارا، اور میں نے ڈرائیور کی سیٹ پر آکر گاڑی خود چلانی شروع کردی۔ چونکہ مدت سے خود گاڑی چلانے کی نوبت نہیں آئی تھی، اس لئے تھوڑا تکلف ضرور ہوا، لیکن پھر روانی آگئی۔ البتہ اب یہ یاد نہیں رہا تھا کہ کونسی سڑک یکطرفہ (ون وے) ہے، اور کونسی دورویہ۔ چنانچہ میں نے صدر کے علاقے میں گاڑی ایک ایسی سڑک پر موڑدی جو ون وے تھی، اور وہاں موڑنا ٹریفک کے قاعدے کے خلاف تھا، ابھی میں اس سڑک پر تھوڑا ہی سا مڑا تھا کہ مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا، اور میں اس غلطی کی تلافی کی فکر کر ہی رہا تھا کہ ایک ٹریفک کانسٹبل نے مجھے روک کر بڑے غصیلے لہجے میں کہا: ” نظر نہیں آتا کہ یہ سڑک ون وے ہے ” میں نے گاڑی روکی، اور اُس سے کہا: ” واقعی مجھ سے غلطی ہوگئی ہے، مجھے یاد نہیں رہا تھا کہ یہ سڑک ون وے ہے۔” اُس نے پھر سخت لہجے میں کہا: ” یاد نہیں رہا تھا، تو یہ بورڈ نظر نہیں آرہا؟” میں نے پھر معذرت کی، لیکن اُس نے میرا چالان لکھنا شروع کردیا۔ میں نے کہا کہ ”واقعی مجھ سے غلطی ہوئی ہے، آپ بیشک چالان کردیں ”
اتنے میں کوئی شخص جو مجھے پہچانتا تھا، وہاں مجھے دیکھ کر رکا، اور اُس نے پولیس والے سے کہا کہ ”یہ سپریم کورٹ کے جج ہیں، تم ان سے کیوں الجھ رہے ہو؟” اسے جب یہ پتہ چلا کہ میں سپریم کورٹ کا جج ہوں،تو اس کی حالت غیر ہوگئی، وہ بڑی لجاجت کے ساتھ میرے پاس آیا، اور معافی مانگنے لگا۔ میں نے کہا کہ ”تم نے اپنا فرض ادا کیا ہے، اس لئے تم نے کوئی غلطی نہیں کی، البتہ جب بھی ایسا واقعہ پیش آئے، تو اپنا لہجہ سخت نہ کیا کرو۔چالان کرنا تمہاری ذمہ داری ہے، لیکن چالان اخلاق کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔” اس کے بعد میں نے اُسے چالان لکھنے کے لئے کہا، تو وہ ہاتھ جوڑکر کھڑا ہوگیا کہ سر! میں یہ گستاخی نہیں کرسکتا ” میں نے کہا:” یہ گستاخی نہیں ہے، تمہارا فرض ہے کہ چالان کرو۔”آخر کار میں نے اُسے چالان کرنے پر مجبور کرہی لیا۔
لیکن کسی بڑے عہدے پر پہنچنے کے بعد اس قسم کے واقعات سے اللہ تعالیٰ انسان کو اس کی حقیقت یا د دلاتے رہتے ہیں۔
۲۔۔۔سپریم کورٹ کی رکنیت کے دوران میرا پاسپورٹ نیلے رنگ کا آفیشل پاسپورٹ تھا ۔اس قسم کے پاسپورٹ پر بہت سی سہولتیں حاصل ہوتی تھیں، مثلاً یہ کہ بہت سے ملکوں میں جانے کے لئے ویزا کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔لیکن کچھ دشواری بھی تھی، اور وہ یہ کہ جب مجھے ملک سے باہر کاکوئی سفر کرنا ہوتا، تو صدر مملکت یا وزیر اعظم سے NOC درکار ہوتا تھا،جو ہمیشہ مل جاتا تھا، لیکن اُسے حاصل کرنے میں کافی وقت لگ جاتا تھا، اور بعض اوقات پرواز سے کچھ ہی پہلے اس کی کارروائی مکمل ہوتی تھی۔
جب پیپلز پارٹی کی حکومت آئی، تو ان کے دورحکومت میں پہلی بار مجھے جو سفر پیش آیا، وہ مصرف البحرین الاسلامی کے شریعہ بورڈ میں شرکت کے لئے بحرین کا سفر تھا۔ سپریم کورٹ کی طرف سے اس سفر کے لئے NOC کے لئے فائل وزیر اعظم کے پاس بھیجی گئی، تو اس کے جواب میں خاصی دیر لگی، اور جب عین وقت پر اس کا جواب آیا، تو اس میں اس قسم کی عبارت محترمہ کے اپنے قلم سے لکھی ہوئی تھی:
will accompany his lordship”‘Permitted, and Mr…. MNAـ”
یعنی: ”اجازت ہے، اور مسٹر۔۔۔رکن قومی اسمبلی جناب والا کے ساتھ جائیںگے۔”
مسٹر کے ساتھ اندرون سندھ کے ایک رکن اسمبلی کا نام لکھا ہوا تھا۔ میں یہ عبارت دیکھ کر حیران رہ گیا، کیونکہ میں جس اجلاس میں شرکت کے لئے جارہا تھا، وہ ایک پرائیویٹ ادارے کی اندرونی میٹنگ تھی، جو صرف اس کے ارکان کی حد تک محدود تھی، اور اس میں کسی اور کی شرکت کے کوئی معنیٰ نہیں تھے، اور میں اُن صاحب کو جانتا بھی نہیں تھا جن کو میرے ساتھ بھیجنے کا حکم دیا گیا تھا۔میں حیران تھا کہ انہیں اس سفر میں میرے ساتھ کیوں نتھی کیا گیا ہے، اور اس کا مقصد کیا ہے؟ یہ بھی واضح نہیں تھا کہ ان کا سفر خرچ کون دے گا؟ اور وہ میرے ساتھ سفر کریںگے ، یا علیحدہ جائیں گے، اور ان کا قیام کہاں اور کس کے خرچ پر ہوگا؟ یہاں تک کہ میرے سفر کا وقت آگیا، اور میں بحرین پہنچ گیا۔ وہاں میرا قیام مصرف البحرین کی طرف سے ریجنسی انٹر کانٹی ننٹل میں تھا۔
پھر معلوم ہوا کہ ان کے بارے میں پاکستانی سفارت خانے کو ہدایت تھی کہ انہیں اسی ہوٹل میں ٹھہرایا جائے جس میں میں مقیم ہوں، لیکن سفارت خانے کے پاس اس ہوٹل میں ٹھہرانے کے لئے پیسوں کا انتظام نہیں تھا، اس لئے انہوں نے ”مصرف البحرین الاسلامی ” کے چیف ایگزیٹو سے رابطہ کیا۔انہوں نے بتایا کہ میٹنگ میں شرکت سے تو ہم معذرت خواہ ہیں، البتہ چونکہ یہ صاحب وزیر اعظم پاکستان کی ہدایت پر آگئے ہیں، اس لئے ہم ہوٹل میں ان کی رہائش کا انتظام کردیتے ہیں۔چنانچہ جب میں میٹنگ میں پہنچا، تو وہاں ان صاحب کی اچانک تشریف آوری کا زیر لب مسکراہٹ کے ساتھ ذکر ہورہا تھا، اور میں شرمندہ ہورہا تھا کہ اس واقعے کی کیا تاویل کروں؟
اگلے دن میرے پاس اُن صاحب کا فون آیا جو میرے ساتھ بھیجے گئے تھے۔ وہ بھی اسی ہوٹل میں مقیم تھے۔ مجھ سے فرمانے لگے کہ ”میں بحرین پہنچ گیا ہوں۔” میں نے عرض کیا کہ ”آپ کی کس سلسلے میں تشریف آوری ہوئی؟” فرمانے لگے کہ مجھے آپ کے ساتھ میٹنگ میں شریک ہونے کے لئے محترمہ نے بھیجا ہے۔” میں نے عرض کیا کہ یہ تو ایک پرائیویٹ ادارے کی میٹنگ ہے جس میں صرف ارکان ہی شریک ہوسکتے ہیں، اور اس میں سب علماء ہیں، اورگفتگو بھی عربی میں ہوگی۔اس لئے اس میں آپ کی شرکت کے کوئی معنیٰ نہیں ہیں۔ میں نہیں سمجھ سکا کہ آپ کو اس موقع پر کیوں بھیجا گیا ہے۔اس پر وہ فرمانے لگے کہ ”اچھا! شاید مجھے محترمہ نے سیرو تفریح کے لئے بھیج دیا ہے۔” پھر وہ مجھ سے میرے کمرے میں آکر ملے، تب اندازہ ہوا کہ یہ درحقیقت اپنی پارٹی کے ایک رکن اسمبلی کو نوازنے کا ایک انداز تھا، ان کو سرکاری خرچ پر بحرین بھیج دیا گیا، لیکن ہوٹل میں قیام کے لئے ایک غیر ملکی تجارتی ادارے کا احسان لینا پڑا،جس کی وجہ سے پاکستانی سفارت خانے کو بھی ایک دوسرے ملک میں شرمندگی اٹھانی پڑی، اور مجھے بھی۔ وہ چند روز بحرین کی سیر کرکے واپس تشریف لے گئے، اور حیرت، افسوس اور ندامت کے جذبات کے ساتھ یہ واقعہ مجھے یاد رہ گیا۔
۳۔۔۔ مختلف مقدمات کے دوران دوسرے جج صاحبان سے مشورے بھی ہوتے رہتے تھے۔ ان مشوروں میں بہت سے قانونی نکات بھی زیر بحث آتے تھے۔اس موقع پر میں ان کے بارے میں اپنی رائے بھی پیش کردیا کرتا تھا۔ ایک ایسے ہی موقع پر جناب جسٹس افضل ظلہ صاحب نے میری ایک بات سُن کر دوسرے جج صاحبان سے میرے بارے میں کہا کہ: ” یہ قانونی نکات کو بہت جلدی پکڑ تے ہیں۔ اگریہ وکالت کرتے، تو بہترین وکیل ہوتے۔” جسٹس نسیم حسن شاہ نے کہا کہ ”یہ ایل ایل بی میں پوزیشن ہولڈر رہے ہیں ”۔ اس پر میں نے عرض کیا کہ ”اگر آپ مجھ میں قانونی نکات کی سمجھ محسوس فرماتے ہیں، تو اس کی وجہ میرا ایل ایل بی ہونا نہیں، بلکہ وجہ یہ ہے کہ الحمد للہ! میں نے دینی مدرسے میں فقہ اور اصول فقہ کو اچھی طرح سمجھ کر پڑھنے پڑھانے کی کو شش کی ہے۔ ”پھر میں نے انہیں بتایا کہ فقہ اور اصول فقہ میں کس طرح باریک قسم کی بحثیں ہوتی ہیں، اور اگر انسان انہیں سمجھ کر پڑھ لے، تو اس میں قانونی تجزیہ کی صلاحیت خود بخود پیدا ہوجاتی ہے۔
مرزائی مقدمے کے لئے جنوبی افریقہ کا سفر
اسی زمانے میں جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن میں یہ واقعہ پیش آیا کہ وہاں لاہوری مرزائیوں کی ایک انجمن نے سپریم کورٹ میں مسلمانوں کے خلاف ایک درخواست دائر کی ہے کہ وہ ان کی میتیں اپنے قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت نہیں دیتے، اس لئے ان کے خلاف عبوری حکم امتناعی حاصل کرلیا۔ مجھے اپنے دوست جناب ابوبکر وراچھیا کا تار موصول ہوا کہ سپریم کورٹ میں اس حکم امتناعی کی توثیق کے لئے ۶؍ اگست ۱۹۸۲؁ ء کی تاریخ مقرر ہوئی ہے۔(بعد میں اس تاریخ میں توسیع کرکے ۹؍ ستمبر مقرر کردی گئی تھی)اس میں مسلمانوں کی پیروی کے لئے آپ کی یہاں موجودگی ضروری ہے،مسلمانوں کی جو تنظیمیں جنوبی افریقہ میں قائم تھیں، انہوں نے حکومت پاکستان اور رابط ٔ عالم اسلامی سے بھی اس مقدمے میں مدد کرنے کی درخواست کی۔ مجلس تحفظ ختم نبوت نے بھی اس موقع پر مسلمانوں کی مدد کاارادہ کیا، اور اس طرح ایک وفدجنوبی افریقہ جانے کے لئے تیار ہوگیا جس میں میں تو اپنی نجی حیثیت میں گیا تھا، مجلس تحفظ ختم نبوت کی طرف سے مولانا عبدالرحیم اشعر ؒ، مفتی زین العابدین صاحبؒ اور حاجی غیاث محمد صاحب (سابق اٹارنی جنرل پاکستان) کو بھیجا گیا، اور رابطۂ عالم اسلامی کی طرف سے جناب مولانا ظفراحمد انصاری ؒ اور جناب جسٹس محمد افضل چیمہ ؒ نامزد کئے گئے۔ چنانچہ ہم سب ایک ساتھ۵؍ ستمبر ۱۹۸۲ ؁ء کو اس سفر پر گئے، اور آخر کار مرزائیوں نے جو حکم امتناعی حاصل کیا تھا، وہ عدالت نے منسوخ کردیا۔اور اس حد تک یہ سفر کامیاب رہا۔ اس سفر اور مقدمے کی روداد میری کتاب ”جہان دیدہ ” میں جنوبی افریقہ کے دوسرے سفر کی تفصیل میں موجود ہے۔
۱۴۰۲ ؁ ھ کا حج
مقدمے سے فراغت ہوئی، تو یہ ذوالحجہ کی ابتدائی تاریخیں تھیں۔ میں نے ارادہ کیا کہ یہاں سے واپسی پر حج کی سعادت حاصل کروں، شروع میں میرا خیال یہ تھا کہ یہ سفر میں تنہا کروں، تاکہ یکسوئی کے ساتھ یہ عبادت انجام پاسکے۔ لیکن جب جدہ کے لئے روانہ ہونے لگے، تو مفتی زین العابدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ سے فرمایا کہ مجلس تحفظ ختم نبوت کے مولانا عبدالرحیم اشعر صاحبؒ نے بھی حج کا ارادہ کرلیا ہے، اور وہ پہلی بار حجاز مقدس جائیںگے، وہ بلڈ پریشر کے مریض ہیں، اس لئے تنہا ان کے لئے سفر مشکل ہوگا، تم انہیں اپنے ساتھ حج کرادو۔ چنانچہ مولانا رحمۃ اللہ علیہ میرے ہم سفر بن گئے۔ ہم جدہ سے پہلے مدینہ منورہ حاضر ہوئے۔ حضرت قاری بشیر صاحب نے باب السلام کے قریب حرم نبوی کے جنوب میں ہماری رہائش کاانتظام فرمادیا تھا، اور بفضلہ تعالی وہاں چند روز بڑی عافیت وسعادت کے گذرے۔ ۷؍ ذوالحجہ کو وہاں سے علی الصباح مکہ مکرمہ جانے کا خیال تھا، تاکہ وہاں سے اگلے دن حج کے لئے روانہ ہوسکیں، لیکن مدینہ منورہ میں ہمارے ایک دوست نے بے انتہا اصرار کیا کہ انہیں بھی حج کو جانا ہے، سفر ان کے ساتھ ہو۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہم ان شاء اللہ ظہر کے بعد مدینہ منورہ سے روانہ ہوکر رات کو مکہ مکرمہ پہنچ جائیںگے۔ اُدھر میں نے اپنے مرحوم دوست جناب امتیاز صاحب ؒ کی معرفت جدہ کے جناب قادراللہ صدیقی صاحب مد ظلہم (۱) سے طے کرلیا تھا کہ وہ حج کے لئے ایک ویگن لیکر جاتے ہیں، وہ ۸؍ ذوالحجہ کو صبح آٹھ بجے مکہ مکرمہ آئیںگے، اور میں ان کے ساتھ مکہ مکرمہ سے منیٰ جاؤں گا۔ مدینہ منورہ کے وہ دوست جو مجھے مکہ مکرمہ لے جانے کے لئے مصر تھے، ان کی یقین دہانی پر میں نے الگ ٹیکسی کرنے کے بجائے ان کے ساتھ سفر کرنے کو منظور کرلیا۔ لیکن انہوں نے مدینہ منورہ سے روانگی میں تاخیر کردی، اور ہم عشاء کے بعد وہاں سے روانہ ہوسکے۔
اگرچہ دیر بہت ہوچکی تھی، لیکن پھر بھی خیال تھا کہ ان شاء اللہ آخر شب میں مکہ مکرمہ پہنچ جائیںگے۔ لیکن راستے میں ٹریفک کی کثرت کی وجہ سے گاڑی معمول سے زیادہ سست چلی، اور اس پر طرہ یہ ہوا کہ جب ہم رات دو بجے کے قریب عسفان پہنچے جہاں سے مکہ مکرمہ اور جدہ کا راستہ جدا ہوتا ہے، تو انہوں نے گاڑی مکہ مکرمہ کے بجائے جدہ کی طرف موڑلی۔ میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ مجھے جدہ سے کچھ سامان لینا ہے، اس لئے ہم پہلے جدہ جائیںگے، میرے لئے یہ بڑا تکلیف دہ انکشاف تھا، لیکن ان کی بات ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ آخر ہم پہلے جدہ گئے، وہاں سے انہوں نے سامان لیا، پھر مکہ مکرمہ کے لئے روانہ ہوئے، جب صبح ہونے میں تقریباً ایک گھنٹہ باقی تھا، تو انہوں نے گاڑی سڑک کے ایک طرف روک دی، اور فرمایا کہ مجھے سخت نیند آرہی ہے، اور ایسے میں گاڑی چلانا خطرناک ہے، لہٰذا تھوڑی دیر ہم یہاں سوئیںگے، یہ کہکر انہوں نے سڑک کے کنارے چٹائی بچھادی، اور ہمیں بھی سونے کی دعوت دی، اور چند ہی لمحوں میں خواب شیریں کے مزے لینے لگے۔
چونکہ صبح بالکل قریب تھی، اور ہمیں طواف قدوم کرکے آٹھ بجے منیٰ کے لئے روانہ ہونا تھا، اس لئے میں اس انتظار میں بیٹھا رہا کہ کسی طرح موصوف کی آنکھ کھلے، اور ہم روانہ ہوسکیں۔ اس موقع پر ماہر صاحب مرحوم کا یہ شعر صادق آرہا تھا کہ:
رہرو ہے کہ بیٹھا ہے، تو اب اٹھ نہیں سکتا
منزل ہے کہ جز زحمتِ یک گام نہیں ہے
اور کبھی حماسہ کے شاعر کا یہ شعر:
فبتّ أریہ عِرسَہُ و بنا تِہ
وبات یُرینی النّجم أین مخافقُہ
اللہ اللہ کرکے موصوف، اللہ تعالیٰ ان کو جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائیں، بیدار ہوئے، تو ہم آگے چلے۔ تھوڑی ہی دیر میں پولیس نے روک لیا کہ ویگن آگے نہیں جاسکتی۔ یہاں اُسے پارکنگ میں کھڑی کرکے بس میں جانا ہوگا۔ پارکنگ سے بسوں کا فاصلہ ایک کیلومیٹر سے کم نہ تھا، ہم بھاری سامان اٹھا کر کبھی ایک بس میں کبھی دوسری میں سوار ہونے کی کوشش کرتے، مگر مسافروں کی زیادتی کی وجہ سے وہ بھر جاتی تھی، آخر کار ایک بس کی چھت پر سامان رکھا، اور کھڑے ہونے کی جگہ مل گئی، اور بس رینگ رینگ کر روانہ ہوئی، مکہ مکرمہ قریب ہی تھا، ہم مکہ مکرمہ میں داخل ہوگئے، اور حرم سے فجر کی اذان کی آواز شروع ہوگئی، لیکن نہ بس سے اتر نے کا موقع تھا، نہ حرم تک پہنچنے کا امکان۔ آخر جب سورج طلوع ہونے کے قریب تھا، تو کسی طرح بس سے اترکر جلدی سے فجر کی نماز فٹ پاتھ پر پڑھی، اور دوبارہ سوار ہوئے۔ بس بدستور رینگتی، اور رک جاتی۔ یہاں تک کہ تقریباً ساڑھے سات بج گئے، جبکہ قادر اللہ صدیقی صاحب مدظلہم سے ساڑھے آٹھ بجے منیٰ روانگی کا وقت طے تھا، اس لئے میں نے آخر کار یہ فیصلہ کیا کہ راستے ہی میں اتر کر مدرسہ صولتیہ تک سامان لیکر پیدل جاؤں، اور مولانا عبدالرحیم اشعر صاحب ؒ کو بھی ساتھ رکھوں۔ چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا، اور آٹھ بجے کے قریب مدرسہ صولتیہ پہنچ کر سامان رکھوایا، اور مولانا عبدالرحیم اشعر صاحب ؒ کو ساتھ لیکر طواف قدوم کے لئے حرم روانہ ہوا۔
مولانا ؒ کا یہ پہلا سفر تھا، اس لئے مجھے اندیشہ تھا کہ اگر وہ ہجوم میں بچھڑ گئے، تو انہیں سخت دشواری ہوگی، اس لئے میں نے انہیں تاکید کی کہ طواف میں میرا ہاتھ نہ چھوڑیں۔ لیکن کسی درمیانی چکر میں ہجوم کا کچھ ایسا ریلہ آیا کہ وہ مجھ سے جدا ہوگئے، اور چاروں طرف نظر ڈالنے کے باوجود کہیں نظر نہ آئے۔ جوں توں کرکے طواف پورا کیا، اور پھر سارے حرم میں انہیں تلاش کرتا رہا، لیکن وہ نہ ملے۔ آخر یہ سوچ کر کہ شاید وہ مدرسہ صولتیہ خود پہنچ گئے ہوں، واپس مدرسہ پہنچا، لیکن وہ وہاں بھی نہیں تھے۔ ادھر بار بارصدیقی صاحب کا پیغام آرہا تھا کہ وہ شارع المنصور پر دوسرے ساتھیوں کے ساتھ ہمارے منتظر کھڑے ہیں، اور مجھے جلد ازجلد ان کے پاس پہنچنا چاہئے۔ میرے لئے یہ سخت گھڑی تھی۔ میں جانتا تھا کہ مولانا اشعر صاحب ؒ بلڈ پڑیشر کے مریض ہیں، ہجوم ان کے لئے شدید گھبراہٹ کا سبب ہوتا ہے ،اور وہ اگر تنہا رہ گئے، تو نا قابل برداشت تکلیف میں مبتلا ہوںگے۔ دوسری طرف میرے پاس منیٰ جانے اور حج کرنے کے لئے کوئی اور انتظام نہیں تھا،لیکن میں نے قادراللہ صدیقی صاحب کو پیغام بھیج دیا کہ وہ گیارہ بجے کے بعد میرے انتظار میں دوسرے رفقاء کو پابند نہ رکھیں، اگر میں گیارہ بجے تک نہ پہنچ سکا، تو وہ چلے جائیں، لیکن میں مولانا کے بغیر نہیں جاسکتا۔
جب گیارہ بجنے کا وقت قریب آیا، تو میں انہیں مزید تلاش کرنے کے لئے دوبارہ حرم جانے کیلئے نکلا، تو حضرت مولانا عاشق الہی صاحب بلندشہری رحمۃ اللہ علیہ اپنے رفقاء کے ساتھ منیٰ کے لئے نکل رہے تھے، انہوں نے پیشکش فرمائی کہ تم میرے ساتھ آجاؤ، لیکن میں نے مولاناؒ کے بغیر جانا گوارا نہ کیا، اور ان سے اپنا یہ عذر بیان کرنے کو تو کردیا، لیکن سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ان دونوں سے معذرت کے بعد حج کی صورت کیا ہوگی؟
ابھی میں دعا کرہی رہا تھا کہ اچانک اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے مولانا اشعر صاحب ؒ کسی طرح مدرسہ پہنچ گئے، اور انہیں دیکھ کر میری جان میں جان آئی۔ اگر چہ وقت گیارہ بجے سے زیادہ ہوچکا تھا، لیکن اُسی وقت قادراللہ صدیقی صاحب کا فون مولانا شمیم صاحب مہتمم مدرسہ صولتیہ رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آیا کہ وہ ابھی روانہ نہیں ہوئے،اور اب بھی اگر میں شارع منصور تک پہنچ جاؤں، تو ان کے ساتھ شامل ہوسکتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائیں جناب سعدی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو کہ وہ ہمیں اپنی گاڑی میں شارع منصور پہنچانے کے لئے تیار ہوگئے، اور ہم ٹریفک کے سیلاب سے گذرتے ہوئے کسی طر ح وہاں پہنچ گئے، اور ہمارے پہنچتے ہی ویگن منیٰ روانہ ہوگئی۔
منیٰ میں صدیقی صاحب نے ایک عمارت میں قیام کا انتظام کیا ہوا تھا جہاں حضرت مولانا فقیر محمد صاحبؒ خلیفہ حضرت تھانوی رحمہما اللہ تعالیٰ بھی مقیم تھے، اور منیٰ کے دنوں میں ان کی بابر کت رفاقت بھی نصیب ہوئی، اور حضرتؒ کی شفقتوں نے نہال فرمادیا۔ ان کا حکم تھا کہ نمازیں بھی تم پڑھاؤ، اس لئے میں حکم کی تعمیل کرتا رہا، اور حضرت ؒ مجھے دیکھتے، تو فرماتے: ” یہ ہمارا امام ہے۔”
الحمد للہ اس بابر کت رفاقت میں حج نصیب ہوا، اور حضرت مولانا عبدالرحیم اشعر صاحب ؒ کی رفاقت بھی حاصل رہی۔ اپنی صحت کی بنا پر انہیں ہجوم سے بڑی گھبراہٹ ہوتی تھی، اور وہ چاہتے تھے کہ طواف زیارت اور سعی سواری پرکریں۔ اُس وقت طواف میں وہیل چیئر کا رواج نہیں تھا، بلکہ معذور افراد کو ایک چارپائی جیسی چیز پر اٹھاکر لوگ طواف کرایا کرتے تھے، جسے ” شُبری ”کہا جاتا تھا۔ ان کا اصرار تھا کہ وہ شُبری پر طواف کریں، لیکن جب میں نے اس کا کرایہ معلوم کیا، تو وہ بہت زیادہ تھا، اس لئے میں اپنا طواف زیارت کرنے کے بعد حرم سے باہر گیا، اور پانی کی کئی ٹھنڈی بوتلیں لے آیا،(اس وقت حرم شریف میں کولروں کا انتظام نہیں تھا)میں نے عرض کیا کہ طواف کے دوران وقتاً فوقتاً میں ان کے سینے پر پانی ڈالتا رہوں گا جس سے انہیں راحت ملتی تھی، چنانچہ وہ راضی ہوگئے، اورہم نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑکر الحمد للہ اس طرح طواف مکمل کرلیا کہ میں باربار ان کے سینے پر پانی ڈالتا رہا۔ حج کے بعد فوراً ہی ہم جدہ آگئے، جہاں اپنے بہت ہی پیارے دوست جناب امتیاز صاحب مرحوم کے گھرمیں قیام ہوا۔ یہ وہی قابل رشک نوجوان تھے جنہوں نے حضرت عارفی قدس سرہ کے ملفوظات قلم بند کرکے شائع کئے تھے۔اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت عطا فرمائیں کہ انہوں نے ہمیشہ بڑی محبت کا معاملہ فرمایا، اور انہوں نے ایک کمرہ میرے لئے مخصوص کر رکھا تھا۔بعد میں وہ نوجوانی ہی میں سر کے ٹیومر کی وجہ سے انتقال فرما گئے تھے۔ رحمہ اللہ تعالیٰ رحمۃ واسعۃ۔وہاں سے بفضلہ تعالی یکم اکتوبر ۱۹۸۲ ء کو بخیریت گھر واپسی ہوئی۔

جاری ہے ….

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

(ماہنامہ البلاغ :جمادی الاولیٰ ۱۴۴۳ھ)