بسم الله الرحمن الرحيم

نحمده ونصلى على رسوله الكريم

محترم جناب ڈاكٹر عمير محمود صديقى ركن اسلامى نظرياتى كونسل پاكستان

السلام عليكم ورحمۃ اللہ تعالى وبركاتہ

آپ نے سپريم كورٹ كے فيصلے مبارك احمد بنام رياست جارى كردہ 6 فرورى 2024 كے بارے ميں استفسار فرمايا ہے۔ ايسا ہى سوال ميرے پاس متعدد دوسرے حضرات كى طرف سے بھى موصول ہوا ہے ۔چونكہ اس فيصلے كے بارے ميں مختلف آراء سامنے آرہى ہيں ، اس لئے  ميں نے اسكا گہرى نظرسے مطالعہ كيا ہے ،اور اپنى رائےذيل ميں پيش كررہا ہوں ۔

اس فيصلے كے دو حصے ہيں ۔ايك حصہ  وہ ہے جس ميں ملزم كى سزا يا رہائى سے بحث كى گئى ہے ، اور دوسرا حصہ وہ ہے جس ميں مذہبى آزادى كے موضوع پر قرآنى آيات اور دستور كى دفعات ذكر كى گئى ہيں ۔ ان دونوں حصوں كے بارے ميں الگ الگ بات كرنا ضرورى ہے ۔

پہلا حصہ

پہلے حصے كى حقيقت يہ ہے كہ ملزم پر تين مختلف دفعات كے تحت مقدمہ چلايا گيا تھا ۔ پنجاب ہولى قرآن (پرنٹنگ اينڈ ريكارڈنگ ) ايكٹ 2011 كے تحت اس پر الزام تھا كہ اس نے قاديانى "تفسير صغير ” اور دیگر تفاسیر اور تراجم  کی تعلیم دینے اور  تقسيم كرنے اورپھيلانے  كاارتكاب كيا جو مسلمانوں كے عقيدے كے خلاف قرآن كريم كى معنوى تحريف پر مشتمل ہے ۔ اسكے علاوہ اس پر تعزيرات پاكستان كى دفعہ 298 بى اور 295 بى كى خلاف ورزى كا بھى الزام تھا ۔ تعزيرات پاكستان كے دونوں الزامات كے بارے ميں تو سپريم كورٹ كے زير نظر فيصلے ميں يہ كہا گيا ہے كہ يہ الزامات ايف آئى آر يا چالان ميں درج نہيں ہيں، اور نچلى عدالت نے اس پر جو فرد جرم عائد كى ہے ، وہ قواعد كے خلاف ہے ، اس لئے اسے فرد جرم سے خارج كيا جاتا ہے ۔

جہاں تك اصل فردجرم كا تعلق ہے ، وہ  پنجاب ہولى قرآن (پرنٹنگ اينڈ ريكارڈنگ ) ايكٹ 2011 كى دفعہ 7 اور دفعہ 9 سے متعلق ہے ۔ فيصلے ميں كہا گيا ہے كہ سن 2021 ميں  اس قانون كى دفعہ 7 اور دفعہ 9 ميں تبديلى كركے  پنجاب ہولى قرآن (پرنٹنگ اينڈ ريكارڈنگ ) امينڈمنٹ ايكٹ نافذ كيا گيا ۔ ملزم اس ايكٹ كے تحت قابل سزا ہوسكتا تھا ، ليكن اسكے مبينہ جرم كاارتكاب اس قانون كے نفاذ سے پہلے سن 2019 ميں ہوا تھا جب يہ قانون موجود نہيں تھا ۔اور كسى شخص كو كسى ايسے فعل كى سزا نہيں دى جاسكتى جو اس وقت قابل سزا نہ ہو، اور بعد ميں قابل سزا بنا ہو۔اس لئے فيصلے ميں سرسرى طورپر يہ كہہ ديا گيا ہے كہ :

Since in the year 2019 the distribution_dissemination of a proscribed book was not an offence, the petitioner could not have been charged to it.” (para 12)

ليكن حيرت انگيز بات يہ ہے كہ سپريم كورٹ نے اس بات پر غور نہيں كيا اور نہ اس پہلو سے كوئى گفتگو كى كہ 2019 ميں ملزم  كے خلاف فرد جرم پنجاب ہولى قرآن (پرنٹنگ اينڈ ريكارڈنگ ) ايكٹ 2011 كے تحت عائد كى گئى تھى جو اسكے مبينہ  ارتكاب جرم سے پہلے سے نافذ تھا ، اور اُس وقت بھى بنیادی طور پر جُرم تھا ۔سن 2021 ميں جو ترميمى ايكٹ آيا ، اُس  نے 2011 كے قانون كو منسوخ نہيں كيا ،بلكہ اسميں بھى جرم کو برقرار رکھتے ہوئے  کچھ مزید چیزوں کا اضافہ کیاگیا، اور  سزا بڑھادی گئى تھى ۔لہٰذا 2019 ميں جس مبينہ جرم كى فرد عائد كى گئى ، اسكے جرم ہونے پر كوئى فرق نہيں پڑا ۔اس سوال سے فاضل چیف جسٹس نے بحث نہیں کی کہ 2011ء کے ایکٹ میں جو جرم تھا، وہ ملزم پر کیوں ثابت نہیں ہوتا؟

"تفسيرصغير ” مرزابشيرالدين محمود كى تاليف ہے جسے ٹائٹل پر معاذ اللہ "خليفۃ المسيح الثانى رضي اللہ عنہ ” لكھا گيا ہے ، اور اس نے سورۂ بقرہ كے شروع ہى ميں "وبالآخرة هم يوقنون” ميں آخرت كا ترجمہ يہ كيا ہے : "اور آئندہ ہونے والى موعود باتوں پر بھى يقين ركھتے ہيں”  چونكہ انكے نزديك مرزا غلام احمد قاديانى مسيح موعود ہے ، اس لئے انہوں نے قرآن كريم كے شروع ہى ميں  تحريف كركے اپنے اس عقيدے كااظہار كرديا ہے۔ ظاہر ہے كہ جو شخص يہ نام نہاد تفسير پڑھائے، وہ  2011       كے قانون كے تحت بھى مجرم ہے اور2021كے تحت بھى مجرم ہے ۔ صرف سزا كا فرق ہے ۔ اس بارے میں فیصلہ بالکل خاموش ہے

عجيب بات ہے كہ2011 كے قانون كو يكسر نظراندازكركے جس ميں  كم سے كم سزا تين سال اور زيادہ سے زيادہ سزا سات سال تھى 2021 كے بارے ميں تو يہ كہديا گيا كہ 2019 ميں يہ كوئى جرم نہيں تھا ، ليكن متبادل كے طورپرتعزيرات پاكستان كے ايك ترميمى بل 1932 كاامكان ظاہر كيا گيا جسكى سزا چھہ مہينے تھى ،اور اسكا اس پر كوئى چارج ہى نہيں تھا ، اور چونكہ ملزم ايك سال گذارچكا تھا ، اس لئے اسے ضمانت پررہا كرديا گيا ۔

دوسرا حصہ

 يہ سارى ايك قانونى بحث تھى ، ليكن زيرنظر فيصلے ميں مذكورہ قانونى نكات سے يكسر صرف نظر كرنے كے علاوہ پيراگراف 6 سے ليكر پير ا 10 تك قرآن كريم كى بعض آيات اور دستور پاكستان كى بعض دفعات پر ايك عمومى بحث فرمادى گئى ہے جس ميں ہر شخص كو مذہبى آزادى  ہونے، اور دين ميں زبردستى نہ ہونے پر زور ديا گيا ہے۔اگرچہ اس حصے ميں قاديانيوں كا نام نہيں ليا گيا ، ليكن  جس سياق وسباق (Context) ميں يہ بحث كى گئى ہے، وہ قاديانيوں سے متعلق تھا ، اس سے بجا طورپر يہ تأثر ليا گيا كہ يہ تمام احكام قاديانيوں كے بارے ميں بتائے جارہے ہيں ، كيونكہ قانونى فيصلہ محض غير متعلق مضمون نگارى پر مشتمل نہيں ہوتا ، بلكہ اسكے ہر حصے كا متعلقہ مقدمے سے تعلق ہوتا ہے ، اس لئے پڑھنے والوں كا يہ سمجھنے ميں كوئى قصور نہيں ہے كہ  فيصلے ميں قاديانيوں كو تحريف شدہ قرآن شائع كرنے اور اسكى تبليغ كى اجازت دى گئى ہے ، اور اسكى وجہ سے جو انتشار ہوا ، وہ كچھ بعيد نہيں تھا ۔ كيونكہ  دستور میں جن آزادیوں کا ذکر ہے وہ ہمیشہ قانون ، اخلاق اور شریعت کے تابع ہوتی ہیں، مذہبی آزادى كا مطلب يہ ہے كہ جس  شخص کا  اپنا مذہب اپنے الگ تشخص كے ساتھ قائم ہو  تو اسے اس پر عمل كرنے كى آزادى ہے ، جيسے عيسائى ، يہودى، ہندو سب كو آئين كے تحت يہ آزادى حاصل ہے ، ليكن كوئى شخص اپنا الگ مذہب بناكر اور تمام مسلمانوں كو كافر كہكر اپنے مذہب كو اسلام كے نام سے متعارف كرائے ، تو وہ ايسا ہى ہے  جيسے كوئى شخص  عيسائى عقائد كو اسلام كى طرف منسوب كركے يہ كہے كہ ميں مسلمان ہوں یا اپنی طرف سے کتاب لکھ کر یہ کہے کہ یہ قرآن ہے ۔ جس طرح اسے يہ اجازت نہيں دى جاسكتى ، اسى طرح قاديانيوں كو بھى مذہبى آزادى كے نام پر اسلام كا نہ نام استعمال كرنے كى آزادى دى جاسكتى ہے ، اور نہ انكے تحريف كردہ قرآن كو  تفسير كے ساتھ شائع كرنے كى اجازت دى جاسكتى ہے ۔ اور يہ بات الحمد للہ پاكستان كے آئين  اور قانون  میں پوری طرح واضح کردی گئی ہے جس کا فیصلہ میں کوئی حوالہ نہیں، نیز  سپريم كورٹ كے لارجر بنچ نے ظہيرالدين وغيرہ بنام رياست مطبوعہ1993 ايس سى ايم آر  1718 ميں ان قوانین کی تشریح ہميشہ كے لئے طے كردى ہے ۔ زير نظر فيصلہ سے اس پر كوئى اثر نہيں پڑتا ، ليكن اس طرح كے غير متعلقہ (irrelevant)   تبصروں سے انتشار كے سوا كوئى فائدہ نہيں ہوتا ۔
ايك اور بات فيصلے كے پيراگراف 8 ميں يہ كہى گئى ہے كہ قرآن كريم نے فرمايا ہے كہ ہم نے ہى قرآن نازل كيا ہے، اور ہم ہى اسكى حفاظت كرينگے ۔ يہ آيت نہ جانے كس مناسبت سے نقل كى گئى ہے ؟كيا مطلب يہ ہے كہ چونكہ اللہ تعالىٰ نے اسكى حفاظت كا ذمہ ليا ہے، اس لئے ہميں اسكى حفاظت كا كوئى انتظام نہيں كرنا چاہئے ، اور جو  كوئى اسميں تحريف كرے، اسكا ہاتھ بھى پكڑنا نہيں چاہئے؟ حفاظت كا ذمہ بيشك اللہ تعالىٰ نے ليا ہے ، ليكن وہ يہ كام اپنے بندوں ہى سے كراتا ہے  كہ لاكھوں انسانوں بلكہ  بچوں كے سينوں ميں اسے معجزانہ طورپر  محفوظ فرماديا ہے ۔ جناب چيف جسٹس صاحب سے یہ بھی درخواست ہے کہ انہوں  نے   اپنے ايك اور فيصلے ميں حافظ قرآن  كو يہ امتياز دينے سے انكار فرمايا ہے كہ اُسے دوسرے علوم حاصل كرنے ميں دوسروں پر ترجيح دى جائے ،   اللہ تعالىٰ كے نزديك ان كا امتياز طے شدہ ہے ، اس لئے انہیں اپنے اس فیصلے پر بھی نظرثانی کرنی چاہئے۔

بہر حال  اس آيت كريمہ كو نقل كرنے سے لوگوں كو يہ تأثر ملا ہے كہ تحريف شدہ قرآن كريم كو كوئى جرم سمجھا نہيں جارہا ہے ،كيونكہ قرآن كريم كى حفاظت كا ذمہ اللہ تعالىٰ نے لے ركھا ہے ۔

خلاصہ يہ ہے كہ فيصلے ميں بہت سى باتيں قابل اعتراض ہيں ، اور سپريم كورٹ كے افسر تعلقات عامہ كى طرف سے جووضاحت آئى ہے، وہ كافى نہيں ہے ۔ہمارى رائے ميں سپريم كورٹ كو اس فيصلے پر نظر ثانى كرنى چاہئے ، اور ملزم كو رہا كرنے كے سلسلے ميں اوپر جو نكات عرض كئے گئے ہيں ، ان پر ازسرنو غور كرنا جاہئے ، اور پيرا 6 سے پيرا 10 تك اس مقدمے سے جو غير ضرورى  بحث كى گئى ہے ، اسے حذف كرنا چاہئے ، تاكہ كوئى غلط فہمى پيدا نہ ہو ۔

تاہم عام مسلمان مطمئن رہيں كہ اس مجمل اور قابل اعتراض  فيصلے سے  قاديانيوں كے بارے ميں شریعت، آئين اور قانون كے طے شدہ موقف پر كوئى اثر نہيں پڑتا ، اور يہ خيال غلط ہے كہ اس سے انہيں كھلى چھوٹ مل گئى ہے ۔ لہٰذا كسى انتشار ميں مبتلا ہونے كى كوئى ضرورت نہيں ہے ۔البتہ جناب چيف جسٹس صاحب كو ان گذارشات كو سنجيدہ لينا چاہئے اور ايسے اقدامات سے پرہيز كرنا چاہئے جن سے عوام ميں انتشار پيداہو ،اور انكى ناكافى وضاحت دينى پڑے ۔

محمّد تقی عثمانی  
12/08/1445ھ
23/02/2024