بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
جمعۃ الوداع کی شرعی حیثیت

بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
جمعۃ الوداع کی شرعی حیثیت

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ نَحْمَدُہٗ وَنَسْتَعِیْنُہٗ وَنَسْتَغْفِرُہٗ وَنُؤْمِنُ بِہٖ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْہِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئَاتِ اَعْمَالِنَا۔ مَنْ یَّہْدِہِ اللّٰہُ فَلاَمُضِلَّ لَہٗ وَمَنْ یُّضْلِلْہُ فَلاَہَادِیَ لَہٗ وَأَشْہَدُ اَنْ لاَّ إِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لاَشَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْہَدُ اَنَّ سَیِّدَنَا وَنَبِیَّنَا وَمَوْلاَنَا مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَعَلٰی اٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَبَارَکَ وَسَلَّمَ تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا کَثِیْرًا۔ أَمَّا بَعْدُ!
فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
وَلِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَاہَدٰکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ
(سورۃ البقرہ، آیت:۱۸۵)
آمَنْتُ بِاللّٰہِ، صَدَقَ اللّٰہُ مَوْلاَنَا الْعَظِیْمُ، وَصَدَقَ رَسُوْلُہُ النَّبِیُّ الْکَرِیْمُ وَنَحْنُ عَلٰی ذٰلِکَ مِنَ الشَّاہِدِیْنَ وَالشَّاکِرِیْنَ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔

مبارک مہینہ
بزرگانِ محترم و برادرانِ عزیز! اللہ جل شانہٗ کا بڑا انعام و کرم ہے کہ اس نے ہمیں اور آپ کو ایک رمضان کا مہینہ اور عطا فرمایا، یہ وہ مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کی گھٹائیں بندوں پر جھوم کر برستی ہیں ، جس میں اللہ جل شانہٗ کی رحمت بندوں کی مغفرت کے لئے بہانہ ڈھونڈتی ہے، چھوٹے چھوٹے عمل پر اللہ جل شانہٗ کی طرف سے رحمتوں اور مغفرتوں کے وعدے ہیں ۔ یہ مبارک مہینہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمایا، اور آج اس مبارک مہینے کا آخری جمعہ ہے، اور اس مبارک مہینے کے ختم ہونے میں چند دن باقی ہیں ۔
آخری جمعہ اور خاص تصورات
اس آخری جمعے کے بارے میں بعض لوگوں کے ذہنوں میں کچھ خاص تصورات ہیں جن کی اصلاح ضروری ہے۔ عام طور پر ہمارے معاشرے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ آخری جمعہ جس کو ’’جمعۃ الوداع‘‘ بھی کہتے ہیں ، یہ کوئی مستقل تہوار ہے اور اس کے کچھ خاص احکام ہیں ، اس کی کوئی خاص عبادتیں ہیں جو حضور اقدس ﷺ نے تجویز فرمائی ہیں ۔ اور لوگوں نے اس دن عبادت کرنے کے مختلف طریقے گھڑ رکھے ہیں ، مثلاً جمعۃ الوداع کے دن اتنی رکعتیں نوافل پڑھنی چاہئیں اور ان رکعتوں میں فلاں فلاں سورتیں پڑھنی چاہئیں ۔
جمعۃ الوداع کوئی تہوار نہیں
خوب سمجھ لیجئے کہ اس قسم کی کوئی ہدایت حضور اقدس ﷺ نے نہیں دی، جمعۃ الوداع بحیثیت جمعۃ الوداع کوئی تہوار نہیں ، نہ اس کے لئے حضور اقدس ﷺ نے کوئی احکام الگ سے عطا فرمائے، نہ اس دن میں عبادت کا کوئی خاص طریقہ بتلایا، نہ اس دن میں کسی خاص عمل کی تلقین فرمائی جو عام دنوں میں نہ کیا جاتا ہو۔ بلکہ یہ عام جمعوں کی طرح ایک جمعہ ہے، البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ ویسے تو رمضان المبارک کا ہرلمحہ ہی قابلِ قدر ہے لیکن رمضان کا جمعہ بڑا قابل قدر ہے۔ حدیث شریف کے بیان کے مطابق رمضان ’’سید الشہور‘‘ ہے، یعنی تمام مہینوں کا سردار ہے، اور جمعہ ’’سید الایام‘‘ ہے، یعنی تمام دنوں کا سردار ہے، لہٰذا جب رمضان المبارک میں جمعہ کا دن آتا ہے تو اس دن میں دو فضیلتیں جمع ہوجاتی ہیں ، ایک رمضان کی فضیلت،اور دوسری جمعہ کی فضیلت، اس لحاظ سے رمضان کا ہر جمعہ قابل قدر ہے۔
یہ آخری جمعہ زیادہ قابل قدر ہے
اور آخری جمعہ اس لحاظ سے زیادہ قابل قدر ہے کہ اس سل یہ مبارک دن دوبارہ نہیں ملے گا، سارے رمضان میں چار یا پانچ جمعہ ہوتے ہیں ، تین جمعے گزرچکے ہیں اور یہ اب آخری جمعہ ہے، اب اس سال یہہ نعمت میسر آنے والی نہیں ، اللہ تعالیٰ نے اگر زندگی دی تو شاید آئندہ سال یہ نعمت دوبارہ مل جائے، اس لئے یہ ایک نعمت ہے جو ہاتھ سے جارہی ہے، اس کی قدر و منزلت پہچان کر انسان جتنا بھی عمل کرلے، وہ کم ہے۔ بس اس جمعۃ الوداع کی یہ حقیقت ہے، ورنہ یہ نہ تو کوئی تہوار ہے، نہ اس کے اندر کوئی خاص عبادت اور خاص عمل مقرر ہے۔
جمعۃ الوداع اور جذبۂ شکر
البتہ جمعۃ الوداع کا دن آتا ہے تو دل میں دوقسم کے جذبات پیدا ہوتے ہیں ۔ ہرمؤمن کے دل میں یہ جذبات پیدا ہونے چاہئیں ، ایک مسرت اور شکر کا جذبہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے ہمیں رمضان المبارک عطا فرمایا، اور رمضان المبارک میں روزے رکھنے کی، تراویح پڑھنے کی اور تلاوت کرنے کی توفیق عطا فرمائی، یہ بات قابلِ شکر اور قابلِ مسرت ہے، اس پر جتنا شکر ادا کیاجائے کم ہے۔ اس لئے کہ نہ جانے کتنے اللہ کے بندے ایسے ہیں جو گزشتہ سال ہمارے ساتھ روزوں میں تراویح میں شریک تھے، لیکن اس سال وہ زمین کے نیچے جاچکے، ان جانے والوں سے اس رمضان کے ایک ایک لمحے کی قدر و قیمت پوچھئے کہ وہ یہ حسرت کر رہے ہیں کہ کاش کہان کو رمضان کے کچھ لمحات اورمل جاتے تو وہ اپنے اعمال میں اضافہ کرلیتے، لیکن ان کا وقت ختم ہوچکا، اب حسرت کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں رمضان المبارک کے یہ لمحات عطا فرمارکھے ہیں ۔
غافل بندوں کا حال
اوراس لحاظ سے اللہ جل شانہٗ کاشکر ادا کرنا چاہئے کہ بہت سے بندے ایسے ہیں کہ جن کو یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ کب رمضان آیا تھا اور کب چلا گیا، العیاذ باللہ العلی العظیم۔ نہ ان کو روزے رکھنے سے کوئی غرض، نہ تراویح پڑھنے سے کوئی مطلب۔ اللہ بچائے! آنکھوں پر غفلت کے پردے پڑے ہوئے ہیں ، رمضان کے آنے پر ان کے نظام الاوقات میں ، ان کے کھانے پینے کے اوقات میں اور ان کے سونے اورجاگنے کیاوقات میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں ایسے غافل لوگوں میں شامل نہیں فرمایا، اور اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو کہ اے اللہ! آپ نے ہمیں روزہ رکھنے کی توفیق بخشی، تراویح پڑھنے کی توفیق بخشی، اگر ہم بھی ان میں شامل ہوجاتے تو نہ جانے ہمارا کیا حشر ہوتا، اس لئے شکر ادا کرنے اور مسرت کا موقع ہے
نماز روزے کی ناقدر مت کرو
ہمارے ذہنوں میں بعض اوقات جو خیالات آتے ہیں کہ ہم نے روزہ تو رکھ لیا لیکن روزے کا حق ادا نہیں کیا، تراویح تو پڑھ لی لیکن اس کا حق ادا نہ ہوسکا، تراویح میں نہ خشوع تھا اور نہ خضوع تھا، دل کہیں تھا،دماغ کہیں تھا، اسی حالت میں ہم نے تراویح ادا کرلی۔ یہ خیال لاکر بعض لوگ اس روزے کی اور تراویح کی ناقدری کرتے ہیں ۔ ارے بھائی! یہ ناقدری کی چیز نہیں ، یہ نماز کیسی بھی ہو، لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے دربار میں حاضری کی توفیق عطا فرمادی، یہ توفیق بذاتِ خود نعمت ہے، پہلے اس توفیق پر شکر ادا کرو، اس حاضر کی ناقدری مت کرو، یہ نہ کہو کہ ہم نے نمام کیا پڑھی، ہم نے تو ٹکریں مارلیں اور اٹھک بیٹھک کرلی۔ ارے اللہ جل شانہٗ کو تمہارے ساتھ کچھ خیرخواہی کا معاملہ کرنا تھا، اس لئے تمہیں مسجد کے دروازے پر لے آئے، اگر اللہ تعالیٰ کو تمہارے ساتھ خیر مقصود نہ ہوتی تو تمہیں ان لوگوں میں شامل کردیتے جنہوں نے کبھی مسجد کی شکل تک نہیں دیکھی، اس لئے ان عبادات کی ناقدری نہ کرو بلکہ ان پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو۔
سجدہ کی توفیق عظیم نعمت ہے
ہم نے جیسی تیسی نماز پڑھ لی، نہ اس میں خشوع تھا اور نہ خضوع تھا، وہ نماز بے جان اور بے روح سہی،لیکن ؎

قبول ہو کہ نہ ہو پھر بھی ایک نعمت ہے
وہ سجدہ جسے ترے آستاں سے نسبت ہے

یہ سجدہ جسے اللہ تعالیٰ کے آستانے پر کرنے کی توفیق ہوگئی، یہ بھی ایک نعمت ہے، پہلے اس کا شکر ادا کرلو۔ بیشک ہم اس کا حق ادا نہیں کرپائے، بیشک ہماری طرف سے اس میں کوتاہیاں رہیں ، لیکن ان کوتاہیوں کا علاج یہ نہیں کہ ان عبادات کی ناقدری شروع کردو، بلکہ ان کوتاہیوں کا علاج یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرو، استغفار کرو،اور یہ کہ اے اللہ! آپ نے مجھے عبادت کی توفیق عطا فرمائی، اس پر آپ کا شکر ہے، لیکن مجھ سے اس عبادت میں کوتاہی ہوئی، اے اللہ! میں اس پر استغفار کرتا ہوں ۔
اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ۔
اس استغفار کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ان کوتاہیوں کا ازالہ فرمادیں گے۔
آج کادن ڈرنے کا دن بھی ہے
لہٰذا آج کا دن ایک طرف تو خوشی کا اور شکر اداکرنے کا دن ہے، دوسری طرف یہ ڈرنے کادن ہے۔ اس بات کا ڈر جس کا بیان ایک حدیث میں آیا ہے، وہ حدیث یہ ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ مسجد نبوی میں تشریف لائے تاکہ جمعہ کا خطبہ دیں ۔ آپ ﷺ اپنے منبر پر خطبہ دیا کرتے تھے۔ آپ ﷺ کا منبر تین سیڑھیوں پر مشتمل تھا، آپ ﷺ سب سے اوپر والی سیڑھی پر کھڑے ہوکر خطبہ دیا کرتے تھے۔ جب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا دورِخلافت آیا تو انہوں نے سوچا کہ سب سے اوپر ولی سیڑھی پر خطبہ دینا ادب کے خلاف ہے، کیونکہ حضور اقدس ﷺ اس پر کھڑے ہوکر خطبہ دیتے تھے، چنانچہ انہوں نے اپنے زمانۂ خلافت میں دوسری سیڑھی پر کھڑے ہوکر خطبہ دینا شروع کردیا۔ جب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی وفات ہوگئی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا تو انہوں نے سوچا کہ میرے لئے تو اس دوسری سیڑھی پر بھی کھڑے ہوکر خطبہ دینا ادب کے خلاف ہے جس پر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوکر خطبہ دیا کرتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے زمانۂ خلافت میں تیسری اور آخری سیڑھی پر کھڑے ہوکر خطبہ دینا شروع کردیا۔ اس کے بعد سے آج تک یہ معمول چلا آرہا ہے کہ خطباء تیسری سیڑھی پر خطبہ دیتے چلے آرہے ہیں ۔
تین دعائوں پر تین مرتبہ آمین
بہرال! میں یہ عرض کر رہا تھا کہ ایک دن حضوراقدس ﷺ خطبہ دینے کے لئے تشریف لائے، اس دن صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے یہ عجیب منظر دیکھا کہ جب آپ ﷺ نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا ’’آمین‘‘ جب دوسری سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا ’’آمین‘‘ جب تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو پھر فرمایا ’’آمین‘‘۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو تعجب ہوا کہ آپ ﷺ نے دعا تو کوئی نہیں مانگی، لیکن تینوں سیڑھیوں پر قدم رکھتے ہوئے ’’آمین‘‘ فرمایا۔ بعد میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ! آج آپ ﷺ نے سیڑھیوں پر قدم رکھتے ہوئے تین مرتبہ ’’آمین‘‘ فرمایا، اس کی کیا وجہ ہے؟ حضور اقدس ﷺ نے جواب میں فرمایا کہ جب میں منبر پر چڑھنے کے لئے آیا اور پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو حضرت جبرئیل علیہ السلام میرے سامنے آئے، انہوں نے ایک دعا کی اور میں نے اس دعا پر ’’آمین‘‘ کہی، جب میں نے دوسری سیڑھی پر قدم رکھا تو اس وقت انہوں نے دوسری دعا کی، میں نے اس پر ’’آمین‘‘ کہی، جب میں نے تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو انہوں نے تیسری دعا کی، میں نے اس پر ’’آمین‘‘ کہی۔
ان دعائوں کی اہمیت کے اسباب
آپ ان دعائوں کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ دعا مانگنے والے حضرت جبرئیل علیہ السلام اور اس پر ’’آمین‘‘ کہنے والے حضور اقدس ﷺ جو سید الاولین والآخرین ہیں ، اور جمعہ کا دن، خطبہ کا وقت، مقام بھی مسجد نبوی، اس دعا کی قبولیت میں کسی بھی انسان کو شک نہیں ہوسکتا، بلکہ یہ دعا ضرور قبول ہوگی۔ مگر ڈرنے کی باتیہ ہے کہ یہ دعا درحقیقت ’’بددعا‘‘ تھی، حضرت جبرئیل علیہ السلام نے بددعا مانگی اور حضور اقدس ﷺ نے اس پر ’’آمین‘‘ کہی۔ وہ بددعائیں کیا تھیں ؟
والدین کی خدمت کرکے جنت حاصل نہ کرنا
جس وقت حضور اقدس ﷺ نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا، اس وقت حضرت جبرئیل علیہ السلام نے یہ بددعا کی کہ اس کی ناک خاک آَود ہوجائے یعنی وہ شخص تباہ ہوجائے جس نے اپنے والدین کو بڑھاپے کی حالت میں پایا، پھر بھی اپنی مغفرت نہ کراسکا۔ یعنی جس شخص کے والدین بڑھاپے کی حالت میں پہنچ چکے ہوں ، اس کے لئے جنت حاصل کرنا آسان ہے، کیونکہ اگر وہ ایک قدم بھی والدین کی خدمت میں اٹھالے گا اور ان کے دل کو خوش کردے گا تو اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہونا شروع ہوجائیں گی، حدیث شریف میں آتا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک مرتبہ محبت کی نگاہ سے والدین کو دیکھ لے تو اس کے لئے ایک حج اور ایک عمرہ کا ثواب لکھا جائے گا۔ لہٰذا جب ایک نگاہ ڈالنے کا یہ ثواب ہے تو ان کی خدمت اور اطاعت کرنے کا کیا اجر و ثواب ہوگا، اس کا اندازہ لگائیں ۔ اور والدین انسان کی دنیا و آخرت کی صلاح و فلاح کے ضامن ہیں ۔ اور ماں باپ کا معاملہ یہ ہے کہ ان کو ذراخوش کردو تو وہ تمہیں ڈھیروں دعائیں دیتے ہیں ، اس لئے والدین کی خدمت اور اطاعت کرکے جنت حاصل کرنا بہت آسان ہے۔ لیکن جس شخص نے والدین کو ان کے بڑھاپے کی حالت میں پانے کے باوجود اپنی مغفرت کاسامان نہیں کیا، وہ شخص برباد ہوجائے۔
حضور اقدس ﷺ کا نام سن کر درود شریف نہ پڑھنا
پھر جس وقت حضور اقدس ﷺ نے دوسری سیڑھی پر قدم رکھا تو اس وقت حضرت جبرئیل علیہ السلام نے یہ بددعا فرمائی کہ اس شخص کی ناک خٓک آلود ہوجائے یعنی وہ شخص تباہ ہوجائے جس کے سامنے حضور اقدس ﷺ کا ذکر کیا گیا، مگر اس نے آپ ﷺ پر درود نہیں بھیجا۔ ظاہر بات ہے کہ اس کائنات میں ایک صاحبِ ایمان کے لئے نبی کریم ﷺ سے بڑا محسن کوئی نہیں ہوسکتا، پور انسانیت کے لئے آپ ﷺ سے بڑا محسن کوئی پیدا نہیں ہوا۔ آپ ﷺ نے قربانیاں دے کر، فقر و فاقہ اٹھاکر، تنگیاں اور مصیبتیں جھیل کر، لڑائی لڑکر تمہارے لئے ایمان کی دولت چھوڑگئے، اب تمہارے دل میں اس احسان کا اتنا بھی احساس نہ ہو کہ جناب نبی کریم ﷺ کا ذکر آنے پر آپ ﷺ پر درود ہی نہ بھیجے، یہ کتنی بڑی ناشکری اور احسان فراموش ہے،جس پر جبرئیل علیہ السلام نے بددعا دی اور نبی کریم ﷺ نے ’’آمین‘‘ کہی۔
درود پڑھنے میں بخل نہ کریں
درود شریف کا کوئی بھی صیغہ پڑھ لینے سے یہ فریضہ ادا ہوجاتا ہے اور ’’ﷺ‘‘ بھی ان میں سے ایک درود ہے۔ اس لئے مسلمانوں کا یہ معمول رہا ہے کہ جب بھی نبی کریم ﷺ کا ذکر آتا ہے تو اس پر ’’ﷺ‘‘ ضرور کہتے ہیں ، الحمدللہ اب بھی یہ معمول جاری ہے، لہٰذا ﷺ کہنے سے بھی یہ فریضہ ادا ہوجاتا ہے۔ البتہ ہمارے ہاں جو یہ رواج چل پڑا ہے کہ لکھتے وقت پورا ’’ﷺ‘‘ لکھنے کے بجائے صرف ’’صلعم‘‘ لکھ دیا یا صرف ’’ ؐ‘‘ لکھ دیا، اس طریقے سے یہ فریضہ ادا نہیں ہوت۔ یہ سارا بخل کیا حضور اقدس ﷺ کے ساتھ کرنا ہے؟ یہ طریقہ قابل ترک ہے، اس کے بجائے بولنے میں بھی اور لکھنے میں بھی پورا ’’ﷺ‘‘ ادا کرنا چاہئے،ورنہ اس بات کا خطرہ ہے کہ کہیں ہم اس بددعا کے مستحق نہ بن جائیں
رمضان گزرجانے کے باوجود مغفرت نہ ہونا
جب تیسری سیڑھی پر آپ ﷺ نے قدم رکھا تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے یہ بددعا فرمائی کہ اس شخص کی ناک خاک آلود ہوجائے یعنی وہ شخص تباہ ہوجائے جس پر پورا رمضان المبارک کا مہینہ گزر جائے اور وہ اپنی مغفرت نہ کرالے۔ لہٰذا آج کا دن ڈرنے کا ہے اس بات سے کہ خدا نہ کرے،کہیں ہم اس حدیث کی وعید کے مصداق نہ بن جائیں کہ سارا رمضان گزر جائے اور ہم اپنی مغفرت نہ کرالیں ، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کا مہینہ تمہارے گناہ دھونے کے لئے اور تمہارا میل کچیل صاف کرنے کے لئے عطا فرمایا تھا،اور تمہارے گناہوں کو مغفرت کے تالاب میں ڈبوکر پاک صاف کرنے کے لئے دیا تھا، اس مہینے میں مغفرت کرانا کوئی مشکل نہیں تھا، ساری رات اللہ کا منادی آواز لگا رہا تھا کہ ہے کوئی مغفرت مانگنے والا جس کی میں مغفرت کروں ؟ ہے کوئی رزق مانگنے والا جس کو میں رزق دوں ؟ ہے کوئی مبتلائے آزار جس کی آزاری اور مصیبتوں کو میں رفع کروں ؟ رات بھر اللہ تعالیٰ کا منادی یہ ندائیں لگا رہا تھا۔
مغفرت کے بہانے
اور اللہ نے وعدہ کیا تھا کہ اگر تم روزے رکھ لوگے تو تمہارے پچھلے گناہ معاف کردیں گے، تراویح کا اہتمام کرلوگے تو تمہارے پچھلے گناہ معاف کردیں گے، کسی اللہ کے بندے کو افطار کرادوگے تو اس پر تمہاری مغفرت کردیں گے، جو روزہ تم نے رکھا ہے، اس کے لمحے لمحے پر عبادت لکھی جارہی ہے اور تمہارے گناہوں کی مغفرت ہورہی ہے۔ بہرحال! اللہ تعالیٰ نے تمہاری مغفرت کے لئے اتنے بہانے بنارکھے تھے، لہٰذا مغفرت حاصل کرنے کا اس سے زیادہ اچھا موقع نہیں تھا، جس نے یہ موقع بھی گنوادیا، اس کے لئے جبرئیل علیہ السلام نے یہ بددعا فرمائی، اس لئے یہ ڈرنے کا دن ہے۔
اللہ تعالیٰ سے اچھی امید رکھو
لیکن اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید یہ رکھو کہ انشاء اللہ ہم اس بددعا میں شامل نہیں ، جب اس ذات نے روزے رکھنے کی توفیق بخش اوریہ وعدہ فرمایا کہ جو شخص ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے روزے رکھے گا، میں اس کے سارے پچھلے گناہ بخش دوں گا، تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے یہی توقع اور امید رکھنی چاہئے کہ انشاء اللہ ہماری بھی مغفرت فرمادیں گے۔ البتہ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے ضرور ڈرتے رہو، اسی کا نام ایمان ہے۔ ’’اَلْاِیْمَانُ بَیْنَ الْخَوْفِ وَالرَّجَائِ‘‘ یعنی ایمان خوف اور امید کے درمیان ہے۔
عیدگاہ میں سب کی مغفرت فرمانا
حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب مسلمان سارے مہینے روزۃ رکھنے اور تراویح پڑھنے کے بعد عید کی نماز ادا کرنے کے لئے عیدگاہ میں جمع ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس وقت اپنے فرشتوں پر فخر فرماتے ہیں کہ اے فرشتو! تم تو کہتے تھے کہ ابن آدم زمین پر جاکر فساد مچائے گا، آج اس ابن آدم کو عیدگاہ کے میدان میں دیکھو، اور مجھے بتائو کہ ایک مزدور جس نے اپنی مزدوری پوری کرلی ہو، اس کو کیا صلہ ملنا چاہئے؟ جواب میں فرشتے فرماتے ہیں کہ اے اللہ! جس مزدور نے اپنا کام پور کرلیا ہو، اس کا صلہ یہ ہے کہ اس کو پوری پور مزدوری دیدی جائے، اس میں کوئی کمی نہ جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں اپنی عزت و جلال کی قسم کھاکر کہتا ہوں ، یہ بندے جو میرے سامنے ہیں ، ان پر رمضان میں جو فریضہ عائد کیا تھا وہ انہوں نے پورا کردیا، اب یہ مجھے پکارنے کے لئے عیدگاہ میں جمع ہوئے ہیں اور مجھ سے دعا کرنے کے لئے آئے ہیں ، میں اپنی عزت و جلال کی، اپنی بادشاہت اور اپنے کرم کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ آْ کے دن میں ان سب کی دعائیں قبول کروں گااور ان کو میدان عید سے اس طرح واپس بھیجوں گا کہ ان سب کی مغفرت ہوچکی ہوگی اور ان کی سیئات کو بھی حسنات سے بدل دوں گا۔
ورنہ توفیق کیوں دیتے؟
اگر میدان وعیدمیں بلاکر یہ نوازش فرمانی مقصود نہ ہوتی، ہماری اور آپ کی مغفرت کرنی مقصود نہ ہوتی تو پھر رمضان میں روزے رکھنے اور تراویح پڑھنے کی توفیق ہی کیوں دیتے؟ مسجد میں آنے کی اور تلاوت کرنے کی توفیق ہی کیوں دیتے؟ جب انہوں نے ان عبادات کی توفیق دی ہے تو ان کی رحمت سے امید یہ ہے کہ انہوں نے ہمارے ساتھ خیر کا ارادہ فرمایا ہے، مغفرت کا ارادہ فرمایا ہے۔ لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تو ہماری مغفرت کا ارادہ فرمارہے ہیں اور ہم اس فکرمیں لگے ہوئے ہوں کہ کسی طرح اور گناہوں کے اندر اضافہ کرلیں ، اس لئے کہ ہم تو گناہ کرنے پر لگے ہوئے ہیں اور اپنے اعمال کے ذریعہ اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ ہمیں مغفرت نہیں چاہئے۔
عید کے دن گناہوں میں اضافہ
چنانچہ جیسے ہی عید کا دن آیا، بس گناہوں کا سیلاب اُمڈ آیا، نہ اللہ کا کوئی خیال ، نہ اللہ کے رسول ﷺ کی کوئی فکر، نہ اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کا کوئی احساس۔ اس عید کے دن گناہوں پر گناہ ہورہے ہیں ، اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں کی جارہی ہیں ، گانا بجانا جو کافروں کا خوشیاں منانے کا طریقہ تھا وہ ہم نے اختیار کرلیا، خواتین نے بے پردگی اور بے حجابی اختیار کرلی اور اللہ تعالیٰ کے ایک ایک حکم کی خلاف ورزی کرکے عید کا دن منایا جارہا ہے۔ یہ کیسی عید ہوئی؟ وہ تو مغفرت کا ارادہ فرمارہے ہیں ، لیکن ہم نے گناہ کرکے جہنم میں جانے کحا ارادہ کر رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس انجام سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
مسلمانوں کی عید اقوم عالم سے نرالی ہے
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جو عید عطا فرمائی ہے، وہ سارے اقوام علم کی عیدوں سے نرلی ہے۔ ساری دنیا میں جو عیدیں منائی جاتی ہیں ، وہ کسی تاریخی واقعہ کی یاد میں منائی جاتی ہیں ، مثلاً عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے یوم پیدائش پر ’’کرسمس‘‘ کادن مناتے ہیں ، یہ پیدائش ایک واقعہ ہے، یقینی طور پر یہ ثابت نہیں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ۲۵؍دسمبر کو پیدا ہوئے تھے، بلکہ ان کے جانے کے تین سو سال بعد لوگوں نے یہ تاریخ مقرر کرلی۔ اسی طرح دنیا بھر کے جتنے ادیان ہیں ، ان کے تہوار ماضی کے کسی نہ کسی واقعہ سے وابستہ ہوتے ہیں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جو تہوار عطا فرمائے ہیں ، وہ ماضی کے کسی واقعہ سے وابستہ نہیں ہیں ، بلکہ یہ تہوار اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر عطا فرمائے جس موقع پر ہرسال مسلمانوں کے لئے خوشی کا واقعہ پیش آتا ہے، چنانچہ عید الفطر اس موقع پر عطا فرمائی جب مسلمان روزے کی عظیم الشان عبادت کی تکمیل کرتیہیں ، اس طرح ہرسال یہ نعمت مل رہی ہے اور خوشی حاصل ہورہی ہے اور اس پر شکر کے طور پر عید آرہی ہے، اورعیدالاضحی اس موقع پر عطا فرمائی جب مسلمان دوسری عظیم الشان عبادت یعنی حج کی تکمیل کرتے ہیں ۔
عیدکی خوشی کا مستحق کون؟
لہٰذا تم نے چونکہ رمضان المبارک کے روزے رکھے ہیں ، اور تم نے تراویح پڑھی ہیں ، اس لئے تم اس عیدالفطر کے انعام کے مستحق ہو اور تم نے چونکہ حج کی عبادت انجام دی ہے، اس لئے عیدالاضحی کے انعام کے مستحق ہو۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خوشی منانے کا جو طریقہ عطا فرمایا ہے وہ بھی دنیا کی ساری قوموں سے نرالہ ہے، وہ یہ کہ عید کی نماز کے لئے میدان میں آجائو، دوسرے ایام میں تو مسجد میں نماز پڑھنا افضل ہے، لیکن عید کے دن میدان میں نماز پڑھنا افضل ہے، لہٰذا عید کے دن نوازش اور رحمت کی بارش کرنے کے لئے میدان میں بلایا، اور میدان میں آنے سے پہلے صدقۃ الفطر ادا کردو، تاکہ جو لوگ غریب ہیں ، جن کے چولہے ٹھنڈے ہیں ، ان کو کم از کم اس دن یہ فکر نہ ہو کہ کھانا کہاں سے آئے گا؟ خوشی منانے کا یہ نرالہ انداز عطا فرمایا، لیکن ہم نے یہ طریقہ چھوڑکر کافروں کا طریقہ اختیار کرلیا، جس طرح وہ لوگ گانے بجاتے ہیں ، اور فحاشی اور عریانی میں اپنے تہواروں کے اوقات صرفکرتے ہیں ، ہم نے بھی اسی طرح شروع کردیا، اللہ تعالیٰ تو مغفرت فرمانا چاہتے ہیں ، لیکن ہم نے گناہ کے کام کرنے شروع کردیئے، یہ بالکل مناسب نہیں ۔ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ہم سب کو صحیح فکر عطا فرمائے اور رمضان کی برکات عطا فرمائے اور عید کی صحیح خوشیاں عطا فرمائے اور گناہوں ، نافرمانیوں اور معصیتوں سے ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین۔

’’وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘