سیرت النبی اور ہماری زندگی

بسم الله الرحمٰن الرحیم
الحمدﷲ نحمدہ و نستعینہ و نستغفرہ و نومن بہ ونتوکل علیہ و نعوذ باﷲ من شرور انفسنا و من سیآت اعمالنا من یہدہ اﷲ فلامضل لہ و من یضللہ فلاہادی لہٗ۔ ونشہد ان لا الہ الا اﷲ وحدہٗ لاشریک لا لہ و نشہد ان سیّدنا و سندنا و نبینا و مولانا محمداً عبدہ ورسولہ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ و علی آلہٖ واصحابہ و بارک وسلم تسلیماً کثیراً کثیرا۔ امابعد فاعوذ باﷲ من الشیطٰن الرجیم بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم ط
لقد کان لکم فی رسول اﷲ اُسوۃٌ حسنۃٌ من کان یرجوا اﷲ والیوم الاٰخر، و ذکراﷲ کثیراً۔
(سورۂ الاحزاب۔۲۱)
اٰمنت باﷲ صدق اﷲ مولانا العظیم و صدق رسولہ النبی الکریم و نحن علی ذالک من الشاہدین و الشاکرین والحمدﷲ ربّ العالمین۔

آپ ﷺ کا تذکرہ باعث سعادت
۱۲؍ ربیع الاوّل ہمارے معاشرے، ہمارے ملک اور خاص کر برصغیر میں باقاعدہ ایک جشن اور ایک تہوار کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ جب ربیع الاوّل کا مہینہ آتا ہے تو سارے ملک میں سیرت النبی اور میلاد النبی کا ایک غیر متناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ حضور نبی کریمﷺ کا مبارک تذکرہ اتنی بڑی سعادت ہے کہ اس کے برابر کوئی سعادت نہیں ہوسکتی۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں آپ کے مبارک تذکرہ کو اس ماہ ربیع الاوّل کے ساتھ بلکہ صرف ۱۲؍ ربیع الاوّل کے ساتھ مخصوص کردیا گیا ہے اور یہ کہاجاتا ہے کہ چونکہ ۱۲ ربیع الاوّل کو حضور نبی کریمﷺ کی ولادت ہوئی۔ اس لئے آپ کا یومِ ولادت منایا جائے گا اور اس میں آپ کی سیرت اور ولادت کا بیان ہوگا۔
لیکن یہ سب کچھ کرتے وقت ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ جس ذاتِ اقدس کی سیرت کا یہ بیان ہورہا ہے اور جس ذات اقدس کی ولادت کا یہ جشن منایا جارہا ہے، خود اس ذاتِ اقدس کی تعلیم کیا ہے؟ اور اس تعلیم کے اندر اس قسم کا تصور موجود ہے یا نہیں؟

تاریخ انسانیت کا عظیم واقعہ
اس میں کسی مسلمان کو شبہ نہیں ہوسکتا کہ آنحضرت ﷺ کا اس دنیا میں تشریف لانا، تاریخ انسانیت کا اتنا عظیم واقعہ ہے کہ اس سے زیادہ عظیم، اس سے زیادہ پُرمسرت، اس سے زیادہ مبارک اور مقدس واقعہ اس روئے زمین پر پیش نہیں آیا، انسانیت کو نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کا نور ملا، آپ کی مقدس شخصیت کی برکات نصیب ہوئیں، یہ اتنا بڑا واقعہ ہے کہ تاریخ کا اور کوئی وقعہ اتنا بڑا نہیں ہوسکتا اور اگر اسلام میں کسی کی یومِ پیدائش منانے کا کوئی تصور ہوتا تو سرکارِ دوعالمﷺ کی یومِ پیدائش سے زیادہ کوئی دن اس بات کا مستحق نہیں تھا کہ اس کو منایا جائے اور اس کو عید قرار دیا جائے۔ لیکن نبوت کے بعد آپ ۲۳ سال اس دنیا میں تشریف فرما رہے اور ہر سال ربیع الاوّل کا مہینہ آتا تھا، لیکن نہ صرف یہ کہ آپ نے ۱۲ ربیع الاوّل کو یومِ پیدائش نہیں منایا، بلکہ آپ کے کسی صحابی کے حاشیۂ خیال میں بھی یہ نہیں گزرا کہ چونکہ ۱۲ ربیع الاوّل آپﷺ کی پیدائش کا دن ہے اس لئے اس کو کسی خاص طریقے سے منانا چاہئے۔

۱۲؍ ربیع الاوّل اور صحابہ کرام
اس کے بعد سرکارِ دوعالم ﷺ اس دنیا سے تشریف لے گئے اور تقریباً سوا لاکھ صحابہ کرام کو اس دنیا میں چھوڑ گئے وہ صحابہ کرام ایسے تھے کہ سرکارِ دوعالم ﷺ ایک سانس کے بدلے اپنی پوری جان نچھاور کرنے کیلئے تیار تھے۔ آپﷺ کے جانثار، آپﷺ پر فداکار، آپﷺ کے عاشق زار تھے۔ لیکن کوئی ایک صحابی ایسا نہیں ملے گا جس نے اہتمام کرکے یہ دن منایا ہو یا اس دن کوئی جلسہ منعقد کیا ہو۔ یا کوئی جلوس نکالا ہو، یا کوئی چراغاں کیا ہو، یا کوئی جھنڈیاں سجائی ہوں،صحابہ کرام نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ اس لئے کہ اسلام کوئی رسموں کادین نہیں ہے۔ جیسا کہ دوسرے اہل مذاہب ہیں کہ ان کے ہاں چند رسومات ادا کرنے کا نام دین ہے۔ جب وہ رسمیں ادا کرلیں تو بس پھر چھٹی ہوگئی۔ بلکہ اسلام عمل کا دین ہے اور یہ تو جنم روگ ہے کہ پیدائش سے لے کر مرتے دم تک ہر انسان اپنی اصلاح کی فکر میں لگا رہے اور سرکارِ دوعالم ﷺ کی سنت کی اتباع میں لگارہے۔

کرسمس کی ابتداء
یومِ پیدائش منانے کا یہ تصور ہمارے ہاں عیسائیوں سے آیا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یومِ پیدائش کرسمس کے نام سے ۲۵؍ دسمبر کو منایا جاتا ہے۔ تاریخ اُٹھا کر دیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اُٹھائے جانے کے تقریباً تین سو سال تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے یومِ پیدائش منانے کا کوئی تصور نہیں تھا۔ آپ کے حوارین اور صحابہ کرام میں سے کسی نے یہ دن نہیں منایا، تین سو سال کے بعد کچھ لوگوں نے یہ بدعت شروع کردی اور یہ کہا کہ ہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یومِ پیدائش منائیں گے۔ اس وقت بھی جو لوگ دین عیسوی پر پوری طرح عمل پیرا تھے انہوں نے ان سے کہا کہ تم نے یہ سلسلہ کیوں شروع کیا ہے؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات میں تو یومِ پیدائش منانے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ اس میں کیا حرج ہے؟ یہ کوئی ایسی بات تو نہیں ہے بس ہم اس دن جمع ہوجائیں گے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر کریں گے۔ ان کی تعلیمات کو یاد دلائیں گے اور اس کے ذریعے سے لوگوں میں ان کی تعلیمات پر عمل کرنے کا شوق پیدا ہوگا، اس لئے ہم کوئی گناہ کا کام تو نہیں کررہے ہیں۔ چنانچہ یہ کہہ کر یہ سلسلہ شروع کردیا۔

کرسمس کی موجودہ صورتحال
چنانچہ شروع شروع میں تو یہ ہوا کہ جب ۲۵؍ دسمبر کی تاریخ آتی تو چرچ میں ایک اجتماع ہوتا ایک پادری صاحب کھڑے ہوکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات اور آپ کی سیرت بیان کردیتے۔ اس کے بعد اجتماع برخواست ہوجاتا۔ گویا کہ بے ضرر اور معصوم طریقے پر یہ سلسلہ شروع ہوا۔ لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد انہوں نے سوچا کہ ہم پادری کی تقریر تو کرادیتے ہیں۔ مگر وہ خشک قسم کی تقریر ہوتی ہے۔ جس کا نتیجہ ہے کہ نوجوان اور شوقین مزاج لوگ تو اس میں شریک نہیں ہوتے، اس لئے اس کو ذرا دلچسپ بنانا چاہئے، تاکہ لوگوں کے لئے دلکش ہو اور اس کو دلچسپ بنانے کیلئے اس میں موسیقی ہونی چاہئے، چنانچہ اس کے بعد موسیقی پر نظمیں پڑھی جانے لگیں پھر انہوں نے دیکھا کہ موسیقی سے بھی کام نہیں چل رہا ہے، اس لئے اس میں ناچ گانا بھی ہونا چاہئے، چنانچہ پھر ناچ گانا بھی شامل ہوگیا پھر سوچا کہ اس میں کچھ تماشے بھی ہونے چاہئے۔ چنانچہ ہنسی مذاق کے کھیل تماشے شامل ہوگئے۔ چنانچہ ہوتے ہوتے یہ ہوا کہ وہ کرسمس جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات بیان کرنے کے نام پر شروع ہوا تھا، اب وہ عام جشن کی طرح ایک جشن بن گیا اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ناچ گانا اس میں، موسیقی اس میں، شراب نوشی اس میں، قمار بازی او ر جوا اس میں گویا کہ اب دنیا بھر کی ساری خرافات کرسمس میں شامل ہوگئیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات پیچھے رہ گئیں۔

کرسمس کا انجام
اب آپ دیکھ لیجئے کہ مغربی ممالک میں جب کرسمس کا دن آتا ہے، تو اس میں کیا طوفان برپا ہوتا ہے، اس ایک دن میں اتنی شراب پی جاتی ہے کہ پورے سال اتنی شراب نہیں پی جاتی۔ اس ایک دن میں اتنے حادثات ہوتے ہیں کہ پورے سال اتنے حادثات نہیں ہوتے، اسی ایک دن میں عورتوں کی عصمت دری اتنی ہوتی ہے کہ پورے سال اتنی نہیں ہوتی اور یہ سب کچھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے یومِ پیدائش کے نام پر ہورہا ہے۔

میلاد النبی کی ابتداء
اﷲ تعالیٰ انسان کی نفسیات اور اس کی کمزوریوں سے واقف ہے۔ اﷲ تعالیٰ یہ جانتے ہیں کہ اس کو ذرا سا شوشہ دیا گیاتو یہ کہاں سے کہاں بات کو پہنچائے گا۔ اس واسطے کسی کے دن منانے کا کوئی تصور ہی نہیں رکھا۔ جس طرح ’’کرسمس‘‘ کے ساتھ ہوا، اسی طرح یہاں بھی ہوا کہ کسی بادشاہ کے دل میں خیال آگیا کہ جب عیسائی لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یومِ پیدائش مناتے ہیں تو ہم حضورِ اقدس ﷺ کا یومِ پیدائش کیوں نہ منائیں؟ چنانچہ یہ کہہ کر اس بادشاہ نے میلاد کا سلسلہ شروع کردیا، شروع میں یہاں بھی یہی ہوا کہ میلاد ہوا جس میں حضورِ اقدسﷺ کی سیرت کا بیان ہوا اور کچھ نعتیں پڑھی گئیں۔ لیکن اب آپ دیکھ لیں کہ کہاں تک نوبت پہنچ چکی ہے۔

یہ ہندوانہ جشن ہے
یہ تو حضورِ اقدس ﷺ کا معجزہ ہے کہ چودہ سو سال گزرنے کے باوجود الحمدﷲ وہاں تک ابھی نوبت نہیں پہنچی جس طرح عیسائیوں کے ہاں پہنچ چکی ہے۔ لیکن اب بھی دیکھ لو کہ سڑکوں پر کیا ہورہا ہے، کس طرح روضہ اقدس کی شبیہیں کھڑی کی ہوئی ہیں، کس طرح کعبہ شریف کی شبیہیں کھڑی کی ہوئی ہیں۔ کس طرح لوگ اس کے ارد گرد طواف کررہے ہیں کس طرح اس کے چاروں طرف ریکارڈنگ ہورہی ہے، کس طرح چراغاں کیا جارہا ہے او رکس طرح جھنڈیاں سجائی جارہی ہیں، معاذ اﷲ ایسا معلوم ہورہا ہے یہ سرکارِ دوعالم ﷺ کی سیرت طیبہ کا جشن نہیں ہے بلکہ جیسے ہندوؤں اور عیسائیوں کا عام جشن ہوتے ہیں اس طرح کا کوئی جشن ہے اور رفتہ رفتہ ساری خرابیاں اس میں جمع ہورہی ہیں۔

یہ اسلام کا طریقہ نہیں
سب سے بڑی خرابی یہ سب کچھ دین کے نام پر ہورہا ہے اور یہ سب کچھ حضورِ اقدسﷺ کے مقدس نام پر ہورہا ہے اور یہ سب کچھ حضورِ اقدس ﷺ کے مقدس نام پر ہورہا ہے، اور سب کچھ ہورہا ہے کہ یہ بڑے اجر و ثواب کا کام ہے اور یہ خیال کررہے ہیں کہ آج ۱۲ ربیع الاوّل کو چراغاں کرکے اور اپنی عمارتوں کو روشن کرکے اور اپنے راستوں کو سجاکر ہم نے حضورِ اقدسﷺ کے ساتھ محبت کا حق ادا کردیا اور اگر ان سے پوچھا جائے کہ آپ دین پر عمل نہیں کرتے؟ تو جواب دیتے ہیں ہمارے یہاں تومیلاد ہوتا ہے ہمارے یہاں تو حضورِ اقدسﷺ کی یومِ پیدائش پر چراغاں ہوتا ہے اس طرح دین کا حق ادا ہورہا ہے۔ حالانکہ یہ طریقہ اسلام کا طریقہ نہیں ہے۔ حضورِ اقدس ﷺ کا طریقہ نہیں ہے۔ آپ کے صحابہ کرام کا طریقہ نہیں ہے اور اگر اس طریقے سے میں خیر وبرکت ہوتی تو ابوبکرصدیق، فاروقِ اعظم، عثمان غنی اور علی مرتضیٰ رضی اﷲ عنہم اس سے چوکنے والے نہیں تھے۔

بنیے سے سیانا سو باؤلا
میرے والد حضرت مفتی محمد شفیع صاحب قدس سرہٗ ہندی زبان کی ایک مثل اور کہاوت سنایا کرتے تھے کہ ان کے یہاں یہ کہاوت بہت مشہور ہے کہ:

 بنیے سے سیانا سو باؤلا

یعنی اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ میں تجارت میں بننے سے زیادہ سیانا اور ہوشیار ہوں اور اس سے زیادہ تجارت جانتا ہوں تو وہ باؤلا اور پاگل ہے اس لئے کہ حقیقت میں تجارت کے اند رکوئی شخص بنیے سے زیادہ سیانا نہیں ہوسکتا۔ یہ کہاوت سنانے کے بعد حضرت والد صاحب فرماتے کہ جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ میں صحابہ کرام سے زیادہ حضورِ اقدسﷺ کا عاشق ہوں اور صحابہ کرام سے زیادہ محبت رکھنے والا ہوں وہ حقیقت میں پاگل ہے، بے وقوف اور احمق ہے۔ اس لئے کہ صحابہ کرام سے بڑا عاشق اور محب کوئی اور نہیں ہوسکتا۔

آپ کا مقصد بعثت کیا تھا؟
صحابہ کرام کا یہ حال تھا کہ نہ جلوس ہے، نہ جلسہ ہے، نہ چراغاں ہے نہ جھنڈی ہے، اور نہ سجاوٹ ہے۔ لیکن ایک چیز ہے وہ یہ کہ سرکارِ دوعالمﷺ کی سیرتِ طیبہ زندگیوں میں رچی بسی ہوئی ہے۔ ان کا ہر دن سیرتِ طیبہ کا دن ہے۔ ان کا ہر لمحہ سیرتِ طیبہ کا لمحہ ہے۔ ان کا ہر کام سیرتِ طیبہ کاکام ہے، کوئی کام ایسا نہیں تھا جو سرکارِ دوعالمﷺ کی سیرتِ طیبہ سے خالی ہو۔ چونکہ وہ جانتے تھے کہ سرکاردوعالم ﷺ اس لئے دنیا میں تشریف نہیں لائے تھے کہ اپنادن منوائیں اور اپنی تعریفیں کرائیں۔ اپنی شان میں قصیدے پڑھوائیں، خدا نہ کرے اگر یہ مقصود ہوتا تو جس وقت کفار مکہ نے آپ کو یہ پیشکش کی تھی کہ اگر آپ سردار بننا چاہتے ہیں تو ہم آپ کو اپنا سردار بنانے کیلئے تیار ہیں۔ اگر آپ مال و دولت کے طلبگار ہیں تو مال و دولت کے ڈھیر آپ کے قدموں میں لانے کیلئے تیار ہیں، اگرآپ حسن و جمال کے طلبگار ہیں تو عرب کا منتخب حسن و جمال آپ کی خدمت میں نذر کیا جاسکتا ہے۔ بشرطیکہ آپ اپنی تعلیمات کو چھوڑ دیں اور یہ دعوت کا کام چھوڑ دیں۔ اگر آپﷺ کو یہ چیزیں مطلوب ہوتیں تو آپ ان کی اس پیشکش کو قبول کرلیتے۔ سرداری بھی ملتی، روپیہ پیسہ بھی مل جاتا اور دنیا کی ساری نعمتیں حاصل ہوجاتیں۔ لیکن سرکارِ دو عالم ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم میرے ایک ہاتھ میں آفتاب اور ایک ہاتھ میں ماہتاب بھی لاکر رکھ دو گے تب بھی اپنی تعلیمات سے ہٹنے والا نہیں ہوں۔
کیا آپ دنیا میں اس لئے تشریف لائے تھے کہ لوگ میرے نام پر عید میلادالنبی منائیں؟ بلکہ آپ کے آنے کا منشاء وہ ہے جو قرآن کریم نے اس آیت میں بیان فرمایا کہ:

لقد کان لکم فی رسول اﷲ اُسوۃٌ حسنۃٌ من کان یرجوا اﷲ والیوم الاٰخر، و ذکراﷲ کثیراً۔
(سورۂ الاحزاب۔۲۱)

یعنی ہم نے نبی کریم ﷺ کو تمہارے پاس بہترین نمونہ بناکر بھیجا ہے، تاکہ تم ان کی نقل اُتارو اور اس شخص کیلئے بھیجا ہے جو اﷲ پر ایمان رکھتا ہو اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو اور اﷲ کو کثرت سے یاد کرتا ہو۔

انسان نمونے کامحتاج ہے
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نمونے کی کیا ضرورت ہے؟ اس لئے کہ اﷲتعالیٰ نے اپنی کتاب نازل فرمادی تھی، ہم اس کو پڑھ کر اس کے احکام پر عمل کرلیتے؟ بات دراصل یہ ہے کہ نمونے بھیجنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ انسان کی فطرت اور جبلت یہ ہے کہ صرف کتاب اس کی اصلاح کیلئے اور اس کو کوئی فن، کوئی علم و ہنر سکھانے کیلئے کافی نہیں ہوتی، بلکہ انسان کو سکھانے کیلئے کسی مربی کے عملی نمونے کی ضرورت ہوتی ہے، جب تک نمونہ سامنے نہیں ہوگا اس وقت تک محض کتاب پڑھنے سے کوئی علم اور کوئی فن نہیں آئے گا۔ یہ چیز اﷲ تعالیٰ نے اس کی فطرت میں داخل فرمائی ہے۔

ڈاکٹر کیلئے ’’ہاؤس جاب‘‘ لازم کیوں؟
ایک انسان اگر یہ سوچے کہ میڈیکل سائنس پر کتابیں لکھی ہوئی ہیں میں ان کتابوں کو پڑھ کر دوسروں کا علاج شروع کردوں وہ پڑھنا بھی جانتا ہے، سمجھدار بھی ہے، ذہین بھی ہے اور اس نے کتابیں پڑھ کر علاج شرو ع کردیا تو وہ سوائے قبرستان آباد کرنے کے کوئی اور خدمت انجام نہیں دے گا۔
چنانچہ دنیا بھر کا قانون ہے کہ اگر کسی شخص نے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرلی۔ اس کو اس وقت تک عام پریکٹس کرنے کی اجاز ت نہیں جب تک وہ ایک مدت تک ہاؤس جاب نہ کرے اور جب تک کسی ہسپتال میں کسی ماہر ڈاکٹر کی زیرنگرانی میں عملی نمونہ نہیں دیکھے گا اس وقت تک صحیح ڈاکٹری نہیں کرسکتا۔ اس لئے کہ اس نے اب تک بہت سی چیزوں کو صرف کتاب میں پڑھا ہے ابھی اس کے عملی نمونے اس کے سامنے نہیں آئے۔ اب مرض، کتابی تفصیل کے ساتھ اس کی عملی صورت مریض کی شکل میں دیکھ کر اسے صحیح معنی میں علاج کرنا آئے گا اس کے بعد اس کو عام پریکٹس کی اجازت دے دی جائے گی۔

کتاب پڑھ کر قورمہ نہیں بناسکتے
کھانے پکانے کی کتابیں بازار میں چھپی ہوئی موجود ہیں اور ان میں ہر چیز کی ترکیب لکھی ہوئی ہے کہ بریانی اس طرح بنتی ہے پلاؤ اس طرح بنتا ہے، کباب اس طرح بنتے ہیں، قورمہ اس طرح بنتا ہے۔ اب ایک آدمی ہے جس نے آج تک کبھی کھانا نہیں بنایا، کتاب سامنے رکھ کر اور اس میں ترکیب پڑھ کر قورمہ بنالے، خدا جانے وہ کیا چیز تیار کریگا۔ ہاں اگر کسی استاد او رجاننے والے نے اس کو سامنے بیٹھا کر بتادیا کہ دیکھو قورمہ اس طرح بنتا ہے او راس کی عملی تربیت دیدی پھر وہ شاندار طریقے سے بنالے گا۔

تنہا کتاب کافی نہیں
معلوم ہوا کہ اﷲ تعالیٰ نے انسان کی فطرت یہ رکھی ہے کہ جب تک کسی مربی کا عملی نمونہ اس کے سامنے نہ ہو اس وقت تک وہ صحیح راستے پر صحیح طریقے پر نہیں آسکتا اور کوئی علم و فن صحیح طور پر نہیں سیکھ سکتا۔ اس واسطے اﷲ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کا جو سلسلہ جاری فرمایا، وہ درحقیقت اسی مقصد کو بتانے کیلئے تھا کہ ہم نے کتاب تو بھیج دی۔ لیکن تنہا کتاب تمہاری رہنمائی کیلئے کافی نہیں ہوگی جب تک اس کتاب پر عمل کرنے کیلئے نمونہ تمہارے سامنے نہ ہو اس لئے قرآن کریم یہ کہہ رہا ہے کہ ہم نے حضورِ اقدسﷺ کو اس غرض کیلئے بھیجا ہے کہ تم یہ دیکھو کہ یہ قرآن کریم تو ہماری تعلیمات ہیں او ریہ نبی ﷺ ہماری تعلیمات پر عمل کرنے کا نمونہ ہے۔

تعلیماتِ نبوی کا نور درکار ہے
قرآن کریم نے ایک اور جگہ پر کیا خوبصورت جملہ ارشاد فرمایا کہ:

قد جاء کم من اﷲ نورٌ و کتابٌ مبینٌ۔ (سورۂ المائدہ۔ ۱۵)

یعنی تمہارے پاس اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ایک تو کھلی کتاب یعنی قرآن آیا ہے اور اس کے ساتھ ایک نور آیا ہے اس اشارہ اس بات کی طرف کردیا کہ اگر کسی کے پا س کتاب موجود ہے اور کتاب میں سب کچھ لکھا ہے، لیکن اس کے پاس روشنی نہیں ہے نہ سورج کی روشنی ہے، نہ بجلی کی روشنی ہے، نہ چراغ کی روشنی ہے، بلکہ اندھیرا ہے۔ اس لئے اب روشنی کے بغیر اس کتاب سے فائدہ نہیں اُٹھاسکتا۔ اسی طرح اگر دن کی روشنی موجود ہے، بجلی کی روشنی موجود ہے، لیکن آنکھ کی روشنی نہیں ہے تب بھی کتاب سے فائدہ نہیں اُٹھاسکتا۔ لہٰذا جس طرح روشنی کے بغیر کتاب سے فائدہ نہیں اُٹھایا جاسکتا، اسی طرح ہم نے قرآن کریم کے ساتھ محمد رسول اﷲﷺ کی تعلیمات کا نور بھیجا ہے جب تک تعلیمات کا یہ نور تمہارے پاس نہیں ہوگا، تم قرآن کریم نہیں سمجھ سکو گے اور اس پر عمل کرنے کا طریقہ تمہیں نہیں آئیگا۔

حضورﷺ کی تعلیمات سراپا نور ہیں
بعض نااہل اور ناقدر شناس لوگ اس آیات کا یہ مطلب نکالتے ہیں کہ حضورِ اقدسﷺ ذاتی اعتبار سے بشر نہیں تھے۔ بلکہ ’’نور‘‘ تھے ارے یہ تو دیکھو کہ یہ بجلی کا نور، یہ ٹیوب لائٹ کا نور، حضورِ اقدسﷺ کی تعلیمات کے نور کے آگے کیا حیثیت رکھتا ہے؟ درحقیقت اس آیت میں یہ بتلانا ہے کہ حضورِ اقدسﷺ جو کچھ تعلیم دے رہے ہیں یہ وہ نور ہے جس کے ذریعے تم کتابِ مبین پر صحیح صحیح عمل کرسکو گے اور اس نمونے کے بغیرتمہیں صحیح طرح عمل کرنے میں دشواری ہوگی۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو اس لئے مبعوث فرمایا کہ آپ کی تعلیمات کا نور کتاب اﷲ کی عملی تشریح کرے گا۔ یہ تمہیں تربیت دے گا اور تمہارے سامنے ایک عملی نمونہ پیش کرکے دکھائے گا کہ یہ دیکھو اﷲ کی کتاب پر اس طرح عمل کیا جاتا ہے اور اب ہم نے حضورِ اقدسﷺ کی ذات کو ایک مکمل اور کامل نمونہ بنادیا یہ ایسا نمونہ ہے کہ انسانیت اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے اور یہ نمونہ اس لئے بھیجا ہے کہ تم اس کو دیکھو، اور اس کی نقل اُتارو تمہارا کام بس یہی ہے۔

آپ کی ذات ہر شعبۂ زندگی کا نمونہ تھی
اگر تم باپ ہو تویہ دیکھو کہ فاطمہ کے باپ (ﷺ) کیا کرتے تھے؟ اگر تم شوہر ہو تو دیکھو کہ عائشہ اور خدیجہ کے شوہر (ﷺ) کیا کرتے تھے؟ اگر تم حاکم ہو تویہ دیکھو کہ مدینہ کے حاکم (ﷺ) نے کس طرح حکومت کی؟ اگر تم مزدور ہوتو یہ دیکھو کہ مکہ کی پہاڑیوں پر بکریاں چَرانے والے مزدور (ﷺ) کیا کرتے تھے؟ اگر تم تاجر ہوتویہ دیکھو کہ سرکارِ دوعالم ﷺ نے شام کی تجارت میں کیا طریقہ اختیار فرمایا؟ آپﷺنے تجارت بھی کی، زراعت بھی کی، سیاست بھی کی، معیشت بھی کی، زندگی کا کوئی شعبہ نہیں چھوڑا جس میں حضورﷺ کی ذات نمونہ کے طور پر موجود نہ ہو ، بس! تم اس نمونے کو دیکھو اور اس کی پیروی کرو، اسی مقصد کیلئے ہم نے نبی کریم ﷺ کو بھیجا ہے اسلئے نہیں بھیجا کہ آپ کا یومِ پیدائش منایا جائے اس لئے نہیں بھیجا کہ آپ کا جشن مناکر یہ سمجھ لیا جائے کہ ہم نے ان کا حق ادا کردیا۔ بلکہ اس لئے بھیجا کہ ان کی ایسی اتباع کرو، جیسی صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین نے اتباع کرکے دکھائی۔

مجلس کا ایک ادب
صحابہ کرام کو ہر آن اس بات کا دھیان تھا کہ حضورِ اقدسﷺ کی اتباع کس طرح ہو؟ صحابہ کرام ویسے ہی صحابہ کرام نہیں بن گئے۔ سنئے! ایک مرتبہ حضورِ اقدسﷺ مسجد نبوی میں خطبہ دے رہے تھے خطبہ کے دوران آپ نے دیکھا کہ کچھ لوگ مسجد کے کناروں پر کھڑے ہوئے ہیں۔ جیسا کہ آج کل بھی آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب کوئی تقریر یا جلسہ ہوتا ہے تو کچھ لوگ کناروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں وہ لوگ نہ تو بیٹھتے ہیں او ر نہ جاتے ہیں اس طرح کناروں پر کھڑا ہونا مجلس کے ادب کے خلاف ہے، اگر تمہیں سننا ہے تو بیٹھ جاؤ اور اگر نہیں سننا ہے تو جاؤ اپنا راستہ دیکھو، اس لئے کہ اس طرح کھڑے رہنے سے بولنے والے کو ذہن بھی تشویش میں مبتلا ہوتا ہے اور سننے والوں کا ذہن بھی انتشار کا شکار رہتا ہے۔

اتباع ہو تو ایسی
بہرحال! آنحضرتﷺ نے کناروں پر کھڑے ہوئے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’بیٹھ جاؤ‘‘ جس وقت آپﷺ نے حکم دیا اس وقت حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہٗ باہر سڑک پر تھے اور مسجد نبوی کی طرف آرہے تھے اور ابھی مسجد میں داخل نہیں ہوئے تھے کہ اس وقت ان کے کان میں حضورِا قدس ﷺ کی یہ آواز آئی کہ ’’بیٹھ جاؤ‘‘ آپ وہیں سڑک پر بیٹھ گئے، خطبہ کے بعد جب حضورِ اقدس ﷺ سے ملاقات ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ میں نے تو بیٹھنے کا حکم ان لوگوں کو دیا تھا جو یہاں مسجدکے کناروں پر کھڑے ہوئے تھے، لیکن تم تو سڑک پر تھے اور سڑک پر بیٹھنے کو تو میں نے نہیں کہا تھا، تم وہاں کیوں بیٹھ گئے؟ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہٗ نے جواب دیا کہ جب حضور ﷺ کا یہ ارشاد کان میں پڑگیا کہ ’’بیٹھ جاؤ‘‘ تو پھر عبداﷲ بن مسعود کی مجال نہیں تھی کہ وہ ایک قدم آگے بڑھائے۔
اور یہ بات نہیں تھی کہ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہٗ اس بات کو جانتے نہیں تھے کہ حضورِ اقدسﷺ مجھے سڑک پر بیٹھنے کا حکم نہیں دے رہے تھے، بلکہ اصل بات یہ تھی کہ جب حضورﷺ کا یہ ارشاد کان میں پڑگیاکہ ’’بیٹھ جاؤ‘‘ تو اب اس کے بعد قدم نہیں اُٹھ سکتا، صحابہ کرام کی اتباع کا یہ حال تھا، ویسے ہی صحابہ کرام نہیں بن گئے تھے، عشق و محبت کے دعویدار تو بہت ہیں لیکن ان صحابہ کرام جیسا عشق کوئی لے کر تو آئے۔

میدانِ جنگ میں ادب کا لحاظ
میدانِ اُحد میں حضرت ابودجانہ رضی اﷲ عنہٗ نے دیکھا کہ سرکارِ دوعالمﷺ کی طرف تیر برسائے جارہے ہیں، تیروں کی بارش ہورہی ہے، حضرت ابودجانہ رضی اﷲ عنہٗ یہ چاہتے ہیں کہ حضور ﷺ کے سامنے آڑ بن جائیں، لیکن اگر ان تیروں کی طرف سینہ کرکے آڑ بنتے ہیں تو حضور اقدسﷺ کی طرف پشت ہوجاتی ہے اور یہ گوارا نہیں کہ میدان جنگ میں بھی حضورﷺ کی طرف پشت ہوجائے۔ چنانچہ آپ نے اپنا سینہ حضورِاقدسﷺ کی طرف اور پشت کفا رکے تیروں کی طرف کردی اور اس طرح تیروں کو اپنی پشت پر لے رہے تھے، تاکہ جنگ کے میدان میں بھی یہ بے ادبی نہ ہو کہ حضورِ اقدسﷺ کی طرف پشت ہوجائے۔

حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہٗ کا واقعہ
حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہٗ نے ایک مرتبہ مسجد نبوی سے بہت دور مکان لے لیا تھا، وہاں رہنے لگے تھے اور دوری کی وجہ سے وہاں سے روزانہ مسجد نبوی میں حاضری دینا مشکل تھا، چنانچہ ان کے قریب ایک صاحب رہتے تھے ان سے یہ طے کرلیا تھا کہ ایک دن تم مسجد نبوی چلے جایا کرو اور ایک دن میں جایا کروں گا۔ جس دن تم جاؤ اس دن واپس آکر مجھے یہ بتاناکہ آج حضورِ اقدسﷺ نے کیا کیا باتیں ارشاد فرمائیں اور جب میں جایا کروں گا تو میں واپس آکر تمہیں بتادیا کروں گا کہ حضورﷺ نے کیا کیا باتیں ارشاد فرمائیں۔ تاکہ سرکارِ دوعالم ﷺ کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی کوئی بات چھوٹنے نہ پائے۔ اس طرح صحابہ کرام نے حضور ﷺ کی چھوٹی چھوٹی باتوں اور سنتوں پر جان دی ہے۔

اپنے آقا کی سنت نہیں چھوڑ سکتا
حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہٗ صلح حدیبیہ کے موقع پر معاملات طے کرنے کے لئے حضورِ اقدس ﷺ کے ایلچی بن کر مکہ مکرمہ تشریف لے گئے، وہاں جاکر اپنے چچا زاد بھائی کے گھر ٹھہر گئے اور جب صبح کے وقت مکہ کے سرداروں سے مذاکرات کیلئے گھر سے جانے لگے تو اس وقت حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہٗ کا پاجامہ ٹخنوں سے اوپر آدھی پنڈلی تک تھا، آنحضرت ﷺ کا فرمان یہ تھا کہ ٹخنوں سے نیچے آزار لٹکانا تو بالکل ناجائز ہے۔ اگر ٹخنوں سے اوپر ہو تو جائز ہے۔ لیکن حضورِاقدسﷺ کا عام معمول اور عادت یہ تھی کہ آپ آدھی پنڈلی تک اپنا ازار رکھتے تھے اس سے نیچے نہیں ہوتا تھا۔ چنانچہ حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہٗ کے چچا زاد بھائی نے کہا کہ جناب! عربوں کا دستور ہے کہ جس شخص کا ازار او رتہبند جتنا لٹکا ہوا ہو، اتنا ہی اس آدمی کو بڑا سمجھا جاتا ہے اور سردار قسم کے لوگ اپنی ازار کو لٹکا کر رکھتے ہیں اس لئے اگرآپ اپنی ازار اس طرح اونچی پہن کر ان لوگوں کے پاس جائیں گے تو اس صورت میں ان کی نظروں میں آپ کی وقعت نہیں ہوگی اور مذاکرات میں جان نہیں پڑے گی۔ حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہٗ نے جب اپنے چچا زاد بھائی کی باتیں سنیں تو ایک ہی جواب دیا فرمایا کہ:

لا! ہکذا ازرۃ صاحبنا ﷺ

نہیں میں اپنا ازار اس سے نیچا نہیں کرسکتا، میرے آقا ﷺ کا ازار ایسا ہی ہے۔ یعنی اب یہ لوگ مجھے اچھا سمجھیں، یا بُرا سمجھیں میری عزت کریں یا بے عزتی کریں، جو چاہیں کریں مجھے اس کی کوئی پراہ نہیں، میں تو حضورِ اقدسﷺ کا ازار دیکھ چکا ہوں اور آپ کا جیسا ازار ہے، ویسا ہی میرا رہے گا اسے میں تبدیل نہیں کرسکتا۔

ان احمقوں کی وجہ سے سنت چھوڑ دوں؟
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اﷲ عنہٗ (فاتح ایران) نے جب ایران میں کسریٰ پر حملہ کیا گیاتو اس نے مذاکرات کیلئے آپ رضی اﷲ عنہٗ کو دربار میں بلایا۔ آپ وہاں تشریف لے گئے۔ جب وہاں پہنچے تو تواضع کے طور پر پہلے ان کے سامنے کھانا لاکر رکھا گیا، چنانچہ آپ نے کھانا شروع کیا، کھانے کے دوران آپ کے ہاتھ سے ایک نوالہ نیچے گرگیا۔ حضورِ اقدسﷺ کی تعلیم یہ ہے کہ اگر نوالہ نیچے گرجائے تو اس کو ضائع نہ کرو وہ اﷲ کا رزق ہے اور یہ معلوم نہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے رزق کے کون سے حصے میں برکت رکھی ہے، اس لئے اس نوالے کی ناقدری نہ کرو، بلکہ اس کو اُٹھالو، اگر اس کے اوپر مٹی لگ گئی ہے تو اس کو صاف کرلو، اور پھر کھالو۔ چنانچہ جب نوالہ نیچے گرا تو حضرت حذیفہ بن یمان رضی اﷲ عنہٗ کو یہ حدیث یاد آگئی اور آپ نے اس نوالے کو اُٹھانے کیلئے نیچے ہاتھ بڑھایا۔ آپ کے برابر ایک صاحب بیٹھے تھے انہوں نے آپ کو کہنی مار کر اشارہ کیا کہ یہ کیا کررہے ہو۔ یہ تو دنیا کی سپر طاقت کسریٰ کا دربار ہے، اگر تم اس دربار میں زمین پر گرا ہوا نوالہ اُٹھا کر کھاؤگے تو ان لوگوں کے ذہنوں میں تمہاری وقعت نہیں رہے گی اور یہ سمجھیں گے کہ یہ بڑے ندیدہ قسم کے لوگ ہیں اس لئے یہ نوالہ اُٹھا کر کھانے کا موقع نہیں آج اس کو چھوڑ دو۔
جواب میں حضرت حذیفہ بن یمان رضی اﷲ عنہٗ نے کیا عجیب جملہ ارشاد فرمایا:

أأترک سنۃ رسول اﷲ ﷺ لہولاء الحمقی؟

کیا میں ان احمقوں کی وجہ سے سرکارِ دوعالمﷺ کی سنت چھوڑ دوں؟ چاہے یہ اچھا سمجھیں یا بُرا سمجھیں، عزت کریں یا ذلت کریں، یا مذاق اُڑائیں، لیکن میں سرکارِ دوعالم ﷺ کی سنت نہیں چھوڑسکتا۔

کسریٰ کے غرور کو خاک میں ملادیا
اب بتائیے کہ انہوں نے اپنی عزت کرائی یا آج ہم سنتیں چھوڑ کر کروارہے ہیں؟ عزت انہوں نے ہی کرائی اور ایسی عزت کرائی کہ ایک طرف تو سنت پر عمل کرتے ہوئے نوالہ اُٹھاکر کھایا تودوسری طرف ایران کے وہ کج کلاہ جو غرور کے مجسّمے بنے ہوئے تھے ان کا غرور ایسا خاک میں ملایا کہ حضورِ اقدسﷺ نے فرمادیاکہ :

اذا ہلک کسریٰ فلا کسریٰ بعدہ
کہ جس دن کسریٰ ہلاک ہوا، اس کے بعد کوئی کسریٰ نہیں ہے، دنیا سے اس کا نام و نشان مٹ گیا۔

اپنا لباس نہیں چھوڑ یں گے
اس واقعہ سے پہلے یہ ہوا کہ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اﷲ عنہٗ اور حضرت ربعی بن عامر رضی اﷲ عنہٗ جب مذاکرات کیلئے جانے لگے اور کسریٰ کے محل میں داخل ہونے لگے تو اس وقت وہ اپنا وہی سیدھا سادھا لباس پہنے ہوئے تھے چونکہ لمبا سفر کرکے آئے تھے اس لئے ہوسکتا ہے کہ وہ کپڑے کچھ میلے بھی ہوں،دربار کے دروازے پر جو دربان تھا اس نے آپ کواندر جانے سے روک دیا اس نے کہا کہ تم اتنے بڑے بادشاہ کسریٰ کے دربار میں ایسے لباس میں جارہے ہو؟ اور یہ کہہ کر اس نے ایک جبہ دیا کہ آپ یہ جبہ پہن کر جائیں حضرت ربعی بن عامر رضی اﷲ عنہٗ نے اس دربان سے کہا کہ اگر کسریٰ کے دربار میں جانے کیلئے اس کادیا ہوا جبہ پہننا ضروری ہے توپھر ہمیں اس کے دربار میں جانے کی کوئی ضرورت نہیں، اگرہم جائیں گے تواسی لباس میں جائیں گے اور اگر اس کو اس لباس میں ملنا منظور نہیں تو پھر ہمیں بھی اس سے ملنے کا کوئی شوق نہیں۔ لہٰذا ہم واپس جارہے ہیں۔

تلوار دیکھ لی ۔۔۔بازو بھی دیکھ
اس دربان نے اندر پیغام بھیجاکہ یہ عجیب قسم کے لوگ آئے ہیں جو جبہ لینے کو بھی تیار نہیں اس دوران حضرت ربعی بن عامر رضی اﷲ عنہٗ اپنی تلوار کے اوپر لپٹی ہوئی کترنوں کو درست کرنے لگے جو تلوار کے ٹوٹے ہوئے حصے پر لپیٹی ہوئی تھیں۔ اس چوکیدار نے تلوار دیکھ کر کہا: ذرا مجھے اپنی تلوار تو دکھاؤ، آپ نے وہ تلوار اس کو دے دی اس نے وہ تلوار دیکھ کر کہا کہ کیا تم اس تلوار سے ایران فتح کروگے؟ حضرت ربعی بن عامر رضی اﷲ عنہٗ نے فرمایا کہ ابھی تک تم نے صرف تلوار دیکھی ہے تلوار چلانے والا ہاتھ نہیں دیکھا اسنے کہا کہ اچھا ہاتھ بھی دکھادو حضرت ربعی بن عامر رضی اﷲ عنہٗ نے فرمایاکہ ہاتھ دیکھنا چاہتے ہو توایسا کرو کہ تمہارے پاس تلوار کا وار روکنے والی جو سب سے زیادہ مضبوط ڈھال ہو وہ منگوالو اور پھر میرا ہاتھ دیکھو، چنانچہ وہاں جو سب سے زیادہ مضبوط لوہے کی ڈھال تھی، جس کے بارے میں یہ خیال کیا جاتاتھاکہ کوئی تلوار اس کو نہیں کاٹ سکتی وہ منگوائی گئی۔ حضرت ربعی بن عامر رضی اﷲ عنہٗ نے فرمایاکہ کوئی شخص اس کو میرے سامنے لے کر کھڑ اہوجائے ، چنانچہ ایک آدمی اس ڈھال کو لے کر کھڑا ہوگیا تو حضرت ربعی بن عامر رضی اﷲ عنہٗ نے وہ تلوار جس پر کترنیں لپٹی ہوئی تھی‘ اس کا ایک وار جو کیا تواس ڈھال کے دو ٹکڑے ہوگئے۔ سب لوگ یہ نظارہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ خدا جانے یہ کیسی مخلوق آگئی ہے۔

یہ ہیں فاتح ایران
بہرحال! اس کے بعد دربان نے اندر پیغام بھیجا کہ یہ ایک عجیب و غریب مخلوق آئی ہے جو نہ تمہارا دیا ہوا لباس پہنتی ہے، اور ان کی تلوار بظاہر ٹوٹی پھوٹی نظر آتی ہے لیکن اس نے ڈھال کے دو ٹکڑے کردئیے۔ چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد ان کو اندر بلوایا گیا۔۔۔ کسریٰ کے دربار کا دستور یہ تھا کہ وہ خود تو کرسی پر بیٹھا رہتا تھا اور سارے درباری سامنے کھڑے رہتے تھے۔ حضرت ربعی بن عامر رضی اﷲ عنہٗ نے کسریٰ سے کہا ہم محمد رسول اﷲ ﷺ کی تعلیمات کے پیروکار ہیں اور حضورِ اقدسﷺ نے ہمیں اس بات سے منع کیا ہے کہ ایک آدمی بیٹھا رہے اور باقی آدمی اس کے سامنے کھڑے رہیں، لہٰذا ہم اس طرح سے مذاکرات کرنے کیلئے تیار نہیں، یا توہمارے لئے بھی کرسیاں منگوائیں جائیں یا کسریٰ بھی ہمارے سامنے کھڑا ہو۔ کسریٰ نے جب یہ دیکھا کہ یہ لوگ تو ہماری توہین کرنے کیلئے آگئے، چنانچہ اس نے حکم دیا کہ ایک مٹی کا ٹوکرا بھر کر ان کے سر پر رکھ کر ان کو واپس روانہ کردو، میں ان سے بات نہیں کرتا، چنانچہ ایک مٹی کا ٹوکرا ان کو دیدیا گیا۔ حضرت ربعی بن عامر رضی اﷲ عنہٗ جب دربار سے نکلنے لگے تو جاتے ہوئے یہ کہا کہ : اے کسریٰ! یہ بات یاد رکھنا کہ تم نے ایران کی مٹی ہمیں دے دی۔ یہ کہہ کر روانہ ہوگئے۔ ایرانی لوگ بڑے توہم پرست قسم کے لوگ تھے، انہوں نے سوچا کہ یہ جو کہا کہ ایران کی مٹی ہمیں دے دے یہ توبڑی بدفالی ہوگئی اب کسریٰ نے فوراً ایک آدمی پیچھے دوڑایا کہ جاؤ جلدی سے وہ مٹی کا ٹوکرا واپس لے آؤ۔ اب حضرت ربعی بن عامر رضی اﷲ عنہٗ کہاں ہاتھ آنے والے تھے چنانچہ وہ لے جانے میں کامیاب ہوگئے اس لئے کہ اﷲ تعالیٰ نے لکھ دیا تھا کہ ایران کی مٹی انہی ٹوٹی ہوئی تلوار والوں کے ہاتھ میں ہے۔

آج مسلمان ذلیل کیوں؟
حضور نبی کریمﷺ کی سنتوں کی اتباع میں آپ کی سنتوں کی تعمیل میں ان حضراتِ صحابہ نے دنیا بھر میں اپنا لوہا منوایا اور آج ہم پر یہ خوف مسلط ہے کہ اگر فلاں سنت پر عمل کرلیا تولوگ کیا کہیں گے، اگر فلاں سنت پر عمل کرلیا تو دنیا والے مذاق اُڑائیں گے۔ انگلینڈ مذاق اُڑائے گا۔ فلاں ملک والے مذاق اُڑائیں گے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ساری دنیا میں آج ذلیل ہورہے ہیں۔ آج دنیا کی ایک تہائی آبادی مسلمانوں کی ہے آج دنیا میں جتنے مسلمان ہیں اتنے مسلمان اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئے اور آج مسلمانوں کے پاس جتنے وسائل ہیں اتنے وسائل اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئے۔ لیکن حضور نبی کریمﷺ نے فرمادیا تھا کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ تمہاری تعداد تو بہت ہوگی لیکن تم ایسے ہوگے جیسے سیلاب میں بہتے ہوئے تنکے ہوتے ہیں۔ جن کا اپناکوئی اختیار نہیں ہوتا۔ آج ہمارا یہ حال ہے کہ اپنے دشمنوں کو راضی کرنے کیلئے اپنا سب کچھ قربان کردیا۔ اپنے اخلاق چھوڑے، اپنے اعمال چھوڑے، اپنی سیرتیں چھوڑیں، اپنے کردار چھوڑے اور اپنی صورت تک بدل ڈالی سر سے لے کر پاؤں تک ان کی نقل اُتار کر یہ دکھادیا کہ ہم تمہارے غلام ہیں۔ لیکن وہ پھر بھی خوش نہیں ہیں اور روزانہ پٹائی کرتے ہیں کبھی اسرائیل پٹائی کررہا ہے کبھی کوئی دوسرا ملک پٹائی کررہا ہے لہٰذا ایک مسلمان جب حضورِ اقدس ﷺ کی سنت چھوڑ دے گا تو یاد رکھو اس کیلئے ذلت کے سوا کچھ نہیں ہے۔

ہنسے جانے سے جب تک ڈروگے

ایک شاعر گزرے ہیں اسعد ملتانی مرحوم انہوں نے بڑے اچھے حکیمانہ شعر کہے ہیں۔ فرماتے ہیں:

کسی کا آستانہ اونچا ہے اتنا
کہ سر جھک کر بھی اونچا ہی رہے گا
ہنسے جانے سے جب تک تم ڈرو گے
زمانہ تم پر ہنستا ہی رہے گا

جب تک تم اس بات سے ڈروگے کہ فلاں ہنسے گا، فلاں مذاق اُڑائے گا تو زمانہ ہنستا ہی رہے گا اور دیکھ لو کہ ہنس رہا ہے اور اگر تم نے نبی کریم سرورِ دوعالمﷺ کے قدم مبارک پر اپنا سر رکھ دیا اور آپ کی سنتوں کی اتباع کرلی تو پھر دیکھوکہ دنیا تمہاری کیسی عزت کرتی ہے۔

صاحب ایمان کے لئے اتباعِ سنت لازم ہے
یہاں ایک بات اور عرض کردوں وہ یہ کہ ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ سنتیں چھوڑنے سے ذلت ہوتی ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ سارے کفار و مشرکین امریکہ اور دوسرے یورپی ممالک والے سب نے سنتیں چھوڑ رکھی ہیں اور اس کے باوجود وہ خوب ترقی کررہے ہیں اور خوب ان کی عزت ہورہی ہے ان کو کیوں ترقی ہورہی ہے؟
بات اصل میں یہ ہے کہ تم صاحب ایمان ہو تم نے محمد رسول اﷲﷺ کا کلمہ پڑھا ہے تم جب تک ان کے قدموں پر سر نہیں رکھوگے، اس وقت تک اس دنیا میں تمہاری پٹائی ہوتی رہے گی اور تمہیں عزت حاصل نہیں ہوگی کافروں کے لئے تو صرف دنیا ہی دنیا ہے وہ اس دنیا میں ترقی کریں عزت کرائیں جو چاہے کرائیں تم اپنے آپ کو ان پر قیاس مت کرو، چودہ سو سال کی تاریخ اُٹھاکر دیکھ لیں جب تک مسلمانوں نے نبی کریمﷺ کی سنتوں پر عمل کیا اس وقت تک عزت بھی پائی شوکت بھی حاصل کی اقتدار بھی حاصل کیا، لیکن جب سنتیں چھوڑ دیں ہیں اس وقت سے دیکھ لو کیا حالت ہے۔

اپنی زندگی کاجائزہ لیں
بہرحال! تقریر تو ہوتی رہتی ہے، جلسے بھی ہوتے رہتے ہیں، لیکن اس تقریر کے نتیجے میں ہمارے اندر کیا فرق واقع ہوا؟ اس لئے آج ایک کام کا عہد کریں کہ ہم اس بات کاجائزہ لیں گے کہ ہم حضورِاقدسﷺ کی کون سی سنت پر عمل کررہے ہیں اور کون سی سنت پر عمل نہیں کررہے ہیں اور کون سی سنت ایسی ہے جس پر ہم فوراً عمل شروع کرسکتے ہیں اور کون سی سنت ایسی ہے جس میں تھوڑی سی توجہ کی ضرورت ہے؟ لہٰذا جو سنت ایسی ہے جس پر ہم فوراً شروع کرسکتے ہیں وہ آج سے شروع کردیں اور اس کااہتمام کریں۔

اﷲ کے محبوب بن جاؤ
ہمارے حضرت ڈاکٹر عبدالحئی صاحب رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے تھے کہ بیت الخلاء یا غسل خانے میں داخل ہورہے ہو، بایاں پاؤں پہلے داخل کردو اور داخل ہونے سے پہلے یہ دعا پڑھ لو کہ ’’اللّٰہم انی اعوذ بک من الخبث الخبائث‘‘ اور یہ نیت کرلو کہ یہ کام میں حضورﷺ کی اتباع میں کررہا ہوں بس پھر جس وقت یہ کام کروگے اﷲ تعالیٰ کی محبوبیت حاصل ہوجائیگی اس لئے کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ:

فاتبعونی یحببکم اﷲ۔ (سورۂ آلِ عمران۔ ۳۱)

’’اگر تم میری اتباع کروگے تو اﷲ تعالیٰ تمہیں اپنا محبوب بنالیں گے۔‘‘ لہٰذا اگر چھوٹے چھوٹے کام سنت کے لحاظ کرتے ہوئے کرلےئے جائیں بس محبوبیت حاصل ہونے لگے گی اور جب سراپا اتباع بن جاؤ گے تو کامل محبوب ہوجاؤ گے ہمارے حضرت ڈاکٹر عبدالحئی صاحب رحمتہ اﷲ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے مدتوں اس بات کی ریاضت اور مشق کی ہے کہ گھر میں داخل ہوا کھانا سامنے چنا ہوا ہے، بھوک شدت کی لگی ہوئی ہے اور کھانے کو دل چاہ رہا ہے لیکن ایک لمحے کیلئے رک گئے کہ کھانا نہیں کھائیں گے پھر دوسرے لمحے دل میں خیال لائے کہ حضورِ اقدسﷺ کی سنت تھی کہ جب آپ کے سامنے اچھا کھانا آتاتھا تو آپ اﷲ تبارک و تعالیٰ کا شکر ادا کرکے کھالیتے تھے اب ہم بھی حضورِ اقدسﷺ کی اتباع میں کھانا کھائیں گے۔ لہٰذا اب جو کھانا کھایا وہ حضور اقدس ﷺ کی اتباع میں کھایا، اور اس پر اﷲ تعالیٰ کی محبوبیت بھی حاصل ہوگئی اور طبیعت بھی سیر ہوگئی۔

یہ عمل کرلیں
گھر میں داخل ہوئے اور بچہ کھیلتا ہو ااچھا معلوم ہوا اور دل چاہا کہ اس کو گود میں اُٹھالیں، لیکن ایک لمحے کیلئے رک گئے کہ نہیں اُٹھائیں گے پھر دوسرے لمحے دل میں یہ خیال لائے کہ حضورِ نبی کریم ﷺبچوں پر شفقت فرماتے ہوئے ان کو گود میں اُٹھالیا کرتے تھے، میں بھی آپﷺ کی اتباع میں بچے کو گود میں اُٹھاؤں گا۔ چنانچہ حضورِ اقدسﷺ کی اتباع میں جب بچے کواُٹھایا تو یہ عمل اﷲ تعالیٰ کی محبوبیت کا ذریعہ بن گیا۔ دنیا کا کوئی ایسا کام نہیں ہے جس میں اتباعِ سنت کی نیت نہ کرسکتے ہوں، آپﷺ کی سنتوں پر کتاب چھپی ہوئی ہے’’اسوۂ رسولِ اکرمﷺ‘‘ وہ کتاب سامنے رکھ لیں۔ ایک ایک سنت دیکھتے جائیں اور اپنی زندگی میں داخل کرتے جائیں۔ پھر دیکھو گے انشاء اﷲ ان سنتوں کا کیسا نور حاصل ہوتا ہے اور پھر تمہارا ہر دن سیرت النبی ﷺ کا دن ہوگا اور ہر لمحہ سیرت النبی ﷺ کا لمحہ ہوگا۔ اﷲ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

وآخر دعوانا ان الحمدﷲ رب العٰلمین