حضرت مولانا مفتی محمدتقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
نائب رئیس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جامعہ دارالعلوم کراچی

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اندازِ تعلیم وتربیت
اور
اُس کے انقلابی اثرات

حمدوستائش اس ذات کے لئے ہے جس نے اس کارخانۂ عالم کو وجود بخشا
اور
درود و سلام اس کے آخری پیغمبرپر جنہوں نے دنیا میں حق کا بول بالا کیا

مدارس دینیہ میں نیا تعلیمی سال شوال کے مہینے سے شروع ہوتا ہے اس موقع پر خاص طورپر اساتذئہ کرام کی راہنمائی کے لئے نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کا ایک بصیرت افروز مقالہ شامل اشاعت ہے ،یہ مقالہ آپ نے ۱۲؍ربیع الاول ۱۳۹۸؁ ھ کو وزارت مذہبی امور پاکستان کی طرف سے منعقد کی گئی ایک سیرت کانفرنس میں پیش فرمایا تھا ، اس میںتعلیم وتربیت سے متعلق بہت اہم ہدایات ہیں ، نئے تعلیمی سال کی مناسبت سے حضرت والا دامت برکاتہم کا یہ وقیع مقالہ اساتذہ و مدرسین کے لئے نشان راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ادارہ)

 

محسنِ انسانیت ، سرورِ دوعالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پوری انسانیت کے لئے ایک عظیم اور مثالی معلّم بن کر تشریف لائے تھے ، ایسے معلّم جن کی تعلیم و تربیت نے صرف تئیس سال کی مختصر مدّت میں نہ صرف پورے جزیرئہ عرب کی کایاپلٹ کر رکھدی ، بلکہ پوری دنیا کے لئے رشد وہدایت کی وہ ابدی قندیلیں بھی روشن کردیں جو رہتی دنیا تک انسانیت کو عدل وانصاف ، امن وسکون اور عافیت و اطمینان کی راہ دکھاتی رہیں گی ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تئیس سال کی مختصر سی مدت میں جو حیرت انقلاب برپا کیا اس کی برق رفتاری اور اس کے ہمہ گیر اثرات نے ان لوگوں کو بھی انگشت بدنداں کردیاجو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مشن کے سخت مخالف رہے ہیں ، یہ آپ کی تعلیم و تربیت کا حیرت انگیز کرشمہ تھا کہ تئیس سال کی مختصر مدت میں صحرائے عرب کے جو وحشی علم ومعرفت اور تہذیب وتمدّن سے بالکل کورے تھے وہ پوری دنیا میں علم وحکمت اور تہذیب وشائستگی کے چراغ روشن کرتے ہیں ، جولوگ کل تک ایک دوسرے کے خون سے اپنی پیاس بجھارہے تھے وہ آپس میں بھائی بھائی بن جاتے ہیں، جہاں ہر طرف قتل وغارت گری کی آگ بھڑک رہی تھی وہاں امن و آشتی کے گلاب کھل اُٹھتے ہیں ، جہاں ظلم وبربریت کا دور دورہ تھا وہاں عدل وانصاف کی شمعیں روشن ہوجاتی ہیں ، جہاں پتھر کے بتوں کو سجدے کئے جارہے تھے ، وہاں توحید کا پرچم لہرانے لگتا ہے ، اور بالآخر عرب کے ہی صحرا نشین جو اپنی جہالت کی وجہ سے دنیا بھر میں ذلیل وخوار تھے ایران وروم کی عظیم سلطنتوں کے وارث بن جاتے ہیں اور ساری دنیا ان کے عدل وانصاف ، ان کی رحمدلی اور ان کی شرافتِ نفس کے گن گانے پر مجبور ہوجاتی ہے ۔
اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم وتربیت کا جو سو فیصد نتیجہ دنیا نے دیکھا ہے ، تاریخِ انسانیت کے کسی اور معلّم کے یہاں اس کی نظیر نہیں ملتی ۔ آج کی اس مختصر نشست میںہم اسی بات کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم وتربیت کی وہ کیا بنیادی خصوصیات تھیں جنہوں نے دنیا بھر میں یہ حیرت انگیز انقلاب برپا کردیا۔
موضوع تو بڑا طویل اور تفصیل کا محتاج ہے اور واقعہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اندازِ تعلیم و تربیت کی تمام خصوصیات کا احاطہ کسی بھی انسان کے لئے ممکن نہیں ہے ، لیکن میں یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اندازِ تربیت کی صرف دو خصوصیات کا ذکر کرنا چاہتاہوں جو اپنی محدود بصیرت اور مطالعے کی حدتک مجھے سب سے زیادہ بنیادی معلوم ہوتی ہیں ۔
ان میںسے پہلی خصوصیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت ورحمت ، دلسوزی وخیر خواہی اور رحمدلی ونرم خوئی ہے چنانچہ خود قرآن کریم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خصوصیت کا ذکر فرماکر اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی کا بہت بڑا سبب قراردیا ہے ۔ارشاد ہے :

فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَلَوْکُنْتَ فَظًّاغَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ (آل عمران :۱۵۹)
"پس یہ اللہ کی رحمت ہی تھی جس کی بناپر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے لئے نرم خو ہوگئے، اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم درشت مزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے منتشر ہوجاتے”

جس شخص نے بھی سیرتِ طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کچھ مطالعہ کیا ہے وہ جانتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے میں کانٹے بچھائے ، آپ کو طرح طرح سے اذیّت پہنچائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر مصائب و آلام کے پہاڑ توڑنے میں کوئی کسر اٹھانہیں رکھی ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری سیرت اس بات کی گواہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں کبھی ایک لمحے کے لئے انتقام کا جذبہ پیدانہیں ہوا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُن پر غضب ناک ہونے کے بجائے ان پر ترس کھاتے تھے کہ یہ لوگ کیسی سنگین گمراہی میں مبتلا ہیں ، اور ہر وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فکر دامن گیر رہتی تھی کہ وہ کیا طریقہ اختیار کیا جائے جس سے حق بات ان کے دل میں اتر جائے ، اور یہ ہدایت کے راستے پر آجائیں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس قسم کے معلم نہ تھے کہ محض کوئی کتاب پڑھا کر یا درس دے کر فارغ ہو بیٹھتے ہوں اور یہ سمجھتے ہوں کہ میںنے اپنا فریضہ ادا کردیا اس کے بجائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے زیر تربیت افراد کی زندگی کے ایک ایک شعبے میں دخیل تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہر دکھ درد میںشریک اور ہر لمحے ان کی فلاح وبہبود کے لئے فکر مند رہتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی وصف کو قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے :

لَقَدْ جَائَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَاعَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُوْمِنِیْنَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ (التوبۃ:۱۲۸)
"بلاشبہ تمہارے پاس تمہی میں سے ایک ایسا رسول آیا ہے جس پر تمہاری مشقت گراں گذرتی ہے ، اور جو تمہاری بھلائی کا بیحد حریص ہے ، اور مسلمانوں پر بیحد شفیق اور مہربان ہے”۔

علّامہ نور الدین ھیثمی ؒ نے مجمع الزوائد میں مسند احمد ؒ اور معجم طبرانی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ ایک نوجوان سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے آکر عرض کیا "یا رسول اللہ! مجھے زناکی اجازت دے دیجئے!___” ذرا تصور توکیجئے کہ کیا فرمائش کی جارہی ہے ؟ ایک ایسے گھناؤنے گناہ کو حلال قرار دینے کی فرمائش جس کی قباحت وشناعت پر دنیا بھر کے مذاہب و ادیان متفق ہیں ، اور یہ فرمائش کس سے کی جارہی ہے ؟ اس برگزیدہ ہستی سے جس کی عصمت وعفت سے آگے فرشتوں کا بھی سر جھک جاتا ہے ، کوئی اور ہوتا تو اس نوجوان کو مارپیٹ کر یا کم از کم ڈانٹ ڈپٹ کر باہر نکلوادیتا، لیکن یہ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم تھے جن کا کام برائی پر خفگی کا اظہار کرکے پورا نہیں ہوجاتا تھا ، بلکہ جو اس برائی کے علاج کو بھی اپنا فریضہ سمجھتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ناراض ہونے کے بجائے اُسے پیار کے ساتھ اپنے پاس بلایا ، اپنے قریب بٹھایا ، اس کے کندھے پر مشفقانہ ہاتھ رکھا اور محبت بھرے لہجے میں فرمایا : "اچھا یہ بتاؤ کہ جو عمل تم کسی اجنبی خاتون سے کرنا چاہتے ہو ، اگر کوئی دوسرا شخص تمہاری ماں کے ساتھ کرنا چاہے تو کیا تم اس کو گوارا کروگے "؟ نوجوان کے ذہن وفکر کے بند دریچے ایک ایک کرکے کھلنے لگے ، اس نے کہا "نہیں”یا رسول اللہ !” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا !”تو پھر دوسرے لوگ بھی اپنی ماؤں کے لئے یہ بات پسند نہیں کرتے ، اچھا یہ بتاؤ اگر کوئی شخص تمہاری بہن کے ساتھ یہ معاملہ کرے تو کیا تم اس کو گوارا کرلوگے؟” نوجوان نے عرض کیا:”نہیں یار سول اللہ!”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "جو بات تمہیں اپنی بہن کے لئے گوارا نہیں ، دوسرے لوگ بھی اپنی بہنوں کے ساتھ اسے پسندنہیں کرتے ” آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل اس نوجوان کو مثالیں دے کر سمجھاتے رہے اور آخر میں اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر یہ دعا بھی فرمائی کہ "اللھم اغفر ذنبہ و طھر قلبہ وحصن فرجہ ” یا اللہ ! اس کے گناہ کو معاف فرمادیجئے ، اور اس کے قلب کو پاک کردیجئے ، اور اس کی شرمگاہ کو عفّت عطافرمائیے ” یہاں تک کہ جب وہ مجلس سے اٹھا تو اس گھناؤنے عمل سے ہمیشہ کے لئے تائب ہوچکاتھا۔(۱)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس نوجوان پر غیظ و غضب کا اظہار کرکے اپنے مشتعل جذبات کی تسکین کرسکتے تھے لیکن اس صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس نوجوان کی زندگی تباہ ہوتی نظر آرہی تھی ، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نرم خوئی ، حکمت اور تدبر وتحمل ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ نوجوان ہلاکت کے گڑھے سے ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوگیا ، کاش کہ آج کے مصلحین ، اساتذہ اور واعظین سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنّت پر عمل پیرا ہوسکیں تو آج اُنہیں اپنے نوجوانوں کی بے راہ روی کی شکایت نہ رہے !
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اندازِ تعلیم و تربیت کی دوسری اہم خصوصیت جسے میں اہمیت کے ساتھ اس وقت ذکر کرنا چاہتا ہوں ، اور جو احقر کی نظر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اندازِ تربیت کی سب سے زیادہ مؤثر خصوصیت ہے ، اور وہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیرووں کو جس جس بات کی تعلیم دی ، اس کا بذاتِ خود عملی نمونہ بنکر دکھایا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وعظ ونصائح اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم وتربیت صرف دوسروں کے لئے نہ تھی ، بلکہ سب سے پہلے اپنی ذات کے لئے تھی ، اللہ تعالیٰ نے بہت سے معاملات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رخصت وسہولت عطافرمائی ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رخصت و سہولت سے فائدہ اٹھانے کے بجائے اپنے آپ کو دوسرے تمام مسلمانوں کی صف میں رکھنا پسند فرمایا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز کی تلقین فرمائی ، تو خود اپنا عالم یہ تھا کہ دوسرے اگر پانچ وقت نماز پڑھتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ وقت نماز ادا فرماتے تھے ، جس میں چاشت ، اشراق اور تہجد کی نمازیں شامل ہیں ، تہجد عام مسلمانوں کے لئے واجب نہ تھا ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر واجب تھا ، اور تہجد بھی ایسی کہ کھڑے کھڑے پاؤں پر ورم آجاتاتھا ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ عرض کیا کہ "یار سول اللہ! کیا اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اگلی پچھلی لغزشیں معاف نہیں فرمادیں ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنی محنت اٹھانے کی کیا ضرورت ہے ؟”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "بیشک اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ کرم فرمایا ہے ، لیکن کیا میں اللہ کا شکر گذار بندہ نہ بنوں؟”
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسروں کو نماز باجماعت کی تعلیم دی تو خود یہ عمل کرکے دکھایا کہ ساری زندگی نماز باجماعت کی جو پابندی فرمائی وہ تو اپنی جگہ ہے ، عین مرض وفات میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی جماعت کو نہیں چھوڑا ، بلکہ دو آدمیوں کے کندھے کا سہارا لے کر مسجد میں تشریف لائے ، اور جماعت کے ساتھ نماز ادا کی ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسروں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا تو خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل یہ تھا کہ عام مسلمان اگر رمضان کے فرض روزے رکھتے تھے تو آپ کا کوئی مہینہ روزوں سے خالی نہ تھا ، عام مسلمانوں کو یہ حکم تھا کہ صبح کوروزہ رکھ کر شام کو افطار کرلیا کریں ، لیکن خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کئی کئی روز مسلسل اس طرح روزے رکھتے تھے کہ رات کے وقت میں بھی کوئی غذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ میں نہیں جاتی تھی ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو زکوٰۃ دینے اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی تاکید فرمائی ، تو سب سے پہلے خود اپنی عملی زندگی میں اس کا بے مثال نمونہ پیش کیا، عام مسلمانوں کو اپنے مال کا چالیسواں حصہ فریضے کے طورپر دینے کا حکم تھا ، اور اس سے زیادہ حسبِ توفیق خرچ کرنے کی تلقین کی جاتی تھی ، لیکن خود آنحضرت صلی اللہ علیہ کا عمل یہ تھا کہ اپنی فوری ضرورت کو نہایت سادہ طریقے سے پورا کرنے کے بعد اپنی ساری آمدنی ضرورت مند افراد میں تقسیم فرمادیتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ تک گوارا نہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وقتی ضرورت سے زائد ایک دینار بھی گھر میں باقی رہے ایک مرتبہ عصر کی نماز کے بعد خلافِ معمول فوراً گھر میں تشریف لے گئے ، اور جلد ہی باہر واپس آئے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے وجہ پوچھی تو فرمایا : "مجھے نماز میں یاد آیا کہ سونے کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا گھر میں پڑا رہ گیا ہے ، مجھے خیال ہوا کہ ایسا نہ ہو کہ رات آجائے اور وہ محمد صلی اللہ علیہ کے گھر میں پڑا رہ جائے "حضرت ام سلمہ ؓ بیان فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رنجیدہ گھر میں تشریف لائے ،میں نے وجہ دریافت کی تو فرمایا :اُم سلمہ ؓ ! کل جو سات دینار آئے تھے ، شام ہوگئی اور وہ بستر پر پڑے رہ گئے ” حدیہ ہے کہ مرض وفات کی حالت میں جب کہ بیماری کی تکلیف نے سخت بے چین کیا ہوا تھاآپ کو یاد آتا ہے کہ کچھ اشرفیاں گھرمیں پڑی ہیں ، فوراً حکم دیتے ہیں کہ ” انہیں خیرات کردو ، کیا محمد اپنے رب سے اس طرح ملے گا کہ اس کے پیچھے اس کے گھر میں اشرفیاں پڑی ہوں”۔
عام مسلمانوں کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم یہ تھی کہ جوش میں آکر اپنی ساری پونجی خیرات کردینا مناسب نہیں بلکہ اپنی ضرورت کے مطابق مال اپنے پاس رکھ کر باقی کو اللہ کی راہ میں خرچ کرو، لیکن مسلمانوں کو اس تعلیم کا عادی بنانے کے لئے خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل کا یہ نمونہ پیش فرمایا کہ گھر میں کوئی نقدی باقی نہ چھوڑی ، تاکہ لوگ اس مثالی طرزعمل کو دیکھ کر کم از کم اس حدتک آسکیں جو اسلام کو عام مسلمانوں سے مطلوب ہے ، چنانچہ انسانیت کے اس معلمِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی عملی تربیت کا نتیجہ تھا کہ جب قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نازل ہوا کہ :

لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ (آل عمران:۹۲)
"تم نیکی کا مقام ہر گز اس وقت تک حاصل نہ کرسکوگے جب تک اپنی پسندیدہ چیزوں میں سے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو "

توصحابہ کرام ؓ نے اس آیت پر عمل کرنے کے لئے مسابقت کا جو غیر معمولی مظاہرہ فرمایا وہ تاریخ انسانیت میں اپنی مثال آپ ہے ، اس آیت کے نازل ہونے پر تمام صحابہ کرام ؓ نے اپنی پسندیدہ ترین اشیاء خیرات کردیں، اور ایسی ایسی محبوب چیزوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کردیا جنہیں وہ سال ہا سال سے حرزِ جان بنائے ہوئے تھے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیرووں کو زہد وقناعت کی تعلیم دی ، تو خود اپنی زندگی میںاس کا عملی نمونہ پیش کرکے دکھایا ، غزوئہ احزاب کے موقع پر جب بعض صحابہؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھوک کی شدّت کی شکایت کی اور پیٹ کھول کر دکھایا کہ اس پر پتھر بندھا ہوا ہے تو سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں اپنا بطن مبارک کھول کر دکھایا جس پر دو پتھر بندھے ہوئے تھے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو مساوات اور بھائی چارے کی تعلیم دی تو سب سے پہلے خود اس پر عمل کرکے دکھایا کہ اگر دوسرے مسلمان عام سپاہی کی حیثیت میں مدینہ طیبہ کے دفاع میں خندق کھودنے کی مشقت برداشت کررہے تھے تو ان کا آقا اور امیر صلی اللہ علیہ وسلم صرف قیادت ونگرانی کا فریضہ انجام نہیںدے رہاتھا ، بلکہ بہ نفسِ نفیس کدال ہاتھ میںلے کر خندق کھودنے میں شریک تھا اور زمین کا جتنا ٹکڑا ایک عام سپاہی کو کھودنے کے لئے دیاگیا تھا اتناہی ٹکڑا اس نے اپنے ذمّے لیاتھا۔
ایثار کی تعلیم ہر معلّمِ اخلاق نے دی ہے ، لیکن عموماً یہ تعلیم معلم کے الفاظ اور فلسفے سے آگے نہیں بڑھتی، اس کے برخلاف انسانیت کے اس معلم اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان سے ایثار کے الفاظ کم استعمال کئے اور عمل سے اس کی تعلیم زیادہ دی ، حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چہیتی صاحبزادی ہیں، اور مرتبے کے لحاظ سے صرف عرب کی نہیں ، دونوں جہان کی قابلِ احترام شہزادی ہیں ، لیکن چکی پیستے پیستے ان کی ہتھیلیاں گھس گئی ہیں ، وہ آکر درخواست کرتی ہیں کہ مجھے کوئی خادمہ دلوادی جائے ، لیکن مشفق باپ کی زبان سے جواب یہ ملتا ہے کہ "فاطمہ ابھی صفہ کے غریبوں کا انتظام نہیں ہوا ، اس لئے تمہاری خواہش پر عمل ممکن نہیں ۔”
آپ صلی للہ علیہ وسلم نے لوگوں کو صبروتحمل اور عفو درگزر کا درس دیا تو خود اس پر عمل پیر اہوکر دکھلایا ، ایک مرتبہ کسی شخص کا کچھ قرضہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر واجب تھا ، اس شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرض کا مطالبہ کیا ، اور اس غرض کے لئے کچھ گستاخانہ الفاظ استعمال کئے ،ساری دنیا جانتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حقوق العباد کی ادائیگی کا کس قدر اہتمام تھا ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کے تقاضے کے بغیر ہی اس کا قرض ضرور چکاتے، اس لئے اس شخص کے پاس اس تلخ کلامی کا کوئی جواز نہ تھا ، چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جاںنثار صحابہؓ نے اس شخص کا یہ گستاخانہ انداز دیکھا تو اُسے اس گستاخی کا مزہ چکھانا چاہا ، لیکن رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم اس کے تمام تر اشتعال انگیز اور تکلیف دہ رویے کو دیکھنے باوجود صحابہؓ سے فرماتے ہیں کہ :

دَعُوْہُ فَاِنَّ لِصَاحِبِ الْحَقِّ مَقَالًا
اسے رہنے دو ، وہ صاحبِ حق ہے ، اور صاحبِ حق کو بات کہنے کی گنجائش ہوتی ہے ۔

اور عفو و درگزر کا جو معاملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر فرمایا ، وہ تو ساری دنیا کو معلوم ہے کہ جن لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں پر عرصۂ حیات تنگ کرنے کے لئے ظلم وستم کا کوئی طریقہ نہیں چھوڑا تھا ، انہی لوگوں پر فتح پانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ نے یہ اعلان فرمادیا کہ:

لاَ تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ ، اِذْھَبُوْا فَاَنْتُمُ الطُّلَقَائُ
آج کے دن تم پر کچھ ملامت نہیں ، جاؤ تم سب آزاد ہو۔

خلاصہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ تعلیم وتربیت جس نے دشمنوں تک کے دل جیتے ، اور جس نے ایک وحشی قوم کو تہذیب وشائستگی کے بامِ عروج تک پہنچا یا ، اس کی سب سے بنیادی خصوصیت یہ تھی کہ وہ تعلیم محض ایک فکر اور فلسفہ نہیں تھی جسے خوبصورت الفاظ کا خول چڑھا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیرووں کے سامنے پیش کردیا ، بلکہ وہ ایک متواتر اور پیہم عمل سے عبارت تھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کی ہر ہر ادا مجسم تعلیم تھی ، چنانچہ اگر احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا استقراء کرکے دیکھا جائے تو اس میں قولی احادیث کی تعداد کم ہے ، اور عملی احادیث کی تعداد زیادہ ہے ۔ علامہ علی متقی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب "کنزل العمّال” اب تک احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے جامع ذخیرہ سمجھی جاتی ہے ، اس کتاب میں علامہ موصوفؒ نے ہرعنوان کے تحت قولی احادیث اور فعلی احادیث کو الگ الگ ذکرکیا ہے ، اگر اس کتاب ہی کا جائزہ لے لیا جائے تو بیشتر عنوانات کے تحت قولی احادیث کا حصہ مختصر اور فعلی احادیث کا حصہ زیادہ طویل نظر آتا ہے جس سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات نے روئے زمین پر جو حسین ودلکش انقلاب برپا فرمایا ، اس میں زبانی تعلیم کا حصہ کم اور عملی تعلیم کا حصہ زیادہ ہے ۔
آج اگر ہم میں اساتذہ کی تعلیم ، واعظوں کے وعظ اور خطیبوں کی تقریریں نتائج کے اعتبار سے بے جان اور اصلاحِ معاشرہ کے عظیم کام کے لئے بے اثر نظر آتی ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ آج ہمارے معلموں ، واعظوں اور خطیبوں کے پاس صرف دلکش الفاظ اور خوشنما فلسفے تو ضرور ہیں لیکن ہماری عملی زندگی ان دلکش الفاظ اور خوشنما فلسفوں سے یکسر متضاد ہے ، اور ایسی تعلیم وتربیت نہ صرف یہ کہ کوئی مفید اثر نہیں چھوڑتی ، بلکہ بسا اوقات اُس کا الٹا اثر یہ ہوتا ہے کہ مخاطب ایک شدید ذہنی کشمکش اور فکری انتشار کا شکار ہوکر رہ جاتا ہے ، استاذ کا بیان کیا ہوا زبانی فلسفہ اور مقرر کی شعلہ بیان تقریریں ایک محدود وقت کے لئے انسانوں کو اپنی طرف متوجہ ضرورکرلیتی ہیں ،لیکن جب تک اس کے ساتھ عملی نمونہ نہ ہوتو ان تقریروں سے صرف کان متأ ثر ہوتے ہیں ، اور بہت زیادہ ہوا تو عقل ان کی صحت کو تسلیم کرلیتی ہے ، لیکن دلوں کو متأ ثر کرنے اور زندگیوںکی کایا پلٹنے کا عظیم کام اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک معلم کی تعلیم اور واعظ کا وعظ خود اس کی اپنی زندگی میں عملی طورپر رچا بسا ہوا نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہمارے معلموں اور واعظوں کو اس بات کی توفیق عطافرمائے کہ وہ اس راز کو سمجھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ کی صحیح معنی میں پیروی کرسکیں ، آمین۔

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
٭٭٭٭٭٭٭٭٭

(ماہنامہ البلاغ – شوال المکرم 1442 ھ)