fatawa-usmani-2

مسئلۂ حجِ صرورہ

مسئلۂ حجِ صرورہ
(’’حجِ صرورہ‘‘ کی مفصّل اور مدلل تحقیق)

سوال:- صرورہ کسے کہتے ہیں؟ اور کیا جس شخص نے اپنا حج نہ کیا ہو اُسے دُوسرے کی طرف سے حج پر بھیجنا جائز ہے؟ اگر بھیجا جائے تو حج ادا ہوجائے گا یا نہیں؟ اور ایسا شخص دُوسرے کی طرف سے حج کرے تو کیا اس سے خود اس پر حج فرض ہوجائے گا؟ براہِ کرم یہ مسئلہ مفصّل و مدلل بیان فرمادیں۔
جواب:- جس شخص نے اپنا حج ادا نہ کیا ہو، اس کو ’’صرورہ‘‘ کہتے ہیں، وہ اگر دُوسرے کی طرف سے حج کرے تو وہ حنفیہ کے یہاں ادا ہوجاتا ہے، علامہ علاء الدین حصکفیؒ تحریر فرماتے ہیں: فجاز حجّ الصّرورۃ بمھملـۃ من لم یحجّ۔ (در مختار مجتبائی ص:۱۸۲)[۱] بشرطیکہ حج کرنے والے کو کوئی ایسا عذر لاحق نہ ہو کہ جو موت تک مستمرّ رہے، مگر زائل ہونا ممکن ہو، کیونکہ حج ایک ایسی عبادت ہے جو مالی بھی ہے اور بدنی بھی، اور ایسی عبادت کے بارے میں فقہائؒ نے یہی حکم دیا ہے، درّ مختار میں ہے: والمرکبۃ منھما کحج الفرض تقبل النیابۃ عند العجز فقط لٰـکن بشرط دوام العجز الی الموت۔ (ص:۱۸۱ مجتبائی)[۲] اور ’’بذل المجھود‘‘ میں ہے: ومرکبۃ من البدنیۃ والمالیّۃ کالحج لا تجری فیھا النّیابۃ فی غیر عذر۔ (بذل المجھود ج:۳ ص:۱۱۲)[۳] ومثلہ فی کتاب الفقہ علی المذاھب الأربعۃ۔ (ج:۱ ص:۷۰۷،)[٤] لیکن چونکہ ایک چیز کا ادا ہوجانا اور چیز ہے اور فی نفسہٖ مکروہ ہونا اور چیز، اس لئے یہاں بھی حجِ صرورہ فی نفسہٖ تو مکروہ ہے، لیکن اگر کوئی کرلے تو ادا ہوجائے گا۔
اب اس کراہت کی نوعیت میں تھوڑی سی تفصیل یہ ہے کہ اگر حجِ بدل کرنے والا ایسا شخص ہے کہ جس پر حج فرض تھا مگر اس نے نہیں کیا، تب تو اس کے لئے حجِ بدل کرنا مکروہِ تحریمی ہے، اور حج کروانے والے کے لئے مکروہِ تنزیہی ہے۔ (شامی ج:۲ ص:۲۳۱)[۵] اور اگر حجِ بدل کرنے والے پر حج فرض نہیں ہے تو دونوں کے لئے مکروہِ تنزیہی یعنی خلافِ اَوْلیٰ ہے۔ بہرحال! افضل یہی ہے کہ حجِ بدل اس شخص سے کرایا جائے جس نے اپنا حج کرلیا ہو، جیسا کہ عالمگیریہ میں ہے: والأفضل للانسان اذا أراد أن یحج رجلا عن نفسہٖ أن یحجّ رجـلًا قد حجّ عن نفسہٖ ومع ھٰذا لو أحجّ رجـلًا لم یحجّ عن نفسہٖ حجّۃ الاسلام یجوز عندنا۔ (عالمگیریہ ج:۱ ص:۲۷۴)[٦] اور فتاویٰ قاضی خان میں ہے: قالوا وینبغی أن یکون الحاجّ رجـلًا حجّ مرّۃً۔ (فتاویٰ خانیہ ج:۱ ص:۲۶۰)۔[۷]
اور تنقیح حامدیہ میں ہے: یجوز لمن لم یکن حجّ عن نفسہٖ أن یحجّ عن غیرہٖ لٰـکنّہ خلاف الأفضل۔ (العقود الدّرّیۃ ج:۱ ص:۱۳)۔[۸]
الغرض! ان اور ان جیسی دُوسری نصوص سے یہ بات تو پایۂ ثبوت تک پہنچ گئی ہے کہ حجِ صرورہ عن الغیر خلافِ اَوْلیٰ ہے، لیکن ادا ہوجاتا ہے۔
رہا یہ مسئلہ کہ اگر کوئی صرورہ حجِ بدل کرے تو اس پر اپنا حج فرض ہوجاتا ہے یا نہیں؟ سو اس سلسلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف نظر آتا ہے، حتیٰ کہ کئی علماء نے اس پر مستقل رسالے لکھے ہیں، جن میں سے سیّد عبدالغنی نابلسی اور سیّد احمد بادشاہ رحمہما اللہ کے رسالوں کا ذکر علامہ شامی رحمہ اللہ نے کیا ہے۔ (العقود الدریۃ ج:۱ ص:۱۳،[۹] و شامی ج:۲ ص:۲۳۲)۔[۱۰]
اور یہ اختلاف بھی متقدمین میں نہیں ہے، بلکہ مشائخِ متأخرینؒ میں ہے، جیسے کہ علامہ حامد آفندی عمادیؒ کے اس کلام سے معلوم ہوتا ہے: وھل یجب علیہ ان یمکث بمکّۃ حتّٰی یحجّ عن نفسہٖ لم أرہٗ الَّا فی فتاویٰ أبی السّعودؒ۔ (تنقیح الحامدیۃ ج:۱ ص:۱۳)۔[۱۱]

تنقیح خلاف
مجمع الأنہر کے مصنف تحریر فرماتے ہیں: ویجوز احجاج الصّرورۃ ۔۔۔۔۔ ولٰـکن یجب علیہ عند رؤیۃ الکعبۃ الحجُّ لنفسہٖ وعلیہ أن یتوقف الٰی عامٍ قابلٍ ویحجّ لنفسہٖ أو أن یحجّ بعد عودہ أھلہٖ بمالہٖ وان فقیرًا فلیحفظ والنّاس عنھا غافلون۔ (مجمع الأنھر ج:۱ ص:۳۰۸)۔[۱۲]
مُلَّا علی قاریؒ نے بھی شرح منسک کبیر میں اس کی تأیید فرماتے ہوئے لکھا ہے: انہ بوصولہٖ لمکّۃ وجب علیہ الحجّ۔ (بحوالہ العقود الدریۃ ج:۱ ص:۱۳)[۱۳] سیّد احمد بادشاہ رحمہ اللہ نے بھی ایک مستقل رسالہ لکھ کر اس کی تائید کی ہے، جیسا کہ علامہ شامی رحمہ اللہ نے لکھا ہے، (بحوالۂ مذکورہ)۔[۱٤]
علامہ ابن حمزہ نقیبؒ نے بھی نہج النجاۃ میں اسی پر فتویٰ دیا ہے۔ (شامی ج:۲ ص:۲۳۲)[۱۵] علامہ ابوالسعود[۱٦] اور صاحب سکبُ الأنھر نے بھی اسی پر فتویٰ دیا ہے۔ (ردّ المحتار ج:۲ ص:۲۳۲)۔[۱۷]
اس کے برخلاف مندرجہ ذیل علماء و فقہاء رحمہم اللہ نے عدمِ وجوب کا قول اختیار کیا ہے:-
۱:- علامہ سیّد عبدالغنی نابلسی رحمہ اللہ نے اس مسئلے پر مستقل رسالہ لکھ کر ثابت کیا ہے کہ حج واجب نہ ہوگا، (العقود الدریۃ ج:۱ ص:۱۳[۱۸] و شامی ج:۲ ص:۲۳۲)۔[۱۹]
۲:- علامہ ابنِ عابدین شامی رحمہ اللہ نے ردّ المحتار میں اسی قول کو دلالۃً اختیار کیا ہے، (ملاحظہ ہو شامی ج:۲ ص:۲۳۲)۔[۲۰]

واجب کہنے والوں کے دلائل
جہاں تک احقر نے جستجو کی ہے، واجب کہنے والوں کے دلائل مجموعی اعتبار سے یہ نظر آئے:-
۱:- حجِ بدل کرنے والا ایک مرتبہ کعبۂ مشرفہ تک پہنچنے پر قادر ہوچکا، لہٰذا ’’مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْـلًا‘‘[۲۱] میں داخل ہونے کے سبب اس پر آئندہ سال حج فرض ہوجائے گا۔
۲:- جیسا کہ علامہ شامی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے،[۲۲] علامہ ابنِ حمزہ نقیبؒ نے نہج النجاۃ میں یہ دلیل پیش کی ہے کہ بدائع الصنائع میں ہے کہ: یکرہ احجاج الصرورۃ لأنّہٗ تارک فرض الحجّ۔[۲۳] اس سے یہ مستفاد ہوتا ہے کہ وہ شخص دُخولِ مکہ سے حج عن نفسہٖ پر قادر ہوچکا ہے، اگرچہ اس وقت دُوسرے کا حج کرنے میں مشغول ہے۔
۳:- علامہ شامی رحمہ اللہ نے لباب سے نقل کیا ہے: الفقیر الاٰفاقیّ اذا وصل الٰی میقات فھو کالمکّی قال شارحہٗ أی حیث لا یشترط فی حقہٖ الَّا الزّاد والرّاحلۃ ان لم یکن عاجزًا عن المشی۔ (ردّ المحتار ج:۲ ص:۱۹۵)۔[۲٤]
ایک آفاقی فقیر اگر میقات تک پہنچ جائے تو اس کے اَحکام مکی جیسے ہوتے ہیں، اس لئے صرورہ فقیر کا حکم بھی یہی ہوگا۔

قائلینِ وجوب کے جوابات
لیکن یہ تمام دلائل حیزِ قبول میں نہیں ہیں، بلکہ ان کے خلاف دُوسرے دلائل قویّہ موجود ہیں۔
چنانچہ پہلی دلیل کا جواب یہ ہے کہ یہ استطاعت معتبر نہیں ہے، کیونکہ اس کی مثال بالکل ایسی ہے کہ کوئی امیر شخص کسی غریب کو ادائِ زکوٰۃ کے لئے وکیل بنائے، اور وہ وکیل زکوٰۃ ادا کرے تو کوئی بھی اس کو یہ نہیں کہتا کہ یہ قادر ہوگیا، لہٰذا اس پر اپنی زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہے، بعینہٖ اسی طرح ایک صرورہ فقیر اگر حجِ بدل کے لئے مکہ پہنچ گیا تو اگر وہ آمر بالحج کے بجائے اپنا حج کرنا شروع کردے تو یہ تصرّف فی مال الغیر بغیر اذنہٖ ہے، اور اگر اپنا حج بھی کرے اور اس کا بھی تو یہ تداخل لازم آنے کے سبب محال ہے، اور اگر ایک سال تک وہیں ٹھہرا رہے تو حرجِ عظیم ہے، کیونکہ وہ فقیر ہے، اور عادۃً سفر میں انسان ایک سال تک کے مصارف ساتھ نہیں رکھتا، اور پھر اس کے اہل و عیال وغیرہ وطن میں بے سہارا رہیں گے، خصوصیت سے اس زمانے میں کہ ایک ملک کی حکومت کسی غیرملکی کو اپنے ملک میں زیادہ عرصہ قیام کی اجازت نہیں دیتی، اور اگر اس وقت لوٹ آئے اور اگلے سال پھر جائے تو یہ دو حال سے خالی نہیں، ایک یہ کہ اس عرصہ میں وہ غنی ہوجائے، سو اس صورت میں ہم بھی وجوبِ حج کے قائل ہیں، نہ اس وجہ سے کہ وہ پہلے حج کو جاچکا ہے، بلکہ اس لئے کہ وہ غنی ہوگیا۔ دُوسرے یہ کہ اگر وہ غنی نہ ہو تو حج بغیر غنیٰ کیسے کرسکتا ہے؟
غرض یہ آیت وجوبِ حج پر دلیل بناکر پیش کرنا صحیح نہیں معلوم ہوتا، بلکہ یہ تو عدمِ وجوب پر دال ہے جیسا کہ ہم انشاء اللہ عنقریب بیان کریں گے۔
رہی دُوسری دلیل سو دراصل وہ صرورہ غنی کے بارے میں ہے، جیسے کہ ابنِ ہمامؒ کا صنیع اس پر دال ہے کہ انہوں نے صاحبِ بدائع کا یہ جملہ نقل کرنے کے بعد حج صرورہ کی صحت پر استدلالات پیش کئے اور پھر لکھا ہے کہ: والّذی یقتضیہ النّظر أنّ حجّ الصّرورۃ عن غیرہٖ ان کان بعد تحقیق الوجوب علیہ بملک الزّاد والرّاحلۃ والصحۃ فھو مکروہ کراھۃ تحریم لأنّہٗ یتضیق علیہ ۔۔۔۔ الخ۔ (فتح القدیر ج:۲ ص:۳۲۱)۔[۲۵] علامہ شامیؒ نے بھی اس عبارت کو صرورہ غنی پر محمول قرار دیا ہے، (ملاحظہ ہو ردّ المحتار ج:۲ ص:۳۳۱، ۳۳۲)۔[۲٦]
باقی رہی تیسری دلیل تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ قیاس مع الفارق ہے، کیونکہ صرورہ فقیر قادر بقدرۃ غیرہٖ ہے، اور قدرت بقدرۃ غیرہٖ معتبر نہیں، کما قرّرنا۔ بخلاف آفاقی فقیر کے کہ وہ قادر بقدرۃ نفسہٖ ہے، اس لئے ایک کو دُوسرے پر قیاس کرنا صحیح نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ علامہ شامیؒ نے جہاں آفاقی فقیر کا مسئلہ بیان فرمایا ہے، وہاں تو اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا کہ: ان المأمور بالحج اذا وصل الٰی مکۃ لزمہٗ ان یمکث لیحجّ حجّ الفرض عن نفسہٖ لکونہٖ صار قادرًا علٰی ما فیہ۔ (شامی ج:۲ ص:۱۹۵)۔[۲۷] لیکن باب الحج عن الغیر کے اندر اس دلیل کو رَدّ کیا ہے، (شامی ج:۲ ص:۳۳۲)۔[۲۸]

عدمِ وجوب پر دلائل
۱:- وہ آیت جو قائلینِ وجوب کے استدلال میں تحریر کی گئی تھی، دراصل عدمِ وجوب پر دال ہے، کیونکہ اس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ حج لوگوں پر اس وقت فرض ہوتا ہے جبکہ قطعِ سبیل کی استطاعت ہو، اور صرورہ فقیر اس میں داخل نہیں ہوتا، جیسے کہ ہم نے اُوپر عرض کیا کہ اگر وہ وہاں رہتا ہے تو تکلیف ہے، اور اگر واپس آتا ہے تو اس کی سابقہ اور موجودہ کیفیت میں کوئی فرق نہیں، اگر وہ فقیر ہی ہے تو ’’مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْـلًا‘‘[۲۹] میں داخل نہیں، لہٰذا آئندہ سال بھی اس پر حج فرض نہ ہونا چاہئے۔ اور اگر شبہ کیا جائے کہ وہ قرض لے کر جاسکتا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس صورت میں بھی قدرت بقدرۃ غیرہٖ ہوگی، جو معتبر نہیں۔
۲:- ’’لَا یُکَلِّفُ اﷲُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا‘‘[۳۰] مجمع الأنھر وغیرہ میں صرورہ فقیر کو اس بات کا اختیار دیا گیا ہے کہ وہ یا مکہ میں ٹھہر کر آئندہ سال کا انتظار کرے یا وطن واپس جاکر دوبارہ آئے، تو اس کا حاصل یہ ہے کہ وہ اگر دونوں میں سے کسی ایک شق کو اختیار کرلے تو جائز ہے، اب اگر وہ قصداً یا خطأً وہاں سے چلا آئے اور ہم اس پر حج فرض ہونے کا حکم لگادیں تو یہ تکلیف ما لا یطاق ہے، کیونکہ صرورہ اس کی وسعت نہیں رکھتا، اور وہ مذکورۃ الصدر آیت کی رُو سے صحیح نہیں۔
اس آیت میں ’’اِلَّا وُسْعَھَا‘‘ کے الفاظ بطورِ خاص قابلِ غور ہیں، کیونکہ یہاں وسعت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، امکان کا نہیں، اس لئے وہ شبہ بھی اس دلیل سے دُور ہوگیا جو پہلی دلیل میں ہوسکتا تھا کہ وہ قرض لے کر جاسکتا ہے۔
۳:- اور اگر علی سبیل التنزّل یہ مان لیا جائے کہ امکان یا وسعت ہے، تو اس میں کوئی شک نہیں کہ مشقت اور حرجِ عظیم ہے، جو: ’’اِنَّ الدِّیْنَ یُسْرٌ‘‘[۳۱] وغیرہ کے خلاف ہونے کے سبب اَحکامِ شرعیہ میں تخفیف کا باعث بنتا ہے۔
اگر اس پر یہ اعتراض کیا جائے کہ حرج اور مشقت ہر جگہ معتبر نہیں، تو اس کا جواب یہ ہے کہ علامہ ابنِ نجیمؒ نے لکھا ہے: المشقۃ والحرج انّما یعتبر فی موضع لا نصّ فیہ۔ (الأشباہ والنظائر ج:۱ ص:۱۱۷)۔[۳۲]
مسئلۂ زیرِ بحث میں بھی کوئی نص موجود نہیں، حتیٰ کہ ائمہ حنفیہ بلکہ مشائخ تک سے کوئی قول منقول نہیں ہے، جیسا کہ علامہ حامد آفندیؒ نے اپنے فتاویٰ میں اس کی تصریح فرمائی ہے: لم أرہ الَّا فی فتاویٰ أبی السّعود۔ (عقود دریہ ج:۱ ص:۱۳)۔[۳۳] اس لئے یہاں پر باعثِ تخفیف بننے میں کوئی مانع نظر نہیں آتا۔

خلاصہ
غرض پوری بحث سے خلاصہ کے طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حجِ صرورہ ادا ہوجاتا ہے، لیکن اس کی وجہ سے کسی فقیر پر حج واجب نہیں ہوتا۔ ھٰذا ما ظھر لی بعد بحثٍ وتفتیش ونظر وتفحص کثیر، والعلم الصحیح عند اﷲ اللطیف الخبیر، اذ ھو أعلم بما ھو صواب والیہ مصیرنا والماٰب۔ واٰخر دعوانا ان الحمدﷲ رب العٰلمین وسلٰمٌ علی المرسلین والعاقبۃ للمتقین۔

الجواب صحیح
احقر العباد محمد تقی العثمانی
بندہ محمد شفیع عفا اللہ عنہ
غفر اﷲ لہٗ وھداہٗ الی الصواب
۲۷؍۱۱؍۱۳۷۹ھ[۳٤]