خطاب: حضرت مولانا مفتی محمدتقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
ضبط و تحریر :مولوی شفیق الرحمٰن صاحب۔فاضل جامعہ دارالعلوم کراچی

تعزیتی خطاب

حمدوستائش اس ذات کے لئے ہے جس نے اس کارخانۂ عالم کو وجود بخشا
اور
درود و سلام اس کے آخری پیغمبرپر جنہوں نے دنیا میں حق کا بول بالا کیا

شیخ الحدیث حضرت مولانا ڈاکٹر عادل خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت کے المناک واقعے سے متعلق ۲۲؍ربیع الثانی ۱۴۴۲ ھ اتوار کے روز جامعہ فاروقیہ فیز ٹو میں ایک تعزیتی جلسہ منعقد کیاگیا ، جس میں بہت سے علماء کرام نے شرکت فرمائی اس موقع پرنائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے بہت ہی تسلی آمیز خطاب فرمایا جو اہم ہدایات پر بھی مشتمل ہے ۔ یہ خطاب ہدیۂ ناظرین ہے ۔ (ادارہ)

 

الحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی سیدنا ومولنا محمدخاتم النبیین وإمام المرسلین والمبعوث رحمۃ للعلمین، وعلی آلہ وأصحابہ أجمعین، وعلی کل من تبعہم بإحسان إلی یوم الدین، أما بعد!

میرے انتہائی محترم حضرت مولانا عبید اللہ خالد صاحب دامت برکاتہم،حضرت مولانا محمد حنیف جالندھری صاحب دامت برکاتہم ،حضراتِ علماء کرام اور میرے عزیز طالبعلم ساتھیو!
السلا م علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج جس شخصیت کی یاد میں ہم لوگ جمع ہیں ،جیسا کہ مولانا حنیف جالندھری صاحب نے فرمایا کہ ہم میں سے ہر ایک اس پر تعزیت کا مستحق ہے،گھر والوں کے علاوہ امت کا ہر فرد مستحقِ تعزیت ہے اور اگر میں یہ کہوں کہ میں بھی ان کے اہل ِ خانہ کے برابر نہ سہی لیکن کم از کم ان کے قریب مستحقِ تعزیت ہوںتو بے جانہ ہوگا،اسی واسطے میرے پاس دنیا بھر سے تعزیتی پیغامات موصول ہوئے،امریکہ، برطانیہ، جنوبی افریقہ سے بنگلہ دیش سے اورپاکستان کے مختلف شہروں سے تعزیتی پیغامات موصول ہوئے۔اُنہوں نے مجھے بھی مستحقِ تعزیت سمجھا اور یہ صدمہ میں کبھی بھول نہیں سکتا کہ ا ن(حضرت مولانا ڈاکٹر عادل خان صاحب شہیدرحمہ اللہ)کے آخری لمحات میرے ساتھ گزرے، شہادت سے صرف بیس منٹ پہلے میں نے ان کو اپنے گھر سے رخصت کیا، بالکل خوش وخرم ،صحت مند ،تندرست ،چاق وچوبنداور جیسا کہ مولانا حنیف جالندھری صاحب نے فرمایاکہ وہ مدارس ہی کے تحفظ اور اس کی حریتِ فکر وعمل کے داعی تھے اور اسی سلسلے میں یہ ملاقات بھی تھی اور میرے گھر سے جدا ہونے کے صرف بیس منٹ بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو شہادت جیسا عظیم مرتبہ عطا فرمایا ۔یہ صدمہ میں کبھی بھول نہیں سکتا ،ایسا لگتا ہے کہ وہ میرے ہاتھوں سے نکل کرگئے۔ ــانا للہ وانا الیہ راجعون۔
اُن کا دنیا سے چلا جانا ہمارااور پوری امت کا ایک بہت بڑا نقصان ہے اور ایسا نقصان ہے کہ جس کی تلافی آسان نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ وہ ضرور تلافی کریں گے۔
کائنات میں سب سے بڑا صدمہ
میں سوچتا ہوں کہ اس کائنات میں کسی کا صدمہ اتنا بڑا نہیں جتنا صدمہ حضراتِ صحابہ کرام کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے ذریعہ پہنچا،یہ وہ صحابہ تھے کہ اس دنیا میںہماری خواہشات ، ہماری تمنائیں اورہماری قربانیاں اگر کسی شخص کی موت کا وقت مؤخر کرنے کے لیے کافی ہوتیں تو یہ صحابہ کرام وہ لوگ تھے کہ جو یقینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ایک ایک سانس کے بدلے اپنی ہزاروں زندگیاں قربان کرسکتے تھے۔ لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ کا فیصلہ اٹل تھا، صدمہ بھی ہوا اورایسا صدمہ کہ روئے زمین پر کسی اور کو ایسا صدمہ نہیں ہوا ہوگا، لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیت کے آگے انہوں نے سرِتسلیم خم کیا اور صدیقِ اکبر نے یہ جملہ فرمایا :
من کان منکم یعبد محمدافإن محمدا قد مات ومن کان منکم یعبد اللہ فإن اللہ حی لا یموت
صدیق اکبر کا صبر و تحمل
حیرانی ہوتی ہے کہ وہ صدیقِ اکبر جو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث سن کر”کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندہ کو اختیار دیا تھا اس نے اللہ تعالیٰ کو اختیار کرلیا” اس وقت موجود صحابہ کرام میں سے ایک صدیق اکبر تھے جو یہ سن کر رورہے تھے اور لوگ حیران تھے کہ یہ کیوں رورہے ہیں؟ لیکن حضرت صدیقِ اکبر اس لئے رو رہے تھے کہ ان کو اس بات کا احساس ہوگیا تھا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری دیدار کے زمانے ہیں اور کچھ عرصے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے تشریف لے جائیںگے ۔
بعض روایات میں ہے کہ جب سورۃ النصر نازل ہوئی تو اس وقت بھی صدیق اکبر رورہے تھے جبکہ دوسرے لوگ حیران ہورہے تھے کہ اس سورت میں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد کا اور فتح کا بیان ہے پھر صدیق اکبر کیوں رورہے ہیں لیکن وہ اس لئے رورہے تھے کہ جب اللہ تعالیٰ کی مدد آگئی اور فتح آگئی تو رسولِ کریم سروردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کا مقصد پورا ہوگیا، اب آپ جلد از جلد ہم سے جدا ہونے والے ہیں،یہ کسی اور کو احساس نہیں ہوا صرف ابوبکر صدیق کو ہوا۔ لیکن جب وفات ہوئی تو اس موقع پر ایک جملہ ارشاد فرمایا جب فاروقِ اعظم کے بھی اوسان خطا ہو چکے تھے ،صدیقِ اکبر نے کھڑے ہوکر جو جملہ کہا :
"من کان منکم یعبد محمدافإن محمدا قد مات ومن کان منکم یعبد اللہ فإن اللہ حی لا یموت”
اس وقت "رسول اللہ” بھی نہیں کہا ،رسول کریم سرور ِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اور کوئی تعظیم کے الفاظ بھی استعمال نہیں کئے بلکہ یہ فرمایا کہ "من کان منکم یعبد محمدا۔۔ الخ یہ وہ شخص کہہ رہا ہے جس کو سب سے زیادہ صدمہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر ہواتھا ،وہ یہ الفاظ کہہ رہا ہے کہ:

” جو محمد کی عبادت کرتا تھا وہ سن لے کہ محمدکا انتقال ہوگیا اور جو اللہ کی عبادت کرتا تھا تو اللہ ہمیشہ کے لیے ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ کے لئے زندہ ہے اس کو کبھی موت نہیں آئے گی”

اور پھر یہ آیت پڑھی:

وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَی أَعْقَابِکُمْ (آل عمران آیت:۱۴۴)
محمد تو ایک اللہ کے پیغمبر ہیں اگر ان کو موت آجائے یا وہ قتل ہوجائیں تو کیا تم الٹے اپنی ایڑیوں پر پلٹ جاؤگے ؟

حضرت عمر فاروق نے فرمایا کہ یہ آیت سن کر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے یہ آیت اب ناز ل ہوئی ہے۔جب اللہ تبارک وتعالی کوئی صدمہ دیتے ہیں تو جتنا جس سے زیادہ قریبی تعلق ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ صدمہ کے وقت اللہ تبارک وتعالیٰ اس کو صبرِ جمیل عطا فرماتے ہیں ،اس کے قلب پر صبر کا الہام فرماتے ہیں،اس کا میں نے اپنی زندگی میں بہت تجربہ کیا ہے،اسی طرح حضرت مولاناعادل خان شہید رحمہ اللہ کی شہادت کے واقعہ میں بھی ۔
اُن کے چھوٹے صاحبزادے مولانا عمیر صاحب جوان کے ساتھ میرے پاس آئے او ر بڑے صاحبزادہ مفتی انس صاحب میرے پاس آتے رہتے تھے ان کے ہر کام میں شریک تھے، اس آخری ملاقات میں یہ(چھوٹے صاحبزادے مولانا عمیر صاحب)حضرت مولانارحمہ اللہ کے ساتھ موجود تھے اور میں نے ان کو رخصت کیا ، یہ سارا واقعہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا جس کا کوئی تصوّر نہیں تھا، جس کی کوئی توقع نہیں تھی، اِن سے زیادہ کس کو صدمہ ہوگا ؟مفتی انس ،مولانا عمیر اور حضرت مولانا عبیداللہ خالد صاحب ان (مولانا عادل خان شہید رحمہ اللہ)کے برادرِ گرامی، ان سے زیادہ صدمہ کس کو ہوگا؟لیکن جتنا ان کو صدمہ کے اندر میں نے پُرسکون پایا اور جتنا میں نے ان کوصبر و ثبات کا پیکر دیکھا وہ بذاتِ خود اللہ تبارک وتعالیٰ کی ایک نعمت ہے ۔تو اللہ تبارک وتعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ جس کو جتنا تعلق زیادہ ہوتا ہے چاہے وہ شخص پہلے اس کی موت کا تصور کرتے ہوئے بھی گھبراتا ہو لیکن واقعہ پیش آنے کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ اس کو صبر و ثبات سے نوازتے ہیں اور ایسے ہی یہاں بھی ہوا۔ـ الحمد للہ۔
اللہ تعالیٰ کی مشیت ہماری خواہشات کی پابند نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کی مشیت اس کائنات کی حکمتوں کی بنیاد پر فیصلے کرتی ہے،ہم بیشک بہت غمگین ہیں،ہمیں بڑا صدمہ ہے لیکن ساتھ ہی اللہ تبارک وتعالیٰ کی مشیت پر اور اس کی تقدیر پر ہم سب راضی ہیں یقینا ً اللہ تبارک وتعالیٰ کی اس میں بڑی حکمت تھی اور ان شاء اللہ اس حکمت کا مظاہر ہ بھی ہوگا ۔
آفتاب جب چھپتا ہے تو ستارے ظاہر ہوجاتے ہیں
حضراتِ علماء کرام کی خدمت میں ،میں ایک بات عرض کرتا ہوں کہ رسول کریم سرورِدو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت سے لیکر آج تک کتنی بڑی بڑی شخصیات دنیا سے رخصت ہوئیں، ایسا معلوم ہوا کہ اندھیرا چھا گیا لیکن اللہ جل جلالہ کی سنت یہ رہی ہے کہ آفتاب چُھپتا ہے تو ستارے ظاہر ہوجاتے ہیں، چاند نکل آتا ہے اور پھر ایک تاریک رات چاند اور ستاروں سے منور ہونے کے بعد ایک صبح کو جنم دیتی ہے ،اور ایک صبح پھر دوبارہ آتی ہے ،ہماری تاریخِ اسلام اسی سے عبارت ہے۔ ایسی ایسی شخصیتیں اُٹھیں کہ جن کے بارے میں خیال ہوا کہ ایک تاریک رات ہم پر چھا گئی ہے لیکن اللہ تبارک تعالیٰ نے کچھ ستارے پیدا کئے ،چاند پیدا کیا اور پھر دوبارہ صبح طلوع ہوگئی ۔

شہداء کی برزخی زندگی سے متعلق ایک تفسیری نکتہ
قرآن ِ کریم میں جہاں شہید کا ذکر ہے :

وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ یُقْتَلُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْیَاء ٌ وَلَکِنْ لَا تَشْعُرُونَ (البقرۃ:۱۵۴)
"جو اللہ کے راستے میں شہید ہوتے ہیں ان کو مُردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں شعور نہیں "

یہاں تو یہ الفاظ ہیں"بَلْ أَحْیَاء ٌ وَلَکِنْ لَا تَشْعُرُونَ”اور دوسری جگہ قرآن کریم میں اسی بات کو بیان فرمایا گیا ہے ،لیکن وہاں یہ الفاظ ہیں:

بَلْ أَحْیَاء ٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُونَ (آل عمران:۱۶۹)
"کہ شہداء اپنے پروردگار کے پاس زندہ ہیں اور ان کو رزق دیا جارہاہے”

سورۂ آل عمران میںتو عِنْدَ رَبِّہِمْ کی قید لگائی گئی ہے جبکہ سورۃ البقرۃ میں یہ قید نہیں ہے بلکہ یہ فرمایا کہ یہ زندہ ہیں جس کے معنیٰ ہیں کہ علی الاطلاق زندہ ہیں، آخرت میں بھی زندہ ہیں ،اپنے پروردگار کے پاس بھی زندہ ہیں اور اس دنیامیں بھی زندہ ہیں لیکن تمہیں شعور نہیں ہے ۔تو ذہن میں یہ بات آتی ہے، ــاللہ تعالیٰ مجھے قرآن کریم کی تفسیرمیں غلطی سے محفوط رکھیــ کہ شہداء کی دوحالتیں بیان کی گئی ہیں ایک حالت تو وہ جو آخرت میں ہوگی:

بَلْ أَحْیَاء ٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُونَ، فَرِحِینَ بِمَا آتَاہُمُ اللَّہُ مِنْ فَضْلِہِ (آل عمران:۱۶۹)

یہ آخرت کا بیان ہے کہ شہداء کو آخرت میں کیا مرتبہ نصیب ہوگاکہ وہ اپنے پروردگار کے ساتھ ہوں گے باری تعالیٰ کا سب سے زیادہ قرب ان کو حاصل ہوگا "عند”کا لفظ عربی زبان میں قرب کے لیے آتا ہے تووہ اپنے پروردگار کے انتہائی قریب ہوں گے ،آخرت میں تو یہ مقام ہے ۔
جبکہ سورۃ البقرۃ میں”احیاء "کے ساتھ "عند ربہم”کی قید نہیں ہے ،وہ زندہ ہیں یعنی آخرت میں بھی زندہ ہیں اور دنیا میں بھی زندہ ہیں اب دنیا میں زندہ ہونے کے ایک معنیٰ تو وہ ہیں جو ہمارے حضراتِ علماء کا عقیدہ ہے کہ شہداء کی حیاتِ برزخی اتنی اعلیٰ ہے ،اتنی اونچی ہے اور وہ ایسی ہے جیسا کہ حیاتِ دنیویہ ہوتی ہے،اگرچہ تمام اعتبارات سے تونہیں لیکن حیاتِ برزخیہ کے مدارج ہیں ان مدارج میں ان کو بہت اونچا مرتبہ حاصل ہے۔ لیکن اس آیت کے ایک دوسرے معنیٰ بھی ہوسکتے ہیں اور وہ یہ کہ شہداء کی شہادت کو اللہ تبارک وتعالیٰ دنیا میں بھی رائیگاں نہیں جانے دیتا وہ شہید ہونے کے بعد بھی دنیا میں اپنے مآثر سے زندہ رہتے ہیں، اپنی خدمات سے زندہ رہتے ہیں، اپنے کارناموں سے زندہ رہتے ہیں، اپنے وارثوں سے زندہ رہتے ہیں،ان کے مشن کا علم اٹھانے والوں سے زندہ رہتے ہیں، لہٰذایہ بشارت ہے ان لوگوں کے لیے جو کسی شہید کے پسماندگان ہوتے ہیں اور ہم سب پسماندگان ہیں ۔ان کے لئے ایک بشارت ہے کہ پروردگار کے پاس تو ان شاء اللہ وہ ہیں ہی زندہ اوراللہ تعالیٰ جو کچھ ان کو دے رہے ہیں اس پر بڑے خوش ہیں، مگن ہیں ،لیکن اے مسلمانو! اس دنیا کے اندر بھی وہ شہید اپنے کارناموں کی وجہ سے زندہ ہیں اگر تم نے ان کے مشن کو جاری رکھا تو وہ اپنے مشن کے جاری رہنے سے بھی زندہ ہیں ۔
حضرت ڈاکٹرصاحب رحمہ اللہ کی خدمات
اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت مولانا ڈاکٹر عادل خان صاحب رحمہ اللہ سے ان کی زندگی میں جو خدمات لیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے جن خدمات کی ان کو توفیق عطا فرمائی ان کا کچھ بیان آپ پہلے سن چکے ہیں، میں ان کو دُھرانا نہیں چاہتا ،ہر طالبعلم کو معلوم ہونا چاہیے کہ امریکہ میں انہوں نے کیا خدمات انجام دیں ،ملائیشیا میں انہوں نے کیا خدمات انجام دیں اوریہ کوئی معمولی بات نہیں ہے اور ایسی مثال آپ کو شاذو نادر ہی ملے گی، شاید نہ ملے کہ ایک آدمی ایک انٹرنیشنل یونیورسٹی میں ایک اعلیٰ ترین پروفیسر کے طورپر کام کر رہا ہو جہاں اس کو دنیا کی عیش وآرام کی تمام سہولتیں میسر ہوں وہ ان کو ٹھوکر مار کر ایک دینی مدرسے کی خدمت کے لئے ملائیشیا چھوڑ کر پاکستان آگیا ہو،ایسی مثالیں آپ کو شاید نہ ملیں اور اگر ملیں بھی تو بہت کم۔
اور پھریہا ںجامعہ فاروقیہ کی ایک ایک اینٹ ان کی خدمات کی گواہی دے رہی ہے یہ خدمات تو تھیںلیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے اُن سے جو کام لیا جس کا بیان آپ سن چکے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کو جو صلاحیتیں عطا فرمائی تھیں ان صلاحیتوں سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ سارے کام لئے ۔
حضرت ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ کی زندگی اور ہمارے لئے نصیحت
ہمارے لئے جو نصیحت ہے وہ یہ کہ اپنی پوری کوشش اور پوری توانائی اپنی طالبعلمی کے زمانے میں اُن کمالات کو اور اُن اوصاف کو حاصل کرنے میں صَرف کریں جنہوں نے مولانا عادل خان صاحب شہید رحمہ اللہ کو مولانا ڈاکٹر عادل خان بنایا، اللہ تبارک وتعالیٰ نے عُلوم ِ دینیہ سے اتنا آراستہ فرمایا کہ شیخ الحدیث کے منصب تک پہنچے اور ایسے افراد دنیا میں گنے چنُے ہوں گے جو اُردو، عربی، انگریزی تینون زبانوں میں انتہائی روانی کے ساتھ دین کا پیغام پہنچادیتے ہوں، الحمد للہ حضرت مولانا ڈاکٹر عادل خان رحمہ اللہ بھی انہی لوگوں میں سے تھے ۔
اللہ تبارک وتعالیٰ علم تو بہت سے لوگوں کودیتا ہے لیکن اس علم کا صحیح استعمال اور اس کے ذریعہ دین کی خدمت بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے اور یہ ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو علم کو اخلاص کے ساتھ اللہ کے لیے حاصل کرتے ہیں اور دین کی خدمت کو اپنا مقصدِ اصلی بناتے ہیں ،ان کو اللہ تبار ک وتعالیٰ ایسی صلاحیتوں سے نوازتے ہیں ،تو ہم طالبعلموں کے لئے یہ پیغام ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں بھی اسی طرح محنت اور کوشش کی توفیق عطافرمائے جس طرح مولانا رحمہ اللہ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ اس کے لیے محنت، اپنے اساتذہ کے ساتھ تعلق اور اساتذہ سے استفادہ کا جذبہ اور اساتذہ کا اکرام اور مطالعہ کی تحقیق کا ذوق اور اس کی جستجوضروری ہے اوریہ سب چیزیں اُن میں پوری طرح موجود تھیں۔
میں تو حیران ہوا کہ اتنی ساری مصروفیات کے دوران انہوں نے اپنی کتاب اسلامی جمہوریہ پاکستان کا مسوّدہ مجھے بھیجا تو شروع میں خیال تھا کہ سَرسَری طور پر پڑھ کر کچھ لکھ دوں گا لیکن اس کتاب نے مجھے گرفتار کرلیا اور میں نے تقریباً پوری کتاب پڑھی پھر اس پر کچھ تحریر لکھی اور کچھ مشورے بھی دیے، اتنی جامعیت کے ساتھ نہ صرف پاکستان کی بلکہ بر صغیر کے مسلمانوں کی جد جہد کی تاریخ انہوں نے لکھی اتنی ہمہ گیر اور جامع تحریر میں نے کوئی اور نہیں دیکھی۔
بہر حال! آج ہم سوگوار بھی ہیں لیکن ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ سے امید وار بھی ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو جو درجاتِ عالیہ عطا فرمائے ،جن صلاحیتوں اور کمالات سے نوازا اور جن خدمات کی توفیق عطا فرمائی اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں بھی اس کی توفیق عطا فرمائے اور اُن کے مشن کو جس کا خلاصہ مولانا محمد حنیف جالندھری صاحب نے بیان کیا اور اگر خلاصہ کا بھی خلاصہ کیا جائے تو وہ ہے” خدمتِ دین” ،دین کی خدمت کے بہت سے راستے ہوتے ہیں اور مختلف تقاضے ہوتے ہیں اور وقت کے اعتبار سے زمان و مکان کے اعتبار سے وہ بدلتے رہتے ہیں تو خدمت ِ دین اخلاص کے ساتھ اللہ کے لیے کی جائے،کسی شہرت اورکسی مقبولیت کے لیے نہیں اور اپنا نام کرنے کے لئے نہیں بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی خاطر اس مشن کو اپنائیں ۔اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں اس کو آگے سے آگے بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے۔

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
٭٭٭٭٭٭٭٭٭

(ماہنامہ البلاغ – جمادی الاولٰی 1442 ھ)