صحابہؓ نے دین کہاں سے حاصل کیا؟

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے دین کہاں سے حاصل کیا؟ کسی یونیوورسٹی میں پڑھا؟ کسی کالج میں پڑھا؟ کوئی سرٹیفکیٹ حاصل کیا؟ کوئی ڈگری لی؟ ایک ہی یونیورسٹی تھی وہ سرکارِ دو عالم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات تھی، آپ ؐ کی خدمت میں رہے، آپ ؐ کی صحبت اٹھائی اس سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے دین کا رنگ چڑھادیا، ایسا چڑھا یا ایسا چڑھایا کہ اس آسمان و زمیں کی نگاہوں نے دین کا ایسا چڑھا ہو ا رنگ نہ اس سے پہلے کبھی دیکھا تھا، نہ اس کے بعد دیکھ سکے گی۔ وہ لوگ جو دنیا کے معمولی معاملات کے اوپر جان قربان کرنے کے لیے تیار ہو تے تھے، ایک دوسرے کے خون کے پیاسے جاتے تھے، ایک دوسرے کی جان لینے پر آمادہ ہو جاتے تھے، ان کی نظر میں دنیا ایسی بے حقیقت ہوئی اور ایسی ذلیل اور ایسی خوار ہوئی کہ وہ اللہ کے احکام کے آگے اور آخرت کے بہود کے آگے ساری دنیا کے خزانوں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔
حضرت عبیدہ بن جراح ؓ کا دنیا سے اعراض
حضرت عبیدہ بن جراح ؓ کا واقعہ یاد آیا حضرت عمر ؓ کے عہد مبارک میں قیصر و کسریٰ کی بڑی بڑی سلطنتیں جو اس زمانے کی سپرپاور سمجھی جاتی تھیں (جیسے آج کل روس اور امریکہ) ان کا غرور اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت عمر ؓ کے ہاتھوں خاک میں ملا دیا،عبیدہ بن جراح ؓ کو شام کاگورنر مقرر فرمایا۔ حضرت فاروق اعظم ؓ شام کے دورے پر تشریف لے گئے دیکھیں کیا حالات ہیں ؟ تو وہاں حضرت فاروق اعظم ؓ نے حضرت عبیدہ بن جراح ؓ سے فرمایا کہ میراادل چاہتا ہے ہ میں اپنے بھائی کا گھر دیکھوں ، دل میں شاید یہ خیال ہوگا کہ عبیدہ بن جراح ؓ مدینے سے آئے ہیں اور شام کے گورنر بن گئے ہیں ، مدینہ منورہ کا علاقہ بے آب و گیا ہ تھا اور اس میں کوئی زرخیری نہیں تھی، معمولی کھیتی باڑی ہوا کرتی تھی اور شام میں کھیت لہلہارہے ہیں ، زر خیز زمینیں ہیں ارو روم کی تہذیب پوری طرح ویاں پر مسلط ہے تو یہاں آنے کے بعد ایسا تو نہیں کہ دنیا کہ محبت ان کے دل میں پیدا ہو گئی ہو اور اپنا کوئی عالیشان گھر بنا لیا ہو، جس میں بڑے عیش و عشرت کے ساتھ رہتے ہوں ۔ شاید اسی قسم کے کچھ خیال حضرت فاروق اعظم ؓ کے دل میں پیدا ہوا ہو، حضرت فاروق اعظم ؓ نے فرمایا کہ اپنے بھائی یعنی عبیدہ کا گھر دیکھنا چاہتا ہوں ۔ حضرت عبیدہ ؓ نے جواب میں کہا کہ امیرالمئومنین! آپ میرا گھر دیکھ کر کیا کریں گے، آپ میرا گھر دیکھیں تو آپ کو شاید آنکھیں نچوڑنے کے سوا کوئی فائدہ حاصل نہ ہو۔ حضرت فاروق اعظم ؓ نے فرمایا کہ میرا د ل چاہتا ہے کہ بھائی کا گھر دیکھوں ۔ حضرت عبیدہ ؓ ایک دن ان کو اپنے ساتھ لے کر چلتے ،چلتے جا رہے ہیں چلتے جا رہے ہیں ، کہیں گھر نظر ہی نہیں آتا، جب شہر کی آبادی سے باہرنکلنے لگے تو حضرت فاروق اعظم ؓ نے پوچھا کہ بھائی ! میں تمہارا گھر دیکھنا چاہتا تھا، تم کہاں لے جا رہے ہو؟ فرمایا اے امیر المئو منین! میں آپ کو اپنے گھر ہی لے جا رہا ہوں ۔ بستی سے نکل گئے تو لے جاکر ایک گھاس پھونس کے جھونپڑے کے سامنے کھڑا کر دیا اور کہا امیر المئو منین! یہ میرا گھر ہے۔ حضرت فاروق اعظم ؓ اس جھونپڑے کے اندر داخل ہوئے، چاروں طرف نظریں دوڑا کر دیکھنے لگے، کوئی چیزہی نظر ہی نہیں آتی ایک مصلی بچھا ہوا ہے، اس کے سوا پورے اس جھونپڑے کے اندر کوئی اور چیز نہیں ، پوچھا کہ عبیدہ! تم زندہ کس طرح رہتے ہو، یہ تمہارے گھر کا سامان کہاں ہے؟ تو حضرت عبیدہ بن جراح ؓ آ گے بڑھے، بڑھ کر ایک طاق سے پیالہ اٹھا کر لائے، دیکھا تو اس پیالے کے اندر پانی پڑا ہو تھا اور اس میں روٹی کے کچھ سوکھے ٹکڑے بھیگے ہوئے تھے اور عرض کیا کہ امیر المئو منین! مجھے اپنی مصروفیات اور ذمہ داریوں میں مصروف رہ کر اتنا وقت نہیں ملتا کہ میں کھانا پکا سکوں ، اس لیے میں یہ کرتا ہوں کہ ہفتہ بھر کی روٹی ایک خاتون سے پکوا لیتا ہوں اور وہ ہفتے بھر کی روٹی پکا کر مجھے دے جاتی ہے، میں اس کو اس پانی میں بھگو کر کھا لیتا ہوں ، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے زندگی اچھی گزر جاتی ہے۔ حضرت عمر فاروق اعظم ؓ نے پوچھا کہ تمہارا اور سامان؟ کہا کہ اور سامان کیا یا امیر المئو منین ! یہ سامان اتنا ہے کہ قبر تک پہنچا نے کہ لیے کافی ہے۔ حضرت عمر فاروق اعظم ؓ نے دیکھا تو رو پڑے اور کہا کہ عبیدہ! اس دنیا نے ہم میں سے ہر شخص کو بدل دیا، لیکم خدا کی قسم تم وہی ہو جو سرکار دو عالم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھے۔

حضرت عبیدہ ؓ نے فرمایا کہ امیر المئو منین ! میں نے تو پہلے ہی کہا تھا کہ آپ میرے گھر پر جائیں گے تو آنکھیں نچوڑنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ یہ وہ شخص ہے جوشام کاگورنر تھا، آج اس شام کے اندر جو عبیدہ ؓ کے زیرنگیں تھا، مستقل چار ملک ہیں ، اس شام کے گورنر تھے، عبیدہ بن جراح ؓ کے قدموں میں دنیا کے خزانے روزانہ ڈھیر ہو رہے ہیں ، روم کی بڑی بڑی طاقتیں عبیدہ ؓ کا نام سن کر لرزہ براندام ہیں ، ان کے دانت کھٹے ہو رہے ہیں عبیدہ ؓ کے نام سے اور روم کے محلات کے خزانے، زور جواہر اورزیورلا کر عبیدہ ؓ قدموں میں ڈھیر کئے جا رہے ہیں ، لیکن عبیدہ ؓ اسے ٹھو کر مار کر
اس پھونس کر جھونپڑے میں رہ رہے ہیں رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی جو جماعت تیار کی تھی، حقیقت یہ ہے کہ اس روئے زمین پر ایسی جماعت مل ہی نہیں ، دنیا کو ایسا ذلیل اور ایسا خوار کر کے رکھا کہ دنیا کی کوئی حقیقت آنکھوں میں باقی رہی ہی نہیں تھی، اس واسطے کہ ہر وقت دل میں یہ خیال لگا ہوا تھا کہ کسی وقت اللہ تبارک و تعالیٰ کی بار گاہ میں پیش ہونا ہے، زندگی ہے تو وہ زندگی ہے، یہ چند رورہ زندگی کیا حقیقت رکھتی ہے، یہ حقیقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام ؓ کے دلوں میں جاگزیں فرما دی تھی، اسی کا نام توقیٰ ہے۔ یہ کہاں سے حاصل ہوئی ؟ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے حاصل ہوئی، آپ ؐ کی صحبت میں چند دن جس نے گزار لئے اس کے دل میں دینا کی حقیقت بھی واضح ہو گئی اور آخرت بھی سامنے آ گئی، تو دین اس طریقے سے چلتا آیا ہے۔

(اصلاحی خطبات جلد نمبر 14 صفحہ نمبر 107)
********