حضرات صحابہ کرام ؓ کی فکر اور سوچ کا انداز

حدیث شریف میں آتا ہے کہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہمیں یہ فکر ہے کہ ہمارے بہت سے ساتھی دولت مند اور مال دار ہیں ، ان پر ہمیں رشک آتا ہے، اس لئے کہ جو جسمانی عبادت ہم کرتے ہیں وہ بھی کرتے ہیں ، لیکن جسمانی عبادت کے علاوہ وہ مالی عبادت بھی کرتے ہیں ، مثلاً صدقہ خیرات کرتے ہیں ، جس کے نتیجے میں ان کے گناہ بھی معاف ہوتے ہیں اور ان کے درجات بھی بلند ہوتے ہیں ، لہٰذا آخرت کے درجات میں وہ ہم سے آگے بڑھ رہے ہیں اور ہم جتنی بھی کوشش کرلیں لیکن غریب ہونے کی وجہ سے ان سے آگے نہیں بڑھ سکتے، اس لئے کہ ہم صدقہ خیرات نہیں کرسکتے۔۔۔۔ دیکھئے! ہماری اور انکی سوچ میں کتنا فرق ہے؟ ہم جب اپنے سے بڑے مالدار کے بارے میں سوچتے ہیں تو اس کے صدقہ خیرات کرنے پر ہمیں رشک نہیں آتا، بلکہ اس بات پر رشک آتا ہے کہ اس کے پاس دولت زیادہ ہے اس لئے یہ بہت مزے سے زندگی گزار رہا ہے، کاش کہ ہمیں بھی دولت مل جائے تو ہم بھی عیش و آرام سے زندگی گزاریں ، یہ ہے سوچ کا فرق۔
بہرحال! ان صحابہ کرام کے سوال کے جواب میں حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرایا کہ میں تمہیں ایک ایسا عمل بتاتا ہوں کہ اگر تم اس عمل کو پابندی سے کرلوگے تو صدقہ خیرات کرنے والوں سے تمہارا ثواب بڑھ جائے گا، کوئی تم سے آگے نہیں بڑھ سکے گا، وہ عمل یہ ہے کہ ہرنماز۔ کے بعد ۳۳مرتبہ سُبْحَانَ اللّٰہْ، ۳۳مرتبہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ، ، اور ۳۴مرتبہ اللّٰہ اکبرْ پڑھ لیا کرو۔

(اصلاحی خطبات جلد نمبر 7 صفحہ نمبر 198)
********