بیان: حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
ضبط وترتیب______________امتیاز علی مردانی

جنید جمشید رحمۃ اللہ علیہ ایک عہد ساز شخصیت

حالیہ فضائی حادثے میں جاں بحق ہونے والے افراد پر پوری قوم سوگوار ہے خاص طورپر جنید جمشید رحمۃ اللہ علیہ کی جدائی پر حب رسول سے سرشار اوردعوت دین سے وابستہ پاکستان کا ہر شہری دل گرفتہ ہے ، نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے مرحوم کا جو گہرا تعلق تھا ، اس کی بناء پر حضر ت والا مدظلہم بھی اس واقعہ سے بہت متأ ثر ہوئے ، ان کے بارے میں حضرت والا نے جو درد بھری گفتگو فرمائی ، شہید کے فراق پر اظہار غم کے ساتھ ساتھ یہ گفتگو ان کے صبر آزما حالات اور ان کی عظیم خدمات کے تذکرے پر بھی مشتمل ہے ۔
قارئین کو اس گفتگو میں شریک کرنے کے لئے یہ بیان البلاغ میں شائع کیاجارہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ادارہ

الحمد للہ رب العالمین والصلوٰۃ و السلام علی سیدنا و مولانا محمد خاتم النبیین وعلی اٰلہ و اصحابہ اجمعین وعلی کل من تبعھم باحسان الی یوم الدین

اما بعد!
اس وقت میں رنج و غم اور صدمے کی فضاء میں گفتگو کر رہا ہوں ںایک ایسے موقعہ پر جب کہ ہمارے بہت ہی عزیز اور پیارے دوست جناب جنید جمشید صاحب جن کو آج مرحوم اور رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہوئے کلیجہ منہ کو آ رہا ہے ، طیارے کے ایک حادثے میں شہید ہو گئے (انا للہ وانا الیہ راجعون) ۔
اس دنیا میں ہر ایک کو اس دنیا سے جانا ہے، موت ہر شخص کو آنی ہے، اور کوئی بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ لیکن بعض لوگوں کا جانا ایسا ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کے دلوں پر بہت گہرے نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ میرے بہت ہی عزیز بھائی جنید جمشید صاحب بھی ان لوگوں میں سے تھے کہ وہ جس سے ملے جس کے ساتھ رہے او ر جن کے ساتھ ان کا معاملہ پیش آیا انہوں نے ان کے دل میں گھر کر لیا ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو بعض ایسی صفات سے نوازا تھا جو اس دور میں خاص طور بہت کمیاب بلکہ نایاب ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو بڑی عظیم صلاحیتوں سے نوازا تھا ۔ وہ اپنے اخلاق کے اعتبار سے ، اپنے تدیّن کے اعتبار سے ، اور لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کے اعتبار سے نئی نسل کے لیے ایک روشن مثال کی حیثیت رکھتے تھے۔
سب لوگ جانتے ہیں کہ ان کی ابتدائی زندگی ایک ’’سنگر‘‘ کی حیثیت سے مشہور ہوئی، اور اس حیثیت میں انہوںنے دنیا کی جتنی دولتیں، عزتیں، شہرتیں کمائیں ، وہ بہت کم لوگوں کے حصے میں آتی ہیں۔ وہ ایک ہر دلعزیز ’’پاپ سنگر‘‘ تھے اور ایسے ’’سنگر‘‘ تھے کہ ان کا نام سن کر لوگ خوش ہوتے تھے، وہ اپنے فن کے عروج کی بلندیوں پر پہنچ گئے تھے۔ ایسی حالت میں جب کہ ساری دنیا ان کے گُن گا رہی تھی، اور ساری دنیا کی دولتیں ان کے قدموں میں نچھاور تھیں، اور ساری دنیا میں ان کی شہرت تھی، خاص طور پر نوجوانوں میں ان کی شہرت بام عروج کو پہنچی ہوئی تھی۔ اس حالت میں ان کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے آخرت کی فکر عطا فرمائی، اور انہوں نے اس زندگی کے جو ظاہری دنیوی مفادات تھے جو انسان کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بن سکتے ہیں ، ان سب رکاوٹوں کو پامال کر کے خالص اللہ کے لیے اور اپنی آخرت درست کرنے کے لیے انہوں نے اپنی اس زندگی کو خیر باد کہا،ا ور ایسے وقت خیر باد کہا جب کہ ان کو پتہ نہیں تھا کہ آئندہ دنیا میں ان کو کیا کچھ ملنے والا ہے۔یہ عظیم قربانی انہوں نے اللہ کے لیے دی اور پھر کھلی آنکھوں اللہ تبارک وتعالیٰ کے اس وعدے کا مشاہدہ کیا کہ :’’وَمَنَّ یَتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَہُ مَخْرَجاًوَ یَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لاَ یَحْتَسبْ‘‘(الطلاق:۲،۳)
قرآن کریم فرماتا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے ڈر سے کوئی غلط کام چھوڑتا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس کے لیے ایسی راہیں پیدا کرتا ہے اور ایسی جگہوں سے اسے رزق دیتا ہے جہاں سے اس کا گمان بھی نہیں ہوتا ۔
چنانچہ اس کے بعد انہوں نے ایسی زندگی اختیار کی جو اپنے لیے بلکہ پوری امت کے لیے تھی، انہوں نے تبلیغ و دعوت کو اپنی زندگی کا نصب العین اور مقصد بنایا اور اس کے لیے ساری دنیا کے سفر کیے۔ گلی گلی ، کوچے کوچے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچایا، اور نہ جانے کتنے انسانوں کی ہدایت کا ذریعہ بنے۔ نبی کرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’ اگر تمھارے ذریعے کسی ایک آدمی کو بھی ہداہت مل جائے تو یہ تمھارے لیے سرخ اونٹوں سے زیادہ بہتردولت ہے‘‘
سرخ اونٹ اس زمانے میں سب سے بڑی دولت سمجھی جاتی تھی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی آدمی کی ہدایت کا ذریعہ بن جانے کو اس سے بھی بڑی دولت قرار دیا ، وہ دولت الحمد للہ جنید بھائی کے حصے میں آئی ، اور آخر دم تک وہ اپنے اس نصب العین پر قائم رہے، اور بڑی استقامت کے ساتھ، بڑی پامردی کے ساتھ، اور بڑی جرأت وشجاعت کے ساتھ انہوں نے اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل و کرم سے اپنی اس نئی زندگی کو ایک انتہائی خوشگوار اور بڑی مقد س اور پوری امت کے لیے نفع بخش زندگی بنا دیا۔ اس طرح انہوں نے اپنی ذاتی زندگی میں بھی تبدیلی فرمائی اور دوسروں تک دین پہنچانے اور اللہ تبارک و تعالیٰ سے ان کو قریب کرنے کے لیے انہوں نے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے پھر اس نئی زندگی کے اندر بھی ان کو ایسی مقبولیت عطا فرمائی کہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک مداح کی حیثیت میں دنیا کے سامنے آئے ،اور ان کی نعتیں، ان کی اصلاحی نظمیں زباں زد عام ہو گئیں، اور گلی گلی، کوچے کوچے، بچے بچے کی زبان پر وہ نعتیں پہنچ گئیں جو کبھی ’’زاویۂ خمول‘‘ میں تھیں۔ خود میری ایک مناجات ہے جو میں نے مسجد حرام میں کہی تھی ’’ الہٰی تیری چوکھٹ پر بھکاری بن کے آیا ہوں‘‘ وہ مجھے پتہ نہیں میں نے کتنے سال پہلے کہی تھی مگر میں جنید بھائی سے کہا کرتا تھا کہ میں نے یہ مناجات خود ہی پڑھ کر اور خود ہی لکھ کر رکھ لی تھی لیکن آپ نے اس کوچار دانگ عالم میں پہنچا دیا، اور بچے بچے کی زبان پر وہ آگئی۔ اسی طرح وہ اکثر مجھ سے فرمائش کرتے رہتے تھے کہ کوئی اور نعت یا نظم ہو تو مجھے بتائیں ، میں وہ پڑھ کر دنیا تک پہنچاؤںگا، اور بھی میری کئی ساری نعتیں اور نظمیں انہوں نے پڑھیں، اور ایسی پڑھیں کہ لوگوں کے دلوں میں داخل ہوگئیں، لوگوں کے ذہنوں اور حافظوں میں محفوظ ہوگئیں، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مداح کی حیثیت سے وہ ساری دنیا میں مشہور ومعروف ہوئے۔
اس راہ میں جب کوئی چلتا ہے تو اس کو بہت سی آزمائشیں بھی پیش آتی ہیں۔ اور یہ آزمائشیں بھی درحقیقت ایک داعیٔ حق کے سر کا تاج ہوتی ہیں۔ چنانچہ ان کو اپنی زندگی میں ایسی آزمائشیں بھی پیش آئیں کہ جن کے نتیجے میں ان کو مشکلات سے گزرنا پڑا۔ لیکن جب اللہ کا بندہ سیدھے راستے پر چلتا ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ رکھتا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس کو امداد و نصرت و توفیق سے نوازتے ہیں۔
الحمد للہ ان ساری آزمائشوں کے بادل بھی چھٹ گئے اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو سر خرو کرکے دنیا کے سامنے پیش کیا ۔ آخری سفر بھی ان کا تبلیغ ہی کے سلسلے میں تھا، اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے آخری جمعہ کی نماز چترال میں پڑھائی اس میں وہی آیات تلاوت فرمائیں کہ :
’’وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتاًبَلْ اَحْیَائٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ‘‘(آل عمران :۱۶۹)
کہ جولوگ اللہ کے راستے میں شہید ہوتے ہیں ان کو مردہ نہ سمجھو وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک زندہ ہیں اور اللہ رب العزت کی طرف سے ان کو رزق مل رہا ہوتا ہے۔
انہوں نے سورہ آل عمران کی ان آیات کو پڑھ کر ایک عجیب پیغام دیا، اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو چند ہی دن بعد اپنے پاس بلا لیا اور شہادت کا مرتبہ عطا فرمایا۔ ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیںجو برائی کا بدلہ اچھائی سے دیں، جو لوگوں کے طعن و تشنیع وغیرہ سے بے نیاز ہو کر اپنے کام میں لگے رہیں اور کسی کی برائی میں حصہ نہ لیں، اللہ تعالیٰ نے جنید صاحب کو ایسا ہی بنایا تھا۔ ان کو لوگوںنے تکلیفیں بھی پہنچائیں ، ان کے اوپر فقرے بھی کسے گئے ، ان کا مذاق بھی اڑانے کی کوشش کی گئی، یہاںتک کہ لوگ ان کی جان تک کے درپے ہوئے، جسمانی اذیت کی بھی پہنچانے کی کوشش کی گئی، لیکن انہوں نے ساری چیزوں کو بڑے صبر وتحمل سے اللہ کے لیے برداشت کیا ، اور امت کے اندر اتحاد پیدا کرنے کی کوششوںمیں لگے رہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ان کی زندگی ایک روشن مثال ہے ، اور خاص طور پر ہماری نئی نسل کے لیے قابل تقلیدہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہماری نئی نسل کے لوگوںکو اس روشن مثال سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی زندگی کے جو سارے روشن پہلو ہیں ان کو اپنی زندگیوں میں لانے کی توفیق عطا فرمائے۔
آج ان کی جدائی پر ہر آنکھ اشک بار ہے ، ہر دل رنجیدہ ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو شہادت کا جو مرتبہ عطا فرمایا اس پر یہ خیال بھی آتا ہے کہ ان کی ساری زندگی جس مقصد کے لیے تھی اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس مقصد تک ان کو شہادت کے ذریعے پہنچایا۔
مجھے رات سعید انور صاحب ٹیلیفون پر یہ بتا رہے تھے کہ انہوں نے اپنے حالیہ کسی بیان میں لوگوں سے یہ درخواست کی کہ میں کچھ دعائیں کرتا ہوں ، آ پ سب لوگ اس پر آمین کہیں۔ ان دعاؤں میں ایک دعا یہ بھی تھی کہ ـ ’’ اللہ تبارک و تعالیٰ مجھے اپنے راستے میں موت عطا فرمائے‘‘۔ یہ دعا بھی ان دعاؤں میں شامل تھی جو سفر کے دوران خود بھی کی اور لوگوں سے اس پر آمین بھی کہلوائی۔
کتناخوش نصیب ہے وہ شخص کہ جس نے اپنی زندگی میں انقلاب لا کر اللہ تبارک و تعالیٰ کی خاطر اپنی زندگی کو تج دیا۔ اور اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کے پاس جانے کے لیے اس نے اللہ تعالیٰ سے ہی یہ مانگاکہ اللہ کی راہ میں میری موت آئے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کوشہادت کی موت عطا فرمائی شہادت مرتبہ ایسا ہے کہ ہم لوگ یہاں بیٹھ کر اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے شہیدوںکوبہت اونچا مقام عطا فرمایا ہے۔ ہر وہ شخص شہیدہے جو کسی حادثے کا شکار ہو جائے،ایسا شخص آخرت کے لحاظ سے شہید ہی ہوتا ہے۔ لیکن وہ شخص جو کسی حادثے کا شکار ہو اللہ تعالیٰ کے دین کے راستے میں ہو، دین کی محنت اور کوشش کے راستے میں ہو تو اس کی شہادت دوسرے شہیدوں سے بھی بڑھ جاتی ہے۔
اس وقت پتہ نہیں کتنے خاندان سوگوار ہیں، جتنے لوگ اس حادثے میں شہید ہوئے ہم ان سب کے غم میں برابر کے شریک ہیں، اور دعا گو ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ان سارے شہداء کو اعلیٰ مقام سے نوازے۔ اور شہادت کا مرتبہ عطا فرما کر اپنا قرب خاص عطافرمائے، ان کو جنت الفردوس عطا فرمائے، ان کی کامل مغفرت فرمائے، اور ان کے خاندانوں کو جو اس وقت صدمے سے دوچار ہیں، صدمے سے بوجھل ہیں، اللہ تبارک و تعالیٰ اس صدمے پر ان کو صبر کرنے کی توفیق بھی عطا فرمائے اور اجر جزیل عطا فرمائے۔
جہاں تک جنید بھائی کا تعلق ہے ان کے بارے میں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صرف ان کے گھر والے ہی نہیں، صرف ان کے خاندان والے ہی نہیں، بلکہ ہر وہ مسلمان جو انہیں جانتا تھا یہ اس کا اپنا صدمہ ہے، اور ان میں سے ہر ایک تعزیت کا مستحق ہے (اناللہ وانا الیہ راجعون) ۔ ایسے مواقع پر ایک تو ’’اناللہ وانا الیہ راجعون‘‘ کی کثرت فائدہ مند ہوتی ہے۔ قرآن کریم نے فرمایا کہ جو ایسے مواقع پر ’’اناللہ وانا الیہ راجعون ‘‘کہتے ہیں ’’اولئک علیھم صلوات من ربھم و رحمۃواولئک ھم المھتدون‘‘ ان کے اوپر ان کے پروردگا ر کی طرف سے رحمتیں ہی رحمتیں نازل ہوتی ہیں اوریہی لوگ ہیں جو ہدایت پانے والے ہیں۔ یہ عمل خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ثابت ہے قرآن کریم نے بھی اس کی تلقین فرمائی ہے کہ جب غم اور صدمے کا خیال آئے تو ’’انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘ کثرت سے پڑھے۔ دوسرے اس سے ہم سب کو ایک عظیم سبق یہ ملتا ہے کہ انسان اپنی زندگی کے اندر ہر وقت یہ سمجھتا ہے کہ میں زندہ ہوں اور اسے اپنی موت کا خیال نہیں آتا لیکن اس قسم کے حادثات اس کو متنبہ کرتے ہیںکہ انسان کی زندگی کا کسی وقت کوئی بھروسہ نہیں ہے، کسی وقت بھی موت کا پیغام آ سکتا ہے، اور کسی بھی وقت انسان اس دنیا سے جاسکتا ہے۔ لیکن ایک وہ شخص ہے کہ جو دنیا سے اس حالت میں جائے کہ وہ اپنے دامن میں، اپنے میزان عمل میں نیکیوں کے انبار جمع کر چکا ہو، جیسے کہ ماشاء اللہ جنیدبھائی گئے، اور ایک وہ شخص ہے کہ جب موت کا وقت قریب آتا ہے تو اس وقت قرآن کریم فرماتا ہے کہ اس وقت اس کو حسرت ہوتی ہے کہ اپنی سابق زندگی میں کتنے گناہ کیے، کتنے ناجائز کام کیے، اور اس کی وجہ سے اس وقت اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کاش مجھے کچھ اور وقت مل جائے، اور میں ان گناہوں کی تلافی کر لوں، اور اپنی باقی زندگی اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا کے مطابق گزار لوں، لیکن قرآن کہتا ہے کہ:’’لَنْ یُّؤَخِّرَ اللّٰہُ نَفْسًا اِذَا جَائَ اَجَلُھَاـ‘‘
جب کسی کا وقت مقرر آجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے پھر اس کو کوئی اور مہلت نہیں دیتا، نہ اس سے کوئی آگے جا سکتا ہے، نہ اس سے پیچھے آسکتا ہے۔ لہذا اس قسم کے حادثات سے ایک عظیم سبق یہ مل رہا ہے کہ ہمیں اپنی زندگی کے ہرہر لمحے کو قیمتی سمجھ کر اس کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق استعمال کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔
اس طرح جنید بھائی جاتے جاتے بھی ایک عظیم سبق ہم کو دے گئے وہ یہ کہ ’’خوش نصیب وہ ہے کہ جو اس دنیا کے اندر اپنے لیے آخرت کا سامان کر ے اور اپنی موت سے پہلے اپنی موت کے بعد کی زندگی کے لیے ذخیرہ کر چکا ہو وہی شخص زندہ ہے‘‘ اور اسی کو حدیث میں فرمایا کہ:’’الکیس من دان نفسہ وعمل لما بعد الموت‘‘
درحقیقت عقل مند وہ ہے جو اپنے نفس کو قابو میں رکھے اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے عمل کرے ـ۔ دنیا کے لئے اتنا عمل کرے جتنا دنیا میں رہنا ہے اور آخر ت کے لیے اتنا عمل کرے جتنا آخرت میں رہنا ہے۔ جاتے جاتے جنید بھائی ہمیں یہ پیغام دے گئے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اور اپنی رحمت سے ہم سب کو ان سارے پیغامات کو صحیح طرح سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

(ماہنامہ البلاغ – ربيع الثانی 1438ھ)