افادات : حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم

ذکروفکر

توہین رسالت
(علی صاحبھا الصلوٰ ۃ والسلام )
اسباب اور سدّباب
حمدوستائش اس ذات کے لئے ہے جس نے اس کارخانۂ عالم کو وجود بخشا
اور
درود و سلام اس کے آخری پیغمبرپر جنہوں نے دنیا میں حق کا بول بالا کیا

                          مغربی ممالک کی طرف سے توہین رسالت کا ناپاک سلسلہ ۲۰۰۶ ء سے شروع ہواتھا ، اس وقت بھی مسلمانوں کی طرف سے اس پر سخت رد عمل سامنے آیاتھا ، اب پھر کچھ عرصہ سے سوشل میڈیا پر اس حساس اور نازک موضوع پر طوفان بدتمیزی برپا ہے ،اور تشویشناک بات یہ ہے کہ اب یہ جسارت عالم کفر کی طرف سے نہیںبلکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اسلام دشمن بیہودہ عناصر کی طرف سے سامنے آئی ہے جس پر پورا ملک سراپا احتجاج ہے ، اور قرائن بتلاتے ہیں کہ اس بیہودگی کے پیچھے ایسی این جی اوز سرگرم عمل ہیں جو مسلمانوں کے دین وایمان پر ڈاکہ ڈالنے کے لئے ہرطرح کے وسائل استعمال کرتی ہیں ، موقع کی مناسبت سے نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کے تحریری وتقریری افادات کا خلاصہ جو پہلے بھی البلاغ میں شائع ہوچکا ہے ، ہدیۂ قارئین ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ادارہ )

مذاکرہ کی غرض وغایت
حضرات علماء کرام اور قابل احترام سامعین ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سید الاولین والآخرین سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس کے سلسلے میں مسلمانوں پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ، ان پر غور وفکر کرنے اور ان کے مطابق اپنا لائحہ عمل طے کرنے کے لئے آج یہ مبارک مذاکرہ منعقد ہواہے ۔
حالات کا پس منظر
حالات کے جس پس منظر میں یہ مبارک مذاکرہ منعقد ہوا ہے ، اس سے ہر مسلمان واقف ہے ، اور اس وقت پورے عالم اسلام میں مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک پوری مسلم دنیا میں ان دریدہ دہن اور بدباطن افراد کی حرکت کے خلاف اضطراب ، غم وغصہ اور احتجاج کی ایک لہر دوڑی ہوئی ہے ، جنہوں نے محسن انسانیت سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرکے اپنی بدباطنی کا ثبوت دیا ہے ۔
عذرِ گناہ بدتراز گناہ
افسوس ناک بات یہ ہے کہ اپنی اس شرمناک حرکت پر کسی ندامت کا اظہار کرنے کے بجائے اور اس پر معافی مانگنے کے بجائے اپنی اس حرکت کے جواز میں مختلف حیلے بہانے تراشے جارہے ہیں ، کہا جارہا ہے کہ ان بد باطن افراد کے خلاف کوئی کارروائی آزادیٔ اظہار رائے کے اصولوں کے خلاف ہے ۔
اہل مغرب کی مکاری
اہل مغرب کا ایک عرصہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ انہوں نے کچھ خوبصورت الفاظ گھڑلئے ہیں ، اور ان کو اپنی زندگی کا محور قراردے کر دنیا بھر میں اپنی معصومیت کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں ، یہ الفاظ ایسے ڈھیلے ڈھالے ہیں کہ ان الفاظ میں وہ جس معنی کو چاہیں داخل کردیں ، اور جس معنی کو چاہیں نکال دیں ۔ جمہوریت ، انسانی حقوق اور پرامن بقائے باہمی ، یہ سارے ایسے الفاظ ہیں جن کا دن رات راگ الاپا جاتا ہے ، لیکن اگر ان کی تہ میں عملی کارروائیوں کو دیکھا جائے تو ان کاسوائے اس کے اور کوئی مطلب نہیں نکلتا کہ ان الفاظ سے جب تک ان کے سیاسی اور ذاتی مفادات کو برتری وتقدم حاصل ہو ، اس وقت تک تو ان کا تحفظ واحترام لازمی ہے ، لیکن جب انہی الفاظ سے ان کا کوئی ذاتی مفاد ٹکراجائے تو نہ آزادی ٔ اظہار رائے باقی رہتی ہے ، نہ انسانی حقوق اور نہ پر امن بقائے باہمی ۔
آزادیٔ اظہار رائے کا مقصد
ہم جانتے ہیں کہ مغرب نے یہ خوبصورت الفاظ دنیا کو دھوکہ دینے کے لئے گھڑے ہوئے ہیں ، یہ آزادیٔ اظہار رائے جس کا ڈھنڈوراپیٹا جارہا ہے ، اور جس کے پردے میں وہ شرمناک گستاخی کی جارہی ہے ، جس کے مقابل اس روئے زمین پر کسی اور گستاخی کا تصور نہیں کیا جاسکتا ، اس آزادیٔ اظہار رائے کا حال یہ ہے کہ یورپ اور دیگر متعدد ممالک میں یہ قانون نافذ ہے کہ یہودیوں کے "ہولوکاسٹ” کے خلاف اگر کوئی تاریخی تحقیق بھی کرنا چاہے تو اسے اس کی اجازت نہیں ہے ، اور قانون اسے اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ ان حالات کی کھوج کرید میں پڑے کہ یہودیوں کو جرمنی سے جب نکالاگیا تھا تو کتنے افراد واقعۃً قتل ہوئے تھے ، اور کتنے قتل نہیں ہوئے تھے ، اگر کوئی شخص علمی بنیاد پر یہ تاریخی تحقیق کرنا چاہے تو یہ قانوناً جرم ہے ، پھر بھی یہی کہا جاتا ہے کہ ہر کسی کو اظہار رائے کی آزادی ہے ۔
درس عبرت
مجھے ایک واقعہ یاد آیا کہ آج سے چند سال پہلے جب پاکستان میں مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قراردیا گیا ، تو ان کی طرف سے پوری مغربی دنیا میں یہ فریاد کی جارہی تھی کہ ہم پر ظلم ہورہا ہے ، پاکستان میں آزادی اظہاررائے پر پابندی عائد کی جارہی ہے ، ان ہی دنوں میں ایک دن میں اپنے گھر میں بیٹھا تھا کہ مغرب کے وقت گھر کی گھنٹی بجی ، باہرنکل کر دیکھا تو ہمارے پاکستان کے وزارت خارجہ کے ایک ذمہ دار افسر پیرس سے ایمنسٹی انٹر نیشنل کے ڈائریکٹر کو لے کر تشریف لائے ہیں اور عجیب بات یہ تھی کسی سابقہ اجازت کے بغیر یہ حضرات تشریف لائے ، اور مجھ سے کہا کہ ہم آپ کا انٹر ویو لینا چاہتے ہیں ، میں نے پوچھا کہ کس موضوع پر آپ انٹر ویو لینا چاہتے ہیں ؟کہنے لگے کہ مجھے پیرس سے اس مشن پر بھیجاگیا ہے کہ میں جنوبی ایشیاکے لوگوں کا سروے کروں کہ ان کے ذہنوں میں آزادیٔ اظہار رائے کا کیا تصورہے؟ اور آزادیٔ اظہار رائے کے بارے میں وہ کیا موقف رکھتے ہیں ؟ انہوں نے پہلے مجھ سے معذرت کی کہ ہم آپ سے Appointment لئے بغیر آگئے ، مجھے یہ انداز ہ ہوا کہ وہ بہت مختصر وقت کے لئے آئے ہوئے ہیں ، اسی لئے وہ پہلے سے Appointment بھی نہیں لے سکے ، میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کب تشریف لائے ؟ کہنے لگے میں کل کراچی پہنچاہوں ، پھر میں نے پوچھا کہ اب آگے آپ کا کیا پروگرام ہے ؟ تو کہنے لگے کہ کل مجھے اسلام آباد جانا ہے ، اور دودن وہاں رہ کے پھر میں نئی دہلی جاؤں گا ، وہاں سے کوالالمپور جانا ہے ۔
میں نے پوچھا کل کتنے دنوں کا دورہ ہے ؟ کہنے لگے کہ ایک ہفتہ میں یہ دورہ مکمل ہوجائے گا ، میں نے کہا کہ کراچی میں جو آپ کل سے اب تک رہے ، تو ذرا یہ فرمایئے کہ کتنے لوگوں کا انٹر ویوآپ نے لیا؟ کہنے لگے کہ پانچ آدمیوں کا انٹرویو لے چکا ہوں ، چھٹے آپ ہیں ، میں نے کہا کہ ان چھ آدمیوں کا انٹر ویو لے کر آپ نے پورے کراچی کا سروے مکمل کرلیا ، اور کل جو آپ اسلام آباد جارہے ہیں تو ایک دن یا دودن رہ کر پانچ چھ آدمیوں کا انٹر ویو لے کر وہاں کا سروے مکمل کرلیں گے ، اور اس کے بعد پھر دہلی اور کوالا لمپور جائیں گے ، اور ایک ہفتے کے اندر یہ سروے مکمل کرکے آپ اپنی رپورٹ "سب مٹ” کردیں گے ، تو یہ فرمائیے کہ یہ سروے کیا واقعی کوئی سنجیدہ سروے ہے جو اتنی مختصر مدت میں کیا جارہا ہے ؟
کہنے لگے کہ میں مجبور ہوں ، مجھے اتنا ہی وقت دیا گیا ہے ، اور وقت کی کمی کے باعث میں اس سے زیادہ لوگوں سے ملاقات نہیں کرسکتا ، اس لئے انہی افراد سے انٹرویو کرکے میں اپنا سروے مکمل کردوں گا، میں نے کہا اگر آپ کے پاس اتنا ہی کم وقت تھا کہ آپ پانچ چھ افراد سے زیادہ کسی سے ملاقات نہیں کرسکتے تھے ، تو آپ کو کس نے مشورہ دیا تھا کہ سروے کریں ، اگر سروے کرنا ہی تھا تو اس کے لئے وقت نکالتے ، لیکن اگر آپ تھوڑے سے وقت میں چند افراد کی بات سن کر پورے جنوبی ایشیا کی طرف ایک نقطۂ نظر منسوب کرنے والے ہیں تو معاف کیجئے اس غیر سنجیدہ سروے میں ، میں پارٹی بننے کو تیار نہیں ، لہٰذا میں آپ کے کسی سوال کا جواب نہیں دوں گا۔ آپ میرے مہمان ہیں ، بیشک چائے پیجئے ، میں آپ کی خاطر تواضع کروں گا ، لیکن جہاں تک انٹرویو کا تعلق ہے تو میں آپ کو کوئی انٹر ویو نہیں دوں گا۔
ہمارے ملک کی وزارت خارجہ کے افسر، جو اُن کے ساتھ تھے ، انہوں نے مجھ سے کہا کہ جناب دیکھئے یہ صاحب بہت دور سے آئے ہیں ، کم از کم کچھ تو آپ ان کی رعایت کرلیجئے ، میں نے کہا مہمان کی حیثیت سے رعایت یہ ہے کہ میرے پاس چائے پئیں ، لیکن جہاں تک معاملے کی بات ہے تو میں ایسے غیر سنجیدہ سروے میں حصہ لینے کو تیار نہیں ہوں ، جس کا مقصد دنیا کو دھوکہ دینا ہو، جنوبی ایشیا کے چند افراد کا انٹرویو کرکے سارے جنوبی ایشیا کے سرپر ایک مؤقف تھوپ دینا ہو ، یہ بالکل غلط طرزِ عمل ہے ، آپ مجھے بتائیں کہ کیا میری بات غلط ہے ؟ مجھے سمجھادیں کہ اتنے دنوں میں سروے ہوسکتا ہے ؟ ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا ، اس لئے انہوں نے کہاکہ بات تو ٹھیک ہے ، لیکن میں آپ سے محض التماس کرتا ہوں کہ میں بہت دورسے آیا ہوں ، کچھ تو میری باتوں کا جواب دیدیں ، میں نے کہا کہ میں آپ کے کسی سوال کا جواب نہیں دوں گا، چونکہ اُن کے پاس کوئی جواب نہیں تھا ، اس لئے آخرکار وہ خاموش ہوکر بیٹھ گئے ۔
پھر میں نے ان سے کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں ایک سوال آپ سے کرلوں ؟ وہ کہنے لگے کہ میں آپ سے سوال کرنے آیاتھا ، آپ اُلٹا مجھ سے سوال کرنے لگے ، میں نے کہا کہ میں تو آپ سے اجازت مانگ رہاہوں ، اگر آپ اجازت دیں گے تو سوال کروں گااور اگر اجازت نہیں دیں گے تو سوال نہیں کروں گا، انہوں نے کہا : اچھا کہئے۔
میں نے کہا میرا سوال یہ ہے کہ آپ آزادی ٔ اظہار رائے کے بارے میں ایک تحقیق کرنے نکلے ہیں ، اور آپ کے ادارے نے اس آزادی ٔ اظہار رائے کو اپنا Moto بنایا ہوا ہے ، آپ یہ بتائیے کہ آزادیٔ اظہار رائے بالکل ا بسلوٹ (Absolute) ہے ، اس کے اوپر کوئی شرط ، کوئی قید ، کوئی پابندی نہیں ؟ یا یہ کہ اس کے اوپر کوئی شرط اور پابندی عائد ہوتی ہے ؟ کہنے لگے کہ میں مطلب نہیں سمجھا۔
میں نے کہا کہ مطلب یہ ہے کہ اگر ایک شخص یہ کہے کہ جتنے بڑے بڑے سرمایہ دارہیں ، ان سب نے قوم کی دولت کو لوٹا ہے ، لہٰذا میں لوگوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ ان سرمایہ داروں کی تجوریوں پر ، ان کے خزانوں پر ، ان کے بینک بیلنس پر ڈاکے ڈالیں ، اور پیسے اکٹھے کرکے غریبوں کی مددکریں ، تو بتایئے کہ کیا اس بات کی آپ اجازت دیں گے ؟ اپ اس ایکسپریشن (Expression ) کی فریڈم (Freedom )کے بھی قائل ہیں کہ اس کی بھی آزادی ملنی چاہیئے کہ لوگ ڈاکے ڈالنے کی دعوت دیدیں، جب کہ مقصد ان کا نیک ہو کہ غریبوں کی امداد کی جائے ؟ کہنے لگے نہیں ،اس کی اجازت نہیں ہوسکتی، میں نے کہا کہ اگر اس کی اجازت نہیں ہوسکتی تو مطلب یہ ہے کہ فریڈم آف ایکسپریشن (Freedom Of Expression)یہ بالکل ا بسلوٹ (Absolute) چیز نہیں ہے ، مطلق چیز نہیں ہے کہ اس کے اوپر کوئی پابندی عائد نہ ہو ، کہنے لگے ہاں کچھ نہ کچھ تو پابندیاں عائد ہوں گی۔
میں نے کہا کہ بتائیے وہ پابندیاں کیاہیں؟ اور یہ پابندیاں کون مقررکرے گا؟ کس کے پاس یہ اتھارٹی (Authority)ہے کہ وہ یہ پابندیاں عائد کرے کہ فریڈم آف ایکسپریشن (Freedom of expression) پر یہ پابندی ہونی چاہیے ، اور یہ پابندی نہیں ہونی چاہیئے ؟ اگر آپ کے ادارے نے اس بارے میں کوئی تحقیق کی ہوتو براہ کرم مجھے اس سے مطلع فرمائیں، کہنے لگے کہ اس سے پہلے ہم نے اس موضوع پر سوچا نہیں ہے اور اگر ہمارے ادارے میں اس پر کوئی کام ہوا ہوگا تو ہم آپ کو اس سے مطلع کریں گے ، میں نے کہا کہ آپ ضرور مطلع کریں ، لیکن میں آپ سے یہ بات پورے اعتماد کے ساتھ کہتا ہوں کہ آپ اس سوال کا جواب زندگی بھر نہیں دے سکتے کہ آخر آزادیٔ اظہار رائے پر پابندی کس قسم کی ہوسکتی ہے ، اور کون سی اتھارٹی ہے جو یہ طے کرے کہ کون سی پابندی معقول اور جائز ہے ، اور کون سی پابندی ناجائز ہے ،وجہ اس کی یہ ہے کہ آج انسانوں کا ایک گروہ یہ کہے گا کہ فلاں پابندی ہونی چاہئے ، اور دوسرا گروہ کہے گا کہ فلاں پابندی ہونی چاہیے ، اور متفقہ بنیا د انسانوں کے درمیان فراہم ہونا تقریباً ناممکن ہے ۔
اس کا تو ایک ہی راستہ ہے ، وہ یہ ہے کہ جس ذات نے اظہار رائے کی طاقت انسان کی زبان کو اور قلم کو عطاکی ہے ، اسی ذات سے پوچھا جائے کہ کون سی آزادی اے اللہ ! تیرے نزدیک جائز ہے ، اور کون سی آزادی ٔ اظہار رائے تیرے نزدیک ناجائز ہے ، جب تک اللہ جل جلالہ کے آگے سر نہیں جھکایا جائے گا ، اور اللہ جل جلالہ کے پیغمبر جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں سر نہیں رکھا جائے گا، تو کوئی بھی شخص اس کا معیار اور اس کی کوئی بنیاد فراہم نہیں کرسکتا ، چنانچہ آج اس واقعے کو کئی سال گزرگئے ہیں ، وہ دن ہے اور آج کا دن ہے ، آج تک پلٹ کر انہوں نے اس سوال کا جواب دینے کی یا اس کے بارے میں کوئی وضاحت کرنے کی زحمت نہیں اٹھائی ، اس لئے کہ ان کے پاس کوئی جواب تھا ہی نہیں ۔بہرحال ! یہ سارے الفاظ یعنی آزادی ٔ اظہار رائے ، پر امن بقائے باہمی اور انسانی حقوق وغیرہ یہ اس وقت تک ہیں ، جب تک یہ الفاظ ان کے اپنے مفادات کو سرو کررہے ہوں ۔
وہی انسانی حقوق کے علم بردار جب افغانستان اور عراق پر بمباری کرتے ہیں ، بے گناہ بچوں اور عورتوں کو شہید کرتے ہیں ، تو اس وقت کوئی انسانی حقوق کی بات ان کے دماغ میں نہیں آتی ، اور وہی لوگ جو آزادیٔ اظہار رائے اور انسان کی آزادی کے قائل تھے آج یہ قانون بنارہے ہیں کہ جس پر چاہو حملہ کردو ، جب چاہو حملہ کردو، جس سرحد کو چاہو پارکرلو، ان بہانوں سے آخر کب تک انسانیت کو دھوکا دیا جائے گا۔
نبی کریم سرور دوعالم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی توقیروتعظیم کا توعالم یہ ہے کہ دریدہ دہن ہزار بدزبانیاں کیا کریں ، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت وجلال میں ان کی بدباطنی سے ایک حبہ برابر کوئی کمی نہیں آتی ، جب تک اس کائنات کے اوپر اللہ جل جلالہ کی حکمرانی قائم ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت وتقدیس کے گیت گائے جاتے رہیں گے ، اللہ جل جلالہ نے خود قرآن کریم میں فرمادیا ہے :
اِنَّا کَفَیْنَاکَ الْمُسْتَھْزِئِیْنَ (الحجر: ۹۵)
"جولوگ تمہار ا مذاق اڑارہے ہیں ہم تمہارے لئے ان کی سازشوں کے خلاف کافی ہیں۔”
قرآن کریم نے خود فرمایا :
وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکَ (الم نشرح : ۴)
"ہم نے آپ کے تذکرے کو بلند مقام عطاکیا ہے ۔”
لہٰذا یہ ہزار بدباطنیاں کیا کریں ، لیکن سروردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں اس سے کوئی فرق نہیں آتا۔
مسلمانوں کی ذمہ داری
ہاں ! ایک مسلمان ہونے کے ناتے ہمارا فرض ہے کہ جب کبھی ایسی گستاخی کی جائے تو اس پر مسلمان اپنے ردعمل کا اظہار کریں ، ہمیں قومی سطح پر بھی اور بین الاقوامی سطح پربھی اس بدباطنی کے خلاف احتجاج کو قوت کے ساتھ جاری رکھنا ہے ، اور یہ بات بھی اچھی طرح ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ یہ مغربی طاقتیں۔ ٹھیٹھ لفظ اگر میںاستعمال کروں ۔ تو ہماری اردو زبان کا محاورہ ہے کہ "یہ لوگ جوتے کے آشنا ہیں” یعنی ان کے اوپر دباؤ ڈالنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں ، جس دن ان کو اپنی تجارت میں خسارہ نظر آئے گا اُسی دن ان کے آزادیٔ اظہار رائے کے سارے خواب بکھر جائیں گے ۔
اس لئے مسلمانوں سے ہمیں یہ اپیل کرنی چاہئے کہ حکومت بائیکاٹ کرے یا نہ کرے ، لیکن مسلمان اس بات کا تہیہ اور عہد کریں کہ جن ملکوں میں یہ گستاخی کی گئی ہے ، ان ممالک کی مصنوعات کی خرید وفروخت ہم بند کردیں ، جو امپورٹر ہیں وہ امپورٹ کرنا بند کردیں ، جو تاجر ہیں ، وہ ان کی مصنوعات کو فروخت کرنا بند کردیں ، اور جو صارفین ہیں وہ ان کو خرید نا بند کردیں ۔
جس وقت یہ مسئلہ پاکستان میں اتنی شدت سے نہیں اٹھاتھا ، لیکن بہت سے عرب ممالک میں اٹھ چکا تھا ، میں اس وقت سعودی عرب میں تھا ، اور یہ منظر میری آنکھوں نے دیکھا کہ حکومت کی طرف سے کوئی باضابطہ اعلان نہیں ہواتھا کہ عوام ڈنمارک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں ، لیکن وہاں کی بڑی بڑی سپر مارکیٹوں نے اپنے ہاں یہ بورڈ لگارکھے تھے کہ ہمارے ہاں کوئی شخص ڈنمارک کی کوئی چیز خریدنے کے لئے نہ آئے اور صرف یہ ہی نہیں کہ جتنا اسٹاک پہلے سے موجود ہے پہلے وہ بیچ دیں ، اور اس کے بعد پھر بائیکاٹ کریں ، بلکہ ان کی الماریوں کے شیلف خالی پڑے ہوئے تھے ، وہاں پر لکھا ہواتھا کہ ڈنمارک کی مصنوعات اس جگہ ہواکرتی تھیں ، ہم نے سب نکال کر باہر پھینک دی ہیں ، عوام نے یہ سلسلہ شروع کیا، اور جب اس معمولی پیمانے پر چند ملکوں میں یہ کام ہوا تو آپ نے دیکھا کہ کچھ نہ کچھ حرکت شروع ہوگئی، اور یہ کہا گیا کہ ہماری مصنوعات کا بائیکاٹ ہورہا ہے ہمیں نقصان پہنچ رہا ہے ۔
نبی کریم سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہماری محبت کا سب سے پہلا اور ادنیٰ ثبوت کم از کم یہ تو ہوکہ اگر ہم پہلے ڈنمارک کا مکھن کھایا کرتے تھے تو وہ کھانا بند کردیں ، کیا ہمیں وہ مکھن زیادہ عزیز ہے یا جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عز ت وحرمت زیادہ عزیز ہے ؟ اگر ہم ان کی دیگر مصنوعات استعمال کیا کرتے تھے تو ان کا استعمال بند کردیں ، اور دوسرے لوگوں کو بھی اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ ان مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں ۔
بین الاقوامی سطح پر حکومت کا یہ فریضہ ہے اور صدرمملکت سے ہماری جو ملاقات ہوئی ، اس میں بھی ہم نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ ایک ایسا بین الاقوامی قانون منظور کرانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
الحمدللہ ! مسلمانوں کے نزدیک نہ صرف سروردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم ، بلکہ تمام انبیاء علیہم السلام برابر ہیں ۔ یہ قرآن کریم کا اعلان ہے :
لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ (البقرۃ : ۲۸۵)
"ہم جدا نہیں کرتے کسی کو اس کے پیغمبر وںمیں سے”
لہٰذا کسی بھی نبی کی شان میں کسی بھی قسم کی گستاخی ، چاہے وہ زبانی ہو ، تحریری ہو ، تصویر کی شکل میں ہو، اسکیچ کی شکل میں ہو، یا کسی بھی شکل میں ہو ، اس کو سخت ترین سزاکا مستوجب قراردیا جائے اور جب تک یہ نہیں ہوتا مسلمانوں کو اپنا احتجاج جاری رکھنا چاہئے ۔
بعض لوگ یہ پروپیگنڈا کررہے ہیں کہ بھئی کب تک احتجاج کرتے رہوگے ؟ ارے ہم اس وقت تک احتجاج کرتے رہیں گے جب تک نبی کریم سروردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کو مکمل تحفظ نہیں دیا جاتا ، اس واسطے جب تک یہ احتجاج جاری نہیں رہے گا، اس وقت تک مغربی دنیا پر دباؤ نہیں پڑے گا، لہٰذا بین الاقوامی سطح پر اگر آپ کوئی کام کرنا چاہتے ہیں تو وہ مؤثر اس وقت تک نہیں ہوگا، جب تک یہ احتجاج جاری نہیں رہے گا۔
احتجاج کی شرعی حدود
ہاں ! یہ ضرور ہے کہ احتجاج کے لئے بھی جس طرح نبی کریم سروردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا حق اداکرنے کی ضرورت ہے ، وہاں آپ کی اطاعت بھی ایک مسلمان کا شیوہ ہونی چاہئے، اس احتجاج مین اگر کسی بے گناہ کی جان جاتی ہے ، یا کسی بے گناہ کے مال کو لوٹا جاتا ہے ، یا اس کو آگ لگائی جاتی ہے ، تو اس کا جواز نہ اسلام میں ہے ، نہ اخلاقی اعتبار سے اس کا کوئی جواز ہے ، اور یہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے بالکل خلاف ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے خطبہ کے موقع پر یہ اعلان فرمایا :
ألا ان دمائکم واموالکم واعراضکم حرام علیکم کحرمۃ یومکم ھذا فی بلدکم ھذا
"تمہارے خون ، تمہارے مال اور تمہاری آبروئیں تمہارے اوپر اسی طرح حرام ہیں ، جس طرح آج کے دن کی حرمت ہے ، اور تمہارے اس شہر کی حرمت ہے ۔”
اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی ایک روایت ابن ماجہ میں مذکورہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ شریف کا طواف کررہے تھے اور طواف کرتے کرتے آپ نے کعبہ کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ : اے بیت اللہ ! تیری عظمت اور تیری تقدیس کتنی بڑی ہے ۔صحابی کہتے ہیں کہ میں نے یہ الفاظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے سنے ، آپ نے دوتین مرتبہ یہ الفاظ دہرائے کہ اے بیت اللہ ! تیری عظمت اورتیری تقدیس کتنی بڑی ہے ، اور پھر تھوڑی دیر کے بعد خود سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ اے بیت اللہ ! تیری عظمت بہت بڑی ہے ، لیکن ایک چیز ایسی ہے جس کی عظمت اور جس کی تقدیس تجھ سے بھی زیادہ ہے ، پھر فرمایا کہ وہ ایک مسلمان کی جان ، اس کا مال ، اس کی آبرو ، اس کی حرمت اور تقدیس ہے ، یہ کعبہ سے بھی زیادہ بڑی ہے ۔لہٰذا اگر کوئی شخص کسی بے گناہ مسلمان کی جان پر ، یا اس کے مال پر ، یا اس کی آبرو پر حملہ کرتا ہے تو سروردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک وہ اس سے بھی بڑا مجرم ہے جو کعبے کو ۔معاذاللہ ۔ ڈھانے کا ارتکاب کرے ، اس سے مکمل اجتناب اور پرہیز کرتے ہوئے ہمیں عوامی طورپر یہ احتجاج جاری رکھنا چاہئے ، اور گستاخ ممالک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا چاہئے ، اور بین الاقوامی سطح پر اس بات کی کوشش کرنی چاہئے کہ کسی طرح ساری دنیا میں اس بات کو تسلیم کرلیا جائے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی ادنیٰ توہین قابل تعزیر اور سخت ترین سزا کی مستوجب قرار پائے ۔
بہرحال ! ان گستاخانہ خاکوں کے ضمن میں تین طرح کے اقدامات کی تجاویز پیش خدمت ہیں ، جن سیاسی ، معاشی اور تبلیغی سطح پر جدوجہد کرنی شامل ہے ۔
(۱) سیاسی طورپر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہماری حکومت ڈنمارک کے سفیر کو نکال دے ، اور اپنے سفیر کو بلالے ، اگر اس طرح تمام مسلم ممالک کریں ، تو اس کا خاطر خواہ اثر پڑسکتا ہے ۔
(۲) معاشی سطح پر ان ممالک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے ، جن میں گستاخانہ خاکے شائع ہوئے ہیں اور فلم بنائی گئی ہے ، کیونکہ ڈنمارک حکومت نے نیم دلانہ قسم کے اقدامات کئے ہیں ، اس گستاخ پر مقدمہ نہیں چلایا۔
(۳) تبلیغی سطح پر یہ معاملہ میڈیا پر لانے کی ضرورت ہے ، کیونکہ یورپ میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے ، جن کو ان معاملات کی سرے سے معلومات ہی نہیں ہوتیں، وہ معاشی مصروفیات میں سار ا دن گزار دیتے ہیں ، آج دنیا میں تعلیم وتبلیغ کا وسیع ذریعہ میڈیا ہے ، ہم تبلیغی معاملے پر احساس جرم کا اعتراف کرتے ہیں ،اسلام کو صحیح طورپرپیش کرنے میں ہم نے مجرمانہ کوتاہی سے کام لیا ہے ۔ اللہ جل جلالہ اپنے فضل وکرم سے ، اپنی رحمت سے ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عظمت کا وہ حق اداکرنے کی توفیق عطافرمائے جو اللہ جل جلالہ کی رضا کے مطابق ہو ۔ آمین۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

٭٭٭ ٭٭٭ ٭٭٭

(ماہنامہ البلاغ رجب المرجب 1438 ھ)