ذکروفکر

حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم

عید مبارک
حمدوستائش اس ذات کے لئے ہے جس نے اس کارخانۂ عالم کو وجود بخشا
اور
درود و سلام اس کے آخری پیغمبرپر جنہوں نے دنیا میں حق کا بول بالا کیا

ہر قوم وملّت میں سال کے کچھ دن جشنِ مسرت منانے کے لئے مقرر کئے جاتے ہیں جنہیں عرفِ عام میں تہوار کہا جاتا ہے ، تہوار منانے کے لئے ہر قوم کا مزاج ومذاق جد اہوسکتا ہے ، لیکن ان سب کی قدرِ مشترک "خوشی منانا” ہے ۔
چونکہ انسان کی طبیعت ہے کہ وہ معمولات کی یکسانی سے کبھی کبھی گھبرااٹھتا ہے ، اس لئے وہ ایسے شب وروز کا خواہش مند ہوتا ہے جن میں وہ اپنے روز مرہ کے معمولات سے ذرا ہٹ کر اپنے ذہن ودل کو فارغ کرے ، اور کچھ وقت بے فکری کے ساتھ ہنس بول کر گذارے ۔انسان کی یہی طبیعت تہواروں کو جنم دیتی ہے جو بالآخر کسی قوم کا اجتماعی شعار بن جاتے ہیں ۔
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ وہاں کے لوگ نیروز اور مہر جان کے نام سے دوخوشی کے تہوارمناتے ہیں ، صحابہ ؓ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا ہم ان تہواروں میں شرکت کریں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان کے بدلے ان سے بہتر دودن عطافرمائے ہیں ، ایک عید الفطر کا دن ، دوسرا عید الاضحیٰ کا”۔
چنانچہ امتِ مسلمہ کے لئے سال میں یہ دودن خوشی منانے کے لئے مقرر کردئے گئے جن میں ایک طرف انسانی نفسیات کے مذکورہ بالاتقاضے کی رعایت بھی ہے ، اور ساتھ ساتھ ان دنوں کے تعیّن اور ان کو منانے کے انداز میں بہت سے عملی سبق بھی ۔
کوئی تہوار مقررکرنے کے لئے عام طورسے اکثر قومیں کسی ایسے دن کا انتخاب کرتی ہیں جس میں ان کی تاریخ کا کوئی اہم واقعہ پیش آیا ہو۔مثلاً عیسائیوں کی کرسمس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے یوم پیدائش کی یاد گار کے طورپر منائی جاتی ہے (اگرچہ صحیح بات یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی یقینی تاریخ کسی کو معلوم نہیں ہے ) یہودیوں کی عید فسح اس دن کی یادگار سمجھی جاتی ہے جس میں بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم وستم سے نجات ملی ۔ اسی طرح ہندوؤں کے بہت سے تہوار بھی ان کے کسی خاص واقعے کی یادگار کے طورپرمنائے جاتے ہیں ۔
اسلامی تاریخ میں ایسے دنوں کی کوئی کمی نہیں تھی ، جن کی خوشی ہر سال اجتماعی طورپر منائی جاسکے ، دنیا ہی کا نہیں ، اس پوری کائنات کا سعید ترین دن وہ تھا جس میں سرور کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے ، یا وہ دن تھا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت کا عظیم منصب عطافرمایا گیا، اور دنیا کے لئے آخری پیغامِ ہدایت قرآن کریم کی شکل میں نازل ہونا شروع ہوا۔ اس دن کی عظمت بھی ہر شک وشبہ سے بالاتر ہے ، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کو اپنا مستقر بناکر پہلی اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی ۔ اسی طرح اس دن کی شان وشوکت کا کیا ٹھکانہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تین سو تیرہ نہتے جاں نثاروں نے بدر کے میدان میں باطل کے مسلح لشکر کو شکستِ فاش دی اور جسے خود قرآن کریم نے ــ”یوم الفرقان” (یعنی حق وباطل کے درمیان امتیاز کا دن ) قراردیا۔ اس دن بھی مسلمانوں کی فرحت ومسرت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ، جب مکہ مکرمہ فتح ہوا، اور کعبے کی چھت سے پہلی بار حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی اذان گونجی ۔غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ میں ایسے جگمگاتے ہوئے دن بے شمار ہیں جنہیں مسلمانوں کے لئے جشن مسرت کی بنیا د بنایا جاسکتا تھا ، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ حضور سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا ہر دن عظیم تھا جس میں مسلمانوں کو کوئی نہ کوئی دینی یا دنیوی دولت نصیب ہوئی ۔
لیکن اسلام کی یہ شان نرالی ہے کہ پوری امت کے لئے سالانہ عید مقررکرنے کے لئے ان میں سے کسی دن کا انتخاب نہیں کیا گیا ،اور دینی طورپر مسلمانوں کے لئے لازمی سالانہ عید مقرر کرنے کے لئے یکم شوال اور ۱۰؍ذی الحجہ کی تاریخیں منتخب کی گئیں جن سے بظاہر تاریخ کا کوئی امتیازی واقعہ وابستہ نہیں تھا ، بلکہ یہ دودن ایسے مواقع پر مقرر کئے گئے جن پر پوری امت ایک ایسی اجتماعی عبادت کی تکمیل سے فارغ ہوتی ہے جو سال میں ایک بارہی انجام دی جاتی ہے ، عید الفطر اس وقت منائی جاتی ہے جب مسلمان رمضان المبارک میں نہ صرف فرض روزوں کی تکمیل کرتے ہیں بلکہ اس مقدس مہینے کے ایک تربیتی دور سے گذر کراپنی روحانیت کو جلا بخشتے ہیں ۔ اور عید الاضحیٰ اس وقت منائی جاتی ہے جب ایک دوسری سالانہ عبادت یعنی حج کی تکمیل ہوتی ہے اور لاکھوں مسلمان عرفات کے میدان میں اپنے پروردگار سے مغفرت کی دعائیں کرکے ایک نئی زندگی کا آغاز کرچکے ہوتے ہیں ، اور جو لوگ براہِ راست حج میں شریک نہیں ہوسکے وہ قربانی کی عبادت انجام دیتے ہیں ۔
اس طرح اسلام نے اپنے پیرووں کے لئے سالانہ عید منانے کے لئے کسی ایسے دن کا انتخاب نہیں کیا جو ماضی کے کسی یادگار واقعے سے وابستہ ہو۔ اس کے بجائے مسلمانوں کی عید ایسے واقعات سے وابستہ کی گئی ہے جو مسلمانوں کے حال سے متعلق ہیں ، اور جن کی ہر سال تجدید ہوتی ہے ۔
وجہ یہ ہے کہ پچھلی تاریخ میں جوکوئی یا دگار یا مقدس واقعہ پیش آیا ،وہ ماضی کا ایک حصہ بن گیا ، اس کو یاد رکھنا اس لحاظ سے بلاشبہ مفید اور ضروری ہے کہ اسے اپنے حال اور مستقبل کی تعمیر کے لئے نمونہ اور اپنی قوتِ جہد وعمل کے لئے مہمیز بنایا جائے ،لیکن ہر وقت ماضی میں گم رہ کر حال اور مستقبل سے بے فکر ہوجانا بعض اوقات قوموں کو اپنے کرنے کے کاموں سے غافل بھی بنادیتا ہے ، اور انہیں یہ طعنہ سننا پڑتا ہے کہ ؎
تھے تو آبا وہ تمہارے ہی ، مگر تم کیا ہو؟
ہاتھ پرہاتھ دھرے منتظرفر دا ہو!
لہذا عیدین کو کسی ماضی کے واقعے سے وابستہ نہ کرکے ہمیں سبق یہ دیا گیا ہے کہ تمہیں اصل خوشی منانے کا حق ان کاموںپر پہنچتا ہے جو خود تم نے حال میں انجام دئے ہوں ، محض ان کارناموں پر نہیں جو تمہارے آباء واجداد کرگذرے تھے ۔
لہٰذا عید کا ہر دن ہم سب سے یہ سوچنے کا مطالبہ کرتا ہے کہ اپنے حال اور اعمال کے پیش نظر کیا واقعی ہمیں خوشی منانے کا حق پہنچتا ہے ؟عید الفطر درحقیقت رمضان کے تربیتی کورس میں کامیابی کا ایک انعام ہے ، اسی لئے حدیث میں اس کو”یوم الجائزہ” یعنی انعام کا دن قراردیاگیا ہے ۔ لہٰذا یہ دن ہم سے یہ جائزہ لینے کا تقاضا کرتا ہے کہ کیا ہم نے اعمال واخلاق کے اس تربیتی کورس میں واقعی کامیابی حاصل کی ہے ؟ کیا واقعی اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہمارے تعلق میںکچھ اضافہ ہوا ہے ؟ کیاہم نے بندوں کے حقوق کو پہچاننا شروع کردیا ہے ؟ کیا ہمارے دل میں امانت ، دیانت ، ضبطِ نفس اور جہد وعمل کے جذبات پیدا ہوئے ہیں ؟کیا ہم نے چار سو پھیلی ہوئی معاشرتی برائیوں کو مٹانے اور ان سے خود اجتناب کرنے کا کوئی عہد تازہ کیا ہے ؟ کیا ہمارے سینے میں ملک وملت کی فلاح وبہبود کا کوئی ولولہ پیدا ہوا ہے ؟ کیا ہم نے آپس کے جھگڑوں کو مٹاکر اس طرح متحد ہونے کا کوئی ارادہ کیا ہے جس طرح ہم عید گاہ میں یکجان نظر آتے ہیں ؟ اگر اپنے گریبان میں منہ ڈالنے اور انصاف کے ساتھ اپنا جائز ہ لینے کے بعد کسی کو ان سوالات کا ، یا کم از کم اِ ن میں سے کچھ سوالات کا جواب اثبات میں ملتا ہے تو اسے واقعی عیدمبارک ہو۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

(ماہنامہ البلاغ شوال المکرم 1438ھ)