خطاب: حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
ضبط وترتیب: مولانا راشد حسین صاحب
(فاضل جامعہ دارالعلوم کراچی)

ہمیں پاکستان کی تعمیر وترقی کے لئے متحد ہوجانا چاہئے

حمدوستائش اس ذات کے لئے ہے جس نے اس کارخانۂ عالم کو وجود بخشا
اور
درود و سلام اس کے آخری پیغمبرپر جنہوں نے دنیا میں حق کا بول بالا کیا

۱۵؍محرم الحرام ۱۴۴۴ھ (مطابق ۱۴؍اگست ۲۰۲۲ء )کو مملکتِ خدادپاکستان کے پچھترویں یومِ استقلال کے موقع پر جامعہ دارالعلوم کراچی میں حسبِ روایت ایک پروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ یومِ آزادی کے دن حسبِ سابق تمام طلبہ نے نمازِ فجر کے بعد تلاوت کی اور وطنِ عزیز کے استحکام و ترقی کے لئے اجتماعی دعا ہوئی۔ بعد ازاں جلسے میں حمد و نعت کے بعد طلباء ِ کرام نے ملی نغمے پیش کئے، جن میں ملک و ملت سے اظہارِ محبت کیا گیا۔ پھر نائب رئیس الجامعہ حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم العالی نے اس تقریب سے بصیرت افروز اور فکر انگیز خطاب فرمایا، جس کے بعد پرچم کشائی ہوئی۔ تقریب میں رئیس الجامعہ حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب دامت برکاتہم بھی اپنی علالت کے باوجود تشریف لائے اور تقریب کو رونق بخشی۔ حضرت نائب رئیس الجامعہ مدظلہم نے اپنے خطاب میں وطنِ عزیز پاکستان کے امتیازات و خصوصیات،پاکستان اور دیگر مسلمان ملکوں کے خلاف مغربی طاقتوں کے عزائم،تاریخ میں مسلمانوں کی شکست کا بنیادی سبب، دشمنوں کی نظروں میں پاکستان کے "جرائم” پر گفتگو کے ساتھ ساتھ موجودہ سیاسی حالات اور ان حالات میں درست طرز عمل کی طرف رہنمائی فرمائی۔حضرت والا مدظلہم کایہ وقیع خطاب نذرِ قارئین ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ادارہ)


الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سیدنا و مولانا محمد خاتم النبیین و امام المرسلین وعلی آلہ واصحابہ اجمعین، وعلی کل من تبعھم باحسان الی یوم الدین، اما بعد!

آج اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہم پاکستان کے استقلال کی پچھترویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ میں اس بات پر سب سے پہلے تو تمام اساتذہ کرام، منتظمینِ جلسہ اور اپنے عزیز طلبہ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے بڑے نظم و ضبط کے ساتھ اس دن کے شایانِ شان انتظامات کیے اور ایسا ماحول پیدا کیا جس سے الحمدللہ دلوں میں پاکستان کے ساتھ محبت و وارفتگی کا اور اس کی تعمیر و ترقی کا جذبہ اور ولولہ پیدا ہوتا نظر آرہا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس جذبے اور و لولے کو قائم و دائم رکھے اور ہمیں اس مملکتِ خداد کی صحیح طرح خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

پاکستان میں ہر کچھ عرصے بعد جنم لیتے بحرانوں کی اصل وجہ
پاکستان کی تاریخ کچھ ایسی ہے کہ ہر کچھ عرصے کے بعد پاکستان میں ایک نیا بحران اور نیا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے یہاں کے رہنے والے بے چین رہتے ہیں۔آج کل بھی ہمارا کچھ یہی حال ہے اور ہم اپنا یہ پچھترواں یوم آزادی ایک ایسے وقت میں منا رہے ہیں جب ہمارا ملک مختلف سیاسی اور اقتصادی بحرانوں میں گھرا ہوا ہے،ایک طرف ہم سیاسی طور پر عدمِ استحکام کا شکار ہیں، دوسری طرف معاشی لحاظ سے پریشانیوں سے گزر رہے ہیں، لیکن ہمیں ایک بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ پاکستان میں یہ ہمیں جتنے بھی بحران نظر آتے ہیں، یہ درحقیقت پاکستان کے خلاف دشمنوں کی وہ سازشیں ہیں جن کے ذریعے وہ اس ملک کو نقصان پہنچا کر اس ملک کی بنیادوں کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔

دیگر اسلامی ممالک کے مقابلے میں پاکستان کا امتیاز
آج یہ ایک فیشن بن گیا ہے کہ جب پاکستان کے حالات کا ذکر آتا ہے تو پاکستان کے اندر جو خامیاں پائی جاتی ہیں ان کا تذکرہ یا پاکستان اپنی صحیح منزل تک جو ابھی تک نہیں پہنچ سکا اس کا تذکرہ اس شدت کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ گویا اس روئے زمین پر پاکستان سے زیادہ بُرا ملک کوئی اور نہیں ہے۔ حیرت ان لوگوں پر ہوتی ہے جو پاکستان میں رہتے ہیں،پاکستان کا کھاتے ہیں اور پاکستان کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں، لیکن اس سب کے باوجود اس ملک کے لیے کوئی کلمہ خیر ان کی زبانوں پر آنا مشکل ہوتا ہے۔ہر وقت یہ کہنا کہ پاکستان میں یہ خرابی ہے، پاکستان میں وہ خرابی ہے، دوسرے ملکوں میں ایسا ہوتا ہے جبکہ پاکستان میں ایسا ہوتا ہے۔ غرض دنیا کے سارے ملکوں کے ساتھ تقابل کر کے پاکستان کو ایک انتہائی پست ملک اور اہلِ پاکستان کو انتہائی پست قوم کے طور پر پیش کیا جاتا ہے،جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ اگرچہ پاکستان میں خامیاں پائی جاتی ہیں اور جہاں موقع ملتا ہے ہم خود بھی ان خامیوں کی نشاندہی اور ان کو دور کرنے کی کوشش میں حصہ لیتے رہتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اپنی ہزار خامیوں کے باوجود، الحمدللہ اس وقت روئے زمین پر کوئی اتنا بہترین مسلمان ملک موجود نہیں ہے جتنا پاکستان ہے۔ حرمین شریفین کا تقدّس سر آنکھوں پر ہے اور اس کا تقابل کسی بھی ملک سے نہیں کیا جاسکتا، لیکن اگر حکومتی نقطہ نظر سے دیکھا جائے اور دین کی تعلیم و تعلم کی ترویج اور دینی شعائر کے تحفظ کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ اب بھی پاکستان تمام مسلمان ملکوں سے اس معاملے میں آگے ہے اور بہت آگے ہے۔میں ساری دنیا میں پھرا ہوں اور خاص طور پر تقریباً تمام اسلامی ممالک میں نے دیکھ رکھے ہیں۔ وہاں کے نظام کو بھی دیکھا ہے، وہاں کے اہلِ علم سے بھی باتیں ہوئی ہیں اور وہاں کے عوام سے بھی گھلنا ملنا ہوا ہے۔ ان سب باتوں کو دیکھنے کے بعد میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس وقت موجودہ حالت میں بھی پاکستان تمام مسلم ممالک کے مقابلے میں ایک عظیم امتیاز رکھتا ہے۔الحمدللہ، اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک ایسا ملک عطا فرمایا ہے جس کے دستور کا پہلا جملہ ہی اس بات سے شروع ہوتا ہے کہ
اس کائنات پر حاکمیتِ اعلیٰ صرف اللہ کی ہے……..۔
یہی وہ امتیاز ہے جودشمنوں کی نگاہ میں کھٹکتا ہے اور وہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ جس طرح ہوسکے اسلام کے اس قلعے کو کمزور کیا جائے۔

دشمنوں کی نظر میں پاکستان کے ’’دو جرم‘‘
پاکستان دشمنوں اور مغربی طاقتوں کی نظروں میں دو وجہ سے کھٹکتا ہے یا ان کی نظر میں پاکستان کے” دو جرم” ہیں:
ایک "جرم” تو یہ ہے کہ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا،اور اس کا پہلا نعرہ ہی یہ تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالہ الا اللہ۔ اس ملک کی بنیاد میں اسلام داخل ہے، اس کے بنانے والوں نے اسلام کی خاطر قربانیاں دے کر اور اپنے خون پسینے بہا کر اس ملک کو حاصل کیا ہے۔اسلام کے نام پر وجود میں آنا بجائے خود ان کی نظروں میں ایک” جرم” ہے اور اس کی سزا پاکستان کو دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔
پاکستان کا دوسرا” جرم” یہ ہے کہ اس کے پاس ایٹم بم آگیا اور یہ ایٹمی طاقت بن گیا ہے۔ ایٹمی طاقت بننے کی وجہ سے اس کے اوپر چڑھائی کرنا یا اس کے اوپر حملہ کرنا اب تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔اب یہ بات ناممکن ہوگئی ہے کہ کوئی ا س کے اوپر فوجی طاقت سے حملہ کرکے اس کے اوپر قبضہ کرے۔لیکن ان کی نظروں میں اسے کمزور کرنا اور اسے نقصان پہنچانا ضروری ہے، تاکہ یہ مزید قوت حاصل نہ کرسکے۔

پاکستان کے خلاف لڑاو اور تقسیم کرو کا فارمولہ
اسلام کے نام پر وجود میں آنے اور ایٹمی طاقت حاصل کرنے کی ان دو خصوصیات کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو دیگر بے شمار نعمتوں سے بھی نوازا ہوا ہے۔ہمالیہ کے دامن میں پھیلا ہوا یہ وسیع و عریض ملک، ایسا عظیم ملک ہے کہ جس میں تمام قدرتی وسائل موجود ہیں، پہاڑ اس میں ہیں۔دریا اس میں ہیں، سمندر اس میں ہیں۔ زراعت کے میدان ا س میں ہیں، کھیت کھلیان اس میں ہیں، باغات اس میں ہیں، صحر ا اس میں ہیں، معدنیات اس میں ہیں۔ غرض قدرتی وسائل کا ایک لا متناہی ذخیرہ ہے جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے پاکستان کو عطا فرمایا ہواہے،لہذا اگر پاکستان مسلمان بھی رہے اور اس کے پاس ایٹمی طاقت بھی ہو اور اس کے اپنے قدرتی وسائل بھی اتنے زیادہ ہوں تو اس سے بڑا خطرہ ان کیلئے کوئی اور نہیں ہو سکتا۔
پاکستان کے ایٹمی طاقت ہونے کی وجہ سے دشمن اس بات سے تو مایوس ہوچکاہے کہ اس پر فوجی طاقت کے ذریعے قبضہ کیا جائے، لیکن اس کا ایک اور طریقہ ہے کہ انہیں لڑاو اور تقسیم کرو اور انہیں آپس میں متحد نہ ہونے دو۔ ان کے درمیان ہمیشہ تفریق کا کوئی نہ کوئی بیج بوتے رہو۔کبھی فرقہ واریت کی بنیاد پر، کبھی سیاسی تفریق کی بنیاد پر، کبھی عصبیت کی بنیاد پر انہیں لڑاتے رہو اور انہیں اکٹھا نہ ہونے دو۔انہیں اس بات کا موقع نہ دو کہ یہ اکٹھے ہو کر اپنے ملک کی تعمیر و ترقی میں حصہ لے سکیں۔ چنانچہ اس کا نظارہ ہم آپ دیکھ رہے ہیں۔ اس وقت ملک کی جو حالت ہے، ملک سیاسی اعتبار سے دو دھڑوں میں اس طرح تقسیم ہوگیا ہے کہ کوئی ایک فریق دوسرے کی بات سننے کا بھی رودار نہیں۔ایک دوسرے کے خلاف گالم گلوچ کا بازار گرم ہے، اور لوگ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں، یہ حالت خوبخود نہیں پیدا ہوگئی بلکہ یہ پیدا کی جارہی ہے اور یہ پیدا اس لیے کی جارہی ہے تاکہ ہمارا ملک متحد نہ ہوسکے۔

دلفریب نعروں کے ذریعے مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی کوشش
ملک کے باشندوں کو تقسیم کرنے کیلئے اور اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلئے بعض اوقات بڑے خوشگوار اور خوبصورت نعرے دیے جاتے ہیں۔ وہ نعرے ایسے ہوتے ہیں کہ جو جوانوں کو بڑے دلکش اور دلفریب معلوم ہوتے ہیں، چنانچہ ان دلکش و دلفریب نعروں سے مرعوب و متأثر ہو کے نوجوان ایک رخ پر چل پڑتا ہے۔اس بیچارے کو یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ یہ نعرہ کہاں سے چلا ہے؟ کون اس کی رسی ہلا رہا ہے؟ اور اس کے نتائج کیا ہونے والے ہیں؟ جذبات کا ایک سمندر ابالا جاتا ہے، جس کے ذریعے مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کبھی فرقوں کے نام پر کبھی سیاسی نظریات کے نام پر، کبھی صوبائیت کے نام پر،کبھی سندھی، بلوچی ،پختون اور پنجابی کے نام پر، کبھی کسی اور عنوان سے، غرض مختلف قسم کے عنوان رکھ کر اور تعصبات کو ہوا دے کر ملک کے پاشندوں کے درمیان تفریق پیدا کی جاتی ہے۔ نوجوان جذبات کی رو میں بَہ کر ان دلکش نعروں کے پیچھے چل پڑتے ہیں، جس کے نتیجے میں فائدہ دشمن کا ہوتا ہے، فائدہ مغربی دنیا کا ہوتا ہے، فائدہ ان لوگوں کا ہوتا ہے جو مسلمانوں کو متحد نہیں دیکھنا چاہتے۔ہم ان حالات سے گزر رہے ہیں۔
آپ پاکستان کی حالت دیکھیں کہ کتنی قسم کے گروہ اور جماعتیں آپس میں ہی برسرِ پیکار ہیں، جس کا فائدہ براہِ راست یا بالواسطہ دشمن اٹھا رہے ہیں۔ہر صوبے میں کوئی نہ کوئی جماعت یا گروہ ایسا پیدا کیا جاتا ہے جو ملکی اتحاد کو نقصان پہنچاتا ہے۔ مثلاً بلوچستان میں وہاں کے لوگوں کو بلوچ لبریشن آرمی بنا کے کھڑا کردیا کہ بلوچستان آزاد ہونا چاہتا ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بلوچستان میں ناانصافیاں ہوئی ہیں، لیکن اس کا یہ حل نہیں ہے کہ الگ ہونے کا مطالبہ کیا جائے۔ اسی طرح پختون خواہ کے اندر ایک پشتون تحریک شروع کی گئی کہ جو پشتون کی بنیاد پر لوگوں کو جمع کرے، ایک عرصے سے یہاں کراچی میں اسی عصبیت کی بنیاد پر مہاجر قومی موومنٹ کے نام پرتباہی ہوئی اور المناک واقعات پیش آئے ۔ سندھ میں سندھو دیش کا نعرہ لگایا جارہا ہے اور سندھو دیش والوں کو تقویت پہنچائی جارہی ہے۔اسی طرح مسلمانوں کے درمیان مسلکی اختلافات پیدا کرکے، دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث اور شیعہ کے مابین جان بوجھ کر ٹکراو پیدا کیا جارہا ہے۔یہ سب مغربی طاقتوں کا طریقۂ واردات ہے جس کے ذریعے وہ اپنے مقاصد حاصل کرتی ہیں۔

سویت یونین کی طاقت توڑنے کے بعد اگلا ہدف
ایک زمانے میں دنیا میں دو سپر طاقتیں کہلاتی تھیں، ایک امریکہ اور ایک سویت یونین یعنی روس جو بہت ساری ریاستوں پر مشتمل تھا۔ ان دو ملکوں کو دنیا کی اعلیٰ ترین طاقتیں کہا جاتا تھا۔ ان میں سے سویت یونین کی ریاستوں نے ستر سال سے زائد عرصے تک کمیونزم یعنی اشتراکیت کا تجربہ کرنے کے بعد یہ محسوس کیا کہ ہم جس راستے میں چلے تھے وہ ترقی کا راستہ نہیں ہے، لہذا انہوں نے اس نظام سے خلاصی حاصل کی، جس کے نتیجے میں کمیونزم فیل ہو گیا۔ اشتراکیت کا محل دھڑام سے گر پڑا اور اس کے گرنے کے بعد وہ سپر طاقت کہلانے والی ریاست جو سوویت یونین کے نام سے موسوم تھی، وہ مختلف دھڑوں میں بٹ کر الگ الگ ریاستوں میں تقسیم ہو گئی اور اس طرح اس کی قوت پارہ پارہ ہو گئی ، علاوہ ازیں روس کو توڑنے میں ایک بہت بڑا مؤثر عامل افغانستان کے جہاد کا تھا،افغانوں سے لڑنے کے بعد سے اس کے زوال کا آغاز ہوا اور یوں اس کی قوت ختم ہوگئی۔
اب اس وقت دنیا میں صرف ایک سپر طاقت باقی رہ گئی اور وہ ہے امریکہ۔ لیکن چاہے امریکہ ہو یا چاہے دیگرمغربی طاقتیں،باوجود اپنے دشمن یعنی روس کو فنا کرنے کے ان کے دل و دماغ پر ایک خوف چھایا ہوا ہے اور وہ خوف یہ ہے کہ ہم نے روس کو تو فتح کرلیا لیکن یہ امتِ مسلمہ جو انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک ایک زنجیر میں پروئی ہوئی ہے، کہیں یہ کسی وقت طاقت حاصل نہ کرلے اور ہمارے مدمقابل نہ آجائے،چنانچہ اسی وجہ سے اس وقت پورا عالم اسلام مغربی طاقتوں کا نشانہ بنا ہوا ہے۔

مسلمان ممالک کے خلاف مغربی طاقتوں کے عزائم
اگرچہ مغربی طاقتوں نے اشتراکیت کو شکست دے دی اور اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اشتراکیت کے پاس ایسا کوئی نظام نہیں تھا جو دائمی بنیادوں پر چل سکے، اس لئے وہ شکست کھا گیا لیکن یہ بات آج مغربی اقوام کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اسلام کے پاس ایسا نظام ہے جو ہمارا مقابلہ کر سکتا ہے، چنانچہ مجھے یا د ہے جب سوویت یونین ختم ہوا تو امریکہ کے ایک مشہور ماہانامہ رسالے ٹائم میگزین نے اس کی عکاسی کرتے ہوئے دکھایا تھا کہ کمیونزم ایک بہت لمبا چوڑا قلعہ ہے اور اس قلعے کی دیواریں گر رہی ہیں اور اس کے اوپر امریکی اثرات نمایاں نظر آرہے ہیں، اور ساتھ ہی برابر میں ایک چھوٹی سی تصویر ایک مسجد کی بھی دی گئی تھی۔ اب بظاہر اس مسجد کا وہاں کوئی تُک نہیں بنتا تھا، لیکن وہ بتانا یہ چاہتے تھے کہ سوویت یونین تو ختم ہوگیا اور اس کو ہم نے گرا دیا،لیکن یہ جو مسجد ہے اب یہ ہمارا مدِمقابل ہے۔ ہمارا اگلا ہدف اور نشانہ اب مسجد ہے اور مسجد سے مراد اسلام، اسلامی تعلیمات واقدار اور اسلامی ممالک ہیں۔

قدرتی وسائل سے مالا مال اسلامی ممالک کی زنجیر
اللہ تعالیٰ نے عالمَ اسلام کو کچھ اس طرح بنایا ہوا ہے کہ پورا عالمِ اسلام ایک زنجیر میں پرویا ہوا لگتا ہے۔ اگر انڈونیشیا سے شروع کریں تو ہر اسلامی ملک ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے کے ساتھ ترتیب سے ملا ہوا ہے اور اسلامی ممالک کی ایک زنجیر سی بن جاتی ہے۔ یہ زنجیر انڈونیشیا سے شروع ہو کر مراکش پر ختم ہوتی ہے اور سوائے یہود و ہنود یعنی اسرائیل اور انڈیا کے، بیچ میں کوئی دوسرا ملک حائل نہیں ہے۔صرف یہ دو ریاستیں ہیں جو بیچ میں حائل ہیں ورنہ پورا عالم اسلام ایک زنجیر میں پرویا ہوا ہے۔ انڈونیشیا سے مراکش تک کا پورا علاقہ پوری دنیا کا وسَط ہے، یہ پوری دنیا کے بیچوں بیچ آباد ہے۔ دنیا کی بہترین شاہراہیں ان کے قبضے میں ہیں، نہر سوئز ان کے پاس ہے، آبنائے باسفورس ان کے پاس ہے، خلیج عدن ان کے پاس ہے۔غرض تمام اہم مقامات مسلمان ممالک کے پاس ہیں۔ جنگی اہمیت کے حامل عظیم ترین مقامات سب عالمِ اسلام کے پاس ہیں اور اس وقت دولت کا جو سر چشمہ سمجھا جاتا ہے یعنی تیل،وہ بھی پوری دنیا میں مسلمان علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ خلیجی ممالک تیل سے آباد ہیں، ایران تیل سے آباد ہے،عراق تیل سے آباد ہے۔ یہ بڑے بڑے مسلمان ممالک ہیں جو تیل کی طاقت رکھتے ہیں۔اسی لیے یہ مقولہ مشہور ہو گیا کہ جہاں مسلمان ہیں وہاں تیل ہے۔ تیل ایک ایسا قدرتی وسیلہ ہے جو زرِ سیال ہے یعنی بہتا ہوا سونا ہے اور یہ سونا اللہ تبارک و تعالیٰ نے عالم اسلام کو وافر عطا کیا ہوا ہے۔
اس لئے اب مغربی طاقتوں کی ساری توجہ اس بات پر ہے کہ یہ عالم اسلام کسی وقت متحد نہ ہونے پائے، یہ عالم اسلام ہمارا غلام بنا رہے اور عالم اسلام کے تمام ممالک ہمارے محتاج رہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی وقت یہ امت بیدار ہو کر متحد ہو جائے اور ہمارے لیے کمیونزم سے زیادہ بڑا مدمقابل بن جائے۔

مُزدکِیّت فتنہ ٔ فردا نہیں، اسلام ہے!
اقبال مرحوم کی ایک نظم ہے جس کا عنوان ہے” ابلیس کی مجلس شوریٰ ” جس میں انہوں نے یہ بتایا ہے کہ ایک مرتبہ شیطان نے مجلس شوریٰ منعقد کی، سارے شیطانوں کو جمع کر کے ہر ایک سے پوچھا کہ اب ہمارے لیے یعنی شیطانوں کیلئے سب سے خطرناک چیز کیا ہے؟ کسی نے کچھ جواب دیا اور کسی نے کچھ، ایک شیطان نے اٹھ کر کہا کہ اس وقت ہمارا سب سے بڑا خطرہ اشتراکیت یعنی کمیونزم ہے،کیونکہ یہ تمام لوگوں کو مساوات کا درس دے رہا ہے اور سب انسانوں کو برابر کہتا ہے، اس لئے یہ ہمارے لئے سب سے بڑا فتنہ ہے۔ان سب باتوں کے بعد آخر میں ابلیس نے تقریر کی اور اس تقریر میں اس نے کہا کہ تم میں سے کسی نے صحیح نہیں سمجھا کہ آئندہ کے لیے کیا چیز ہمارے لیے اصل فتنہ ہے؟کون سی چیز ہمارے لیے مصیبت بن سکتی ہے اور وہ کیا چیز ہے جو ہماری طاقت اور ہمارے مقاصد کو فنا کر سکتی ہے۔ اس نے لمبی تقریر کرنے کے بعد کہا:

جانتا ہوں میں جو رنگِ گردشِ ایام ہے
مُزدکِیّت فتنہ ٔفردا نہیں، اسلام ہے!

مزدکیت یعنی اشتراکیت، مطلب یہ ہے کہ ہمارے لیے مستقبل کا فتنہ اشتراکیت نہیں بلکہ اسلام ہے۔ یہ ابلیس نے تشخیص کی تھی اور اسی تشخیص پر مغربی طاقتیں اس وقت کاربند ہیں کہ کسی نہ کسی طرح مسلمانوں کو دبا کر رکھا جائے اور انہیں متحد نہ ہونے دیا جائے۔ ان کے دل و دماغ پر ہر وقت یہ ہوّا مسلط ہے کہ اگر یہ امت کسی وقت متحد ہوگئی اور اس نے اتحاد و اتفاق کے ساتھ اپنی کوئی قوت قائم کر لی تو یہ بات ہمارے لیے سب سے بڑی مصیبت ہوگی۔

پچھاڑ کر رونے والے آدمی کی مثال
ایک لطیفہ مشہور ہے، وہ یہ کہ ایک مرتبہ ایک کمزور آدمی کا ایک طاقتور انسان سے مقابلہ ہوگیا۔ کمزور آدمی بیچارہ جسمانی اعتبار سے اگرچہ کمزور تھا لیکن اسے چالیں اور تدبیریں بہت آتی تھیں، چنانچہ اس نے اپنی تدبیروں سے موٹے اور طاقتور کوئی اڑنگا لگا کر نیچے گرا دیا اور اس کی چھاتی پر چڑھ کر بیٹھ گیا اور ساتھ ہی ساتھ رونے بھی لگا۔ کسی نے پوچھا کہ تو نے میدان مار لیا، اسے گرادیااور اس کے سینے پر چڑھ کر بیٹھ گیا تو اب روتا کس لیے ہے؟ جواب میں اس نے کہا کہ روتا اس لیے ہوں کہ میں نے کسی طرح اس کو چال اور داو لگا کر گرا تو دیا ہے، لیکن جب تھوڑی دیر بعد یہ اٹھ کر مجھے مارے گا تو میرا برا حشر کرے گا، اس لیے میں رو رہا ہوں۔
اب اس وقت یہی صورتحال اس مغرب کی بنی ہوئی ہے کہ اس نے ہمیں ملکوں میں، قوموں میں، نظریات میں تقسیم کرکے ڈھا تو دیا ہے،لیکن اب بھی وہ رو رہا ہے، اور رو اس لیے رہا ہے کہ اگر کسی وقت یہ اٹھ گئے اور اٹھ کر میرے مقابلے میں آگئے تو پھر میری خیر نہیں۔

طاقت حاصل کرنے والا ہر اسلامی ملک دشمنوں کے نشانے پر
اس وقت پورے مغرب میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں یہی سوچ اور یہی تصور پایا جاتا ہے کہ اگر انہیں طاقت حاصل ہوگئی یا یہ متحد ہوگئے تو پھر ہماری چودھراہٹ ختم ہوجائے گی۔ اسی تصور کو سامنے رکھتے ہوئے اگر آپ ہمارے ماضی قریب کے حالات کو دیکھیں تو مسلمان ممالک میں سے جو ریاست بھی طاقت کے اعتبار سے ذرا ابھرتی ہے،، وہ مغربی طاقتوں کا سب سے پہلا نشانہ بنتی ہے۔ ایک زمانے میں عالمِ اسلام میں مصر ابھرتا ہوا نظر آ رہا تھا،اس میں طاقت پیدا ہورہی تھی اور وہ اسرائیل کا ایک موثر مدمقابل بنتا جارہا تھا، لیکن امریکہ اور برطانیہ نے اس کے اوپر حملہ کرکے اور اسے شکست دے کر،اس میں بننے والی طاقت کو ختم کردیا۔ اب مصر کا ایک طاقت کے طور پر کوئی وجود نہیں رہا،اور خاص طور پر کیمپ ڈیوڈسمجھوتے( (Camp David Accords کے نتیجے میں جو شرائط طے ہوئی تھیں تو اس کے بعد سے تو امریکہ نے اس کے اوپر اپنا پورا قبضہ جمالیا، چنانچہ اب وہاں کوئی کام امریکہ کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔
مصر کے بعد دوسرا ملک جو کچھ قوت اختیار کررہا تھا وہ عراق تھا، لیکن عراق کا حشر بھی آپ نے دیکھ لیاکہ کس طرح اسے تباہ و برباد کیا گیا۔ ا سکے بعد لیبیا کچھ زور پکڑنے لگا تو اس کو بھی تباہ کردیا گیا۔اسی طرح شام کے اندر کس طریقے سے مختلف فریقوں کو آپس میں لڑا کر اسے نیست و نابود کردیا۔ عرب ممالک کے اندر جو بڑی بڑی طاقتیں تھیں، وہ ایک ایک کرکے انہوں نے ختم کردیں اور وہاں اپنا جھنڈا گاڑ دیا۔ان سب کے بعد اب آخر میں ان کا ہدف اور نشانہ پاکستان ہے۔پاکستان ان کی نظروں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے،اس لیے اب ان کی نظریں پاکستان پر مرکوز ہیں۔ ان شاء اللہ ثم انشاء اللہ، اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر کہتا ہوں کہ پاکستان کے ساتھ ایسا نہیں ہوسکتا۔اس پاکستان کی بنیاد میں ہزارہا شہیدوں کا لہو شامل ہے، اس پاکستان میں ہمارے اکابر علماء ِ دیوبند کا خون و پسینہ شامل ہے اور ان کی جدوجہد شامل ہے۔تاہم اتنا ضرور ہے کہ ہمیں دشمنوں کی سازشوں کو سمجھنا ہوگا اور آپس کے اختلافات کو بھلا کر متحد رہنا ہوگا۔ ان شاء اللہ یہ سازشیں کامیاب نہیں ہوں گی، لیکن ہر وقت خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔

تاریخِ اسلام میں مسلمانوں کی شکست کا بنیادی سبب
آپ اگر اسلام کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو جہاں جہاں مسلمانوں کو شکست ہوئی وہاں اس شکست کا بنیادی سبب یہ تھا کہ مسلمانوں کے درمیان تفریق پیدا ہوگئی تھی اور وہ آپس میں لڑنے جھگڑنے لگے تھے۔آپ کو معلوم ہوگا کہ جب بغداد کے اوپر تاتاریوں نے حملہ کیا تو اس وقت بغداد کے ایک مشہور چوک؛مامونیہ میں علماء ِ کرام کے درمیان چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑے ہوتے تھے۔ جیسے آجکل پنجاب اور سرحد میں حیاتِ نبی و مماتِ نبی پر ہورہے ہیں، کوئی حیاتی ہے،کوئی مماتی ہے اور اس بات کو لے کران کے درمیان مناظرے ہورہے ہیں اور ساری قوتِ بیان اور زورِ بیان ان مسئلوں پر صرف کیا جارہا ہے۔ اسی طرح بغداد میں جب تاتار والوں کا حملہ ہونے والا تھا تو اس وقت بھی علماء ِ کرام کے درمیان آپس میں چھوٹے چھوٹے مسئلوں پر جھگڑے ہوتے تھے اور مامونیہ چوک پر مناظروں کا ہر روز بازار گرم ہوتا تھا۔ان مناظروں کے اندار ایک دوسرے کے اوپر طعن و تشنیع ہوتی تھی، ایک دوسرے کو نیچا دکھایا جاتا تھا جبکہ تاتار کا فتنہ دروازوں پر دستک دے رہا تھا۔چونکہ انہوں نے وقت کی نزاکت کو نہیں سمجھا اور ان بحثوں میں مبتلا ہوگئے تو ہلاکو خان نے آکر بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی،چنانچہ نہ اِس مسلک والے باقی رہے نہ اُس مسلک والے باقی رہے۔ نہ اِس نقطہ نظر کے لوگ سلامت رہے نہ اُس نقطہ نظر کے لوگ سلامت رہے۔
بغداد کی جو تباہی ہوئی ہے،اس میں اتنا زبردست انسانی خون بہا کہ کہا جاتا ہے کہ دریائے دجلہ کا پانی مسلمانوں کے خون سے سرخ ہوگیا تھا۔ کتابیں نذرِ آتش کی گئیں اور دریاؤں میں بہائی گئیں۔ ایک کتب خانے میں امام راغب اصفہانی رحمہ اللہ کی مفردات القرآن میری نظر سے گزری تو اس پر کسی نے لکھا ہوا تھا کہ تاتاریوں نے جو کتابیں دریا میں بہائی تھیں، ان میں سے یہ کتاب بھی تھی جو مجھے دریائے دجلہ کے اندر پڑی ہوئی ملی تھی اور میں نے وہاں سے اٹھائی تھی۔ان کی یہ حالت اس لیے بنی کہ انہوں نے وقت کے طوفانوں کا صحیح اندازہ نہیں کیا اور چھوٹے چھوٹے مسئلوں میں، چھوٹی چھوٹی باتوں میں باہم دست و گریباں ہو کر ایک دوسرے سے لڑائی اختیار کرلی اور یوں ان کی وحدت پارہ پارہ ہوگئی اور اس کے نتیجے میں دشمن ان پر مسلط ہوگیا۔

شریعت کے نفاذ کے لئے پرامن اور علمی طریقہ اپنانے کا راستہ
آج ہمیں کمزور کرنے کیلئے ہمارے نوجوانوں کو بہکایا جاتا ہے کہ پاکستان کے اندر شریعت نافذ نہیں ہے، لہذا اس کے خلاف جہاد کیلیے کھڑے ہو جاؤ، اس کے خلاف ہتھیار لے کر جدوجہد شروع کردو،جو یہ سبق پڑھاتے ہیں اور جو یہ نعرہ لگاتے ہیں وہ سب باہر کے کھڑے کئے ہوئے لوگ ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ الحمدللہ اس وقت پوری دنیا میں اتنا اسلامی دستور کسی ملک کا نہیں ہے، جتنا پاکستان کا ہے، لیکن اس کو نافذ کرنے کیلئے اور اسے عملی زندگی میں برپا کرنے کیلئے جدوجہد اس طرح نہیں ہوگی کہ بغاوت کردی جائے یا آپس میں لڑائی جھگڑے شروع کردیے جائیں، بلکہ اس کا ایک پرامن اور علمی طریقہ موجود ہے، جسے اختیار کرکے مطلوبہ مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ افسوس ہے کہ اس علمی طریقے کی طرف لوگوں کا دھیان نہیں، ورنہ اگر اس طرزِ عمل پر عمل کیا جاتا جو دستور پاکستان نے ہمیں عطا کیا ہے، تو آج پاکستان کا کوئی قانون شریعت کے خلاف نہ ہوتا۔
ہر دلکش نعروں کے پیچھے چلنے کی عادت کو ختم کرنا ہوگا
اس وقت جب کہ ہمیں آزاد ہوئے 75 سال گزر چکے ہیں، اور آج ہم اپنا 75 واں یومِ آزادی منا رہے ہیں تو اس موقع پر اور اس صورتحال کے تناظر میں ہمیں جو سبق لینا چاہیے وہ یہ کہ ہم ہر دل کش نعرے کے پیچھے چلنے کی عادت کو ختم کریں۔ جذبات کی رو میں بہنے کے بجائے عقل و سمجھ سے کام لیں اور دشمنوں کی چالوں کو سمجھیں۔ دشمن کسی بھی وقت کوئی بھی فتنہ کھڑا کر سکتے ہیں اور کرتے رہتے ہیں۔چونکہ نوجوان کا خون گرم ہوتا ہے اور اس گرم خون کو کسی مقصد میں استعمال کرنے کیلئے ایک جذباتی نعرہ ہی کافی ہوتا ہے۔اس لیے میں خاص طور پر نوجوانوں سے اور اپنے ان عزیز طلبہ سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس دنیا میں چلتے ہوئے نعروں کے پیچھے جذباتی بن کر نہ چلا کریں،عقل و فہم اور سمجھ سے کام لیا کریں، اپنے اکابر پر بھروسہ کریں، اپنے اساتذہ پر بھروسہ کریں اور جو کام بھی کریں اپنے اساتذہ کے مشورے سے کریں، اساتذہ کے علم میں لا کر کریں، اساتذہ کے دیے ہوئے رہنما اصولوں کے تحت کریں۔اگر اس طرح کریں گے تو ان شاء اللہ آپ محفوظ رہیں گے۔ اگر خدا نہ کرے کہ دلفریب نعروں سے متأثر ہو کر کوئی اور راستہ اختیار کرلیا تو نہ جانے کونسا دشمن تمہیں کہاں بہا کر لے جائے اور تمہیں پتا بھی نہ چلے۔

موجودہ سیاسی منظرنامہ اور اخلاقیات کا فقدان
خلاصہ یہ کہ اس موجودہ ماحول میں اسلام دشمنوں کی سازشیں طرح طرح سے ہمارے ملک پر وار کرنا چاہتی ہیں اور ہمارے ملک کے اندر سرگرم ہیں اور ان کا راستہ یہ ہے کہ کسی گروہ کو ایک جذباتی نعرہ دے دیا جاتا ہے، وہ جذباتی نعرہ ایسا ہوتا ہے کہ جو نوجوانوں کے دل و دماغ کو قابو کرلیتا ہے اور وہ بلا سوچے سمجھے اس نعرے کے پیچھے چل پڑتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اسلام کی اور ملک و ملت کی بڑی خدمت کررہے ہیں، ہم جہادکررہے ہیں۔ یہ تصور اس کے دل میں پیدا کردیا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں جب مختلف گروہ بن جاتے ہیں تو ان کو باہم ایک دوسرے سے لڑا دیا جاتا ہے، جس سے نفرتیں جنم لیتی ہیں اور قوم تقسیم ہو جاتی ہے۔
اس وقت جو ہمارا سیاسی منظر نامہ ہے، اس میں آپ دیکھیں کہ کس طرح قوم تقسیم ہو کر رہ گئی اور ایسی تقسیم کہ کوئی شخص دوسرے کی بات سننے کا روادار نہیں، ایک دوسرے کے خلاف گالم گلوچ ہورہی ہے، سب و شتم ہورہا ہے، ایک دوسرے کے اوپر لعنت ملامت کی جارہی ہے۔ یہاں تک کہ کوئی بھی شخص جو کسی دوسرے گروہ سے تعلق رکھتا ہو، اس کی جان و مال اور عزت و آبرو محفوظ نہیں ہے، آبرو ریزی، یعنی لوگوں کی بے عزتی کرنا، انہیں ذلیل کرنا ایک فیشن بن گیا ہے، اور ا س کے نتیجے میں قوم تقسیم در تقسیم ہو چکی ہے۔

پاک فوج کے خلاف نفرت کی دیواریں کھڑی کرنے کی کوشش
ابھی آپ نے دیکھا ہوگا کہ فوج کا ایک ہیلی کاپٹر گرا اور اس میں سوار چند فوجی افسران شہید ہوگئے، یہ ایک افسوسناک حادثہ تھا۔(۱)اگر مسلمان نہ بھی ہوتے تو انسانی طور پر بھی یہ ایک المیہ ہے اور غیر مسلم بھی اس کے اوپر غم کا اظہار کر سکتے ہیں۔ لیکن ا س وقت میں جو پروپیگنڈا کیا گیا، وہ اس وجہ سے کہ ہم ایک خاص گروہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ہمارے گروہ کا عقیدہ یہ ہے کہ فوج پاکستان کی دشمن ہے، لہذا فوج کے خلاف نفرت انگیز مہم کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کردیا گیا۔یہ اس لیے کیا گیا کہ فوج کو بھی متنازعہ بنا دیا جائے۔ اگر آپ غور سے دیکھیں تو اس پاکستان کے اندر جتنے بھی ادارے تھے وہ سب اپنا اعتماد کھو چکے ہیں، لیکن صرف ایک فوج کا ادارہ ہے جس کا الحمدللہ دنیا پر رعب ہے۔ ہمارے پاس کوئی اور ادارہ ایسا نہیں ہے جس کا ہم دنیا کو رعب دکھا سکیں، لیکن الحمدللہ!اللہ تعالیٰ نے پاکستان کی فوج کو ایسا بنایا ہے کہ اس کی طاقت، ا س کے پیچھے ایٹمی قوت، اس کی تنظیم، اس کا اتحاداور اس کا یقین، یہ سب چیزیں ایسی ہیں کہ جن سے باہر کے لوگوں پر رعب طاری ہوتا ہے،اور کوئی میلی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا، لیکن اب یہ چاہ رہے ہیں کہ پاکستان کے اس رعب کو بھی ختم کیا جائے اور اس کے درمیان بھی نفرت کی دیواریں کھڑی کردی جائیں۔
یہ ساری سازشیں پاکستان کے خلاف ہورہی ہیں، لیکن اگر ملک کا نوجوان عقل و ہوش کے ناخن لے لے اور جذبات کے نعروں کے پیچھے چلنا بند کرکے اپنے اکابر کا دامن تھامے رکھے تو ان شاء اللہ ثم ان شاء اللہ یہ سازشیں ناکام ہوں گی، برباد ہوں گی،اور پاکستان ان شاء اللہ قائم و دائم رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ ملک برباد ہونے کیلئے نہیں بنایا، بلکہ یہ ملک اس لیے بنا ہے کہ ا س کی تعمیر کی جائے، اس کی ترقی کی جائے۔ تنقید بے شک کریں لیکن تنقید تعمیری انداز کی ہو، جس سے کہ کچھ فائدہ حاصل ہو، لیکن یہ گالی گلوچ کا جو ماحول پیدا کردیا گیا ہے اور جس طرح ایک دوسرے پر طعن و تشنیع کی جا رہی ہے یہ کسی بھی حیثیت سے نہ انسانیت کا تقاضہ ہے، نہ اسلام کا تقاضہ ہے اور نہ ملک و ملت کی فلاح و بہبود کا تقاضہ ہے۔اس وقت ہمیں متحد ہو کر پاکستان کی تعمیر و ترقی کی طرف توجہ دینی چاہیے۔

فتنوں اور سازشوں سے بچنے کے لئے اکابر سے جڑنے کی ضرورت
میری گزارش صرف یہ ہے کہ الحمدللہ!اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ خطہ زمین اپنے خاص فضل و کرم سے عطا فرمایا، ہم ہندو اور انگریز دونوں کی چکیوں میں پس رہے تھے، اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس سے نجات عطا فرمائی اور آزادی عطا فرمائی۔ ہم جسمانی طور پر تو آزاد ہوگئے لیکن ابھی تک ہم ذہنی طور پر پوری طرح آزاد نہیں ہو پائے۔ ذہنی طور پر ابھی تک ہم پر غلامی مسلط ہے اور دشمنوں کی سازشیں ہمیں چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں انتہائی تیقظ اور بیداری کی ضرورت ہے اور اس بات کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ آدمی جذباتیت سے زیادہ سمجھ بوجھ اور ہوشمندی سے کام کرے۔
میں اپنے طالب علم ساتھیوں سے خاص طور پر یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ ان فتنوں اور سازشوں سے بچنے کاواحدراستہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو اپنے اکابر سے جوڑے رکھو۔اگر ان اکابر پر بھروسہ ہے تو بے شک ان سے پڑھو بھی اور پھر ان کی ہدایات پر عمل بھی کرو، اور اگر خدانخواستہ ان اکابر اور اساتذہ کے علم پر،ان کی امانت و دیانت پر، ان کی اصابتِ رائے پر بھروسہ نہیں ہے تو پھر یہاں ان کے پاس پڑھنے کیوں آئے ہو؟ اگر ان کے پاس پڑھنے آئے ہو تو ان کی باتوں کو سنو، سمجھو اور ان پر عمل کرو۔
اللہ تعالیٰ ہمیں پاکستان کی تعمیر و ترقی میں حصہ ڈالنے کی توفیق عطا فرمائے اور مغربی اور غیر اسلامی طاقتوں کی سازشیں سے اللہ تعالیٰ ہمیں محفوظ فرمائے۔آمین

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

(ماہنامہ البلاغ :صفر المظفر،ربیع الاول ۱۴۴۴ھ)


(۱)یکم اگست ۲۰۲۲ ء کو بلوچستان میں سیلاب متأثرین کے لئے امدادی سرگرمیوں میں مصروف پاک فوج کا ہیلی کاپٹر خراب موسم کے باعث گرکر تباہ ہوگیاتھا ، جس میں سوار چھ افسران شہید ہوگئے تھے ۔ انا للہ واناالیہ راجعون