حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
ضبط وترتیب : شفیق الرحمن کراچوی

عبادت بندگی اور اطاعت

میرے محترم بزر گو بھائیوں ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ میرے لئے بڑی سعادت وخوش نصیبی کا موقع ہے کہ آپ حضرات سے اس مسجد میں ملاقات کی توفیق ہورہی ہے ۔ اور پھر بھائیوں اور عزیزوں سے ملاقات بھی ایک بڑی نعمت ہے ، اس پر میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکر اداکرتا ہوں۔
مجھے یہاں آپ حضرات کے پاس آنے میں تاخیر ہوئی اس لئے کہ جس اجتماع میں میں تھا وہ اپنے مقررہ وقت سے کچھ زیادہ تجاوز کرگیا ، اور اس میں شرکت بھی ضروری تھی ، اس لئے میں آپ حضرات کے لئے انتظار کا باعث بنا، اس پرمیں آپ حضرات سے معذرت خواہ ہوں۔
مجھے انداز ہ نہیں تھا کہ ماشاء اللہ اتنا بڑا مجمع ہوگا، خیال یہ تھا کہ اس مسجد میں حاضر ہوکر اپنے دوستوں سے ملاقات ہوگی لیکن ماشاء اللہ بڑااجتماع نظر آرہا ہے ، ظاہر ہے کہ آپ حضرات کی تشریف آوری اور یہاں پر جمع ہونا یہ کسی دنیا وی مقصد کے لئے نہیں ہے بلکہ یہ دین کے لئے ہے ، اللہ جل جلالہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہے چنانچہ آپ کا آنا بھی مبارک اور آپ کا وقت دینا بھی مبارک ، اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ ہمارا یہ جمع ہونا ان شاء اللہ ہم سب کے لئے نافع بنے گا اور آپ حضرات کی یہ محبت کہ اتنے مختصر نوٹس یہ یہاں تشریف لائے یہ محض حب فی اللہ یعنی اللہ کی خاطر محبت کرنا ہے ۔
حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ سات قسم کے لوگ قیامت کے دن اللہ تبارک وتعالیٰ کے عرش کے سائے میں ہوں گے ، اس وقت جبکہ گرمی شدید ہوگی ، سورج قریب آچکا ہوگا، لوگ گرمی کی وجہ سے پسینے میں نہائے ہوں گے ، اس وقت اللہ تبارک وتعالیٰ سات قسم کے آدمیوں کو اپنے عرش کے سائے میں رکھیں گے ، ان سات میں سے ایک فرمایا کہ والمتحابان فی اللہ د و ایسے مسلمان جن کے درمیان محبت اللہ کی رضا کے لئے ہو، یعنی اللہ تبار ک وتعالیٰ کی رضا ہی کی خاطر وہ جمع ہوں اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا کی خاطر وہ جدا ہوں یہ اتنی بڑی فضیلت ہے کہ اللہ تبار ک وتعالیٰ اپنے فضل وکرم سے ہم سب کو اس کا مستحق بنادے اور عرش کے سائے میں رکھے۔
ہمارے جمع ہونے کا مقصد یہ تھا کہ دین کی کوئی بات کی جائے دین کی باتیں بہت مختلف قسم کی ہوسکتی ہیں ، لیکن اس وقت میں نے آپ حضرات کے سامنے سورۃ التکاثر (پارہ نمبر ۳۰ )کی تلاوت کی ، جو اکثر وبیشتر نمازوں میں پڑھی جاتی ہے اور کئی مسلمانوں کو زبانی یاد بھی ہوگی ، اس کی تھوڑی سی تشریح عرض کرتا ہوں اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی رضا کے مطابق حق طریقے اور حق نیت سے بیان کرنے کی توفیق عطافرمائے اور ہم سب کو اس کا فائدہ پہنچائے ۔
سورۃ التکاثر کا پس منظر : پس منظر ان آیات کا یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو ایک بڑی اہم حقیقت کی طرف متوجہ فرمارہے ہیں ، ہم سب دیکھنے ہیں کہ انسان اس دنیا میں آتا ہے ، بچہ ہوتا ہے ، جوان ہوتا ہے ، ادھیڑ عمر کو پہنچ جاتا ہے ، بوڑھا ہوجاتا ہے اور پھر ایک نہ ایک دن اس سے دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے کوئی فرد اس سے مستثنی نہیں ۔یعنی یہ تو ہوتا ہے کہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں ، بچپن میں چلے جاتے ہیں بعض جوانی میں چلے جاتے ہیں کوئی ادھیڑ عمر میں چلا جاتا ہے لیکن کوئی بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ وہ اس دنیا میں ہمیشہ رہنے کے لئے نہیں آیا ، یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس پر پوری دنیا کے سارے انسان مسلم وغیر مسلم سب متفق ہیں ، آج تک کوئی ایسا شخص پیدا نہیں ہو اکہ جو یہ کہے کہ اس دنیا سے نہیں جاتا۔اس حقیقت سے کسی کا انکار نہیں لوگوں نے خدا کے وجود سے انکار کردیا اللہ بچائے ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے کہا کہ اللہ کوئی چیز نہیں ، انبیاء کرام کا انکار کردیا ، آسمانی کتابون کا انکار کیا لیکن یہ بات ایک نہ ایک دن اس دنیا سے جانا ہے اس سے کوئی انکار کرہی نہیں سکتا، شاید پوری دنیا میں اس سے بڑی متفق علیہ حقیقت کوئی اور نہیں ۔
اور ساتھ ہی اس پر بھی سب کا اجماع واتفاق ہے کہ جانا تو ہے لیکن کب جانا ہے اس کو بھی کوئی انسان بتا نہیں سکتا ۔دنیا کے اندر اللہ تبار وتعالیٰ نے بہت سے علوم پید اکئے ، لیکن کوئی سائنس ، کوئی فلسفہ ، کوئی علم وفن یہ نہیں بتا سکتا کہ کس انسان کو کتنے عرصے دنیا میں رہنا ہے ، میں آج بیٹھا ہوں اور مجھے اگلے لمحے کی خیر نہیں ہے کہ میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے ، اب تو آپ نے بہت سارے مناظر ایسے دیکھے ہوں گے کہ اچھا خاصا ہنستا بولتا انسان بیٹھے بیٹھے اٹیک ہوا اور دنیا سے رخصت ہوگیا ، کسی بھی انسا ن کو کچھ پتہ نہیں ہے کہ کب جانا ہے ۔
دنیا کی زندگی سفر ہے منزل نہیں ہے
اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جس دنیا میں ہم آئے ہیں یہ ایک سفر ہے یہ منزل نہیں ہے ، اس سفر کی کسی نہ کسی جگہ جاکر انتہاء ہونی ہے یہ ختم ہوجائے گا ، جو انسان بھی اس دنیا میں آتا ہے وہ زندگی کا ایک سفر طے کرتا ہے اور اس سفر کی انہتاء ایک نہ ایک دن ہوجانی ہے اور جس چیز کی انتہاء ہوتی ہے وہ چیز بذاتِ خود مقصود نہیں ہوتی ،اگر آپ کسی سفر پر جاتے ہیں یاکسی کام کے لئے جانا ہوتا ہے تو اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے اس مقصد کے تحت آپ سفر کرتے ہیں مثلاً کوئی آدمی تجارت کے لئے سفر کررہا ہے کوئی ملازمت کے لئے کررہا ہیکوئی سیاحت کے لئے سفر کررہا ہے اور کوئی اپنے کسی عزیز سے ملنے کے لئے سفر کررہا ہوتا ہے ، لیکن ایسا انسان دنیا میں کوئی نہیں ہوتا جو بغیر مقصد کے سفر کررہا ہو۔
مقصد حیات
اسی طرح اللہ تبار وتعالیٰ نے یہ دنیا جو بنائی ہے یہ بھی ایک سفر ہے اور سفر کے لئے یقینا کوئی نہ کوئی مقصد ہوگا ، قرآن کریم بڑے خوبصورت انداز میں فرماتا ہے "افحسبتم انما خلقنکم عبثا وانکم الینا لاترجعون” کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تمہیں ویسے ہی بے فائدہ وبے مقصد پیدا کردیا ہے اور تم ہمارے پاس لوٹ کر نہیں آؤگے ۔ یہ جو اتنی بڑی کائنات چل رہی ہے ، آسمان ہے ، زمین ہے ، سورج وچاند اور ہوائیں ، یہ سب کچھ جو ہورہا ہے کیا ویسے ہی بے کار وفضول ہورہا ہے ؟ اس کا کوئی مقصد نہیں ؟اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک آیۃ کریمہ میں انسا ن کو اس کی طرف متوجہ فرمایا کہ "وماخلقت الجن والانس الا لیعبدون” میں نے جنات وانسانوں کو صرف ایک کام کے لئے پید اکیا ہے ، کسی اور کام کے لئے پیدا نہیں کیا بلکہ صرف ایک کام کے لئے پید اکیا ہے کہ میری بندگی کریں ، میرے بندے بن کر رہیں ، خدا بن کر نہیں ، فرعون بن کر نہیں بلکہ میرے بندے بن کر رہیں۔
بندگی کا مطلب
بندے بن کر رہنے کے معنیٰ یہ ہے کہ جس طرح میں نے زندگی گزارنے کا جو طریقہ بتایا ہے وہ طریقہ اختیار کریں ، جوکام میں نے کرنے کو کہا ہے وہ کریں جن کاموں سے میں نے روکا ہے ان سے رُکیں۔ یہ معنیٰ ہیں بندگی کے ۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ بندگی صرف نماز روزے کا نام ہے حالانکہ انسان کی زندگی کا ہر کام جب وہ اللہ تبار ک وتعالیٰ کے طریقے کے مطابق ہورہا ہو وہ بندگی ہے وہ عبادت ہے ، فرض کریں اگر آپ روزی کمارہے ہیں تو روزی کمانا بھی بندگی وعبادت ہے ۔
اس کام کی طرف اللہ تبارک وتعالیٰ آیت کریمہ میں متوجہ فرمارہے ہیں کہ اس کام کے لئے میں نے دنیا میں بھیجا ہے ۔ اور بھیجا تو تمہیں اس کام کے لئے ہے ، لیکن ساتھ ہی اجازت دے دی تمہارے لئے حلال کردیئے کہ تم کھا ؤ بھی کماؤ بھی ، تم شادی بھی کرو تمہارے بچے بھی ہوں اور اپنے بیوی بچوں کے ساتھ خوش طبعی بھی کرو اور جائز حدود میں رہ کر تم تفریح بھی کرو ان سب کاموں کی اجازت دے دی، لیکن ہوا یہ کہ جب اللہ تبار ک وتعالیٰ نے جائز وحلال طریقے سے کمانے کی اجازت دے دی تو اب ہمارے دل میں دوڑ لگ گیا کہ زیادہ سے زیادہ کماؤ ، زیادہ سے زیادہ مزے اڑاؤ اور لذت حاصل کرو تو اس دوڑ نے ہمیں اپنی زندگی کے اصل مقصد سے غافل کردیا۔
تو کیسے پیارے انداز میں اس سورت کے اندر اللہ تبارک وتعالیٰ فرمارہے ہیں کہ "الھکم التکاثر” پ ۳۰ تمہیں "تکاثر” نے غافل کردیا ہے ۔ تکاثر یعنی ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر زیادہ سے زیادہ دولت کمانے نے ، زیادہ سے زیادہ لذت ومزے اڑانے نے (تمہیں غافل کردیا ہے ) اس میں لگ کر تم اپنی زندگی کے اصل مقصد سے غافل ہوگئے ہو حتی زرتم المقابر پ ۳۰ یہاں تک کہ اسی دوڑ میں لگ کر تم قبرستان تک پہنچ گئے "کلا سوف تعلمون” ہرگز نہیں یہ طریقہ جو تم نے اختیار کررکھا ہے یہ تمہیں ھلاکت کی طرف لے جارہا ہے ، اور بہت جلد تمہیں اس غلط طریقۂ کار کا انجام معلوم ہوجائے گا۔ یہ جو دنیا کے ایام گزرتے نظر آرہے ہیں ، مہینہ سال ، دس سال جب گذر جائیں گے اور حقیقی زندگی جس کے لئے تمہیں تیار کیا جارہا ہے ، آجائے گی تو قرآن کہتا ہے کہ یہ ساری زندگی جو تم نے اسی سال اور نوّے سال کی گذاری ہے ایسا لگے گا کہ "لم یلبثوا الا عشیۃ او ضحھا” یہ ساری زندگی ایک شام یا ایک صبح معلوم ہوگی ، دوبارہ فرمایا "ثم کلا” کہ ہم دوبارہ کہتے ہیں ہر گز تمہیں یہ طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہئے "سوف تعلمون” پھر فرماتے ہیں تمہیں پتہ چل جائے گا اس غلط طریقہ کار کا انجام پھر فرمایا کہ جب وہاں پہنچوگے تو جہنم کو اپنی آنکھوں سے دیکھوگے "لترون الجحیم” یعنی دہکتی ہوئی آگے کو جو اللہ تعالیٰ نے جحیم کی شکل میں دہکائی ہے اپنی یقینی آنکھوں سے دیکھوگے ،آج تو عقیدے سے جانتے اور ماتنے ہو کہ دوزخ بھی کوئی چیز ہے ، لیکن اس وقت یقین کی آنکھ سے تمہیں نظر آئے گا کہ "جحیم” کیا ہوتا ہے ۔ "ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم” اس دن تم سے پوچھا جائے گا کہ دنیا میں جو نعمتیں ہم نے تمہیں دے رکھی تھیں ان کا کیسے استعمال کیا۔
صحیح حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جن کے سامنے یہ بھی پیشکش کی گئی تھی کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں تو اس احد پہاڑ کو سونے کا بنادیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں یہ نہیں چاہتا اور مجھے تو یہ اچھا لگتا ہے کہ ایک دن پیٹ بھر کے کھا ؤ اور دوسرے دن بھوکا سوں ، وہ ذاتِ گرامی جس کے قدموں میں ساری کائنات کی نعمتیں ڈھیر ہیں لیکن اس نے اس کو اختیار نہیں کیا تاکہ امت کے جو غریب لوگ ہیں ان کے دل مین کبھی یہ خیال نہ آئے کہ ہمارا نبی تو بڑے عیش وعشرت کی زندگی گزار گیا اور ہم فقر وفاقہ کی زندگی گزار رہے ہیں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو مساکین کی صف میں شامل فرمایا اور یہ دعا فرمائی کہ "اللھم احیینی مسکینا وأمتنی مسکینا واحشرنی فی زمرۃ المساکین” اے اللہ مجھے مساکین بناکر زندہ رکھیے اور مسکین بناکر مجھے موت دیجئے اور مسکینوں کے ساتھ ہی میرا حشر بھی فرمائیے تو جس ذات اقدس کی ٹھوکروں میں ساری دنیا کی دولتیں تھیں اس نے اپنی امت کے غریب لوگوں کو اپنی رحمت سے یہ باور کروایا کہ میں بھی تمہار اساتھی ہوں۔ میں بھی تمہاری برادری سے تعلق رکھتا ہوں ۔
چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھوک کی حالت میں گھر سے باہر نکلے اس خیال سے کہ کہیں سے کمانے کے لئے کوئی چیز حاصل ہوجائے ایک اور صحابی بھی اسی خیال میں نکلے ہوئے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال آیا کہ ہمارے ایک انصاری صحابی ہیں ان کے باغ میں چلے چلتے ہیں اگر ان کے پاس جائیں گے تو وہ خوش ہوں گے اور خوش ہوکر ہماری ضیافت بھی کریں گے چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے باغ میں گئے تو وہ خوشی سے پھولے نہیں سمائے اور ایک جگہ درخت کے سائے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بٹھایا اور کچھ کھجوریں اور پانی لے آئے ، سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجوریں تناول فرمائیں اور اس وقت فرمایا کہ دیکھو اس دھوپ کے عالم میں اللہ تعالیٰ نے مجھے درخت کا سایہ عطاکیا اور کھجوریں ومیٹھا پانی عطافرمایا ، یہ اللہ پاک کی کتنی بڑی نعمت ہے جو اس نے عطا فرمائی پھر فرمایا کہ یہ بھی وہ نعمت ہے جس کے بارے میں آخرت میں پوچھا جائے گا۔اور یہ آیت تلاوت فرمائی "ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم”۔
اللہ تبار ک وتعالیٰ اس سورۃ کریم میں جو توجہ دلارہے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم مباحات وجائز کاموں میں مشغول ہوکر ، اور ان کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی فکر میں لگ کر اپنی زندگی کے مقصد اصلی کو بھولے ہوئے ہیں ، جس کا نتیجہ یہ کہ یہ نعمتیں ہمارے لئے راحت کا سبب بننے کے بجائے اللہ بچائے آخرت میں ہمارے لئے عذاب کا سبب بن جائے ، چنانچہ اللہ تبار ک وتعالیٰ متنبہ کررہے ہیں کہ ہم نے تمہارے لئے بہت سارے کام جائز کردیئے لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری ساری نقل وحرکت اس کے اندر محدود ہوکر رہ جائے اور اپنے مقصد اصلی کو بھول جاؤ۔
جاری ہے ……..

٭٭٭ ٭٭٭ ٭٭٭

(ماہنامہ البلاغ جمادي الثانيه 1438ھ)