خطاب: حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم
ضبط وترتیب : مولوی شفیق الرحمن ، فاضل جامعہ دارالعلوم کراچی

حضراتِ اساتذہ کے ساتھ خصوصی مجلس

۳؍ ربیع الاول ۱۴۴۲ھ بروز بدھ جامعہ دارالعلوم کراچی کے دارالقرآن میں نائب رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے اساتذۂ کرام سے تربیتی خطاب فرمایا جو تمام مدارس دینیہ کے اساتذئہ کرام کے لئے اہم ہدایات پر مشتمل ہے ۔۔۔ (ادارہ)

الحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی سیدنا ومولنا محمد،وخاتم النبیین وإمام المرسلین وعلی الہ وأصحابہ أجمعین، وعلی کل من تبعہم بإحسان إلی یوم الدین، أما بعد!

حضرت والد ماجد(حضرت مفتی محمد شفیع صاحب) قدس اللہ تعالیٰ سِرَّہ کا یہ معمول تھا کہ جب کبھی حضراتِ اساتذۂ کرام کو جمع کرتے تو کچھ نصیحتیں بھی فرماتے تھے اور ساتھ ساتھ جو تدریس کے مسائل ہیں ان کے متعلق بھی بعض اوقات تجاویز پر گفتگو ہوجاتی تھی۔ پچھلے سالوں میں مہینہ میں ایک بار ایک اصلاحی مجلس سب کے فائدے کے لئے ہم نے شروع کی تھی ، لیکن اس کرونا وائرس کی وجہ سے سب معمولات تہ و بالا ہوگئے،تو دل چاہا کہ تھوڑی سی یاد دہانی بھی ہوجائے اور آئندہ کے لیے آپ حضرات سے مشورہ بھی ہوجائے،اور کچھ گفتگو ہم اپنے مسائل سے متعلق آپ حضرات کی خدمت میں بھی پیش کریں ۔
میں نے حضرت صدر صاحب دامت برکاتہم(حضرت مولانامفتی محمد رفیع عثمانی صاحب مد اللہ تعالیٰ ظلہ الکریم بالصحۃ والعافیۃــ)سے درخواست کی تھی کہ وہ بھی اگر تشریف لاسکیں تو ہمارے لیے باعثِ سعادت ہوگا،اور ان کی نصیحتوں سے ہم فیضیاب ہوں گے۔لیکن حضرت والا کے بارے میں آپ کو اندازہ ہے کہ اب ان کی طبیعت اس قسم کے اجتماعات کی زیادہ متحمل بھی نہیں ہے اوریہ وقت بھی ان کے لئے موزوں بھی نہیں تھاکیونکہ حضرت والا مدظلہم اس وقت سبق سے فارغ ہوکر دیگر اہم امور میں مشغول ہوجاتے ہیں مگر حضرت والا مدظلہم نے آپ حضرات کی رعایت فرماتے ہوئے مناسب یہ سمجھا کہ بارہ بجے کے بعد آپ حضرات سے گفتگو ہو، تو انہوں نے مجھے حکم فرمایا کہ تم ہی بات کرلو۔
سب سے پہلے تو ہم سب اللہ تبارک وتعالیٰ کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے کہ اس نے ہمیں اپنے فضل وکرم سے علومِ دین کے ساتھ درساً یا تدریساً وابستہ فرمایا،اللہ تبارک وتعالیٰ کااس پر جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔دنیا میںبہت سے مشغلے ہیں ،ذرائعِ معاش بھی بہت سے ہیں، لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے ہمارا معاش بھی اسی سے وابستہ فرمایا ۔ حضرت والد ِماجد قدس اللہ تعالی سِرّہ کی ایک بات مجھے اکثر یا درہتی ہے ،اسی قسم کی ایک مجلس میں حضرت نے ارشادفرمایا تھا کہ تبلیغی جماعت کے لوگوں کو دیکھو کہ وہ کس طرح دین کی بات لوگوں تک پہنچانے کے لئے سفر کرتے ہیں، مشقتیں اٹھاتے ہیں، تب جاکر وہ دین کی تبلیغ کا فریضہ ادا کرتے ہیں،اورہم لوگوں سے فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے دین کی بات پہنچانے کے لئے ان مشقتوں اور ان خرچوں کے اٹھانے کی مشقت نہیں رکھی، بلکہ تمہارے پاس طلبہ لاکر ڈال دئے ہیں کہ تم ان کو پڑھاؤ ، ان کی تربیت کرو، ان کی اصلاح کرنے کی کوشش کرو ۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم سب محتاج ہیں اس بات کے کہ ہمارا نام اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں دین کے خدمت گزاروں میں لکھا جائے اور دین کی دعوت کے اندر ہمارا بھی کوئی حصہ لگ جائے ،ہم سب اس کے محتاج ہیں۔اور جن کو بات پہنچائی جارہی ہے وہ ہمار ی اس احتیاج کو دور کرتے ہیں ۔اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے کنویں ہمارے پاس بھیج دیے ہیں کہ ہم ان کی خدمت کر کے ان کو ایک اچھا انسان، اچھا مسلمان اور اچھا عالم بنائیں ، حضرت والد ماجد قدس سرہ کی یہ بات ایسی ہے جو ہم سب کو ہمیشہ مستحضر رکھنی چاہئے۔
امتحان وفاق میں سب سے زیادہ پوزیشنیںآنے پر مبارکباد
ایک بات کے لئے تو میں آپ سب حضرات کو مبارک باد بھی دیتا ہوں کہ الحمد للہ ثم الحمد للہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے امتحان میں تقریباً ہر سال ایسا ہورہا ہے کہ شاید سب سے زیادہ پوزیشنیں ہمارے جامعہ دار العلوم کراچی کی آتی ہیں ۔ اس سال بھی الحمد للہ جامعہ دارالعلوم کراچی کے طلبہ نے پورے ملک کی سطح پر عالمیہ و دراسات دینیہ کے مرحلوں میں چار پوزیشنیں حاصل کی ہیں ، ملکی سطح پر اتنی پوزیشنیں آنے پر بحمد اللہ جامعہ دار العلوم کراچی مدارس میں پہلے نمبر پر ہے ، وفاق المدارس کے اعلان کے مطابق صوبہ سندھ میں جامعہ دارالعلوم کراچی کو بفضلہ تعالیٰ گیارہ پوزیشنیں حاصل ہوئی ہیں ، جن کی بناء پر صوبائی سطح پر بھی جامعہ دارالعلوم کراچی پہلے نمبر پر ہے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا فضل تو ہے ہی ہر چیز میں مقصود و مطلوب ،لیکن ظاہری اسباب میں یہ اساتذہ کی محنت، ان کی کوششوں ، حسن تدریس اور حسن تعلیم کا ثمرہ ہے کہ انہوں نے طالبعلموں کے ساتھ محنت کی اوران کو کامیاب بنانے کی کوشش کی اور پھراللہ تعالیٰ نے ان کو کامیابی عطاکی ، تو آپ سب حضرات اس کے لئے مبارک باد کے مستحق ہیں۔
لیکن ساتھ ہی ساتھ ہمیں ہمیشہ خود اپنا تنقیدی جائزہ بھی لیتے رہنا چاہئے کہ ہم تدریس کا کتنا حق ادا کررہے ہیں۔ بے شک اللہ تبارک وتعالیٰ نے اب تک کامیابی سے نوازا ہے، لیکن اس معیار کو برقرار رکھنے اور اس کو آگے بڑھانے کے لئے ہم سب کے دل میں آگے بڑھنے کے جذبات ہونے چاہئیں ۔اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی توفیق عطافرمائے۔
تعلیم کے ساتھ ساتھ عملی تربیت
ہمارے حضرت والدماجد قَدّ َس اللہ تعالیٰ سِرہ یہ فرمایا کرتے تھے کہ تعلیم و تدریس صرف اتنی بات نہیں ہے کہ استاد درس میں ایک تقریرکردے اور فارغ ہوجائے ،بلکہ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ جو طلبہ ہمارے پاس پڑھنے کے لئے آئے ہیں اُن کی علماً،عملاً، اصلاحاً تربیت کی جائے، صرف اتنی بات نہیں ہے کہ نظریاتی اعتبار سے ان کی تعلیم درست ہوجائے بلکہ ان کی عملی تربیت ، ان کی نگرانی بھی استاد کی ذمہ داری ہے۔اور یہی فرق ہے دوسرے تعلیمی اداروں میں اور ہمارے تعلیمی اداروں میں ،وہاں صرف ایک ضابطے کا تعلق ہے، استاد اور شاگرد کے درمیان رسمی تعلق ہے، اس سے آگے کچھ نہیں ہے۔ لیکن ہمارے حضراتِ اکابر علماء دیوبندرحمہم اللہ جن کی خوشہ چینی کے ہم دعویدار ہیں ان سب کا طریقہ صرف یہ نہیں تھا،بلکہ وہ خود اپنے عمل سے بھی اور اپنی تربیت اورتعلیم کے ذریعہ بھی طلبہ کو ایک اچھا انسان، ایک اچھا مسلمان اور اچھا عالم بنانے کی طلب رکھتے تھے۔ جس کے نتیجہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے دار العلوم دیوبند سے ایسی غیر معمولی شخصیتیں پیدا فرمائیں جن کی نظیر کسی اور ادارے میں نہیں ملتی۔
درس کی ذمہ داری درحقیقت ایک معاہدہ ہے
حضرت والد ماجد رحمہ اللہ کی یہ سب باتیں میں اپنے لئے اور آپ سب حضرات کے لئے تذکیر کے طور پر سُنا رہا ہوں اور اس میں ایک بہت بڑی بات جو والدماجدقدس اللہ تعالیٰ سِرّہ بکثرت فرماتے تھے یہ ہے کہ جب کسی استاد نے کوئی سبق اپنے ذمہ لے لیا تو اس کاایک معاہدہ ہوگیا طلبہ سے بھی، مدرسے کی انتظامیہ سے بھی،اورسب سے بڑھ کر اللہ تبارک وتعالیٰ سے بھی۔ یہ معاہدہ ہوگیا کہ میں یہ سبق طلبہ کو پڑھاؤں گا اور اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کروں گا۔ اب اگر آدمی اُس معاہدے کو سامنے رکھے،اُس کا استحضار رکھے،اوریہ سمجھتا رہے کہ میرے ذمہ یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے،چاہے وہ تنخواہ لیتا ہویا نہ لیتا ہو،کیونکہ تنخواہ ہمارے ماحول میں ایک ضمنی چیز ہے، اصل نہیں ہے ،جو ایک ضرورت کے تحت مقرر کی گئی ہے لہٰذا وہ نہ اصل مقصود ہے، نہ تدریس کا کوئی لازمی حصہ ہے۔ جس کو ضرورت نہیں ہے وہ اس سے دستبردار بھی ہوجاتا ہے،جس کو ضرورت ہے وہ اپنے نفقہ کے لئے یہ تنخواہ لیتا ہے جبکہ اصل مقصود تدریس ہے۔اب جب کوئی سبق ہم نے پڑھانے کے لیے لیا تو ہم نے طلبہ سے یہ معاہدہ کرلیا کہ ہم آپ کو سبق پڑھائیں گے،انتظامیہ سے بھی معاہدہ کرلیا کہ اس سبق کی ذمہ داری ہمارے اوپر ہے،اور اللہ تبارک وتعالیٰ سے بھی معاہدہ کرلیا ، اور اصل بات تو یہی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ سے یہ معاہدہ کرلیاکہ ہم نے آپ کی رضا کی خاطرپڑھانا ہے ۔ اب اگر اس میں کماًیا کیفاًکوتاہی ہوتی ہے تو وہ کوتاہی درحقیقت عہدشکنی کے مترادف ہے کہ ہم نے جو عہد کیا تھا اس عہد کی ہم نے پاسداری نہیں کی ،جتنا وقت ہمیں دینا چاہیے تھا اتنا وقت ہم نے نہیں دیا، جس مطالعہ کے ساتھ، جس تیاری کے ساتھ پڑھانا چاہیے تھااس مطالعہ اور تیاری کے ساتھ ہم نے نہیں پڑھایا ، تو یہ عہد شکنی ہوئی طلبہ کے ساتھ بھی۔ان طلبہ کے ماں باپ نے اپنے یہ جگر کے ٹکڑے ہماری امانت میں دیے ہیں ،اس لئے دئے ہیں کہ ہم ان کو علم دین سے آراستہ کریں، لہٰذا اگر ان کی حق تلفی کرتے ہیں تو اس میں ان کی بھی حق تلفی ہوگی اور انتظامیہ کی بھی حق تلفی ہوگی اور سب سے بڑھ کر یہ اللہ تعالیٰ کی حق تلفی ہے۔
ہراستاد کو اپنا تنقیدی جائز ہ لیتے رہنا چاہئے
اس لئے حضرت والد ماجد قدس اللہ تعالیٰ سِرَّہ یہ فرماتے تھے کہ ہر استاذ جو پڑھانے کے لئے بیٹھا ہے وہ ہر وقت اپنا جائزہ لیتا رہے کہ میں اس معاہد ہ کی کتنی پابندی کرتا ہوں اور کس حد تک کرتا ہوں، اگر نہیں کرتا تواستاد اپنے شاگر د کے لئے بھی وہی مثال چھوڑتا ہے کہ شاگرد بھی جب آگے جائے گاتو وہ بھی اسی طرح لاپرواہی میں زندگی گزارے گا۔تو بس یہ باتیں ہیں جو ہمارے فائدے کے لئے اور تذکیر کے لئے اور جس اصل مقصد کے لئے ہم نے یہ ذمہ داری لی ہے اس کو یاد رکھنے کے لئے ہیں۔
حضرت والد ماجد قَدَّس اللہ تعالیٰ سِرّہ یہ فرمایا کرتے تھے کہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جب آدمی کوئی کام شروع کرتا ہے تو شروع کرتے وقت تو اس کی نیت ٹھیک ہوتی ہے اور درحقیقت اسی وقت کی نیت اللہ تبارک وتعالیٰ کے یہاں معتبر ہے ۔لیکن جوں جوں آدمی اس کام کی مختلف گہرائیوں میں جاتا ہے تو بعض اوقات وہ اصل مقصد بھول جاتا ہے،وہ اس کو یاد نہیں رہتا ،اس کی وجہ سے بعض اوقات وساوس کا شکار ہوجاتا ہے ،دوسرے خیال دل میں آنا شروع ہوجاتے ہیں ،اللہ بچائے، فاسد خیالات آنے لگتے ہیں اور آدمی اس مقصدسے قریب رہنے کے بجائے دور ہوتا چلا جاتا ہے، اس لیے وقتاً فوقتاً اس نیت کو تازہ کرنے اور اپنے اصل مقصود کو یاد رکھنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیئے :
؎ گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ ٔ پارینہ را
کبھی کبھی آدمی یہ کام کرلیا کرے کہ اپنے اصل مقصد کویاد کرکے خود اپنا جائز ہ بھی لیتا رہے۔کسی دوسرے کے جائزہ لینے کی ضرورت نہیں ہر آدمی خود ہی اپنا جائز ہ لیتا رہے۔حاسبوا أنفسکم قبل أن تحاسبوا (۱)
اس کے لئے حضرت والد ماجد قدس اللہ تعالیٰ سِرّہ وقتاً فوقتاًاس قسم کی مجلس منعقد فرمایا کرتے تھے۔لیکن اب مشکل یہ ہے کہ جن کو حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نصیحت فرماتے تھے اورجن کی وجہ سے مجلس منعقد کرتے تھے اب وہ خود مجلس منعقد کرنے والے بن گئے(یہ بات حضرت نائب رئیس الجامعہ مدظلہم نے ہنستے ہوئے فرمائی ) ۔ہمیں نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ ایسا کرو،اس طرح پڑھا یا کرو وغیرہ ،تو اب ہم بنے بنائے تو کچھ نہیں لیکن یہ ذمہ داری بھی آگئی کہ سب کو جمع کر کے یہ تذکیر کریں۔ تویہ تذکیر حضرت والد ماجد صاحب رحمہ اللہ کی باتوں کا محض تکرار ہے، یہ کوئی اپنی طرف سے نصیحت نہیں ہے،جیسے طلبہ تکرار کیا کرتے ہیں تو تکرار کرانے والاباقی ساتھیوں کا استاد نہیں بن جاتا۔ تو اسی طرح یہ تکرار ہے جوہمیں کرتے رہنا چاہئے۔
حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ کی دو نصیحتیں
دو باتیں ہیں جو حضرت والد صاحب قدس اللہ تعالیٰ سِرّہ ہی کی سنی ہوئی ہیں،انہی کی باتیں ہیں ۔
طالبعلم کچھ سمجھا بھی ہے یا نہیں؟
۱۔ ایک بات یہ فرماتے تھے کہ استاد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ طالب علم نے کچھ سمجھا بھی ہے یا نہیں ؟صرف یہ نہیں کہ تقریر کرکے اٹھ کر چلے گئے،بلکہ اس بات کا بھی جائز ہ لیتے رہیں کہ طالب علم سمجھا یا نہیں؟ اگر کوئی کمزور طالب علم ہے تواستاد اس پر زیادہ شفقت کرے، اس کو باربار سمجھانے کی کوشش کرے ۔
نظریاتی تدریس کے ساتھ عملی تطبیقات بھی ضروری ہیں
۲۔دوسری بات جس پر حضرت والد ماجد قدس اللہ سرہ نے بکثرت زور دیا وہ یہ ہے کہ بسا اوقات ہمارے ماحول میں تدریس صرف نظریاتی حد تک رہ جاتی ہے ،اس کی تطبیق ، اس کی تمرین اور اس کے اجراء پرزور نہیں دیا جاتا ،اس کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی فن کی اصطلاحات تو سمجھ لیتا ہے اور ان اصطلاحات کی بحثوں کو بھی سمجھ لیتا ہے، لیکن جب اس کی عملی تطبیق کا وقت آتا ہے تو وہ کچھ نہیں جانتا ۔ اب نحو ہی کو لے لیجئے ،نحو ہم پڑھتے پڑھاتے ہیں ،شرح جامی تک اس نے ساری بحثوں کو پڑھ لیا، کافیہ پڑھ لی، شرح جامی پڑھ لی اور اس کے فلسفے پڑھ لئے لیکن جو اصل مقصود تھا الاحتراز فی الکلام عن الخطإ اللفظی وہ پھر بھی حاصل نہیں ہوتا،عبارت صحیح نہیں ہوتی، اگر لکھنا چاہیں تو دو جملے لکھنا مشکل ،یہ اس لئے کہ تطبیق اور تمرین اور اجراء نہیں ہوتا ،نتیجہ یہ ہوتا ہے جیسے کسی نے کہا تھا کہ :

"قرأت النحو من اَوّلُہ، اِلیٰ آخرُہ ولم افہم منہ شیئاً الا حروف الجر”

تو جن حروف جر کی تخصیص کی تھی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ” من اَوّلُہ إلیٰ آخرُہ ” ہوگیا تو یہ ہمارے یہاں کی ایک بہت بڑی کمزوری ہے اوریہ ہمارے پورے ماحول کی کمزوری ہے، اس میں کسی ایک درسگاہ کی خصوصیت نہیں ہے ،تقریباًہمارے سارے مدارس کی یہی صورتحال ہے ۔
حضراتِ اکابر علماء دیوبند کی اگر تاریخ پڑھو،تو وہاں بھی سب یہی کتابیں پڑھتے تھے لیکن جب پڑھنے کا ، لکھنے کا یا بولنے کا موقع آتاتھا تو اس وقت بھی جھنڈے گاڑدیتے تھے۔
حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ حج کے موقع پر حج کے لئے گئے تھے۔مملکت سعودیہ کے فرمانروا، شاہ عبد العزیز بن سعود کا یہ معمول تھا کہ وہ علماء کرام کی دعوت کیا کرتے تھے اور اس میں کچھ علمی مذاکرہ بھی ہوجایا کرتا تھا، اور دنیا جہاں سے جو لوگ آیا کرتے تھے ان سے درخواست کی جاتی تھی کہ آپ بیان فرمائیں، ہندوستان سے اس وقت حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ اور حضرت مولاناکفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ یہ دو بزرگ گئے ہوئے تھے تو شاہ سعود کی طرف سے ان دونوں کو بھی دعوت آئی تھی کہ آپ ہمارے یہاں بھی شرکت کریں ۔ اس وقت وہاں یہ مسئلہ چھڑاہواتھا کہ روضۂ اطہر کے سوا جتنے مزارات تھے اور جن پر قبے بنے ہوئے تھے انہوں نے وہ سارے گرادیے تھے اور اس پرپورے عالم میں ایک شور مچاہواتھا کہ انہوں نے بزرگوں کے مزارات کی توہین کی ہے۔تو وہاں ضرورت اس بات کی تھی کہ علماء ِ دیوبند کا جومعتدل مسلک ہے کہ ایک طرف وہ قُبوں کے قائل نہیں ہیں اور دوسری طرف قبروں کا فی الجملہ احترام بھی مسلک کاایک حصہ ہے تو جب علامہ شبیراحمد عثمانی رحمہ اللہ کو دعوت دی گئی کہ آپ خطاب فرمائیں،انہوں نے کبھی زندگی میں عربی میں خطاب نہیں کیا تھا،لیکن اس وقت خطاب فرمایا اور ایسا خطاب فرمایا جس میں سارے مختلف فیہ مسائل جو اہلِ نجد کے ساتھ تھے ،وہ سب چھیڑے اور سب کے بارے میں علماء ِ دیوبند کا جومسلک تھا اس کو فصیح و بلیغ عربی میں واضح فرمایا،اس کا ایک حصہ ابھی تک شائع شدہ حالت میں موجودہے ، علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ کے خطباتِ عثمانی یا تجلیاتِ عثمانی میں چھپا ہوا ہے،انہوں نے جس تدبر کے ساتھ ،جس فصاحت وبلاغت کے ساتھ علماء دیوبند کی ترجمانی کی اس کے نتیجہ میں شاہ سعود بھی متأثر ہوئے ۔
میں یہ عرض کر رہاتھاکہ اگرچہ ان کے یہاں باقاعدہ کوئی حوار کا گھنٹہ نہیں تھا، لیکن چونکہ اجراء ہوتا تھا اس واسطے جب ضرورت پیش آئی تو شاہ سعود کے دربار میں اتنی شاندارفصیح وبلیغ تقریر پیش کردی ،وہ بھی ایسی کہ جس میں سارے مختلف فیہ مسائل چھیڑے گئے اور اس میں اپنا صحیح مؤقف ظاہر کیا گیا ۔اور جب تحریر کا وقت آیا تو فتح الملہم لکھ دی ،اس لئے یہ تطبیق وتمرین ایسی چیز نہیں ہے کہ جس کے بارے میں آج ہم پہلی بار نئے سرے سے کہہ رہے ہوں ، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے اکابرہی کی تربیت اور تعلیم کا ایک لازمی حصہ تھا،اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ خاص طور سے جو ابتدائی درجات ہیں وہ چونکہ بنیاد ہوتے ہیں اور بنیاد جب تک مستحکم نہ ہوتو آگے عمارت بھی ٹیڑھی ہوتی ہے ۔

ابتدائی درجات کی کتابیں پڑھانے کا طریقہ
میرے استاد حضرت مولانا مفتی رشید احمد صاحب قدس اللہ تعالیٰ سِرہ یہ فرماتے تھے کہ تعلیم کے ابتدائی دو تین سال میں یہ سمجھو کہ اس میں اصل تعلیم عربیت کی ہورہی ہے،فرماتے تھے کہ قدوری بھی اگر پڑھا رہے ہوتو قدوری میں بھی اصل مقصود فقہ نہ سمجھو، اصل مقصودیہ سمجھو کہ اس میں صرف و نحو کی تمرین اور اجراء کروانا ہے۔حالانکہ قدوری بہر حال ایک بڑی مہتم بالشان کتاب ہے،اور فقہ کی کتاب ہے۔لیکن ان کی بات کامقصد یہ تھا کہ سمجھا تو دو لیکن اس میں فقہی مسائل کی تطبیق میں تطویل کے بجائے اس بات پر زور دو کہ طالب علم عبارت صحیح پڑھ رہا ہے یا نہیں پڑھ رہا، اگر غلط پڑھ رہا ہے تو کیوں؟ اس سے کہلواؤ کہ صحیح کس طرح ہوگا،تمرین کراؤ۔
اب کیا ہوتا ہے کہ ہدایۃ النحوطالب علم پڑھ رہا ہے اور ہدایۃ النحو کا اصل مقصود یہ ہے کہ نحو اس کو اچھی طرح ذہن نشین ہوجائے اور اس کی عملی تطبیق کرسکے،لیکن جب ہم ہدایۃ النحو میں کافیہ والی بحثیں شروع کردیتے ہیں اوردرایۃ النحو، ہدایۃ النحو کی شرح چھپی ہوئی ہے تو استاد پڑھ کے جاتا ہے تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ سارا لازمی حصہ ہے میں ضرور پڑھاؤںگا،درایۃ النحو کی جو بحثیں ہیں وہ ضرور پڑھاؤں گا ،اب ہوتا یہ ہے کہ طالب علم کو عبارت صحیح پڑھنی نہیں آتی ،اور وہ ان چون وچرا کی بحثوں میں الجھ گیا ،اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جو اصل مقصود تھا وہ ختم ہوگیا۔میں توکافیہ میں بھی یہ سمجھتا ہوں کہ کافیہ میں بھی صرف کتاب کی حدتک محدود رہنا چاہیے۔اس میں شرح جامی کی بحثیں شروع ہوجاتی ہیں اور شرح جامی پڑھا رہے ہیں توالحاصل والمحصول کی بحثیں شروع ہوجاتی ہیں ،نتیجہ یہ ہے کہ جو پڑھا رہے ہیں وہ تو ہوتا نہیں ،اور زوائد ذہنوں پر مسلط ہوجاتے ہیں۔
ابتدائی درجات میں بحث و مباحثہ کے بجائے اجراء وتمرین پر محنت کرنی چاہیے
میری بہت ہی عاجزانہ درخواست ہے ، خاص طور پر ابتدائی درجات کے اساتذہ سے کہ وہ خدا کے لئے اس بات کو مدِّ نظر رکھیں،تمرین اور اجراء پر زیادہ سے زیادہ زور دیں ،طلبہ کو غیرضروری بحثوں میں نہ الجھائیں بلکہ حلِ کتاب اور تمرین و اجراء پر سارا زور ہونا چاہیے ۔
ہمارے والد ماجد قدس اللہ تعالیٰ سرہ کی بھی تاکیدہوتی تھی اور ہمارے اساتذہ میں مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ بھی اس کی بڑی تاکید فرماتے تھے اور اسی لئے شروع میں یہ معمول تھا اور اس سال بھی الحمدللہ اس پرکچھ عمل ہوا ہے کہ ابتدائی درجات کی کچھ کتابیں اوپر کے درجات کے اساتذہ کے پاس ہوں۔وہ اسی لئے ہے تاکہ جو ایک نہج متعین ہے اسی کے مطابق پڑھایا جائے۔ تو آپ حضرات سے میری بہت ہی عاجزانہ درخواست ہے کہ خدا کے لیے طالب علموں کو ان بے کار بحثوں میں بالکل نہ الجھائیں ،حلِ کتاب پر اور تمرین و اجراء پر آپ کا سارا زور ہونا چاہیے، ان شاء اللہ اس کے نتیجے میں طلبہ ایسے نکلیں گے کہ جو آپ کے لیے صدقہ جاریہ ثابت ہوں گے ۔
یہ تو چند باتیں تھیں جو تذکیر کے لئے میں نے آپ حضرات کی خدمت میں عرض کی ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان باتوں پر مجھے بھی ،آپ کو بھی ،ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفق عطافرمائے۔
اسباق کو ریکارڈکرنے کی ترتیب اور اس کے مقاصد
اب ایک اور نئی چیز ہے جو اس سال متعارف ہورہی ہے ،اس کا تھوڑا سا پس منظر میں آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں ۔وہ یہ کہ ہماری یہ خواہش ہے کہ ماشاء اللہ آپ حضرات جوتدریس میں محنت کرتے ہیں وہ صرف ہوا ہی میں نہ اڑجائے بلکہ وہ ریکارڈ ہو اور اس ریکارڈسے بہت سے مختلف فائدے حاصل کئے جاسکتے ہیں ۔اور اس کے لئے خاص طور پر جو جدید درسگاہ ہے جو ابھی بنی ہے،فی الحال اس کی ہر درسگاہ میں ایک سسٹم متعارف کرایا جارہا ہے کہ جس میں ہر استاد کے سامنے ایک مائیک ہوگا اور وہ مائیک میں ہی اپنا سبق پڑھائے گا، وہ سبق ریکارڈ ہورہا ہوگا اور اس کو کسی وقت بھی سنا جاسکے گا۔اس وقت اولیٰ سے سادسہ تک کچھ درسگاہوں میں یہ انتظام کیا گیا ہے۔
اس سے ایک مقصد تو یہ ہے کہ آپ حضرات کی جو محنت ہے، آپ حضرات کی جو تقریریں ہیں وہ محفوظ اور ریکارڈ ہوجائیں اور وہ کئی حیثیتوں سے فائدہ دیں گی۔ــ ان شاء اللہ ــاس کو ہم مثال کے طورپر بھی پیش کریں گے، اس کو ہم نمونے کے طور پر بھی پیش کریں گے اور سچی بات یہ ہے کہ میں تو ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ ہم بوڑھے ہوگئے ہیں اور جو کتابیں آپ لوگ پڑھارہے ہیں ان کو پڑھائے ہوئے بھی سالہا سال گزر گئے ہیں تو آپ حضرات کی تقریروں سے تھوڑا بہت ہمیں ماضی بھی یاد آجائے گا،کہ کچھ تھوڑا سا استفادہ ہمیں بھی ہوجائے گا۔اب پُرانی کتابوں سے متعلق کوئی مسئلہ پوچھے تو اب ہمیں یاد ہی نہیں رہتا تو آپ حضرات کی تدریس سے ہم بھی کچھ استفادہ کرسکیں گے اور ساتھ ہی یہ بھی پتا چلتا رہے گا کہ ماشاء اللہ ہمارے اساتذۂ کرام کتنی محنت سے اور کتنے ذوق و شوق سے اور کتنے اہتمام کے ساتھ پڑھا رہے ہیں۔ تو اس سے ہمارا دل خوش ہوگا،اور ہوسکتا ہے کہ جن کی تدریس بہت اعلیٰ قسم کی ہو ہم ان کی حیثیت کو نمایاں بھی کریں اور ان کو انعام بھی دیں، ہوسکتا ہے کہ دوسرے لوگوں کے لئے ہم ا س کو ایک نمونہ بنائیں،تو یہ سارے فوائد اس سے حاصل ہوسکتے ہیں۔ اور اس سے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر کوئی بات قابلِ اصلاح نظر آئے تو وہ ریکارڈ آپ کے اساتذہ کے پاس ہوگا جو سن سکیں گے تو ان کے ذہن میں درس کو مزید بہتر بنانے کے لئے اگر کوئی بات یا کوئی تجویز اچھی آئی تو اس کی بھی اصلاح کر سکیں گے ،اس سے ان شاء اللہ معیار میں بہتری پیدا ہوگی ۔
آپ یہ ہرگز نہ سمجھیں کہ اس میں آپ کے اوپر کوئی جاسوس مقرر ہوگیا ہے، ایسا بالکل نہیں ہے بلکہ اس کے بہت سے فوائد پیشِ نظر ہیں، آپ اس کی وجہ سے اپنی درسی تقریر کی بے تکلفی کو ختم نہ کریں، آپ اس سے بے نیاز ہوجائیں کہ یہ ریکارڈ ہورہا ہے یا نہیں ہورہا، آپ اسی طرح پڑھائیں جیسے آپ پڑھاتے ہیں، اس میں اپنے اوپرکوئی آپ کو یہ بوجھ رکھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ ریکارڈ ہورہاہے۔لیکن تھوڑا سا اس کی وجہ سے ہوسکتا ہے کہ آپ حضرات خود کوئی بہتری کی صورت اگر کرسکتے ہوں تو کریں، لیکن حاشا وکلا اس کامقصد ہر گز یہ نہیں ہے۔
دورۂ حدیث میں تو پندرہ بیس سال سے ہر سبق ریکارڈ ہورہا ہے، لیکن اساتذہ کا اپنے ساتھیوں کے ساتھ بے تکلفی میں کوئی فرق نہیں آتا تو یہ سمجھو کہ یہ بھی اسی سلسلے کی ایک توسیع ہے۔ لہٰذا ذہن پر بوجھ رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ سب حضرات مائیک استعمال کریں ،اور بغیر مائیک کے نہ پڑھائیں، جب بھی سبق شروع کریں تو مائیک لگالیں تو اس طرح پورا درس ریکارڈ ہوتا جائے گا ،ان شاء اللہ اس سے بہت سے فوائد حاصل ہوں گے۔اورجو حضرات سسٹم لگارہے ہیں وہ اگر اس کے متعلق کچھ ہدایات دیں تو براہِ کرم آپ اس کی پابندی بھی فرمائیں ۔
طلبہ کی عزت نفس کا خیال کیجیے
ایک گزارش میری اور ہے اب اسباق ریکارڈ ہونے جارہے ہیں تو ایک گزارش اور کروں ،معلوم نہیں اس سے پہلے میں نے یہ گذارش کی ہے یا نہیں، وہ یہ ہے کہ جتنے بھی طالب علم ہمارے پاس آتے ہیں خواہ وہ کسی بھی درجے کے ہوں یہ درحقیقت علمِ دین کے مہمان ہیں ، ان کی اگر ہم عزت نہیں کریں گے تو دوسرے لوگ کہاں عزت کریں گے ۔لہٰذا اپنے طالب علموں کے ساتھ شفقت کے ساتھ ساتھ ان کی عزت کا بھی خیال کریں، ان کے اندر عزتِ نفس پیدا کریں ،اور ان کے ساتھ ایسا معاملہ نہ کریں کہ جس سے ان کی بے عزتی ہو۔یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ ہمارے ماحول میں بعض اوقات بے تکلفی میں اساتذہ اپنے طلبہ سے توتڑاق سے بات کرتے ہیں "ابے تُویوں کیوں کر رہا ہے،ابے تُو یہ کیا کر رہا ہے، ابے تو بیٹھ نا” اس طرح کے انداز سے گفتگو کرتے ہیں، وہ اگرچہ ان کی بے تکلفی کا انداز ہوتا ہے لیکن درحقیقت اس کا بُرا اثر یہ پڑھتا ہے کہ طالب علم کی عزتِ نفس مجروح ہوتی ہے ،ہمیں تو ان کو تربیت دینی ہے، ان کو طرزِ تخاطب سکھانا ہے کہ اگر دشمن سے بھی بات کرو تو طریقہ سے کرو ، تمیز سے کرو ،تہذیب سے کرو ،شائستگی سے کرو، کسی پر تنقید کرنی ہے تو تنقید بھی شائستگی سے کرو،یہ بات ہمیں پہلے دن ہی ان کی گھٹی میں ملانی ہے۔میں نہیں کہتا ہے یہ ہمارے یہاں ہوتا ہے لیکن چونکہ ہمارے ماحول میں ایک چیزہے تو اس لئے میں عرض کر رہا ہوں کہ خدا کے لئے ایسا کام نہ کریں ،اپنے طلبہ کی عزت کریں ،وہ مہمان ِ رسول ہیں ،ان کو عزتِ نفس سکھائیں ،ان کے ساتھ معاملہ تعظیم اور محبت کا کریں۔ ٹھیک ہے تربیت کے لئے بعض اوقات ڈانٹنا بھی پڑجاتا ہے، تربیت کے لئے بعض اوقات سخت سست بھی کہنا پڑجاتا ہے لیکن وہ تہذیب کے دائرے سے نہیں گِرنا چاہیے،یہ میری آخری گزارش ہے اس کوبھی پیشِ نظر رکھیں ۔

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

(ماہنامہ البلاغ – ربیع الثانی 1442 ھ)