رمضان صبرکامہینہ(حصہ چہارم)

(حصہ چہارم)
الحمد للّٰہ نحمدہٗ و نستعینہٗ و نستغفرہٗ و نؤمِنُ بہٖ و نتوکّل علیہ و نعوذ باللّٰہِ من شرورِ أنفسنا و من سیّئاتِ أعمالنا مَن یھدہِ اللّٰہ فلامُضِلَّ لہٗ وَ مَنْ یُضللہٗ فلا ھَادِیَ لہٗ وَ أشھد أن لاَّ اِلٰہ اِلاَّ اللّٰہ وحدہٗ لا شریک لہٗ و أشھد أنّ سیّدنا و سندنا و نَبِیّنَا و مولانَا محمّدًا عبدہٗ و رسولہٗ صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ و علٰی آلہٖ و اَصْحَابِہٖ و بارک
و سلَّمَ تسلیمًا کثیرًا
أمّا بعد!
حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کاایک ارشادپڑھاگیاتھا،اس کے بارے میں بات چل رہی تھی ،اس کودوبارہ دُہرادیتاہوں،حضرت والانے فرمایاکہ
’’{صبرعن الشہوۃ} گوفی نفسہٖ دُشوارہے،مگرآدمی جب اس کا ارادہ کرتاہے توآسانی شروع ہوجاتی ہے،حتی کہ پھرکبھی دُشواری نہیں رہتی۔ایک بات یہ بھی یادکھنے کی ہے کہ شہوت عورتوں کے تعلق ہی میں منحصرنہیںبلکہ لذیذغذاؤں کی فکرمیں رہنابھی شہوت ہے،عمدہ لباس کی دُھن میں رہنابھی شہوت ہے،ہروقت باتیں بگھارنے کی عادت بھی شہوت ہے، ان سب شہوتوں سے نفس کو روکنا بھی { صبر عن الشہوۃ} میں داخل ہے۔آج کل لوگوں کوباتیں بنانے کامرض ہے، بس جہاں کام سے فارغ ہوئے ،مجلس آرائی کرکے فضول باتیں کرنے لگے،میں صرف عوام کی شکایت نہیں کرتا،بلکہ میں علماء اورمشایخ کوبھی مجلس آرائی سے منع کرتا ہوں، کیونکہ یہ مرض ان میں بھی بہت ہے۔‘‘
رمضان المبارک کو’’صبرکامہینہ‘‘ قراردینامعمولی بات نہیں
اسی ملفوظ کی بنیادپرپچھلے دنوں یہ عرض کرتارہاہوںکہ حدیث میں رمضان المبارک کے مہینے کو{شھرالصبر}قراردیاگیاہے۔رسول اللہ ﷺکااس مہینے کوصبر کا مہینہ قراردیناکوئی معمولی بات نہیں ہے،بلکہ اس کے پیچھے کچھ مقصدہے،وہ مقصدیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ مہینہ اس حکمت اورمصلحت کے ساتھ مقررفرمایاہے کہ اہلِ ایمان اس مہینے میں صبرکی عادت ڈالیں۔اوربات صرف رمضان تک نہ رہے کہ رمضان تک ساری عبادات ہوتی رہیںاورگناہوں سے بچنے کاکسی درجے اہتمام رہا،اب رمضان گزرا اور شیطان آزادہوا توہم بھی آزادہوگئے،بلکہ حقیقت میں یہ مہینہ صبرکی تعلیم وتربیت کیلئے رکھاگیاہے۔کوئی بھی تعلیم وتربیت اس وقت تک فائدہ نہیں دیتی جب تک وہ تعلیم و تربیت لینے والاارادہ نہ کرلے کہ مجھے فلاں چیزکی تربیت لینی ہے۔اگراس کے دل میں تربیت لینے کاارادہ ہی نہیں ہے اوروہ کبھی اس مقصدسے آیاہی نہیں کہ میر ی تربیت ہوتوپھرتربیت کیسے حاصل ہوگی؟اگرکسی بچے کو کہیں داخل کروتوبچے کے دل میں بھی نیت ہوکہ میں پڑھنے جارہاہوں،اسی طرح اگر کسی فن وہنرکی تربیت گاہ ہے توبھی تربیت لینے والے کودل میں ارادہ کرناضروری ہے کہ میں فلاں چیزکی تربیت لینے جارہاہوں،اس کے بعداس کام اورفن کی تربیت لینے کے ذرائع استعمال کرناہوں گے،اس ارادہ کے بعدتربیت کارآمدہوتی ہے،لیکن اگرارادہ ،نیت اورشوق وغیرہ کچھ نہ ہو،کوئی فکرنہ ہو تو پھرکچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔
رمضان المبارک کی تیاری کی فکر
رمضان المبارک کامہینہ شروع ہونے والاتھا،اس وقت نبیِ کریم ﷺنے یہ بات ارشادفرمائی کہ یہ {شھرالصبر}ہے،شعبان کاآخری دن تھا،اس وقت آپﷺ نے صحابۂِ کرام ؓکوجمع کرکے خطبہ ارشادفرمایا،حضرت سلمان فارسیؓسے وہ خطبہ مروی ہے،اس میں آپ ﷺنے رمضان المبارک کے فضائل بیان فرمائے کہ:
{اَظَلَّکُمْ شَھْرٌ عَظِیْمٌ شَھْرٌ مُّبَارَکٌ شَھْرٌ فِیْہِ لَیْلَۃٌ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَھْرٍ}
یعنی تمہارے اُوپرایک ایسامہینہ سایہ فگن ہورہاہے جوبڑی عظمت اوربڑی برکتوں والاہے،اس میں ایک رات ایک ہزارمہینوں سے زیادہ بہترہے۔اسی جگہ رمضان المبارک کو{شھر الصبر}قراردیاکہ یہ صبرکامہینہ ہے اورایک دوسرے کی غمخواری کامہینہ ہے۔یہ اس لئے فرمایاتاکہ دلوں میں یہ نیتیں تازہ ہوجائیں اوراس بات کی فکرلگ جائے کہ اس مہینے کوہمیں صبرکی تربیت حاصل کرنے کیلئے استعمال کرنا ہے۔ حضرات ِصحابۂِ کرام ؓجوکہ{ سبّاق الی الخیرات} تھے،ان کیلئے توایک اشارہ بھی کافی ہوتاتھا،لیکن آپ ﷺنے ان کوپہلے ہی سے بتادیاکہ یہ صبرکامہینہ ہے،تاکہ ان کاذہن پہلے ہی سے تیارہوجائے۔
بات یہ ہے کہ میری طرف سے اتناکہہ دینااورسن لیناکافی نہیں کہ یہ صبرکا مہینہ ہے بلکہ یہ ارادہ اورنیت لیکربیٹھناہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ صبرکامہینہ بنایا ہے، اس میں ہمیں صبرکی تربیت لینی ہے اوران شاء اللہ ہم یہ تربیت حاصل کریں گے اوراپنے آپ کوصبرکاعادی بنانے کی کوشش کریں گے۔
اس بات سے گھبرانے کی بھی ضرورت نہیں کہ رمضان کاکافی حصہ گزرچکا، اب کیاتربیت لیں گے، اللہ جل جلالہ کافضل وکرم ہوتواس کونہ تین دن کی حاجت ہے اورنہ ایک دن کی حاجت ہے، وہ توآنِ واحدمیں پلٹادلاسکتے ہیں،اس لئے اس بات کی کوشش کریں کہ جب رمضان کامہینہ ختم ہوتوہمارے اندرصبرکی استعداداورصلاحیت پیداہوچکی ہواوراگرپوری استعدادنہ بھی ہوئی توکم ازکم اس کے قریب پہنچ گئے ہوں۔
صبرایک وسیع نعمت ہے
حدیث میں صبرکی نعمت کوسب سے زیادہ وسیع قراردیاگیاہے،اس کے بغیر جنت میں داخلہ ممکن نہیں۔جنت توبڑی چیزہے،اصل یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ جائے، اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اوراس کے قہروغضب سے بچ جائے۔
اس صبرکے بغیراللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے نہیں بچاجاسکتا۔یہ اتنااہم ہے،اس کو حاصل کرنے کی فکرکرنی چاہئے،ان کواختیارکرنے سے اللہ تعالیٰ کافضل ہوجاتا ہے،رفتہ رفتہ یہ صبرکی صفت حاصل ہوجاتی ہے۔
عظیم قوت ِارادی اورہمت سے صبرحاصل ہوسکتاہے
ایک چیزتوپہلے عرض کرچکاہوں کہ اپنے نفس پرزبردستی کرنی پڑتی ہے کہ جس ناجائزچیزیاکام کی خواہش دل میں پیداہوتواس کوکچل کراوردباکراس سے بچاجائے۔
نفسانی خواہشات کامقابلہ کرنے کی طاقت کہ خواہشات کاجنون سوار ہے، اس حالت میں آدمی بچناچاہتاہے،جب تک ہمت ،ارادے اورحوصلے میں قوت نہیں ہوگی ، اس وقت تک اس خواہش سے اورجنون سے بچنابھی مشکل ہوجائے گا۔
میں نے آپ سے کہہ دیااوآپ نے سن لیاکہ اپنے نفس پرزبردستی کرنی ہے، لیکن عملی طورپرجب اس ناجائزیانامناسب خواہش کاموقع آتاہے تودل میں بہت زبردست داعیہ پیداہواکہ وہ دل ودماغ پرچھاجاتاہے،اب اس چھائے ہوئے تقاضے کو کیسے دفع کیاجائے گا؟اس کومضبوط قوت ِارادی سے ہی دفع کیاجاسکتا ہے، اگرارادے اورعزم میں قوت نہیںتوجنونی حالت کیسے ختم ہوگی؟
اس کی مثال یوں سمجھوکہ جیسے غصہ آگیا،یہ بھی ایک جنون کی قسم ہے،جس پرغصہ آرہاہے،دل کاتقاضایہ ہے کہ میں اس کامنہ نوچ ڈالوں،اس کواتنی گالیاں دوں اور اتنا برابھلاکہوں کہ اس کواس کی نانی یادآجائے۔نماز،روزے میں جومسکین لوگ نظرآتے ہیں جب ان کواپنے چھوٹوںاوراپنے ماتحتوں کے ساتھ معاملات پیش آتے ہیں،تب ان کی حقیقت کھلتی ہے،اس وقت ان کوخیال آتاہے کہ نہیں کہ جوکچھ ہم اپنے ماتحتوں کے ساتھ کررہے ہیں،ہم اس میں حق بجانب بھی ہیں یانہیں؟اورواقعی میراطرزِعمل صحیح بھی ہے یا نہیں؟ عام طورپراس کالحاظ نہیں رکھاجاتا،اگرچھوٹوں پربرسے توبس اتناکہ حدود سے باہرنکل گئے۔
طاقتورکون؟
اس وقت صبرکاامتحان ہوتاہے،اس کے بارے میں نبیِ کریم ﷺنے فرمایاکہ طاقتوراورپہلوان وہ نہیں ہے جوکشتی کے مقابلے میں دوسرے کوپچھاڑدے بلکہ پہلوان وہ ہے کہ {اَلَّذِیْ یَمْلِکْ نَفْسَہٗ عِنْدَ الْغَضَبِ}جوغصہ آنے کے موقع پراپنے آپ پرقابوپالے۔اسی کوقرانِ کریم میں یوں بیان فرمایا:
{وَالْکٰظِمِینَ الْغَیْظَ وَالْعَافِینَ عَنِ النَّاسِ} (آل عمران: ۱۳۴)
حدیث میں نبیِ کریم ﷺنے فرمایاکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کوکوئی گھونٹ اتنا زیادہ محبوب نہیں ہے جوبندہ پیتاہے،سوائے غصے کے گھونٹ کے۔
بعض جگہ غصہ کرناشرعاًجائزہوتاہے،مثلاًایک شخص نے تمہارے ساتھ کوئی برا سلوک کیایاتمہیں تکلیف پہنچائی تواس برائی اورتکلیف کااتناہی بدلہ لیناجائزہے
{وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِہٖ} (النحل: ۱۲۶)
لیکن :
{وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُوْرِ}
(الشورٰی: ۴۳)
لیکن اگرکوئی اس جائزبدلے کوبھی چھوڑدے اورمعاف کردے توبڑی ہمت کا کام ہے۔اس لئے یہ صبرکوئی معمولی چیزنہیں ہے،اس کیلئے مشق کی ضرورت ہے، روزے میں اس کی مشق کروائی جارہی ہے،حدیث میں آتاہے:
{اِنْ جَھِلَ عَلَیْکُمْ جَاھِلٌ فَقُلْ اِنِّیْ صَآئِمٌ}
اگرروزے کی حالت میں تم سے کوئی لڑناچاہے تواس سے صاف کہہ دوکہ میرا روزہ ہے۔جہالت کے صلہ میں جب علی آجائے تواس کے معنی ’’لڑنا‘‘کے آتے ہیں، لڑائی بھی حقیقت میں جہالت کاکام ہے،اہلِ عرب بھی دورِجاہلیت میں یہ بات جانتے تھے کہ لڑائی اصل میں جہالت ہے،لیکن مشکل یہ تھی کہ اس جہالت پروہ فخر کیا کرتے تھے،حماسہ کاایک شاعرکہتاہے ؎
اَلاَ لاَ یَجْھَلْ اَحَدٌ عَلَیْنَا
فَنَجْھَلْ فَوْقَ جَھْلِ الْجَاھِلِیْنَ
یعنی خبردار!ہمارے ساتھ کوئی بھی جہالت کامعاملہ نہ کرے یعنی لڑائی نہ کرے، اگرکروگے توہم جاہلوں سے بڑھ کرجاہل ہیں۔
روزے کی حالت میں لڑائی سے بچاکرصبرکی ٹریننگ دی جارہی ہے کہ لڑنے والے کامعقول حدتک جواب دیناتمہارے لئے جائزتھا،جتنی زورسے وہ بولاتھاتم بھی اس سے بول سکتے تھے،جتنی برائی اس نے کی ،تمہارے لئے بھی اتناہی بدلہ لیناجائز تھا لیکن روزے کی حالت میں وہ نہ کرواورکہہ دوکہ میراروزہ ہے۔
مطلب یہ کہ میں توصبرکی تربیت سے گزررہاہوں،میں غصے سے مغلوب توکیا ہوتا، میں توجائزغصہ بھی نہیں کررہاہوں۔اس لئے اس نیت کے ساتھ روزے رکھنا ضروری ہے کہ ہم صبرکی صفت اور صبر کی نعمت حاصل کرناچاہتے ہیں۔
سوچ کارُخ صحیح کریں
صبرحاصل کرنے کاپہلاطریقہ اورپہلاسبق یہ ہے کہ یہ جوہم خواہشات کے غلام بن کررہ گئے ہیں ،اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمار ی سوچ اورفکرصبح سے لیکرشام تک ہماری انہی خواہشات کے بھنورمیں چکرلگاتی رہتی ہے۔
ہرانسان ہروقت کچھ نہ کچھ سوچتارہتاہے،اس سوچ پرفی الحال ہماری خواہشات کاغلبہ ہے کہ کیسے اچھی سے اچھی غذاکھالوں،کیسے اچھے سے اچھے لباس پہن لوں،کیسے زیادہ سے زیادہ راحت حاصل کرلوں۔بس ہروقت شیخ چلی والے منصوبے بن رہے ہیں، دل میں کوئی شوق پیداہوگاتودنیاہی کے فائدے کیلئے ہوگا، کوئی فکرپیداہوگی تودنیا ہی کے نفع ونقصان کیلئے ہوگی۔اس سوچ کانتیجہ یہ ہوگاکہ اسی قسم کی خواہشات انسان کے اُوپرقبضہ جمالیں گی۔
لیکن اگرسوچ کارُخ بدل جائے کہ ٹھیک ہے دنیاکے سارے فائدے اللہ تعالیٰ نے میرے لئے حلال کئے ہیں،لیکن یہ میری منزل نہیں ہیں،یہ میری زندگی کا مطمحِ نظرنہیں ہے،کھاتاہوں لیکن اس لئے کہ میرے نفس کاحق اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے اجازت دی ہے کہ میں اچھاکپڑاپہنوں،بلکہ حدیث میں آتاہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ اپنے بندے پراللہ تعالیٰ نے جونعمتیں فرمائی ہیں،اس کانشان اس بندے پرظاہرہو۔لیکن ہروقت اسی فکرکواپنے سوچ کا محور بنالیناکہ کیسے اچھے سے اچھاکپڑاپہنوں،یہ سوچ صحیح نہیں ہے۔
اس سوچ کارُخ صحیح اس طرح ہوگاکہ اس سوچ کومرنے کے بعدکی زندگی کی طرف لے جاؤ۔جنت ودوزخ کوسوچیں،اگرکسی کی سوچ آخرت کے بارے میں زیادہ ہے بہ نسبت دنیاوی زندگی کے عیش وآرام کے تووہ شخص قابلِ مبارکبادہے۔
رسول اللہ ﷺکاصحابۂِ کرام ؓکی سوچ کارُخ بدلنا
رسولِ کریم ﷺنے صحابۂِ کرام ؓکی سوچ کارُخ بدل دیاتھاکہ جہاں کہیں یہ خطرہ محسوس ہواکہ اس عمل کے نتیجے میں ان حضرات کادُھن اوردِھیان دنیاکی طرف چلاجائے گا،سرکارِدوعالم ﷺنے فوراًاس کاسدِّ باب فرمایا،حدیث میں آتاہے کہ ایک مرتبہ بہت اعلیٰ درجے کاریشمی کپڑاآیا،صحابۂِ کرام ؓاس کودیکھ رہے تھے اور بڑاپسندکررہے تھے،حضورﷺنے بھی منع نہیں فرمایاکیونکہ ایک جائزکام تھا،لیکن جب دیکھ چکے توفرمایا:
{لَمَنَادِیْلُ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ خَیْرٌ فِی الْجَنَّۃِ مِنْ ھٰذَا}
سعدبن معاذؓ(جن کاانتقال ہوچکاتھا)کے جنت کے رومال ان کپڑوں سے کہیں زیادہ بہترہیں۔
یعنی جب دیکھاکہ صحابۂِ کرام ؓکے دل میں شوق اوررغبت پیداہورہی ہے، کہیں ایسانہ ہوکہ دل دنیاہی کی طرف چل پڑے توفوراًان کی طرف سے سوچ کارُخ آخرت کی طرف موڑدیا۔دنیاحاصل کرنامنع نہیں ہے،دنیاکی محبت کودل میں جگہ دینامنع ہے۔
ایک مرتبہ ایک جگہ سے نبیِ کریم ﷺگزرے تودیکھاکہ ایک صحابی اپنی جھونپڑی کی کچھ مرمت کررہے تھے،حضورﷺنے ان کومنع نہیں فرمایالیکن ایک جملہ فرمادیاکہ:
{ اَلْاَمْرُ عَاجِلٌ مِّنْ ذٰلِکَ}
معاملہ تواس سے زیادہ جلدی کاہے۔
بعض اوقات جب اس حدیث کوپڑھتے ہیں تودل میں خیال پیداہوتاہے کہ کوئی ایساعالیشان مکان نہیں تھاکہ اس کوبنانے میں وہ دن رات ایک کررہے ہوں،بلکہ ایک جھونپڑی ہے اوراس کی مرمت کررہے ہیں،اس سے بظاہریہ سمجھ میں آرہاہے کہ مکان بناناتوبڑی دورکی بات ہوگی،لیکن بات دراصل یہ ہے کہ آپ ﷺنے نہ تومنع کیااورنہ ہی منع کرنامقصودتھا،مقصدصرف سوچ کارُخ بدلناتھاکہ کہیں ایسانہ ہوکہ تمہاری سوچ، فکر اورشوق وذوق کامحوریہ مکان یاجھونپڑی ہوکررہ جائے۔کیونکہ اگرکسی کے پاس ایک جھونپڑی ہے اوردن رات اسی میں اس کادل ودماغ اُلجھاہواہے تووہ جھونپڑی اس کیلئے دنیاہے۔اگرکسی کامحل ہے اوروہ اس میں رہتاہے،اس پراللہ تعالیٰ کاشکراداکرتا ہے، لیکن اس محل کے اندراس کادل اَٹکاہوانہیں ہے،سوچ اورفکراس محل میں نہیں بھٹک رہی، بلکہ وہ اپنے کام میں لگاہواہے تووہ دنیانہیں ہے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کوجومحلات عطاہوئے وہ دنیامیں کسی کونہیں ملے، لیکن ان کے باوجودفرماتے ہیں:
{ اِنِّیْٓ اَحْبَبْتُ حُبَّ الْخَیْرِ عَنْ ذِکْرِ رَبِّیْ}(ص: ۳۲)
یعنی جوکچھ بھی محبت ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کیوجہ سے ہے۔اصل بات سوچ کا رُخ بدلنے کی ہے جیسے حضور ﷺنے صحابۂِ کرام ؓکی سوچ کارُخ بدلا۔
تمہاری چادرتمہاری دنیاہے
حضرت حکیم الامت قدس اللہ سرہ نے ایک بزرگ کاواقعہ مواعظ میں بیان فرمایا ہے،ایک صاحب تھے،انہوں نے کسی بڑے شیخ کی بہت شہرت سنی،وہ ان کے ہاں ان سے مریدہونے کیلئے گئے،جب پہنچے تودیکھاکہ ان کاایک بڑاکاروبارچل رہا ہے، کارخانے چل رہے ہیں،نوکرچاکرکام کررہے ہیں،شام کوکچھ درس دیدیا،اس نے سوچا کہ رات کو کچھ عبادت بھی کرلیتے ہوں گے،لیکن دن بھرتجارت ہی میں ہیں،تودل میں خیال آیاکہ یہ کیسے شیخ ہیں؟لیکن کہاکہ چلوکچھ روزدیکھتے ہیں،چنانچہ ایک دو روز گزرے،شیخ شام کے وقت چہل قدمی کیلئے جایاکرتے تھے،یہ بھی ساتھ چل پڑے، چلتے چلتے کہاکہ حضرت! آپ کے ساتھ عمرہ یاحج کی سعادت حاصل ہوجائے توکیاہی اچھاہو!شیخ نے کہاکہ اچھاتوچلو! یہ سڑک وہیں جارہی ہے،اس نے کہاکہ ابھی؟ توشیخ نے کہاکہ بس ابھی چل پڑو!اس نے کہاکہ حضرت! جہاں ٹھہراہواہوں وہاں میری چادرپڑی ہوئی ہے،وہ ذرالے آؤں،شیخ نے کہاکہ تمہیں اپنی چادرنظرآگئی لیکن میر ی تجارت اورنوکر چاکر کاخیال نہ آیاکہ ہم ان کاکچھ انتظام کرواکرآجائیں۔
گویایہ بتلادیاکہ یہ سب کارخانہ چل تورہاہے لیکن اس میں دل اَٹکاہوانہیں ہے تویہ دنیانہیں ہے اورتمہارادل اس چادرمیں اَٹکاہواہے وہ چادرتمہاری دنیاہے۔
گھراورباغ دل سے نکل گیا۔۔۔!!
میرے والدماجدقدس اللہ سرہ نے دیوبندمیں شروع میں بہت مشکل کاوقت گزارا، پندرہ روپے ماہانہ سے کام شروع کیا،اس میں نو(۹) افرادپرمشتمل کنبہ کی کفالت کی،لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے بعدمیں وسعت عطافرمائی،حضرت والد صاحبؒ کو دنیا کے کاموں میں سے اس چیزکاشوق تھاکہ گھراپناہواوردوسراکوئی چھوٹا موٹا باغ ہو۔ چنانچہ الحمدللہ! ایک گھربنایااورایک باغ لگایا،جب پاکستان کی طرف ہجرت کرنے کا وقت آیاتواس وقت اس باغ پرآم کاپہلاپھل آرہاتھا،ہجرت کی وجہ سے وہ پہلاپھل بھی دیکھنے یاکھانے کی نوبت نہیں آنی تھی،لیکن اس کوچھوڑکر آگئے، لیکن ایک جملہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ایک بات نعمت کی تحدیث کے طورپرکہتا ہوںکہ جس دن میں نے اس گھر سے اوراس باغ سے قدم نکالا،اس دن سے وہ گھر اور وہ باغ میرے دل سے نکل گیا۔
توپہلاطریقہ یہ ہے کہ ہم اپنی خواہشات کے بھنورمیں پھنسی ہوئی سوچ کارُخ بدلیںاورآخرت کی فکراورسوچ کوغالب کریں،جنت وجہنم اوراللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیشی کی سوچ بنائیں۔کون سے کام جنت کی طرف لے جانے والے ہیں اورکون سے کام جہنم کی طرف لے جانے والے ہیں،ان کی سوچ پیداکریں ۔
سوچ کارُخ بدلنے کیلئے دعاکریں!
اس چیزکیلئے دعابھی کریں جوکہ حضورﷺنے تعلیم بھی فرمائی کہ:
{اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ وَسَاوِسَ قَلْبِیْ خَشْیَتَکَ وَ ذِکْرَکَ}
اے اللہ ! میرے دل کے خیالات کوبدل کراپنی خشیت اوراپنی یادکی طرف موڑدیجئے۔
رمضان المبارک کی قبولیت کی گھڑیوں میں یہ دعابھی کثرت سے کریںکہ یااللہ! میرے دل کی سوچ کارُخ بدل دیں کہ میرے دل میں خیالات بھی آپ کی خشیت اورآپ کے خوف کے آئیں اورفرمایا:
{وَاجْعَلْ ھِمَّتِیْ وَ ھَوَایَ فِیْمَا تُحِبُّ وَ تَرْضٰی }
اوراے اللہ! میرے خیالات اورمیری خواہشات ان چیزوں کی طرف متوجہ فرمادیجئے جوآپ کوپسندہوں اورآپ کومحبوب ہوں۔
اللہ تعالیٰ ہی ہمارے دل ودماغ کے مالک ہیں،ان کے قبضے میں ہمارے خیالات ہیں۔اسی لئے کثرت سے یہ دعاکریں،اورفرمایا:
{اَللّٰھُمَّ اِنَّ قُلُوْبَنَا وَ نَوَاصِیَنَا وَ جَوَارِحَنَا بِیَدِکَ لَمْ تُمَلِّکْنَا مِنْھَا شَیْئًا فَاِذَا فَعَلْتَ ذٰلِکَ بِنَا فَکُنْ اَنْتَ وَلِیُّنَا
وَ اھْدِنَا اِلٰی سَوَآئِ السَّبِیْلِ }
یااللہ! ہمارے دل آپ کے قبضے میں ہیں،ہمار ی پیشانیاں آپ کے قبضے میں ہیں،ہمارے سارے اعضاء وجوارح آپ کے قبضے میں ہیں،ان میں سے کسی چیزکابھی آپ نے ہمیں مالک نہیں بنایا،جب آپ نے ہمارے ساتھ یہ معاملہ فرمایاہے توآپ ہی ہمارے کارسازبن جائیے(کہ ہمارے دلوں کارُخ بھی آپ ہی طے فرمائیے کہ کہاں
ہوناچاہئے؟) اور ہمیں سیدھے راستے پرلاکھڑاکیجئے۔
حضرت حکیم الامت ؒ کے رسالہ’’شوقِ وطن‘‘کامطالعہ کریں
روزانہ تھوڑے تھوڑے وقفے سے آخرت کی باتیں کرناطے کرلیجئے،ہمارے حضرت والاحضرت حکیم الامت قدس اللہ سرہ کارسالہ ہے ’’شوقِ وطن‘‘یعنی ہرمؤمن کااصل وطن جنت ہے،دنیامیں کسی کاکوئی وطن ہوتاہے تواس کواس کی طرف شوق ہوتا ہے، اس کی یادآتی ہے،اس کے حالات سنتارہتاہے،لیکن ہم اپنے اصلی وطن سے ایسے غافل ہیں کہ ہمیں کبھی خیال بھی نہیں آتا،کبھی اس کی طرف شوق بھی نہیں ہوتا۔ حالانکہ قرآنِ کریم جنت کی نعمتوں سے بھراہواہے۔
حضرت ؒنے اس رسالہ میں و ہ آیات واحادیث جمع فرمائی ہیں جن کوپڑھ کرآدمی کے دل میں آخرت کاشوق پیداہو۔جب دل میں شوق پیداہوجاتاہے تویہ خواہشات پرغالب آجاتاہے اورخواہشات مغلوب ہوجاتی ہیں ، جس کے نتیجے میں صبر کی نعمت حاصل ہوجاتی ہے۔اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں صبر کی یہ نعمت عطا فرمادے،آمین۔
و آخر دعوانا ان الحمدللّٰہ ربّ العٰلمین