رمضان توبہ کا مہینہ

میرے خیال میں آج کل ہم جن مصائب کا شکار ہیں وہ بھی اسی وجہ سے ہیں، آج کے دور میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ملے جو سکھ اور اطمینان میں ہو،پورے ملک میں یہی حال ہے ،مجموعی طور پر دیکھیں تو ملک میں امن وامان نہیں ہے، سیاسی ، معاشی حالات بھی ابتر ہیں،بجلی اور پانی کے مسائل نے لوگوں کا جینا دو بھر کر رکھا ہے،غرض یہ کہ کسی بھی شعبۂ زندگی میں اُمید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی ، یہ صورتِ حال دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف ہمارے لئے تازیانہ ہے،اللہ تعالیٰ ا رشاد فرماتے ہیں:
{وَلَنُذِیقَنَّہُمْ مِنَ الْعَذَابِ الْأَدْنٰی دُونَ الْعَذَابِ الْأَکْبَرِ
لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ} (السجدۃ: ۲۱)
ہم لوگوں کو دنیا ہی میں بڑے عذاب سے پہلے چھوٹے عذاب چکھاتے ہیں تاکہ وہ واپس آجائیں۔
اسی طرح قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
{ لَعَلَّہُمْ یَضَّرَّعُونَ } (الأعراف: ۹۴)
ہم بدحالی اس لئے بھیجتے ہیں تاکہ لوگ گناہوں سے توبہ کر لیںاور عاجزی اختیار کریں۔
خلاصہ یہ کہ ہمارے اُوپر آنے والے مصائب اور پریشانیاں اُس حرام خور ی کا وبال ہے جو ہم نے اختیار کر رکھی ہے،اپنے گرد و پیش پر نگا ہ دوڑائیں تو یہی نظر آئے گا کہ روزہ رکھتے ہیں لیکن جب افطار کا وقت آتاہے تو یہ نہیں سوچتے کہ جس مال سے افطاری کر رہے ہیں یہ مال کہاںسے کما یا ،چنانچہ حرام مال سے افطاری کی جاتی ہے،جو رشوتیںلے کر،لوگوں کو دھوکہ دے کر اور لوگوں کا دل دُکھا کر حاصل کیا جاتاہے اور اسی مال سے لوگ ایک دوسر ے کے گھر افطاری بھی بھجواتے ہیں،سحری بھی بھجواتے ہیں۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ روزہ تو اس لئے سے رکھا جاتاہے کہ تقوٰی پیدا ہو،لیکن روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ ہم نے حرام کاموں کو نہیں چھوڑا،لہٰذا اس مہینہ میں ہمیں اپنے دن بھر کے کاموںکا جائزہ لینا چاہئے کہ ہم نے کیا کیا کام کئے ا ور کس ذریعہ سے مال کمایا،حاصل یہ کہ یہ مصائب اور پریشانیاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لئے ایک تازیانہ ہیں۔
رمضان المبارک میں توبہ کااہتمام
حدیث میںآتا ہے کہ رمضان کا پہلا حصہ رحمت ہے،دوسرا حصہ مغفرت ہے اور تیسرا حصہ جہنم کی آگ سے آزادی کا پروانہ ہے،اس لئے اس ماہِ مقدس میںاللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کر لیں،اور اللہ کی بارگاہ میںسچی توبہ کرلیں کہ یااللہ ! ہم اقراری مجرم بن کر آپ کے سامنے حاضر ہوئے ہیں،یہ رمضان کا مقد س مہینہ ہے جس میں آپ کی رحمت کی ہوائیں چلتی ہیں اور اس مہینہ میں آپ رحمت کے دروازے کھولتے ہیں، اور جہنم کی آگ سے نکالا جاتا ہے ،ہم آپ کی بارگاہ میں اپنی اور اپنے تمام مسلمان بھائیوں کی طرف سے توبہ کرتے ہیں،ہماری توبہ کو قبول فرمالیں،ہر مسلمان ہر نماز کے بعد اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ درخواست پیش کرے کہ:
{رَبَّنَا ظَلَمْنَآ أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُونَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ } (الأعراف: ۲۳)
اے اللہ ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کر لیا ہے اگر آپ ہماری مغفرت نہیں فرمائیں گے اور ہم پر رحم نہیں کریں گے تو ہم بہت خسارے میں چلے جائیں گے۔
رمضان المبارک میں ایک اہم عمل
ایک خاص عمل جس کا ہر مسلمان کو اس ماہِ مقد س میں اہتمام کرنا چاہئے یہ ہے کہ سحری میںکچھ دیر پہلے اُٹھ جائیں ،اور اللہ کی بارگاہ میں نفل پڑھ کر اس وقت اللہ تعالیٰ سے مانگیں،کیونکہ اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک منادِی یہ آواز لگاتاہے:
{ ألا ہَلْ مِنْ مُّسْتَغْفِرٍ فَأَغْفِرَ لَہَا }
ہے کوئی مغفرت چاہنے والا! میں اس کی مغفرت کروں؟
اور یہ آواز بھی لگاتاہے:
{ یَا بَاغِیَ الخَیْرِ أَقْبِلْ، وَیَا بَاغِیَ الشَّرِّ أَقْصِرْ }
اے خیر کے طلب گار! آگے آ، اے برائی کے طلب گا ر! پیچھے ہٹ۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس منادِی کی آواز پرلبیک کہتے ہوئے ہر شخص اس وقت میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میںتوبہ و استغفار کرے ،اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے، کیونکہ جب بندہ سچے دل سے اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے معافی کا وعدہ ہے ۔
توبہ و استغفار سے مصائب دور ہوتے ہیں
بہت سی قومیں ایسی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے توبہ و استغفار کرنے کی وجہ سے ان سے عذاب ٹلا دیا،سورۂ یونس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کا ذکر فرمایا ،عذاب ان کے قریب آچکا تھااور انہوں نے اپنی آنکھوں سے عذاب دیکھ لیا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے توفیق ہوئی اور ساری قوم اپنے گھروںسے باہر نکل آئی اور اللہ تعالیٰ سے رو کر اور گڑگڑا کر توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان سے عذاب کو ہٹا دیا۔
اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کرنا عذاب کو دور کر دیتا ہے،میری آپ حضرات سے درخواست ہے کہ خدارا! اس رمضان میں اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کریں اور جتنا ہوسکے ہر شخص اپنے گریبان میں جھانکے اور اپنے حالات کا جائزہ لے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں سے،بدعنوانیوں سے اورکرپشن سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرے،اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
{ بَقِیَّتُ اللّٰہِ خَیْرٌ لَکُمْ } (ہود: ۸۶)
حلال طریقہ سے جو کچھ بچا ہوا مل جائے وہ تمہارے لئے اس مال سے بہتر ہے جو تم نے حرام کے ذریعہ حاصل کیا ہو۔
کیونکہ حرام طریقہ سے کمایا ہوا مال درحقیقت جہنم کے انگارے ہیں،ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{ إنَّمَا یَأکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِہِمْ نَاراً } (النسائ: ۱۰)
وہ اپنے پیٹ میںآگ بھر رہے ہیں۔
درحقیقت حرام کی کمائی کرنے والا جہنم کی آگ اپنے پیٹ میں بھر رہا ہے،اس کو ابھی اس کی خبر نہیںہے،لیکن جس دن آنکھ بند ہوگی(نہ جانے کب بند ہوجائے) اور جس دن زمین کے نیچے پہنچے گا(نہ جانے کب پہنچ جائے)تو اس وقت پتہ چلے گا کہ ہم جو کچھ کھارہے تھے اور جو دولت کے اَنبار لگا رہے تھے یہ درحقیقت جہنم کے انگارے تھے جو عذابِ جہنم کی صورت میں سامنے آگئے ہیں،اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے ہم سب کی اس سے حفاظت فرمائیں۔
رمضان میں اپنا جائزہ لیں
بہرحال گزارش یہی ہے کہ ابھی بھی وقت ہے،نہ جانے یہ مبارک مہینہ آئندہ سال کس کو نصیب ہو اور کس کو نصیب نہ ہو ،اس مہینہ کو اللہ تعالیٰ کی نعمت سمجھیں اور اس کے لمحے لمحے سے فائدہ اُٹھائیں،اور سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کریں،اوراس بات کا جائزہ لیں کہ اس مہینہ میں ہمارے اندر تقوٰی اور اللہ تعالیٰ سے جواب دہی کا احساس پیدا ہورہا ہے یا نہیں؟اگر پہلے سے یہ احساس تھا تو اس میں ترقی ہوئی ہے یا نہیں؟کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ مقدس مہینہ اس لئے ہمیںعطا فرمایا تھا کہ ہمارے اندر تقوٰی پیدا ہو ۔
اگر یہ جائزہ لینے کے بعد آپ کو محسوس ہو کہ تقوٰی اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جواب دہی کا احساس پیدا ہوا ہے ،اور اللہ تعالیٰ کی خشیت دل میں پیدا ہو ئی ہے تو یہ مہینہ آپ کیلئے مبارک ہے ۔
لیکن خدا نہ کرے کہ رمضان المبارک کا مہینہ بھی ہمیں نصیب ہوا اور ہم نے نہ تو حرام خوری چھوڑی اور نہ ہی ہمارے دل میں اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہی کا احساس پیدا ہوا،تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس مہینہ میں ہم اپنی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکے،جیسے اس مہینہ سے پہلے گناہوں کی نجاستوں میں لَت پَت تھے اسی طرح اب بھی ہیں،اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ فرمائیں۔
خلاصہ یہ کہ اس مبارک مہینے میں نماز کے ذریعہ،راتوں کی عبادت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں اور توبہ و استغفار کا اہتمام کریں،اور اپنا جائزہ لیکر اپنے آپ کو بہتر بنانے کی کوشش کریں،اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائیں۔آمین
و آخر دعوانا ان الحمد للّٰہ ربّ العٰلمین