بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں مفتیان ِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ:
کشمیر اور اس کے باشندوں پربھارت کے مظالم کے مختلف پہلو دنیا کے سامنے ہیں۔ کشمیری عوام کو عالمی برادری سے مکمل طور پر لاک ڈاؤن کے ذریعہ منقطع کردینا؛ پوری دنیا میں اس کی مسلّمہ حیثیت کو مسخ کرنے کے جنون نے ظالموں کو آئین تک ناحق تبدیل کرنے پر آمادہ کیا، جو مہذّب قوموں کی اقدار کی نہایت مکروہ پامالی ہے۔ اب اس سلسلے کی اگلی کڑی یہ ہے کہ بھارت کے ہندوؤں کو کشمیر میں زمین خریدنے کا قانون پاس کیا گیا؛ گویا فلسطین کی تاریخ دہرائی جارہی ہے، اس طرح کا حق جب یہودیوں کو دیا گیا، تو انہوں نے اسے فلسطین پر اپنا غاصبانہ قبضہ جمانے میں ایک اہم حربے کے طور پر استعمال کیا۔اب سوال یہ ہے کہ ایسے میں کیا کسی کشمیری مسلمان کیلئے یہ شرعاً جائز ہے کہ بھارت کے ہندوکو اپنی زمین فروخت کرے؟ بینوا توجروا۔

عبد اللہ

بسم اللہ الرحمن الرحيم

الجواب  حامداً ومصلّياً

كشمير شروع سےايك مسلمان رياست ہےجو كسى بھى حيثيت سے بھارت كا حصہ نہيں ہے۔ اقوام متحدہ كى قرارداديں اور خود بھارتى آئين كى دفعات 370 اور 35 اے اس بات كو تسليم كرتى ہيں ۔ اب بھارت نے مقبوضہ كشمير ميں مسلمانوں پر ظلم وجبر كركے انہيں بدترين كرفيو اور لاك ڈاون كا نشانہ بنايا، اور بھارت كے آئين ميں تبديلى كركے اُسے بھارت كا حصہ بنانے كى كوشش كى ہے، اور اب يہ كوششيں ہورہى ہيں كہ كشمير ميں بھارتى ہندووں كو اُسى طرح لاكر آباد كيا جائے جس طرح  صيہونى يہوديوں نے فلسطين كى زمينوں پر قبضہ كر كے مسلمانوں كو وہاں سے جلا وطن كيا، اور اسرائيل كى ناجائز رياست قائم كرلى۔

ان حالات ميں كشمير كے مسلمانوں كے لئے سخت ناجائز ہے كہ وہ اپنى زمينيں كسى ہندو كو فروخت كريں ۔ ايسا كرنا نہ صرف كشمير كے مسلمانوں كے ساتھ بلكہ پور ے عالمِ اسلام كے ساتھ سنگين غدارى كے مرادف ہوگا ۔ قرآن وسنت كے احكام اور ان پر مبنى فقہاء كرام كى عبارتيں اس بارے ميں بالكل واضح ہيں كہ كفار كے ہاتھوں كوئى بھى ايسى چيز بيچنا جسے وہ مسلمانوں كے  مفاد كےخلاف استعمال كرسكتے ہوں ، سراسر ناجائز اور بدترين گناہ ہے ۔سب سے پہلے قرآن كريم كى يہ آيات ملاحظہ فرمائيں:

{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُمْ مِنَ الْحَقِّ يُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِيَّاكُمْ أَنْ تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ رَبِّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِي سَبِيلِي وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِي تُسِرُّونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَأَنَا أَعْلَمُ بِمَا أَخْفَيْتُمْ وَمَا أَعْلَنْتُمْ وَمَنْ يَفْعَلْهُ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ (1) إِنْ يَثْقَفُوكُمْ يَكُونُوا لَكُمْ أَعْدَاءً وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ وَوَدُّوا لَوْ تَكْفُرُونَ (2) لَنْ تَنْفَعَكُمْ أَرْحَامُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَفْصِلُ بَيْنَكُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (3) قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّى تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ إِلَّا قَوْلَ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَا أَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ رَبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْكَ أَنَبْنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ (4) رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِلَّذِينَ كَفَرُوا وَاغْفِرْ لَنَا رَبَّنَا إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (5) } [الممتحنة: 1 – 5]

اے ایمان والو ! اگر تم میرے راستے میں جہاد کرنے کی خاطر اور میری خوشنودی حاصل کرنے کے لیے (گھروں سے) نکلے ہو تو میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو ایسا دوست مت بناؤ کہ ان کو محبت کے پیغام بھیجنے لگو، حالانکہ تمہارے پاس جو حق آیا ہے، انہوں نے اس کو اتنا جھٹلایا ہے کہ وہ رسول کو بھی اور تمہیں بھی صرف اس وجہ سے (مکے سے) باہر نکالتے رہے ہیں کہ تم اپنے پروردگار اللہ پر ایمان لائے ہو۔ تم ان سے خفیہ طور پر دوستی کی بات کرتے ہو، حالانکہ جو کچھ تم خفیہ طور پر کرتے ہو، اور جو کچھ علانیہ کرتے ہو، میں اس سب کو پوری طرح جانتا ہے۔ اور تم میں سے کوئی بھی ایسا کرے، وہ راہ راست سے بھٹک گیا۔اگر تم ان کے ہاتھ آجاؤ تو وہ تمہارے دشمن بن جائیں گے اور اپنے ہاتھ اور زبانیں پھیلا پھیلا کر تمہارے ساتھ برائی کریں گے، اور ان کی خواہش یہ ہے کہ تم کافر بن جاؤ۔قیامت کے دن نہ تمہاری رشتہ داریاں ہرگز تمہارے کام آئیں گی، اور نہ تمہاری اولاد۔ اللہ ہی تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا، اور تم جو کچھ کرتے ہو، اللہ اسے پوری طرح دیکھتا ہے۔تمہارے لیے ابراہیم اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے، جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ : ہمارا تم سے اور اللہ کے سوا تم جن جن کی عبادت کرتے ہو، ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم تمہارے (عقائد کے) منکر ہیں، اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے دشمنی اور بغض پیدا ہوگیا ہے جب تک تم صرف ایک اللہ پر ایمان نہ لاؤ۔ البتہ ابراہیم نے اپنے باپ سے یہ ضرور کہا تھا کہ : میں آپ کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا ضرور مانگوں گا، اگرچہ اللہ کے سامنے میں آپ کو کوئی فائدہ پہنچانے کا کوئی اختیار نہیں رکھتا۔اے ہمارے پروردگار آپ ہی پر ہم نے بھروسہ کیا ہے، اور آپ ہی کی طرف ہم رجوع ہوئے ہیں، اور آپ ہی کی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے۔اے ہمارے پروردگار ! ہمیں کافروں کا تختہ مشق نہ بنائیے اور ہمارے پروردگار ! ہماری مغفرت فرما دیجیے۔ یقینا آپ، اور صرف آپ کی ذات وہ ہے جس کا اقتدار بھی کامل ہے، جس کی حکمت بھی کامل۔

پھر اسى سورت ميں آگے ارشاد ہے:

{لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (8) إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (9)} [الممتحنة: 8، 9]

اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں کرتا کہ جن لوگوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی، اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا، ان کے ساتھ تم کوئی نیکی کا یا انصاف کا معاملہ کرو، یقینا اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے.اللہ تو تمہیں اس بات سے منع کرتا ہے کہ جن لوگوں نے تمہارے ساتھ دین کے معاملے میں جنگ کی ہے، اور تمہیں اپنے گھروں سے نکالا ہے، اور تمہیں نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے، تم ان سے دوستی رکھو۔ اور جو لوگ ان سے دوستی رکھیں گے، وہ ظالم ہیں۔

ان آيات كريمہ ميں اس بات پر سخت وعيد بيان فرمائى گئى ہے كہ كوئى شخص مسلمانوں كے مفاد كے خلاف  كسى برسرِ جنگ غير مسلم سے دوستى كا كوئى ايسا معاملہ كرے جس نے مسلمانوں پر ظلم روا ركھا ہو۔اور جو كوئى اس حكم كى خلاف ورزى كرے ، اسكو اللہ تعالىٰ نے ظالم قرار ديا ہے۔ظاہر ہے كہ موجودہ حالات كے پس منظر ميں بھارت كے ہندووں كو اپنى زمين بيچنا انكى اس ظالمانہ  منصوبہ بندى ميں تعاون كرنا ہے جس كے تحت وہ كشمير ميں مسلمانوں كى اكثريت كو اقليت ميں تبديل كرنے كى كوشش كررہے ہيں۔ قرآن كريم كا دوٹوك حكم ہے كہ :

} وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ.{ [المائدة: 2]

اور نیکی اور تقوی میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو، اور گناہ اور ظلم میں تعاون نہ کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بیشک اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے۔

نيز ارشاد ہے:

}الَّذِينَ يَتَّخِذُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا{  (سورة النّساء:139)

وہ منافق جو مسلمانوں کے بجائے کافروں کو دوست بناتے ہیں، کیا وہ ان کے پاس عزت تلاش کر رہے ہیں ؟ حالانکہ عزت تو ساری کی ساری اللہ ہی کی ہے۔

}يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَتُرِيدُونَ أَنْ تَجْعَلُوا لِلَّهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا مُبِينًا{ (144)

اے ایمان والو ! مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست مت بناؤ، کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ کے پاس اپنے خلاف (یعنی اپنے مستحق عذاب ہونے کی) ایک کھلی کھلی وجہ پیدا کردو ؟

}يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَكُمْ هُزُوًا وَلَعِبًا مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَالْكُفَّارَ أَوْلِيَاءَ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ } [المائدة: 57]

اے ایمان والو ! جن لوگوں کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی ان میں سے ایسے لوگوں کو جنہوں نے تمہارے دین کو مذاق اور کھیل بنا رکھا ہے اور کافروں کو یارومددگار نہ بناؤ، اور اگر تم واقعی صاحب ایمان ہو تو اللہ سے ڈرتے رہو۔

اگر كوئى كافر مسلمانوں كو ايسا ہديہ تحفہ دے جس سے مسلمانوں كا اجتماعى مفاد مجروح ہوتا ہو، تو ايسا ہديہ لينا بھى جائز نہيں ہے، چنانچہ ايك مرتبہ ايك مشرك نے آپ كو ايك اونٹنى تحفے ميں دينى چاہى ، تو آپ نے يہ فرماكر اسكے تحفے كو واپس كرديا كہ :

"فإنّي نُهِيتُ عن زَبَدِ المشركين»
أخرجه أبو داود والترمذي عن عن عياض بن حمار  رضي الله عنه (جامع الأصول ج 11 ص 610 حديث 9225)

يعنى مجھے مشركين سے تحفہ لينے سے منع كيا گيا ہے۔

جب مسلمانوں كے  مفاد كےخلاف مشركين سے بلا معاوضہ ہديہ تحفہ لينے كو منع كيا گيا ہے ، تو انكو اپنى جائيداد بيچ كر نفع لينا جبكہ وہ مسلمانوں كے خلاف سازش كے لئے خريد رہے ہوں، كيسے جائز ہوسكتا ہے۔ اس وقت صورتِ حال يہى ہے كہ انكا كشمير كى زمين خريدنا كسى ضرورت كى وجہ سے نہيں، بلكہ ايك گہرى سازش كى وجہ سے ہے تاكہ مسلمانوں كى اكثريت كو ختم كيا جائے۔ ايسے ميں انہيں زمين بيچنا بالكل حرام اور مسلمانوں كے ساتھ غدارى كے مرادف ہے۔

اسلامى شريعت كا حكم يہ ہے كہ جو غير مسلم اسلامى رياست ميں قانونى طريقے سے رہتے ہوں، انكو تمام شہرى حقوق حاصل ہوتے ہيں ، انكى جان ومال كا تحفظ اسلامى رياست كى ذمہ دارى ہے ، چنانچہ انكو حق ہے كہ وہ مسلمانوں كے محلے ميں زمين خريد كروہاں رہ سكتے ہيں۔ ليكن اگر كسى ايك علاقے ميں انكا ايسا اجتماع ہو جائے جس سے خطرہ ہو كہ وہ اسلامى رياست كے خلاف كوئى سازش كرسكتے ہيں ، تو فقہاء كرام نے فرمايا ہے كہ انہيں اسكى اجازت نہيں دى جائيگى ۔چنانچہ شمس الائمہ حلوانى رحمۃ اللہ تعالى عليہ نے پہلے تو يہ فرمايا كہ غير مسلم شہريوں كو مسلمانوں كے علاقے ميں گھر خريد نے اور وہاں رہنے كى اجازت ہے۔ اسكے بعد فرمايا :

"هذا إذا قلّوا وكان بحيثُ لا يتعطّل بعضُ جماعات المسلمين، ولا يتقلّل الجماعةُ بسكناهم بهذه الصّفة. فأمّا إذا كثُروا على وجهٍ يؤدّى إلى تعطيل بعض الجماعات أو تقليلها، مُنِعوا من ذلك، وأُمروا بأن يسكنوا ناحيةً ليس فيها للمسلمين جماعة. وهذا محفوظٌ عن أبى يوسف رحمه الله تعالى.” (شرح السّير الكبير للسّرخسيّ 4:265)

يعنى "يہ حكم اس وقت ہے جب غير مسلموں كى تعداد اتنى كم ہو كہ اس سے مسلمانوں كى بعض جماعتيں معطل يا كم  نہ ہوسكيں ۔ ليكن اگر انكى تعداد اتنى زيادہ ہوجائے كہ اس سے مسلمانوں كى كچھ جماعتوں كا معطل ہونا يا مسلمانوں كا كم رہ جانا لازم آتا ہو، تو انہيں اس بات سے روكا جائيگا، اور ايسى جگہ رہائش اختيار كرنے كو كہا جائيگا جہاں مسلمانوں كى كوئى جماعت نہ ہو۔اور يہ حكم امام ابويوسف رحمۃ اللہ تعالى عليہ سے قابل اعتماد طريقے سے منقول ہے ۔”

يہ ان غير مسلموں كى بات ہے جو ذمى كى حيثيت سے  اسلامى رياست ميں رہ رہے ہوں۔ جب ذميوں كے لئے يہ حكم ہے، تو وہ كفار جو دارالكفر ميں رہتے ہوں ، اور مسلمانوں كے خلاف ايك سازش  كے طور پر كشمير ميں آباد ہونا چاہتے ہوں ، تو ايك مسلمان كے لئے كيسے جائز ہوسكتا ہے كہ وہ انہيں اپنى زمين بيچے، چاہے وہ اسكى كتنى بھارى قيمت دينے كو تيار ہوں۔ايسا كرنا  سخت گناہ تو ہے ہى ، پرلے درجے كى بے غيرتى بھى ہے ۔

جب يہودى لوگ فلسطين ميں مسلمانوں سے زمينيں خريد رہے تھے ، اس وقت بھى عالم اسلام كے بڑے علماء نے يہ فتوىٰ ديا تھا كہ انہيں زمين بيچنا ناجائز ہے۔ چنانچہ حكيم الامت حضرت مولانا اشرف على صاحب تھانوى رحمۃ اللہ تعالى عليہ كا ايك مفصل فتوى ٰ اس بارے ميں موجود ہے جو امدادالفتاوىٰ ميں چھپا ہوا ہے ۔اسكے آخر ميں وہ ذميوں كا مذكورہ بالا حكم نقل كركے فرماتے ہيں:

"وإذاكان هذا حُكمَ الذّمّيين وهُم مقهورون تحتَ حُكمِ الإسلام فكيف حُكمُ غيرِ الذّمّيّين الّذين لَئسوا فى شيئٍ منَ الاستسلام.” (امداد الفتاوی 3:60)

"جب ذميوں كا يہ حكم ہے جو اسلامى قانون كے زير نگيں  ہوتے ہيں، تو جو غير مسلم ذمى نہيں ہيں (يعنى غير مسلم ملك كے باشندے ہيں) انكا حكم كيا ہوگا  جبكہ انہوں نے اسلام كا كوئى قانون تسليم نہيں كيا۔”

بہر حال ! بھارتى حكومت رياست كشمير كى وہ حيثيت ختم كرنے كے درپے ہے جو وہاں كے مسلمان باشندوں كا پيدائشى حق ہے ، اور نہ صرف عالمى طورپر مسلم ہے ، بلكہ بھارت كا اصل دستور بھى اسكى گواہى ديتا ہے ۔اسى غرض سے اس نے بھارتى ہندووں كو وہاں بسانے كا قانون پاس كيا ہے ۔مسلمانوں كا فرض ہے كہ وہ اس ناپاك اقدام كو ہر طرح روكيں، اور كوئى مسلمان كسى باہر كے ہندو كو اپنى جائيداد بيچنے كا سخت گناہ اپنے سر نہ لے۔

اس موقع پرپاكستان سميت  تمام مسلمان ملكوں كا فرض ہے كہ وہ كشمير كے مظلوم ومقہور مسلمانوں كى ہر طرح مدد كريں، اور بھارت كے نا پاك عزائم كو كامياب نہ ہونے ديں۔ ايسا نہ ہو كہ اسرائيل كے قيام كى مكروہ تاريخ خدا نخواستہ اس علاقے  ميں بھى دہرائى جائے۔واللہ سبحانہ اعلم