خطاب: حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم
ضبط وترتیب: مولانا راشد حسین صاحب ،فاضل جامعہ دارالعلوم

طالبانِ افغانستان کی فتح اورامارت اسلامیہ کا قیام

۱۱ ؍محرم الحرام ۱۴۴۳ھ مطابق ۲۰؍ اگست۲۰۲۱ء جمعہ کے روز، نائب رئیس الجامعہ حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے جامع مسجد دارالعلوم کراچی میں خطبۂ جمعہ کے دوران طالبان کی فتحِ مبین سے متعلق بصیرت افروز خطاب فرمایا۔اس میںحضرت والا مدظلہم نے مسلمانان افغانستان کی تاریخ، ان کے ہاتھوں بڑی بڑی عسکری طاقتوں کی شکست اور طالبان کے دانشمندانہ طرزِ عمل پر گفتگو فرمائی۔ ۲؍صفر المظفر ۱۴۴۳ھ مطابق ۱۰؍ ستمبر ۲۰۲۱ء کے خطبہ جمعہ میں بھی حضرت والا دامت برکاتہم نے طالبان کی فتح سے متعلق گفتگو فرمائی۔حضرت دامت برکاتہم کے یہ فرمودات نذرِ قارئین ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ادارہ)

بسم اللہ الرحمن الرحیم
حمدوستائش اس ذات کے لئے ہے جس نے اس کارخانۂ عالم کو وجود بخشا
اور
درود و سلام اس کے آخری پیغمبرپر جنہوں نے دنیا میں حق کا بول بالا کیا

حاصل شدہ نعمتیں اور اجتماعی انحطاط
یوں تو ہر انسان پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی بے شمار نعمتیں ہر لمحہ بارش کی طرح برس رہی ہیں اور اگر انسان ان سب نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہے تو اس کے لئے شکر ادا کرنا ممکن نہیں، بلکہ شکر ادا کرنا تو درکنار ان نعمتوں کو صرف گننا بھی انسان کے بس میں نہیں ہے۔ قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَإِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْہَا (ابراہیم :۲۴ )
اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنے لگو، تو شمار بھی نہیں کر سکتے۔

حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ اپنی مشہور کتاب گلستان کے شروع میں فرماتے ہیں کہ انسانی زندگی کا دارو مدار سانس کے چلنے پر ہے، سانس ایک مرتبہ اندر جاتا ہے اور ایک مرتبہ باہر آتا ہے۔اگر سانس اندر جائے اور باہر نہ آئے تو موت اوراگر باہر آجائے اور اندر نہ جائے تو بھی موت، سانس کا اندر جانا بھی نعمت اور پھر اس کا باہر آنا بھی نعمت، لہٰذا ہر سانس میں اللہ تعالی کی دو نعمتیں شامل ہیں،اور اس پر دو شکر واجب ہوئے۔ اگر ہم صرف ایک سانس کی نعمت پر بھی شکر ادا کرنا چاہیں تو اس کا شکر ادا نہیں کر سکتے، اس لئے کہ ہر سانس پر دو شکر بنتے ہیں، اور ابھی شکر ادا نہیں کر پائے ہوں گے کہ اتنے میں دوسرا سانس آ جائے گا اور پھر دو نعمتیں اور دو شکر جمع ہوجائیں گے،اس طرح انسان صرف ایک سانس کی نعمت کا بھی شکر ادا نہیں کر سکتا، چہ جائیکہ دیگر نعمتوں کا شکر ادا کرے ۔یہ سانس کی نعمت ایک ایسی نعمت ہے کہ ہر وقت ہر انسان کو میسر ہے۔ چاہے امیر ہو یا غریب، دولت مند ہو یا مفلس، بیمار ہو یا صحت مند، حاکم ہو یا محکوم، یہ نعمت ہر انسان کو ملی ہوئی ہے اور کوئی انسان اپنی زندگی میں اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ آنکھ کی نعمت، کان کی نعمت، زبان کی نعمت، یہ ساری کی ساری نعمتیں اللہ تبارک و تعالی نے ہر لمحہ بندے کو عطا فرمائی ہوئی ہیں اور انسان ان نعمتوں کی بارش میں ہی جی رہا ہے۔
انفرادی سطح پر اگر دیکھا جائے تو الحمدللہ ہم بحیثیت مسلمان بیشمار نعمتوں میں جی رہے ہیں،اللہ تعالی نے زندگی عطا فرمائی ہے، اللہ نے کھانے کو دیا ہے، پہننے کو دیا ہے، رہنے کے لئے جگہ عطا فرمائی ہے۔دنیا بھر میں مسلمان موجود ہیں اور مسلمانوں کی اتنی تعداد کبھی بھی نہیں تھی جتنی آج ہے اور مسلمانوں کے پاس اتنے وسائل کبھی بھی نہیں تھے جتنے آج ہیں۔اس لحاظ سے الحمد للہ انفرادی طور پر ہرمسلمان کو بے شمار نعمتیں میسر ہیں، لیکن اگر عالمی سطح پر یا اجتماعی طور پر دیکھا جائے تو مسلمان اپنی بد اعمالیوں،کمزوریوں اور اللہ تعالی کے حکموں کی نافرمانیوں کی وجہ سے مسلسل پستی کی طرف جا رہے ہیں اور اس پستی کے عالم میں عرصۂ دراز گزرجاتا ہے کہ ہمیں کوئی خوشی کی خبر نہیں ملتی۔ جب بھی کوئی خبر ملتی ہے تو مسلمانوں کے مزید انحطاط اور زوال کی ملتی ہے۔ کشمیر کو دیکھ لیں، فلسطین کو دیکھ لیں،شام اور لیبیا کو دیکھ لیں۔ جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں تو وہاں کوئی نہ کوئی خبر ان کے بارے میں ایسی آتی رہتی ہے کہ جس سے دل مزید غمگین ہوجاتا ہے اور طبیعت اداس ہو جاتی ہے۔
اس مجموعی ماحول میں خوشی کی خبر
سارے عالم اسلام پر نگاہ ڈال کے دیکھئے ، ہر جگہ سے مسلمانوں کی مظلومیت کا ، مقہوریت کا اور ان کے زوال کا ایک عجیب منظر نظر آتا ہے لیکن دل گرفتگی کے اس مجموعی ماحول میں اللہ تبارک و تعالی نے ابھی کچھ روز پہلے سارے مسلمانوں کوایک ایسی عظیم خوشخبری عطا فرمائی ہے کہ جس کے تصور سے ہی الحمدللہ ہر مسلمان کی روح مسرور ہے، اور وہ یہ کہ اللہ تبارک وتعالی نے افغانستان میں مجاہدین کو فتحِ مبین عطا فرمائی اور بیس سال سے ان کے خلاف نبردآزما عالمی سپر طاقت امریکہ اور اس کے اتحادی ستائیس اٹھائیس ممالک کی فوجوں کو ذلیل اور رسوا کردیا۔ اللہ تبارک وتعالی نے ایمان والوں کو ان کے خلاف نصرت عطا فرمائی اور ایسی نصرت عطا فرمائی کہ جس نے ان کے تمام اندازوں کوفیل کرد یا۔تمام خفیہ ایجنسیاں، تمام سراغ رساں ادارے اور امریکہ کی وہ سپر پاور جس کے بارے میں کہا جاتاہے کہ اس کے پاس لمحے لمحے کی خبر موجود ہوتی ہے، اس کے سارے اندازے، سارے منصوبے اور سارے ارادے الحمدللہ طالبان کی اس فتح کے نتیجے میں ناکام ہو گئے اور وہ لوگ ناصرف نا کام ہوئے بلکہ ذلیل و رسوا بھی ہوئے۔ اللہ تعالی نے طالبان کے ہاتھوں دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کو ر سوا و ذلیل کیا اور انہیں فتحِ مبین عطا فرمائی۔
لیکن یہ سب کچھ ایسے ہی نہیں ہوا کہ وہ ہاتھوں پہ ہاتھ رکھے مغربی طاقتوں سے مرعوب ہو کر یا ڈر کر بیٹھے ہوں اور اچانک اللہ تبارک وتعالی نے ان کو لا کر کابل میں بٹھا دیا ہو، بلکہ اس کے پیچھے بیس سال کی طویل جدو جہد اور لازوال قربانیاں ہیں۔ بیس سال تک انہوں نے جس عزم وثبات اور جس ولولے اور ایمانی جذبے کے ساتھ دنیا کی ان سپر طاقتوں کا مقابلہ کیا وہ ایک روشن مثال ہے۔اُن کے پاس ساز و سامان تھے، لاؤ لشکر تھے، دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی تھی اور اِن کے پا س ان کے مقابلے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔ نہ مالی وسائل، نہ فضائی طاقت اور نہ ہی کوئی ائیر فورس۔اِن پر بمباریاں کی جا رہی تھیں،لیکن جواب میں بمباری کرنے کے لئے اِن کے پا س وسائل نہیں تھے، ان کے پاس صرف ایمانی طاقت تھی، جس نے ناممکن کو ممکن کردکھایا۔ ؎

کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

بیس سال تک انہوں نے جس عزم و ثبات کے ساتھ ان عالمی طاقتوں کا مقابلہ کیا اور جس طرح وہ ان تمام باطل قوتوں کے آگے ڈٹے رہے یہ لائقِ صد تحسین ہے، چنانچہ اللہ تعالی نے انہیں اس کا یہ صلہ عطافرمایا کہ انہیں کامیابی سے ہمکنار کیا اور آج ساری دنیا انگشت بدنداں ہے کہ وہ کس طرح کامیاب ہوگئے!
وحدت کی بنیاد قومیت نہیں ، ایمانی اخوت ہے
جیسا کہ میں نے کہا کہ طالبان نے یہ عظیم کارنامہ وحدت اسلامی اور اخوتِ اسلامی کی بنیاد پر انجام دیا۔وہ سب ’’لا لہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ کے کلمے پر متحد ہوئے، ان میں پشتو بولنے والے بھی تھے، فارسی بولنے والے بھی تھے اور ازبک بھی تھے۔ ان میں مختلف اقوام تھیں، لیکن انہوں نے کسی قومیت کو اپنی اخوت و وحدت کا معیار نہیں بنایا بلکہ انہوں نے اسلام کو معیار قرار دیا اور کہا کہ جو بھی مسلمان ہے وہ ہمارا بھائی ہے۔اسلام ہی کی بنیاد پر وہ بیس سال تک برسرِ پیکار رہے، پھر اللہ تعالیٰ نے دکھا دیا کہ :

اِنْ تَنْصُرُوْا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ (محمد:۷)
اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جما دے گا۔

اسلامی نقطۂ نظر سے دین ہی اخوت کی اصل بنیاد ہے۔اس کے برخلاف دنیا کے مختلف ممالک اور مختلف قوموں کے درمیان آجکل جو معروف نظریہ ہے وہ یہ ہے کہ سیاسی اتحاد یا وحدت قوم کی بنیاد ہونی چاہیے۔اس وقت دنیا کا فیشن ایبل نظریہ یہی ہے کہ جو شخص میری زبان بولتا ہے یا میری نسل سے ہے، میرے خاندان سے ہے وہ تو میرا ہے اور جو کوئی دوسری زبان بولتا ہے یا دوسرے معاشرے میں رہتا ہے یا دوسری نسل سے اس کا تعلق ہے وہ میرے لئے اجنبی ہے، لیکن قرآنِ کریم نے یہ بتلایا کہ وحدت کی بنیاد قوم اور نسل نہیں بلکہ ایمان ہے۔

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَۃٌ(الحجرات:۱۰)
حقیقت تو یہ ہے کہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں۔

مسلمانوں کے درمیان اگر وحدت قائم ہو سکتی ہے تو وہ دین کی بنیاد پر ہی ہو سکتی ہے،قرآنِ کریم میں ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں دو ہی قسم کے لوگ پیدا کئے ہیں،ایک مومن ہے ایک کافر ہے۔(سورۃ التغابن)اور اسی نظرئیے کی بنیاد پر طالبان نے آزادی کی جدوجہد کی اور کامیاب ٹھہرے۔
افغانوں کی روشن اور قابلِ فخر تاریخ
اگر افغانوں کی تاریخ دیکھی جائے تو اللہ تبارک و تعالی نے انہیں یہ اعزاز عطا فرمایا ہے کہ وہ کبھی کسی دشمن سے دبے نہیں اور دوسروں کو بھی ظلم و ستم سے نجات دلانے میں پیش پیش رہے ہیں۔میں اگر پیچھے تاریخ میں جاؤں تو برصغیر میں مسلمانوں کی حکومت جو کہ تقریباً چھ سوسال قائم رہی، اگر دیکھا جائے تووہ بھی افغانوں ہی کی بدولت تھی۔ ہندو کی ذہنیت یہ رہی ہے کہ وہ کبھی مسلمان کو برداشت نہیں کرتا، ہماری پوری تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ہندوؤں نے ہمیشہ مسلمانوں پر ظلم و ستم کئے، ہمیشہ مسلمانوں کو تہِ تیغ کیا اور ان کا خون بہایا،لیکن جب کبھی بھی ہندووں نے یہ حرکت کی تو مسلمانوں کو ہندوؤں کے ظلم و ستم سے نجات دلانے کے لئے افغانستان کے لوگ مد د کیلئے آئے۔حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں مرہٹوں کا سکہ چلا ہوا تھا اور مرہٹوں کی طرف سے مسلمانوں کے اوپر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے تو حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے افغانستان کے حاکم،احمد شاہ ابدالی کو خط لکھا اور احمد شاہ ابدالی نے افغانستان سے آکر پانی پت کی جنگ میں مرہٹوں کو ایسی عبرتناک شکست دی کہ جس کے بعد مدت تک وہ سر نہیں اٹھا سکے۔
اس سے پہلے سلطان محمود غزنوی رحمۃ اللہ علیہ نے جب دیکھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں پر ظلم و ستم ہو رہا ہے تو اس نے مسلمانوں کو ظلم و ستم سے بچانے کے لئے غزنی سے سفر کر کے ہندوستان پر حملے کئے اور سومنات کا مندر توڑا۔ اسی طرح علاؤالدین خلجی رحمۃ اللہ علیہ بھی افغانستان کے تھے، انہوں نے وہاں سے آ کر ہندوستان کے اندر اسلامی حکومت قائم کی۔اس طرح پورے ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت کا جو طویل دور ہے، وہ بھی درحقیقت افغانوں کی بہادری اور ان کے جذبہ ٔ ایمانی کا مرہونِ منت ہے۔
سترہویں صدی ہجری میں جب انگریز ہندوستان آیا تو اس نے پورے ہندوستان میں مسلمانوں کو تہ تیغ کیا اور مسلمانوں کے ہاتھ سے حکومت چھینی، لیکن جب وہ افغانستان کی طرف بڑھا اور افغانستان کو بھی فتح کرنے کی کوشش کی تو برطانیہ کی وہ عظیم طاقت جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس کی حکومت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا، اس کے سامنے ڈٹنے والے اور ان کا مقابلہ کرنے والے یہی افغان تھے اور برطانیہ اپنی ساری چالوں،اپنے سارے لاؤ لشکر اور اپنے سارے وسائل کے باوجود اگر ناکام ہوا تو وہ افغانستان میں ہوا اور اس کے نتیجے میں اس وقت برطانیہ کی سمجھ میں آ گیا تھا کہ جب تک افغانستان کے اندرملّا موجود ہے،ہم کبھی بھی افغانستان پر فتح یاب نہیں ہو سکتے۔ علامہ اقبالؒ

نے اسی کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا:
افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج
ملّا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمد اس کے بدن سے نکال دو

اس طرح اللہ تعالیٰ نے افغانوں کے ہاتھوں برطانیہ کا پلان ناکام بنایا،اس کے بعد موجودہ دور میں دو سپر طاقتیں جودنیا کے اوپر حکمرانی کر رہی تھیں؛ ایک روس اور ایک امریکہ،روس آیا تو اس نے چاہا کہ میں کسی طرح افغانستان پر قبضہ کرلوں، اور اس کا اصل مقصود افغانستان پر قبضہ کرنا نہیں تھا بلکہ اس طرح درحقیقت وہ پاکستان پرقبضہ کر کے گرم پانی تک پہنچناچاہتا تھا، لیکن اللہ تعالی نے سوویت یونین کی اس عظیم اور اپنے وقت کی سپر طاقت کاافغانستان کے مجاہدین کے ذریعے ہی قلع قمع کروایا اور اس طرح قلع قمع کروایا کہ وہ شکست کھا کے بھاگ گئے۔ بھاگنے کے بعد اس پوری سوویت یونین کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے اور آج سوویت یونین کو کوئی نہیں جانتا۔ اس کے بعد جن ریاستوں پر سوویت یونین نے قبضہ جمایا ہوا تھا وہ بھی رفتہ رفتہ آزاد ہوتی چلی گئیں ۔اس طرح وہ سپر طاقت ٹوٹ گئی اور اس کی طاقت زمین میں دفن ہو گئی، یہ بھی اللہ تعالی نے افغان مجاہدین کے جذبۂ ایمانی کے ذریعے کروایا۔
روس کے بعد اب دوسری واحد سپر طاقت امریکہ رہ گئی تھی، جس کا دعویٰ یہ تھا کہ اب ساری دنیا کے اوپر میری حکومت ہے اور ساری دنیا پر میں واحد طاقت ہوں اور دنیا میں میرا سکہ چلے گا۔ اس نے طالبان کے زیرِ قیادت حکومت پر حملہ کیا۔ ایسی حکومت پر حملہ کیا جس نے تین سال تک افغانستان کے اندر امن و امان اور انصاف کی مثالیں قائم کی تھیں۔اگرچہ ان میں کچھ غلو بھی تھا، اگرچہ بعض معاملات کے اندر دانشمندی اور حکمت کی بھی کمی تھی لیکن انہوں نے تین سال تک افغانستان کے اوپر بہترین حکومت کی۔ان کی اس حکومت کو صرف پاکستان، سعودی عرب اور امارات نے تسلیم کیا ہوا تھا، دنیا کے دیگر ممالک اور بڑی طاقتوں نے انہیں تسلیم نہیں کیاتھا، وہ سب کہتے تھے کہ ہم اس حکومت کو نہیں مانتے۔دنیا کے تسلیم نہ کرنے کے باوجود وہ بہترین انداز میں معاملات چلا رہے تھے۔ان کے پاس نہ ائیرفورس تھی، نہ ٹینک تھے نہ کوئی بہت بڑی طاقت تھی،لیکن وہ اپنی ایمانی فراست سے حکومت کر رہے تھے۔ مختلف حکومتوں نے منشیات یعنی ہیروئن کے کاروبار کو ختم کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا تھا لیکن کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی تھی ، اور طالبان کے دورِ حکومت میں ہیروئن کے سارے کھیت ختم کر دیے گئے اور افغانستان سے ہیروئن کا خاتمہ ہوگیا،عدل و انصاف کی مثالیں قائم ہوئیں اور ملک میں خوشحالی لوٹنے لگی۔
کمزور ملک پر امریکی حملہ اور ذلت کی انتہا
طالبان عمدہ انداز میں حکومت کررہے تھے کہ اس دوران ۲۰۰۱ء میں امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا۔اول تو یہ بات بھی بڑی ذلت کی تھی کہ امریکہ جیسی سپر پاور جو اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی طاقت سمجھتی تھی، وہ دنیا کے سب سے کمزور ملک پر حملہ کرے،ایسا ملک جس کے پاس ٹینک نہیں، جس کے پاس ہتھیار نہیں،جس کے پاس ٹیکنالوجی نہیں،جس کے پاس جنگی وسائل نہیں۔ اس پر ایک طاقتور ترین ملک حملہ کر رہا ہے اور حملہ کرتے ہوئے بھی اس طرح ڈر ڈر کر حملہ کر رہا ہے کہ تنہا حملہ کرنے کے بجائے دنیا کے ستائیس اٹھائیس ممالک سے فوجیں ساتھ ملا کر ان پر لشکر کشی کررہا ہے اور اکیلا حملہ کرنے کی ہمت نہیں ہورہی۔
ایک آدمی پہلوان ہے اور پہلوانی کے میدان میں خوب مہارت کا دعوے دار ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے جیسے کسی مضبوط شخص سے مقابلہ کرے،اگر وہ کسی کمزوراورمنحنی سے انسان پر حملہ کرتا ہے تو یہ بڑی ذلت کی بات ہے۔ امریکہ نے حملہ کرنے کے لیے ایک انتہائی کمزور ملک کا انتخاب کیا جو کہ بذات خود ذلت اور رسوائی کی بات ہے ۔ لیکن اس نے یہ ذلت کا اقدام کیا اور اس کے نتیجے میں اس نے ہزار ہا انسانوں کا خون بہایا،جس میں عورتیں بھی ، بچے بھی داخل ہیں، بوڑھے بھی داخل ہیں اور جوان بھی۔ ہسپتالوں میں مریضوں پر بمباری کی گئی،نہتے لوگوں پر بم برسائے گئے اور بستیاں کی بستیاں اجاڑ دی گئیں۔انسانی حقوق کے علمبرداروں نے اپنے اشتعال انگیز حملوں کے ذریعے انسانی حقوق کو اس طرح پامال کیا کہ جس کی مثال ملنی مشکل ہے۔
ایک طرف وقت کی سپر پاور اور دوسری طرف مقابلے پر وہ تھے کہ جن کے پاس ظاہری طور پر نہ ہتھیار تھے اور نہ ہتھیار حاصل کرنے کے وسائل، جن کی فوج تعداد میں بھی بہت کم تھی، نہ ان کے پاس ائیرفورس تھی اور نہ بمباری کی صلاحیت ، بس۔ان کے پاس صرف ایک چیز تھی اور وہ ہے قوتِ ایمانی،جو دنیا کی ہر قوت سے بڑھ کر ہے۔ دنیا دیکھتی رہی کہ اس قوتِ ایمانی کے بل بوتے پر انہوں نے بیس سال تک سپر طاقتوں کا مقابلہ کیا۔یہاں تک کہ ہزارہا ارب ڈالر خرچ کرنے کے بعد آخر کار امریکہ کو ہوش آیا کہ میں کس قسم کی عجیب قوم سے جاکر ٹکرا گیا ہوں اور میں نے کس قوم سے دشمنی ٹھان لی ہے؟ میں یہاں ہزارہا ارب لٹا چکا ہوں اور اپنے ہزاروں فوجی مروا چکا ہوں،لیکن میں اب تک کامیابی کی شکل نہیں دیکھ پا رہا،بالآخر اس نے ہتھیار ڈال دئیے اور امن کا معاہدہ کرلیا کہ ہم یہاں سے نکل جائیں گے۔
طالبا ن کی فتح سے بھارت کی رسوائی
امریکہ نکل گیا لیکن اپنی شاطرانہ چالوں سے باز نہیں آیا، وہ اپنے مہرے بٹھا کر گیا اور اس نے ان مہروں کو طاقت فراہم کی، اگر دیکھا جائے تو امریکہ نے افغان انتظامیہ کے پاس ڈھائی لاکھ فوج چھوڑی تھی جبکہ طالبان کی تعداد بمشکل چالیس ہزار تھی، لیکن اللہ تعالی نے دکھایا کہ اُدھر امریکہ نکلا اور اِدھر افغانستان کے عوام نے طالبان کے لیے اپنے شہروں کے دروازے کھول دیئے اور افغان فوجیوں نے ہتھیار ڈالنے شروع کر دئیے۔اس طرح اللہ تعالیٰ کی مدد ونصرت سے تیزی کے ساتھ افغانستان کے مختلف صوبے اور شہر طالبان کے قبضے میں آتے چلے گئے اور بالآخر مجاہدین کابل کے اس قصرِ صدارت تک پہنچ گئے، جہاں کبھی کوئی متکبر بیٹھ کر یہ کہا کرتا تھا کہ ہم کسی قیمت پر بھی طالبان کی حکومت گوارا نہیں کریں گے۔کابل کے اس قصرِ صدارت میں اللہ تعالی نے اِن داڑھی اور پگڑی والوں کو لے جا کر بٹھایا اور انہوں نے وہاں بیٹھ کر سورۂ فتح کی تلاوت کی؛
إِذَا جَائَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ جب اللہ کی مدد اور فتح آجائے۔
اللہ تبارک و تعالی نے اس فتح سے دنیا کو یہ منظر دکھا دیا کہ ایمان کی طاقت ہر قسم کی ٹیکنالوجی پر برتر ہے۔ طالبان کی فتح اور سپر پاور کی شکست سے امریکہ تو ذلیل و رسوا ہوا سو ہوا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ بھارت بھی ذلیل و نامراد ہوگیا۔بھارت کی خواہش یہ تھی کہ کسی طرح وہ افغانستان میں اپنے قدم جمائے اور پھر پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کرے اور اس کے مشرق اور مغرب دونوں میں پاکستان کے لیے فوجیں تیار ہوں۔ اس مقصد کے لیے اس نے ارب ہا ڈالر خرچ کئے، ڈیم بنائے، طیارے فراہم کیے اور کئی قسم کی منصوبہ بندیاں کیں، لیکن آج طالبان کی فتح پر وہ دل مسوس کر رہ گیا اور اس کی چیخیں نکل رہی ہیں۔
طالبان کے طرزِ عمل میں دانشمندی اور حکمت کی جھلک
الحمدللہ اس وقت طالبان کو صرف کابل پر ہی نہیں بلکہ پورے افغانستان پرکنٹرول حاصل ہوگیا ہے اور الحمدللہ وہ بڑی حکمت کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ طالبان کی پہلی حکومت میں ان کے بعض فیصلوں میں غلو تھا، بعض میں دانشمندی کی کمی تھی، مگر ایسا لگتا ہے کہ اس بیس سال کے عرصے میں انہوں نے اپنے آپ کو کافی تبدیل کر لیا ہے اور اس بات کا خود انہوں نے بھی اعتراف کیا ہے۔اب وہ جو اقدامات کررہے ہیں وہ حکمت و مصلحت سے بھرپور ہیں ، بڑی دور اندیشی سے کام کررہے ہیں۔ انہوں نے فتح حاصل کرتے ہی عام معافی کا اعلان کردیا، جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر اپنی جان کے دشمنوں اور خون کے پیاسوں کے لئے عام معافی کا اعلان کیا تھا، سنت کی اس پیروی کے نتیجے میں ان شاء اللہ دنیا و آخرت میں فلاح و صلاح کی امید ہے۔ نیز انہوں نے کہا کہ ہم کسی کے دشمن نہیں ہیں،اصل مقصود افغانستان میں اسلامی نظام کا قیام ہے،اس سے دنیا کو ایک بہترین اور مضبوط پیغام گیا ہے۔
مغربی دنیا کو بزعمِ خویش خواتین کے حقوق کی بڑی فکر ہے،حالانکہ وہ جب بمباری کرتے ہیں تو خواتین کی فکر نہیں ہوتی، بچوں کی اور انسانی حقوق کی فکر نہیں ہوتی، لیکن اگر کوئی اسلامی حکومت آئے تو اسلامی حکومت کا نام آتے ہی انہیں یہ فکر دامن گیر ہوجاتی ہے کہ اب خواتین کا کیا بنے گا؟ خواتین کے حقوق کا کیا ہو گا؟چنانچہ یہاں بھی مغربی دنیا کی طرف سے طالبان کے خلاف خواتین کے حقوق کا پروپیگنڈا کیا جارہا تھا، الحمدللہ انہوں نے اس پروپیگنڈے کا بھی جواب دیا اور کہا کہ اسلامی حدود میں رہتے ہوئے خواتین کو تمام حقوق دیئے جائیں گے، یہ سارے اعلانات الحمدللہ بہت خوش آئند ہیں۔
آزادیٔ اظہارِ رائے سے متعلق مغرب کی دوغلی پالیسی
یہ عجیب بات ہے کہ وہ مغربی طاقتیں جو نبی کریم سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف-نعوذباللہ- توہین آمیز کارٹونوں کو بھی آزادیٔ اظہارِ رائے کی بنیاد پر جواز فراہم کرتی نظر آتی ہیں، اب وہ کہہ رہی ہیں کہ جو طالبان کی حمایت کرے گا اس کا بائیکاٹ ہے۔ ان کی زیر نگرانی جوسوشل میڈیا ہے مثلاً فیس بک وغیرہ،، اس پر کوئی شخص طالبان کا لفظ نہیں ڈال سکتا، اگر آپ طالبان کا لفظ لکھیں گے تو آپ کا اکاونٹ بند کردیا جائے گا۔
اب کہاں گئی وہ آزادیٔ اظہارِ رائے جس کا ڈھنڈورا وہ دن رات پیٹتے رہتے ہیں؟ چونکہ انہیں مسلمانوں سے اور اسلام سے بغض ہے،اس لیے ان سے یہ فتح برداشت نہیں ہورہی، اسی وجہ سے انہوں نے افغانستان کے نوارب ڈالر جو امریکا کے بینکوں میں رکھے ہوئے تھے، وہ منجمد کر دیے ہیں اور کہا ہے کہ ہم وہ طالبان کے حوالے نہیں کریں گے۔ اللہ کے ان بندوں کو اس بات کی کوئی پروا نہیں ہے، جب اللہ تعالی چاہے گا -اور ان شاء اللہ چاہے گا- تو ان کی حکومت مستحکم ہوگی اور حکومت مستحکم ہونے کے نتیجے میں ان شاء اللہ ساری دنیا انہیں ایک حقیقت ماننے پر مجبور ہوگی۔
فتح و کامیابی کے بعد آئندہ کا لائحہ عمل
طالبان نے بیس سال کے دوران جتنی مشقت اور جتنی محنت اس جہاد میں اٹھائی ہے اور جو قربانیاں دی ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کے صلہ کے طور پر انہیں فتح نصیب فرمائی ہے۔ اب آگے افغانستان کی تعمیر و ترقی اور وہاں کے نظام کو اسلامی شریعت میں ڈھالنے کا مسئلہ درپیش ہے،یہ بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے اور طالبان کو اس کا عملی طور پر جواب دینا ہے۔اب نئی حکومت کے قیام کے بعد بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ اسی دانشمندی اور حکمت سے کام لیا جائے جس دانشمندی اور حکمت سے کابل فتح کیا گیا ہے اور اس کے اندر بھی الأہم فالأہم کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیا کو دکھایا جائے کہ اسلامی حکومت کیا ہوتی ہے؟ اسلامی ریاست کس طرح کی ہوتی ہے؟ اس میں انصاف کس طرح ہوتا ہے اور لوگوں کو حقوق کس طرح ملتے ہیں۔اگر تمام معاملات میں حکمت اور دانشمندی پیشِ نظر رہی تو ان شاء اللہ دنیا کے سامنے ایک عظیم مثال قائم ہوگی۔
استحکام اور کامیابی کیلئے بنیادی شرط
اب اصل بات یہ ہے کہ اس حکومت کو استحکام حاصل ہو، اور استحکام اور کامیابی کیلئے بنیادی شرط یہی ہے کہ ارباب حل وعقد حکمت کے ساتھ ایمان کے تقاضوں پر عمل پیرا ہوں۔ بزرگوں نے جہاں ایمان کی دعا مانگی ہے وہیں ساتھ میں حکمت کی دعا بھی دعا مانگی کہ اے اللہ! مسلمانوں کو ایمان بھی عطا فرما اور حکمت بھی عطا فرما۔اگر طالبان ایمان اور حکمت کے ساتھ چلیں گے تو کوئی ان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکے گا ۔ اللہ تعالی نے طالبان کی اس فتح سے قرآن کریم کی اس آیت کا عملی مشاہدہ کروادیا ہے کہ :
أَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ(آل عمران :۱۳۹) اگر تم واقعی مومن رہو تو تم ہی سربلند ہوگے ۔
آج اگرمسلمان ممالک سربلند نہیں ہیں، تو اس لئے نہیں ہیں کہ ایمان کی طاقت نہیں ہے، ایمان کی وہ قوت حاصل نہیں ہے جو کفر کے آگے ڈٹ جائے۔ جو ملک قرضوں کا شکار ہو وہ اپنے قرض دینے والے کے سامنے کیسے کھڑا ہوسکتا ہے؟ ایک دو کو چھوڑ کر تمام مسلم ممالک قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں اور اس کی وجہ سے ان یورپی طاقتوں کے آگے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالی دیگر مسلمان ممالک کو بھی وہ قوتِ ایمانی عطا فرمائے۔ ستر سال سے ہم کشمیر کا مسئلہ لیے بیٹھے ہیں، سترسال سے فلسطین کا مسئلہ لیئے بیٹھے ہیں، لیکن اس کا حل اس لیے نہیں نکلتا کہ ہم نے اپنے آپ کو ان عالمی طاقتوں کے آگے مجبور بنایا ہوا ہے۔ اللہ تعالی ہمیں اس سے نجات حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور طالبان کی فتح سے سبق لینے کی توفیق عطا فرمائے۔
طالبان کی اسلامی حکومت کے استحکام کے لئے دعاؤں کی ضرورت
آخری اور سب سے اہم بات یہ کہ اس وقت دعا کی بھی بڑی ضرورت ہے، سب مسلمانوں کو دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالی انہیں استحکام و استقامت عطا فرمائے اور صحیح معنی میں مثالی اسلامی حکومت قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ چاروں طرف سے ان کے اوپر بے دینوں کے حملے ہیں، اندرونی سازشیں بھی ہیں اور بیرونی حملے بھی۔وہ حملے جنگ کی شکل میں بھی ہو سکتے ہیں اور پروپگنڈے کی شکل میں بھی۔ اب تک جنگ کی مہم تھی اس میں اللہ تعالی نے انہیں ان کے ایمان، عزم و ہمت اور سرفروشی کی بدولت فتحِ مبین اورکامیابی عطا فرمائی اور بڑی طاقتوں کو ان کے مقابلے میں شکست اور ذلت سے دوچار کیا،، اب امن کی جو صورتحال آنے والی ہے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالی اس میں بھی قدم قدم پر ان کی دستگیری فرمائیں اور وہ حکمت و دانش مندی اور دینی جذبے کے ساتھ ’’الأہم فالأہم‘‘ کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے اس طرح شریعت کا نفاذ کریں کہ وہ دنیا کے لیے ایک مثال بن جائے۔
حضرت صدرِ جامعہ مدظلہم(مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب مدظلہم ) نے بھی ہدایت فرمائی ہے کہ نمازوں کے بعد جہری طور پر طالبان کے حق میں دعاؤں کا خصوصی اہتمام کیا جائے۔ مسجدوں میں بھی دعائیں ہوں اور اپنے طور پر بھی ہر نماز کے بعد دعا کی جائے۔جو شخص جس وقت بھی دعا کررہا ہو تو وہ انہیں بھی اپنی دعاوں میںص یاد رکھے۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح میدان کی جنگ میں انہیں سرخرو فرمایا ہے، دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں حکومت کے قیام میں بھی اسی طرح سرخرو فرمائے اور ان کے خلاف جو سازشیں ہورہی ہیں، اللہ تبارک و تعالیٰ ان سازشوں کا بھی خاتمہ فرمائے۔اللہ تعالی انہیں اس کی توفیق عطا فرمائے کہ نظم وضبط اور حکومت کے مراحل بھی خیر و خوبی کے ساتھ اپنی رضائے کامل کے مطابق انجام پاجائیں۔آمین یارب العلمین۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

(ماہنامہ البلاغ :ربیع الاول ۱۴۴۳ھ)